Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دھنک

MORE BYخالد فتح محمد

    کہا جاتا ہے کہ سانپ کا کوئی گھر نہیں ہوتا۔

    میں اپنا گھربار چھوڑکر ایسی منزلوں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا تھا جن سے میری شناسائی ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ میں بستیوں میں گیا، دریاؤں کو عبور کیا، ویرانوں میں بستیوں کو تلاشا، پہاڑوں میں سکون کو مس کرنا چاہا لیکن وہاں ہنگاموں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ یہ ایک ایسا سفر تھا جس میں مَیں کھوئے بغیر کچھ حاصل کرنا چاہتا تھا یا حاصل کیے بغیر کچھ کھونا چاہتا تھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میرے پاس کھونے کوتھا ہی کیا؟ میں بےگھر ہونے کی وجہ سے بظاہر بے وقعت بھی تھا، بےوقعت ہونا کوئی الزام یا جرم تو نہیں تھا مگر یہ کوئی خوبی بھی نہیں تھی جس پر فخر کیا جاسکتا!

    مجھے کہاں جانا تھا؟ میں یہ تو نہیں جانتا تھا لیکن یہ ضرور جانتا تھا کہ جہاں بھی جانا ہے، وہاں کیوں جانا ہے؟ چناں چہ میں چلتا ہی رہا۔ ایک آدمی کتنا چل سکتا ہے یا کہاں تک چل سکتا ہے؟ میرے لیے بھی یہی المیہ تھا۔ مجھے خدشہ تھا کہ اگر میں رک گیا تو میرا سفر اختتام پذیر ہو جائےگا۔ یہ کچھوے اور خرگوش کی دوڑ تو تھی نہیں لیکن ایک طرح سے تھی بھی۔ میں ہی خرگوش تھا اور کچھوا بھی۔ میں تب نشان جانے بغیر کسی کھوج میں نکلا ہوا راہی ضرور تھا لیکن کیا میں راہی تھا؟ میری ڈاڑھی بڑھی ہوئی تھی۔ کیا میں ڈاڑھی بڑھائے، دل میں کسی شاعرہ کو بسائے، علاقوں کے گیت اکٹھے کرتا تھا؟ میں گھروں میں جاتا، بوڑھیوں اور جوان عورتوں کے پاس بیٹھتا، ان کے مسائل سنتا اور کچھ کہے بغیر وہاں سے اٹھ جاتا۔ ان کی باتوں میں معاشی اور معاشرتی منطق کی بھرمار ہوتی جس سے میں واقف تھا۔ مجھے شاید کسی ایسی شخصیت کی تلاش تھی جو ان مسائل سے ماورا ہو۔ ایسے شخص سے ملاقات کی امید رکھنا کیا زندگی کی نفی نہیں تھی؟ میں نے ہمیشہ مثبت سوچ ہی رکھی لیکن کبھی کبھار منفی خیالات ذہن میں آکر ایک فرار کی کیفیت پیدا کر کے کسی حد تک سکون دیتے۔

    زمین گول ہے اور میں چلتے ہوئے اپنے ہی شہر میں آ گیا۔ شہر اسی طرح تھا جیسا میں دس برس پہلے چھوڑ کر گیا تھا، صرف میرے پرانے شناسا مجھے پہچانتے نہیں تھے اور جو چند ایک میری شناسائی کا دعویٰ کرتے تھے، انھیں میں نہیں پہچانتا تھا یا کسی مصلحت کے تحت پہچاننے سے انکار کرتا تھا۔ چناں چہ جس شہر میں میں اپنے جاننے والوں کا ایک ہجوم چھوڑکر گیا تھا وہاں میں اکیلا تھا، میرے رہنے کی کوئی جگہ نہیں تھی اور نہ ہی کوئی ایسا راستہ جس پر چل کر میں شہر سے نکل جاؤں۔ راستے تو اتنے تھے جتنے کوئی شمار کرنا چاہے لیکن مجھے ان پر چلنے میں ایک طرح کی جھجک تھی کیوں کہ وہ تمام واپس اسی جگہ آتے تھے جہاں سے میں چلا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ زمین گول ہے لیکن یہ راستے زمین کے گول ہونے کا ثبوت نہیں تھے۔

    میرے آبائی گھر میں کوئی اور خاندان آباد تھا۔ میں نے جب دروازہ کھٹکھٹایا تو مجھے اپنی ماں سے ملنے کی امید تھی۔میں نے اس کی آنسو بھری آنکھوں میں حیرت کے ساتھ خوشی اور شکایت کے عکس کو ذہن میں بسایا ہوا تھا لیکن مجھے مایوسی ہوئی جب کسی اور عورت نے دروازہ کھولا۔ وہ عورت عمر میں میری ماں سے چھو ٹی اور خدو خال میں بےڈھنگی تھی۔میں نے جس وقت دروازہ کھٹکھٹایا اس وقت گرہستنیں کام نمٹا کر اپنے آپ کو تازہ دم کیے بیٹھی ہوتی ہیں۔جس عورت نے دروازہ کھولا وہ اسی طرح تھی جس حالت میں بستر سے اٹھی ہوگی۔ اس کے سر کے با ل اڑے ہوئے تھے، آنکھوں کے کونوں میں شب خوابی کی میل لگی ہوئی تھی، دانتوں پر پچھلے چوبیس گھنٹوں کا کریڑا لگا ہوا تھا اور ہونٹ خشک اور بےرس تھے، اسے انھیں زبان سے تر کرنے کی ضرورت تھی۔

    اپنی ماں کی جگہ اسے وہاں کھڑے دیکھ کر مجھے مایوسی ہوئی!

    میں اندر داخل ہونا چاہتا تھا لیکن وہ میرے اندر داخلے کو روکے کھڑی رہی۔

    ’’تم کون ہو ؟‘‘میں بستیوں اور نگروں میں گھوم کر اتنا پراعتماد ہو گیا تھا کہ کسی اجنبی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ سکتا تھا۔ میرے سوال پر اس عورت کے ہونٹوں کے کونوں میں کپکپاہٹ سی ہوئی۔مجھے محسوس ہواکہ اسے میرا سوال نامناسب لگا تھا اور وہ کوئی معقول جواب دینے کے لیے دماغ پر زور دے رہی تھی، ہونٹوں کی کپکپاہٹ کی یہی وجہ تھی۔

    ’’تم یہ پوچھن والے کون ہوے ہو؟‘‘ میں نے اپنے سفر میں مختلف لہجوں والے لوگوں سے ملاقات کی تھی، اس عورت کا بات کرنے کا طریقہ کرنال کے لوگوں سے ملتا تھا۔مجھے حیرت ہوئی کہ میری ماں دروازہ کھولنے کیوں نہیں آئی؟

    ’’میں اس گھر میں رہتا رہا ہوں۔ میں نے اندر جانا ہے، راستہ دو!‘‘ میں نے آگے کی طرف بڑھنے کا اشارہ دیا۔

    ’’چھورے آگے کہاں جاوے ہو؟ یہ تو میرا گھر ہوے ہے۔‘‘ مجھے ایسے کئی واقعات یاد آگئے جن میں خاتونِ خانہ اپنے مائیکے گئی اور جب واپس آئی تو ایسی عورت نے دروازہ کھولا جو اس کے خاوند کی دوسری بیوی تھی۔ کیا ایسا تو نہیں ہواکہ اس کے باپ نے دوسری شادی کرلی ہو۔ میں نے پھر اس عورت کو دیکھا اور سوچاکہ اگر میرے باپ نے اس عورت کے ساتھ شادی کی ہے تو وہ کسی ہم دردی کا مستحق نہیں ہے۔

    ’’لیکن یہ تو میرا گھر ہے۔ میرے والد کا نام محمدطفیل ہے۔‘‘ میں نے بیزار سے لہجے میں کہا۔

    اب اس عورت کے ہونٹوں پر ایک برتر سی مسکراہٹ پھیل گئی، اس کی نظر میں جارحیت نہیں تھی۔

    ’’تپھیل سے ہم نے یہ گھر کھرید لیا، وہ اب یہاں نہ بسیں۔‘‘عورت بات ختم کرکے میری طرف دیکھنے لگی۔ یہ میرے لیے سامنے سے ہٹنے کا اشارہ تھا جس پر میں نے فوری عمل کیا۔ میں نے ایک نظر گھر پر ڈالی، جیسے دفنانے سے پہلے مردے کو آخری مرتبہ دیکھتے ہیں اور گلی میں سے باہر سڑک کی طرف چل پڑا۔ جب میں گھر کی طرف جارہا تھا تو میری خواہش تھی کہ پرانے ملنے والے نظر آ جائیں اور اب میں چاہتا تھا کہ کوئی بھی شناسا مجھے نظر نہ آئے کیوں کہ میں نے اسے پہچاننا نہیں تھا۔

    چوک میں دودھ دہی کی دکان اسی طرح چل رہی تھی ،صرف باؤرشید کی جگہ اس کا بیٹا پھیجو تارا بیٹھا تھا۔نام تو اس کا حفیظ تھا اور باؤ اسے تارا اس لیے کہا کرتا تھا کہ وہ صبح کا تارا نکلنے کے وقت گھر آتا تھا۔ دکان پہلے سے زیادہ منظم نظر آئی لیکن مجھے پھیجے کو بیٹھے دیکھ کر حیرت ہوئی کیوں کہ باؤ اسے کبھی پاس بھی نہیں آنے دیا کرتا تھا۔ وہ ہمیں ہمیشہ کہتا: پھیجا ہر وقت پلیت رہتا ہے۔ دودھ تو بہت ہی پاک جنس ہے میں اس لعنتی کو اپنا دودھ پلیت نہیں کرنے دوں گا۔پھیجے کو جب پیسے چاہیے ہوتے تو اپنی ماں کو بھیجتا اور خود دور کھڑا باپ کی مغلظات سے لطف اندوز ہوتا رہتا۔

    پھیجے نے مجھے اپنایت سے دیکھا لیکن میری نظر میں لاتعلقی دیکھ کر فوراً گاہک کی طرف متوجہ ہو گیا۔ پھیجے کو دودھ دہی بیچتے ہوئے دیکھ کر مجھے اچانک احساس ہوا کہ باؤ مرکھپ گیا ہوگا ورنہ پھیجا دکان پر کبھی نہ بیٹھتا۔ میں پھیجے سے نظر بچانے کے بعد اگلے بازار میں داخل ہو گیا۔ پرانے شہر میں ہر بازار کسی مخصوص شے کے لیے تھا جیسے بازار صرافہ یا کسیرہ بازار لیکن جس بازار میں داخل ہوا وہاں ایک ہی چیز بکنے کے بجائے ملی جلی دکانیں تھیں اور میں پرانے وقتوں کی طرح دکانوں کے نام اور اندر موجود لوگوں کو دیکھتے ہوئے چلا جا رہا تھا، سیڑھیوں پر چڑھتے انھیں گنتے چلے جانے کی طرح۔ اکثریت پرانی دکانوں کی ہی تھی صرف اندر موجود لوگ بدلے ہوئے تھے۔ ایک خالی دکان کے باہر سفید رنگ کی ڈرائنگ شیٹ پر ناہموار سی لکھائی میں ’’کمرہ کرائے کے لیے خالی ہے‘‘ سامنے والی دیوار کے ساتھ چسپاں کیا گیا تھا۔ دکان میں سفید بالوں والا ایک آدمی جو ساٹھ کے پیٹے میں تھا، پڑھنے والا چشمہ لگائے ایک موٹی کتاب پڑھنے میں مصروف تھا۔ مجھے یہ نظارہ بالکل مختلف لگا، اس کے ارد گرد جہاں کاروبار اپنے عروج پر تھا وہ کسی اور دنیا میں آباد لگا۔ میں دکان کے سامنے رک گیا۔ آدمی کے آگے ایک میز پڑی تھی جس پر دور کی نظر والا چشمہ رکھا ہوا تھا۔ میں نے اندر داخل ہو کر گلا صاف کیا تو وہ آدمی مسکراتے ہوئے میری طرف متوجہ ہوا۔ اس کی مسکراہٹ میں بچوں والی وہ معصومیت تھی جو ماں کویا بھوک میں سرِپستان دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر پھیل جاتی ہے۔ اس نے ایک مشق کی ہوئی احتیاط کے ساتھ پڑھنے والا چشمہ اتار کر میز پر رکھا اور وہاں سے دور والا لگا کر مجھے ایک طرف بغیر ٹیک کے پڑے بنچ کی سمت اشارہ کیا۔ میں جیسے کیِلا گیا تھا چناں چہ مودبانہ چلتے ہوئے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بنچ پر بیٹھ گیا؛ میں بغیر ٹیک لگائے بیٹھ ہی نہیں سکتا تھا اور مجھے حیرت ہوتی جب میں لوگوں کو گھنٹوں بغیر ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے دیکھتا۔

    وہ میری طرف دیکھ کر پھر مسکرایا، اس مرتبہ اس کی مسکراہٹ میں تجسس اور کسی حد تک شک تھا۔ شک کی وجہ شاید میرا حلیہ ہو، میرے بال خاصے لمبے اور بےترتیب تھے، ڈاڑھی بھی چڑیوں کے آندھی سے بکھرے ہوئے گھونسلے سی تھی۔مجھے اس کی مسکراہٹ میں شک کا ہونا فطری سا لگا۔

    جواب میں میَں بھی مسکرا دیا۔ میں نے اپنے چہرے پر خوشامدانہ سا تاثر رکھا۔ اس کی مسکراہٹ میں تبدیلی آ گئی، وہ مجھے مطمئن سا لگا۔ اس نے دور کی نظر والا چشمہ اتارا اور نزدیک والا لگا کر فریم کے اوپر سے میری طرف دیکھا۔ مجھے اس کے ایسے دیکھنے سے ایک انجانے خوف کا احساس ہوا، بالکل ویسے جب میری پنسل گمی ہوتی اور باپ اپنے کسی کام کے سلسلے میں آواز دیتا اورمیں سمجھتا کہ وہ پنسل منگوائےگا۔

    میں نے مسکراہٹوں کی زبان موقوف کرنے کا فیصلہ کیا۔

    ’’مجھے کمرہ چاہیے۔‘‘ اس نے پھر اسی طرح فریم کے اوپر سے دیکھا،وہ مجھے تول رہا تھا۔ پھر اس نے ایک لمبی سانس لی جو مجھے اس کے پیٹ سے چل کر پھیپھڑوں سے ہوتے ہوئے منہ کے راستے باہر نکلتے محسوس ہوئی۔

    ’’کتنے لوگ ہو ؟‘‘

    ’’اکیلا ہی!‘‘

    ’’کسی کو ساتھ رکھنا پسند کروگے؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’ایک کمرہ اور ساتھ جڑا ہوا غسل خانہ ہے۔ کمیٹی کا پانی دن میں تین مرتبہ آتا ہے۔ غسل خانے میں بالٹی، ٹب، مگا اور ایک لوٹا ہیں۔ ڈبلیو سی ہے اور ایک ٹوٹی۔ کمرے میں چارپائی ہے۔‘‘مجھے لگا کہ وہ رٹے رٹائے فقرے بول رہا ہے۔میں نے اس کے علم کا امتحان لینے کا فیصلہ کیا۔

    ’’چارپائی بان کی ہے،منج یا سوتری کی؟‘‘

    اس نے تیزی کے ساتھ میری طرف دیکھا۔ میں اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر حیرت اور خوشی میں ڈوبی ہوئی ایک پراسرار سی مسکراہٹ پھیل گئی جیسے رات کے وقت گیلے کھیت کے اوپر چمکتے جگنوؤں کا فرش دیکھتے ہوئے میرے ہونٹوں پر پھیل جایا کرتی تھی۔

    ’’مُنج کی۔‘‘ اب اس کی مسکراہٹ میں شرارت تھی۔

    ’’ادوائین؟‘‘

    ’’سن کی۔‘‘اب اس کی مسکراہٹ میں بے دلی سی تھی اور وہ بےچینی کے ساتھ میز پر رکھے ہوئے چشمے کو بار بار چھو رہا تھا۔ مجھے لگا کہ وہ اپنی سوچ اور مسکراہٹ کے درمیان میں فیصلہ ڈال چکا ہے۔

    ’’چارپائی ڈھیلی ہے یا کسی ہوئی؟‘‘ کیا میں اس سیچویشن کو ایک فارس میں تو تبدیل نہیں کر رہا تھا؟

    ’’تمھیں کیسی چاہیے؟‘‘

    شاید وہ بھی مقابلے پر اتر آیا تھا۔ اس کے پاس عمر اور میرے خیال میں مطالعے کا تجربہ تھا جب کہ میں سفر کی دولت سے مالامال تھا۔

    ’’دیکھیں محترم۔۔۔‘‘

    ’’میرانام نوازش ہے۔‘‘ اس کے لہجے میں بکواس بند کرو والا تاثر تھا۔

    ’’نوازش صاحب!‘‘ میں نے جھینپتے ہوئے بات جاری رکھی، ’’چارپائیاں تین طرح سے کسی جاتی ہیں۔ایک جو بالکل پھٹا بن جاتی ہیں جن پر بیٹھ کرصرف بات چیت ہی ہو سکتی ہے۔ دوسری جو ذرا سی ڈھیلی ہوتی ہیں اور جن پر سویا جا سکتا ہے۔ تیسری اتنی ڈھیلی کہ ان پر کتے ہی سو سکتے ہیں۔ میں چارپائی دیکھ سکتا ہوں؟‘‘ میں نے ہلکے سے جوش اور اشتیاق کے ساتھ کہا۔

    ’’کیوں نہیں؟‘‘ اس نے دکان کے باہر بنی ہوئی سیڑھیوں کی طرف اشارہ کیا جنھیں میں نے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ میں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر گیا۔ غسل خانے کا دروازہ بند تھا اور اندر سے گیلی لکڑی کی سی بو آرہی تھی۔ کمرے کے وسط میں چارپائی پڑی تھی۔ میں نے درمیان میں ہلکا سا بوجھ ڈالا تو اس میں زیادہ لچک محسوس نہیں ہوئی، پھر میں نے ادوائین کو دبایا تو اس میں کسے جانے کی ہلکی سی گنجائش تھی۔

    میں نیچے آیا تو نوازش دل چسپی کے ساتھ مجھے دیکھ رہا تھا، اس کے ہونٹوں پر شریر سی مسکراہٹ تھی۔

    ’’چارپائی دیکھی؟‘‘ مجھے لگا کہ وہ قہقہہ لگا دے گا۔

    ’’جی ہاں!‘‘ میں نے اس کے شرارت اور تمسخر والے لہجے کا جواب انتہائی سنجیدگی میں ڈھونڈا۔

    ’’ٹھیک لگی؟‘‘ وہ سنجیدہ ہوگیا تھا لیکن اس کا سوال شرارت اور تمسخر لیے تھا۔

    ’’جی ہاں!‘‘ میں بھی وہی سنجیدگی اختیار کیے رہا۔

    ’’غسل خانہ دیکھا؟‘‘ اب اس کی آواز میں سنجیدگی تھی۔

    ‘‘جی نہیں!‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’میں صرف چارپائی دیکھنے گیا تھا۔‘‘

    میں ابھی تک کھڑا ہوا تھا۔ نوازش نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اس کے اشارے،چہرے اور آنکھوں میں سنجیدگی تھی۔میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بنچ پر بیٹھ گیا۔ نوازش مجھے غور سے دیکھ رہا تھا،اس کے انداز میں نہ تو حیرت تھی اور نہ ہی جارحیت، وہ ایک عجیب سی نظر سے مجھے دیکھے جا رہا تھا۔

    ’’تم کہیں باہر سے آئے ہو ؟‘‘ اس کی آواز میں کہیں سے تجسس در آیا تھا۔ میں اس کی غیر یقینی قسم کی حالت سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ اس نے پھر سے اپنے سامنے رکھے چشمے کو محسوس کرنا شروع کر دیا تھا۔

    ’’اس کا جواب ہاں ہے اور ناں بھی۔‘‘ میں اب چوہے اور بلی والے کھیل پر اتر آیا تھا۔

    ’’پہلے یہ بتاؤ کہ یہاں کہاں کے رہنے والے ہو؟‘‘

    ’’مولوی شریف کی مسجد والی گلی میں۔‘‘ مجھے لگاکہ کسی نے اس کی شلوار میں بچھو چھوڑ دیا ہے۔ اس نے کچھ خائف اور کچھ تعجب سے میری طرف دیکھا۔ میں اسے چاند سے اتری ہوئی مخلوق لگ رہا تھا۔وہ مجھے دیکھے جا رہا تھا۔

    ’’مولوی شریف والی مسجد کی گلی میں؟‘‘ اس نے آخر کار بات کی۔

    ’’جی ہاں!‘‘

    ’’وہ گلی تو یہاں کے پچھواڑے پر ہے۔ تم کرائے پر کیوں رہنا چاہتے ہو؟‘‘ نوازش سراسیمگی کی کیفیت میں سے باہر آ چکا تھا۔ اس کی نظر اب گلی میں باہر بھی دیکھ رہی تھی۔

    ’’کیوں کہ میں باہر سے آیا ہوں۔‘‘

    میں پھونک مار کر نوازش کوبے ہوش کر سکتا تھا!

    ’’کہاں سے؟‘‘ اس کی آواز میں خوف تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ مجھے وارداتیا سمجھ رہا تھا۔

    ’’کسی خاص جگہ سے نہیں ،بہت ساری جگہوں سے۔‘‘

    مجھے اس کی آنکھوں میں پہلے بےیقینی، پھر یقین اور بعد میں شناخت سر اٹھاتے ہوئے نظر آئی۔اس کے ہونٹوں کے کونوں پر ایک ارتعاش سا محسوس ہوا اور پھر مسکراہٹ نے اس کے چہرے کو بھر دیا؛ مجھے اس میں پھر وجاہت نظر آئی۔

    ’’تم۔۔۔۔ کہیں۔۔۔۔ طفی۔۔۔۔‘‘

    ’’جی ہاں!۔۔۔۔‘‘ میں نے نوازش کی بات کاٹی۔ ’’میں ان کا بیٹا ہوں۔‘‘

    ’’مجھے پہلے ہی پہچان جانا چاہیے تھا، ‘‘وہ جھجکا،’’ تمھارے جانے کے بعد بہت باتیں ہوئیں۔ تمھیں، ’’اس کی ہنسی میں دل چسپی تھی،’’ برا بھلا کہا جاتا رہا۔شاید میں واحد آدمی تھا جو تمھارے بھاگ جانے کے حق میں تھا۔ ‘‘اس کی ہنسی میں ایک سکون تھا،’’کیا کر لیتے یہاں؟ کسی کے گھر سے ایک عورت لے آتے، ہر رات گنجائش سے زیادہ کھانا کھا کر اس پر سواری کرتے اس مقصد کے ساتھ کہ وہ حاملہ ہو جائے۔صبح غسل خانے میں جاکر رات کا کھایا ہوا نکالتے ہوئے آنے والی رات کی سواری کا سوچتے اور ایسے ہی بچے بنانے والی مشین بن کر پرزوں کو تیل دینے کے لیے دوا تبدیل کرتے رہتے۔ یہی ہو رہا ہے۔‘‘ نوازش رکا۔ اس نے اپنے ہونٹوں کے کناروں سے جھاگ جیسی کوئی چیز صاف کی، ’’اس عمر کی یہ قباحتیں ہیں۔‘‘ اس نے لمبی سانس لی، ’’تمھاری ماں یہ صدمہ برداشت نہ کر سکی اور چل بسی۔‘‘ وہ خاموش ہو گیا؛ شاید مجھے انجذاب کا وقت دینا چاہتا تھا۔ میں ایک تسلسل سے اسے دیکھتا رہا۔ ’’تم گھومے پھرے ہوگے؟‘‘

    ’’جی ہاں!‘‘

    ’’کافی؟‘‘

    ’’اچھا کیا۔ یہی زندگی ہے ۔کہیں نہ کہیں شب بسری کے لیے عورت تو مل جاتی ہوگی؟‘‘

    میں خاموش رہا۔

    ’’طفیل تمھاری بہنوں کے گھروں میں رہنے لگا۔تین مہینے کہیں رہ گیا تو چھے کہیں۔پھر وہ اکتا کر واپس آ گیا۔ زندہ تھا اور بس۔میں نے کہا کہ اپنا کچھ سوچو! کہنے لگا بس اب تو انتظار ہے۔ میں نے کہا میرے پاس آبِ حیات کا نسخہ ہے۔کہنے لگا کیا نسخہ ہے۔ میں نے کہا کہ شادی۔ اس کا رنگ فق ہو گیا۔ تم گنتی میں نہیں تھے، اسے تمھاری والدہ کا خوف تھا اور بیٹیوں کا اور دامادوں کا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ اگر وقت آیا تو تمھارے داماد بھی یہی کریں گے۔ تھوڑی تکرار کے بعد وہ مان گیا اور میں نے اسے اب حیات کی بوتل لا دی۔ اس نے گھر بیچا، بیٹیوں کو حصہ دیا اور ابھی تک زندہ ہے۔ دن سارا بیوی کے پاس بیٹھا باتیں کرتا ہے اور۔۔۔۔ ‘‘وہ خباثت سے بھری ہوئی ہنسی ہنسا،’’ اور رات کو اس کی طرف پیٹھ کرکے سو جاتا ہے۔‘‘اس کے ہونٹ شرارت سے کانپ رہے تھے۔ ’’چائے پیو گے ؟‘‘ اور جواب کا انتظار کیے بغیر وہ باہر چلا گیا۔

    نوازش کے پیچھے لڑکا چائے کے دو پیالے لے کر آ گیا۔ اس نے گھونٹ لے کر پیالہ سامنے میز پر رکھا۔

    ’’تم اس سے ملنا مت۔تم اس کی موت کا سبب بھی بن سکتے ہو۔ مجھے اتنا پتا ہے کہ وہ خوش حال زندگی گزار رہا ہے۔‘‘ وہ چائے پینے میں مصروف ہو گیا اور میں پیالہ ہاتھ میں تھامے چائے کے ٹھنڈے ہونے کا انتظار کرنے لگا۔

    ’’تم یہاں رہو گے؟‘‘ اس نے اچانک پوچھا۔ مجھے خود کو مجتمع کرتے ہوئے چند سیکنڈ لگے۔

    ’’رہوں گا۔‘‘میں نے رسان سے کہا۔

    ’’ویسے تو کرایہ ایک ہزار ہے، تم سے سات سو لوں گا۔ بجلی اور پانی کے بل ادا کیے ہوئے ہیں۔ کرایہ ہے ؟‘‘ اس نے فریم کے اوپر سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ میں نے جواب دینے کے بجائے نیم گرم چائے کا گھونٹ لیا اور پھر ایک ہی ڈیک میں پیالہ ختم کر کے میز پر رکھ دیا۔

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’پھر کرایہ کہاں سے ادا کروگے؟‘‘

    ’’آپ دیں گے۔‘‘ میں نے اپنی طرف سے معصومیت کے ساتھ کہا۔ وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔ اس کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔

    ’’بہت خوب بھئی بہت خوب۔ یعنی میرا سر اور میرے ہی جوتے۔‘‘ وہ پھر ہنسنے لگا۔

    میں اس سے کسی حد تک گھبرا سا گیا تھا۔ میں نے چائے کے دونوں پیالے اٹھائے اور اس کی طرف دیکھا۔’’دائیں ہاتھ تین دکانیں چھوڑ کر۔‘‘

    میں پیالے واپس کرکے آیا تو وہ کچھ حیران سا ہوا۔ ’’میرا خیال تھا کہ تم واپس نہیں آؤ گے۔‘‘ میں کھسیانی سی ہنسی ہنسا۔ ’’جو میں نے اندازہ لگایا ہے، تمھیں کمرے کی اس طرح ضرورت نہیں۔جہاں رات پڑی تم وہیں سو سکتے ہو۔ ‘‘نوازش نے ایک آنکھ دباتے ہوئے کہا۔’’ اب نہیں۔ ‘‘میں نے اپنی سخت گرہ کو ڈھیلا کیا۔’’ وہ زندگی گزار چکا ہوں۔ اس زندگی کا تب لطف تھا۔ رات کو بغیر سواری کے خالی پیٹ سوتا رہا ہوں اب ضروت سے زیادہ کھا کے سونا چاہتا ہوں۔ میں بھوکے اور رجے ہوئے کے گو کی بو میں فرق دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’میں ایک بات بتاؤں!‘‘ نوزش نے مجھے ٹوکا۔ میں نے ایسے دیکھا کہ وہ بات جاری رکھے۔

    ’’مقدار کے علاوہ کوئی فرق نہیں ہوتا۔۔۔۔. جس سودے کی تم بات کر رہے ہو وہ کافی مہنگا ہے۔اتنے پیسے ہیں تمھارے پاس؟‘‘ نوازش کے چہرے پر پریشانی تھی، وہ ماتھے پر بل ڈالے سامنے بازار میں دیکھ رہا تھا۔ مجھے اس کے پریشان ہونے کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔

    ’’نہیں ہیں۔‘‘ میں نے جیبوں کو الٹا کر دکھا دیا۔

    ’’بندوبست کرلوگے؟‘‘وہ ابھی تک پریشان تھا۔

    ’’جی ہاں! کرلوں گا۔‘‘ میں نے اس کی پریشانی کم کرنے کی کوشش کی۔

    ’’کہاں سے ؟‘‘ اس نے میری طرف جھکتے ہوئے پوچھا۔

    ’’آپ سے!‘‘ میں نے اعتماد کے ساتھ جواب دیا۔ مجھے لگاکہ وہ پوہلی کے طوفان میں گھر گیا ہے۔ کچھ دیر تک ایسے لگا کہ وہ اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ پھر وہ ایک دم قہقہہ لگا کر ہنس پرا۔ اس کا قہقہہ شفاف، بلند اور بےباک تھا۔

    ’’نوجوان! کمرے کا کرایہ اور تمھاری سواری کا بندوبست میرے ذمے تو تم کیا کروگے؟‘‘ اس نے طنز کیا۔

    ’’جو آپ چاہیں گے!‘‘

    ’’بہت خوب! کتنے دن سے بھوکے ہو؟‘‘ اس کے سوال میں حکم تھا۔

    ’’دو دن سے کم نہیں۔‘‘میں نے شرمندگی پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ بھوکے رہنے میں کوئی خرابی نہیں لیکن اعتراف کرنے کے لیے جرئات کی ضرورت ہوتی ہے جس کا میں کسی طرح اظہار کر گیا۔ مجھے اچانک نوازش سے ایک طرح کی جھجک محسوس ہونے لگی، ایسے لگا کہ وہ ہر طرح سے مجھ پر حاوی ہو رہا ہے۔ مجھے یہ اچھا تو نہ لگا لیکن وہ کسی طرح میری خود اعتمادی کو ختم کر گیا، وہ سنڈی کی طرح مجھے کترے جا رہا تھا۔ مجھے شہر میں کسی کی ضرورت نہیں رہی تھی لیکن اچانک میں نے اپنے آپ کو اکیلا محسوس کرنا شروع کر دیا، ایسے لگ رہا تھا کہ میں اس کا سہارا ڈھونڈ رہا ہوں۔ مجھے اچانک پھیجے کے بارے میں اپنے صبح والے رویے پر شرمندگی ہونے لگی۔ میں نے امید بھری نظر اس پر ڈالی۔ وہ میرے خیالات پڑھے بغیر مجھے دیکھے جا رہا تھا۔مجھے اچانک اپنے خالی پیٹ میں ہلچل مچتے ہوئے محسوس ہوئی۔

    ’’چلو! تمھیں کھانا کھلاؤں۔‘‘

    نوازش کی دکان جہاں ہم بیٹھے ہوئے تھے، نہ تو دکان تھی اور نہ دفتر۔ وہ ایک طرح سے اس کے بیٹھنے کی جگہ تھی جہاں وہ اپنا وقت گزارتا تھا۔ اس کے بیٹھنے کی جگہ کے بالکل سامنے، سڑک کے پار ایک گلی تھی جو شہر کے مشہور اور تاریخی باغ کے پچھلے داخلی دروازے کے سامنے ختم ہوتی تھی۔اس گلی کے آخیر میں نوازش کا گھر تھا۔ دروازے کو تالا لگا ہوا تھا جسے اس نے کھولا۔ چھوٹے سے صحن کو خوب صورتی دینے کے لیے گملوں کی قطاریں رکھی ہوئی تھیں جن میں لگے پودے تازہ اور صحت مند تھے۔ایک کونے میں کھجور کا درخت تھا جسے معمول کی اونچا ئی پر جانے سے روکنے کے لیے اس کے سر کو بار بار کاٹا گیا تھا اور جو ایک طرح کی جھاڑی بن گیا تھا جس پر بیہوں کے لاتعداد گھونسلے تھے اور وہ ان میں آتے جاتے ہوئے مسلسل شور کر رہے تھے جسے میں کھڑے سنتے ہی چلے جانا چاہتا تھا۔ گھر میں کوئی نہیں تھا،اس کی بیوی شاید کسی بیٹے یا بیٹی کو ملنے گئی ہوگی۔

    اس نے ایک کمرہ کھولا۔ ’’یہ میری لائبریری ہے۔ تم اس میں بیٹھو، کتابیں دیکھو لیکن کسی کتاب کو چھونا نہیں۔‘‘ میں نے اس کی آنکھوں میں شرارت دیکھنے کے لیے اس کی طرف دیکھا، وہ سنجیدہ تھا۔ ’’تب تک میں کھانے کو کچھ لاتا ہوں۔‘‘ پھر وہ رک گیا، ’’پہلے تم نہا لو میں ابھی لباس لاتا ہوں۔ ڈاڑھی کل صاف کروا لینا۔‘‘

    میں اس کا ڈھیلا سا پائے جامہ اور کرتہ پہن کر خود کو اجنبی محسوس کر رہا تھا۔ اس کی لائبریری کتابوں سے بھری ہوئی تھی اور میں نے کتابوں کو چھونا تو درکنار دیکھا تک نہیں۔

    ’’کھانا میرے ہاتھوں کا بناہوا ہے۔‘‘میں کھانے کے ذائقے کی تعریف کرنے کی حالت میں نہیں تھا۔بھوک مجھ پر اتنی غالب آ گئی تھی کہ مجھے ہر قسم کے کھانے نے بےلذت لگنا تھا۔

    ’’آپ اکیلے ہی ہیں رہتے ہیں؟‘‘ مجھے گھر میں کسی دوسرے کی موجودگی کا احساس نہیں ہوا۔ ہر چیز اتنی ترتیب سے تھی کہ لگتا تھا جیسے ایک ہی ہاتھوں نے اسے چھوا ہو۔ غسل خانے میں ٹوتھ برش ایک تھا اور تولیہ بھی ایک۔چھوٹے سے برآمدے میں ایک آرام کرسی پڑی ہوئی تھی جس کے ساتھ ایک چھوٹی میز رکھی تھی۔

    نوازش سنجیدگی سے مسکرایا۔ ’’ہاں! میں اکیلا ہی رہتا ہوں۔‘‘ وہ رکا،اس نے اٹھ کر کھڑکی کھولی اور واپس بیٹھتے ہوئے کہا، ’’مجھے اندھیرا اچھا نہیں لگتا، گھٹن کا احساس رہتا ہے۔‘‘

    ’’میں راتوں کو باہر سوتا رہا ہوں۔ کھلی فضا میں سونے کا اپنا ایک مزہ تھا، ایسے لگتا کہ میں آزاد ہو گیا ہوں۔ یہاں تک کہ سردیوں میں بھی کوشش ہوتی کہ باہر ہی سوؤں۔‘‘ نوازش سنجیدگی سے میری بات سن رہا تھا۔ مجھے اب کھانے کا مزہ آنا شروع ہو گیا تھا۔ ’’کھانا آپ ہی پکاتے ہیں ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’ہاں! میں ہی پکاتا ہوں۔‘‘ وہ مسکرایا۔ ’’میں ایک مشکل آدمی ہوں اور میرے ساتھ گزارا کرنا اتنا آسان نہیں۔تین بیٹے تھے اور وہ اپنی بیویوں کے ساتھ اپنے اپنے گھروں میں منتقل ہو گئے، بیوی فوت ہو گئی ہے۔‘‘ وہ رکا، اس کا چہرہ کسی قسم کے تاثر سے خالی تھا۔

    ’’آب حیات کی بوتل۔۔۔۔ ‘‘میں نے معصومیت کے ساتھ فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔ نوازش نے اپنا بلند، شفاف اور بےباک قہقہہ لگایا، ہنستے ہوئے اس کا چشمہ نیچے سرک گیا تھا جسے اس نے بائیں ہاتھ کی انگلی سے ناک پر کیا اور میری طرف دیکھتے ہوئے شرمندگی اور اپنائیت سے مسکرایا۔

    ’’بوتل تو لایا تھا لیکن۔۔۔۔‘‘ وہ پھر ہنسا، ’’ٹوٹ گئی۔‘‘ اس کے چہرے پر عجیب سی کیفیت تھی، وہ کچھ شرمندہ سا تھا اور کسی قدر فخر سے میری طرف دیکھ رہا تھا، جیسے پیغام دے رہا ہو: میں پھر بھی زندہ ہوں!

    ’’پھر اب کیا سوچا ہے؟‘‘ میں نے اسی معصومیت سے پوچھا۔

    ’’کس کے بارے میں؟‘‘ اس کے لہجے میں بھی معصومیت تھی؛ مجھے لگاکہ ہم معصومیت کا کھیل کھیلنے لگے ہیں۔

    ’’آب حیات۔۔۔‘‘ اور میری ہنسی ایسے پھوٹ نکلی جس طرح بادلوں کی گہری تہوں میں سے اچانک سورج چمک اٹھے۔ وہ بھی ہنسنے لگااور ہم ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے دیر تک ہنستے رہے۔ مختصرسے وقت میں ہمارے درمیان میں عجیب سا رشتہ قائم ہو گیا تھا؛ وہ میرے باپ کی عمر کا ہونے کے باوجود میری طرح، شاید مجھ سے بھی جوان تھا۔ وہ دوست نہ ہوتے ہوئے بھی میرا دوست بن گیا تھا۔ اس رشتے کی ڈی ویلوپمنٹ میں اس کا ہی دخل تھا، میں تو کچھ سوچے سمجھے بغیرہی اس کے بیٹھنے کی جگہ میں داخل ہو گیا تھا۔ میں نے اسے کئی ایسے مواقع فراہم کیے کہ وہ مجھے اپنی جگہ سے نکال باہر کرے لیکن اس نے میری ہر کڑوی بات کو مثبت رنگ میں لے کر میری حوصلہ افزائی کی۔

    ’’ایک ہے تو سہی۔۔۔‘‘ وہ جھجکا،تھوڑا سا آگے کو جھکا، ’’یار۔۔۔‘‘پھر اس نے تیزی سے میری طرف دیکھ کر نظر جھکا لی جیسے تائید چاہتا ہو، ’’ساتھ ہی،گلی کے پرلی طرف ایک ۔۔۔’’ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں، ہونٹوں پر معصومانہ سی شرارت والی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے مجھے تھوڑا آگے جھکنے کا اشارہ کیا، وہ خود پہلے ہی آگے کو جھکا ہوا تھا، ’’بیوہ رہتی ہے۔ فرسٹ کلاس اور وہ تیار بھی ہوگی لیکن کوئی بات چلانے والا نہیں۔ میری self respect اجازت نہیں دیتی کہ میں کسی کو کہوں۔ مجھے سیر ویر کا کوئی شوق نہیں لیکن میں صبح روز جاتا ہوں۔ جانتے ہو کیوں؟‘‘ جس رازداری کے ساتھ بوڑھی عورتیں کسی سکینڈل کو زیربحث لائے ہوتی ہیں، نوازش بھی ان کا ڈھنگ اپنائے ہوئے تھا۔ میں نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’وہ اپنی سلاخوں والی کھڑکی میں کھڑی ہوتی ہے۔ جالی کے پیچھے تو آدمی نظر نہیں آتا۔ سو میں اسے روز دیکھتا ہوں۔‘‘میں نے کچھ کہنے سے پہلے لمبی سانس لی ہی تھی کہ اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روک دیا،’’ پہلے مجھے بھی شک گزرا تھا کہ وہ کسی اور کا انتظار کرتی ہوگی لیکن میں چھپ کر اسے دیکھتا رہتا، کبھی push ups کرتے اور کبھی reach ups۔ اس آنکھ مچولی کا فائدہ یہ ہوا کہ مجھے صبح کی سیر کے لیے روز جانا پڑتا ہے۔ نتیجہ دیکھ رہے ہو؟ میری عمر کے لوگ اگلی زندگی کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور میں ۔۔۔‘‘ اس نے دائیں آنکھ دبائی، ’’شادی کا!‘‘

    ’’ آپ تو وارداتیے ہیں۔‘‘ میں نے بائیں آنکھ دبائی اور ہم دونوں دیر تک ہنستے رہے۔

    ’’اب واردات تم نے کرنی ہے۔‘‘ وہ اچانک سنجیدہ ہوگیا۔ تھوڑی دیر پہلے میں اس کے سنجیدہ ہونے کو شاید اہمیت نہ دیتا لیکن آہستہ آہستہ اس نے میرے دل میں گھر کر لیا تھا۔

    ’’وہ کیسے؟‘‘ میں نے گھبراہٹ سے پوچھا۔

    ’’تم میری بات چلاؤ۔‘‘ وہ اچانک ایک نو عمر لڑکے کی طرح شرما گیا۔

    میں نہیں کہہ سکتا کہ ہم دونوں کیوں خاموش ہو گئے؟ شاید ہم نے، جو، کرنے کا سوچا تھا ہم اس کے اہل نہیں تھے یا ہم اپنی اپنی کم اعتمادی تلے دب گئے تھے یا پھر صحیح طرح سے سمجھے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ بھاری امید باندھ لی تھی۔

    میں خاموشی کے ساتھ اٹھ کر باہر نکل آیا۔ صحن میں اندھیرا ہونا شروع ہو گیا تھا، میں نے برآمدے میں نظر دوڑائی تو مجھے سوچ بورڈ نظر آیا۔ میں نے تین سوچ باری باری دباکر برآمدے کی بتی جلتے رہنے دی۔ اس کا قد اونچا تھا اور مجھے پہننے کی عادت بھی نہیں تھی، نزوازش کا پائے جامہ میرے پیروں میں پھنس رہا تھا اورمیں اس الجھن کی پروا کیے بغیر باہر گلی میں آ گیا۔ باغ میں قمقمے اور ٹیوب لائیٹیں جل گئی تھیں۔ باغ کے پچھلے دروازے سے اندر دا خل ہوں تو دائیں طرف ایک بارہ دری ہے جس پر ہم دوست راتوں کو دیر تک بیٹھے گپ اور خر مستیاں کیا کرتے تھے۔ میں نے دروازے میں سے بارہ دری کی طرف جھانکا تو مایوسی کے ساتھ واپس مڑ گیا۔ بارہ دری خستہ حالت میں تھی۔میں ان سالوں جہاں بھی گیا، یہی سننے کو ملا کہ وہ جگہ کبھی دیکھنے والی ہوتی تھی اب تو اس کی حالت خستہ ہو گئی ہے۔ مجھے لگا کہ ہم ہمیشہ ہی خستگی کے دور میں سے گزرتے رہیں گے اور ہمیں کبھی تکمیل نہیں ملےگی۔ مجھے نوازش کے ادھورے پن پر بھی حیرت ہوئی۔ اس کا ادھورا پن اکثر ادھوروں سے مختلف تھا،وہ اپنے ادھورے پن کو مثبت طریقے سے ختم کرنا چاہتا تھا۔ کیا وہ میرے باپ کی طرح کروٹ لے کر سونے کا بہانہ کرکے جاگتا تو نہیں رہےگا؟ کرو ٹ لے کر جاگنا ساتھ لگ کے سوئے رہنے سے کہیں بہتر ہے۔ مجھے ساتھ ہی گلی کے آخری گھر والی عورت یاد آ گئی۔

    میں باغ کے دروازے سے ہٹ کر اس کے گھر کی طرف چل پڑا۔

    ہر طرف بتیاں جل رہی تھیں۔ میں اس کے اندھیرے گھر کے سامنے کھڑا اندر روشنی ڈھونڈنے کی کوشش کرتا رہا۔ مجھے اس اندھیرے میں ایک سکوت کا احساس ہوا، ایسے لگا کہ کوئی اس اندھیرے کو مستقل رکھنا چاہتا ہے۔ مجھے محسوس ہوا کہ شاید گھر والے کہیں باہر گئے ہیں، میں نے دروازے پر لگے تالے کو ڈھونڈنا شروع کردیا لیکن کہیں بھی تالا نظر نہیں آیا۔وہ کھڑکی جس میں سے عورت نوازش کو دیکھا کرتی تھی،بند تھی۔ میں کھڑکی کے سامنے کھڑا اس عورت کو دیکھتا رہا۔ مجھے وہ کچھ گھبرائی سی لگی۔میں کھڑکی کے سامنے سے ہٹ گیا اور بازار کی طرف چل پڑا۔

    دکانیں بند ہو چکی تھیں لیکن بازار میں رات کی رونق اگنا شروع ہو گئی تھی۔ صبح والی مقصدیت کی ایک عجیب سے تساہل نے جگہ لے لی تھی۔ وہاں چلتے لوگوں کو اب زندگی کے نئے رخ کا انتظار تھا، وہ شایداپنی بھوک سے زیادہ کھانا چاہتے تھے۔مجھے اچانک ان کے ساتھ ہم دردی ہو گئی۔مجھے لگا کہ وہ سب قابل رحم لوگ تھے،اتنے نادان کہ صرف حمل ٹھہرانا ہی ان کا نظریۂ حیات تھا۔مجھے ان کی سادگی اور کم علمی پر ترس آیا؛ شاید ان کی نوازش کے ساتھ شناسائی نہیں تھی۔

    میں مولوی شریف کی مسجد والی گلی کی طرف چل پڑا۔

    گلی نسبتاً اندھیرے میں تھی۔میں آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اپنے گھر کے سامنے رک گیا، اندر سے مردانہ، زنانہ اور بچوں کی ملی جلی آوازیں آرہی تھیں۔ مجھے یہ دبا دبا سا شور مانوس اور اچھا لگا۔ میں کچھ دیر وہاں کھڑا ان آوازوں کو الفاظ کی شکل دینے کی کوشش کرتا رہا لیکن کبھی کبھار لگنے والے قہقہے کے سوا کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ میں نے ان کے سکون کو توڑنے کا فیصلہ کرکے دروازہ کھٹکھٹایا تو گھر میں ایک لمحے کے لیے خاموشی چھا گئی اور پھر نسوانی قہقہے کے ساتھ آوازیں دوبارہ زندہ ہو گئیں۔ اسی وقت دروازہ کھلا اور مجھے نوازش سے کوئی دس برس کم عمر والا بےڈول سا آدمی کھڑا نظر آیا۔ نوازش تو ایک عورت کو جیتنے کے لیے اس عمر میں بھی ڈنٹر پیلتا تھا اور مجھے صبح یہاں ملنے والی عورت پر سواری کرتے کرتے اس آدمی کے جسم کی ساخت بھی اس عورت جیسی ہو گئی تھی۔ اس آدمی کے لیے وہ عورت شاید اس نہر کی طرح تھی جس کے پانی کو صرف آبپاشی کے لیے ہی استعمال کیا جاتا ہے۔

    ’’کون پئی؟‘‘ آدمی کی آواز بھاری اور رعب دار تھی۔ میں ایک لمحے کے لیے پریشان ہو گیا۔ مجھے اسی وقت خیال آیا کہ نوازش نے تو میرا نام بھی نہیں پوچھا تھا۔ میں ایک دم ہلکا ہو گیا،بےنام ہونے سے مجھے ایک طرح سے مکتی مل گئی؛ میرے پاس شہر کو چھوڑنے کا پروانہ تھا۔

    ’’میں نے طفیل صاحب سے ملنا ہے۔‘‘ مجھے اپنے جھوٹ پر حیرت اور شرمندگی ہوئی۔میں یہ امید لگائے تھا کہ عورت میرے صبح والے چکر کا بتانا بھول گئی ہوگی۔ اس آدمی نے میری شکل دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا:

    ’’وہ تو اللہ کو پیارا ہو گیا۔‘‘ مجھے یقین نہ آیا۔ ’’بیٹے کے بھاگنے کے چند سال بعد۔‘‘

    ’’اس کی بیوی سے ملا جا سکتا ہے؟‘‘میں نے پوچھا۔

    ’’وہ تو اس سے پہلے چلی گئی تھی۔‘‘ یہ بتاتے ہوئے کرنا لیہ بھی اتنا ہی پر اعتماد تھا جتنا کہ نوازش۔

    میں مزید کچھ کہے بغیر بازار کی طرف چل پڑا؛ شاید میں سانپ ہی تھا!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے