Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دل دریا

MORE BYوسیم حیدر ہاشمی

    ’’عجیب بیوقوف آدمی ہے شانتنوبھی۔‘‘ اس کے بارے میں اس کے دوستوں اور رشتہ داروں کی یہی رائے تھی ۔حقیقتاً اس کی خصلت عجیب تھی۔ فلاں کام انجام دینے کی صلاحیت اس میں ہے یا نہیں ،یہ سوچنے کی زحمت تو وہ گوارا کرتا ہی نہیں تھا۔ کوئی بھی کام، خواہ اپنوں کا ہو یا غیروں کا، آسان ہو یا مشکل، بس اس کے سامنے ذکر ہی کافی ہوتا۔ اسے کرنے کو فوراً تیار ہو جاتا۔ ہاں یہ بات اور ہے کہ زیادہ تر ناکامی ہی اس کے ہاتھ لگتی، جس کی وجہ سے وہ اکثر و بیشتر شرمندہ اور مضمحل رہتا۔ یہ شرمندگی اور اضمحلال زیادہ ٹکاؤ نہ ہوتے۔ وہ خود کو جلد ہی اس شرمندگی اور ندامت سے آزاد کر لیتا تھا۔ دوستوں اور رشتہ داروں کو طرح طرح کے تحائف دینے میں اسے خاص لذت محسوس ہوتی۔ بات یہیں ختم نہیں ہو تی۔ اس کا نیا کپڑا ہو یا کوئی بھی اچھا سامان، بس ایک مرتبہ صرف اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ ’’واہ بھئی، یہ تو بہت خوبصورت ہے، کہاں سے لیا؟‘‘ بس وہ چیز جیسے اسے کاٹنے لگتی اور کسی نہ کسی بہانے اس سامان کو وہ اس شخص تک پہنچا کر ہی دم لیتا جس نے اس کی تعریف کی تھی۔ اپنے اس امر کو وہ بڑی کامیابی تصور کر اور خوش بھی ہوتا۔ اپنی اس فطرت کے عوض دوستوں اور رشتہ داروں نے اسے طرح طرح کی عرفیتوں سے نواز رکھا تھا۔ ’بیوقوف، گدھا، بدھو، مرغا اور جھکی وغیرہ۔‘ اب اس کی شادی کو ہی لے لیجیے۔ اس نے خود کو ایک مثالی کردار تصور کرتے ہوے جہیز لینے سے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا تھا کہ ’’دیکھیے سالے صاحب، میری بھی چار بہنیں ہیں۔ لڑکیوں کی شادی میں کتنی پریشانی ہوئی ہے، اس سے میں بخوبی واقف ہوں۔ مجھے خوشی ہوگی اگر آپ کم سے کم ایک بہن کے فرائض سے بہ آسانی سبک دوش ہوجائیں۔ ‘‘ظاہر ہے کہ لڑکی والے کتنا خوش ہوے ہوں گے۔ شادی سے کچھ دنوں قبل ہی اسے ایک رشتہ دار سے معلوم ہوا کہ ان کے سالے صاحب اپنی پوری برادری میں یہ کہتے ہوے بغلیں بجاتے پھر رہے ہیں کہ ’’میں نے تو اپنی بہن کی شادی کے لیے ایک بہت اچھا مرغا پھانسا ہے۔ گدھے نے خود ہی کہہ دیا کہ جہیز میں مجھے کچھ نہیں چاہئے۔‘‘ اپنی نیکیوں کے عوض اتنے گراں حاطر الفاظ سن کر کوئی دوسرا تو اس شادی سے ضرور انکار کر دیتا مگر اس ’بیوقوف‘ نے اس بات کو ہنس کر ٹال دیا۔

    آج کل سرکاری نوکری حاصل کر سکنا کتنا دشوار ہے، یہ تو ان سے پوچھئے جو آج تک ناکام رہے ہیں یا ان سے، جو نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہوں۔ شانتنو ان گنے چنے خوش قسمت لوگوں میں تھا جسے ایک اچھی بھلی سرکاری نوکری مل گئی تھی۔ نوکری بھی اتنی اچھی کہ بیس ہزار روپے ماہ وار تنخواہ کے علاوہ رہنے کے لئے سرکاری گھر اور دوا علاج مفت۔ اچانک اس کی پوری زندگی ہی بدل گئی مگر اب بھی دوسروں کے لیے کچھ کرنے کے جذبات نہیں بدلے تھے۔ وہ جوں کے قائم توں تھے۔

    ادھر کچھ دنوں سے اس کے والد بیمار رہا کرتے تھے۔ شروع شروع میں تو یہ اندازہ ہی نہ ہو سکا کہ ان کو بیماری کیا ہے مگر پرسوں جب اس نے سرکاری اسپتال کے بڑے ڈاکٹر سے صلاح لی تو معلوم ہوا کہ ان کو کول ہو گیا ہے جو کہ اب کافی پڑھ بھی چکاہے۔ ڈاکٹر نے انھیں فوراً بھرتی کرنے کی صلاح بھی دی مگر کوئی بیڈ خالی نہ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر نے ان کو دوسرے روز لانے کو کہا۔ وہ بے فکر ہوکر گھر لوٹ آیا۔ اسی شام اس کا ایک پرانا دوست گھبرایا ہوا اس کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ’’کل شام اچانک میرے والد کو چکر آیا اور وہ بے ہوش ہو گئے۔ اب تک تین ڈاکٹروں کو دکھا چکا ہوں مگر ابھی تک ہوش نہیں آ سکا۔ لگتا ہے کہ نھیں بڑے اسپتال میں بھرتی کرانا ہوگا مگر۔۔۔!‘‘ اس سے قبل کہ دوست اس سے کوئی مدد یا صلاح طلب کرتا اس نے خود ہی تجویز پیش کر دی۔ ’’تو اس میں اتنا پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ تم ان کو لے آؤ۔ میں انھیں بھرتی کروا دوں گا۔ ان کا علاج ایک دم مفت ہوگا، میرے والد کے نام پر۔ اتفاق سے ان کے نام پر ایک بِڈ بھی بک ہے۔‘‘

    اس طرح اس نے اپنے والد کی جگہ دوست کے والد کو بھرتی کروا دیا اور ان کا علاج بھی شروع ہو گیا۔ ہمیشہ کی طرح وہ آج بھی بہت خوش اور مطمئن اس لیے تھا کہ اسے دوست کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا پڑا۔ وہ خود کو بہت کامیاب محسوس کر رہا تھا مگر فکر مند بھی تھاکیوں کہ اس کے والد کا صحیح علاج نہ ہو سکنے کی وجہ سے ان کی حالت دن بہ دن بگڑتی جا رہی تھی۔ اس کی ماں اور بیوی روز یہی سوال کرتیں کہ’’آخر اپنے والد کو اسپتال میں بھرتی کیوں نہیں کروا دیتے‘‘ اور ہر بار اس کا صرف یہی جواب ہوتا کہ ’’اس اسپتال میں مریضوں کے ساتھ بڑی لاپرواہی ہوتی ہے۔ میں شہر کے اچھے پرائیویٹ ڈاکٹر سے علاج کروا رہا ہوں اور یہی بہتر ہے۔‘‘

    ایک ماہ کی لگاتار محنت، بھاگ دوڑ اور پراؤیٹ ڈاکٹروں کا علاج بھی اس کے والد کو بچا سکنے میں ناکام رہے۔ شانتنو یہ بات اچھی طرح سے جانتا تھا کہ اس کے والد کی موت کی اصل وجہ کیا تھی۔ اس نے حقیقت کسی سے نہیں بتائی تھی مگر اتنی بڑی بات زیادہ دن تک تو چھپ نہیں سکی۔ سب نے دل کھول کر اسے برا بھلا کہا۔ ہمیشہ کی طرح آج پھر اسے ’گدھا اور بیوقوف‘ جیسی عرفیتوں سے نوازا گیا لیکن وہ آج بھی خاموش ہی رہا۔ آج اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اس سے وابستہ یہ عرفیتیں نہیں بلکہ یہی اس کے حقیقی نام ہیں کیوں کہ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی تھی۔ اس کا باپ جو کہ حقیقتاً مر چکا تھا، آفس کے ریکارڈ کے مطابق ڈپارٹمنٹ کے اخراجات پر اپنا علاج کروا رہا تھا۔ اس کے لیے وہ کیا کرے۔۔۔؟ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ بیوقوف کہیں کا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے