Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دھن چکر

MORE BYمحمد امین الدین

    اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں اس سانحے کی کہانی لکھوں یا نہ لکھوں جسے برپا ہوتے ہوے شہر کی ایک گلی کے سنسان موڑنے، ہسپتال کے آپریشن تھیٹر میں انسانی جسموں سے اعضا نوچ لینے والے اوزاروں نے، جوئے کے اڈے میں پھیلے ہوے کثیف دھوئیں نے، پانچ ستارہ ہوٹل والے کمرے کے دبیز پردوں نے، اس ہوٹل کی لابی میں لٹکے ہوے بڑے فانوس کے چمکتے دمکتے ہیرے نما شیشوں نے، جم خانہ کے لان میں مہکتے پھولوں نے یا جامع مسجد کے صحن میں انسانی سجدوں سے زیادہ سجدہ ریز ماربل کی سلوں نے اپنی نادیدہ بصارتوں سے خود دیکھا تھا اور اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ اس واقعہ کو پڑھتے ہیں یا نہیں، کہ جس کے برپا ہونے کی اولین ساعتوں سے آخری لمحے تک گھاٹے کا سودا صرف ایک ہی شخص نے کیا تھا، باقی تو سارے فائدے ہی کے سودے تھے۔

    یہ قصہ اس وقت شروع ہوا جب حالات کے مارے رکشہ ڈرائیور نے اخبار کے ٹکڑے پر رکھے پکوڑے کھاتے ہوے اسی پر چھپی ایک خبر پڑھی کہ شہر میں گردے بیچنے کا کاروبار عروج پر پہنچ گیا ہے۔ تب اسے بھی اپنے دکھوں سے نجات کے لیے یہ راستہ بہت آسان لگا اور پھر کچھ ہی دنوں میں اس کی ڈاکٹر کے بھیس میں ایک سوداگر سے ملاقات ہو گئی۔ نامعلوم یہ اتفاق تھا یا تقدیر کی نوازشوں کی جھلک کہ اس کی رگوں میں خون کا نایاب گروپ دوڑ رہا تھا۔ رپورٹ پڑھتے ہی ڈاکٹر کی بانچھیں کھل گئیں۔ مگر اس نے رکشہ ڈرائیور پر اظہار نہیں ہونے دیا۔ کالج کے زمانے کی اداکارانہ صلاحیتیں اکثر لوگوں کے کام آ جاتی ہیں۔ ڈاکٹر نے فوراً دوسرے کمرے میں جاکر فون پر ابھرے ہوے ہندسوں میں سے کچھ ہندسے دبائے اور کسی سے بات کرنے لگا۔

    ’’آغا صاحب! میرا خدا جانتا ہے کہ میں نے آپ کی بیگم کا گروپ ڈھونڈنے میں کیسی جان لڑائی ہے۔ مگر یہ جو کم بخت ڈونر ہے، وہ بہت لالچی ہے۔ بہت بڑی رقم مانگ رہا ہے۔ اسے پتا لگ گیا ہے کہ سامنے والی پارٹی کو اللہ نے بہت دیا ہے‘‘۔

    دوسری طرف سے جو کہا گیا اسے سن کر ڈاکٹر کے چہرے پر لالچی مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ بولا۔

    ’’ارے بس بس۔۔۔آپ تیاری رکھئے۔ ہم دو دن بعد بیگم صاحبہ کا آپریشن کر رہے ہوں گے‘‘۔

    دو دن بعد ڈاکٹر نے انتہائی مہارت سے رکشہ ڈرائیور کا گردہ بیگم آغا کے جسم میں ٹرانسپلانٹ کر دیا۔

    یہاں تک بھی قصے میں کوئی موڑ نہیں آتا، بلکہ شاید افسانہ ہی نہیں بنتا۔ یہ سب تو سیدھی سادھی باتیں ہیں۔ ہماری دنیا میں ایسے واقعات روز ہوتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر نے آغا صاحب سے پانچ لاکھ روپے ہتھیا لیے اور رکشہ ڈرائیور کو صرف پندرہ ہزار روپے پکڑا دیئے اور اس نے خاموشی سے رکھ بھی لیے۔ موثر قوانین کی عدم موجودگی میں یہ بات بھی کون سی اتنی غیرمعمولی ہے۔ لیکن کہانی میں موڑ اس وقت آیا جب ہسپتال سے آگے تنگ گلی کے موڑ پر موٹر سائیکل پر سوار دو لڑکوں نے ڈاکٹر کی گاڑی کو روک لیا اور ہتھیار بدست ہوکر کہا۔

    ’’ڈاکٹر صاحب! فیصلہ کر لیں، جان پیاری ہے کہ وہ رقم جو آپ کی گاڑی میں موجود ہے۔ اگر آپ چاہیں تو میں یہ بھی بتا سکتا ہوں کہ بڑے نوٹوں کی کتنی گڈیاں آپ کے پاس ہیں‘‘۔

    ایک ہی لمحے میں ڈاکٹر سناٹے میں آگیا۔ اس کی آنکھوں میں آغا صاحب سے لے کر ہسپتال کے عملے میں سے کتنے ہی چہرے گھوم گئے، مگر اس لمحے یہ سوچنے کا وقت نہیں تھا کہ یہ شرارت کس کی ہے۔ ڈاکٹر کو گھاٹے کا سودا منظور نہیں تھا۔ اس نے کسی حیل حجت کے بغیر نوٹوں کا لفافہ ان کی طرف بڑھا دیا۔ موٹر سائیکل زناٹے سے آگے نکل گئی۔ ڈاکٹر نے جان بچنے پر خدا کا شکر ادا کیا۔ یہیں سے کہانی بھی لپک کر موٹر سائیکل کے پیچھے دوڑ گئی، کیوں کہ ڈاکٹر افسانے کے اسٹیج پر اپنا کردار ادا کرکے پردے کے پیچھے جا چکا تھا۔

    کشادہ سڑک پر دو موڑ کاٹنے کے فوراً بعد موٹر سائیکل کو رکنا پڑا۔ سامنے علاقے کے تھانے کا انچارج اپنے جوانوں کے ساتھ پولیس کی گاڑی میں موجود تھا۔

    ’’یار کبھی کبھی تم لوگ انتظار بہت کرواتے ہو‘‘۔

    ’’وہ سالا ڈاکٹر ہسپتال میں بیٹھا نوٹوں کی خوشبو سونگھ رہا تھا‘‘۔

    موٹر سائیکل پر پیچھے بیٹھے ہوے نوجوان نے لفافہ میں سے نوٹوں کی دو گڈیاں نکالیں اور شمار کیے بغیر انسپکٹر کی طرف بڑھا دیں۔ اس نے بھی بغیر پرکھے جیب میں رکھ لیں۔ شاید دونوں کو سودا کھرا ہونے کا پورا یقین تھا۔ پولیس وین سیدھی نکلتی چلی گئی اور موٹر سائیکل سوار نے دائیں طرف کی ایک نسبتاً تنگ سڑک پر گاڑی موڑ دی۔ ان کی اگلی منزل استاد اسکائی لیب کا ہوٹل تھا، جو علاقے کا بےتاج بادشاہ تھا۔ استاد واسکائی لیب کا اصلی نام کچھ اور تھا لیکن سب اسے اسی نام سے مخاطب کرتے تھے۔ اس نے پچھلے الیکشن میں بڑے زور و شور سے حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ سب سے پہلے اس نے سماجی کاموں کا آغاز کیا۔ اس کی سوچ کا دائرہ علاقے کی گلیوں کی طرح تھا، تنگ اور روشنی سے محروم۔ لہذا اس کے سماجی کام بھی روشنی اور بصیرت سے محروم تھے۔ کبھی اس نے ہوٹل کے آگے سبیل بنا کر سارا سارا دن دودھ اور روح افزا سے لوگوں کی آؤ بھگت کی، کبھی حلیم کی چالیس دیگیں فٹ پاتھ پر رات بھر پکوا کر لنگر کا اہتمام کیا اور کبھی محلے میں قوالی کی محفل سجائی جس میں پڑھنے اور گانے والوں پر نوٹ اس طرح نچھاور کیے جاتے کہ باشعور لوگوں کی طبیعت مکدر ہو جاتی، تب بھی استاد اسکائی لیب اپنے علاقے میں ایک اچھے آدمی کی حیثیت سے مشہور ہو گیا، ورنہ لوگ اس کے کرتوتوں سے خوب واقف تھے۔ استاد اسکائی لیب اپنی منزل یعنی صوبائی اسمبلی کی نشست کی طرف دھیرے دھیرے بڑھ رہا تھا کہ اچانک صدر پاکستان نے اس کی امیدوں پر پانی پھیر دیا کہ امیدواروں کا بی اے پاس ہونا لازمی قرار پایا۔ استاد نے سنا تو اپنے ماں باپ کو ایک موٹی سی گالی سے سرفراز کیا، جس کا ذکر کہانی میں ضروری نہیں۔

    الیکشن ہو گئے اور استاد کی دودھ جیسی اجلی خواہشات پر بالائی جیسی مایوسی کی تہہ جم کر رہ گئی۔ مگر چند ہی ماہ میں اسمبلیوں کی گرما گرم کاروائی کی خبروں سے جب اسے پتا چلا کہ اسمبلیوں میں بے شمار لوگ جعلی ڈگریوں سے منتخب ہو کر آئے ہیں تو بالائی جیسی مایوسی پگھلنے لگی۔ اس نے سوچا جب اتنے بڑے بڑے شرفاء دو نمبر کا کام کر سکتے ہیں تو میں تو ویسے بھی وہ کاریگر ہوں کہ سامنے والے کی قمیص کے نیچے سے بنیان کھینچ لوں اور اسے خبر بھی نہ ہو، چنانچہ استاد کی شاطرانہ نظروں نے کام کا آدمی ڈھونڈنا شروع کر دیا، جو اسے جعلی مگر اصلی جیسی ڈگری دلوا سکے۔ خدا شکر خورے کو شکر دے ہی دیتا ہے۔ استاد ذیابیطس کا مریض تھا، اسے شوگر فری مٹھائی جیسا آدمی مل گیا، مگر دام زیادہ تھے، کیوں کہ ڈگری کا پروانہ وہ فلائی اوور تھا جو اسمبلی کی بلڈنگ تک سگنل فری کوریڈور کی طرح جاتا تھا۔ قسمت کی یاوری سے استاد اپنے سالانہ ٹھیکے کے مطابق ہسپتال کے کچن میں گوشت، سبزی، انڈے، دودھ، دہی پہنچانے گیا تو اس نے ایک کھڑکی پر پڑی ادھ کھلی بلائینڈ کے پیچھے سے آغاصاحب کو ڈاکٹر کی ٹیبل پر نوٹوں کی گڈیاں رکھتے ہوے دیکھ لیا۔ استاد نے تصور میں کرارے نوٹ اپنی جیب میں محسوس کیے۔ تب اس کے اندر کا پرانا نمبری بیدار ہو گیا۔ آدھا گھنٹہ بعد اس کے اپنے ہوٹل میں چار آدمی اکھٹے چائے پی رہے تھے۔ ایک استاد خود تھا، دوسرا تھانہ انچارج اور باقی وہ دو نوجوان تھے جو حال ہی میں ضمانت پر رہا ہوے تھے۔ چائے ختم ہونے سے پہلے سودا طے ہو چکا تھا۔ استاد نے رقم کا صحیح مصرف بھی سوچ لیا تھا، رقم شوگر فری مٹھائی جسے آدمی کے لیے تھی تاکہ وہ استاد اسکائی لیب کے لیے بی اے کی ڈگری کا فلائی اوور بنا سکے۔

    موٹر سائیکل استاد کے ہوٹل کے باہر آکر رکی تو وہ فوراً آٹے کی بوریوں کے ڈھیر کی آڑ میں چلا گیا۔ دونوں لڑکے بھی وہیں آ گئے۔

    ’’استاد سالٹ مال ہے‘‘۔

    انہوں نے نوٹوں کی گڈی استاد کی ہتھیلی پر رکھ دی۔ استاد بولا۔

    ’’تھوڑی دیر رکو۔ کھانا کھاکر جاؤ‘‘۔

    ’’نہیں استاد! ان نوٹوں کو جمبو جیٹ کے پر لگے ہوے ہیں۔ پھر پھر اڑے جا رہے ہیں۔ میرا کیس ختم کروانے کے لیے وکیل نے جج سے بات کر رکھی ہے۔ معاملہ طے ہے، بس رقم کی ضرورت تھی۔ میں ابھی جاکر اس کے متھے مارتا ہوں، تاکہ میری جان چھوٹ جائے‘‘۔ کنجی آنکھوں والے نے جواب دیا۔

    ’’اور تو؟‘‘ استاد نے چھریرے بدن والے سے پوچھا تو وہ بولا۔

    ’’استاد میں تو پانچ ستارا ہوٹل میں خود جمبوجیٹ بننے جا رہا ہوں۔ شہر میں ٹاپ کا پیس آیا ہوا ہے۔ بڑے بڑے ہورڈنگ پر اس کی تصویر لگتی ہے۔ ٹی وی پر ایسی لپک جھپک دکھاتی ہے کہ آدی پھلجھڑی بن کر سلگنے لگتا ہے۔ لیکن سالی کا ریٹ اتنا ہائی فائی ہے کہ پوچھو مت‘‘۔

    ’’ابے شادی کر لے، دیکھ تیرے گھر میں خود اپسرا اتر آئےگی‘‘۔ استاد بولا۔

    ’’اس نے کی ہے نا‘‘۔ اس نے اپنے کنجی آنکھوں والے دوست کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا۔ جب سے بیٹی کا باپ بنا ہے اسے یہ ہی فکر کھائے جا رہی ہے کہ کسی طرح اس کے پرانے کیس ختم ہوں۔ ابھی جو کچھ کمایا ہے جا کر وکیل کے ہاتھ پر رکھ دے گا اور وکیل اپنا حصہ نکال کر جج کو دے دے گا۔ اس کے ہاتھ ٹھینگا آئےگا‘۔ اس نے انگوٹھا دکھاتے ہوے مزید کہا۔ ’’مجھے اپنے کیس ختم کروانے کی کوئی فکر نہیں۔ اپنی خوشی تو اس میں ہے کہ اپن یاروں کے بیچ میں بیٹھ کر چوراہے پر چمکتے ہوے ہورڈنگ کی طرف اشارہ کرکے بولے کہ پیارے۔۔۔ ایک رات میں تھا۔۔۔ یہ تھی۔۔۔اور تنہائی تھی۔۔۔‘‘

    دونوں ہنستے ہوے ہوٹل سے باہر آ گئے۔ استاد اسکائی لیب آٹے کی بوریوں کے پیچھے نوٹ جیب میں اڑستا رہ گیا۔ راستے میں دونوں نوجوان اپنے حصے کی رقم آدھی آدھی نہ صرف تقسیم کر چکے تھے بلکہ اپنی منزلوں کا تعین بھی کر چکے تھے۔ فون پر کنجی آنکھوں والے نے وکیل سے اور وکیل نے جج سے ملاقات طے کی۔ جج صاحب نے وکیل سے جم خانہ میں ملنے کا وعدہ کیا۔

    آغا صاحب کی بیگم کے بدن میں گردے کے عوض حاصل ہونے والی اور ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں پھسلتی ہوئی اس رقم کے درحقیقت پر لگے ہوے تھے۔ جج صاحب کو بھی اچانک رقم کی سخت ضرورت آ پڑی تھی۔ انہیں وکیل کا فون دلدل میں دھنسے ہوے انسان کو رسی کی طرح موصول ہوا تھا۔

    رقم کنجی آنکھوں والے سے وکیل اور پھر وکیل کی کانٹ چھانٹ کے بعد جج صاحب کی جیب میں منتقل ہو چکی تھی۔ جج صاحب نے جم خانہ کی لابی سے ایک نمبر ڈائل کیا مگر وہ مصروف تھا۔ انہوں نے دو تین بار کوشش کی مگر ہر بار مصروف ہونے کی کیسٹ بجنے لگتی تھی۔ درحقیقت جج صاحب جو نمبر ڈائل کر رہے تھے، وہ جس نمبر پر مصروف تھا، وہ چھریرے بدن والے نوجوان کا تھا اور اس نوجوان کی دانست میں یہ نمبر ماڈل گرل کے منیجر کا تھا، جو سماجی اعتبار سے اس کا شوہر بھی تھا۔ اس وقت خلاء میں چھوڑے ہوے سیارے کے دوش پر دونوں ہم کلام تھے۔

    ’’میڈم سے آپ کی ملاقات صرف آج ہو سکتی ہے، کیوں کہ کل سے وہ بہت مصروف ہیں۔ لیکن یہ ارجنٹ تصور ہوگا۔ آپ ارجنٹ کا مطلب سمجھتے ہیں نا! یعنی جو آپ کو معلوم ہے اس کا ڈبل۔ اگر منظور ہے تو پھر ایک گھنٹے بعد آ جائیے، میں آپ کو ہوٹل کی لابی میں ملوں گا‘‘۔

    نوجوان کو ڈبل ریٹ کا مطلب معلوم تھا کہ پھر اس کے پاس کچھ نہیں بچےگا۔ مگر وہ گذشتہ دو تین گھنٹوں میں یار دوستوں کے سامنے مستی بھری فلم کا ٹریلر چلا چکا تھا اور اب پوری فلم نہ دیکھنے کی صورت میں اسے سبکی کا ڈر تھا۔ یار دوستوں کے سامنے شرمندگی اسے گوارا نہیں تھی۔ لہذا وہ بولا۔

    ’’مجھے منظور ہے‘‘۔

    ادھر فون منقطع ہوا۔ ادھر دوسری طرف سے بیل بج گئی۔ یہ جج صاحب تھے۔

    ’’میں آپ سے ابھی ملنا چاہتا ہوں‘‘۔

    ’’ارے سر! ایسی بھی کیا جلدی ہے‘‘۔

    ’’مجھے وہ کیسٹ آج اور ابھی چاہیے‘‘۔

    ’’سر آپ کی امانت ہمارے پاس ہے، لیکن۔۔۔‘‘

    ’’آپ کو جو چاہیے میں ابھی دینے کو تیار ہوں، مگر۔۔۔‘‘

    ’’سر میڈم سے ایک ڈرامہ پروڈیوسر ابھی ملنے آ رہے ہیں‘‘۔

    ’’مجھے تمہاری میڈم سے نہیں ملنا ہے۔۔۔وہ غلطی میں کر چکا ہوں‘‘۔

    ’’سر ناراض کیو ں ہوتے ہیں۔ آپ تو ہمارے محسن ہیں۔ آپ جیسے شرفاء کے دم سے تو ہماری دال روٹی چلتی ہے۔ جیسے آپ کی مرضی آپ آ جائیے۔ میں یہاں لابی میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔ آپ پریشان نہ ہوں آپ کی چیز میں نے اپنے سینے سے لگا کر رکھی ہے‘‘۔

    دوسری کال بھی منقطع ہو گئی۔ پانچ ستارا ہوٹل کی لابی میں چھریرے بدن والے نوجوان اور جج صاحب کے پہنچنے سے پہلے میں آپ کو بتاتا چلوں کہ نوٹوں کی وہ گڈی جو استاد اسکائی لیب کے پاس تھی وہ اب محکمہ تعلیم کے ایک افسر کی دراز میں منتقل ہو چکی تھی۔ دوسرے دن بارہ بجے تک استاد اسکائی لیب گریجویٹ ہونے والا تھا۔ نوٹوں کی پہلی گڈیاں پولیس آفیسر کی جیب سے نکل کر شہر کے مہنگے علاقے میں واقع ایک خوبصورت بنگلے کے ہال نما کمرے میں گداز صوفوں کے درمیان بچھی شیشے کے ٹاپ والی میز پر دوسرے اور نوٹوں کے ساتھ کھلی پڑی ہوئی تھیں۔ تاش کے کارڈوں پر چھپے ہوے بادشاہ، ملکہ اور غلام اپنے اکے سے دھیلے تک پھڑپھڑا رہے تھے۔ انسپکٹر کے مد مقابل شہر کا ایک مشہور اسٹاک بروکر تھا جس کی قسمت ہمیشہ کی طرح آج بھی زوروں پر تھی، مگر کھیل ابھی جاری تھا، ہارنے والے کو ابھی بہت کچھ ہارنا تھا ۔آخری بازی سے پہلے ماڈل گرل کے ساتھ شب بسری کا آرزومند چھریرے بدن والا نوجوان اور شب بسری اور بےلباسی کے معرکے والی وڈیو کیسٹ وصول کرنے کے تمنائی جج صاحب ہوٹل کی لابی میں تقریباً ساتھ ہی پہنچے۔ لابی میں نصب ہاتھی دانت والی دودھیا مورتی کے عقب ہی سے نوجوان نے ماڈل گرل کے شوہر اور جج صاحب کو مصافحہ کرتے اور لفافوں کا لین دین کرتے ہوے دیکھ لیا۔ یکایک اس کی چھٹی حس نے اکسایا۔ اس نے جیب سے موبائل نکالا اور بن روشنی کا چھپا کیے چند تصویریں اتار لیں۔ یہ تصویریں ان لڑکوں پر چلنے والے مقدمات میں کتنا کام آ سکتی تھیں، یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے، جو کہ ہمارے افسانے کے دورانیے سے باہر کا زمانہ ہے۔

    جج صاحب نے کیسٹ وصول کی اور تیزی سے باہر نکل گئے۔ تھوڑی دیر بعد ماڈل گرل کے شوہر سے ملاقات کے بعد نوجوان کی جیب تقریباً خالی مگر اس کے ہاتھ میں ہوٹل کے ایک کمرے کی کمپیوٹرائز چابی اور دماغ میں کمرے کا نمبر تھا۔ چند لمحوں بعد وہ ہاتھی دانت والی دودھیا مورتی کے کمر پر پڑی سلوٹوں کو انگلیوں سے چھوتا اور تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے لہریں بھی ہوئیں دیوانی سی گنگناتا ہوا لفٹ کی طرف جا رہا تھا۔

    جس وقت کمپیوٹرائز چابی اور شیشم کے دروازے میں پیوست تالے کا ملاپ ہونے والا تھا، پولیس آفیسر اپنی آخری بازی ہار چکا تھا۔ اسٹاک بروکر نے رقم سمیٹی اور فوراً وہاں سے چل دیا۔ اس کا گھر یہاں سے زیادہ دور نہیں تھا۔ گھر پہنچنے سے ذرا پہلے اسے اچانک کچھ یاد آیا۔ اس نے گاڑی دائیں جانب گلی میں موڑ دی۔ تھوڑا سا آگے زیر تعمیر جامع مسجد کا بورڈ لگا ہوا تھا، وہاں اسٹاک بروکر نے گاڑی روکی اور جا کر بغلی دروازہ بجایا۔ چند ساعتوں بعد نوجوان امام مسجد برآمد ہوا۔ اسٹاک بروکر نے نوٹوں کا لفافہ اس کی طرف بڑھاتے ہوے کہا۔

    ’’مولانا! آپ دوپہر کو صحن کے ماربل کا ذکر کر رہے تھے۔ یہ رکھ لیں۔ بوٹی سینا یا ٹرویرا جو آپ کا جی چاہے منگوا لیں اور لگوائیں‘‘۔

    چند ہی دنوں میں ماڈل گرل اور اس کا منیجر نما شوہر ایک کامیاب ٹرپ لگا کر اپنے شہر لوٹ گئے۔ استاد اسکائی لیب کو بی اے کی ڈگری مل گئی۔ اب الیکشن میں حصہ لینا اس کے لیے آسان ہو گیا تھا۔ پولیس آفسیر نے اپنا تبادلہ دوسرے علاقے میں کروالیا، وہاں سکون اور مال دونوں کی افراط تھی۔ ڈاکٹر نے بڑی رقم ساتھ لے جانے کا سلسلہ بالکل بند کر دیا۔ کنجی آنکھوں والے نوجوان کے تمام کیس ختم ہو گئے۔ تاہم چھیررے بدن والے نوجوان نے کوئی رقم خرچ کیے بغیر صرف موبائل فون کی تصویریں جج صاحب کو بھیج کر اپنا مقدمہ ختم کروا لیا۔ مسجد کے صحن میں ماربل نے اپنی چمک دکھلائی تو امام مسجد نے نماز جمعہ کے بعد اسٹاک بروکر کے کاروبار میں برکت کی دعا کی۔

    ایک روز اسی فرش پر نماز مغرب ادا کرتے ہوے اچانک رکشہ ڈرائیور کے دوسرے مگر واحد گردے میں در د اٹھا تو اسے یاد آیا کہ ڈاکٹر نے اسے ہر ماہ چیک اپ کروانے کے لیے کہا تھا، مگر اس سادہ دل آدمی کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ اس پورے افسانے میں وہ واحد آدمی ہے، جس نے سراسر گھاٹے کا سودا کیا ہے۔

    (۲۰۰۸ء)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے