Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دیوار گریہ

منشایاد

دیوار گریہ

منشایاد

MORE BYمنشایاد

    کہانی کی کہانی

    یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو اپنی خالہ سے بہت محبت کرتا ہے، اس کی خالہ بھی اسے بہت چاہتی اور مانتی ہے۔ مگر جب وہ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے شہر آیا اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوکری کے لیے شہر میں ہی بس گیا تو اسے اپنی خالہ کے بارے میں طرح طرح کی باتیں سننے کو ملنے لگیں۔ اسے پتہ چلا کہ خالہ اکبر ماچھی سے شادی کرنا چاہتی ہے جبکہ سارا گاؤں اس شادی کے خلاف ہے۔ گاؤں کے کچھ لوگ شہر اس سے ملنے جاتے ہیں اور اسے گاؤں آکر خالہ کو سمجھانے کے لیے کہتے ہیں۔ خالہ جب اسے حقیقت سے روبرو کراتی ہے تو وہ حیران اور ششدر رہ جاتا ہے۔

    گاؤں کے سر کردہ لوگوں کے وفد سے میں نے اتوار تک کی مہلت مانگی اور وعدہ کیا کہ میں گاؤں آ کر اسے سمجھاؤں گا ہو سکتا ہے وہ میری بات مان جائے۔

    انہوں نے کہا، ’’ہم اتوار تک آپ کا انتظار کریں گے، ہمیں آپ کا بہت لحاظ ہے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ آپ کی بات ضرور مان جائے گی۔ کیونکہ وہ صرف آپ سے ڈرتی ہے۔‘‘

    ’’اب میں انہیں کیا بتاتا کہ اگر وہ مجھ سے ڈرتی ہے تو میں بھی تو اس سے ڈرتا ہوں ایک انجانے خوف کی دیوار ہم دونوں کے درمیان حائل ہے کبھی کبھی یوں لگتا ہے ہم دونوں اپنے اپنے ہاتھوں پر اس دیوار کو روکے کھڑے ہیں اور ہم میں سے جس نے بھی ہاتھ پیچھے ہٹائے وہ دیوار کے نیچے دب جائےگا۔

    وہ میری سگی خالہ نہیں تھی۔

    لیکن وہ مجھے اپنی سگی خالاؤں سے زیادہ اچھی لگتی تھی۔

    یہ عجیب بات ہے کہ خوبصورت چیزیں ہمیں دوسری چیزوں کے مقابلے میں زیادہ میں زیادہ اچھی لگتی ہیں خواہ ان کا تعلق ہم سے ایک جیسا ہو۔ ہم اپنے بچوں میں سے خوبصورت ترین بچے سے زیادہ پیار کرتے ہیں اور خواہ ہمارے قدموں میں گیارہ کڑیل جو ان بیٹے بیٹھے ہوں بارھویں خوبصورت بیٹے کی جدائی میں ہماری آنکھیں روزنِ دیوارِ زنداں بن جاتی ہیں۔

    خوبصورت بیٹیوں کے بڑھتے ہوئے بدن اور روز بروز گلابی ہوتے رخسار دیکھ کر میں خواہ مخواہ ان پر پیار آنے لگتا ہے۔ بد صورت بہن کو ہم آسانی سے ڈانٹ سکتے ہیں لیکن خوبصورت بہن کی فرمائش آسانی سے نہیں ٹال سکتے۔

    خالہ خوبصورت تھی اس لئے مجھے اپنی سگی خالاؤں سے اچھی لگتی تھی۔ ویسے بھی ہم بچپن میں ایک ساتھ کھیلے تھے۔

    وہ مجھ سے کچھ ہی بڑی تھی مگر اسے کہانیاں بہت یاد تھیں۔ میری اس سے بڑی دوستی تھی اور میں زیادہ تر وقت اسی کے ہاں گزارتا تھا۔ کبھی کبھی خالہ اپنی خالہ کے ہاں چلی جاتی تو میرا دل اُداس ہو جاتا۔ میں ابّا کے صندوق سے وہ کتاب نکال لیتا جس میں ہر طرح کے تعویذ اور گنڈے تھے یہ کتاب ابّا کے ہاتھ دادا جان کے انتقال کے بعد آئی تھی لیکن میں اتنا طویل انتظار نہیں کر سکتا تھا۔ میں کتاب سے بچھڑے اور روٹھے ہوئے محبوب کو منانے اور واپس بلانے کے تعویذ نقل کر کے آزماتا اور خالہ کو چند ہی روز میں واپس آنا پڑ جاتا لیکن اسے بالکل پتہ نہ چلتا کہ میں نے اسے کس طرح واپس آنے پر مجبور کیا ہے۔

    پھر خالہ اچانک بڑی ہو گئی اور زیادہ خوبصورت بھی۔ اسے کا گال انگاروں کی طرح دہکنے لگے۔ آنکھیں زیادہ چمکیلی اور نشیلی ہو گئیں اور بال لمبے ہو کر ٹخنوں تک پھیل گئے جب کبھی وہ مجھے پیرا کرتی اور میرا منہ چومتی۔ مجھے اس سے بڑی میٹھی میٹھی خوشبو آتی اور میرا جی چاہتا وہ میرا جی چاہتا وہ میرا من چومتی رہے اور مجھے اپنے نرم نرم سینے سے لگا کر بھینچتی رہے۔ مگر وہ اب مجھ سے زیادہ منظوم پنجابی داستانوں کے کرداروں س محبت کرنے لگی تھی ان کرداروں میں اسے ہیر اور مرزا پسند تھے اور مجھے رانجھا اور صاحباں۔۔۔ اس اختلاف پر کئی بار ہمارا جھگڑا ہو جاتا اور ہم کئی کئی روز تک ایک دوسرے سے بات نہ کرتے۔

    خالہ کی آواز بری اچھی تھی وہ اکثر ہر وارث شاہ کے بند گنگنایا کرتی۔

    ’’میرے میکے کی گلیوں کو ہاتھ جوڑ کر میرا سلام کہنا اور ترنجن میں جا کر میری سکھیوں کو میرا پیغام دینا کہ وہ مجھے دشمنوں کے حوالے کر کے بھول گئی ہیں۔ میاں رانجھا کے پاؤں پکڑ کر اور میری طرف سے ہاتھ جوڑ کر کہنا کہ خدا کی رحمت سے مایوس سے نہ ہو وہ بے آسروں کا آسرا ہے میرے ماں باپ سے کچھ بھی نہ کہنا انہوں نے مجھے گھمن گھیر میں غرق کیا ہے ان سے اب میرا کوئی ناطہ نہیں ہے۔‘‘

    خالہ جب مجھے ہیر پڑھ کر سناتی تو مجھے یوں لگتا جیسے وہ میری بجائے اپنے آپ کو سنا رہی ہو۔ ہیر پڑھنے پر اُسے کئی بار ڈانٹ بھی پڑ چکی تھی۔ اڑوس پڑوس میں بھی چہ میگوئیاں ہوتی تھیں گاؤں میں عورتوں اور لڑکیوں کے لئے ہیر وارث شاہ پڑھنا بڑا معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن مجھے اور خالہ کو اس میں کوئی برائی نظر نہ آتی تھی۔

    کبھی کبھی خالہ کسی لفظ پر اٹک جاتی تو مجھے بڑی خوشی ہوتی میں چونکہ سکول میں پڑھتا تھا اس لئے ہجے کر کے لفظ پڑھنے میں کامیاب ہو جاتا۔ لفظ جتنا مشکل ہوتا وہ اتنا ہی زیادہ پیار کرتی میرا جی چاہتا اُسے ایک بھی لفظ پڑھنا نہ آئے۔ میں دل ہی دل میں دعا مانگتا۔ اللہ کرے وہ اندھی ہو جائے میں اُسے کتاب کے سارے لفظ پڑھ پڑھ کر سناتا رہوں ا اور ہر لفظ پر۔۔۔ مگر خیر یہ بچپن کی باتیں ہیں۔

    پھر مجھے تعلیم کے سلسلے میں شہر بھیج دیا گیا اور میں خالہ سے جدا ہو گیا۔ میں شہر میں جب بھی کسی حسین عورت کو دیکھتا مجھے خالہ یاد آ اجتی اور میں دل ہی دل کا خالہ سے موازنہ کرنے لگتا۔ شہر میں قدم قدم پر حسین عورتیں تھیں لیکن میں نے خالہ سے بڑھ کر کسی کو نہ پایا۔ لمبی لمبی کاروں میں حسین اور امر عورتوں کو دیکھ کر مجھے رشک آتا کاش خالہ بھی ایسی ہی کسی لمبی چمکیلی کار میں بیٹھی ہو اور اس کا دولت مند میاں اس کی ہر ادا اور فرمائش پر آنکھیں بچھا رہا ہو۔

    خالہ سے اب میری ملاقات بڑے وقفوں سے ہوتی تھی۔

    لیکن میں جب بھی گاؤں جاتا زیادہ تر وقت اس کے گھر میں گزارتا۔ اکثر ہمارے گھروں کے تعلقات خوشگوار نہ ہوتے اور ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا بند ہوتا لیکن ہم پر اس کا کچھ اثر نہ پڑتا۔ خالہ کے گھر والے مجھ سے بات نہ بھی کرتے تو بھی خالہ سے مل کر ساری کوفت دور ہو جاتی ہے۔ وہ مجھے طرح طرح کی چیزیں اور پکوان کھلاتی اور ہم پہروں باتیں کرتے رہتے۔ گاؤں کے باتیں، شہر کی باتیں، فلموں کی باتیں جو میں شہر میں دیکھتا تھا اور کتابوں کی باتیں جو ہم دونوں ایک دوسرے کو پڑھ پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔

    خالہ اب مجھ سے اور بڑی ہو چکی تھی۔

    کبھی کبھی مجھے وہ ایک بڑی عورت نظر آتی اور مجھے اس سے جھجک محسوس ہونے لگتی لیکن ایک بار جب ہم باتیں شروع کر دیتے تو ساری اجنبیت اور جھجک خود بخود دور ہو جاتی۔ خالہ اب بے قرار ہو کر مجھے لپٹاتی اور چومتی نہیں تھی اور شاید میں بھی اب اس کی توقع نہیں کرتا تھا۔

    ایک بار گرمیوں کی چھٹیاں تھیں جو کسی طرح ختم نہیں ہو رہی تھیں۔ گھر والوں نے مجھے خالہ کے ہاں جانے سے سختی سے منع کر رکھا تھا۔ میں نے پہلے پہل اس کی پرواہ نہ کی مگر پھر سخت ڈانٹ ڈپٹ ہوئی اور والدہ نے مجھے ب اور کرانے کی کوشش کہ دشمن کا کچھ اعتبار نہیں ہوتا کیا پتہ وہ لوگ مجھے زہر دے کر ہلاک کر ڈالیں اور دشمنی کا بدلہ چکائیں۔ میں دل ہی دل میں ہنسا، خالہ کے ہوتے ہوئے مجھے اس کا گھر میں زہر کیسے دیا جا سکتا تھا۔ میرے لئے ایسا سوچنا بھی ممانعت تھی لیکن پھر والدہ کے بار بار کہنے سے شک نے میرے دل کے کسی گوشے میں ڈیرہ جما لیا کہ خالہ کے ہاں بہت کم جاؤں گا اور ان کے ہاں سے کھانے پینے کی کوئی چیز تو بالکل نہیں لوں گا۔

    دو ایک روز بعد مجھے چلے جانا تھا اور میں خالہ سے ملے بغیر نہیں جانا چاہتا تھا اس لئے ایک سہ پہر میں گھر والوں سے چوری اسے ملنے چلا گیا۔ اتفاق سے وہ اس وقت گھر میں اکیلی تھی۔ اس کی طبیعت اچھی نہ تھی اور وہ سر کو دوپٹے سے باندھے بستر پر لیٹی ہوئی تھی مجھے دیکھ کر کھل اُٹھی او حسبِ عادت مسکرا کر بولی،

    ’’بسم اللہ‘‘

    میں پائنتی کی طرف بیٹھ گیا وہ کہنے لگی،

    ’’تو نے اچھا کیا جو چلا۔۔۔ میرا بڑا ہی دل چاہ رہا تھا کہ تجھے دیکھوں۔ کل سے میری طبیعت ٹھیک نہیں اور تو مجھے بہت یاد آ رہا تھا۔‘‘

    مجھے کوئی بات نہیں سوجھ رہی تھی میں اُٹھ کر اس کے سرہانے بیٹھ گیا اور اس کیا سر دبانے لگا اس نے آنکھیں بند کر لیں اور کہنے لگی،

    ’’سنا ہے تیری چھٹیاں ختم ہو گئیں۔ وقت گزرتے کیا دیر لگتی ہے ہاں تو مجھے شہر جا کر خط لکھ بھیجا کر۔۔۔ مگر اڑیا۔۔۔ آسان لکھنا تو اب بہت پڑھ گیا ہے نا۔‘‘

    ’’تو جواب دےگی تو لکھوں گا۔‘‘

    وہ ہنس پڑی بولی، ’’مجھے لکھنا کہاں آتا ہے۔‘‘

    ’’کسی سے لکھوا لینا۔‘‘

    ’’نہ بابا۔۔۔‘‘ اس نے کہا، ’’لوگ سمجھیں گے پتہ نہیں کسے خط لکھوا رہی ہے۔‘‘

    پھر خالہ میرے منع کرنے کے باوجود میرے لئے دودھ گرم کر لائی، میرا ما تھا ٹھنکا اس نے دودھ میں کچھ ملا نہ دیا ہو۔

    میرے لئے اب نہایت مشکل صورت حال تھی جی چاہتا تھا بھاگ جاؤں گا خالہ کا رویہ دیکھ کر انکار نہیں کر سکتا تھا۔ اگر اسے پتہ چل جاتا کہ میں اس کے بارے میں ایسا سوچ رہا ہوں تو صدمے کی تاب نہ لا کر وہ خود ضرور زہر پھانک لیتی۔

    پھر اس خیال سے کہ مجھے خون کی قے کرتے دیکھ کر وہ خود ہی پیشمان ہوگی اور زندگی بھر اپنے اس فعل پر سینہ کوبی کرتی رہےگی میں نے دودھ کا گلاس منہ سے لگایا اور غٹا غٹ پی گیا۔۔۔ اور منہ اور نتھنوں سے خون جاری ہونے کا انتظار کرنے لگا ساتھ ہی اتنی جلدی دنیا سے رخصت ہو جانے کی خیال سے میری آنکھوں آنسو آ گئے۔

    اس نے گھبرا کر پوچھا’’میں واری۔۔۔ کیا بات ہے؟‘‘

    مجھ سے ضبط نہ ہو سکا میں نے کہا۔۔۔ ’’امی نے کہا تھا تم لوگ مجھے زہر دے دو گے وہ تڑپ کر پیچھے ہٹ گئی۔ کچھ دیر پھٹی پھٹی نظروں سے مجھے دیکھتی رہی پھر بولی،

    ’’اور یہ جانتے ہوئے بھی تو نے دودھ پی لیا؟‘‘

    ’’اور کیا کرتا؟‘‘

    ’’ہائے میں مر جاؤں۔‘‘ اس نے کہا، ’’تجھے مجھ پر اتنا اعتبار ہے؟‘‘

    مجھے ایسا لگا جیسے میں بے حد کمینہ ہوں اگر خالہ کو پتہ چل جائے کہ میں نے اس پر شک کیا تو؟ وہ رندھی ہوئی آواز میں بولی،

    ’’دیکھ اڑیا۔۔۔ تو ایسا کبھی نہ سوچنا۔ تجھے زہر دیتے سے پہلے میں خود سو بار زہر نہ پھانک لوں گی۔‘‘

    ’’زہر تو ایک ہی بار میں مار ڈالتا ہے پھر تو سو بار کیسے پھانکےگی؟‘‘

    ’’اچھا گولی مار زہر کو۔‘‘ وہ بولی، ’’کوئی اور بات کر۔‘‘

    مجھے پھر ہنسی آ گئی۔ ’’زہر کو گولی کیسے ماری جا سکتی ہے؟‘‘

    اس نے میرا ما تھا چوما اور کان مروڑ کر کہا، ’’تو بہت شریر ہو گیا ہے۔‘‘

    میرا جی چاہتا تھا ہنستا رہوں۔ ہنستا ہی چلا جاؤں۔ ہنسی اور خوشی سے میرا سارا اندر بھر گیا تھا کئی برس بعد اس کے خوبصورت ہونٹ میری پیشانی سے چھوئے تھے دنیا بھر کی لذت اور خوشی ایک لمحے میں قید ہو گئی تھی لیکن پھر خالہ سے اکبرے ماچھی والی بات سن کر میری ساری ہنسی اور خوشی کا فور ہو گئی۔

    میری سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی کہ وہ ایک کسان کی بیٹی ہو کر ایک کمی سے بیاہ کیسے کرےگی اور اگر بیاہ نہیں کرےگی تو کیا کرےگی؟ مجھے اس پر بڑا غصہ آیا اور میرا جی چاہا اُسے چوٹی سے پکڑ کر صحن گھسیٹوں مگر اس کی چوٹی دیکھ کر میرا سارا غصہ ٹھنڈا پڑ گیا ور میں سوچنے لگا کہ وہ اتنی بھاری اور لمبی چوٹی کیسے اُٹھائے پھرتی تھی۔

    جب میں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا خالہ نے بڑی خوشی کا اظہار کیا اس ے اپنے ہاتھ سے لڈو بنائے اور اپنی سہیلیوں کو اور مجھے خوب خوب کھلائے۔ اتفاق سے ان دنوں ہما تعلقات بھی خوشگوار تھے لیکن مجھے اس بات کا بے حد رنج تھا کہ گاؤں میں اب اس کے اور اکبرے ماچھی کے بارے میں طرح طرح کی باتیں شروع ہو گئی تھیں۔ یہ باتیں سن سن کر میرا اس کی طرف سے کھٹا ہو گیا تھا ور مجھے اس کی کوئی بات اچھی نہ لگتی تھی لیکن میں اے کچھ کہہ نہیں سکتا تھا اس کا سامنا کرنے سے کیوں گھبراتا اس کا مجھے خود بھی پتہ نہیں تھا۔

    پھر میں نے کالج میں داخلہ لے لیا اور زیادہ تر ہوسٹل میں رہنے لگا۔

    جب کبھی گاؤں جاتا اور میرے ہم عمر مجھ سے کہتے کہ یار اعظم تیری خالہ نے بڑا گند ڈالا ہوا ہے تو شرم سے میری گردن جھک جاتی اور مجھے خالہ پر غصہ آنے لگتا۔ اس لئے میں بے اب گاؤں جانا کم کر دیا تھا اور دل لگا کر پڑھ رہا تھا۔

    ایک ایک کر کے کئی برس گزر گئے۔

    میں نے تعلیم مکمل کر کے ملازمت کر لی اور میری شادی شہر میں ہو گئی۔

    اب میں شہر میں رہتا تھا اور کبھی کبھار گاؤں جاتا تھا۔ تاہم بہت سے لوگ آتے جاتے رہتے تھے اور مجھے ہر طرح کی خبریں ملتی رہتی تھیں۔ گاؤں والے باتیں بنا بنا کر تھک گئے تھے خالہ اور اکبرے ماچھی کی بات اب عام سی ہو گئی تھی لیکن کبھی کبھی گاؤں والے اچانک بھڑک اُٹھتے تھے۔ مولوی صاحب گاؤں پر عذاب الہٰی نازل ہونے اور قربِ قیامت کی پیش گوئیاں دہرا دہرا کر تھک چکے تھے لیکن خالہ سے براہِ راست الجھنے کا کسی کو حوصلہ نہ پڑتا تھا۔ اپنے والد کے مرنے کے بعد وہ اور سرکش ہو گئی تھی اور خوب کھری کھری سناتی تھی۔ خالہ کی طرح اکبرے کو ٹوکنے کی بھی کسی میں ہمت نہیں تھی سب جانتے تھے کہ وہ ہر وقت ڈبّ میں پستول رکھتا تھا اور ا سے کسی بھی قسم کے اقدام کی توقع کی جا سکتی تھی۔

    خالہ اب وہ خالہ نہیں رہی تھی جو کبھی گاؤں والوں کے دلوں پر حکمرانی کرتی تھی اور جسے دیکھ کر جوانوں کا ایمان ڈول جاتا تھا اور جسے بیٹی یا بہن کہہ کر پکارنے والوں کے لہجے میں بھی عجیب طرح کی مٹھاس ہوتی تھی سخت جسمانی محنت کی وجہ سے اس کا چہرہ مرجھا گیا تھا اور رنگت تبدیل ہو گئی تھی۔ وہ گھر بار کے کام کاج کے علاوہ کھیتوں میں بھی مردوں کی طرح کام کرتی تھی اکبرے کے سوا پورے گاؤں میں اس کا ہاتھ بٹانے والو کوئی نہیں تھا یہ درست ہے کہ اکبر کبھی اس کے گھر نہیں آتا تھا لیکن سارا گاؤں جانتا تھا کہ وہ باہر ہیر رانجھا کی طرح ملتے تھے اور خالہ اس کے لئے دو وقت کھیتوں پر روٹی لے کر جاتی تھی۔ اُسے دیکھ کر اس پر ترس ضرور آتا تھا لیکن یہ سوچ کر ان حالات کی وہ خود ذمہ در ہے غصہ آنے لگتا تھا۔

    لیکن اب حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے میرا گاؤں جانا اور اس سے بات کرنا ضروری ہو گیا تھا پروگرام کے مطابق میں اتوار کے روز گاؤں پہنچ گیا۔

    رات کا کھانا کھا کر اور والدہ سے اجازت لے کر میں ا س کے گھر کی طرف روانہ ہوا۔

    اس کے گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر میں نے فیصلہ کیا کہ اس سے پہلے کہ وہ اپنی باتوں شہد میں مجھے ڈبو دے میں ایک ہی سانس میں اپنی بات کا سارا زہر اُنڈیل دوں گا اور اسے کھری کھری سناؤں گا۔

    کئی لمحوں یا شاید صدیوں بعد میں نے دروازے پر دستک دی۔ دروازہ کھولے بغیر اس نے دستک پہچان کر اور چہک کر کہا،

    ’’بسم اللہ‘‘

    اس کی آواز سے اس کا گھر ہی نہیں گلی بھی روشن ہو گئی۔ اس نے دروازہ کھولا اور میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنی بوڑھی اور نا بینا ماں کے پاس لے گئی اور بولی،

    ’’دیکھ ماں۔۔۔ اعظم آیا ہے۔‘‘

    میں نے سلام کیا۔ اس کی ماں نے دعا دی۔ خالہ لپک کر کرسی اٹھا لائی۔ میں بیٹھ گیا تو اس نے میرے سامنے تپائی لا رکھی اس پر ہاتھ سے بنا ہوا رد مال بچھایا۔ لالٹین کی لو اونچی کی اور کہنے لگی،

    ’’میں بھی کہوں۔۔۔ یہ سارا دن کوا کیوں بولتا رہا ہے۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ تو آنے والا ہے۔‘‘

    ’’میں سہہ پہر کو آ گیا تھا ملنے ملانے اور کھانا کھانے میں دیر ہو گئی۔‘‘

    ’’ہائے مجھے کیا پتہ تھا کہ تو آیا ہوا ہے اگر مجھے پتہ چل جاتا تو میں نائیوں کے گھر کی چھت پر کھڑے ہو کر تجھے ایک نظر دیکھ آتی۔‘‘

    اس نے لالٹین میرے قریب رکھ دی پھر بولی،

    ’’اب تو بڑا آدمی ہو گیا ہے نا۔۔۔ مگر اڑیا۔۔۔ فکر نہ کر۔۔۔ میں تجھے پیالے میں چائے نہیں دوں گی میں نے تیرے لئے چائے کا سیٹ خرید لیا ہے اور کئی مہینوں سے چائے کا بن ڈبہ منگا کر رکھا ہوا ہے مجھے پتہ تھا تو ضرور آئے گا۔‘‘

    وہ مجھے بٹھا کر چائے بنانے لگی۔ ساتھ ساتھ گھر کے حالات اور خیریت پوچھتی رہی بات بات پر خوش ہو کر کہتی،

    ’’میں تو ہر وقت دعا مانگی رہتی ہوں اللہ تجھے اس سے بڑا عہدہ دے میرا دل تو ہر وقت تیری یاد میں جلتا رہتا ہے پتہ نہیں تو نے بھی کبھی مجھے یاد کیا ہے کہ نہیں۔۔۔ اڑیا۔۔۔ تو نے تو آج تک مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت بھی نہیں دی۔ آپا ہم سے ناراض رہتی ہیں پر تو ایسا نہیں کرنا چاہئے۔‘‘

    میں نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ وہ مجھے کوئی بات کرنے کے قابل نہ چھوڑے مجھے اپنی بات شروع کر دینی چاہئے میں نے کہا،

    ’’میں تجھے یاد تو کرتا ہوں لیکن یہ یاد بڑی تلخ ہوتی ہے مجھے تمہارے حالات سن کر ندامت ہوتی ہے۔‘‘

    وہ چپ ہو گئی اس کی بجائے اس کی والدہ نے جواب دیا،

    ’’پتر۔۔۔ تو ٹھیک کہتا ہے۔۔۔ تو سیانا ہے تو ہی اسے سمجھا۔۔۔ اس نے ہمارا دین اور دنیا دونوں خراب کر دئیے ہیں کاش یہ دن دیکھنے سے پہلے بھی موت آ جاتی۔‘‘

    ’’ماں جی‘‘ میں نے کہا’’میں اسی مقصد سے آیا ہوں گاؤں والے آپ لوگوں کا حقہ پانی۔۔۔‘‘

    خالہ بپھری ہوئی شیرنی کی طرح غراتی ہوئی میرے قریب آئی اور چیخنے کے سے انداز میں بولی،

    ’’گاؤں والوں کو چھوڑ۔۔۔ تو اپنی کہہ‘‘

    میں سہم گیا۔

    وہ بولی، ’’میں سمجھتی تھی تو پڑھا لکھا ہے انصاف کی بات کرےگا مگر تو بھی۔۔۔‘‘

    اس کی آواز بھرا گئی آنسو پیتے ہوئے بولی،

    ’’اس اجڑے گاؤں میں کیا کچھ نہ ہوا۔ یتیموں کی زمین لوگوں نے اپنے نام لگوا لی۔ قاتل دندناتے پھرتے رہتے اور بےگناہ سولی چڑھ چڑھ گئے۔ چوریاں، ڈاکے، شراب، جوا، اغوا۔۔۔ مگر ایک ہمارا نکاح نہ ہوا۔ ہم نے والدین اور گاؤں والوں کی منتیں کیں۔ سائیں چپ شاہ کے مزار پر چراغ جلائے۔ مولوی صاحب کے پاؤں پکڑے مگر انہوں نے کہا پنچائت نہیں مانتی۔۔۔ کیونکہ اس سے نئی رسم پڑنے کا ڈر ہے۔ میں پوچھتی ہوں کیا تو نے بھی یہی کچھ پڑھا ہے؟‘‘

    وہ بلند آواز میں رونے لگی۔

    روتے روتے بولی، ’’سوچتی تھی ایک دن تجھے خیال آئےگا۔ تو آئےگا اور انصاف کرےگا مگر اجمیری تمام امیدیں خاک میں مل گئی ہیں۔ میرا سارا مان ٹوٹ گیا ہے۔‘‘

    وہ ہچکیاں لینے لگی۔

    مجھے یوں لگا جیسے میرے اور اس کے درمیان کھڑی ان دیکھے خوف کی دیوار بھی ہچکیاں لینے لگی ہے۔

    وہ دیوار سے ٹیک لگائے گھٹنوں میں سر کو چھپائے دیر تک روتی رہی لگتا تھا اب کبھی چپ نہیں ہو گی۔

    کسی انجانے خوف سے میرے ہاتھ پاؤں لرزنے لگے اور دل و دماغ میں پٹاخے سے چلنے لگے پھر مجھے ایسا لگا جیسے وہ دیوار جس سے لپٹ کر وہ برسوں سے گریہ کر رہی ہے اس کے آنسوؤں سے آہستہ آہستہ کھرنے لگی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے