دل لگی
ریل گاڑی کی بتدریج سست ہوتی رفتار کے ساتھ اس کے سامان سمیٹنے کی رفتار تیز ہو گئی۔ گاڑی آہستہ آہستہ دہرادون کے اسٹیشن پر رک گئی۔ وہ ابھی اپنا سامان پوری طرح سے سمیٹ بھی نہیں پایا تھا کہ اس کے کان میں ’’گڈ مارننگ سعیدؔ‘‘ کی صدا آئی تو وہ سامان چھوڑ کر اپنے دوست لپٹ گیا۔
’’مجھے امید نہیں تھی لَلِت کہ میرا بھیجا ہوا تار تم کو مل گیا ہوگا کیوں کہ اکثر میرے ساتھ یہی ہوا ہے کہ ٹیلیگرام ہمیشہ وقت کے بعد ہی ملا ہے۔ خیر، چھوڑو ان باتوں کو اور یہ بتاؤ کہ کیسی گزر رہی ہے؟ میرا مطلب ہے کہ شادی کا تجربہ تمھارے ساتھ کیسا رہا؟‘‘ سعید نے سوال کیا تو للت نے چہک کر کہا۔
’’بہت اچھا سعید۔ اتنا اچھا کہ میں تمھیں بھی یہی صلاح دوں گا کہ تم بھی پہلی فرصت میں شادی کر ہی لو۔‘‘ للت نے کہا اور دونوں ٹرین سے اتر گئے۔
للت اور سعید بچپن کے دوست تھے۔ دونوں کے ہم خیال ہونے کی بناء پر ان کی دوستی اسکول کے زمانے سے آج تک قائم تھی۔ سعید، للت کی دعوت پر اس مرتبہ گرمی کی چھٹیاں گزارنے دہرادون آیا تھا۔ للت یہاں کے ایک کالج میں لکچرر تھا۔
للت کی کار بنگلے کے پورٹیکو میں رکی تو ہارن کی آواز سن کر اس کی بیوی نے دروازہ کھول دیا۔ گھر میں داخل ہونے کے بعد للت نے اپنی بیوی سے سعید کا تعارف کرایا۔
’’یہ میرا سب سے پیارا اور عزیز دوست سعید ہے۔۔۔اور یہ میری شریک حیات، رجنیؔ ۔‘‘سعید اور رجنی نے کچھ رسمی گفتگو کی۔ تھوڑی دیر میں ہی دونوں کافی گھل مل گئے۔ پہلی نظر میں ہی رجنی، سعید کو بہت اچھی لگی۔ لگتی بھی کیوں نہ۔ وہ تو تھی ہی حسن کا مجسمہ۔ بات کرنے کا لہجہ ایسا، جس میں پیار اور ممتا کی ملی جلی جھلک۔ رجنی چونکہ بہت مہمان نواز تھی اس لیے وہ سعید کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھتی۔ ایک دن رجنی اور للت نے گھومنے کا پروگرام بنایا اور دوسرے روز وہ تینوں قریب کے ایک پہاڑی مقام کی سیر کو نکل گئے۔ وہاں پہنچ کر انھوں نے ایک مناسب سی جگہ تلاش کی اور چادر بچھا کر بیٹھ گئے۔ ہنسی مذاق کا دور شروع ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد رجنی نے کھانے کی پیشکش کی تو للت نے کہا۔
’’بھئی میں تو پہلے اس جھرنے میں نہاؤں گا، تب تک تم کھانا لگاؤ۔ ہم لوگ بس گئے اور آئے۔‘‘ رجنی کو ہدایت دیتا ہوا وہ سعید کو لے کر قریب کے ایک جھرنے کی طرف چل دیا۔ ابھی دونوں نہا رہے تھے کہ سعید کو کچھ یاد آ گیا تو اس نے للت سے کہا۔
’’یار للت، جہاں تک مجھے یاد پڑتا، تم ہر نئے ملنے والے کا ایک مرتبہ امتحان ضرور لیتے ہو۔ صرف یہ جاننے کے لیے کہ وہ تمھارے معیار پر کہاں تک کھرا ہے۔ کیا رجنی کا امتحان ہو گیا یا۔۔۔؟‘‘
’’اوہ، میں سمجھ گیا۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ ہوا جاتا ہے رجنی کا بھی امتحان۔‘‘ اور تھوڑی دیر غور کرنے کے بعد اس نے پھر کہا۔
’’میں اس کا امتحان تمھارے ذریعہ لوں گا۔‘‘
’’مگر یہ تو بتاؤ کہ اس امتحان کی نوعیت کیا ہوگی؟‘‘ سعید نے پوچھا۔
’’میں نے سوچ لیا ہے۔۔۔ بھئی واہ۔ مزا آجائےگا اور کافی تفریح بھی رہےگی۔ میں رجنی کی محبت اور وفاداری کا امتحان لوں گا۔‘‘ للت نے ہنس کر کہا۔
’’مگر جناب کو کیا خدانخواستہ اس پر کسی طرح کا شبہ ہے؟‘‘
’’نہیں یار یہ بات نہیں۔ بس میں جو کہتا ہوں اسے غور سے سنو اور میری ہدایت کے مطابق عمل کرتے جاؤ۔‘‘ للت اور سعید جھرنے سے باہر آکر اپنے جسم خشک کرنے لگے۔
’’میں سمجھا نہیں۔ ذرا کھل کر بتاؤ۔‘‘ سعید نے وضاحت چاہی۔
’’میں سمجھاتا ہوں۔ دیکھو، تمھیں یہ کرنا ہے کہ مجھ سے چھپا کر تم رجنی پر یہ ظاہر کرو کہ تم اس پر دل و جان سے عاشق ہو گئے ہو۔‘‘ للت نے مسکراتے ہوے کہا۔
’’مگر۔۔۔؟‘‘
للت نے اس کی بات کاٹتے ہوے کہا ’’بس میں جیسا کہتا ہوں، کرتے جاؤ۔ جب ساری حقیقت کھلےگی تو بڑا مزا آئےگا۔ رجنی بہت شرمندہ ہوگی۔‘‘
’’یہ سب تو ٹھیک ہے للت مگر مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں کھیل کھیل میں۔۔۔نہیں یار میری ہمت تو نہیں پڑتی۔‘‘ سعید نے کہا۔ وہ تھوڑا گھبرایا ہوا سا لگ رہا تھا۔
’’واہ یار سعید، عجیب بزدل آدمی ہو تم بھی۔ ہمت نہیں پڑ رہی ہے۔ ارے یار یہ سب تو محض تفریحاً ہو رہا ہے۔ مجھے تو ایسی کوئی وجہ نظر نہیں آتی جس بناء پر تم انکار کر رہے ہو۔‘‘ اور للت نے سمجھا بجھا کر اسے ہموار کر لیا۔
’’ٹھیک ہے للت، تو بھی کیا یاد کرے گا۔ ہر موقع پر تیرا ساتھ دینے والا سعید، اس تفریح میں بھی تیرا ساتھ ضرور دےگا۔ ایک ماہ کی چھٹی یوں ہی سہی۔‘‘اور سعید راضی ہو گیا۔
جب دونوں نہا کر لوٹے تو دیکھا کہ رجنی دسترخوان سجائے ان کا انتظار کر رہی ہے۔ ان پر نظر پڑتے ہی وہ تنک کا بولی۔
’’سارا کھانا ٹھنڈا ہو گیا۔ کیا کرنے لگے تھے تم لوگ وہاں؟‘‘
’’اوہ رجنی، بات دراصل یہ ہے کہ وہ۔۔۔کیا کہتے ہیں۔۔۔!‘‘ للت کی کچھ سمجھ میں نہ آ سکا کہ وہ کیا کہے۔
’’بس بس رہنے دیجیے۔ دیر ہونے کی وجہ سوچنے میں اور دیر مت کیجیے۔‘‘ رجنی نے کہا اور پھر تینوں کھانا کھانے میں مشغول ہو گئے۔ کھانے کے دوران تقریباً خاموشی رہی۔ کھانا کھا چکنے کے بعد انھوں نے واپسی کا پروگرام بنایا اور سارا دن شہر کے مختلف مقامات پر گھومنے کے بعد شام کو واپس گھر لوٹے۔
دوسری صبح جب ناشتے کی میز پر للت نظر نہیں آیا تو سعید نے رجنی سے اس کی غیر حاضری کی وجہ دریافت کی تو رجنی نے بتایا کہ وہ آج سویرے ہی کہیں چلے گیے۔ ان کے کالج کے تین چار پروفیسر آئے تھے۔ کہہ گئے ہیں کہ دوپہر کے کھانے پر میرا انتظار مت کرنا۔ ہو سکتا ہے کہ شام کو بھی واپسی میں دیر ہوجاے۔‘‘ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد رجنی نے سعید کو متوجہ کرتے ہوے کہا ’’تم اتنا خاموش کیوں رہتے ہو سعید؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ تم مجھ میں غیریت محسوس کر رہے ہو؟
’’ایسی بات نہیں ہے رجنی۔ تم للت کی بیوی ہو پھر میرے لیے غیر کیسے ہو سکتی ہو۔ اصل میں ہماری ملاقات ابھی نئی ہے نہ اسی لیے بات کرنے میں ذرا ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے۔‘‘ رجنی کو اس کی سادگی اور صاف گوئی بہت اچھی لگی۔ اس نے سعید کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’اچھا تو تم نئے پن کی وجہ سے جھجک رہے ہو۔ تو چلو، میں ہی شروع کرتی ہوں۔ سب سے پہلے تو یہ بتاؤ کہ تمھارے گھر میں کتنے لوگ ہیں؟‘‘
’’صرف میں۔‘‘ سعید کو مختصر سا جواب تھا۔
’’یعنی۔۔۔بیوی بچے، ماں باپ۔۔۔؟‘‘ رجنی نے دریافت کیا تو وہ ایکدم سے اداس ہو گیا اور تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد کہنے لگا۔
’’آج تک میں نے اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتایامگر نہ جانے کیوں خود میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں اپنے بارے میں تم کو سب کچھ بتاؤں۔ توسنو۔۔۔میری زندگی کی داستان بہت بھیانک ہے رجنی، بہت بھیانک۔ میری عمر کوئی دس سال رہی ہوگی۔ میں کوڈئی کنالؔ میں ایک اسکول کے ہاسٹل میں رہ کر تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ میرا امتحان ختم ہو چکا تھا۔ میں چھٹیوں میں اپنے والدین سے ملنے گھر آیا ہوا تھا۔ میری امی مجھے بہت اچھی لگتی تھیں۔ ان سے دوری کی وجہ سے ہی شاید مجھے کوڈئی کنال جیسی خوبصورت جگہ بھی اچھی نہیں لگتی تھی۔ گھر آکر میں اپنی چھٹیؤں کا ہر لمحہ امی کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا۔ میں ہر وقت ان کے آگے پیچھے گھوما کرتا۔ باورچی خانے تک میں مَیں ان کے سامنے بیٹھا رہتا۔ امی بھی میری چھوٹی سے چھوٹی خواہش کا خیال رکھتیں۔ ایک دن میں نے امی سے گھومنے کے لیے باہر چلنے کی خواہش ظاہر کی۔ امی نے ڈرائیور کے چھٹی پر ہونے کی وجہ سے پروگرا م ملتوی کرنا چاہا مگر میری ضد کے آگے انھیں جھکنا پڑا۔شام کو ابو کے آفس سے گھر لوٹنے کے بعد ہم لوگ گھومنے نکل پڑے۔ ویسے تو ابو ڈرائیونگ اچھی جانتے تھے مگر دل کے مریض ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر کی صلاح پر وہ گاڑی کم ہی چلاتے تھے۔ پھر بھی میری ضد اور امی کے اصرار پر وہ راضی ہو گئے۔ اس روز ہم لوگ کافی دیر تک گھومتے رہے اور رات کا کھانا بھی ہم لوگوں نے ایک ہوٹل میں ہی کھایا۔ رات تقریباً دس بجے، جب ہم لوگ واپس گھر لوٹ رہے تھے تو نہ جانے کیوں اچانک گاڑی میرے ابو کے قابو سے باہر ہو گئی۔ جب تک وہ سنبھلتے، ہماری کار بجلی کے ایک کھمبے سے ٹکرا چکی تھی۔۔۔! پھر مجھے کچھ یاد نہیں۔‘‘ اتنا کہہ کر سعید خاموش ہو گیا۔ اس کی آواز بھرا گئی تھی۔ اس نے تھوڑا ٹھہر کر ایک گلاس پانی پیا اور پھر شروع ہو گیا۔
’’جب دوسرے روز مجھے ہسپتال میں ہوش آیا تو سب سے پہلے میں نے امی کی خیریت دریافت کی۔ پہلے تو ڈاکٹروں اور میری آیا نے مجھے بہلانے کی کوشش کی مگر میری ضد کے آگے انھیں جھکنا پڑا۔ اب مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ اس حادثہ میں امی اور ابو۔۔۔دونوں ہلاک ہو چکے تھے۔ میں یتیم ہو چکا تھا۔‘‘ کچھ دیر تک خاموش رہنے کے بعد اس نے پھر کہنا شروع کیا ’’ویسے تو اس حادثہ کو بیس سال گزر چکے ہیں مگر آج بھی وہ سب کچھ میرے ذہن میں ایکدم تازہ ہے۔ میں امی کو آج تک نہیں بھلا سکا اور شاید کبھی نہ بھلا سکوں۔ کتنا اچھا ہوتا اگراس ایکسیڈنت میں بھی۔۔۔!‘‘ اتنا کہہ کر وہ بےتحاشہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اسے اس طرح روتا دیکھ کر رجنی گھبرا گئی اور بڑی مشکلوں سے اسے سمجھا بجھا کر چپ کرایا۔ اس کا ہاتھ پکڑکر اس کے کمرے تک لے گئی۔ رجنی کو اپنا اتنا ہمددر پاکر سعید کو اپنا غم کافی ہلکا محسوس ہونے لگا۔ اس دن کے بعدسے وہ رجنی میں کافی اپنائیت محسوس کرنے لگا تھا۔
ایک دن سعید کو اچھے موڈ میں دیکھ کر رجنی اس سے پوچھ بیٹھی کہ ’’اچھا یہ بتاؤ سعید کہ تم شادی کیوں نہیں کر لیتے؟ میرے خیال سے یہ تمھارے لیے بہت اچھا رہےگا۔ ایک نئی دنیا میں قدم رکھوگے تو زندگی کی تلخیاں جاتی رہیں گی۔‘‘ رجنی نے اسے کسی بزرگ کی طرح صلاح دی۔ اس کے انداز میں بڑی ممتا اور اپنائیت تھی۔
’’وہ تو ٹھیک ہے رجنی مگر اس کی کیا گارنٹی ہے کہ شادی کے بعد مجھے ایک پرسکون اور اچھی زندگی مل ہی جاے گی؟ ہاں اگر بیوی تم جیسی مل جاے تو۔۔۔‘‘ سعید نے رجنی سے مذاق کیا تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی اور اسی انداز میں جواب دیا جس انداز میں سوال کیا گیا تھا۔
’’مجھے افسوس ہے سعید کہ میری دوسری کوئی بہن نہیں ہے۔‘‘ اور دونوں کافی دیر تک ہنستے رہے۔
اس دوران سعید اور رجنی ایک دوسرے سے کافی بے تکلف ہو چکے تھے۔ للت اپنی عادت کے مطابق زیادہ تر گھر سے غائب ہی رہتا تھا۔ ویسے بھی اسے اس بات کا اطمینان تو تھا ہی کہ رجنی گھر پر تنہا نہیں ہے۔ رجنی اٹھتے بیتھے، ہر وقت سعید کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھتی تھی۔ اسے وہ بہت چاہنے لگی تھی۔ ایک ماں کی طرح، ایک بہن کی طرح، ایک دوست کی طرح۔ اس نے اپنی ساری ممتا، سارا پیار سعید پر نچھاور کر دیا تھا۔ سعید بھی ہر وقت رجنی کے آگے پیچھے ایک بچے کی طرح گھوما کرتا۔ اب دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھنے لگے تھے۔ سعید کی یتیمی اور رجنی کی ممتا نے دونوں کے درمیان ایک عجیب سی، محبت بھری کشش کو جنم دے دیا تھا۔ آج دوپہر بعد سے ہی بارش بہت تیز ہو رہی تھی اور ٹھنڈ بھی کافی بڑھ گئی تھی۔ ناشتہ کے بعد سے اب تک سعید اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلا تھا۔ دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی تو سعید نے کہا ’’آ جاؤ۔۔۔، دروازہ کھلا ہے۔‘‘ اور اگلے لمحے کمرے میں رجنی داخل ہوئی تو سعیداسے دیکھ کر کھِل اٹھا۔
’’آؤ رجنی، اندر آ جاؤ۔ ابھی میں تمھارے متعلق ہی سوچ رہا تھا۔ صبح سے تنہا بیٹھا بیٹھا بور ہو گیا ہوں۔ ہاں۔۔۔، للت کہاں ہے؟ کیا آج پھر کہیں نکل گیا؟‘‘ وہ ایک سانس میں اتنا کچھ کہہ گیا۔
’’وہ سو رہے ہیں۔ رات کافی دیر سے سوے تھے اور صبح بھی جلدی اٹھ گئے تھے اس لئے میں نے انھیں ڈسٹرب کر نا مناسب نہیں سمجھا۔ سوچا کہ چلو تم ہی کو بور کروں۔‘‘ رجنی نے مسکراکر کہا اور سعید کی مسہری پر پیر لٹکا کر بیٹھ گئی۔کمرے میں ہیٹر روشن ہونے کے باوجود ٹھنڈ محسوس ہو رہی تھی۔ سعید نے رجنی سے پیر اوپر اٹھاکر بیٹھنے کو کہا اور اپنے کمبل کا آدھا حصہ رجنی کے پیروں پر ڈال دیا۔ رجنی اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ سعید کو اس کی آنکھوں میں اپنے لیے بےپناہ محبت نظر آ رہی تھی۔ اسے بڑی شدت سے اس بات کا احساس ہو رہا تھا کہ جیسے رجنی اسے چاہنے لگی ہے۔ وہ بڑے پس و پیش میں تھا کہ للت کی ہدایت کے مطابق وہ رجنی سے اپنے جھوٹے پیار کا اظہار کیسے کرے کیوں کہ حقیقت تو یہ تھی کہ وہ رجنی کو سچ مچ چاہنے لگا تھا۔ سعید کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ وہ بس ایک ٹک، غور سے رجنی کو دیکھے جا رہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد رجنی نے خاموشی توڑی اور آہستہ سے کہا’’سعید، میں تم سے ایک بات کہنا چاہتی ہوں۔‘‘اتنا کہہ کر اس نے آنکھیں جھکا لیں۔
’’ہاں ہاں کہو۔‘‘ سعید کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
’’پہلے وعدہ کرو کہ تم برا نہیں مانو گے۔‘‘ رجنی نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
’’ارے، تم یہ غیروں جیسی باتیں کیوں کرنے لگیں۔ بھلا میں تمھاری بات کا برا کیسے مان سکتا ہوں۔‘‘ سعید نے بڑے انکسار کے ساتھ کہا۔
’’مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے سعید کہ جیسے۔۔۔جیسے مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے۔ میں دیکدم سچ کہہ رہی ہوں سعید، مجھے غلط مت سمجھنانا ورنہ میں خودکشی کو لوں۔‘‘ اتنا کہہ کر اس نے اپنا گال سعید کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ اپنے لیے رجنی کے منہ سے اتنا سب کچھ سن لینے کے بعد وہ کافی جذباتی ہو گیا تھا۔ ضبط کی لاکھ کوشش کے باوجود اس کے آنسوبہہ نکلے۔ رجنی نے سعید کو کھینچ کر گلے سے لگا لیا اور پھر نہ جانے کیا ہوا کہ دونوں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے۔ ہچکیوں کے درمیان سعید صرف اتنا ہی کہہ سکا کہ ’’رجنی، میں بہت بدنصیب انسان ہوں۔ اس دنیا میں مجھے کسی کا پیار نصیب نہیں ہوا۔۔۔! تم بھی کچھ بولو رجنی ورنہ میرا دم گھٹ جائےگا۔ ایک بار پھر سے کہہ دو کہ تم مجھ سے پیار کرتی ہو، شاید یہی میرے زندہ رہنے کا سہارا بن جائے۔‘‘
’’میں تمھیں بہت پیار کرتی ہوں سعید اور مرتے دم تک کرتی رہوں گی۔‘‘ سسکیوں کے درمیان رجنی صرف اتنا ہی کہہ سکی اورسعید کا ہاتھ چھڑاکر اپنے کمرے کی طرف چل دی۔
رجنی کی عادت ہمیشہ جلدی اٹھنے کی تھی مگر آج رجنی کی آنکھ کھلی تو آٹھ بج چکے تھے۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔’اف، آج اتنی دیر ہو گئی۔ سعید تو جانے کب کا جاگ چکا ہوگا۔‘ وہ بڑبڑاتی ہوئی باورچی خانے کی طرح گئی اور چاے بنانے کے بعد پہلے للت کو جگایا پھر واپس آکر سعید کے کمرے کے دروازے پر دستک دی۔’عجیب اتفاق ہے کہ آج سعید نے بھی اٹھنے میں اتنی دیر کر دی؟‘ وہ بدبدائی اور دو تین مرتبہ مزید دستک دینے کے بعد دروازے کا ہینڈل گھما کر کمرے میں داخل ہو گئی۔ وہ سعید کے قریب آئی اور اس کا بازو پکڑ کر ہلایا مگر بےسود۔ اس کا دل انجانے خوف سے دھڑکنے لگا۔ وہ واپس للت کے پاس آئی اور کہنے لگی’’ پتہ نہیں کیا بات ہے کہ سعید ابھی تک سوکر نہیں اٹھا۔ میں نے اسے جگایا بھی مگر وہ ہلا تک نہیں۔‘‘ رجنی کا فی گھبرائی سی لگ رہی تھی۔
’’اچھا میں دیکھتا ہوں۔‘‘ اتنا کہہ کر للت تیز تیز قدم بڑھا تا ہوا سعید کے کمرے میں داخل ہو گیا۔ اس کے قریب پہنچ کر اسے ہلایا ڈلایا مگر یہ کیا؟ اس کا جسم تو ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ للت کے منہ سے ایک چیخ نکل پڑی۔ کچھ دیر تک تو ایسا لگا جیسے دونوں کو سکتہ ہو گیا ہے۔ وہ کبھی سعید کے مردہ جسم کو دیکھتے تو کبھی ایک دوسرے کو دیکھنے لگتے۔ تھوڑی دیر کے بعد للت کے منہ سے بمشکل تمام صرف اتنا ہی نکل سکا ’’یہ تونے کیا کیا میرے یار۔ تونے آخر ہمیں یہ کس جرم کی سزا دی ہے۔ تو نے ایسا کیوں کیا سعید آخر تونے۔۔۔؟‘‘
رجنی، جو کہ اب تک خاموش کھڑی تھی، ایکدم سے بپھر گئی۔’’تم۔۔۔، للت صرف تم ذمہ دارہو اس کی موت کے۔ سعید کی موت کی وجہ نیند کی گولیاں نہیں بلکہ تم ہو۔ میں نے تم سے کئی مرتبہ منع کیا تھا کہ اس بھولے بھالے معصوم کے ساتھ اس قسم کا مذاق ٹھیک نہیں۔ کسی کے جذبا ت سے مت کھیلو۔ مگر تم پر تو اس کے امتحان کا بھوت سوار تھا۔ لے لیا امتحان۔۔۔.؟للت، تم نے اس کا امتحان نہیں، اس کی جان لی ہے۔ اس معصوم کے قاتل تم ہو للت، صرف تم۔ کاش میں نے تمھاری بات نہ مانی ہوتی۔ کاش میں نے۔۔۔!‘‘ اتنا کہتے کہتے وہ سعید کی لاش سے لپٹ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.