aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گھر تک

ممتاز شیریں

گھر تک

ممتاز شیریں

MORE BYممتاز شیریں

    کہانی کی کہانی

    اپنے گاؤں کو جاتے ہوئے ایک ایسے شخص کی کہانی جو راستہ بھٹک گیا ہے۔ اس کے ساتھ ایک معاون بھی ہے جسے وہ راستے میں کہانی سناتا ہے۔ راستہ تلاش کرتے شام ہو جاتی ہے تو انھیں دور سے مشعل جلنے اور عورتوں کے رونے کی آواز آتی ہے۔ قریب جانے پر پتہ چلتا ہے کہ رونے والی اس کی ماں اور بہن ہیں۔ وہ دونوں اس کے چھوٹے بھائی کے قبر کے پاس رو رہی ہیں، جس کے لیے وہ شہر سے کھلونے اور کپڑے لے کر آیا تھا۔

    ’’لنگا‘‘

    ’’سوامی‘‘

    ہم راستہ بھول گیے ہیں۔ لیکن میرا خیال ہے، ہمارا گاؤں یہاں سے قریب ہی ہے۔ ’’ادھر دیکھیے سوامی۔ سفید لکیر دکھائی دے رہی ہے نا، وہی ہوگی سڑک۔ نہیں وہ تو پانی بہہ رہا ہے۔ ایک چھوٹا سا نالا۔‘‘

    ’’ادھر آ، اس ٹیلے پر چڑھ کر دیکھیں۔ شاید کچھ پتہ چلے۔‘‘

    ہم چڑھنے لگے۔ لنگا بڑی مشکل سے چل رہا تھا۔ پاؤں کیچڑ میں دھنس جاتے۔ میں اس کے پیچھے گھوڑے پر ہولیا۔ اندھیرا ہوچلا تھا، ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔ گرمی کی چھٹیوں میں میں اپنے گاؤں جارہا تھا۔ بنگلور سے بس میں چلا۔ تحصیل پہنچ کر وہاں شیخ داد صاحب سے جن سے میری جان پہچان تھی، گھوڑا لیااور ان کے نوکر لنگا کو ساتھ لیے چلا تھا۔ لنگا راستے سے اچھی طرح واقف نہ تھا، لیکن میں ادھر سے کئی دفعہ گزرا ہوں۔ جانے کیسے ہم اس شام بھٹک گیے۔

    ’’لنگا‘‘

    ’’جی سوامی۔‘‘

    ’’سوٹ کیس کا بوجھ زیادہ تو نہیں معلوم ہو رہا؟‘‘

    ’’جی نہیں، بہت ہلکا ہے۔ یہ دیکھنے میں بڑا معلوم ہوتا ہے بس۔ کیا رکھا ہے سوامی اس میں؟‘‘

    ’’بس، چند کتابیں، دو جوڑے کپڑے، بھائی کے لیے زری کی ٹوپی اور جوتے، بہن کے لیے دو گڑیاں۔ بس یہی۔‘‘

    ’’بنگلور میں آپ کے دن رہے سوامی؟‘‘

    ’’پچھلی گرمیوں کے بعد اب لوٹ رہا ہوں۔ دیکھا ایک سال میں یہ جگہ اتنی بدل گئی ہے۔ سڑک کے دونوں طرف جھاڑیاں اور پودے بھی بدل گیے ہیں۔ اسی لیے تو سمجھ میں نہیں آرہا کس سمت جارہے ہیں۔‘‘

    ہم تینوں، لنگا، میں اورگھوڑا تھک کر چور ہو رہے تھے۔ کچھ دیر خاموشی سے یونہی چلتے رہے۔ مجھے گھر جلدی پہنچنے کی بے تابی تھی۔ میں ماں سے ملنا چاہتاتھا، ننھے کو دیکھنا چاہتا تھا جو ٹوپی کا انتظار کر رہا ہوگا۔ پتاجی کو سنانا چاہتا تھا کہ میں نے امتحان میں پرچے کتنے اچھے کیے ہیں اور بھی کتنی ساری باتیں تھیں جو گھر والوں کو سنانی تھیں۔

