Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دیر سے رکی ہوئی گاڑی

عبدالصمد

دیر سے رکی ہوئی گاڑی

عبدالصمد

MORE BYعبدالصمد

    کہانی کی کہانی

    ’’یہ ایک ٹرین اور اس میں سوار لوگوں کی کہانی ہے، ٹرین چلتے چلتے اچانک رک جاتی ہے۔ ٹرین کو رکے ہوئے جب کافی دیر ہو جاتی ہے تو لوگ پریشان ہو جاتے ہیں اور ٹرین کے رکنے کی وجہ جاننے کے لیے بیچین ہو جاتے ہیں۔ ساتھ ہی لوگ ٹرین کے یوں رک جانے سے نظام، ملک اور دوسری پریشانیوں کے بارے میں بحث کرنے لگتے ہیں۔‘‘

    گاڑی چلتے چلتے۔۔۔ اچانک۔۔۔ بالکل اچانک رک گئی۔

    باہر گھپ اندھیرا۔۔۔ دور دور تک روشنی وغیرہ کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔

    شاید کوئی گھنا ویرانہ تھا یا پھر کوئی بیاباں۔۔۔

    ’’گاڑی کیوں رک گئی۔۔۔؟‘‘

    ’’کسی نے چین تو نہیں کھینچی۔۔۔؟‘‘

    ’’شاید نہیں۔۔۔ ایسا ہوتا تو پھر گارڈ اور دوسرے لوگ ٹارچ لئے نظر آتے۔۔۔‘‘

    ’’تو پھر۔۔۔؟ کوئی آوٹر سگنل بھی تو نہیں۔۔۔؟‘‘

    ’’اس سنسان جگہ پر اس طرح گاڑی روک دینے کا مطلب۔۔۔؟‘‘

    ’’کہیں ٹریک پر کوئی گڑبڑ نہ ہو۔۔۔ اس لائن پر تو اکثر یہ سب کچھ ہوتا رہتا ہے۔‘‘

    ’’کچھ بھی ہو سکتا ہے بھائی۔۔۔ سب کچھ ممکن ہے۔ اس علاقے میں تو پوری پوری گاڑی لوٹ لی جاتی ہے، اطمینان سے گاڑی رکواکے۔۔۔ کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔۔۔‘‘

    ’’ذمہ داری تو ڈرائیور اور گارڈ کی ہے۔۔۔ اتنے سارے لوگوں کی جان و مال۔۔۔‘‘

    ’’ڈرائیور اور گارڈ کیا کریں گے۔۔۔ باگ ڈور تو کنٹرول روم میں بیٹھے بابو کے ہاتھ ہے، جو بنا سوچے سمجھے کسی لائن پر گاڑی چلا دیتا ہے، کسی لائن پر روک دیتا ہے۔۔۔‘‘

    ’’کنٹرول روم میں بند بند اس کا جی نہ گھبراتا ہوگا، اپنے پرائے کی یاد آتی ہوگی، بیوی بچے۔۔۔ پھر تنہائی میں اسے اپنے بھولے بسرے عشق بھی یاد آتے ہوں گے، وہ بے چارہ آخر کرے تو کیا۔۔۔ شطرنج کی بساط کی طرح ریل کی پٹریاں اس کے سامنے بچھی رہتی ہیں اور وہ ان سے کھیلتا رہتا ہے۔۔۔‘‘

    ’’بھلا بتائیے۔۔۔ کتنے خاندان، کتنے خواب، کتنے یقین، کتنے مستقبل اور کتنے حال و ماضی کی قسمتیں اس کی دو انگلیوں کے درمیان پھنسی رہتی ہیں، اس سسٹم کو بدلنے کی کوئی بات ہی نہیں کرتا۔۔۔‘‘

    ’’سسٹم کو کیسے بدلا جا سکتا ہے۔۔۔؟ یہ بھی کوئی کھیل ہے کیا؟ ارے بھائی ایک سسٹم بنانے اور قائم کرنے میں صدیاں بیت جاتی ہیں، تب کہیں جاکر کوئی چیز زمین پر قدم جماتی ہے، اسے منٹوں میں یوں اکھاڑ پھینکنا۔۔۔‘‘

    ’’بھائی، اس بات پر کم سے کم کچھ سوچو تو۔۔۔ چلو یہ سوچ ہمیں نہیں تو ہماری آنے والی نسلوں کے تو کام آئےگی۔۔۔‘‘

    ’’یہ تو خوابوں کی دنیا میں رہنے والی بات ہوئی۔ آج کی عملی دنیا میں ان باتوں کی گنجائش کہاں؟‘‘

    ’’یعنی ہم اس لئے نہیں سوچیں کہ اس سے ہماری ذات کو کوئی فائدہ نہیں پہنچنے والا۔۔۔ اگر یہی رویہ ہمارے پرکھوں کا ہوتا تو آج جس سسٹم کی ہم بات کر رہے ہیں، وہ بھی ہمیں نصیب نہ ہوتا۔۔۔‘‘

    ’’بہت اچھا ہوتا۔۔۔ بہت اچھا ہوتا۔۔۔ یعنی یہ کہ پھر جنگل کا سسٹم ہوتا، یوں بھی سارے سسٹموں کو جب جنگل ہی کی طرف جانا ہے تو پھر سیدھے جنگل ہی سہی۔۔۔‘‘

