ڈیڑھ روپیہ
کہانی کی کہانی
’’یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو نسلی برتری میں یقین کرتا ہے۔ وہ ہر کسی کو حقیر سمجھتا ہے اور محنت مزدوری کرنے وا لوں سے نفرت کرتا ہے۔ اس کی بلڈنگ میں صفائی کرنے والا ایک بھنگی ہے، جسے وہ نالی کی چھننی لانے کے لیے ڈیڑھ روپیہ دیتا ہے۔ کسی وجہ سے وہ بھنگی چھننی نہیں لا پاتا ہے، تو وہ شخص اسے سب لوگوں کے سامنے ذلیل کرتا ہے۔ اگلے دن بھنگی اسے ڈیڑھ روپیہ لوٹا دیتا ہے تو اسے اس ڈیڑھ روپیے سے بھی کراہت ہونے لگتی ہے۔‘‘
جس عمارت کا میں ذکر کر رہا ہوں وہ ظاہری طور پر بڑی با وقار، سنجیدہ اور بارعب دکھائی دیتی ہے لیکن اندر سے بڑی گندی اور غلیظ ہے۔ مجھے یہاں رہتے ہوئے کافی عرصہ ہو گیا ہے اس لئے میں اس کے حدود اربعہ سے اچھی طرح واقف ہوں۔ گراؤنڈ فلور میں دن کو بھی اندھیرا رہتا ہے، یہاں سورج کبھی نہیں چڑھتا، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ایک مسلسل رات ہے جو دن رات چھائی رہتی ہے۔
گراؤنڈ فلور کو مختلف کمروں میں تقسیم کیا گیا ہے، کمروں کے باہر غلاظت کے ڈھیر لگے رہتے ہیں اور لوگ ان کی غلاظت کے قریب چارپائیاں بچھا کر سوتے ہیں، کوئی دن کو سوتا ہے اور رات بھر کام کرتا ہے اور کوئی رات بھر سوتا ہے اور دن بھر کام کرتا ہے، بہر حال چارپائیاں اپنی جگہ پر بچھی رہتی ہیں اور لوگ مزے سے ان پر سوتے ہیں اور خراٹے لیتے ہیں۔ گراؤنڈ فلور میں رہنے والوں کی اکثریت نچلے طبقے کی ہے اور مجھے اس قسم کے لوگوں سے سخت نفرت ہے۔ اپنے خاصے کشادہ کمروں کو انھوں نے گندی چالوں میں تبدیل کر دیا ہے، ایک ایک کمرے میں تین تین خاندان رہتے ہیں، وہیں سوتے ہیں، روتے ہیں، ہنستے ہیں۔ شادیاں کرتے ہیں اور پھر ہر سال بچّوں کی تعداد میں اضافہ بھی کرتے ہیں، یہ بچے ننگ دھڑنگ اپنے کمروں کے دروازوں سے باہر عین سڑک کے بیچ، دن بھر کھیلتے ہیں اور آنے جانے والی موٹروں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ان کی ایک آدھ ٹانگ یا ہاتھ کُچل دیں تاکہ باقی عمر بھی چین آرام سے نہ کٹ سکے۔
میں اس عمارت کے پہلے فلور پہ رہتا ہوں، یہ فلور گراؤنڈ سے کافی صاف ستھرا ہے، ایک کمرے میں صرف ایک پریوار رہتا ہے عورتیں اور مرد اور بچے مقابلتاً صاف اور اجلے کپڑے پہنتے ہیں۔ اندر کی دیواریں کافی ستھری ہیں اور پلستر سے کافی آراستہ نظر آتی ہیں۔ لیکن کمروں کے باہر کی دیواریں کافی گندی اور غلیظ ہیں۔ لوگ اپنے اپنے کمروں میں سوتے ہیں، دن کو بھی رات کو بھی۔ دوسرے فلور کے لوگ پہلے فلور اور گراؤنڈ فلور کے رہنے والوں سے زیادہ خوشحال اور فارغ البال نظر آتے ہیں۔ گو کمروں کی لمبائی چوڑائی میں کوئی فرق نہیں ہے، لیکن صفائی اور رکھ رکھاؤ اور رہنے سہنے کے طریقوں نے انھیں الگ حیثیت بخش دی ہے، سیکنڈ فلور کلاس میں رہنے والوں کی لڑکیاں اسکول اور کالجوں میں پڑھتی ہیں۔ بھڑکیلی ساڑیاں اور رنگین فراک پہنتی ہیں، چہروں پر شگفتگی اور شادابی ہے اور کافی ا سمارٹ اور صحت مند نظر آتی ہیں۔ بلڈنگ کے پھیلے ہوئے اندھیرے میں اجالے کا کام دیتی ہیں۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا، مجھے افلاس کے مارے ہوئے لوگوں سے سخت نفرت ہے۔ ان کے ساتھ رہ کر بڑی ذہنی کوفت ہوتی ہے۔ میرے دوست رام دیال جو مزدوروں کے لیڈر ہیں اور انقلابی بھی ہیں، وہ اکثر کہا کرتے ہیں کہ مزدوروں کی اگوائی میں ایک نیا ہندوستان جنم لےگا۔ میں اس گراؤنڈ فلور کے رہنے والوں کی طرف اشارہ کرکے بتانے کی کوشش کرتا ہوں کہ بھئی یہ تیرے نیتا ہیں پہلے ان کی طرف دیکھ لو پھر انقلاب کی بات کرنا، وہ اکثر میری بات سن کر ہنس دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں، میاں تم بورژوا ہو بورژوا، تمھارے دل میں عام آدمیوں کے لئے نفرت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ دراصل یہ نفرت میرے دل میں یوں ہی جا گزیں نہ ہوئی تھی اس کی بنیاد بڑی پائیدار ہے۔ میں قصے کو لمبا کرنا نہیں چاہتا۔
اس لئے یہی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے ایک نوکر کو بچپن سے لےکر جوانی تک پالا اور ایک دن میں نے اسے ڈھائی سو روپے کا چیک کیش کرانے کے لئے بینک میں بھیجا مگر اس دن کے بعد سے وہ کبھی واپس نہ آیا۔ میں اس سے صرف یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ بھئی میں نے تم سے کیا بدسلوکی کی تھی جس کے عوض تم نے مجھے یہ سزا دی۔ تم نے میری شرافت اور انسانیت کا یہی صلہ دیا؟ اس نوکر کے رفو چکر ہونے کے بعد میں نے ایک اور بچے کو نوکر رکھا جس کی عمر آٹھ سال سے زائد نہ تھی۔ چھ سال رہنے کے بعد اب اس نے اپنی خاصی صحت بنا لی، تو ایک دن مجھ سے کہنے لگا، میں آپ کی نوکری نہیں کروں گا، آج بی بی جی نے میری بےعزتی کی ہے، میں بازار جا کر چوڑیوں کا دھندہ کرلوں گا، محنت مزدوری کر لوں گا، دیسی شراب کا بیوپار کر لوں گا، لیکن آپ کی نوکری نہیں کروں گا۔ یہ کہہ کر وہ میرے گھر سے باہر نکل گیا۔
ویسے بھی مجھے غریب، مفلوک الحال اور قلاش آدمیوں سے ایک چڑسی ہے، جب کوئی انسان میرے پاس آکے چند روپوں کے لئے گڑگڑاتا ہے اور اپنی بھوک، بےبسی و بےروزگاری کا رونا روتا ہے تو مجھے بے حد مسرت ہوتی ہے۔ میں اسے اس حالت میں دیکھ کر کتنا خوش ہوتا ہوں اس کا آپ اندازہ نہیں کر سکتے۔ دل ہی دل میں کہتا ہوں اور انقلاب لاؤ، یہ لوگ دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہی رہیں گے تو اچھی بات ہے۔
اس بلڈنگ میں بڑے دلچسپ لوگ آتے ہیں، ایک صاحب مہینے میں صرف ایک بار آتے ہیں۔ وہ مالک مکان کے منشی ہیں اور کرایہ داروں سے صرف کرایہ وصول کرتے ہیں، آتے ہی کنڈی اس زور سے کھٹ کھٹائیں گے جیسے کہیں آگ لگ گئی ہو، کچھ بھی کہیے کرایہ وصول کئے بغیر واپس نہ جائیں گے۔ اس منشی کے علاوہ اس عمارت میں بھنگی کا کام دو نوجوان چھوکرے کرتے ہیں، ان کے ساتھ ان کی بوڑھی ماں بھی آتی، دونوں لڑکے تقریباً ہر روز مجھ سے ایک یادو آنے چائے پینے کے لئے مانگ کر لے جاتے۔ وہ نہا یت ہی مسکین صورت بنائے ہوئے میرے سامنے آتے۔ جھجھک اور شرم کے لبادے کو اوڑھ کر وہ مجھ سے مخاطب ہوتے۔ یہ بچّے ہمیشہ ڈرے ڈرے اور سہمے سہمے سے رہتے۔ ان کے پھٹے ہوئے کپڑوں اور ان کے میلے اور گندے چہروں اور ان کے ننگے پاؤں کو دیکھ کر حقارت سے منہ موڑ لیتا، ان کی میلی کچیلی ہتھیلیوں پر جو متواتر جھاڑو دینے سے کافی کھردری ہوگئیں تھیں، ازراہ کرم ایک دو آنے رکھ دیتا، ان لوگوں کا یہی حشر ہونا چاہیے، میں زیرلب کہتا۔
دراصل میں ان لوگوں میں سے ہوں جو دوسروں کو اچھی حالت میں دیکھنا پسند نہیں کرتے ہیں، میں خود ایک پرسکون، خوش حال زندگی بسر کرنا چاہتا ہوں لیکن دوسروں کو محنت مزدوری کرتے دیکھ کر مجھے بےحد مسرت ہوتی ہے، میں ہمیشہ یہ چاہتا ہوں کہ یہ لوگ میرے دست نگر رہیں، یہ لوگ میرے آگے ہاتھ پھیلائیں، گڑگڑائیں، ناک رگڑیں اپنے غم والم کا قصہ سنائیں اور میں ان پر ترس کھا کر ان کی مدد کرتا رہوں۔
کچھ دن اسی طرح گزر گئے، ایک دن یہ معلوم ہوا کہ ان دو بھنگیوں کی جگہ ایک نیا بھنگی مامور کیا گیا ہے، دراصل بھنگی اور سفیر کبھی ایک جگہ نہیں رہتے، اکثر اپنی جگہیں بدلتے رہتے ہیں۔ ابھی تک میں نے اس نئے بھنگی کو نہیں دیکھا تھا۔ ایک دن میرا بھی اس نئے بھنگی سے آمنا سامنا ہو گیا، وہ واقعی عجوبہ تھا۔ آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، پلکیں آپس میں چپکی ہوئیں اور چہرے پر ایک عجیب وحشت طاری تھی۔ اس ملاقات کے بعد جب کبھی میں نے اسے دیکھا، ہمیشہ کام کرتے ہوئے نظر آیا، یہ واقعی حیرت کا مقام تھا، بھنگی اور اپنے کام کا اتنا پابند اور پھر اتنا سنجیدہ، ایک دن اچانک میری نگاہ اس کے پاؤں پر چلی گئی۔
بڑے بھدے اور بے ڈھنگے پاؤں تھے۔ پاؤں کا انگوٹھا راس کماری کی طرح آگے بڑھا ہوا تھا، باقی انگلیاں ٹیڑھی میڑھی، اتنے لمبے اور بےڈول پاؤں میں نے اپنی عمر میں بہت کم دیکھے تھے۔ جو لوگ جسمانی محنت زیادہ کرتے ہیں ان کے ہاتھ اور پاؤں اکثر بے ڈول اور بے ڈھنگے ہوتے ہیں، انسان تو ان سے انتقام لیتا ہی ہے مگر قدرت بھی ان سے انتقام لینے سے باز نہیں آتی۔
پہلی ہی ملاقات میں مجھے اس بھنگی سے نفرت سی ہوگئی، ویسے عام آدمیوں سے نفرت میرا ذاتی مشغلہ ہے اور یہی نفرت میری انا کو ابھارتی ہے۔ میرے لئے بھنگی کا توہین آمیز رویہ نا قابل برداشت تھا، یعنی جب کبھی میں اس کے پاس سے گزرتا وہ میری طرف آنکھ اٹھا کے بھی نہ دیکھتا، نہ کبھی سلام کرتا، نہ نگاہ سے نگاہ ملاتا، نہ آداب بجا لاتا، عجیب چغد ہے۔ تعظیم و تکریم جس پر میرا آبائی حق ہے، اسے بھی نظر انداز کر رہا ہے، میری باوقار شخصیت سے بالکل بیگانہ تھا، نہ جانے اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے، دو کوڑی کا بھنگی اور اکڑ فوں اتنی۔
سچ ہے نیچ ذات کے لوگوں کو سر پر نہیں چڑھانا چاہیے، خیر غریب انسان ہے، کہاں جائےگا، بکرے کی ماں کب تک خیر منائےگی، کبھی نہ کبھی یہ میرے آگے ہاتھ پھیلائےگا، جب گھر میں بھوک بڑھےگی تب۔ لیکن صاحب اسے کام کرتے ہوئے ایک سال گزر گیا، ہولی آئی وہ بھنگی میرے پاس نہ آیا۔ پھر عید آئی جب بھی وہ بھنگی میرے قریب نہ آیا اور اسی طرح دسہرہ، دیوالی، کرسمس آئی اور چلی گئی لیکن اس دو ٹکے کے بھنگی نے میرے آگے کبھی ہاتھ نہ پھیلائے، ِمیرے ہی آگے کیا، بلڈنگ کے کسی بھی آدمی کے آگے اس نے دستِ سوال دراز نہ کیا، ایسا سر پھرا بھنگی میں نے کبھی نہ دیکھا تھا، ضرور کوئی انقلابی ہوگا، میں نے سوچا۔
اس کی بے جا اکڑ فوں، خود سری، خود اعتمادی اور نا معقول انا کو دیکھ کر میں آپے سے باہر ہوگیا، میں انا کو صرف اپنی ملکیت سمجھتا ہوں، دوسروں کی انا کو نظر انداز کرنا۔ میں نے کافی غور و فکر کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ کچھ دیر اور انتظار کیا جائے۔ شکار اگر خود جال میں پھنس جائے جبھی لطف ہے، ویسے غریب اور مفلس لوگوں سے ٹکر لینے سے کیا فائدہ؟ بڑوں کا مقولہ ہے کہ ہمیشہ ان سے ٹکر لو جو اپنے سے بڑے ہوں، میں نے سوچا خود کسی نہ کسی مصیبت میں گرفتار ہو جائےگا، مجھ سے بچ کر شاید چلا جائے لیکن اس زندگی کی بیہودگیوں، شکستوں اور ناکامیوں سے بچ کر کہاں جائےگا؟
اور وہی ہوا جس کا مجھے انتظار تھا، میرے کمرے کے ساتھ والا غسل خانہ کافی گندا ہو گیا، گندا تو پہلے ہی تھا، لیکن اب زیادہ گندا ہو گیا، یہ غسل خانہ بھی کیا تھا، بیک وقت برتن مانجھنے، کپڑے دھونے، نہانے اور گانے کا کام اس غسل خانے سے لیا جاتا۔ برتنوں کی ساری اور صبح شام کی بچھی ہوئی غلاظت اس موری میں ڈالی جاتی، آہستہ آہستہ اس کا پائپ راکھ سے بھرنے لگا، پھر ایک دن سارا غسل خانہ پانی سے بھر گیا، کیونکہ موری مٹّی اور راکھ سے لبالب بھر گئی اور اب پانی کے نکاس کے لئے کوئی راستہ نہ تھا۔ جب اس مسئلے پر پہلے فلور کے رہنے والوں نے بحث کی تو پتہ چلا کہ موری کے اوپر کی چھننی غائب ہے، اگر بازار سے چھننی خرید کر فوری طور پر لگادی جائے تو پائپ میں مٹی نہ بھرے گی اور اس طرح غسل خانہ صاف اور ستھرا رہےگا۔
اس گھٹیا کام کو کون کرے؟ گھٹیا کام کو گھٹیا آدمی ہی کر سکتا ہے، ہم تو بڑے آدمی ٹھہرے، اس لئے میں اس بھنگی کی طرف رجوع ہوا، اگلے دن میں نے بھنگی سے کہا، جس کے نام سے میں آج تک نا واقف تھا اور نہ جاننے کی کبھی کوشش کی، صرف بھنگی پکارکر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتا تھا۔ میں نے کہا، اے ذرا اس پائپ میں سے مٹّی نکال دے تاکہ غسل خانہ مٹی سے نہ بھرے۔ اس نے بڑی لاپرواہی سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا، ’’ساری بلڈنگ کے برتن اس غسل خانہ میں صاف کئے جاتے ہیں، یہ غسل خانہ پانی سے نہ بھرے تو کیا ہو، جب تک چھننی نہ آئے گی غسل خانہ صاف نہ ہو سکےگا‘‘ یہ کہہ کر وہ پھر جھاڑو دینے لگا۔
’’چھننی کون لائےگا؟‘‘ میں نے با رعب لہجے میں کہا۔
’’آپ پیسے دیجئے میں چور بازار سے لا دوں گا۔‘‘ اس نے میری طرف لاپرواہی سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’کتنے روپے؟‘‘
’’ڈیڑھ روپیہ۔‘‘
میں نے فوراً ڈیڑھ روپیہ اپنی قمیض کی جیب سے نکالا اور اس کی سیاہ اور کھردری ہتھیلی پر رکھ دیا۔ تین دن گزر گئے چھننی نہ آئی۔ چوتھے دن میں نے بھنگی سے پوچھا کہ ’’چھننی کیوں نہیں لائے؟‘‘
’’کل لاؤں گا آج بھول گیا۔‘‘ اس کی آنکھیں ندامت سے جھک گئیں اور میری طرف نہ دیکھتے ہوئے آگے بڑھ گیا، ایک ہفتہ اور گزر گیا مگر بھنگی چھننی نہیں لایا، اب یہ بھنگی صبح ہی آتا ہے اور میرے جاگنے سے پہلے غسل خانہ اور باقی جگہ کو صاف کر کے چلا جاتا ہے، اس کی حرکتوں سے صاف عیاں تھا کہ بھنگی میرا ڈیڑھ روپیہ ہضم کر گیا۔ لاشعور میں جو تھوڑی بہت خفیہ عقیدت مجھے نچلے طبقے سے تھی وہ بھی جاتی رہی، دراصل بھنگی کی اس لغزش پر میں خوش ضرور ہوا، مگر ساتھ ہی غصے کی ایک لہر ابھر آئی، بڑی اکڑ فوں دکھاتا تھا، کہاں جائے گا، ہمارے مزدوروں کے نیتا، شری رام دیال سوشلسٹ سماج کے کرتا دھرتا، ذرا اپنے ساتھیوں پر نگاہ ڈالیں، جی ہاں نچلے طبقے کا اخلاق بڑا بلند ہوتا ہے متوسط طبقے کے لوگ بے پیندے کے لوٹے ہیں جدھر پانی بہتے دیکھا بہہ نکلے۔
اجی ذرا اپنے ساتھیوں پر تو نگاہ ڈالئے، کیا یہی لوگ قوم کے معمار بنیں گے؟ کیا سمجھ رکھا ہے اس نے، میرا ڈیڑھ روپیہ ہضم کر لیا اور ڈکار تک نہ لی، میں اسے بالکل معاف نہیں کروں گا، کہتا تھا کہ چور بازار سے چھننی خرید کر لاؤں گا۔ ارے تو خود چور ہے، تو چور بازار سے کیا لائے گا، دو ہفتہ سے میرا منہ نہیں دیکھا چھپا پھر رہا ہے۔ محنت کش طبقہ، عوامی قدریں، نیا سماج، اخوت، جدلیاتی مارکسزم مائی فٹ، سب کچھ ڈھونگ، اصل کرتوت اور کردار دیکھ لیا نا آپ نے، میرا ڈیڑھ روپیہ ہضم کر گیا، میں اس کی پول کھول کر رکھ دوں گا۔
ویسے میں بھی دوستوں سے روپے ادھار لیتا ہوں اور انھیں واپس نہیں کرتا، مگر میری بات اور ہے۔ مجھ میں اور بھنگی میں کافی فرق ہے، میں نے کئی بار رشتہ داروں سے جھوٹ بول کر روپے ادھار لیے اور پھر کبھی واپس نہ کیے۔ میرے دوست مجھ سے بیس تیس روپے مانگ کر لے جاتے ہیں اور پھر کبھی واپس نہیں کرتے، دوستوں کی بات اور ہے، وہ روپے واپس نہیں کرتے تو کم سے کم چاپلوسی تو کرتے ہیں، لیکن اس شخص کو کوئی حق نہیں کہ وہ میرے ڈیڑھ روپے پر ہاتھ صاف کردے، کیا سمجھ رکھا ہے اس نے؟
اگلی صبح وہ مجھے غسل خانہ صاف کرتے ہوئے مل گیا، میں لپک کر اس کے قریب پہنچا جیسے باز اپنے شکار پر جھپٹتا ہے۔
’’کیا ہوا۔ اس چھننی کا؟‘‘ میں نے کڑک کر کہا۔
’’جی۔ منشی نے کہا تھا کہ تمھیں لانے کی ضرورت نہیں، میں لا دوں گا، اسی لئے میں چور بازار نہیں گیا۔‘‘
’’ارے کیوں جھوٹ بولتے ہو۔‘‘ میں غصے سے لال پیلا ہو گیا، ’’تم نے کہا تھا کہ تم خرید کر لاؤگے۔ میں نے تمھیں روپے دیے، ڈیڑھ روپے تمھاری گندی ہتھیلی پر رکھے اور تم ہفتے سے چھننی لا رہے ہو، بددیانتی کیوں کر رہے ہو، مجھے الو بنا رہے ہو، صاف صاف کیوں نہیں کہہ دیتے کہ تمھیں روپوں کی ضرورت تھی اور تم نے روپے خرچ کر لئے، کیا میں ہی اس بلڈنگ میں دھوکے بازی اور فریب کاری کے لئے رہ گیاہوں، سن! اگر کل تک چھننی لاکر نہ دی تو میں پولیں کے حوالے کر دوں گا، نوکری سے برخاست کراؤں گا سمجھے۔‘‘ میں غرور اور فتح مندی کے لہجے میں بولا۔
’’میں کل چھننی لاؤں گا آپ اونچی آواز میں بات نہ کیجئے، میں بہرہ نہیں ہوں۔‘‘ وہ جھاڑو سے زمین صاف کرتے ہوئے بولا۔
’’دیکھئے جناب!‘‘ میں نے محلے والوں کی طرف دیکھکر کہا، اس عرصہ میں کافی لوگ میرے ارد گرد جمع ہو گئے تھے اور میری باوقار شخصیت سے مرعوب ہو رہے تھے اور بڑی حقارت سے اس بھنگی کو دیکھ رہے تھے۔ ’’جناب آنکھیں کھول کر دیکھئے اور کان کھول کر سنئے۔ اسے کہتے ہیں الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے، روپے میں دوں اور اونچی آواز میں بات بھی نہ کروں، یعنی میں آپ کے کان میں رس ٹپکاؤں، آپ ہی فیصلہ کیجئے! قصور وار کون ہے؟ خیر میں کل تک کی مہلت دیتا ہوں۔‘‘
اس نے سب کچھ سنا اور کچھ نہیں بولا، خاموشی سے آہستہ آہستہ جھاڑو دیتا رہا۔ وہ زمین کو یوں سنوار رہا تھا جیسے شاعر اپنی غزل کو سنوارتا ہے یا کوئی افسانہ نگار اپنے قلم سے ایک نیا شاہکار لکھتا ہے، میں نے سوچا یہ بھنگی نہیں کوئی شاعر ہے، افسانہ نگار ہے۔ اسے اپنے کام سے اتنی لگن کیوں ہے، یہ اتنا کم گو متین اور سنجیدہ کیوں ہے یہ سوچتا ہوا بڑبڑاتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا۔
کمرے میں میرے سوا اور کوئی نہیں تھا، یہ بھی اچھا ہوا، میری اہلیہ محترمہ شاید کسی دوسرے کمرے میں برج کھیل رہی تھیں، میں نے کھلی فضا دیکھ کر خود بخود بڑ بڑانا شروع کر دیا، آج کل کسی پر اعتبار کرنا گناہ عظیم ہے۔ مزدور دیانت دار رہتے ہیں، کیا کہنے، شریف ہوتے ہیں مگر اپنا تجربہ تو الٹ ہی ہے اپنے قول و فعل کے پکے ہوتے ہیں، کسے انکار ہے۔ اخلاق کے پاسبان ہوتے ہیں، دیکھ لیاان کا اخلاق۔ میں سوچتے سوچتے اور بولتے بولتے کانپ گیا، جی میں بلند آواز سے باتیں کر رہا تھا اور آپ بڑے نرم اور شیریں لہجے میں مجھ سے ہم کلام تھے، جیسے آپ کسی کالج کے پرنسپل ہیں، کہاں ہیں وہ رام دیال آزادی اور اخوت کے پرستار! میرے سامنے نہ آئیں، کل چھننی نہیں لایا تو سالے کو جان سے مار دوں گا، کتنی سنجیدگی سے بات کرتا ہے، جیسے آپ کرسی صدارت پر تشریف فرما ہیں۔
سارے محلے کے سامنے بے عزتی کر دوں گا اور بتادوں گا کہ ایک شریف انسان کے ساتھ کیسے دھوکا دیا جاتا ہے، میں اس قسم کی توہین برداشت نہیں کر سکتا، بلڈنگ کے بھنگی، میرا کہا نہ مانیں اور مجھے الو بنا دیں، کیسا زمانہ ہے۔ ارے بڑے آدمیوں کو تو بددیانتی کرنے اور دوسروں کو الو بنانے کا حق ہے لیکن چھوٹے لوگوں کو مفلس اور نادار انسان کو، بیمار مدقوق لوگوں کو بددیانتی کرنے کا کوئی حق نہیں۔ میں غرایا۔ میں اس بے عزّتی کا بدلہ لوں گا۔ میرا خون کھول گیا۔ میں جانتا ہوں، وہ کل سے اس بلڈنگ میں نہیں آئےگا، اس کا کیا ہے کسی دوسری بلڈنگ میں جھاڑو دینے چلا جائےگا، مگر میں اس بدمعاش کا پیچھا کروں گا، میں تا قیامت اسے نہیں چھوڑوں گا، میرا ڈیڑھ روپیہ جناب، یہ ڈیڑھ روپے کی بات نہیں، یہ میری عزّت، شرافت، انا اور شخصیت کا سوال ہے، یہ ڈیڑھ روپیہ ڈیڑھ لاکھ روپے کے برابر ہے، یہ میرے گاڑھے پسینے کی کمائی ہے، میں کسی کو امانت میں خیانت کرنے کا حق نہیں دیتا اور خاص کر اس بھنگی کو۔ میں ٹہلتا ہوا بولتا گیا اور میرا خون کھولتا گیا، اچھا ہوا، اس وقت کمرے میں میرے سوا اور کوئی نہ تھا، نہیں تو اس قسم کے جنونی آدمیوں کو سیدھا پاگل خانہ بھیج دیا جاتا ہے۔
دوسرے دن وہ سیڑھیاں صاف کر رہا تھا۔ اس نے مجھے دیکھا اور اس کے ہاتھ سے جھاڑو گر گیا، گناہ کا احساس، بیچارہ ڈر گیا۔ میری شخصیت کی پر چھائیں کا اثر ہونے لگا تھا، سیڑھیاں اتر کر میرے قریب آیا اور کہنے لگا کہ یہ لیجئے اپنا ڈیڑھ روپیہ کون اس لپھڑے میں پڑے، منشی کہتا تھا میں خرید کر لاؤں گا، تم نہ لانا اس لئے میں چھننی بازار سے خرید کر نہ لایا، آپ مجھے جھوٹا اور مکار سمجھتے ہوں گے، کوئی بات نہیں۔ اس نے اپنی میلی قمیض کی جیب سے اپنا میلا ہاتھ ڈالا اور میری شفاف ہتھیلی پر ڈیڑھ روپیہ رکھ دیا، جب یہ ڈیڑھ روپیہ میری ہتھیلی پر گرا تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی سانپ نے ڈنک مارا ہو۔ ایک لمحہ کے لئے سارا جسم لرز گیا، میری بنائی ہوئی قدروں کا محل دھڑام سے نیچے گرا، میں اس وقت اس بھنگی کے سامنے اتنا چھوٹا اور حقیر سا ہو گیا تھا کہ جی چاہتا تھا کہ زمین میں دھنس جاؤں۔
زندگی میں پہلی بار کسی معمولی آدمی نے مجھے شکست کا احساس دلایا تھا، میں بخشش کے طور پر اسے ڈیڑھ روپیہ دینا چاہتا تھا لیکن اس پر خلوص باوقار شخصیت دیانت دار شخصیت کے سامنے مجھ میں اتنی جرات نہ ہوئی کہ میں اسے بخشش دینے کی کوشش کرتا۔ اگر اس نے نا کر دی تو میرا حال کیا ہوگا، میں اپنی خفت اور ندامت کو چھپانے کے لئے سیدھا اپنی بیوی کے پاس پہنچا اور اسے یہ المناک خبر سنائی۔ وہ بھی یہ خبر سننے کے لئے تیار نہ تھی، ایک لمحہ کے لئے بھونچکی سی رہ گئی۔
’’لو یہ ڈیڑھ روپیہ بھنگی نے واپس کیا ہے۔‘‘
’’نہ، اسے اپنے ہی پاس رکھو، میں اسے ہاتھ نہ لگاؤں گی۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’اسے بھنگی نے چھوا ہے۔‘‘
’’لیکن یہ میرا روپیہ ہے، میں نے اسے دیا تھا۔ اس پر حکومت ہند کی مہرثبت ہے دیکھتی نہیں، یہ باوقارا شوک کا ستون اور اس کے اوپر شیر، یہ میری جیب میں سے گیا تھا۔‘‘ میں خفا ہوکر چلایا۔
’’آپ کی جیب کی بات اور ہے۔‘‘ وہ نرم لہجے میں بولی، جیسے کسی بڑی سچائی کو بےنقاب کر رہی ہو، میری بیوی نے فوراً نوکرانی کو بلایا اور کہا، ’’اٹھالے یہ ڈیڑھ روپیہ اور دھوکر لا، یہ گندا ہے۔‘‘ میں اپنی بیوی کی طرف دیکھتا ہی رہ گیا، ایک لمحے کے لئے سکتے میں آ گیا، میں نے اپنے دماغ کو جھنجھوڑنا چاہا، اچانک میرے ذہن میں یہ خیال بجلی کے کوندے کی طرح لپکا کہ ان سکوں کی میل تو شاید پانی کے دھونے سے اتر جائے لیکن یہ دلوں کی میل کیسے اترےگی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.