    ہم چڑھائی پر چڑھ کر چاروں طرف دیکھنے لگے لیکن بے سود۔ راستہ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ صحیح راستہ معلوم کرنے کی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے ہی میں نے سگریٹ جلانے کی کوشش کی۔ ہوا اتنی تیز تھی، دیا سلائی بجھ بجھ جاتی۔ آخر بڑی مشکل سے سگریٹ جلایا۔ سناٹا، ویرانی اور ہواکی سائیں سائیں۔ ہمیں ساری رات یہیں پڑا رہنا ہوگا، اس بیابان میں۔ گھوڑا جیسے میری بات سمجھ گیا، اس کے کان کھڑے ہوگئے، لنگا بولا، ’’ذرا سنیے سرکار۔‘‘ ہماری داہنی جانب کتے بھونکنے کی آواز آرہی تھی۔ میں نے کہا، چل اسی طرف چلیں، شائد کوئی گاؤں مل جائے۔ پیڑ پودوں کو دیکھتے چلیں، کچھ نہ کچھ نشان مل جائے گا۔ ہم ذرا داہنے کو مڑ کر اترنے لگے لیکن کتے کابھونکنا پھر سنائی نہ پڑا۔ لنگایکایک رک گیا۔

    ’’وہ۔۔۔ وہ دیکھیے ادھر۔‘‘ میں نے دیکھا جدھر اس نے اشارہ کیا تھا، ’’اوہ! وہ تو ایک پیڑ ہے۔ ڈرپوک کہیں کا، ادھر آجا۔ گھوڑے کے ساتھ چل، گھبرا نہیں، میں تجھے ایک کہانی سناؤں گا۔ تجھے پڑھنا لکھنا آتا ہے کیا؟‘‘

    ’’کچھ کچھ آتا ہے سوامی، اچھا سنائیے کہانی۔‘‘

    وہیں ایک مینڈھ پر ہم دونوں بیٹھ گیے۔ میں لنگا کو کہانی سنانے لگا۔ انگریزی فوج کاویری ندی پار کرکے کیسے آئی۔۔۔ کھڑی دوپہر میں انگریز قلعے پر چڑھ آئے اور اس پر اپنا جھنڈا چڑھا دیا۔۔۔ اس وقت سلطان ٹیپو، کھانے پر بیٹھے تھے۔ دو نوالے ہی لے پائے تھے کہ انگریزوں کی چڑھائی کی خبر سنی۔ کھانا چھوڑ اٹھ کھڑے ہوئے۔ گھوڑے پر سوار ہوکر قلعے کے پاس آئے۔۔۔ شام تک ڈٹ کر لڑتے رہے۔ سات گولیاں کھائیں پھر بھی جان باقی تھی۔ وہ لاشوں میں پڑے تھے۔ ایک گورے نے ٹیپو کا کمربند نکالنا چاہا۔ ٹیپو نے تلوار کاوار کیا۔ سپاہی نے گولی چلائی۔ اس گولی سے وہ ختم ہوگیے۔۔۔ پھر کہانی کابقیہ حصہ انگریزوں کا سلطان کے بیٹوں کو قید کرنا، لالٹین لے کر ٹیپو کی لاش تلاش کرنا۔۔۔ رات کی تاریکی میں سرنگا پٹم میں لوٹ مار۔۔۔ ہراساں عورتوں اور بچوں کا رات سڑکوں پر گزارنا، دوسری صبح ٹیپو کے جنازے کا جلوس، تجہیز و تکفین۔۔۔ اور پھر اس کے بعد جو کچھ ہوا۔۔۔‘‘

    ’’بڑی دکھ بھری کہانی ہے، سوامی، سچ کتنی دکھ بھری ہے۔‘‘

    ہم پھر چل پڑے۔ پیڑ کی طرف دیکھتے ہوئے لنگا نے زیر لب کہا، ’’سوامی، پیڑ کہیں ایسا ہوتا ہے؟‘‘ اور گھوڑے کے نزدیک آگیا۔ بات بھی یہ تھی کہ وہ پیڑ تاریکی میں کچھ بھیانک سامعلوم ہو رہا تھا۔ یہ سوچ کر لڑکا ڈرجائے گا، میں گھوڑے سے نیچے اترپڑا، ’’اس پیڑ کو میں اچھی طرح جانتا ہوں رے، ہمارا گاؤں یہاں سے بالکل قریب ہے۔ اسی پیڑ کو دیکھ کر میرا بھائی شامنا، ڈر گیا تھا۔‘‘

    ’’وہ اس طرف کیوں آنکلے تھے سرکار؟‘‘

    ’’پچھلی گرمیوں میں جب یہاں آیا تھا۔ شامنا اور میں شام میں یونہی گھومنے نکلے۔ اس وقت اس کی عمر صرف آٹھ سال کی تھی۔ وہ مجھے ایک کہانی سنا رہاتھا۔ وہی کہانی جو ابھی میں نے سنائی۔ وہ اتنے جوش و خروش میں ہوتا کہ کہانی سناتے اپنے آپ کو بھول جاتا ہے۔ شامنا بڑا ہوشیار ہے۔ بڑی اچھی کہانیاں سناتا ہے۔ سرنگا پٹم کی کہانی اسے بہت پسند ہے۔ وہ مجھے تنگ کیا کرتا ہے مجھے سرنگا پٹم لے چلو۔ اس دن بھی کہانی سنتے سنتے رات ہوگئی اور ہم راستہ بھول گیے اور بھٹک کر اسی پیڑ کے پاس پہنے۔ شامنا اس پیڑ کو دیکھ کر ڈر گیا پھر گھر پہنچتے ہی اس کو بخار چڑھ آیا اور تین دن تک نہ اترا۔‘‘

    ’’تب تو یہاں سے گاؤں جانے کا راستہ آپ کو معلوم ہوگا۔۔۔ یہاں سے گاؤں اور کتنی دور ہے؟‘‘

    ’’یہاں سے گاؤں تک کوئی سیدھی سڑک نہیں۔ ہمیں اندھیرے میں کھوج لگاتے جانا ہوگا۔ یہاں سے گاؤں کوئی آدھ میل ہوگا۔ یہ ہمارے گاؤں کاشمشان ہے۔‘‘

    ’’کیا کہا سوامی؟‘‘

    ارے توبہ، میں نے بھول کر شمشان کا ذکر اس کے سامنے کردیا۔ یہ چودہ سال کا لڑکا پھر ڈر جائے تو۔۔۔

    ’’بس اب گاؤں آہی گیا۔ یہاں سے ذرا داہنی طرف جانا ہے۔ یہ پیڑ ہمارے گاؤں کے پچھم میں ہے۔‘‘ بارش تھم گئی تھی لیکن تاریکی بڑھ گئی تھی۔ لنگا پیچھے کی طرف مڑ مڑ کر دیکھا جارہاتھا۔ میں جان گیا وہ ڈر گیا ہے۔ اس سے بات کرتے رہنا چاہیے، میں نے سوچا۔

    ’’لنگا!ادھر دیکھ‘‘ اس (میں؟) نے انگلی سے پیچھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’پھولوں سے ڈرتا ہے بزدل، ڈرپوک کہیں کا!‘‘

    ’’لیکن وہاں سوامی، دیکھیے ادھر۔۔۔‘‘ وہ اصرار کر رہا تھا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ مینڈہ کے پاس جہاں بیٹھ کرمیں نے لنگا کو کہانی سنائی تھی، روشنی نظر آئی اور دو شکلیں آمنے سامنے بیٹھی زمین کی طرف تک رہی تھیں۔ جھوٹ کیوں کہوں، مجھے بھی ذرا ڈر لگا۔

    ’’لنگا! تجھے کیا دکھائی پڑتا ہے وہاں؟‘‘

    ’’دیکھیے، ایک مشعل ہے اور اس کے پاس۔۔۔‘‘

    ’’ڈر مت، چل پاس جاکر دیکھیں۔‘‘

    ’’دیکھیے اس طرف، دیکھیے۔‘‘ وہ بے حد سہما ہوا تھا۔ روشنی اب حرکت کرتی نظر آئی۔ میں نے لنگا کاہاتھ تھام لیا اور دوسرے ہاتھ میں گھوڑے کی لگام پکڑ لی۔ میں دھیرے دھیرے مینڈھ کی طرف بڑھا۔ جوکچھ نظر آیا تھا وہ ہمارا وہم نہیں تھا۔ دو صورتیں واقعی تھیں اور وہ بات کر رہی تھیں۔ انسانی آواز سن کر ہم میں ہمت آئی اور ہم پیڑ کے پیچھے کھڑے ہو سننے لگے۔

    ’’ہائے میرے بچے، میرے لال، تو پیاس سے تڑپتا رہا۔ تیرے لیے دودھ لائی ہوں، پی لے۔۔۔ کیسا تھا میرا لال اور اب تو سوکھ کر کانٹا ہوگیا تھا۔۔۔ ہم سب کو چھوڑ کر کہاں چلاگیا تو۔۔۔ رو مت تو کیا کہنا چاہتا تھا، میرے بچے، تیرے ہونٹ پھڑپھڑاکر رہ گیے۔ تیری آنکھوں میں کتناکرب تھا! تیری آنکھیں کہتی تھیں تو ہمیں چھوڑنا نہیں چاہتا، ہائے، میرے بچے، اس جنگل بیابان میں اکیلا تن تنہا، ہائے بھگوان کیا یہ سب سچ ہے؟‘‘ ایک عورت کٹورے سے مینڈھ پر دودھ انڈیل کر زاروقطار رو رہی تھی، بین کر رہی تھی۔ ہم اس دھیمی روشنی میں پہچان سکتے تھے کہ وہاں دو عورتیں ہیں،، ان میں سے ایک چھوٹی لڑکی ہے۔ لڑکی رو رو کر کہہ رہی تھی، ’’ہم بھیا کو لکھ بھی نہ سکے۔ دو دن کے اندر ہی یہ کیا ہوگیا۔ ہائے۔ میں نے چند قدم آگے بڑھائے۔ اتنے میں ہمارے سامنے کی روشنی مینڈہ میں پہنچ گئی۔۔۔ پھر تیسری آواز آئی۔ بھرائی ہوئی لیکن قدرے کرخت۔

    ’’یہ کیا پاگل پن ہے کہ ایسی خوف ناک رات میں تم یہاں آئی ہو۔ کیا تمہارے رونے چلانے۔۔۔ سے وہ واپس آجائے گا؟‘‘ میں نے آواز پہچان لی۔ یہ میرے پتا جی کی آواز تھی۔

    ’’میرے بچے، تو اندھیرے سے ڈرتا تھا، اب اندھیرے میں اکیلا پڑا ہے۔ تو ایک بار اسی جگہ ڈر گیا تھا اور اب تو اکیلا اسی جگہ پڑا ہے، اب تجھے ڈر نہیں لگتا؟ میں تجھے اکیلا چھوڑ کر گھر کیسے جاؤں۔‘‘ میری ماں پھر پھوٹ پڑی۔

    ’’بھیا ٹوپی اور جوتے لائیں گے۔ اب انہیں سرنگاپٹم کا قصہ کون سنائے گا۔ بھیا کس کو سرنگا پٹم دکھائیں گے۔ شیامو، میرے شیامو، ہائے بھگوان۔‘‘ یہ میری بہنیں تھی۔ اس وقت مجھ پر کیا گزر رہی تھی میں بیان نہیں کرسکتا۔ ایسا لگتا تھا کائنات کی اس بے کراں وسعت میں، میں بالکل اکیلارہ گیا ہوں۔ لنگا میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچ رہاتھا، مجھے وہاں جانے سے روک رہا تھا۔ لیکن میں ہاتھ چھڑا کر مینڈہ کی طرف بھاگا۔ پتاجی نے لالٹین اوپر اٹھائی اور پوچھا، ’’ کون ہے؟‘‘

    مجھے دیکھتے ہی سب پھر پھوٹ پڑے۔ نئے سرے سے کرب ان کے سینوں میں امنڈ آیا۔ میں بہت دیر تک شامنا کی قبر پر آنسو بہاتا رہا۔ میں نے سوٹ کیس سے ٹوپی اور جوتے نکالے اور انہیں شامنا کی قبر پر رکھ دیا۔ شامنا نے ایک بار پوچھا تھا، ’’بھیا یہ پیڑ پودے جنگل میں اکیلے کیسے رہتے ہیں؟‘‘ میراجی چاہا ساری رات یہیں گزار دوں، شامنا کو اکیلا نہ چھوڑوں۔ ہم بہت دیر تک وہاں رہے۔ شامنا کی باتیں کرتے رہے۔ اس کی بیماری، اس کی موت۔۔۔ وہ ہمارے گھر کا ہیرا تھا، سب گاؤں والوں کو آنکھوں کا تارا تھا۔ سب کا چہیتا، ذہین، عقل مند، اب اس کے بغیر زندگی بے کیف تھی۔

    پتا جی نے آہ بھر کر کہا، ’’ایک نہ ایک دن ہم سب کو یہیں آنا ہوگا۔‘‘

    ہوا کا ایک جھونکا جیسے اپنے ساتھ اس کا جواب لایا، ’’ہاں۔‘‘

    میرا بھائی اسی جگہ جہاں وہ ڈر گیا تھا، آج اکیلا، ابدی نیند سو رہا تھا۔ اسے چھوڑ کر ہم گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ جی ہاں گھر کی طرف؟ لیکن ہماراگھر ہے کون سا؟

    مأخذ:

    خواتین افسانہ نگار (Pg. 44)

      • ناشر: نیاز احمد
      • سن اشاعت: 1996

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے