دھنک
کہانی کی کہانی
یہ ایک جج کے ایسے بیٹے کی کہانی ہے، جو اپنے شوق کے لیے بغیر کوئی امتحان پاس کئے ریلوے میں بھرتی ہو جاتا ہے۔ اسے ایک اسٹیشن پر ٹکٹ کلکٹر کی پوسٹ دی جاتی ہے۔ وہاں کام کرتے ہوئے اسے ریلوے کی بہتری کے طرح طرح کے خیال آتے رہتے ہیں۔ ان میں سے ایک خیال پر وہ عمل بھی کرتا ہے۔ مگر اس عمل کو کرتے ہوئے ایک روز ایک ایسا حادثہ پیش آتا ہے کہ اس کی آنے والی زندگی کے سبھی خواب بکھر جاتے ہیں۔
صبح کاذب سے آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے اور دم بدم ان کی سیاہی بڑھتی جا رہی تھی، یہاں تک کہ طلوع آفتاب کی جھلکیاں بھی کالی گھٹاؤں کے پردے میں روپوش ہو گئیں۔ پہلے، مینہ رقاصہ کے گھنگھرؤں کی طرح رم جھم رم جھم برستا رہا، لیکن تھوڑی دیر بعد تیز ہوگیا، اتنا تیز کہ جل تھل بھر گیے، ندی نالے بہہ نکلے اور کچے مکانوں کے گرنے کی آوازیں آنے لگیں اور جوں جوں دن کی عمر بڑھتی جاتی، دھونتال پانی اور تاریکی میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔ پھر یکایک موسم میں تبدیلی ہو گئی، گویا قادر مطلق نےکوئی کل موڑ دی۔ بارش رک گئی، بادل چھٹ گیے اور سارے گاؤں میں اجالا پھیل گیا۔
اس نے پھاٹک پر کہنیاں ٹکا دیں اور مغرب کی طرف دیکھا۔ تیسرا پہر شروع ہو چکا تھا۔ بھیگے ہوئے درختوں پر سورج کی سنہری کرنیں ناچ رہی تھیں۔ اللہ کا وسیع و نیلگوں آسمان شفق زار بنا ہوا تھا اور اس کے ایک جانب صاف ستھرے نازک سے آنچل پر دھنک کھلی ہوئی تھی۔ ایک کمان کی مانند، جس کی گولائی اور دلفریبی نے اسے بے حد مسحور کیا اور پھر اس میں رنگینیاں بھی تو تھیں، جیسے بے شمار حسین و جمیل پریوں کو لطیف و ریشمیں لباس پہناکر دھنک کے نصف دائروں میں آراستہ کر دیا گیا ہے۔ ایک دو تین۔۔۔ وہ ان رنگ برنگے دائروں کو گننے لگا۔ بنفشی، نیلا، سبز، نارنجی اور سرخ۔۔۔ اور اس کا خیال ان خوش رنگ لہریوں سے چند لمحات یونہی کھیلتا رہا کہ دفعتاً اسے بچپن کی ایک بات یاد آئی۔
مینہ رکنے کے بعد دھنک نکل آئے تو پھر ڈراؤنی گھٹائیں نہیں اٹھتیں، اندھیرا نہیں چھاتا۔ بارش بھی بے انتہا نہیں ہوتی اور اب تو بچے بھی اپنے اپنے گھروں سے باہر نکل کر کیچڑ اور پانی سے کھیلنے لگے تھے۔ اجالا پھیل گیا تھا اور دھنک نکل آئی تھی! بچپن کی کہاوت سچ ہی ہے۔ اب سیلاب نہیں آئےگا، بارش طوفان بپا نہیں کرےگی اور اس نے اپنے دل میں کہا کاش یہ دھنک میرے لیے نیک شگون ہو! میری زندگی بھی تو آج کے دن کی طرح ہے۔ میری مسرتوں اور آرزوؤں پر بھی تو گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں۔ کیا خبر، اب دھنک نکلنے والی ہو، ایسی ہی خوشنما اور جلوہ زا، جیسے وہ سامنے! اور پھر میری زندگی کا آسمان صاف ستھرا ہو جائے بادل اور تاریکی نہ رہیں۔
اس کا نام ملک راج سانیال ہے اور یہ جسٹس تلک راج سانیال کا لڑکا ہے، جن کی کبھی متھرا میں بڑی شہرت تھی اور لوگ ان کی ایمانداری اور شرافت کی وجہ سے ان کی بڑی عزت کرتے تھے۔ جسٹس مرحوم کی کوٹھی اسٹیشن کے قریب تھی۔ ریلوں کے ہنگامے دن بھر میں بیسیوں مرتبہ نظر کے سامنے ہوا کرتے تھے اور ملک راج سانیال کو ان ہنگاموں میں بڑا مزا آتا تھا۔ پلیٹ فارم پر ٹنگی ہوئی گھنٹیوں کی مقررہ ضربات، کبھی اَپ کبھی ڈاؤن سگنل، انجنوں کی سیٹیاں، ریلوں کی گڑگڑاہٹ، مسافروں کی گہماگہمی اور رات کو لال سبز روشنیوں کے جلوے، غرض اس پر شور اور رنگ برنگی دنیا سے اسے بڑی دلچسپی تھی اور جب بھی موقع ملتا وہ پلیٹ فارم پر پہنچ کر اسٹیشن کی سرگرمیوں سے خوب لطف اٹھاتا تھا۔ مسافر گاڑیاں اسے بڑی اچھی معلوم ہوتیں۔ کالے سیاہ قوی ہیکل انجن کو وہ بہت غور سے دیکھتا جو اپنے مقابلے میں ایک قلیل الجثہ آدمی کا تابع فرماں تھا اور جس کے ذرا سے اشارے پر اس عظیم و جسیم آہنی دیو کی پوری قوت حرکت میں آجاتی تھی، گویا وہ بےداموں کا غلام ہے۔ سرتابی یا تاخیر کی اس میں بالکل جرأت نہیں۔
ملک راج سانیال سوچتا بڑا ہوکر میں بھی ڈرائیور کیوں نہ بنوں؟ یہ نوکری کتنی اچھی ہے! پہاڑ کا پہاڑ اپنے قابو میں ہوگا۔ دوسروں کے لیے یہ کتنا ہی خونخوار اور منہ زور کیوں نہ ہو، ڈرائیور کے تو بالکل بس میں رہتا ہے۔ اس نے ذرا سی جنبش کی اور یہ زور سے چیخا۔ گویا اپنی دل ہلا دینے والی طاقت اور ڈرائیور کی اطاعت کا اعلان کر رہا ہے اور آناً فاناً چھک چھک کرتا، ہوا سے باتیں کرنے لگا۔ ڈرائیور کا عہدہ بھی تو بڑا ہے! اتنی ساری گاڑیوں اور بےشمار انسانوں کو جولیے چلا جاتا ہے۔ مگر ایک بات اسے بہت ناپسند تھی۔ ڈرائیور کے کپڑے ہمیشہ بےڈھنگے اور میلے ہوتے ہیں اور اس کے چہرے مہرے سے ہرگز یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ اس کی محنت کا معاوضہ اسے سات آٹھ سو روپے ماہوار ملتا ہے۔ اتنی بڑی تنخواہ کا خیال آتے ہی اس کے دل میں کچھ خوشی سی ہونے لگتی ہے۔ جیسے سچ مچ اس نے اپنے لیے ایک عمدہ نوکری ڈھونڈلی ہے۔
بعد میں اسے معلوم ہوا کہ میل ڈرائیور بننے کے لیے تو جوئے شیرلانی پڑتی ہے۔ سالہا سال تک ریلوے شیڈ میں بڑی محنت اور طاقت کا کام کیا جاتا ہے۔ مزید برآں ٹریننگ کے دوران، شام کو کام کرکے فارغ ہوئے تو کپڑوں کے ساتھ ہاتھ منہ بھی کالک اور سیاہی میں بھر جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد اس سے نجات ملی تو سفر اور انجن کی صعوبتیں رہا سہا کس بل نکال دیتی ہیں۔۔۔ اس نے اپنے آپ پر ایک نظر ڈالی۔ اس کی نازک طبیعت اور پھول سا جسم یہ سب کچھ کیسے برداشت کر سکتا ہے؟ بھاری بھاری کل پرزے وہ کہاں اٹھا سکےگا؟ کوئلے اور تیل کی کلونس میں اس کا سرخ و سپید بدن بھی تو بدنما ہو جائےگا اور یہ انجن کا ہیبت ناک پیٹ! ضرورت ہونے پر اس میں اترنے سے اس کا دل نہ دہل جائےگا؟ اور اس کی ہمت ٹوٹ گئی، اس نے فیصلہ کرلیا کہ میں ڈرائیور ہرگز نہیں بنوں گا۔
لیکن اس کا دل ریلوں سے اچاٹ نہیں ہوا۔ جنکشن کی بوقلموں دلفریبیاں اس کے لیے اب بھی قائم تھیں۔ اسٹیشن سے اسے ایک حد تک عشق ہو گیا تھا اور اسے گھڑی گھڑی ایسا معلوم ہوتا کہ کسی نے اسے سرخ سنگریزوں سے پٹے ہوئے پلیٹ فارم پر لاکھڑا کیا ہے اور بہ اصرار کہہ رہا ہے، ’’یہی تمہارا دائرہ حیات ہے۔ یہیں تمہیں اپنے لیے جگہ بنانی ہوگی، تم ابھی سے اپنا کوئی ٹھکانہ تلاش کر لو۔‘‘ اور وہ اپنے دل میں کہتا، ’’یہ ٹھیک ہے، یہ ٹھیک ہے۔ ریلیں میری رگ رگ میں سما گئی ہیں، مجھے ان ہی کی نوکری کرنی ہے۔ تو کون سا عہدہ سوچ لوں؟‘‘
پھر اس کی سطح ذہن میں ایک اور نقش ابھر آیا۔ وہ اینگلو انڈین گارڈ مائیکل! گرمیوں کی سفید اور سردیوں کی سیاہ وردی میں وہ نہایت چست و چالاک اور خوبرو معلوم ہوتا ہے۔ اس نے سوچا گارڈ کا عہدہ بےشک عمدہ ہے۔ بائیں بغل میں لپٹی ہوئی لال جھنڈی، دائیں ہاتھ میں لہراتی ہوئی سبز جھنڈی، منہ میں چیل کی طرح چلچلانے والی سیٹی اور سر پر شاندار ہیٹ جس کے آگے سرخ بانات پر گارڈ کا چمک دار نشان۔ یہ سراپا اسے بہت اچھا معلوم ہوا اور پھر گارڈ، ڈرائیور سے برتر بھی تو ہے۔ بغیر اس کی مرضی کے ڈرائیور ایک انچ نہیں ہل سکتا۔ گارڈ جب چاہے ریل چلائے، جہاں چاہے روک لے اور اسے اپنے دل میں اطمینان ہو گیا۔ واقعی ڈرائیور تو مجبور ہے، پھر ایسی نوکری سے فائدہ؟ وہ تو گارڈ ہی بنےگا۔ جو ساری ریل کا مالک ہوتا ہے۔ واقعی یہ عہدہ نہایت اہم ہے۔
اور جب وہ زندگی کی ذمہ داریوں کو سمجھنے کے لائق ہو گیا تو اسے ایک نئی بات معلوم ہوئی۔ وہ گارڈ تو بن ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ جسٹس سانیال اس ملازمت کے خلاف ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ملک راج بھی ان کی طرح جج بنے اور وہ لوگوں کو کہتے ہوئے سنیں، ’’ملک راج لائق باپ کا بیٹا ہے۔‘‘ اس سے ان کو کتنی خوشی ہوگی! کتنا افتخار محسوس ہوگا۔ لیکن ملک راج کو قانون اور انصاف سے دلچسپی نہیں ہے۔ اس کی رائے میں یہ الفاظ بے معنی ہو گیے ہیں۔ ان کا مفہوم گم ہو گیا ہے۔ ان دائروں کے مرکز کسی نے مٹا دیے ہیں۔ اس نے کچہری کی قانونی فضا میں حق و صداقت کو دم توڑتے دیکھا ہے۔ اسے یاد ہے کہ ایک دفعہ ایک مظلوم عورت کے ساتھ اس کا باپ بھی، جو حددرجہ ایماندار منصف ہے، انصاف نہیں کر سکا۔ مخالف وکیل کی بحث اور ان ثبوتوں کی موجودگی میں جو کسی نہ کسی طرح بہم پہنچا دیے گیے تھے، جسٹس سانیال بے بس رہ گیے۔ پھر بھی وہ اپنے بیٹے کو ریل کا بابو بننے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اس سے ان کی شان کو بٹا جو لگےگا۔ ان کے نام کی تحقیر جو ہوگی۔ ملک راج بھی تو بڑا ہوکر سانیال ہی کہلائےگا!
جسٹس سانیال کو ریل کی ملازمت خاص طور پر ناپسند ہے۔ کیونکہ انھوں نے جہاں تک مطالعہ اور تجربہ کیا ہے، ریلوے کا عملہ زیادہ تر کم پڑھے لکھے افراد پر مشتمل ہوتا ہے جن کے اخلاق اور کردار کا کوئی اعتبار نہیں۔ اسی لیے ریلوے والوں کو کوئی اچھی نظر سے نہیں دیکھتا، کوئی ان کی عزت نہیں کرتا۔ پھر وہ یہ کیسے گوارا کر لیں کہ ان کا بیٹا جو گریجویٹ بھی ہے، گارڈ بن جائے۔ یعنی بے حیثیت عہدیدار! لیکن وہ کیا کریں؟ آخر نئی روشنی کے باپ ہیں، جو یہ سکھاتی ہے کہ اولاد کی طبیعت کا رجحان نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ وہ مجبور ہو گیے ہیں اور سوائے ایک ٹھنڈا سانس بھر کر یہ کہنے کے ’’کاش اس کا میلان قانون کی طرف ہوتا۔‘‘ وہ اور کچھ نہیں کر سکتے۔
بالآخر انھوں نے ریلوے کے متعلق معلومات حاصل کیں اور کئی ماہ کے تجسس کے بعد یہ تجویز کیا کہ ملک راج کو اے۔ ٹی۔ او۔ (اسسٹنٹ ٹرانسپورٹ آفیسر) بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اے۔ ٹی۔ او۔! ملک راج کے لیے اس معزز عہدے کا تصور بھی مشکل تھا۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ کوئی بہت بڑی کرین اسے بجری کی سڑک سے اٹھاکر کسی بلند مینار کی بلندی پر لے جا رہی ہے اور بیسیوں گارڈ، ٹکٹ کلکٹر، ٹی ٹی ای، اسٹیشن ماسٹر، ٹرافک انسپکٹر اور نہ جانے کون کون گلیور کے بالشتیوں کی طرح اسی بجری کی سڑک پر اس کی جانب مؤدب کھڑے ہیں اور جب وہ اس مینار کی بلندی سے نیچے اتر آیا تو اسے محسوس ہوا کہ وہ تو ڈر رہا ہے۔ جسٹس سانیال کی رائے اسے کوئی خوفناک اقدام معلوم ہوئی۔
وہ مقابلے کا امتحان کیسے دے سکتا ہے؟ اس میں اتنی اہلیت کہاں ہے؟ وہ ان سے متفق نہیں ہے کہ وہ پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر سکتا ہے۔ اس کے احساس کمتری نے اسے اس قدر عاجز جو بنا دیا ہے۔ جسٹس سانیال نے اسے کئی بار سمجھایا کہ تم ایک دفعہ امتحان میں شریک ہو جاؤ، پاس ضرور ہو جاؤ گے، باقی میں سلٹ لوں گا۔ لیکن اس کی اپنے اوپر بےاعتمادی نےاسے امتحان میں شرکت پر آمادہ نہ ہونے دیا اور وہ اپنی کم ہمتی کو چھپانے کے لیے یہی کہتا رہا کہ ’’یہ امتحان بےحد کٹھن ہے۔ سارے ملک کے بہترین دماغ مقابلے میں شریک ہوتے ہیں اور بالفرض میں پاس ہو بھی گیا تو کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ کیونکہ محض پاس ہونے سے تو کوئی اے۔ ٹی۔ او۔ نہیں بن جاتا اور آپ ’باقی‘ کچھ نہیں سلٹ سکتے، اس کے تقرر کے لیے تو غیرمعمولی کامیابی اور امتیاز چاہیے۔‘‘
جسٹس سانیال خاموش ہو گیے۔ انھیں یقین ہو گیا کہ ملک راج پست ہمت ہے۔ کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے کے لیے وہ خود کوئی جدوجہد نہیں کرنا چاہتا۔ آخر ان کی سمجھ میں ایک اور تجویز آئی۔ سعی اور سفارش کے اثر سے وہ بھی بے خبر نہیں تھے۔ چنانچہ وہ بااثر اصحاب کی سفارش حاصل کرنے کی سعی میں لگے رہے۔ لیکن ان کی دوڑ دھوپ کا نتیجہ صرف یہ نکلا کہ اے۔ ٹی۔ او۔ کے بجائے اے، ایس، ایم (اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر) کی آئندہ اسامی کے لیے غور کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ جسٹس سانیال کو بڑی ناامیدی ہوئی۔ ان کی کوششوں کی بس یہی قیمت ہے؟ وہ سوچنے لگے، میں نے اس کام کے لیے کتنی بار سفر کیا۔ ریلوے کے افسروں پر اثر ڈالنے کے لیے کن کن لوگوں کے احسانات لیے۔ ان افسروں کی خوشنودی کی خاطر کتنا کچھ کر ڈالا اور اس قدر تگ و دو کا پھل صرف یہ چھوٹی سی بےمایہ افسری؟
مگر ملک راج کو قدرے طمانیت تھی کہ وہ اے۔ ٹی۔ او۔ نہیں ہو سکا۔ کیونکہ اتنی بڑی افسری کی ذمہ داری کے لیے وہ ہرگز تیار نہیں تھا۔ ریلوں میں حادثات اور واردات جو ہوتی ہیں! وہ اے۔ ٹی۔ او۔ بن جاتا تو جانے کہاں کہاں حیران و پریشان بھاگنا پڑتا۔ اسے تو اس کی بڑی خوشی تھی کہ وہ عنقریب اے، ایس، ایم بن جائےگا۔ اس کا نام جو رجسٹرڈ کر لیا گیا ہے بس آئندہ جو اسامی خالی ہوگی اس پر اسی کا تقرر ہوگا اور یہ عہدہ ہے بھی سب سے اچھا۔ وہ بہت جلد اے، ایس، ایم سے ترقی کرکے ڈپٹی ایس، ایم او پھر ایس، ایم بن جائےگا۔ یعنی تمام اسٹیشن پر اسی کی بادشاہت ہوگی۔ کڈز کلرک، کوچنگ کلرک، یارڈ ماسٹر، لگج کلرک، بکنگ کلرک، نمبر ٹیکر، ٹکٹ کلکٹر، سب اس کے محتاج رہیں گے۔
لیکن وہ ’عنقریب‘ اے، ایس، ایم نہیں بنا۔ انتظار ہی انتظار میں کئی ماہ گزر گیے حتی کہ ملک راج کی عمر پچیس سال ہونے کو آئی اور اس عرصے میں اس کی بجائے دوسرے کئی امیدوار اے، ایس، ایم مقرر ہو گیے۔ پھر ایک دن جسٹس سانیال کا انتقال ہو گیا اور چونکہ وہ شریف اور ایماندار آدمی تھے، اس لیے ان کے مرنے کے تھوڑے عرصے بعد ان کے گھرانے پر مفلسی چھا گئی۔ بیوہ ماں اور چھوٹے بہن بھائیوں کا بوجھ ملک راج کے کندھوں پر آن پڑا۔۔۔ اور وہ ابھی تک اے، ایس، ایم نہیں بنا۔ آخر جب اسے بالکل مایوسی ہو گئی تو ایک روز خلاف توقع اس کے پاس انٹرویو کے لیے بلاوا آیا۔ اس کے روئیں روئیں میں مسرت ناچنے لگی۔ اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا اور وہ فوراً ملاقات کے لیے روانہ ہو گیا۔
جسٹس مرحوم خود بڑے سرکاری عہدیدار تھے اور انھوں نے ملک راج کے لیے چند بڑے آدمیوں کی سفارش بھی پہنچا دی تھی۔ اس لیے جب ان سے بڑی سفارش والوں کی کھپت ہو گئی تو باقی امیدواروں کے ساتھ اس کو بھی انٹرویو کے لیے بلا لیا گیا، لیکن چونکہ دوسرے امیدوار اب پھر تازہ سفارشیں لائے تھے اس لیے ان کو ترجیح دی گئی اور سانیال کی سفارشوں کے پیش نظر اس سے کہا گیا کہ اب شاید سال بھر تک اے، ایس، ایم کی جگہ نہ نکل سکے، اس لیے اگر چاہو تو تمہیں ٹکٹ کلکٹر مقرر کیا جا سکتا ہے۔ سانیال نے ناامیدی اور افسردگی میں اسی کو غنیمت جانا کیونکہ سرکاری ملازمت کے لیے اس کی عمر یوں بھی زیادہ ہو گئی تھی اور گھر کے اخراجات کے لیے آمدنی کا کوئی ذریعہ ہونا فوراً ضروری تھا۔ چنانچہ اسے ایک چھوٹے سے اسٹیشن پر ٹکٹ کلکٹر بناکر بھیج دیا گیا۔
باوجود قلیل تنخواہ کے اس کو تسلی تھی کہ میں ریلوے کا ملازم ہوں جہاں چاہوں بغیر خرچ کیے سفر کر سکتا ہوں۔ رہی تنحواہ تو عام طور پر ایک گریجویٹ کو سو ڈیڑھ سو سے زیادہ ملتے بھی کہاں ہیں؟ مزید برآں اس کا خیال تھا کہ چونکہ ریلوے میں کثرت معمولی پڑھے لکھے لوگوں کی ہے اس سے میں جلدی جلدی ترقی کرکے کسی اعلیٰ عہدے پر پہنچ جاؤں گا۔ سب سے بڑی بات تو اس محکمے میں داخل ہو جانا ہے۔
اسے ریل کی ملازمت کا اس قدر شوق تھا کہ اس کے دماغ میں ہر روز ریلوے کی بہتری کے نئے نئے خیالات آنے لگے۔ وہ بزعم خود سمجھتا تھا کہ میں اپنی نئی نئی ترکیبوں اور تجویزوں سے اس میں چار چاند لگا دوں گا۔ میری وجہ سے اس محکمہ کی بہت شہرت ہوگی اور اپنی ان خوش فہمیوں کو اس نے پہلی بار کشن پور میں عملی جامہ پہنانا چاہا جہاں وہ اپنی ملازمت کے تھوڑے دنوں بعد تعینات ہوا۔
کشن پور ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جس کی آبادی ریلوے اسٹیشن سے تین چار میل دور تھی۔ آنے جانے والے مسافر سب دیہاتی تھے۔ غریب، سادہ لوح اور ہر کام میں بےقاعدہ۔ سواری گاڑیاں دن رات میں صرف تین آتی تھیں مگر جانے والے دیہاتیوں کا ہجوم اکثر بے وقت بھی ہوتا تھا۔ لہٰذا جب کوئی ٹرین اسٹیشن پر آتی تو ریل سے اترنے اور کشن پور سے جانے والے مسافروں کی روک تھام اور ان کے ٹکٹوں کامعائنہ بڑا مشکل ہو جاتا تھا۔ سانیال کی نئی نئی نوکری تھی اور تازہ تازہ جوش۔ وہ سوچنے لگا ان دیہاتیوں کی کسی طرح تربیت کرنی چاہیے۔ انھیں گیٹ میں گزرنے کے آداب سکھانے چاہئیں۔
چنانچہ ریل کے آنے سے پہلے جو لوگ دروازے کے اس طرف برآمدے میں جمع ہو جاتے تھے وہ ان کو ایک لائن میں کھڑا کر دیتا اور کہتا، ’’باری باری آؤ۔۔۔ اپنا ٹکٹ دکھاؤ۔‘‘ لیکن جوں جوں ٹرین پلیٹ فارم کے نزدیک آتی، ان لوگوں کی بےچینی بڑھتی جاتی، حتی کہ جب ریل سامنے آکر رکتی اور اس میں سے دیہاتی مسافر بھیڑ بکریوں کی طرح اترتے تو ان لوگوں کا پیمانہ صبر لبریز ہو جاتا اور وہ ریل بابو کی ہدایت کو بھول کر ایکا ایکی گیٹ پر ٹوٹ پڑتے اور پوری بےقاعدگی اور بے ترتیبی سے فوراً اسٹیشن کے اندر گھس کر ریل میں سوار ہو جانے کے لیے کشمکش کرنے لگتے۔ سانیال ان کو روکنے کی بہتیری کوشش کرتا مگر اس کی سعی، اس کی آواز کی طرح کہ ’’باری باری آؤ، اپنا ٹکٹ دکھاؤ‘‘ اس بے ترتیب انبوہ میں زائل ہو جاتی۔
آخر اس نے اس مشکل کا حل سوچ لیا اور کئی روز کی محنت کے بعد ایک بڑے سے تختے پر طرح طرح کے رنگوں سے موٹے موٹے حروف میں دو جملے لکھے۔ ’’باری باری آؤ۔ اپنا ٹکٹ دکھاؤ۔‘‘ اس کے چاروں طرف اس نے نہایت خوشنما بیل بوٹے بنائے اور پھر اسے گیٹ کے سامنے کی دیوار پر نمایاں جگہ آویزاں کر دیا۔ لیکن یہ دیکھ کر اسے بڑی تکلیف ہوئی کہ اس کے ساتھیوں نے اسے بالکل نہیں سراہا بلکہ ڈپٹی ایس ایم نے نقش و نگار کی تو تعریف کی مگر ان جملوں کے متعلق کہا، ’’آپ نے ناحق اپنا وقت ضائع کیا کیونکہ جن لوگوں کے لیے یہ عبارت لکھی گئی ہے وہ اس کو پڑھ ہی نہیں سکتے۔‘‘ سانیال کچھ نا امید سا ہو گیا اور اس کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ چونکہ میں تعلیم اور خاندانی اعتبار سے ان سے بہتر ہوں اس لیے یہ لوگ مجھ سے جلتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہر روز ایک ہی مقررہ کام یعنی گیٹ پر کھڑے ہوکر ٹکٹ جمع کرنے سے اس کی طبیعت اکتا گئی اور وہ کچھ ہمت سی ہارنے لگا۔
اور اس ایک سال کی ملازمت کے دوران، اسے نئے نئے تجربے ہوئے۔ اس نے اب جانا کہ ریلوے ملازم کیوں عام طور پر اس اینگلواینڈین گارڈ مائیکل کی طرح چست و چالاک نہیں رہتے اور ان کی وردیاں کیوں بےڈھنگی ہوتی ہیں۔ شروع شروع میں وہ بھی اپنی وردی اور چال ڈھال کا بڑا خیال رکھتا تھا۔ لیکن جب حالات نے اسے بتادیا کہ جلدی جلدی ترقی کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے اور اس کی ڈگری سے اب اسے کوئی امتیاز یا فائدہ نہیں پہنچ سکتا تو رفتہ رفتہ اس میں بددلی سی پیدا ہو گئی۔ ریلوے کے تحتی عملے کی بدحالی نے اس کا شوق ختم کر دیا اور ریل کے دوسرے بابوؤں کی طرح اس کے ہیٹ کی سفیدی، سوٹ کی استری اور بوٹ کی پالش کا بھی اہتمام جاتا رہا۔ اس کی رفتار اور بات چیت میں بھی نمایاں تبدیلی ہو گئی اور کم گوئی، ڈھیلے ڈھالے لباس اور لڑکھڑاتی ہوئی چال سے صاف معلوم ہونے لگا کہ اس نوجوان کے دل میں امنگیں نہیں رہیں۔ اسے اپنی نوکری سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یہ اس ملازمت کو اس لیے کر رہا ہے کہ اس کے لیے مجبور ہے۔ اس کو زندگی کی گاڑی یوں ہی دھکیلنی پڑےگی۔ اس کا کوئی دوسرا آسرا نہیں ہے۔
(۲)
لائن کلیر ہوتے ہی اس نے پھاٹک پر سے کہنیاں ہٹا لیں اور مڑکر اژدہام کو دیکھا۔ آج پسنجر ٹرین پر خلاف معمول زیادہ بھیڑ تھی اور ریل میں جلدی سوار ہو جانے کا روایتی اضطراب لوگوں میں پھیلا ہوا تھا۔ لیکن اس سے زیادہ ان کے چہروں اور آنکھوں سے وہ بےکسی اور وحشت ظاہر ہو رہی تھی جو مفلسی اور جہالت کی لازمی پیداوار ہیں۔ ان کی اداس اور بےبس نگاہوں کا سانیال کے دل پر بڑا گہرا ردعمل ہوا اور ریل کے رکتے رکتے جب اترنے اور جانے والے مسافروں میں پرشور تصادم ہونے لگا تو وہ جھنجھلا اٹھا۔ پھر بھی اس نے ہر ممکن طریقے سے ان کو روکنے اور ان کے ٹکٹوں کو جانچنے کی بڑی کوشش کی۔ وہ چیخ چیخ کر کہتا رہا، ’’باری باری آؤ۔۔۔ اپنا ٹکٹ دکھاؤ۔‘‘ لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس وقت ان گاؤں والوں کو اس کا کوئی ڈر نہیں ہے۔
انھیں تو یہ اندیشہ ہے کہ جگہ بھر جائے گی یا ریل چھوٹ جائےگی اور جب اسے یہ محسوس ہوا کہ ان دیہاتیوں، ان جاہل حیوانوں کو بھی اس کی پروا نہیں ہے تو اس کا پیمانۂ صبر چھلک گیا اور طیش و غضب نے اس پر دیوانگی طاری کر دی۔ معاً اس نے کونے میں بھنچے ہوئے ایک دیہاتی کو دیکھا جو باوجود بڑھاپے کے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے اس کی گردن پکڑ لی اور اچانک، ایک بے ہنگام چیخ کے ساتھ اس کو دھکا دے دیا۔ وہ بیچارہ اس غیرمتوقع دھکے سے بھونچکا سا رہ گیا اور ابھی وہ سمجھنے بھی نہ پایا تھا کہ یہ کیا ہو گیا کہ آن کی آن میں ٹکٹ بابو بھوکے شیر کی طرح اس پر ٹوٹ پڑا۔ پھر تو گویا طغیانی سے بے قابو دریا کا بند ٹوٹ گیا اور سانیال کے منہ سے غریب اور جہلا کے لیے وہ تمام مغلظات نکلنے لگیں جو ایک عرصہ سے امیروں اور اپنے سے بہتر لوگوں کے لیے اس کے انجان ذہن میں جمع ہو رہی تھیں۔ گالیوں کے ساتھ ساتھ وہ اس غریب دیہاتی کو بری طرح مارے بھی جا رہا تھا۔ جیسے وہ اپنی تمام مایوسیوں اور ناکامیوں کا غصہ ان بیچارے دیہاتیوں کی بےترتیبی اور بےقاعدگی کے بہانے اس ایک کمزور ہستی پر اتارنا چاہتا ہو۔
لوگ سہم کر پرے کھڑے ہو گیے تھے اور وہ بوڑھا اپنے لبیری دہقانی کپڑوں میں لپٹا ہوا بغیر کسی مدافعت کے پٹے جارہا تھا۔ بس رک رک کر اس کے منہ سے یہ بات نکل رہی تھی، ’’بابوجی۔۔۔ مجھے جانے دو۔۔۔ میری ریل چھوٹ جائےگی۔‘‘ اس کا لٹھ اور زادراہ ایک طرف لڑھک گیا تھا اور اس کی معصوم نگاہیں چوٹ اور گالیوں کے باوجود اس بےرحم سے التجا کیے جا رہی تھیں، ’’بابو۔۔۔ مجھے چھوڑ دو۔۔۔ میری ریل۔۔۔‘‘
اور دفعتاً ایک بار رعب اور بلند آواز سن کر سانیال اپنے آپے میں آ گیا اور اس کی دیوانگی فرو ہو گئی۔ کوئی انتہائی تعجب اور غصے میں کہہ رہا تھا، ’’یہی وہ جنگلی ہے جس کی ہم نے آج ٹی۔ ٹی۔ ای بنانے کی سفارش کی تھی؟‘‘
سانیال نے خالی الذہن ہوکر اس مجرم کی طرح، جسے یکایک اپنے سنگین جرم کا احساس ہو جائے گھبرائی ہوئی نظروں سے دیکھا کہ اس کا ہم عمر، اے۔ ٹی۔ او۔ اسٹیشن ماسٹر سے کچھ اور کہتا ہوا اپنے سیلون کی طرف جا رہا تھا۔
ٹکٹ بابو کو سنبھلتا دیکھ کر مسافروں کی ذرا ہمت بندھی اور وہ پھر چوروں کی طرح دبے پاؤں گیٹ کی جانب برھنے لگے۔ مظلوم صورت سانیال ساکت و جامد کھڑا تھا۔ اس کے ہوش و حواس گم ہو گیے تھے، بس اس کے منہ سے وہی الفاظ اس طرح ہولے ہولے ادا ہو رہے تھے جیسے کسی بے جان مشین میں سے آواز آ رہی ہو ’’باری باری آؤ۔۔۔ اپنا ٹکٹ دکھاؤ۔‘‘
اور سامنے آسمان کے شفق زاروں سے دھنک آہستہ آہستہ رخصت ہو رہی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.