دھرماتما
رام محل ریسٹورنٹ کے سامنے حسبِ معمول بھکاریوں کی ایک لمبی قطار لگی ہوئی تھی۔ بھوکے، مریل اور پھٹے حال لوگ، آنکھوں میں وحشت، ہونٹوں پر گالی اور بدن پر چیتھڑے۔ مرد، عورتیں، بوڑھے، بچے سب ریسٹورنٹ کے کنارے کنارے فٹ پاتھ پر ایک لمبی قطار میں بیٹھے کسی دھرماتما کا انتظار کر رہے تھے کہ کوئی آئے اور ان کے خالی پیٹوں کے لیے دو روٹی کا انتظام کر دے۔ وہ ہوٹل میں داخل ہونے والے ہر شخص کو پرامید نظروں سے دیکھنے لگتے۔ کبھی کبھی گردنیں اٹھا کر کاؤنٹر پر بیٹھے اس موٹے کالے کلوٹے شخص پر بھی ایک نظر ڈال لیتے جو گاہکوں سے پیسے لینے اور دینے میں اس قدر منہمک تھا کہ اسے ان لوگوں کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے کی بھی فرصت نہیں تھی۔ اگر یونہی کسی کار یا ٹیکسی کے بریک چرچراتے تو سارے بھکاری چونک چونک کر ادھر دیکھنے لگتے اور جب کار آگے بڑھ جاتی تو ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سی دردناک مایوسی اتر آتی۔
ہوٹل کے کچن سے کھانوں کی خوشبو اڑ اڑ کر انہیں پاگل کیے دے رہی تھی۔ ان کے نتھنے بار بار اس طرح پھول پچک رہے تھے جیسے وہ کھانوں کی اشتہا انگیز خوشبو کو اپنی سانسوں میں سمیٹ لینا چاہتے ہوں۔ ہوٹل کے اندر سے گاہک اپنی مونچھوں پر تاؤ دیتے، منہ پونچھتے، دانتوں میں خلال کرتے نکلتے نظر آرہے تھے۔ جب بھی کوئی گاہک کھا پی کر ہوٹل سے نکلتا، بھکاریوں کی ملتجی آوازیں دور تک اس کا پیچھا کرتیں۔
’’بابا! اللہ کے نام پر۔۔۔‘‘
’’سیٹھ جی! ایشور کے نام پر۔۔۔‘‘
’’اللہ تمہاری کمائی میں برکت دے۔‘‘
’’بچہ صبح سے بھوکا ہے مالک۔۔۔‘‘
مگر کوئی بھی ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتا تھا۔ وقت گزرتا جا رہا تھا۔ گاہکوں کی بھیڑ بڑھتی جا رہی تھی۔ ساتھ ہی بھکاریوں کی بے چینی میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اتنے میں ایک سیاہ مرسڈیز آکر ٹھیک ہوٹل کے سامنے رک گئی۔ بھکاری اپنی سانسیں روکے ہوئے اس کار کو دیکھنے لگے۔ کار کا درواز کھلا اور ایک بے حد موٹا شخص، کوٹ دھوتی پہنے ہوئے کار سے برآمد ہوا۔ ڈرائیور اتر کر کار کا دروازہ کھولے کھڑا ہو گیا۔ اگلی سیٹ سے ایک دبلا پتلا شخص بھی کار سے اترا۔اس کی بغل میں ایک بریف کیس تھا۔ اور وہ شکل و صورت سے سیٹھ کا منیم معلوم ہو رہا تھا۔ سیٹھ نے پلٹ کر اس سے کہا۔’’نہیں، منیم جی! تم اندر ہی بیٹھو۔ جو میرا کرتویہ ہے مجھے ہی نبھانے دو۔‘‘
منیم دوبارہ کار میں بیٹھ گیا۔ سیٹھ جی، اپنی موٹی توند سنبھالتے ہوئے ہوٹل کی طرف بڑھے۔ بھکاریوں میں کھلبلی مچ گئی۔ سیٹھ جی ہوٹل میں داخل ہوگئے۔ اور کاؤنٹر پر بیٹھے موٹے شخص سے دھیرے دھیرے کچھ کہنے لگے۔ پھر جیب سے نوٹوں کی گڈی نکالی اور چند نوٹ نکال کر کاؤنٹر پر رکھ دیے۔ موٹے شخص نے نوٹ گنے اور دراز میں رکھ دیے۔ پھر ایک ویٹر کو آواز دی۔
’’رامو! بیس پلیٹ دال چاول۔ ان حرامجادوں کو بولنا گونگاٹ (شور) مت کرو۔ لائن سے بیس آدمی لینا ۔ کیا۔‘‘
رامو گردن ہلاتا ہوا باہر نکلا۔ سیٹھ جی بھی اس کے ساتھ ہی باہر آکر کھڑے ہوگئے۔ بھکاریوں میں ہنگامہ تھا۔ رامو نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔
’’اے سنو! لائن سے بیس آدمی کو ادھر آنے کا ہے۔ سیٹھ جی نے بیس آدمی کا آرڈر دیا ہے۔‘‘
سیٹھ جی اپنے کوٹ کی دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑے تھے۔ اور ان کے ہونٹوں پر ایک فخریہ مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔
’’دیکھو! گڑبڑ بالکل نہیں منگتا۔ہاں۔۔۔‘‘ویٹر بھکاریوں کی طرف دیکھ کر چیخا۔
’’ادھر بھکاریوں میں زبردست افراتفری مچی ہوئی تھی۔ ہر کوئی اگلے بیس میں شامل ہونے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھا۔ بچے چیخ رہے تھے، عورتیں چلا رہی تھیں، جو جسمانی طور پر قوی تھے وہ کمزوروں کو پیچھے دھکیلتے لوگوں کو روندتے کچلتے آگے بڑھنے کی کوشش کررہے تھے۔ فٹ پاتھ کے نیچے سڑک پر راہ گیروں کی بھیڑ اکٹھا ہو گئی تھی۔ لوگ بھکاریوں کی اس دھکم پیل کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔
آخر ویٹر کو مداخلت کرنی پڑی۔ اس نے گالیاں بکتے ، ٹھوکریں مارتے بڑی مشکل سے بیس بھکاریوں کو الگ کیا اور انہیں پہلی قطار میں بٹھا دیا۔ باقی بھکاری منہ لٹکائے ، اپنے منتخب ساتھیوں کو رشک اور حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
دھیرے دھیرے ہنگامہ فرو ہوگیا۔ فٹ پاتھ کے نیچے کھڑی تماش بینوں کی بھیڑ بھی چھٹنے لگی۔ ویٹر اگلے بیس لوگوں کو پلاسٹک کی رکابیوں میں دال چاول تقسیم کر رہا تھا۔ بھکاری کھانے پر ٹوٹے پڑ رہے تھے۔ دوسرے بھکاری عجیب للچائی نگاہوں سے اپنے ساتھیوں کو کھانا کھاتے دیکھ رہے تھے۔ ان کی آنکھوں میں ایسی وحشت تھی کہ اگر ان کا بس چلتا تو وہ اپنے ساتھیوں کی بوٹیاں نوچ لیتے۔
ادھر ڈرائیور منیم سے پوچھ رہا تھا۔’’منیم جی! ہڑتال کو کتنے دن ہو گئے؟‘‘
’’بارہ۔۔۔‘‘
’’جس دن سے ہڑتال شروع ہوئی ہے، اپنے سیٹھ جی بہت دان پُن کرنے لگے ہیں۔‘‘
’’ہاں ! انہوں نے منّت مانی ہے۔ ہڑتال ختم ہونے تک وہ روزانہ بیس بھکاریوں کو کھانا کھلائیں گے۔‘‘
’’بیس ہی کیوں؟‘‘
’’اس لیے کہ اگر ہڑتال فیل ہوگئی تو سیٹھ جی کو بیس کروڑ روپئے کا فائدہ ہوگا۔‘‘
’’اوہو!‘‘ بیس کروڑ کے نام پر ڈرائیور کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ اتنے میں سیٹھ جی ایک آسودہ مسکراہٹ کے ساتھ کار کی طرف آتے دکھائی دیے۔ ڈرائیور نے جلدی سے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا۔ سیٹھ جی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ کار ایک جھٹکے سے آگے بڑھ گئی۔
’’سالا، ملک میں آج بھی کتنی گریبی ہے۔‘‘سیٹھ جی نے اپنی توند پر ہاتھ پھیرکر ایک ڈکار لیتے ہوئے کہا۔
منیم، جی ہاں، جی ہاں کے انداز میں گردن ہلانے لگا۔
ڈرائیور نے شیشے میں سے سیٹھ جی پر ایک نظر ڈالی۔ اسے لگا سیٹھ جی کا باہر کو جھانکتا ہوا سونے کا دانت کچھ زیادہ ہی لمبا ہوگیا ہے۔ اس نے گھبرا کر بریک لگائے۔ایک آدمی گاڑی کی زد میں آتے آتے بال بال بچ گیا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.