دل کودل سے راہ
جیل روڈ پر ٹریفک پانی کی طرح بہتا جاتا تھااور ہم دونوں کھڑے ایک دوسرے کو دیکھتے تھے؛وہ مشتعل اور میں سمجھوتاکرنے کو تیار۔ایسا جھگڑا پہلی بار نہیں ہوا تھالیکن مجھے لگا کہ اِس بار وہ زیادہ ہی سنجیدہ تھی۔اس کی آنکھوں میں ہمیشہ قرب کی اپنایت ہوتی تھی اور آج وہی آنکھیں اجنبیت اور بے گانگی کا عکس لیے ہوئے تھیں۔میں اسے کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا تھالیکن اپنانے کا فیصلہ بھی نہیں نہیں کر پارہا تھا۔ ہم ایک دوسرے کو اتنی تفصیل سے جانتے تھے کہ شایداِس قرب سے اپنی اپنی جگہ دونوں خائف تھے۔رکشہ اس کا منتظر تھا۔مجھے کچھ کہنامنا ہی سب لگا:
’’اِس طرح بگڑ کے مت جاؤ۔‘‘ میں بے یقینی سے کہہ پایا۔
’’کیوں ؟ ہمیں ملا ہی کیا ہے !‘‘پیشتر اِس کے کہ میں کوئی جواب دوں ،وہ رکشہ میں بیٹھ گئی۔اس نے میری طرف نہیں دیکھا ،مجھے لگا وہ میری طرف دیکھنے سے خائف ہے ؛اور رکشہ چل پڑا۔
ہم جیل روڈ پر ایک پرانے بنگلے میں رہتے تھے۔یہ بنگلہ، اِس طرز کے دیگر بنگلوں کی طرح،ہندوستان میں انگیریزوں کی سہولت کے تحت اپنائے گئے ہسپانوی طرزِتعمیرسے ملتے جلتے نقشے کے تحت بنایا گیا تھا۔ تمام گھر کے گرد برامدہ تھاجس کی وجہ سے دن کو ہر وقت دھوپ اور سایہ رہتے تھے اوراِس کی دیواریں بھی خاصی چوڑی تھیں۔محرابوں والے پورچ کے بعد سرسبز لان تھا جس کے پیچھے باڑ اور پھر حفاظتی دیوار !اِس دیوار پر بوگن وِلا کی بیلیں اِس طرح چڑھائی گئی تھیں کہ وہ سڑک کی طرف زمین کو چھو رہی تھیں اور ان پر سفید،سرخ اور کہیں کہیں زرد رنگ کے پھولوں کی بھر مار تھی؛اِسے بیلوں والی کوٹھی بھی کہاجاتا تھا۔یہ وہ دن تھے جب جمالیات ہر سوچ پر حاوی تھیں اور پھر بتدریج معاشیات ،جمالیات پر حاوی ہونے لگیں اور ڈیڈی نے ارد گرد وجود پاتی کاروں کی مارکیٹ کا حصہ بننے کا فیصلہ کر لیاجو امی کی مرضی اور احتجاج کو نظر انداز کرتے ہوئے کیا گیا۔ وہ اپنے تئیں ترقی کی راہ پر چل پڑے تھے۔آدھا لان شو رومز میں تبدیل ہوگیا اورکار مارکیٹ کی کھڑکیاں ہمارے گھر کی طرف کھلتی تھیں اور ہم موٹی دیواروں والے بنگلے کے کمروں کے سیلن زدہ اندھیروں میں مقید ہو گئے۔
پھوپھو شمشاد اور ڈیڈی کے دادا چچا زاد تھے۔ وہ کبھی کبھار ہمارے گھر آتیں اور ڈیڈی ان کے ساتھ مل کر دور نزدیک کے رشتہ داروں کا کھوج شروع کردیتے۔ڈیڈی اپنی ڈائری گود میں رکھے ہوتے اور ان کے ہاتھ میں پڑھنے والا چشمہ ہوتا۔ پھوپھو شمشاد کے ساتھ باتوں میں کوئی نئی اطلاع ملتی تو چشمہ لگا کر لکھ لیتے یا اگر پھوپھو کی درستی کرنی ہوتی تو ڈائری کھول لیتے۔وہ جب آتیں تو امی اور میں تھوڑی دیر ان کے پاس بیٹھتے اور جب ان دونوں میں سے کوئی کہتا:’’مجھے نادر خاں کے متعلق نئی اطلاع ملی ہے !‘‘ تو ہم وہاں سے اٹھ جاتے۔پھوپھو کے ساتھ ان کی بیٹی بھی ہوتی جو مجھ سے چار برس چھوٹی تھی۔میں نے روبینہ کی طرف کبھی توجہ نہیں دی تھی۔میں ان دنوں میں ایم اے کا طالبِ علم تھا اور میری نظر لڑکیوں کے جسموں کے خطوط کو پڑھنے لگی تھی۔ ایک دن میں نے اسی نظر سے روبینہ کو دیکھا۔اس کا سانولا سا چہرہ ،چھوٹی اور ترچھی آنکھیں بے تاثر تھیں اور اس کا بدن بھی بے رس سا محسوس ہورہا تھا۔مجھے خاصی مایوسی ہوئی۔وہ گود میں ہاتھ رکھے بیٹھی دائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے بائیں ہاتھ کی انگلیوں کو کھرچتی رہتی اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اپنے ہاتھ دیکھ لیتی۔ مجھے اس کی یہ مسلسل حرکت کوئی ذہنی اور نفسیاتی ناہمواری لگی۔مجھے اس پر ترس آتا۔
ٍ پھوپھو شمشاد ایک دم آنا بند کر گئیں اور سننے میں آیا کہ وہ شدید علیل ہیں؛اتنی شدید کہ زندہ رہنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی تھیں۔ ہمارے گھر میں ان کا اکثر ذکر رہتااور والد انھیں بہت دکھی لہجے میں یاد کرتے۔گھر کا ماحول اچانک بھاری سا ہوجاتا اور ہم سب ان کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہو جاتے۔ایک دن ڈیڈی نے مجھے بلا کر پونچھ روڈ پر پھوپھوشمشاد کے گھر جانے کا کہا اور ڈائری کھول کر ان کے گھر کا نقشہ اتنی تفصیل سے سمجھایا کہ میں اپنی سوزوکی میں کسی دقت کے بغیر ان کے گھر پہنچ گیا۔ وہ جب مجھے اتنی باریکی سے راستہ سمجھا رہے تھے تو میں اپنے آپ کو نیکر قمیص میں ملبوس اس بچے کی طرح محسوس کررہا تھا جس کا سکول سڑک کے پار ہونے کے باوجود ڈیڈی وہاں پہنچنے کا راستہ روز سمجھاتے۔میں پھوپھو شمشاد کے گھر اس اندھے کی طرح پہنچا جس نے اپنی منزل تک قدم ناپے ہوتے ہیں۔میں نے ہدایات کے مطابق ایک کیک بھی لے کے جانا تھا اور مجھے کوفی کیک بہت پسند ہے۔میں نے جب بھی کہیں کیک لے کے جانا ہوتا تو کوفی کیک ہی لے کے جاتا۔عموماً گھر والے اس کیک کو بھی پیش کرتے اور میں ان کا پیش کیا ہوا ایک ٹکڑا کھاتا اور دوسرا اپنی مرضی سے اٹھا لیتا۔
باہر سڑک پر کافی شور تھا اور میرا خیال تھا کہ یہ شور اندر گھرمیں بھی پہنچ رہا ہو گا۔میں نے کیک ایک ہاتھ میں تھامے لمبی گھنٹی دی اور اکتا دینے والے وقفے کے بعد دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی۔میرے سامنے روبینہ کھڑی تھی اور وہ یقیناًوہ روبینہ نہیں تھی جسے میں نے آخری مرتبہ دو برس پہلے دیکھا تھا۔مجھے دیکھتے ہی اس کامتجسس چہرہ کھل اٹھا۔اس کے گالوں پر خوشی کی سرخی اور آنکھوں میں اپنایت کی چمک پھیل گئی۔ وہ سرخی اور چمک وہاں قائم رہی اور مجھے لگا کہ میرے سامنے ایک تصویر ہے جس کے تاثر میں تبدیلی نہیں آسکتی۔اس کے بدن کی کساوٹ دیکھ کر میرے ذہن میں بشیر مرزا کے nude گھوم گئے اور میں نے اپنے تصور میں اس کے کسے ہوئے بدن کو nudeمیں بھی دیکھ لیا۔
وہ تصویر کی طرح مجھے دیکھے جا رہی تھی !
میں تھوڑا سا حرکت میں آیا تو اسے اپنے آپ کا احساس ہوا۔اس نے ایک طرف کو ہٹتے ہوئے میرے لیے راستہ چھوڑا اور میں اندر داخل ہوگیا۔ پھوپھو شمشاد پلنگ کے ساتھ ٹیک لگائے پریشانی کے ساتھ آنے والے کے انتظار میں تھیں۔ مجھے دیکھتے ہی ان کے چہرے پر سکون بھری مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’آؤ بیٹا ،آؤ ! تم لوگ ہی تو میرے لیے فکر مند ہو۔میرا اور ہے کون ؟‘‘ان کی آواز بھاری ہوگئی۔ مجھے ان کی آنکھوں میں آنسو تو نظر نہیں آئے لیکن میں ان کی خشک آنکھوں میں خاموش آنسوؤں کا دریا دیکھ سکتا تھا۔انھوں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور میں نے اپنا سر ان ہاتھ کے آگے جھکا دیا۔
’’بیٹھو بیٹا !‘‘ انھوں نے کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ میں کونے میں پڑی تپائی پر کیک رکھ کے اشارہ کی ہوئی کرسی پر بیٹھ گیا۔ روبینہ ،ہمارے گھر کی طرح،یہاں بھی ایک کونے میں صوفے پر بیٹھ گئی۔ اس کا دائیں ہاتھ کا انگوٹھا دوسرے ہاتھ کی انگلیاں کھرچنے کے بجائے ہتھیلی میں تھامے موبائیل فون سے کھیل رہی تھیں۔ میں نے بھی احتیاطاً اپنی چھاتی والی جیب میں رکھے موبائیل فون کو محسوس کیا۔
’’کیسی ہیں پھوپھو آپ ؟‘‘میں نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔مجھے کسی بھی مریض کا حال پوچھنا ایک احمقانہ سی کارروائی لگا کرتا تھا اور میرے لیے حال پوچھنے سے کسی لڑکی سے بے تکلف بات کرناایک آسان مرحلہ تھا۔
’’کیا بتاؤں احمدبیٹا ! مجھے تو لگا کہ بلاوا آگیا ہے۔پھر میں نے منت بھری درخواست کی کہ تھوڑا رُک جائیں،میری ابھی،‘‘انھوں نے پہلے روبینہ اور پھر میری طرف دیکھا۔ مجھے یہ اس کے لیے ایک اشارہ اوراپنے لیے پیغام لگے۔’’کچھ ذمے داریاں ہیں جنھیں پورا کر لوں تو چلی آؤں گی۔‘‘وہ ایک بھاری سی ہنسی ہنسیں۔ان کے مایوسی بھرے لہجے سے میں کچھ پریشان ہوا،میں نے کچھ کہنا مناسب نا سمجھا اور خاموشی سے انھیں دیکھتا رہا۔
’’امی !‘‘روبینہ کی آواز سے میں چونک گیا۔ میں نے اسے کبھی بولنے کے لیے بات کرتے ہوئے نہیں سنا تھا۔ مجھے اس کی آواز میں کسی حد تک درشتی کا احساس ہوا۔ میں اس کے بات جاری رکھنے کے انتظار میں اسے دیکھتا رہا۔’’وہ جب بلائیں تو پھر جانا ہی پڑتا ہے۔‘‘اس نے ایک ہلکا سا قہقہ لگایا۔ مجھے اس کی ہنسی میں بے تکلفی کا عکس نظر آیا۔میں چاہتا تھا کہ وہ ہنستی ہی جائے۔’’آپ ایسی باتیں نا سوچا کریں ۔‘‘
’’تم بھی ٹھیک کہتی ہو لیکن سوچوں کیسے نا۔‘‘ان کے چہرے کا تاثر یک دم تبدیل ہو گیا،’’ہم روز کی ہوئی باتیں ہی کرتے جائیں گے یا احمد بیٹے کی خاطر بھی کریں گے؟‘‘اب وہ اپنایت سے مسکرا رہی تھیں۔روبینہ موبائل فون سے کھیلنا ترک کرکے اسی وقت اٹھی اور کیک اٹھا کے کمرے سے باہر چلی گئی اور میں کوفی کیک کے ٹکڑے کے انتظار میں لگ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ جوس کا ایک چھوٹا مگر فینسی سا گلاس لیے آگئی۔میں نے گلاس لے کے پینا شروع کردیا۔ میں نے ابھی جوس ختم نہیں کیا تھا کہ وہ چائے کے دو پیالے اور کھانے کو کچھ لے کے آگئی۔ مجھے مایوسی ہوئی کہ وہ چائے کے ساتھ کیک نہیں لائی تھی۔پھوپھو شمشاد کی باتیں دل چسپ تو تھیں لیکن میں جلد اکتا گیا۔ میں روبینہ کے ساتھ دروازے کے پاس کچھ دیر کھڑے ہونا چاہتا تھا۔۔ چائے ختم ہوتے ہی میں نے اجازت لیے بغیر ان کے سامنے سر جھکا دیا اور انھوں نے دعاؤں کے ساتھ مجھے الوداع کیا۔
باہر نکلنے سے پہلے میں اچانک رکا جیسے کچھ یاد آگیا ہو۔
’’میرا موبائل فون نمبر لے لو اور مجھے مِس کال کرو۔‘‘میں نے اپنی بے اعتمادی پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
روبینہ نے تیزی کے ساتھ پلکیں جھپکیں جیسے کچھ سوچ رہی ہو۔’’بتائیں !‘‘
’’زیروتھری زیرو سکس،ڈبل سکس فور ٹوایٹ فور سکس۔‘‘
’’اب کال کرو۔‘‘میں نے کہا۔ میرے موبائل فون کی گھنٹی بجنے لگی۔باہر کافی شور تھا جس کا مجھے احساس نہیں ہوا،اس وقت میرے اندر اتنا شور تھا کہ مجھے کچھ سنائی ہی نہیں دے رہا تھا۔ہم اسی طرح خاموش کھڑے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے اور پھر میں ایک دم باہر نکل گیا۔
میں اسی دن روبینہ کو ایس ایم ایس کرنا چاہتا تھا لیکن بار بار یہ خیال آتا کہ اتنی جلدی مناسب نہیں۔ اس نے اگر اپنا نمبر مجھے دیا ہے تو اِسی لیے دیا ہے کہ ہم قریب ہو جائیں ،میری جلد بازی شاید میرے مجموعی تاثر پر اثر انداز ہو۔مجھے چند دِن انتظار کرنا ہی واجب لگا،یہ بھی میرے ذہن میں آیا کہ شاید وہ بھی میرے پیغام کی منتظر ہو اِس لیے میں نے اسے انتظار کرانا بھی مناسب سمجھا۔میری حالت تنور پر اس بھوکے والی تھی جس کی باری نہیں آرہی ہو۔میں نے اس سے رابطہ کرنے کا کوئی ٹائم ٹیبل تو طے نہیں کیا تھالیکن مجھے رات کاوقت سب سے مناسب لگا جب ہم بغیر کسی رکاوٹ کے جیسی چاہیں chat کر سکتے تھے۔میں ایک خواب یا خوش فہمی میں گم تھا کہ ہم اِس رِشتے میں نئے لطف دریافت کریں گے۔ایک رات میں نے اسے ’’ہیلو‘‘کا پیغام بھیج دیا اور پھر سکرین کے چمکنے کا انتظار کرنے لگا۔ مجھے جوابی پیغام موصول نہیں ہوا۔ میں سمجھا کہ شاید وہ بات کرنا نہیں چاہتی یا کسی طرح میرا نمبر اس سے ڈیلیٹ ہو گیا ہے اور یا اب وہ مجھے انتظار کروارہی ہے۔میں سوچ رہا تھا کہ اسے یاددہانی کا پیغام بھیجوں یا اپنی عزتِ نفس محفوظ رکھوں کہ سکرین اچانک روشن ہو گئی اور اس کا جوابی ’’ہیلو‘‘موصول ہوگیا۔
ہم chatکے طویل سفر پر چل نکلے جس کا آغازمعمول کے حال احوال پوچھنے سے ہوا۔شروع میں مجھے یہ ایک مشکل سفر لگا کیوں کہ میں روبینہ کے مزاج سے واقف نہیں تھا۔ میں نے اسے کبھی کم ازکم ضرورت کے علاوہ بات کرتے نہیں سنا تھا اور اگر میں کوئی ایسی بات کہہ یا پوچھ یا تقاضا کرلوں جو اس کے مزاج کے منافی ہو تو اس کا کیا ردِعمل ہوگا؟لیکن میں نہایت ہوشیاری اور احتیاط کے ساتھ اس طرف بڑھتا رہا جس طرف میں جانا چاہتا تھااور روبینہ کا تعاون میرا حوصلہ بھی بڑھاتا رہا۔ہم نے مرحلہ وار چلتے ہوئے تکلف کے تمام پردے ہٹائے اور آخر ایک رات لفظوں کے ذریعے ایک دوسرے کی بانہوں میں آگئے۔
پھوپھو شمشاد اب ہمارے گھر آنے لگی تھیں اور ڈیڈی کے ساتھ ان کی طویل ملاقاتیں شروع ہوگئیں۔میں ہمیشہ کی طرح کچھ دیر وہاں بیٹھتا اور پھر اکتاہٹ کا شکار ہوکے یا اکتاہٹ سے بچنے کے لیے وہاں سے اٹھ جاتا۔روبینہ اپنے معمول کی جگہ پر بیٹھی موبائل فون سے کھیلتی رہتی اور میں اپنے کمرے یا برآمدے کے کسی پرسکون حصے میں بیٹھ کے اس کے ساتھ موبائل فونپر ایس ایم ایس کے ذریعے گپ لگاتا۔مجھے اس کے صبر،حوصلے اور ہمت کی داد دینا پڑتی کہ وہ کئی گھنٹے ،بغر ہلے ،اسی جگہ پر بیٹھی رہتی۔ مجھے بعض اوقات محسوس ہوتا کہ وہ کسی گہرے راز کی حفاظت کے لیے اس کمرے سے باہر نہیں جاتی۔میں کبھی اس کی احتیاط یا عدم دل چسپی کے رویے سے اکتا بھی جاتا۔اب میں چاہ رہا تھا تھا کہ جو ہم سکرین پر لکھ کر کرتے ہیں وہ کسی طور عملی طور پر دہرایا بھی جائے۔
ایک دن امی گھر پر نہیں تھیں اور وہ ڈیڈی کی لائبریری میں پھوپھو شمشاد اورڈیڈی کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ میں احتیاطاً وہاں نہیں گیا اور اپنے کمرے سے پیغام بھیجا کہ پانچ منٹ کے اندر وہ مجھے ملنے میرے کمرے میں آئے۔ مجھے اس کے جوابی پیغام سے حیرت ہوئی کہ اس نے میرا کمرہ نہیں دیکھاہوا تھا۔اِس سے پہلے وہ ہمارے تنہائی میں ملنے کے میرے کئی پیغام نظر انداز کر چکی تھی۔میں نے اسے لائبریری سے باہر آنے کا کہااور اپنے کمرے سے نکل کر اس کا انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ اعتماد سے چلتی ہوئی پورچ کی طرف کھلنے والے بڑے دروازے کی طرف آئی۔وہ اتنی پُر اعتماد تھی کہ مجھے گھبرائی ہوئی لگی۔اس کی گھبراہٹ چال کے بجائے اردگرد دیکھنے میں تھی اور پھر مجھے دیکھتے ہی وہ شرمیلی سی مسکراہٹ مسکرائی۔جب سے ہم نے موبائل پر جنسی chatشروع کی تھی یہ ہماری اکیلے میں ہونے والی پہلی ملاقات تھی۔ اس کے تمام فقرے میرے ذہن میں گھوم گئے اور یقینامیرا لکھا ہوابھی اس کے دماغ کی سکرین پر جھلملا گیا ہوگا۔میں بھی ایک طرح سے ہلکی سی جھجک کا شکار تھا۔
میں اپنے کمرے کی طرف چل پڑا اور وہ میرے پیچھے آتی گئی،اتنا پیچھے کہ اس دوپہر وہ سب دہرایا گیا جو ہم سکرین پر لفظوں کے ذریعے لکھتے تھے۔اور پھر یہ ہمارا معمول بن گیا۔ہمارے تعلقات ،تنہائی میں ہونے والی ملاقات تک اچھے رہتے اور پھر وہ ایک دم دور ہوجاتی۔ وہ گناہ اور ثواب کے ایسے گرداب میں پھنس جاتی جو اسے پچھتاوے کے چکر دیتا رہتا۔شروع میں میَں اسے منانے کی کوشش کرتااور لگاتار اسے ،اپنے خیال میں ،دل چسپی سے بھرے پیغام بھیجتا رہتالیکن اس کی طرف سے مکمل خاموشی ہوتی۔پھر ایک دن اس کا بظاہر غیر اہم لیکن نہایت گہرا’’ہیلو‘‘ کا پیغام سکرین پر رقص کرجاتا اور ہم ایک شرمیلے سے تکلف سے بے تکلفانہ قرب کے سفر پر چل نکلتے اور یہ اس وقت ختم ہوتا جب ہماری تنہائی میں ملاقات ہو جاتی۔
اب جب وہ دور ہوتی تو میں بھی خاموشی اختیار کرجاتا!
وہ کئی بار اشارتاً مجھے بتاتی کہ پھوپھو شمشاد اس کے لیے رشتے دیکھ رہی ہیں۔جب وہ یہ بتا رہی ہوتی تو مجھے اس کا چہرہ بے تاثر لگتا؛ایسے محسوس ہوتا کہ مجھے ٹوہ رہی ہے۔ وہ وقت ایک طرح سے میرے لیے خاصا کٹھن ہوتا۔کیا وہ میرے ساتھ شادی کرنا چاہتی تھی ؟ یقیناً!کیا میں بھی اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتا تھا ؟میرے پاس اِس کا جواب نہیں تھا لیکن شادی نا کرنے کا جواز ضرور تھا۔ڈیڈی ہمیشہ کہاکرتے کہ ان کی شادی پینتیس سال کی عمر میں ہوئی تھی جو ایک آدمی کی شادی کی صحیح عمر ہے اور پھر وہ ہنس کر اضافہ کرتے کہ وہ مجھے پانچ برس کی گنجائش دے رہے ہیں اور میں کسی بھی قیمت پر پانچ سال سے پہلے شادی کا نا سوچوں۔ان کے مزاج کو سمجھتے ہوئے انھیں راضی کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔کبھی سوچتا کہ میں روبینہ سے شادی نہیں کرنا چاہتا لیکن یہ بھی نہیں چاہتا تھاکہ اس کی شادی کسی اور کے ساتھ ہو !میں اس کے ساتھ ایسے ہی زندگی گزارنا چاہتا تھا ؟میں ایسے کیوں سوچتا تھا ؟ ایسے تو نہیں کہ وہ مجھے پسند تھی ؟میری پسند سے کیا فرق پڑتا ہے ؟کیا میرے والدین ایک معمولی حیثیت کی لڑکی سے میری شادی کر دیں گے ؟ ڈیڈی کی یہ سوچ نہیں لیکن امی ضروربغاوت کریں گی۔
ہم نامحسوسانہ طریقے سے ایک دل چسپ،خطرناک اورکٹھن سفر طے کر رہے تھے۔ہم نے اپنے اپنے بدن کی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں گفتگو تو نہیں کی تھی لیکن میں محسوس کرتا تھا کہ اپنی سوچوں کی گہرائی میں ہمارے اندر ایک دوسرے کے لیے پسندیدگی بھی تھی۔ میں نے روبینہ کو اس کے بدن کے علاوہ جاننے کا فیصلہ کیا۔میں اسے کبھی کسی trendy ریستوراں میں کھانے کے لیے لے جاتا،کبھی ہم تصویروں اورپھولوں کی نمائش یا کسی فیشن شو میں پہنچ جاتے۔ میں اسے غیر اہم سی خریدداری کراتا۔ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ وہ ہمارے نئے رشتے سے مطمئن اورخوش ہے۔ جب کبھی اکیلے ہونے کا موقع ملتا تو وہ عارضی طور پر دوربھی نا ہوتی۔وہ ایک حساس اور پیار کرنے والی لڑکی تھی اور مجھے یقین ہو گیا کہ وہ میری محبت میں گرفتار ہے۔جب مجھے یہ احساس ہوا تو ایک عجیب قسم کی سرشاری نے میرے اندر میٹھی میٹھی سی انگڑائی لینا شروع کر دی۔میں نہیں جانتا تھا کہ عورت کو جیتنا اتناسکون پرور ہوتا ہے۔وہ مجھے صرف اپنی لگنے لگی۔
ایک سہہ پہر ہم میرے کمرے میں بند تھے۔میں صوفے پر لیٹا ہوا تھا اور وہ میرے سامنے کرسی پر بیٹھی تھی۔ہم کافی دیر سے خاموش بیٹھے تھے۔
’’تمھیں ایک بات بتانی ہے۔‘‘اس نے جب بھی کچھ بتانا ہوتا تو میں پریشان ہو جاتا؛مجھے فوراً اس کی شادی کا دھڑکا لگ جاتا۔اس دن بھی ایسے ہی ہوا۔ میں خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔’’یہ بات تمھارے ڈیڈی اور میری امی کے متعلق ہے۔‘‘وہ جھجکتے ہوئے شرمندہ سا ہنسی۔میں کسی حد تک پریشان بھی ہوا لیکن تجسس غالب رہا۔میں نے کوشش کی کہ میرے چہرے پر کوئی تاثر نا آئے۔’’اِِن کا بہت قریبی اور گہرا تعلق رہاہے؛اتنا گہرا کہ تم سوچ بھی نہیں سکتے۔‘‘مجھے لگا کہ کوئی اژدھا مجھے جکڑ کے میری ہڈیاں توڑ رہا ہے۔’’وہ ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے؛شاید اب بھی کرتے ہوں۔‘‘میں پریشانی کی حالت میں سے گزر کے منطق اور دلیل کے قریب ہو گیا تھا۔
’’تم یہ کیسے کہہ سکتی ہو ؟بعض اوقات دیکھے اور محسوس کیے میں فرق ہوتا ہے۔جو تم دیکھتی ہو شاید ویسے نا ہو۔‘‘
وہ تھوڑا سا مسکرائی۔اس کی مسکراہٹ میں ایک برتری تھی۔’’احمد صاحب !‘‘وہ ہنسی۔ اس نے کبھی میرا نام نہیں لیا تھا۔مجھے یہ دل چسپ لگا۔’’امی اور میں انگلی کے گوشت اور ناخنوں کی طرح ہیں۔ہم ایک دوسرے کو سب کچھ بتاتے ہیں۔‘‘اگر وہ آپس میں تمام معاملات کی ساجھے داری کرتی ہیں تو کیا روبینہ نے اپنی ماں کو ہمارے تعلق کابھی بتایا ہے ؟شاید یہ سوال میرے چہرے پر بھی آگیا ہو۔’’میں نے ہم دونوں کے متعلق نہیں بتایا ہے۔تم مطمئن رہو۔‘‘میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔’’دونوں شادی کرنا چاہتے تھے لیکن کچھ ایسے حالات بنے کہ ان کا شادی کرنا ممکن نہیں تھا۔‘‘
’’ممکن کیوں نہیں تھا ؟ ہم لوگ قریبی رشتے دار بھی تھے۔‘‘میں بھی شاید دل چسپی لینے لگا تھا۔
’’بہت ساری وجوہات تھیں جِن میں معاشی اورسماجی عدم برابری کو دخل تھا۔وہ اپنے حالات کے ہاتھوں مجبور تھے،انھوں نے آخری دم تک ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہوا تھااور ایک دِن دونوں نے چند دوستوں کی موجودگی میں نکاح کرلیا۔‘‘مجھے لگا کہ میں خواب کی کیفیت میں ہوں۔میں نے روبینہ کا چہرہ دیکھا کہ وہ کوئی مذاق تو نہیں کر رہی ؟اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی اور وہ میری طرف غور سے دیکھ رہی تھی۔
’’تم میری ۔۔۔ ‘‘
’’میں تمھاری آدھی یا پوری بہن نہیں ہوں۔‘‘روبینہ کی آواز میں طنز تھا۔’’انھوں نے شادی تو کرلی لیکن اِس کا کسی طرح اعلان نہیں کر سکے ۔ وہ چھپ چھپا کر ملتے رہے، کہیں اکٹھے رات گزار لی اور کہیں دوپہر۔انہی دنوں میں امی کی میرے ابو کے ساتھ شادی طے پاگئی ۔ تمھارے ڈیڈی کے ساتھ شادی کا فیصلہ ایک باغیانہ قدم تھااوراب وہی فیصلہ امی کو بزدل بنا گیا اور وہ اپنے والدین کو انکار نا کر سکیں اور ان کی شادی ہوگئی۔‘‘میں نے پھر روبینہ کی طرف دیکھا۔ وہ سنجیدہ تھی اور مجھے اس کی بات پر شک کرنا مناسب نہیں لگا۔میں بے یقینی کے ساتھ اس کی طرف دیکھ رہا تھا اور اِس بار وہ اپنے انگوٹھے کو انگلیوں پر رگڑ رہی تھی۔’’امی نے میرے ابو کے ساتھ زندگی گزارنا شروع کردی لیکن تمھارے والد کے ساتھ ملنا یا تعلق ختم نہیں کیا۔امی کے دو خاوند تھے جن کے ساتھ وہ رشتہ رکھے ہوئے تھیں۔تمھارے ڈیڈی کے ساتھ۔
انھیں محبت تھی اور میرے والد کے ساتھ ہمدردی اور وہ دونوں کو ایک عرصے تک ان کا حق دیتی رہیں۔امی کے دو خاوند تھے لیکن ابھی تک ان کے اولاد نہیں تھی جو ان کے لیے پریشانی کا سبب تھا۔‘‘میں نے کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھا۔ فضائی آلودگی کے باوجوددھوپ میں چمک تھی۔میں خاموش بیٹھا روبینہ کو دیکھے جارہا تھا۔’’تمھارے ڈیڈی کے ساتھ محبت ،ہمدردی میں تبدیل ہو تی گئی اور امی کو ان کی شادی کی فکر لاحق ہو گئی۔وہ انھیں گھلتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھیں۔ان کی کوششوں سے تمھارے ڈیڈی نا صرف شادی کے لیے رضامند ہوئے،انھوں نے شادی کر لی اور اگلے سال تم پیدا ہو گئے۔‘‘میں نے جلدی سے اس کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں چمک اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ ’’امی کی دعائیں آخر کار رنگ لے آئیں اورایک طویل عرصے کے بعد میں پیدا ہوگئی۔‘‘اس کے قہقہے میں تازگی تھی۔’’ابو کی صحت خراب رہنے لگی تھی اور میری ولدیت بھی امی اور تمھارے ڈیڈی کے لیے پریشانی کی وجہ تھی۔گو یہ قدرے مہنگا عمل تھا لیکن تمھارے ڈیڈی نے میرا ڈی این اے کروایا ۔ میں ابو کی بیٹی تھی ۔میری پیدائش کے جلد بعد ابو فوت ہوگئے۔امی کے اتنے ذرائع نہیں تھے کہ ایک باعزت زندگی گزار سکیں۔تمھارے ڈیڈی اب تک ہمیں سپورٹ کر رہے ہیں۔‘‘روبینہ کی آنکھوں میں آنسو تھے،میں نہیں سمجھ سکا کہ یہ خوشی کے آنسو تھے یا نجات کے۔وہ رو رہی تھی لیکن اس کے چہرے پر سکون تھا،بارش میں دھل کر فضا صاف ہو رہی تھی۔میں صوفے سے اٹھ کر اس کی کرسی کے سامنے قالین پر بیٹھ گیا۔ میں نے اس کے پاؤں پکڑ کر انھیں سہلانا شروع کر دیا ، روبینہ روئے جا رہی تھی۔میں نے جھک کے اس کے پاؤں کو چوما،اس نے مجھے منع نہیں کیا۔ میں نے اس کا پاؤں ماتھے سے لگاکے آنکھوں سے لگایااور پھر چوما۔میرے لیے وقت تھم گیا تھا،میں اس کا پاؤں تھامے اسی طرح بیٹھا رہا۔ وہ جو بوجھ اٹھائے پھر رہی تھی شاید اچانک اتر گیا تھا،وہ آزاد ہو گئی تھی۔میرے اندر اس کے لیے جذبات کا دریا موجوں پر آگیا۔ میں نے پھر اس کا پاؤں آنکھوں سے لگایاتو اس نے آہستہ سے اپنا پیر کھینچ لیا۔اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا۔ وہ خالی نظرسے مجھے دیکھ رہی تھی۔ہمیشہ کی طرح میں اس کی خالی نظر سے پریشان ہو گیااور صوفے پر بیٹھ کے ٹیک لگاکے آنکھیں بند کر لیں۔میں شاید سو گیا تھا یا شاید روبینہ سو گئی تھی یا شاید ہم دونوں ہی سو گئے تھے، میں انکھیں بند کرکے نیم دراز رہا۔
’’میں نے ایک بات کہنی ہے۔‘‘میں اپنے خواب سے باہر آگیا۔ مجھے اس کا یہ لاتعلق سا لہجہ ہمیشہ پریشان کر دیا کرتا تھا۔میں نے اس کی طرف دیکھا،اس کا چہرہ بے تاثر لیکن آنکھیں شدت لیے ہوئے تھیں۔
’’ہمیشہ کی طرح پریشان ہو گئے ؟‘‘اس نے خشک سی آواز میں کہا۔
میں نے جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔
’’امی ہر روز کسی نا کسی رشتے پر میرے ساتھ بات کرتی ہیں۔ میں کب تک انکار کر سکتی ہوں۔‘‘وہ خاموش ہو گئی۔میں بھی چاہتا تھا کہ وہ خاموش رہے۔تھوڑی دیر پہلے اس نے اپنی امی اور ڈیڈی کے متعلق جو بتایا تھااس کے انجذاب کا ابھی تک عمل شروع نہیں ہوا تھا۔میں شاید ابھی تک سکتے کی کیفیت میں تھا۔کیا پھوپھو شمشاد کے ایک وقت میں دو خاوند تھے ؟ یہ بات ابھی تک منظرِعام پر کیوں نہیں آئی ؟ڈیڈی کی بھی دو بیویاں تھیں؛امی کو دوسری کے بارے میں قطعاً علم نہیں تھالیکن ۔۔۔ !میں نے روبینہ کی طرف دیکھا ،وہ معنی خیز نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔شاید میرے چہرے پر میرے خیالات کا فلم چل رہا تھا اور وہاں ہر سین اس کا دیکھا ہوا تھا۔جو میں سوچ رہا تھا وہ جانتی تھی کہ میں اِس کے علاوہ کچھ اورسوچ ہی نہیں سکتا۔
’’میں ہاں کر دوں ؟‘‘ یہ پہلی مرتبہ تھی کہ اس نے حامی بھرنے کی اجازت چاہی ہو ۔ کیا وہ مجھ پر دباؤ ڈال رہی تھی ؟مجھے لگا بھی اور نہیں بھی لگا۔
’’نہیں !‘‘میں نے قدرے بے یقینی سے کہا۔
’’پھر اپنے ڈیڈی کو بھیجو یا خود بات کرو۔‘‘
’’ابھی نہیں !‘‘میری آواز کمزور تھی۔مجھے اپنے پر غصہ بھی آیا۔روبینہ نے شاید میری فیصلہ کرنے کی طاقت ختم کر دی تھی۔
’’ابھی کیوں نہیں ؟‘‘اس نے اپنا ڈوپٹہ درست کیا۔
’’جب وقت آیا تو سب ہو جائے گا۔‘‘میں نے اسے اٹھنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
’’اور اگر وقت نا آیا تو کچھ بھی نہیں ہو گا۔‘‘اس نے اٹھ کر اپنا جھولا کندھے سے لٹکا لیا تھا۔میں نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا،مجھے محسوس ہوا کہ یہ محض ایک رسمی سا عمل تھا جسے وہ بھی سمجھ گئی اور باہر کی طرف چل پڑی۔
میں سڑک پر کھڑا ٹریفک کی بے قابو رفتارکو دیکھتا رہا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ روبینہ اب نہیں آئے گی اور ضرورت تھی کہ میں کوئی فیصلہ کروں۔ جو اس نے بتایا وہ میرے لیے ایک ناقابلِ یقین حقیقت تھی۔اس نے مجھے سب بتا کر اپنی ماں،ڈیڈی اور اپنابوجھ میرے کندھوں پر بھی ڈال دیاتھا اور وقت گزرنے کے ساتھ اِس بھار نے میرے کندھے بھی جھکا دینے تھے۔ڈیڈی شاید اِس لیے ہر وقت خوش رہتے تھے کہ وہ اِس بوجھ سے تھک نا جائیں اور انھوں نے اِسے اٹھائے رکھنے کا یہی حل نکالا تھااور وہ ہر طرح اپنا فرض نبھا رہے تھے۔کیا میں باقی کی اپنی عمر اِسے اپنی چھاتی کے اندر چھپا سکوں گا ؟
میں روبینہ کے ساتھ شادی کر لوں ؟ایک طرح سے ہم شادی شدہ ہی تھے۔وہ اپناآپ مجھے دے چکی تھی اور میں بھی جسمانی طور پر اسے قبول کر چکا تھا۔اگر اس کی ماں بیک وقت دوخاوندوں کے ساتھ زندگی گزار سکتی تھی تو روبینہ میرے ساتھ بغیر شادی کے زندگی کیوں نہیں گزار سکتی ؟اِس خیال کے آتے ہی میں کچھ پُر امید ہوا اور پریشان بھی۔ روبینہ ہمیشہ گناہ اور ثواب کے بھنور میں پھنسی رہتی تھی تو میرے ساتھ بغیر شادی کے زندگی گزارتے ہوئے کیا اتنا بوجھ اٹھا سکے گی ؟ قطعاً نہیں!
میں گھر کی طرف چل پڑا اور چاہنے لگا کہ امی اور ڈیدی آجائیں تا کہ میں اکیلا نا رہوں ۔میں یہ بھی جانتا تھا کہ ان کے آنے میں ابھی کافی وقت پڑا ہے۔روبینہ اور مجھ میں جسمانی موافقت بھی تھی جو ایک خوش گوار زندگی کی ضمانت ہوتی ہے۔شادی ایک اچانک پن لاتی ہے جو روبینہ کے ساتھ شادی میں مجھے نہیں ملے گا، ہم اس دور میں سے گزر چکے تھے۔کیا اچانک پن کے لیے ہی شادی کی جاتی ہے۔۔۔؟
میں اپنے کمرے میں آگیا؛وہاں ابھی تک روبینہ کے کلون اور بدن کی ترشی لیے ہوئے میٹھی سی خوشبو موجود تھی۔ میں نے اپنا ہاتھ سونگھا،اس میں سے اس کے پاؤں کے پسینے اور جوتے کی ملی جلی بو آرہی تھی جس سے مجھے ایک طرح کا سکون ملا۔
میں نے صوفے پر نیم دراز ہو کے اس خالی کرسی کی طرف دیکھا جہاں روبینہ بیٹھی ہوئی تھی۔کیا کوئی اور لڑکی اِس کرسی پر روبینہ کی جگہ لے سکی گی ؟ یا اس لڑکی کے بیٹھنے کے باوجود یہ خالی ہی رہے گی ؟میں روبینہ سے اظہار کیے بغیر اس کو ذہنی طور پر اتنا قبول کر چکا تھا کہ کوئی اور لڑکی شاید مسہری کو بھی نا بھر سکے ! اور یہ اتنا بڑا تجربہ تھا جو صرف ڈیدی ہی کر سکتے تھے اور یا پھوپھو شمشاد ! کیا میں ہر ایسے موقع پر ڈیڈی اور پھوپھو شمشاد کو ایسے ہی یاد کروں گا ؟
مجھے عجیب طرح کا بوجھل پن محسوس ہوا؛ میں نے آنکھیں بند کرلیں۔میں شاید روبینہ کے ساتھ شادی نا کرنے کے بہانے ڈھونڈ رہا تھایا کسی ایسے عذر کا متلاشی تھا کہ شادی کر سکوں!وہ مجھے دھمکی دے کر گئی تھی؛کیا وہ میرے بغیر زندگی گزار لے گی ؟ وہ بے پناہ حوصلے اور قوتِ ارادی کی مالک تھی اِسی لیے وہ گھنٹوں پھوپھو شمشاد اور دیڈی کی غیر دل چسپ باتیں سُن سکتی تھی! ایسے تو نہیں کہ وہ اس کے سامنے۔۔۔ ! میں ایک دم اٹھ کر بیٹھ گیا۔ میں نے اچانک اپنے آپ کو پسینے میں تر پایا۔مجھے اس پر ترس میں ڈوبا ہوا شدت کا پیار آیا۔میں نے سانس لینے کے لیے جب اپنی اضطرابی کیفیت کی گہرائی میں سے سر باہر نکالا تو کمرے میں خود کو غیرمحفوظ پایا۔ میں نے تیزی سے اپنی چھاتی والی جیب میں سے موبائل نکال کے اس پر پیغام لکھا:میں آرہا ہوں !
send کا بٹن دبا تے ہی میرا بوجھل پن جاتا رہا اور میں نے اپنے ہاتھ پر اس کے پاؤں کے پسینے اور جوتے کی بو کو ایک لمبی سانس لے کے سونگھا !
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.