    ’’اسٹون ایج کی اہمیت سے ہم انکار تو نہیں کر سکتے نا۔۔۔ آخری ساری دھارائیں ہم نے اسی سے تو نکالی ہیں اور یہ تو بالکل اصول کی بات ہے کہ جو چیز جہاں سے نکلتی ہے وہ پھر اسی کی طرف واپس جاتی ہے۔۔۔‘‘

    ’’ارے بھائی۔۔۔ ہم اسی قسم کی باتوں میں الجھے رہیں گے یا کچھ فکر بھی کریں گے۔۔۔ اتنی دیر سے گاڑی یوں ہی رکی ہے اور کہیں سے اس کے چلنے کی کوئی سن گن نہیں۔۔۔‘‘

    ’’اس کا دل بس ایک ہی ہے۔۔۔ ہم میں سے کوئی باہر نکل کر پتہ کرے۔۔۔‘‘

    ’’لیکن کون۔۔۔؟‘‘

    ’’وہ۔۔۔ وہ نہیں۔۔۔ آپ۔۔۔ آپ بھی نہیں۔۔۔ تو پھر وہ۔۔۔‘‘

    ’’یعنی کوئی نہیں۔۔۔؟‘‘

    ’’واہ صاحب۔۔۔ باتیں اتنی گاڑھی گاڑھی اور۔۔۔‘‘

    ’’سوال یہ ہے کہ انجان اور سنسان جگہ کمپارٹمنٹ کا دروازہ بند، اسکورٹ پارٹی بھی کہیں پہ ہے یا نہیں۔۔۔ بند دروازے کے باہر کس کے لئے کیا چیز منتظر ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’بھی اس قدر ڈر کے رہیں گے تو کام کیسے چلےگا۔۔۔ اسی ڈر نے تو ہمیں آج اس نوبت کو پہنچا دیا۔۔۔‘‘

    ’’ایسا ہے تو آپ آگے بڑھئے، ہم سب آپ کے پیچھے چلیں گے۔۔۔‘‘

    ’’یہ بھی خوب رہی۔۔۔ جی نہیں مجھے کوئی شوق نہیں لیڈر ویڈر بننے کا، میں اپنی جگہ پر ٹھیک ہوں، جو سب کا حشر ہوگا وہی میرا بھی۔۔۔‘‘

    ’’یہی تو سچ ہے ہمارے دیش کے ان لوگوں کی جو ذرا بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔۔۔ یہ چیز ہماری تاریخ کی سب سے بڑی ٹریجڈی بننے والی ہے۔۔۔‘‘

    ’’بھائیو، خدا کے لئے کچھ کرو۔۔۔ اتنی دیر سے گاڑی رکی ہوئی ہے اور کوئی کچھ نہیں کر رہا۔ ہم اس بے حسی کے عمل سے اپنی موت کو دعوت دے رہے ہیں، گاڑی لوٹنے والے کہیں پڑے بھی ہوں تو وہ متوجہ ہو جائیں۔‘‘

    ‘‘ خدا کے نیک بندو۔۔۔ کسی کے پاس کوئی ٹوٹا پھوٹا ہتھیار بھی ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’شاید آج کی تاریخ کا سب سے بڑا مذاق۔۔۔‘‘

    ’’پانچ ساٹ لٹیرے پوری گاڑی کو لوٹ کر چلے جاتے ہیں، کسی نے ان سے مقابلہ کیا۔۔۔؟‘‘

    ’’اتنی دیر سے ہم اپنے لٹنے کی بات کر رہے ہیں، کسی نے یہ بھی سوچا کہ جو ڈرائیور گاڑی چلا رہا ہے اور جو گارڈ اپنی جان پر کھیل کر اسے لے چل رہا ہے وہ۔۔۔‘‘

    ’’بات یہ ہے کہ وہ ڈرائیور، گارڈ اور ہم مسافر۔۔۔ ہم تو انہیں پہچانتے بھی نہیں۔‘‘

    ’’اس سے کیا ہوتا ہے۔۔۔ یہ تو ہمارے سسٹم کا تصور ہے۔۔۔‘‘

    ’’یہ سارا سسٹم۔۔۔ ساری خرابی کی جڑ یہی ہے۔۔۔ واللہ کیا بات ہے کہ ہم مسافر تو ہیں لیکن اپنے راہبر نہیں پہچانتے۔۔۔‘‘

    پہچانتے بھی ہوتے تو اس سے ہو کیا جاتا۔۔۔؟ کوئی بہت بڑی تبدیلی تو نہیں ہو جاتی۔۔۔؟ ہمارا ان کا فرق تو بہر حال برقرار ہی رہتا۔۔۔‘‘

    ’’بھائی میں پھر کہہ رہا ہوں، بڑی بڑی باتیں کرنے سے اچھا ہے کہ ہم اپنی ساری توجہ اس پر صرف کریں کہ گاڑی یہاں کیوں رکی اور آگے کیوں کر چلےگی۔۔۔‘‘

    ’’کیا گاڑی ہے سالی کہ کہیں سے کوئی مونگ پھلی والا، چنا چور والا، چائے والا بھی نہیں آتا۔۔۔؟‘‘

    ’’پتہ ہے اس وقت کیا بجا ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’ پر یہ لوگ تو چوبیں گھنٹے اپنی ڈیوٹی پر رہتے ہیں، انہیں کچھ بجنے نہ بجنے سے کیا لینا دینا۔‘‘

    ’’گاڑی وغیرہ کے بارے میں صحیح خبر تو یہی لوگ لاتے ہیں ورنہ یہاں کوئی عوامی رابطہ تو ہوتا نہیں۔۔۔ کس قدر اندھیرے میں ہم لوگ رہتے ہیں۔۔۔ یعنی اتنے ہزار افراد۔۔۔‘‘

    ’’اندر اندھیرا، باہر اندھیرا۔۔۔ واہ رے اندھیرے۔۔۔‘‘

    پتہ نہیں کہاں سے ہانپتا کانپتا ایک مسافر آیا اور دھم سے سیٹ پر گر گیا، سارے باتونیوں کو ایک دَم سے سانپ سونگھ گیا۔

    ’’جانتے ہو گاڑی کیوں رکی ہوئی ہے۔۔۔؟‘‘ نووارد پھنکارا۔

    ’’شاید۔۔۔‘‘

    ’’سب غلط۔۔۔ آگے کسی نے فش پلیٹ اکھاڑ دی ہے اس لئے، ورنہ ابھی بہت بڑا۔۔۔‘‘

    اس نے اپنی سانسوں پر قابو پا لیا تھا اور اپنی آنکھوں کی دہشت دوسری آنکھوں میں منتقل کر کے پرسکون ہو گیا تھا۔

    ’’اف۔۔۔ میرے خدا ابھی ہم سب کتنے بڑے حادثے سے بچ نکلے۔۔۔ خواہ مخواہ ڈرائیور، گارڈ، کنٹرول روم اور سسٹم کو کوس رہے تھے، اسی لیے کہا جاتا ہے نا کہ بے دیکھے سنے۔۔۔‘‘

    ’’بڑے بھائی، آپ کو یہ باوثوق اطلاع ملی کیسے۔۔۔؟‘‘

    ’’میں گارڈ کے پاس سے آ رہا ہوں نا۔۔۔ آپ کو پتہ نہیں گاڑی انٹرکنکٹڈ ہے، میں نے سوچا آپ سب کی کوفت دور کر دوں۔۔۔‘‘

    ’’بڑی مہربانی کی۔۔۔ بہت کرم۔۔۔ اب ذرا لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیجئے کہ آگے چلنے کی امید ہے یا۔۔۔‘‘

    ’’انتظام ہو رہا ہے۔۔۔ جب تک ٹریک ٹھیک نہ ہو جائے، گاڑی آگے کیسے بڑھ سکتی ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’چلو جان بچی سو لاکھوں پائے۔ منزل پر آج نہیں تو کل پہنچ ہی جائیں گے۔۔۔‘‘

    ایک مسافر بدحواس صورت ٹوائلٹ سے نکلا۔

    ’’باتھ روم میں پانی کا ایک قطرہ بھیں نہیں۔۔۔‘‘

    ’’ارے یہ تو بہت بری خبر ہے، اب کیا ہوگا، نہ جانے کب تک رکنا پڑے۔۔۔‘‘

    ’’یہ لوگ چاہیں تب بھی کوئی انتظام نہیں کر سکتے۔۔۔ اس بیاباں میں پانی کہاں۔۔۔؟‘‘

    ’’ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کے پاس پینے کا پانی ہو لیکن پھر پیاس کا کیا ہوگا۔۔۔؟ بچے بوڑھے بھی۔۔۔‘‘

    ’’سامنے کا جو مسئلہ ہے ابھی اسے حل کرو، آگے دیکھا جائے۔۔۔‘‘

    کوئی تیار نہیں ہوا پانی کا نام لینے کو۔

    ’’اس مصیبت کی گھڑی میں بھی ایک دوسرے کی مدد نہیں کر سکتے تو پھر آگے کیا امید رکھی جائے۔۔۔ اتنی بڑی بڑی باتیں کس کام کی۔۔۔؟‘‘

    ’’دونوں باتیں اپنی جگہ صحیح، ضرور تبھی اہم اور پیاس بھی ضروری، کسی کو الزام مت دو، یہ سوچو کہ تیسرا راستہ کیسے نکلے۔۔۔؟‘‘

    ’’تیسرا راستہ۔۔۔؟ جیسے ہم پہلا اور دوسرا راستہ طے کر چکے نا، یہ تیسرا راستہ کہاں سے آ گیا بھائی۔۔۔؟‘‘

    ’’یہ بہت لمبی بحث ہے، اس میں الجھنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں تسلیم کر لیا جاتا ہے، ہم نے مان لیا، آپ نے مان لیا، بات ختم۔۔۔‘‘

    ’’اف، میرے پیٹ میں بہت درد ہو رہا ہے، خدا کے واسطے کوئی مجھے اس مصیبت سے نکالے۔۔۔‘‘

    ’’بھائی۔۔۔ ایک آدمی ہماری آنکھوں کے سامنے یوں لوٹ رہا ہے اور ہم۔۔۔‘‘

    ’’کیا کر سکتے ہیں۔۔۔ ہم مجبورِ محض۔۔۔‘‘

    ’’اے بھائی، تم ایسا کرو باتھ روم چلے جاؤ، ہم جب تک کچھ کرتے ہیں، کہیں سے کوئی اخبار ہی مل جائے، کاغذ کا کوئی ٹکڑا ہی سہی۔۔۔ ہم دیکھتے ہیں۔۔۔‘‘

    لیکن بہت کوشش کرنے کے بعد بھی ہاتھ کچھ نہ آیا۔ اخبار والوں نے اپنے اخبار چھپا دیے اور کاغذات والو ں نے اپنے کاغذات دبا دیے، مونگ پھلیاں بیچنے والوں کے اخباری پرزے البتہ بکھرے پڑے تھے، ایک شخص نے جلدی جلدی انہیں چن کر مصیبت میں مبتلا آدمی کے حوالہ کیا جنہیں وہ تیزی سے دبوچ کر باتھ روم کی طرف بھاگا۔

    ’’انسانیت کا جنازہ نکل چکا ہے۔۔۔‘‘

    نیک کام انجام دینے والا آدمی ٹرٹرایا۔

    ’’انسانیت صاحب کی میت اسی گاڑی پر چل رہی ہے نا۔۔۔‘‘

    ’’طنز مت کیجئے۔۔۔ بھلا بتائیے کیا ہم اس مصیبت زدہ شخص کی مد دنہیں کر سکتے تھے، تکلیف سے وہ تڑپ رہا تھا، سوچئے ابھی کیا ہو جاتا، یہ چیز تو ایسی نہیں ہے نا کہ بہت دیر تک روکی جا سکے۔۔۔‘‘

    ’’چلئے آپ نے فرض کفایہ ادا کر دیا۔۔۔ ہم میں سے کم سے کم ایک آدمی ایسا تو ہے۔ اس ایک آدمی کو برقرار رہنا چاہئے۔۔۔‘‘

    باہر کچھ لوگوں کے چلنے کی آوازیں۔۔۔ٹارچ کی تیز روشنیا ں کمپارٹمنٹ کی بند کھڑکیاں جلدی جلدی کھلیں۔

    کچھ لوگوں نے ہمت کی تھی۔

    ’’کیا ہوا بھائی۔۔۔؟ گاڑی کیوں رکی ہوئی ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’پتہ نہیں۔۔۔ ابھی تو دیکھ ہی رہے ہیں۔۔۔‘‘

    فِش پلیٹ والی اطلاع دینے والے بڑے بھائی کو نگاہوں نے بہت ڈھونڈا، نظر نہ آئے۔

    ’’شاید کوئی نئی اطلاع کی تلاش میں۔۔۔‘‘

    ’’کچھ لوگ اپنی اہمیت جتانے کے لئے اطلاعات لاتے رہتے ہیں۔۔۔‘‘

    ’’ہم سے تو بہتر ضرور ہیں کہ متحرک ہیں۔۔۔‘‘

    ’’کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ چہروں کو طرح طرح کی باتوں سے متوحش کر کے طمانیت محسوس کرتے ہیں۔۔۔‘‘

    ’’ہم دوسری باتوں میں الجھ گئے بھائی۔۔۔‘‘

    ’’یعنی۔۔۔؟‘‘

    ’’یعنی یہ کہ مسافر کیا کر رہے ہیں، یہ ہمارا مسئلہ نہیں۔ ہمیں منزل تک بخیر پہچانا جن کی ذمہ داری ہے، ان کے کنڈکٹ ہماری بحث کے موضوع ہونے چاہئیں۔۔۔‘‘

    ’’دونوں کے کنڈکٹ۔۔۔‘‘

    ’’کیوں۔۔۔؟ ہمارے کیوں۔۔۔؟ ہم سفر کر رہے ہیں، اس میں ہمارا کیا قصور۔۔۔؟ گاڑی کس وجہ سے رکی ہوئی ہے، ہم اس بیاباں میں کیا کر رہے ہیں، کچھ کر رہے ہیں یا نہیں۔۔۔ یہ سچویشن تو ہم پر تھوپی گئی ہے۔ پروبلم انہوں نے کرئیٹ کیا ہے۔ اس لئے ان کے کنڈکٹ پر باتیں ہونی چاہئیں، بلکہ انہیں کنڈم کرنا چاہئے۔۔۔‘‘

    ’’انہوں نے پروبلم کیریٹ کیا ہے یا وہ بھی اس کے شکار ہوئے ہیں، پہلے یہ تو طے ہو جائے۔‘‘

    ’’ایسی ہی بات تھی تو انہو ں نے پہلے اندازہ کیوں نہیں لگایا، آگے پیچھے، انجام و آغاز کا پتہ کیوں نہیں کیا۔۔۔؟ اتنے لوگوں کو لے کر چل رہے تھے تو آخر انہیں اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چاہئے تھی۔۔۔‘‘

    اچانک دور سے کچھ شور سا سنائی دیا، کھڑکیاں جلدی جلدی گرا دی گئیں، بولٹ دروازے پر ہاتھ پھیرے گئے، دو دو آدمی دروازوں پر کھڑے ہو گئے تاکہ کسی نامعلوم واقعہ کے لئے ہمہ دم تیار رہیں۔ ایک عجیب سراسمیگی کیفیت دوڑ گئی۔ لوگ باتیں کرنا بھول گئے۔ آوازیں آتی رہیں۔

    یکایک ایک شخص بڑے زور سے ہنسا۔ گھورتی ہوئی نگاہیں اس پر ٹک گئیں۔

    ’’ناراض مت ہو میرے بھائیو، بگڑنے کی کوئی بات نہیں، مجھے تم لوگوں کی بزدلی پر ہنسی آ گئی تھی۔۔۔‘‘

    ’’بھائی صاحب آپ ایسا کریں ہم بزدلوں کو یہیں چھوڑ کر ذرا باہر نکلیں اور پتہ لگائیں کہ۔۔۔‘‘

    ’’کیوں بھائی مجھے کیا پڑی ہے، میں کوئی ولی یا سنت تو ہوں نہیں۔۔۔ خدا کی طرف سے بھیجا ہوا کوئی پیغمبر۔۔۔‘‘

    ’’آپ ہماری بزدلی پر ہنس رہے تھے نا اس لئے۔۔۔‘‘

    ’’غنیمت ہے کہ صرف میں ہنس رہا ہوں، وہ وقت بھی آنے والا ہے جب آپ خود اپنے آپ پر ہنسیں گے۔۔۔‘‘

    اچانک بند دروازے باہر سے پیٹے جانے لگے، سب سہم کر اپنے آپ میں چھپ گئے۔ ہنسنے والا شخص ایک جھٹکے سے اٹھا اور دروازے کی طرف جانے لگا۔

    ’’روکو۔۔۔ خدا کے لئے اسے روکو۔۔۔ اس کی نیت شروع سے اچھی نہیں ہے۔۔۔‘‘

    لیکن کسی کے روکنے یا منع کرنے سے پہلے اس نے دروازہ کھول دیا، تین چار بدحواس صورت اندر داخل ہوئے۔

    ’’کمال ہے صاحب، اتنی دیر سے ہم دروازہ پیٹ رہے تھے۔ کسی کے پاس ڈیٹول، اسپرٹ وغیرہ ہے۔۔۔ کاٹن۔۔۔؟‘‘

    ’’کس لئے۔۔۔؟‘‘

    ’’ایک عورت لیبر پین میں مبتلا ہو گئی ہے۔ ہم لوگ ہر ڈبہ میں کچھ مدد ڈھونڈ رہے ہیں۔۔۔‘‘

    ’’لیبر پین۔۔۔؟ اس وایرنے میں۔۔۔؟‘‘

    ’’تو اس کے لئے کوئی مخصوص جگہ ہے کیا۔۔۔؟‘‘

    ’’سب قصور اس سسٹم کا ہے جس نے ہمیں یوں ساکت و جامد کر دیا ہے، پتہ نہیں کتنے لیبرپین اس میں پوشیدہ ہوں گے، اس کا احساس ہے کسی کو۔۔۔؟‘‘

    کوئی مدد نہیں ملی اور وہ دوسرے ڈبہ کی طرف بڑھ گئے۔

    ’’اونھ۔۔۔ خدائی فوجدار۔۔۔‘‘

    ایک عورت کی گود کا بچہ چیخ پڑا۔ اس سے تھوڑی زیادہ عمر کے سبھی بچے رونا دھونا، بسورنا، ضد کرنا، مچلنا وغیرہ بھول کر سہمی چڑیا کی طرح چپکے بیٹھے ان گنت سوالیہ نگاہیں اپنے ماں باپ پر ڈال رہے تھے جو ان کی تاب نہ لاکر سب کی باتیں سننے کی کوششوں میں خواہ مخواہ مصروف تھے۔

    وہ بچہ باتوں، خیالات اور سوچ میں مخل پڑا تو پڑتا ہی چلا گیا۔

    ’’چپ کرائیے بہن جی۔۔۔ ا س کے حلق میں خراشیں پڑ جائیں گی۔۔۔‘‘

    ’’کہیں بھوکا نہ ہو۔۔۔؟ اسے پانی پلایا نا۔۔۔؟‘‘

    ماں باپ نے بہلانے کی بہت کوشش کی، طرح طرح کے وعدے، گھر پہنچ کر مٹھائیاں دلانے کی لالچ وغیرہ وغیرہ، اسے چپ ہونا تھا نہ ہوا ہو۔ کچھ لوگوں نے اپنے طور پر بھی کوشش کی، اسے لے کر ٹہلے بھی لیکن۔۔۔

    ’’یہ بچہ آج کا انسان ہے۔۔۔‘‘ ہنسنے والے شخص نے دھیرے سے کہا لیکن سب نے سن لیا اور سب کی غصیلی نگاہیں برچھی کی طرح اس پر گڑنے لگیں۔

    ’’یہ کیا تک ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’تک۔۔۔؟ تک کس بات کا۔۔۔؟ ٹرین رکنے کا، ہماری خیال آرائیوں کا، اس بچے کے رونے کا، آپ کے ذریعہ اس کو بہلانے کا۔۔۔ تک کیا چیز ہوتی ہے؟

    تک۔۔۔؟‘‘

    ’’بھائی صاحب، اگر آپ واقعی خاموش نہیں رہ سکتے تو براہ کرم دوسرے ڈبہ میں تشریف لے جائیں۔۔۔‘‘

    ’’کیوں۔۔۔؟ کیا یہ ڈبہ کوئی اپنی جاگیر میں لکھوا کر لایا ہے کہ میں اسے چھوڑ کر چلا جاؤں۔

    ’’میں نے ٹکٹ خریدا ہے اور میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ اس لائن میں سفر کرنے والے زیادہ تر لوگ ٹکٹ نہیں خریدتے اور باتیں بڑی بڑی کرتے ہیں۔۔۔‘‘

    ’’یہ شخص بہت آگے بڑھ رہا ہے۔۔۔ کہیں یہ کوئی غیرملکی ایجنٹ نہ ہو۔۔۔؟‘‘

    ’’یہ بہت دیر سے انتشار پھیلانے والی باتیں کر رہا ہے۔ اس نے ہمارے اندر مایوسی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، اس نے ہمارے منع کرنے کے باوجود دروازہ کھول دیا، وہ تو محض اتفاق تھا کہ۔۔۔‘‘

    ’’سانپ کو ہمیشہ پھن اٹھانے سے پہلے ہی۔۔۔‘‘

    ’’مارو۔۔۔مارو۔۔۔‘‘

    ہنگامے میں زور زور سے دروازہ پیٹا جانا دب گیا، وہ تو جب بغل سے جی آر پی کے مسلح افراد گھسے تو ان لوگوں نے ہنگامہ کرنے والوں کو دو چار تھپڑ لگائے اور پیٹنے والے شخص کو اپنے گھیرے میں لے لیا تب ہی وہاں قرار آیا، اس کے کپڑے پھٹ گئے تھے، جسم پر کئی جگہ زخم رس رہے تھے اور وہ بے حد خوف زدہ تھا۔

    ’’یہ ہم لوگوں میں انتشار پھیلانے کی۔۔۔‘‘

    ’’ہم میں مایوسی پیدا کرنے کی۔۔۔‘‘

    ’’یہ تو کوئی سنگین جرم نہیں، آپ نے قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش کی۔۔۔؟‘‘

    ’’اس کا تعلق غیرملکی ایجنسی سے ہے۔۔۔‘‘

    ’’واہ۔۔۔ لگتا ہے بیٹھے بیٹھے آپ سب کا دماغ سرک گیا ہے، اخباروں میں جو کچھ پڑھتے ہیں، انہیں ایک غریب نہتے پر آزما دیا۔ آپ سب اپنے نام پتے بتائیے، آپ نے ایک آدمی کی جان لینے کی کوشش کی۔۔۔‘‘

    ’’بہت خوب دروغہ جی۔۔۔ واہ، یہی بات اخبار میں چھپے اور کسی بڑے منہ سے نکلے تو سچی، ہم پکڑ بھی لیں تو ایک دم۔۔۔ اسی لیے تو ہمارا دیش اتنا بچھڑ رہا ہے۔۔۔‘‘

    ’’نیتا جی، آپ کی جگہ یہ تھرڈ کلاس کمپارٹمنٹ نہیں، کاؤنسل کا منبر ہے، آپ غلط جگہ پر پائے جا رہے ہیں۔۔۔‘‘

    ’’نیتا لوگ کوئی آسمان سے نہیں ٹپک جاتے حضور، انہیں تھرڈ کلاس کمپارٹمنٹ، گلیوں اور نالیوں سے اٹھتے ہیں۔۔۔‘‘

    ’’باپ رے۔۔۔ اس گاڑی نے تو یہاں رک کر قانون کی پوری پوری کتاب چھاپ دی ہے، اس کا یہاں دیر تک کھڑے رہنا خطرے سے خالی نہیں۔۔۔‘‘

    ’’جاتے جاتے یہ تو بتا دیجئے کہ آخر گاڑی یہاں کیوں رکی ہوئی ہے۔۔۔ آپ قانون کے رکھوالے ہیں، آپ کو تو صحیح جانکاری۔۔۔‘‘

    ’’اس کے لئے جن لوگوں کو مقرر کیا گیا ہے اور جو اس بات کی تنخواہ پاتے ہیں، آپ ان سے دریافت کیجئے۔۔۔‘‘

    ’’حضور ایک آدھ سپاہی تو یہاں چھوڑ جائیے، سنسان جگہ ہے، کوئی ایسی ویسی بات۔۔۔‘‘

    ’’ہر جگہ سیکوریٹی فراہم کرنا ممکن نہیں ہے نا۔۔۔ ویسے ہم آس پاس ہی رہیں گے۔۔۔‘‘

    ’’جانتے ہو اب یہاں ڈاکہ بھی پڑ جائے تو یہ نہیں آنے والے، کیونکہ وہ اپنی ڈیوٹی انجام دے چکے۔۔۔‘‘

    ’’اگر سونگھنے کو ڈیوٹی کہتے ہیں۔۔۔‘‘

    ’’یعنی یہ کہ حد ہو گئی بھائی۔۔۔ اتنی دیر سے گاڑی یہاں کھڑی، اتنے لوگوں کی جان و مال اتنی آسانی سے داؤ پر اور کسی کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔۔۔ یعنی بے حسی کی بھی انتہا۔۔۔‘‘

    ’’کون بےحس۔۔۔؟ ہم، آپ، سب لوگ، گاڑی کے ذمہ دار، اس کے یہاں ٹھہرائے جانے کے ذمہ دار، سماج، سرکار۔۔۔ آخر کون ہے وہ جس کے سبب ہمیں یہ پریشانیاں جھیلنی پڑ رہی ہیں۔۔۔؟‘‘

    ’’فی الحال تو بے حس وہ لوگ ہیں جو۔۔۔ دراصل یہ چیز بھی موقع مصلحت کے مطابق اپنے رنگ بدلتی ہے۔۔۔‘‘

    ’’ہمیں تو کچھ پتہ ہی نہیں۔۔۔‘‘

    ’’سبب تو ظاہر ہے۔۔۔ سبب۔۔۔‘‘

    ’’سبب نہیں، اسباب۔۔۔ اتنے کہ ہمارے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ واقعی۔۔۔‘‘

    ’’آسان سی بات ہے۔۔۔ بہت ہی آسان اور معمولی۔۔۔‘‘

    ’’بتایے، بتائیے۔۔۔ آپ کو پتہ تھا تو اب تک آپ نے بتایا کیوں نہیں۔۔۔؟‘‘

    ’’بات تو سامنے کی ہے۔۔۔‘‘

    ’’تو بتا کیوں نہیں چکتے۔۔۔؟‘‘

    ’’آپ تسلیم نہیں کریں گے نا۔۔۔‘‘

    ’’آپ کوئی مسخرے یا نیتا۔۔۔؟‘‘

    ’’نہیں جی۔۔۔ نہ میں کوئی مسخرا نہ نیتا۔۔۔‘‘

    ’’حرکتیں تو آپ کی۔۔۔‘‘

    ’’کیا کروں، مجبوری ہے، آپ بھی تو ان حرکتوں کے بغیر مانتے نہیں نا۔۔۔؟‘‘

    ’’صاحب، آپ کو بتانا ہے یا نہیں۔۔۔؟ کیوں ہمیں پریشان کرتے ہو بھائی، ہمارا وقت۔۔۔‘‘

    ’’وقت۔۔۔؟ کیا خوب۔۔۔ جو چیز آپ کے پاس ہے ہی نہیں، جو چیز آپ سے بہت پہلے چھینی جا چکی ہے، اس کی دہائی۔۔۔‘‘

    ’’یوں نہیں بلکہ یوں کہ اسے ایک بھاری بہت بھاری بوجھ بناکر ہم پر لاد دیا گیا اور ہم اس میں اس قدر دب گئے کہ کراہ بھی نہیں سکتے۔۔۔‘‘

    ’’نہیں، بلکہ ہم سے ہمارے قیمتی ووٹ کا، اگر وہ واقعی قیمتی ہے، احساس چھین لیا گیا اور اب ہم بے حسی کے عالم میں مردوں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔۔۔‘‘

    ’’بھائی، یہ وقت بھاری بھاری علوم کے مظاہرے کا نہیں بلکہ پتہ لگانے کا ہے کہ آخر یہ گاڑی۔۔۔‘‘

    ’’وہ صاحب کدھر گئے جنہوں نے کہا تھا کہ اس کا سبب۔۔۔‘‘

    ’’شاید باتھ روم۔۔۔‘‘

    ’’یہی ہوتا ہے۔۔۔ ہمیشہ یہی ہوتا آیا ہے، جس کے پاس جانکاری ہوتی ہے وہ ہمیشہ۔۔۔‘‘

    ’’بھائی میں یہیں ہوں۔۔۔ میں باتھ روم گیا ضرور تھا حالانکہ وہ انسٹی ٹیوشن بھی ہمارے لیے بیکار ہو چکی ہے۔۔۔ اور دوستو میں کوئی ایسا جانکار بھی نہیں کہ بے بس ہوکر پناہ ڈھونڈنے لگوں۔۔۔ میں تو بھائی۔۔۔‘‘

    ’’آپ نے فرمایا تھا کہ۔۔۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ ہاں بھائی، وہ تو میں اب بھی کہہ رہا ہوں۔۔۔ بہت سیدھی سی بات ہے، ہم آپ سب مل کر چلیں اور پتہ لگائیں۔۔۔‘‘

    ’’بس۔۔۔ یہی بات تھی جس کے لئے آپ اتنی دیر سے۔۔۔؟‘‘

    ’’آپ اسے معمولی بات سمجھتے ہیں۔۔۔؟‘‘

    ’’یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آ رہی تھی کیا۔۔۔؟‘‘

    ’’آرہی تھی تو اب تک آپ نے اسے انجام دینے کی زحمت گوارہ کیوں نہیں کی۔۔۔؟‘‘

    ’’بوڑھے، بچے، عورتیں اور مال و اسباب سب کو چھوڑکر۔۔۔؟‘‘

    ’’تو گویا دنیا نے آپ کے پَیر پکڑ لیے۔۔۔؟‘‘

    ’’دنیا۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں بھائی اور کیا۔۔۔؟ آپ نے ہماشما کی باتوں پر یقین کر لیا اور ساری باتوں نے مل کر آپ کو بے یقینی اور بےثباتی کے سمندر میں ڈھکیل دیا۔۔۔‘‘

    ’’اف۔۔۔ بھائی آپ کی طرح ہمارے دماغ میں بدہ نہیں اتنی گاڑھی گاڑھی باتوں کو ہضم کرنے کا۔۔۔ ایک تو ہماری جان پہلے سے نکلی ہوئی ہے، بقیہ کسر آپ نے پوری کر دی۔۔۔ اتنی امید دلا دی اور پہاڑ کھودا تو نکلا کیا۔۔۔؟‘‘

    ’’چوہا۔۔۔ ہم سب چوہے ہیں دوست، آپ چاہے نہ مانیں۔۔۔ ہم وہ چوہے ہیں جو اپنے ذہنوں کے بلوں میں سو چکے ہیں اور اسی وقت جاگیں گے جب چوہے مار دوائیں ہمارے بلوں میں ڈالی جائیں گی۔۔۔ اس وقت ہمارے سبھی راستے مسدود ہو چکے ہوں گے۔۔۔‘‘

    ’’آج کوئی راستہ کھلا ہے کیا۔۔۔؟‘‘

    ’’آج ہم نے اپنے راستے خود بند کئے ہیں، کل کوئی دوسرا بند کرےگا اور پھر کوئی راستہ کھل نہیں سکےگا۔۔۔ کبھی نہیں۔۔۔‘‘

    ’’چلو مان لیں کہ ہم یہاں نکل چلتے ہیں، آگے چل کر ہمیں پتہ بھی چلے کہ اس کے رکنے کا کیا سبب ہے۔۔۔ پھر۔۔۔؟ پھر کیا کریں گے ہم۔۔۔؟‘‘

    ’’معقول وجہ ہوگی تو چپ ہو رہیں گے ورنہ اوپر والوں سے اس کی شکایت کریں گے۔۔۔‘‘

    ’’واہ بھائی صاحب۔۔۔ باتیں اتنی اونچی اونچی اور۔۔۔ شکایت کریں گے۔ لیکن کس سے۔۔۔؟‘‘

    ’’تو اور آپ کے بس میں ہے بھی کیا۔۔۔؟ ان لوگوں کا ایک الگ شعبہ ہے شکایات درج کرنے کا جس کو استعمال کرنے کی توفیق نہیں ہوتی ہمیں۔۔۔ اگر وہاں شکایتوں کی بھرمار ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں۔۔۔‘‘

    ’’آپ کو شاید پتہ نہیں مہاشے کہ شکایت کی کھڑکیوں پر مکھیوں، کیڑوں مکوڑوں، جالوں اور دفتروں پر کتوں، بلیوں کا قبضہ ہو چکا ہے، آپ جیسی، ہمارے جیسی اب کوئی شئے وہاں پائی جاتی ہے۔۔۔‘‘

    ’’محاورتاً۔۔۔؟‘‘

    ’’جی نہیں، حقیقتاً۔۔۔ اس کا مطلب ہے آپ صحیح معنوں میں ایک انٹیلیکچول ہیں۔۔۔‘‘

    ’’نہیں بھائی۔۔۔ اتنا بڑا الزام۔۔۔‘‘

    ’’باتیں تو آپ بہت خوبصورت کرتے ہیں۔۔۔ بالکل ایک انٹیلیکچول کی طرح۔۔۔‘‘

    ’’آپ نہیں جانتے۔ جب ہم کسی مصیبت میں گھرتے ہیں اور ہمارے راستے مسدود ہو جاتے ہیں تو ایک جاہل اور بے وقوف بھی انٹیلیکچول جیسی باتیں کرنے لگتا ہے۔۔۔‘‘

    ’’یہی وجہ ہے نا کہ ہمارے یہاں کتابوں کا پروڈکشن بہت زیادہ ہے، رسالوں اور اخباروں کی بھرمار، سیمیناروں اور لکچروں کا غلغلہ۔۔۔ نتیجہ۔۔۔؟‘‘

    ’’وہی جو سامنے ہے۔۔۔ گاڑی بہت دیر سے رکی ہوئی ہے اور ہم انٹیلیکچول سطح کی باتوں پر اتر آئے ہیں۔۔۔‘‘

    ’’ہے کوئی خدا کا بندہ جو باتوں اور صرف باتوں کو چھوڑ کر کھانے پینے کی کچھ فکر کرے۔۔۔؟‘‘

    ’’خوانچہ والوں کی ساری چیزیں ختم ہو چکی ہیں اور وہ سب کسی گوشے میں بیٹھے تاش کھیل رہے ہوں گے اور پانی۔۔۔ ؟ ٹوائیلٹ کے لئے تو ہے نہیں، پینے کے لئے کہاں سے؟‘‘

    ’’سب لوگ بھوکے پیاسے مر جائیں گے اور ان سب کا خون۔۔۔؟‘‘

    ’’گردن ہماری ہے تو خون بھی ہماری گردن پر ہوگا نا۔۔۔؟‘‘

    ’’آس پاس کہیں آبادی ضرور ہوگی، کچھ کھانے پینے کی چیزیں۔۔۔‘‘

    ’’بھائی ایسا ہوتا تو اب تک۔۔۔‘‘

    ’’اس کا مطلب ہے۔۔۔ اس کا مطلب ہے۔۔۔‘‘

    ’’کوئی مطلب نہیں۔۔۔سیدھی سی بات یہ ہے کہ ہم اس وقت تک باتیں کرتے رہیں گے جب تک یہ گاڑی چل نہیں پڑتی۔۔۔‘‘

    ’’اگر کوئی بھوک پیاس یا کسی اور وجہ سے مرنا چاہے تو مر جائے۔۔۔‘‘

    ’’مرنے کی وجہ نہیں، بہانے کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔‘‘

    ’’بھائی۔۔۔ کم سے کم ایک چیز کا فیصلہ تو کر لیں، منزل پر پہنچ جائیں تو کچھ ایسا ہو کہ اس قسم کا واقعہ پھر نہ ہو۔۔۔‘‘

    ’’یعنی۔۔۔؟‘‘

    ’’کمال ہے صاحب۔۔۔ آپ جانتے نہیں کہ منزل پر کبھی یکجا نہیں ہوا جاتا، وہ تو حالات ہوتے ہیں اور سچویشن جو ہمیں۔۔۔‘‘

    ’’اس کا مطلب ہے ہمیں کچھ نہیں کرنا۔۔۔ جو کچھ ہو رہا ہے بس اسے ہونے دینا ہے۔۔۔‘‘

    ’’اگر آپ کے بس میں کچھ ہے تو بسم اللہ۔۔۔ ہم روکنے والے کون۔۔۔؟‘‘

    ’’یعنی یہ کہ۔۔۔‘‘

    پھر اچانک سناٹا چھا گیا، جملہ پورا کرنے کی تاب کسی میں نہ تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے