ایک ہاتھ میں اعلیٰ چمڑے کا براؤن بیگ دوسرے میں پاسپورٹ اور دیگر سفری کاغذات تھامے ڈاکٹر بدرالدین ہادی اپنی قدرے پھولی سانس کے ساتھ وسیع و عریض بزنس کلاس ڈیپارچر لاؤنج میں داخل ہوتے ہوئے ایک طرف کو کھڑا ہو گیا۔ اس نے اپنی نشست کے لیے کوئی مناسب جگہ منتخب کرنے کے ایک طائرانہ نظر پورے لاونج پر ڈالی اور پھر زیر لب مسکرا کر لاؤنج کے اس کونے کو منتخب کیا جہاں سے قدآور شیشوں کے پار ایئرپورٹ سے باہر کا حصہ مکمل نظر آ رہا تھا ۔
صبح صادق کی سپیدی نمودار ہو چکی تھی تاہم ایرپورٹ کی روشنیاں ابھی جگمگا رہی تھیں ۔ کئی ایک ایرلائننز کے جہاز ایک قطار میں کھڑے اپنے اپنے جیٹ وے سے جڑے مسافروں کو اتار چڑھا رہے تھے۔ یہ منظر اس کا ہمیشہ سے پسندیدہ رہا تھا۔ اس نے زندگی کو بھی اسی جیٹ وے کی طرح سمجھا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ لاکھوں لوگ صبح و شام ان جہازوں کی نسبت آسمانوں کی وسعتوں میں کھو جاتے ہیں اور پھر واپس ایک نئے سفر کا آغاز کرنے زمین پر اتر آتے ہیں۔
اسکول ٹیچر کی حثیت سے زندگی کا آغاز کرتے ہوئے کمپیوٹر پر مہارت حاصل کی اور پھر رفتہ رفتہ خطابت کا شوق اسے ملکی اور عالمی منظر نامہ پر لے آیا۔ لندن سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اب وہ عمر کے چالیسویں سال میں ہی کئی ایک کتابوں کا مصنف اور عالمی طور پر مذہبی اسکالر اور پرجوش خطیب مانا جاتا تھا ۔ الفاظ اور انسان اس کی ابرو کی جنبش پر اپنی جان دیتے تھے۔ اس کی شخصیت اور مزاج زندگی سے بھرپور ، مذہب کی علامت اور انسانی جبلتوں کا حسین امتزاج تھا۔ اولوالعزم ہونا اس کا خواب تھا اور بلندی اس خوب کی تعبیر۔
آہستگی سے اس نے نپے تلے قدموں کو جنبش دی اور منتخب نشست پر آ کر بیٹھ گیا ۔ کئی ایک مسافروں کے چہروں پر شناسائی کے تاثرات ابھرے جسے اس نے کمال بے اعتنائی سے نظر انداز کر دیا۔ اس نے اپنا چرمی بیگ نشست پر ایک طرف رکھا اور اپنے سفری کاغذات کو سنبھال کر بیگ میں رکھ دیا۔ اپنے اونی سیاہ کوٹ کی جیب سے سیاہ چمکدار موبائل فون نکالا ۔ چند ساعتوں تک اپنی انگلیاں اس پر پھیرتا رہا اور پھر دوبارہ جیب میں رکھ لیا ۔ چرمی بیگ سے اپنا جدید ٹیبلٹ نکالا ۔ کچھ دیر اس پر کام کیا۔ پھر بند کر کے واپس بیگ میں رکھ دیا۔ اسکے جہاز کی اڑان میں ابھی وقت تھا لہذا وہ خالی نظروں سے باہر کی جانب دیکھنے لگا جہاں ایک بڑی ایئرلائن کا جہاز ٹیکسی کرتا ہوا اپنی اڑان بھرنے کے لیے رن وے کی طرف نکل رہا تھا۔ ایک اور نئے سفر کا آغاز ۔۔۔
اس نے ایک گہری سانس لی اور پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے اپنی آنکھیں موند لیں۔
***
’’دیکھ وے بدرو ! تیرے باوا کو کیا ہوا ہے؟‘‘ وہ جونہی گھر پہنچا اس کی ماں نے ایک ہانک لگائی۔
’’اچھا ماں۔۔۔ دیکھتا ہوں سانس تو لینے دو۔‘‘ اس نے تلملا کر ماں کو جواب دیا۔ جون کے مہینے میں چلچلاتی دھوپ اور لو میں نصف گھنٹے کا پیدل سفر دن بھر اسکول کے بچوں کے ساتھ مغز کھپائی سے کہیں زیادہ تکلیف دہ ہوتا، جسے وہ اکثر یہ سوچ کر سہہ جاتا کہ اسے یہاں رکنا نہیں تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی منزل کہیں دور آسمانوں پر بلند ستاروں کے درمیان ہے۔
اس نے اپنے باپ کے ماتھے کو ہاتھ لگا کر دیکھا تو وہ بخار کی تپش میں جل رہا تھا۔
’’ماں ۔۔۔ باوا کو بہت تیز بخار ہے۔ اسے کچھ کھانے کو دیا تم نے؟‘‘
’’نہیں بدرو ۔۔۔ صبح سے کچھ نہیں کھایا ہے اس نے بس ایک خون کی الٹی کی تھی جب سے یونہی بے سدھ پڑا ہے۔‘‘
’’اچھا دیکھتا ہوں ۔ شاید بڑے رام جی کوئی اور دوا دے دیں۔‘‘ یہ سوچ کر وہ باہر نکل آیا ۔ بڑے رام جی اس قصبے کے واحد حکیم تھے۔ یوں تو ایک سرکاری ڈسپنسری بھی تھی، لیکن کئی ایک مہینوں سے سرکار سے تنخواہ نہ ملنے کی بنیاد پر اسکا واحد کمپوڈر اسے چھوڑ چکا تھا۔ شروع شروع میں ایک ڈاکٹر بھی تھا لیکن وہ تو چند مہینے رہنے کے بعد ہی واپس شہر چلا گیا تھا۔
بڑے رام جی کو باپ کا سارا احوال دیکر اس نے نئی دوائی لی۔ رام جی نے چلتے چلتے اسے کہا ۔ ’’سنو ۔ بدرو ! تمارے باوا کی زندگی اب زیادہ نہیں ۔ معدہ کا زخم پھٹ چکا ہے کبھی بھی زہر پھیل کر اسکی جان لے سکتا ہے۔ چاہو تو تم اسے شہر لے جاؤ لیکن وہاں بھی اب علاج نہ ہو پائے گا۔ تم سب نے دیر کر دی ہے۔ ‘‘
’’ بڑے رام چاچا ۔۔۔ ہم کیا کرتے۔۔۔ تمہی بتاؤ ۔ باوا کبھی شہر جانے پر راضی ہوئے کیا؟ جب کہا انہوں نے انکار کیا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ لاپروائی سے باہر نکل آیا۔
گھر جاتے ہوئے اس نے باوا کے بارے میں سوچا ۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ ایک شخص کسی عورت کے عشق و جنون میں کئی ایک دھائیاں گزار دے اور پھر اسکے بچے کو سینے سے لگائے زندگی بیتا دے اور زخموں بھرے معدے کو لئے موت تک پہنچ جائے۔ کیا سبھی حساس انسانوں کو زندہ رہنے کے لئے اداس اور غم زدہ رہنا پڑتا ہے ؟ کیا زندگی میں خوش رہنے کے لیے بے حسی چاہیے؟
’’ شش۔۔۔ بدرو! ایک مہین سی نسوانی آواز نے اسے پکارا۔ اس نے مڑ کر گلی میں چاروں طرف دیکھا۔ گلی سنسان تھی۔ آواز حویلی کی گلی میں آدھ کھلی کھڑکی سے آئی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ وہ ماجو ہے۔۔۔ اسکی بچپن کی ساتھی۔۔۔ ماہ جبین ۔۔۔ چوہدری صاحب کی سب سے بڑی بیٹی۔
اس نے ماجو کی آواز سنی ان سنی کر دی اور آگے چل پڑا۔ اسکے حویلی کے صدر دروازے پہنچنے تک ماجو دروازے کی اوٹ میں آن کھڑی ہوئی۔ اس کی آنکھیں نمناک تھیں ۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی لیکن بدرو کے مسلسل اٹھے قدم دیکھ کر اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے بدرو کو تہہ کیا ہوا ایک کاغذ تیزی سے تھما دیا ۔
ایک اور محبت نامہ۔ یہ سوچ کر اس نے وہ کاغذ جیب میں رکھا اور تیز قدموں سے چلتا ہوا گھر کی جانب روانہ ہو گیا۔ چند قدم کے بعد اس نے پیچھے مڑ کی دیکھا۔ ماجو ابھی تک دروازے میں کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔ اس کی جھلملاتی چمکدار اور روشن آ نکھیں جھیل میں تیرتے اس پھول کی طرح لگیں جو رفتہ رفتہ پانی کی غیر محسوس لہروں پر ہچکولے لیتا ساحل سے دور ہوتا جاتا ہے۔ وہ ماجو کو دل سے چاہتا تھا لیکن اس سے پہلے وہ خود آسمانوں پر جگمگاتے چمکدار ستاروں کی کہکشاں کا حصہ بننا چاہتا تھا۔ ماجو اسکی دوسری ترجیح تھی۔
وہ گھر کے سامنے پہنچا تو ایک شور تھا اسکی ماں بین کر رہی تھی ۔ محلے کی چند ایک عورتیں جمع تھیں۔ جونہی وہ اندر داخل ہوا اس کی ماں نے اسکا بازو پکڑ کر زور دار چیخ ماری اور اسکی بانہوں میں جھول گئی۔
باپ کو دفن کرنے کے بعد اس کے پاس یہاں رہنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ سوتیلی ماں تو سوتیلی ہوتی ہے نا! ایک دفعہ کسی دوست نے اسکول میں کہا تھا تو وہ حیرت زدہ رہ گیا تھا۔ لیکن جب سے وہ گریجوئشن کرنے کے بعد قریبی گاؤں کے اسکول میں استاد لگا اس میں بڑی تبدیلی آگئی ۔ وہ انسان دوست تھا لیکن اس سے پہلے خود پسند۔
وہ سمجھتا تھا کہ وہ کسی اور دنیا کا انسان تھا جو غلطی سے صدرالدین کے ہاں پیدا ہو گیا تھا۔
***
ڈیپارچر لاؤنج میں ہلکی لیکن گونجدار مترنم آواز نے اسے ایک جھٹکے سے ہلا دیا۔ اس کی فلائٹ کچھ دیر کے لئے تاخیر کا شکار ہو چکی تھی۔ بدرالدین کا آج لندن پہنچنا بہت ضروری تھا۔ اس کا ’عالمی مذاہب و سیاست‘ پر لیکچر شام کے سات بجے برٹش ہال منسلک ویسٹ منسٹر ایبے میں طے تھا۔ فلایئٹ کی تاخیر کی خبر اس پر ایک تازیانہ کی طرح لگی۔ اس کی تیوری پر کئی ایک بل نمودار ہو گئے۔ وہ گذشتہ ایک ہفتے سے کئی ایک اہم سماجی اور مذہبی سیمینار زمیں شرکت کی وجہ سے دبئی میں مقیم تھا اور اپنی فلائٹ کے حساب سے اسے آج دو بجے دوپہر لندن میں ہونا تھا۔
بدرالدین نے فوراً اپنا ٹیبلٹ نکالا اور جھٹ سے اس پر ضروری اطلاعات متعلقہ انتظامیہ کو بہم پہنچانا شروع کر دیں۔ چند منٹ کے اندر اندر اس نے کئی ایک مغربی ملکوں میں اپنے اور دیگر رفاعی اداروں کے دفاتر میں تاخیر کی اطلاع کردی۔ کچھ کی طرف سے نئے انتظامات کے پیغام بھی آ گئے۔
ان سب سے فراغت پا کر اس نے اپنی قریبی دوست عروج سے ڈیٹریاٹ میں بات کی۔ وہ وہاں یونیورسٹی آف ڈیٹریاٹ مشی گن میں ادب پڑھاتی تھی۔ کل شام ہی اس نے اسے تفصیلی ای میل کی تھی جس میں اس نے پاکستان میں اپنے طویل قیام اور اپنے مذہبی و سماجی نقطہ نظر اور نظریات پر صراحت سے گفتگو کی تھی۔
اس کا خیال تھا کہ وہ انسانیت پرست ہے۔ وہ گلوبلائزیشن کا شدید حامی ہے ۔ اس کے خیال میں انسان آفاقی نظریات کو لیے پیدا ہوا تھا اس لیے اس کی جبلت عالمی اور آفاقی نظریات کی پرچارک ہے۔ وہ کسی ثقافتی ، لسانی اور سماجی تقسیم کا قائل نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اسے سائنس کی بنیاد پر سکڑتی دنیا بہت پسند تھی۔
وہ سمجھتا تھا کہ ایک دن ایسا آئے گا جب شہریت کا تصور ختم ہو جائے گا اور ہر انسان اپنے اولین حق کو نہ صرف پہچان جائے گا بلکہ اسے حاصل بھی کر لے گا۔ اس کی خواہش تھی عالمی طور پر انسانوں کی اقدار مشترک ہوں ۔ مذہب ایک ذاتی معاملہ کی حد تک ہو اور بس۔
ہیومن ازم سوچ کو لئے وہ اپنی زندگی کو انتہائی مصروف دائرے کے اندر رکھے ہوئے تھا۔ اسنے مستقل سکونت امریکا میں اختیار کر لی تھی ۔ جہاں سے وہ پوری دنیا میں اپنے لیکچرز دیتا۔ وہ اکثر اپنے ملک جاتا رہتا تھا۔
کئی ایک برسوں بعد اسے خبر ملی تھی کہ ماجو کی شادی وہیں کہیں کسی جاگیردار سے ہو گئی تھی۔ ماجو کا وہ آخری خط ابھی بھی اس کے پاس تھا جس میں اس نے بدرو کو اپنی منگنی کی اطلاع دی تھی اور بدرو کو اپنی محبت کے واسطے دئیے تھے۔ اپنی ماں اور سوتیلی بہن کو اس نے ایک گاؤں میں ایک بڑی سی حویلی لے دی تھی۔ اس کی سالانہ آمدن کا ایک بڑا حصہ ایک عالمی رفاعی ادارے کو جاتا جو اس کے خطابات کو پوری دنیا میں پھیلانے پر مامور بھی تھا۔
کامیاب زندگی اسکے قدموں میں فراش تھی۔ لیکن اب اسے محسوس ہو رہا تھا کہ سب کچھ حاصل کرنے کے بعد اب زندگی میں کچھ کمی سی ہو گئی ہے ۔ اسکے خواب شاید اپنی تعبیر پا چکے تھے۔ تنہائی اپنی جگہ لیکن اسے یوں لگتا کہ اندر سے وہ خالی ہوتا جا رہا ہے۔ عروج نے اسے کئی ایک بار کہا شادی کر لو لیکن اسے شادی میں کوئی نیا پن نظر نہیں آتا ۔ لہذا اب تک ہامی نہیں بھری تھی۔
اب کچھ دنوں سے ڈاکٹر ہادی کی طبعیت میں زود رنجی ، اضطراب اور ہر کام وقت پر نہ ہونے سے جنجھلاہٹ، غصہ اور ہائپر ٹینشن کا احساس ہونا شروع ہو چکا تھا۔ چونکہ وہ خود ہر کام انتہائی نفاست سے بروقت اور بے عیب کرنے کا عادی بن چکا تھا لہذا اسے کسی بھی تاخیر یا معمولی خرابی سے نفرت ہو چکی تھی۔ در حقیقیت مغربی دنیا میں رہتے ہوئے شاید وہ پرفیکشنسٹ کی علامت بن چکا تھا ۔
اسی اثنا میں لاؤنج میں سپیکرز پر ایک اعلان ابھرا جس میں مسافروں کو لندن کی پرواز میں مزید ایک گھنٹہ کی تاخیر کی اطلاع دی گئی۔۔۔
’’اف میرے خدایا! یہ سب کیا ہے؟‘‘ جنجھلاہٹ سے اس کے چہرے پر تناؤ کے تاثرات ابھر آئے۔ اس نے جھٹ سے اپنے سیاہ موبائل کی سکرین روشن کی اور اس کی انگلیاں تیزی سے سکرین پر گھومنے لگیں۔ ذرا سی دیر میں مسکراتی ہوئی ایک تصویر سکرین پر ابھری۔
’’بدر۔۔۔ تمارے چہرے پر اتنا تناؤ کیوں ہے؟‘‘ عروج نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’نہ پوچھو۔۔۔ اس ایرلائن پر میں ہمیشہ سفر کرنے سے کتراتا تھا۔ بس اس دفعہ ویسٹ منسٹر ایبے والوں کی بات مان لی۔ لگتا ہے آج شام کا لیکچر تو گیا؟‘‘
’’ تو کیا ہوا؟‘‘ یہ لیکچر دوبارہ بھی دیا سکتا ہے۔ ’’تم اتنی ٹنشن مت لو ڈارلنگ‘‘ عروج نے کمال محبت سے اسے چھیڑا ۔ جب بھی وہ بدرالدین کو چھیڑتی تو ہمیشہ اسے ڈارلنگ کہتی۔
’’عروج۔۔۔ پلیز۔ یہ مذاق کا وقت نہیں! میرے لئے آج کا یہ خطاب بہت اہم ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ سے کئی ایک ممبران اس میں مدعو ہیں۔‘‘ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ قریب سے اٹھ کر وزیراعظم بھی آ جائیں۔ میں اس لیکچر کو مس نہیں کر سکتا ۔ مجھے ہر حال میں وہاں پہنچنا ہے۔‘‘
’’او کے تو انتظار کرو شاید فلائٹ نکل جائے۔ تم ابھی قبل از وقت ہو۔۔۔ تمارے پاس بہت وقت ہے۔‘‘
’’یہی تو بات ہے کہ میرے پاس وقت نہیں۔۔۔ اگر یہ ڈیپارچر بر وقت نہ ہوا تو میں ہمیشہ کے لئے محروم ہو سکتا ہوں ۔ تم اچھی طرح جانتی ہو۔‘‘
بدرالدین نے سنجیدگی سے کہا۔
’’اچھا ایک کام کرو۔۔۔ تم یہاں یونیورسٹی سے ایرلائن کو ایک ای میل کرو کہ میں یہاں ڈیپارچر لاونج میں لیٹ ہو رہا ہوں۔ وہ مجھے اٹینڈ کریں۔ یہی بات میں یہاں سے ویسٹ منسٹر ایبے والوں کو ٹیکسٹ کرتا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ ایرلائن والوں کو یہ معلوم ہی نہ ہو کہ میں سفر کر رہا ہوں۔‘‘
’’تم فون بند کرو۔ میں دیکھتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر عروج نے جواب سنے بغیر ہی رابطہ ختم کر دیا۔ سکرین دوبارہ ہوم پیج پر آ گئی۔
بدرالدین نے لندن پیغام بھیجا اور نشست پر ٹیک لگا کر گہرا سانس لیا ۔ اسے محسوس ہوا کہ اس کے بائیں بازو اور سینے میں کچھ تناؤ سا ہے۔ اسکی طبیعیت متلا رہی تھی۔ اس نے پاس سے گزرتے ہوئے لاؤنج کے ویٹر کو ہاتھ سے اشارہ کیا اور اسے پانی اور کافی لانے کو کہا۔
آج نا جانے اسے باوا کیوں یاد آ رہے تھے۔ ماجو، اماں اور عصو کی آوازیں بھی آ رہی تھیں۔ نہر کے کنارے دور تک پھیلا گاؤں، اس کی ایک ایک پگڈنڈی اور لہلہاتے سنہرے کھیت سب کچھ اس کے سامنے تھا۔ ماضی جسے وہ کئی ایک برسوں سے بھول چکا تھا آج اسکے ذہن کی سکرین پر اسی طرح آ رہے تھے جیسے فون کی سکرین پر عروج ڈیٹریاٹ سے۔
اسے ایسا لگا کہ وہ کہیں دور بہت آگے آ چکا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہ تھی۔ ’گاؤں، باوا، ڈیپارچر لاونج۔۔۔‘ منظر اسکے ذہن میں گڈمڈ ہونے لگے۔
تھوڑی دیر میں اس نے دیکھا کہ سامنے سے دو باوردی ایرلائن کے آفیسرز اس کی طرف آ رہے تھے۔ قریب پہنچ کر انہوں نے شستہ انگلش میں بدرالدین کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا آپ ہی ڈاکٹر بدرالدین ہادی ہیں؟
بدرالدین کا اثبات میں جواب سن کر انہوں نے فلائٹ میں تاخیر کی معذرت کی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے بدرالدین کو ریسٹورانٹ میں سنیکس وغیرہ کے لیئے مدعو کیا ۔ بدر الدین نے بظاہر خوش دلی سے ان کی معذرت کو قبول کیا لیکن شائستگی سے انہیں بتایا کہ آج اسکی زندگی کا اہم ترین دن ہے اور اگر یہ موقع اس نے کھو دیا تو ہمیشہ کے لئے کئی ایک دروازے بند ہو جائیں گے۔ ابھی وہ ان آفیسرز سے بات ہی کر رہا تھا کہ قریب پڑا فون ایکدم روشن ہوگیا ۔ ڈیٹریاٹ سے عروج کی کال آ رہی تھی۔ بدر الدین نے آفیسرز کو دیکھا اور معذرت کرتے ہوئے کال لے لی۔
’’ہاں عروج ۔ شکریہ ائرلائن کے لوگ میرے پاس آ چکے ہیں اور معذرت کر رہے ہیں۔ تم ذرا ہولڈ کرو۔‘‘
یہ کہہ کر بدرالدین دوبارہ ان آفیسرز کی طرف متوجہ ہوا تو ایک آفیسر بولا۔
’’مسٹر بدرالدین ۔۔۔ در اصل ہم آپ کو بتا رہے تھے کہ آپ کی فلائٹ میں مزید تین گھنٹے کے لئے تاخیر ہو گئی ہے۔۔۔ وی کین آفر یو آل دا انٹرٹینمنٹ وی ھیو ہیئر۔‘‘ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
یہ سننا تھا کہ بدر الدین کے چہرے پر ایک رنگ آ کر چلا گیا۔ اچانک غصے کی ایک شدید لہر نے اسے جکڑ لیا۔
اس نے اپنے غصہ پر قابو پاتے ہوئے قدرے اونچی آواز میں کہا۔ ’’آئی کانٹ مس دس لیکچر۔۔۔ ڈونٹ یو نو مائی فرینڈز؟‘‘
اس کا لہجہ خلاف معمول اجنبی سا تھا۔
’’آئی نیڈ ٹو بی ان لندن ایٹ فور و کلاک ناؤ ۔ ڈیٹس اٹ۔‘‘ وہ گرجا۔
’’سوری سر۔۔۔‘‘ دونوں افسروں نے بدر الدین کے غصے بھرے لہجے کو محسوس کرتے ہوئے اپنے آپ کو قابو میں رکھا۔ ’’یہ ایک تیکنیکی خرابی ہے۔ اس ضمن میں ہم کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘ یہ کہہ کر دونوں واپس چل پڑے۔
انہیں یوں جاتے دیکھ کر بدر الدین کا غصہ انتہا پر پہنچ گیا۔
’’یو کانٹ گو بیک لائک دس۔۔۔ اے مسٹر۔۔۔ لسن ٹو می۔۔۔ بدر الدین ہسٹریائی کیفیت میں چلایا۔ ’’آئی ایم ڈائنگ۔۔۔ آئی کانٹ مس دس لیکچر۔‘‘
اس نے چیختے ہوئے ان کی طرف اپنا دائیں ہاتھ بلند ہی کیا تھا کہ سینے میں ایک دم درد کی ٹیس سی اٹھی جس کی لہر نے پورے جسم کو لمحوں میں مفلوج کر دیا۔ اس کی آ نکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔ اسکی سانس اکھڑنے لگی۔ اس کا سارا جسم پسینے میں شرابور ہو گیا۔ اسے محسوس ہوا کہ وہ ایک اندھیری گھپ سرنگ میں داخل ہو رہا ہے ۔ اس نے بے بسی سے ساتھ پڑے فون کی طرف دیکھا جس پر عروج دوسری طرف چلا کر کچھ کہہ رہی تھی۔
اس نے کانپنے ہاتھوں سے فون اٹھایا اور عروج کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ ’’آئی کانٹ مس اٹ۔۔۔ عروج ڈارلنگ۔‘‘ وہ بے بسی سے روہانسا ہو گیا۔
’’آئی کانٹ مس اٹ۔۔۔‘‘ اس کی آواز ڈوبتی گئی۔ اس نے عروج کو پہلی دفعہ ڈارلنگ کہا تھا۔
اسکی آنکھیں بند ہو چکی تھیں اور درد کی شدید لہر تیزی سے اسکے پوری جسم سے نکل کر ہوا میں تحلیل ہو گئی اور ڈیپارچر لاؤنج میں صوفے پر ٹیک لگائے بدرو جگمگ کرتے روشن موبائل کو تھامے کسی نئے سفر پر روانہ ہو چکا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.