Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دل

MORE BYواجدہ تبسم

    جوتے کھٹکھٹاتے ہوئے حنیف میاں گھر میں داخل ہوئے۔ آنگن میں تخت پر جانماز بچھائے، مریم عصر کی نماز پڑھ رہی تھی۔ ایک لمحے کو انھوں نے اسے ناگواری سے دیکھا اور بڑبڑانے لگے، ’’کمبخت جب دیکھو تب لگی ہے عبادت میں۔ ایسا ہی اس کا خدا دعائیں سننے والا تھا، تو پھر بچہ کیوں نہ دے دیا؟‘‘

    چق اٹھا کر پھر سے مردانے میں چلے گئے، جوتے اتار کر زور سے کونے میں پھینکے، کوٹ اتار کر پلنگ پر اچھال دیا، اور خود بھی پلنگ پر آڑے آڑے لیٹ گئے۔ کلائی کی گھڑی یوں آنکھوں کے سامنے کر لی، جیسے کسی پیارے کا آپریشن ہو، پل پل کی خبر رکھی جائے، سکنڈ کی سوئی نے تین چکّر لگائے، مطلب تین منٹ پورے ہو گئے۔ تین منٹ ہوتے ہی پھر اٹھے اور چق ا ٹھاکر زنانے میں آ گئے۔ دیکھا تو مریم تخت پر بیٹھی چھا لیا کترنے لگی تھی۔ نماز ختم ہو چکی تھی۔

    ’’اگر اب بھی نماز ختم نہ ہوتی تو تخت ہی الٹ دیتا۔‘‘

    مریم نے سہم کر کہا، ’’ہیں، ہیں! ایسی بات نہ کہیے جی! شان خدا میں یوں کلمہ کفر نہیں نکالتے!‘‘

    ’’چل، چل، بڑی آئی وعظ کرنے والی!‘‘

    ’’موئے کافروں کی صحبت میں بیٹھتے بیٹھتے آپ بھی کافر ہوتے جاتے ہیں۔‘‘

    ’’اچھا، اچھا! میں کافر ہی سہی، تو تو نمازن ہے، مسلمان ہے؟‘‘

    مریم اب کی بار منہ سے کچھ نہ بولی، منہ پر ہولے ہولے تھپڑ مارنے لگی۔

    ’’خدا یا ان پر رحم کیجو، ان کی تو آنکھیں بند ہیں۔ ان کا گناہ میرے سر پر ڈال دیجیو۔ سوچتے نہیں، کس نے پیدا کیا، کس نے پالا، کس نے رزق دیا، توبہ، تو بہ۔۔۔ توبہ توبہ!‘‘

    ’’توبہ، توبہ!‘‘ مریم نے دعا مانگ کر جلدی سے منہ پر ہاتھ پھیرے، گالوں پر ہاتھ مار کر ہولے ہولے، توبہ، توبہ کہا۔ کرتے کے گلے میں منہ ڈال کر زور سے سینے پر سانس پھونکی اور جھٹ میں اچھل کر ماں سے بولی، ’’اجی اماں، ہم ذرا خالہ جی کنے جارہے ہیں۔‘‘

    اماں چولہے کے پاس روٹیاں سینک رہی تھیں۔ دھوئیں سے ٹپٹپاتی آنکھیں کھول میچ کر کے بیٹی کو دیکھا اور وہیں سے چلاّ کر بولیں، ’’اری نامراد! گیارہ برس کی لوٹھا ہو گئی، نہ کسی کام کی نہ دھام کی، رات دن گلی کے پوٹوں کے ساتھ ہی ہی ہا ہا، اری کلموہی، کوئی تیر نہیں چلے گا، کبھی منحوس ماری شکل بھی دیکھی ہے، آئینہ اٹھا کر! خالہ جی کنے جارے ہیں! کیا کرے گی خالہ جی کنے جاکر؟‘‘

    مریم نے زمین پر پیر پٹکنے شروع کر دیے، ’’اوں۔۔۔ اوں۔۔۔ اوں۔۔۔ اوں۔۔۔ جب دیکھو تب کہتی ہیں، مجھے کام نہیں آتا، کام نہیں آتا، روٹیاں تو اتنی اچھی پکاتی ہوں، گول گول، ذرا بھی ٹیڑھی نہیں ہوتیں۔ سالن تو بُوا سے اچھا پکا لیتی ہوں، چاول ایسے پھریرے پکاتی ہوں، اوہ! یہ کرتا تو میں نے خود سیا ہے، جب دیکھو تب اوں، اوں، اوں۔‘‘

    ’’لو غضب خدا کا، دیکھو، گن نہ ڈھنگ، اوپر سے زبان ایسی لمبی!‘‘ اماں اٹھیں اور چولہے سے جلتی لکڑی اٹھا کر دھن، دھن دُھنک ڈالا۔

    مریم کو آتا جاتا تو سب تھا، مگر بیٹی کی شادی کے قت اس کی صورت بھی تو دیکھی جاتی ہے، ایسا تو کبھی کبھار ہوتا ہوگا کہ محض گُن دیکھ کر ہی سسرال والے بیاہ لے جائیں، گن ڈھنگ اپنی جگہ تک، صرف اپنی جگہ! ماں کو کیسی ہول تھی کہ بیٹی اٹھے تو کیسے اٹھے، یہ تو ہونے سے رہا کہ خود ہی منہ سے کہتی پھریں، اے بہن، میری بیٹی بڑے کام کاج کی ہے، صورت نہیں تو کیا ہے اس کے اوصاف تو دیکھو۔ بدصورت بیٹیوں کے نصیب جیسے ہوتے ہیں ویسے ہی مریم کے بھی ہوئے۔ پہلے تو کوئی پیام بھی نہ آیا۔ آیا توحنیف میاں کا! جو پہلے سے دو دو بیویاں کھائے بیٹھے تھے۔

    مریم کی عمر جس وقت بارہ تیرہ برس کی تھی، ان کی تیس سے اوپر۔۔۔ اگر لڑکی دیتے وقت جی کڑیاتے بھی تو بی کا اللہ ہی حافظ تھا۔ آنکھیں بند کر کے بیٹی دے دی۔

    حنیف میاں کو گھونگھٹ الٹتے ہی اپنی بیوی پسند نہیں آئی۔ پہلی بار جب شادی ہوئی تھی، بیوی ایسی تھی کہ میدا چھپاؤ اور اسے نکالو۔ دوسری بیوی بھی قسمت سے اچھی ہی ملی۔ وہ بھی گوری چٹی تھی، اتنی گوری کہ لوگوں میں یہ بات مشہور تھی کہ ایک بار رضیہ بیگم باورچی خانہ میں پاؤں پسارے بیٹھی تھیں کہ بلّی نے آکر پنڈلی کا بوٹہ ہی نوچ لیا، وہ سمجھی شاید گندھا ہوا میدا رکھا ہے۔ رضیہ بیگم کے سامنے پہلی بیوی کی یاد انہیں بھول کر بھی نہ آئی اور جب تک پہلی بیوی زندہ رہی، وارے نیارے ہوتے رہے۔ مگر مرد کی فطرت تو بچہ کی فطرت ہوتی ہے۔ نیا کھلونا مل جائے تو پرانے کو بھول کر بھی یاد نہیں کرتا۔ دونوں بیویاں کیا تھی جیسے چاند گھر میں اتر آئے ہوں۔ ان کی نگاہوں میں کوئی کیا بیٹھتا؟ اور خود حنیف میاں دفتر میں نوکری کرتے تھے، پر ناک ذرا اونچی ہی رکھتے۔ کوٹ پتلون بھی پہنتے، موج آتی تو شیروانی پر چست پائجامہ بھی۔ آس پاس کے گھروں میں یہ پہناوا بھی کم ہی کم تھا۔ بڑی اونچی گردن اٹھا کر چلتے۔

    کسی کسی مرد کی قسمت ہی ایسی ترپٹ ہوتی ہے کہ راتوں شادیاں رچاتاجائے اور گھر خالی ہوتا جائے، اور یوں بات مشہور ہو جائے، تو پھر بیچارہ ہیٹا ہی پڑ جاتا ہے۔ بیوی پنپتی نہیں، منحوس مارا ہے مُوا!

    ایسے میں لاکھ کماؤ پوت ہو، لوگ بھی بیٹی دیتے ڈرتے ہیں۔ پڑھا لکھا ہو، چار پیسے کی جمع جاٹھی ہو، تو بھی کیا ہے! زندگی تباہ کرنے سے تو رہے۔ ادھر ان کے بارے میں بھی مشہور ہو چلا تھا کہ میاں کی بیوی بچتی نہیں، ایسے منحوس مارے ہیں، اور ادھر مریم کو کوئی برہی نہ پلٹتا تھا۔ ایسے میں ان دونوں کی قسمت کا میل تو ہونا ہی تھا۔ ادھر حنیف میاں کی نسبت آئی نہیں کہ ماں باپ نے ہاں کر دی اور ہاں ہی نہیں، لگے ہاتھوں شادی بھی رچا دی۔ بیچ میں لگائی بجھائی کرنے والے بھی تو کم نہیں ہوتے۔ لاکھ حنیف میاں منحوس مارے تھے پھر بھی کوئی اگر لگا جاتا کہ لڑکی ایسی بدصورت ہے تو صاف پلٹ جاتے۔

    مریم کے دل میں اپنی بدصورتی کا احساس اتنا شدید نہ تھا، ممکن تھا کہ حنیف میاں کو بھی اگر یہ پہلی عورت ہوتی تو احساس نہ ہوتا مگر وہ پہلے ہی دو چاند اپنے آنگن میں چمکائے بیٹھے تھے۔ صورت دیکھ کر بجھ گئے اور نفرت کی بنیاد اسی دن سے پڑ گئی۔ مگر ادھر مریم تھی کہ میاں کو دل و جان سے چاہنے لگی۔ بچپن ہی سے بدصورتی کا چرچا سنتی آئی تھی۔ شادی کی عمر ہوئی تو ایسی ایسی باتیں سننے میں آتی تھیں کہ بیچاری گھبرا گھبرا جاتی، ‘‘ کبھی شادی بھی ہوگی میری!‘‘

    اپنے آپ میں سوچے جاتی۔۔۔ اتنی بڑی عمر بھی نہ ہوئی تھی، مگر آس پاس والوں نے اس قدر بولا دیا تھا کہ اس کی ساری زندگی ایک مرد کے تصور سے وابستہ ہو گئی۔ جو کالا ہوتا، نکٹا ہوتا، جواری ہوتا، شرابی ہوتا، رنڈی باز ہوتا، مگر اس کا اپنا شوہر ہوتا کہ وہ بھی مرد والی کہلاتی، بچے والی کہلاتی۔ اور جب سسرال سے اپنے کالے پیلے بچے کو لے کر لوٹتی تو بڑی تمکنت اور غرور سے اسے اپنی مانڈی پہ لٹا کر اس کے منہ میں اپنی چھاتی دے کے ماں سے میکے کی باتیں پوچھتی، آئے گئے کی خبر لیتی اور ماں بھی اپنی بیاہی بیٹی سے کسی اہم کام میں رائے لیتی۔ ورنہ اب تو جو تم پیزار کے سوا کچھ ملتا ہی نہ تھا۔ شادی ہوگی تو کم از کم یہ تو ہوگا کہ کسی بات میں گنی جاؤں گی۔

    اور پھر یہ ہوا کہ کسی بدصورت کالے کلوٹے، شرابی، کبابی مرد کے بجائے حنیف میاں اس کی زندگی میں داخل ہو گئے۔ جہاں ایک حبشی کا تصور تھا، اس کی جگہ ایک بانکے اور خوبرو سے شہزادے نے لے لی۔ مریم کا دل کیسے لوٹ پوٹ نہ ہوجاتا، بن داموں غلام ہو گئی!

    مرد کی فطرت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ہر اس چیز کے پیچھے دوڑتا ہے جو اس سے دور بھاگے، جو آپ ہی آپ اس کے قریب آئے، وہ اس کے پیچھے کیا بھاگے گا؟ بلکہ خود ہی منہ موڑ کر بھاگ کھڑا ہوگا۔ مریم کا حشر تو یہ ہوا کہ بھوکے کو فالودہ مل گیا۔ حنیف میاں ہیں تو سب کچھ ہے۔ وہ آنکھ سے اوجھل ہوئے کہ دنیا کا مزہ گیا۔ ہر کام وقت سے پہلے کر دیتی۔ دفتر جانے کو اٹھتے تو داڑھی مونڈنے کو کٹوری میں گرم پانی لاکر رکھ دیتی۔ وہ داڑھی مونڈ کر اٹھتے تو جب تک حمام میں کپڑے لٹکا دیتی۔ نہا کر نکلتے تو دسترخوان لگا دیتی۔ کھاکر اٹھتے، دودھ کا پیالہ پکڑا دیتی۔ دودھ پی لیتے تو جوتے کے تسمے باندھنے بیٹھ جاتی۔ تسمے باندھ چکتی تو آپ ہی لپک سائیکل باہر نکالتی اور مسکرا کر پوچھتی، ’’آج دوپہر کھانے کے لیے کیا بھجوا دوں؟‘‘

    ’’اپنا سر!‘‘ وہ چڑھ کر بول اٹھتے۔ اس وقت انہیں مریم کی مسکراہٹ زہر لگتی۔ جانے کس نے ان کے پلّے باندھ دیا اسے۔ سدا مسکرائے جاتی، سدا کام نبیٹرے جاتی، کبھی تو ایسا نہ ہوتا کہ وہ بھی اٹواٹی کھٹواٹی لیے روٹھی رانی بنی پڑی ہو، اور منانے کی نوبت آئی ہو۔ میاں ساتھ ہونے کو آئے تو یہ جھٹ بازو ہٹا کر جگہ خالی کر دیتی۔ کبھی تو ایسا نہ ہوا کہ ہاتھا پائی تک نوبت آ گئی ہو۔ مریم کی سمجھ سے تو یہ بھی میاں کی خوشنودی ہی تھی، اسے کیا معلوم کہ مرد چکور ہوتا ہے۔۔۔ دیوانہ۔۔۔ چاند کے پیچھے لپکنے والا، ہاتھ آئی ہوئی چیز سے نفرت کرنے والا۔ حنیف میاں کا دل اس کی انہیں باتوں سے جل جل جاتا اور مریم، وہ تو پروانہ وار نثار تھی۔

    میاں کے ماتھے پر شکن دیکھی اور اس کی دنیا تیرہ و تار ہوئی۔ وہ یہ خوب سمجھتی تھی کہ میاں جو کھنچے کھنچے رہتے ہیں، اس کی بدصورتی کے علاوہ اور کوئی وجہ ہی نہیں۔ وہ چاہتی تھی کہ اپنی بدصورتی کی کمی اپنے کام کاج، اپنی خدمت، اپنی محنت سے پوری کر دے۔

    میاں بیوی کی باہمی چپقلش کو اولاد دور کر دیتی ہے۔ کیسا ہی جھگڑا ہو اور کٹے کٹے میاں بیوی ہوں، بچہ پیدا ہوتا ہے تو دونوں آپ ہی آپ مل جاتے ہیں۔ بچہ کی پیدائش بچھڑے دلوں کو ملا دیتی ہے۔ اس کا وجود کسی سورج سے کم نہیں ہوتا جو اندھیارے میں جھماجھم اجالا بکھیر دیتا ہے۔ مگر مریم کے آنگن میں یہ سورج بھی نہ چمکا۔ میاں کی چاہ میں تو وہ ایسی کھوئی تھی کہ کبھی بچہ کے پیار کی تمنا جاگی ہی نہیں۔ ہاں، مدتوں بعد یہ احساس ہوا کہ بچہ ہوجاتا تو اچھا ہی ہوتا۔ وہ بھی یوں کہ پاس پڑوس کی بڑی بوڑھیاں احساس دلانے لگیں اور شام کو ڈھلے تو وہ بھی دیکھتی کہ محلہ بھر کے باپ اپنی اپنی اولاد کو پیٹھ پر بٹھا کر گھوڑے گدھے بن رہے ہیں، کلیل کر رہے ہیں، ہنس رہے ہیں، اور ایسے میں حنیف میاں دفتر سے آ کر پھر دفتر کے کام میں مشغول ہوتے یا فرصت ہوتی تو مریم کو بات بات پر گالیاں دیتے رہتے۔ پیار کے دو جملے بھی ان کی زبان سے کبھی نہ نکلتے مگر مریم کبھی محسوس نہ کرتی۔

    مرد کا تصور اس کے پاس ایسا ہی تھا جیسا کہ خدا کا کہ سنے نہ سنے، سنائے جاؤ، پوجا قبول کرے نہ کرے پوجے جاؤ! بچپن سے جھڑجھڑ سنتی آئی تھی، سایہ سے دھوپ میں آتی تو ذرا تپش محسوس کرتی، یہاں تو سدا سے دھوپ ہی دھوپ تھی۔ اسے تو معلوم ہی نہ تھا کہ سایہ کیا ہوتا ہے، پیار کیا ہوتا ہے، محبت کیا ہوتی ہے؟ کوئی اس کا اپنا دل چیر کے دیکھتا تو سہی کہ حنیف میاں کے لیے کتنا پیار پھٹا پڑ رہا ہے۔ دنوں سے ہفتے، ہفتے سے مہینوں، مہینوں سے سال بنے اور گزرتے گئے اور اب حنیف میاں کی شادی کو اتنے اتنے بھی نہیں، پندرہ بیس برس گزر گئے تھے۔

    حنیف میاں کے اس عمر میں بھی کیا ٹھاٹ تھے۔ بڑھاپے کا تو دور دور تک پتہ نہ چلتا۔ اوپر سے روز روز داڑھی مونڈی جاتی۔ مریم کے ہاتھ کے مرغن اورطاقت بخش کھانے تھے۔ یہ تو تین تین بیویاں برتنے کے بعد بھی تگڑے جوان بنے پھرتے تھے اور مریم تھی کہ تیس برس کی عمر میں ہی بالوں کی پٹیاں سفید ہونے چلی تھیں۔

    حنیف میاں کوٹ پتلون پہنے جوتے کھٹکھٹاتے جب گھر میں داخل ہوتے تو مریم کو لمحہ بھر کو بھی احساس نہ ہوتا کہ شادی کو بیس برس سے اوپر گزر گئے ہیں۔ چال میں ابھی تک جوانوں کی سی دھمک اور دبدبہ تھا۔ دفتر سے ان کی واپسی کا وقت اور مریم کی عصر کی نماز کا وقت ساتھ ہی ساتھ پڑتا۔ ادھر یہ چق اٹھاکر زنانے میں داخل ہوتے تو مریم کو لمحہ بھر کو یہ احسا س ہوتا کہ میاں آ گئے ہیں مگر پھر وہ بڑی لگن سے اپنے معبود کی عبادت میں لگ جاتی، ان کا کمرے میں داخل ہونا اس کا رکوع میں جھک جانا ساتھ ساتھ ہوتا۔ بس اتنا کام تو وہ مرضی کے خلاف کرتی۔ نماز کوم یاں منع نہ کرتے مگر ایسے موقع پر کہ وہ تو آئیں اور یہ نماز میں جھکی رہے، ان کی جھلاّہٹ دونی ہو جاتی، گھڑی آنکھ کے سامنے کرتے اور تین منٹ بعد غراتے ہوئے آتے، پھر پڑتال شروع کر دیتے، ’’کیوں ری، گھی باپ کے یہاں سے آتا ہے جو ایسے ترتراتے پراٹھے بھجواتی ہے۔‘‘ کھانوں کی تعریف تو عمر بھر بھولے بسرے بھی نہ کی۔ یوں ہی مریم برف جیسے لہجہ میں بڑے پیار سے بولتی، ’’کمانے والے آپ! اللہ آپ کی جان سلامت رکھے، آپ کھائیں گے تو جئیں گے۔‘‘

    ’’چل، چل، بڑی آئی کھلانے والی۔ اگر اب کے اتنی جلدی گھی ختم ہو گیا تو یاد رکھ ہاتھ میں ایک پیسہ بھی نہیں دوں گا۔ سمجھی کہ نہیں؟‘‘ وہ بڑے پیار سے جواب دیتی، ’’میں اپنے کنگن بیچ کر گھی منگوا لوں گی۔ آپ کی جان سے بڑھ کر زیور تھوڑے ہی ہوا۔‘‘

    حنیف میاں نے کبھی ’تو، تیرے سے ہٹ کر بات نہ کی۔ پہلی دو بیویوں سے بھی بات کا یہی اندازہ تھا مگر اس میں پیار جھلکتا تھا اور اس میں غصہ۔ مریم بھی اسی انداز کی عادی ہو گئی۔ کبھی ایسا ہوتا کہ وہ سیدھے سپاٹ لہجہ میں پکارتے، ’’مریم ادھر آنا ذرا!‘‘ تو وہ حیران حیران سی کھڑی ہوجاتی، اسے کام بھول جاتا۔ پیار تو کبھی اس لہجہ سے نہ ٹپکتا، مگر وہ سن سی ہو جاتی کہ خلاف توقع آج کیا بات ہوئی جو پہلا سا انداز نہیں، وہ جھلاہٹ نہیں۔

    عصر کی نماز سے فارغ ہوتے ہی وہ زنانے میں کھلنے والے دروازہ کی طرف منہ کر کے بیٹھ جاتی کہ اب میاں اندر آئیں گے۔ آج بھی بیٹھی تھی کہ میاں آئے، آج کھانے وانے کے بجائے دوسری ہی بات چھیڑ دی۔

    ’’بازو والا کمرہ خالی ہے نا؟‘‘

    ’’ہاں ہے تو!‘‘ وہ نرمی سے بولی۔

    ’’اس کی صفائی کروا دینا، وہ چڑی مار آ رہا ہے۔‘‘

    ’’چڑی مار!‘‘ مریم حیرت سے بولی۔

    حنیف میاں ہنسے۔ مریم کو وہ ہنسی اتنی عجیب و غریب لگی۔ شادی کے بعد اس نے دو تین بار بھی انہیں ہنستے دیکھا ہوگا مگر وہ بھی اس سے مخاطب ہوتے، تب نہ ہنستے، کسی اور سے بات کرتے میں ہنستے۔ آج بھی یہ ہنسی مریم کے لیے نہ تھی بلکہ اپنے دوست کے لیے تھی۔

    ’’ہاں، ہاں!‘‘ وہ ہنس کر بولے، ’’میرا پرانا دوست ہے۔ میں چار سال کا تھا تو وہ آٹھ کا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ پڑھتے تھے۔ بچپن میں ہم سب اسے چھیڑ سے چڑی مار کہتے تھے۔ بس وہی نام پڑگیا۔‘‘

    ’’بڑے میاں، کس کام سے آ رہے ہیں؟‘‘ ‘مریم نے سر ڈھانپتے ہوئے پوچھا۔

    حنیف میاں پھر بدل گئے، ’’کیوں، تیرے باپ کا کھائے گا؟ ایسے الٹے سیدھے سوال کیوں کر رہی ہے تو؟‘‘

    ’’توبہ، توبہ میں نے کبھی آپ کی بات ٹالی ہے؟ یونہی پوچھ لیا تھا۔ معاف کر دیجیے۔‘‘

    ’’معاف کر دیجیے کی بچی! یاد رکھ، بوڑھے کو اگر کھانے پینے کی کچھ تکلیف ہوئی تو تیرا بھیجا کھول دوں گا۔‘‘

    ’’میں اس سے بھی خوش ہوں۔ اللہ آپ کو میرے لیے سلامت رکھے۔‘‘ وہ پیار سے بولی۔

    چھ بجتے بجتے چڑی مار گھر آ گیا، نام تو برکت علی تھا، مگر چہرہ سے تو سچ مچ چڑی مار لگتا تھا۔ اس بڑھاپے میں سرخ رنگ کی کام دار ٹوپی اوڑھ رکھی تھی۔ پیلی پیلی سی قمیص، سفید شیروانی اور سفید پائجامہ، چھوٹا سا قد، دبلے پتلے ہاتھ پیر، سوکھا مارا چہرہ، داڑھی ایسی چگی، جیسے بچے ناریل ناریٹیاں نوچتے ہیں اور اکی دکی پھر بھی لگی ہی رہ جاتی ہیں۔ بس، ہو بہ ہو۔ نچا ہوا ناریل معلوم ہو رہا تھا۔ تانگے میں بستر اور ایک چھوٹا سا بکس۔ اس کے اترتے ہی حنیف میاں نے زنانے میں جا کر کہہ دیا، ’’وہ آگیا ہے۔ شام کو دو سالن بڑھا لینا اور ہاں، روٹی نرم پکانا۔ اس کی دو داڑھیں گر گئی ہیں، سخت روٹی چبائی نہیں جائے گی۔‘‘

    ’’جیسا آپ کہیں گے ویسا ہی ہوگا۔‘‘ مریم سر جھکا کر بولی۔

    صبح ہوتے ہی چڑی مار سب سے پہلے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ابھی مریم صبح وظیفہ سے فارغ بھی نہ ہوئی تھی کہ اس نے کمرے میں پڑے پڑے زور زور سے ہاہا کر کے جماہیاں لینی شروع کر دیں اور پھر انگلیاں چٹخانے کی آوازیں آنے لگی ہیں۔ اس کا صاف مطلب تھا چائے چاہیے۔ مریم کو غصہ تو بہت آیا مگر میاں کا دوست تھا۔ ابھی پوری تسبیح بھی نہ ختم ہوئی تھی کہ ادھر سے خود میاں نے بھی آواز لگائی، ’’مریم! دو کپ چائے تو بھجواؤ۔‘‘

    آج میاں بھی چڑی مار کے ساتھ سویرے اٹھ بیٹھے تھے۔ ورنہ روز تو یہ ہوتا تھا کہ دھوپ چڑھ گئی ہے، گھر کے سارے کام کاج ختم ہو گئے ہیں، ناشتہ تک تیار ہو گیا ہے، مگر میاں ہیں کہ اینٹھے پڑے ہیں۔ مریم نے میٹھی آواز سے کہا، ’’ابھی بھجواتی ہوں۔‘‘

    اگر صرف بوڑھے کی بات ہوتی تو کبھی وظیفہ چھوڑ کر نہ اٹھتی مگر میاں نے خود بھی چائے کی فرمائش کر دی۔ مریم کے لیے ناممکن تھا کہ میاں کی بات ٹال جائے۔ چائے بنا کر طشت میں کپ سجائے اور ہاتھ بڑھاکر طشت دروازہ کی چوکھٹ پر رکھ کر ذرا اندر کو ڈھکیل دیا۔ میاں نے پھر گالی دی، ’’طشت اندر کو ڈھکیل دیا اور اگر ابھی کپ گر کر ٹوٹ جاتے تو؟ تیرے باپ کا بھلا کیا جاتا تھا، مجھے کیوں نہ پکار لیا؟‘‘

    مریم نے کوئی جواب نہ دیا۔ چائے سے فارغ ہوکر ناشتہ پکانے میں لگ گئی۔ ابھی پیالے میں انڈے توڑ ہی رہی تھی کہ میاں پھر وارد ہو گئے۔

    ’’دیکھ خاگینے میں ساری پیاز ہی پیاز نہ بھر دینا۔ بلکہ سادے انڈے ہی تل دے تو اچھا ہے۔ اور سُن، پراٹھے ابھی سے مت پکا لینا، جب ہم ناشتے کو بیٹھیں تو توا چڑھانا، گرم گرم اچھے رہیں گے۔ ورنہ اس کے دانت۔۔۔‘‘

    مریم کے چہرہ پر ناگواری کے اثرات چھائے مگر اس کا سر جھکا ہوا تھا، اس لیے حنیف میاں دیکھ نہ پائے۔ چڑی مار کھڑاؤں پہنتا تھا۔ حنیف میاں گھر میں تو ربر کی چپلیں پہنتے تھے، باہر نکلتے تو بوٹ چڑھا لیتے۔ گھر میں چلتے تو ربر کی چپلوں سے ہلکی ہلکی دھپ دھپ سنائی دیتی اور وہ آواز اتنی ہلکی اور مریم کو اتنی میٹھی معلوم ہوتی کہ وہ مزے سے سنتی رہتی۔ جدھر جدھر میاں کے قدم اٹھتے، ادھر ادھر اس کے کان بھی جاتے۔ چڑی مار نے صبح اٹھتے ہی سارے گھر میں کھڑ کھڑ مچا دی۔ پہلے تو کھٹ کھٹ کرتا ہوا اٹھا اور غسل خانہ کو چل دیا۔ وہاں سے آیا تو بیٹھک میں بیٹھ گیا۔ مریم کے کان جیسے پک گئے۔

    گلی میں سے اخبار والا گزرا تو چلا کر بولا، ’’اے لونڈے ادھر آئیو ذرا۔‘‘

    لونڈے نے اخبار پکڑایا اور اس نے اخبا رکے اوراق کھڑکھڑانے شروع کر دیے۔ مریم کے کانوں میں آوازیں پڑ رہی تھیں۔ حالات حاضرہ پر تبصرہ کیا۔ اپنی رائے سنائی۔ حنیف میاں کی رائے لی۔ پھر اوراق کھڑکھڑائے اور بولا، ’’ارے میاں! یہ صفحہ پڑھتے ہو کبھی؟‘‘ بڑے لوگوں کی بڑی بڑی باتیں اس میں آتی ہیں!‘‘

    ’’میں مطلب نہیں سمجھا؟ کیسے بڑے لوگ؟ کیسی بڑی بڑی باتیں؟‘‘

    ’’اچھا یہ سنو! جیسے کسی بڑے آدمی نے کہا ہے، تحفہ تحایف دینے لینے سے محبت بڑھتی ہے۔‘‘

    ’’اچھا۔۔۔ اچھا!‘‘ حنیف میاں شرارت سے مسکرائے، ’’سمجھ گیا، مطلب کہ تمھیں تحفہ چاہئے نہ کوئی؟ اچھا چلو ایک اچکن کا کپڑا دلائے دیتے ہیں۔‘‘

    ’’ہت تیری کی، یہ مطلب تھا میرا؟ ابے الّو کی دم، میں بتا رہا تھا کہ اس صفحہ کو تو بس پڑھنا ہی چاہیے۔ معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ بڑی اچھی دل کو لگتی ہوئی اور سچی باتیں اس میں لکھی ہوئی ہیں۔ اس چھوٹی سی جگہ میں کوئی نہ کوئی بات روز آتی ہے۔ اس کا عنون ہے، بڑے لوگ بڑی باتیں۔ بس روز ایک ہی بات آتی ہے۔‘‘

    مریم کو یہ سب باتیں سنائی دے رہی تھیں اور اس کو خواہ مخواہ غصہ آ رہا تھا۔ میاں کو کھلانا تو اس کو آتا تھا اور کھلاتی بھی تھی۔ جو کمائے وہی نہ کھائے تو بھلا کیا کرے! اور میاں کو کھلا کر خوشی بھی ملتی تھی مگر یہ چڑی مار جانے کہاں سے آ ٹپکا تھا اور انداز بتاتے تھے کہ ابھی مدتوں یہیں پڑا رہے گا اور باتیں دیکھو کیسی سنا رہا ہے۔ تحفہ تحائف دینے لینے سے محبت بڑھتی ہے۔ دے گا تو کیا، ہاں، خود ہتھیا ضرور لے گا۔ اس نے جل کر سوچا اور یہ یہاں ایسے ہیں کہ کہا ہے تو ضرور ہی اچکن بنا دیں گے۔ میاں کی حلال کی، بہتے پسینے کی کمائی کوئی تیسرا کھائے، یہ اسے نہ بھایا۔

    ناشتہ ختم ہوا۔ میاں نے ایسی گڑبڑی مچا دی تھی کہ پراٹھے الٹانے میں اس کے ہاتھوں میں جلتے گھی سے چھالے پڑ گئے۔ ناشتہ ختم ہوتے ہی میاں تو دفتر چلے گئے اور چڑی مار اپنے کمرے کا دروازہ بند کر کے اونچے اونچے گانے لگا، ’’اجمیر والے خواجہ بگڑی مری بنا دے۔‘‘

    بار بار ایک ہی بول دہرائے جا رہا تھا۔ مریم اوب گئی۔ دل چاہا جا کر کہہ ہی دے، بس ختم بھی کرو، مگر ہمت نہ پڑی۔ شام کو میاں لوٹے تو وہ نماز پڑھ رہی تھی۔ دو گھڑی چڑی مار سے باتیں کرتے رہے پھر تنتنا کر اندر آئے، ’’کیوں ری۔ دوپہر کو کھانا بھجوایا تھا بڈھے کو؟‘‘

    ’’آپ نے کہا تھوڑے ہی تھا۔‘‘

    ’’اری نکمی۔ تونے نہ کھایا ہوگا جو اسے بھوکا مار رکھا؟‘‘

    ’’آپ کہتے تو بھجواتی۔ اگر اپنے دل سے بھجوا دیتی تو بھی آپ چڑھتے ضرور!‘‘

    ’’خود بیٹھی ٹھونستی رہی۔ بوڑھا آدمی، اس کا دم کیا کہتا ہوگا؟

    مریم دھیرے سے بولی، ’’ناشتہ تو کیا تھا۔‘‘

    ’’ایسا کتنا کھایا تھا؟‘‘ میاں ڈپٹ کر بولے۔

    ’’چنگیر بھر پراٹھے ہوا ہو گئے اور کتنا کھاتا؟‘‘ مریم کے لبوں تک یہ جملہ آیا مگر پی گئی۔

    ’’چل اٹھ ہلکا سا ناشتہ بنا دے۔ کوئی عمر بھر ساتھ رہنے کو آیا ہے، سوتیلا پن دکھا رہی ہے۔‘‘

    مریم کا جی نہ چاہتا تھا کہ کڑوی بات کہہ کر میاں سے بگاڑ کرے۔ دھیرے سے اٹھ کر باورچی خانہ کو چلی گئی۔

    دوسرے دن ابھی اندھیرا چھٹا بھی نہ تھا، مرغ بانگ دے ہی رہے تھے کہ پہلے دن کی طرح چڑی مار اٹھ کر بیٹھ گیا۔ مریم نے خفگی سے بچنے کے لیے آپ ہی چولہے کے پاس بیٹھ کر پھونکیں مارنی شروع کر دیں۔ پھونکوں کی آواز سن کر چڑی مار کی جماہیاں رک گئی اور وہ پڑا پڑا گنگنانے لگا، ’’کالی کملی والے تجھ پہ لاکھوں سلام۔‘‘

    میاں آتے آتے چڑی مار کے لیے پچھلی شام اچکن کا کپڑا لیتے آئے تھے۔ وہ تو مریم کو بھی پتہ نہ چلتا مگر چڑی مار نے کپڑا دیکھ کر طوفان مچا دیا، ’’میں نہ لوں گا۔ قسم ہے موسیٰ کی، میں نے اس لیے تھوڑی ہی پڑھ کر سنایا تھا۔ ہاتھ تو نہ لگاؤں گا۔‘‘

    ’’ابے تو کون کہتا ہے کہ تیرا جی مانگنے کو چاہتا تھا۔ میرا دل ہے۔ رکھ لے بھائی، پرانی یاری تھی، تو تیرا بھی ہوتا ہی تھا۔‘‘

    مریم جان گئی کہ ضرور وہ بڑے لوگ، بڑی باتیں والی بات سچ ہو گئی ہے۔ دانت کچکچا کر رہ گئی۔

    چائے ختم ہوگ ئی تو چڑی مار کھڑکھڑاتے ہوئے پورے گھر میں پھرتا رہا۔ اخبار والا گزرا تو پھر کل کی واردات دہرائی گئی۔ اوراق کھڑکھڑا کر بولا، ’’سنو میاں! آج لکھا ہے، انسان پہاڑ کی بلندی سے گر کر کھڑا ہو سکتا ہے، مگر نگاہوں سے گرے تو پھر کبھی کھڑا نہیں ہو سکتا۔‘‘

    ’’بات تو واقعی دل کو لگتی ہوئی ہے۔‘‘

    مریم کے دل کو بات اس لیے لگ گئی کہ اس میں دینے دلانے کا سوال پیدا نہ ہوتا تھا۔

    کافی دن گزر گئے مگر چڑی مار نہ گیا۔ اب تو لگتا تھا کہ وہ حنیف میاں کے گھر عمر گزارنے ہی آ ٹپکا تھا۔ جانے کہاں سے آیا تھا کہ ایک دن اپنا بچا کھچا سامان بھی منگوا لیا۔ حنیف میاں تو دفتر میں رہتے۔ خود پڑاپڑا کمرہ میں گاتا رہتا، ’’اب پاس بلالے مجھے مختار مدینہ۔‘‘

    چڑی مار کو نہ پوری قوالی یاد تھی نہ پوری نعت۔ کبھی ایک بول سے آگے نہ بڑھتا، بار بار اسی کو دہرائے جاتا، گھنٹوں ایک ہی مصرعہ گنگنائے جاتا۔ مریم کو اس کے وجود سے اکتاہٹ تو ہوتی ہی تھی، اس کے گانے سے بھی ہوگئی۔ اگر پورے بول ہوتے تو بات بھی تھی۔ گلابے سرا ہوگیا ہے اور وہ ہے کہ ایک ہی رٹ لگائے ہے، ’’اب پاس بلالے مجھے۔۔۔‘‘

    جا، اور ایسا جا کہ پھر آنا نصیب نہ ہو تجھے! مریم نے کوسنا چاہا، مگر وہ پھر رک گئی۔ اتنے دن گزر گئے تھے، مگر دونوں میاں بیوی میں اس کے متعلق ایک بات نہ ہوئی تھی۔ آج اتنا ضرور سوچ لیا کہ شام کو میاں سے کچھ نہ کچھ ضرور کہے گی۔ شام کو آتے آتے حنیف میاں باریک کٹوایا ہوا قیمہ لے آئے اور آتے ہی بولے، ’’اس کے دم کے کباب بنا دینا۔‘‘

    کباب بنانے میں کیا کم دیر لگتی ہے؟ کوٹا پیسی میں ہی گھنٹے دو گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ چولھے کے پاس جاکر بیٹھی تو بیٹھی ہی رہ گئی۔ میاں سے بات بھی نہ کرسکی۔ کبابوں کے ساتھ ورقی پراٹھے پکنے ہی تھے۔ گرم گرم پراٹھے، کباب اور سالن، دسترخوان لگا اور دونوں جٹ گئے۔ کھاتے کھاتے چڑی مار بولا، ’’ابے تیری ماما سالن تو خوب پکاتی ہے؟ کباب تو کیا ہی مزہ کے بنے ہیں۔‘‘

    مریم کا دل چاہا کہ جاکر ایک چانٹا لگائے۔ ماما ہوگی تیری ہوتی سوتی، کھائے تو کھائے اوپر سے گالی بھی بکے۔

    میاں کہہ رہے تھے، ’’ماما؟ دماغ تو ٹھیک ہے بے تیرا! کھانا میری بیوی پکاتی ہے۔‘‘

    ’’ہیں! اور تو یہ سدا جھڑجھڑ، پھڑپھڑ کسے سنایا کرتا ہے؟‘‘ اس کی آواز میں حیرت تھی۔

    ’’اپنی بیوی کو، اور کس کو؟‘‘

    چپڑ چپڑ منہ چلانے کی آواز رک گئی اور چڑی مار زور سے بولا، ’’ابے کوئی اپنی بیوی سے ایسے تیز لہجہ میں بات کرتا ہے؟‘‘

    ’’تونے شادی کی ہوتی تو پتہ چلتا سالے! چل چل، کھانا کھا، زیادہ باتیں نہ بنا!‘‘

    تیز دھوپ کا اندازہ کسی سایہ دار درخت کی ٹھنڈک میں بیٹھ جانے سے ہوتا ہے، مریم نے میاں کی اتنی گھڑکیاں سنی تھی کہ پیار کی کبھی تمنا نہ ہوئی۔ احساس بھی نہ ہوا کہ میٹھا بول بھی دنیا میں کوئی چیز ہے۔ چڑی مار کے دو بول جاکر جی کو لگ گئے۔ مگر دھوپ کا مارا بھی ایسی دو گھڑی کی ٹھنڈک کو لے کر کیا خوش ہوتا کہ ابھی آگے تو وہی کڑی دھوپ پڑی ہوئی۔ الٹا جی جل کر رہ گیا اور چڑی مار کو من ہی من میں دو چار گالیاں بھی دے ڈالیں، مُوا رہے گا، بسے گا، اور چل دے گا اوری ہاں لڑائیاں لگا جائے گا۔

    اگلے دن اخبار میں سے اس نے سنایا، ’’جب تک دنیا میں ڈاکیے موجود ہیں، خوشی محسوس ہوتی رہے گی۔‘‘

    خود ہی بولنے لگا، ’’سالا، اپنے نام تو کوئی خط نہیں آتا۔ کیا خوشی محسوس ہوگی!‘‘

    مریم نے پکاتے پکاتے چڑھ کر سوچا کس قدر باتونی ہے موا، چپکا تو رہا ہی نہیں جاتا اس سے۔

    اس کے دوسرے دن بڑی دیر تک اخبار کھڑکھڑاتا رہا، پھر گمبھیر سی آواز میں بولا، ’’دنیا میں اس سے بڑھ کر اور کوئی خوشی نہیں کہ خط عورت کی طرف سے ہو۔‘‘

    مریم کا جی جل کر رہ گیا۔ رات کو میاں سے بولی، ’’کیوں جی آپ کا یہ دوست پہلے کہاں رہتا تھا۔‘‘

    میاں بھلے بھاؤ میں تھے، بولے، ’’اپنے بھائی کے پاس رہتا تھا۔ وہاں جھگڑا ہو گیا، یہاں چلا آیا۔‘‘

    ’’جھگڑا کس بات پر؟‘‘

    ’’یہ کمبخت کھڑاؤں پہنتا ہے نا۔۔۔ اور اس کے بھائی کی بیوی سر کے درد کی مستقل مریضہ ہے۔ وہ کھٹ کھٹ سے تنگ آ گئی مگر اس نے کھٹ کھٹ نہ چھوڑی۔ نتیجہ ظاہر تھا۔ یہ سالا بڑا نراجی ہے، بھلا کیا ٹکتا!‘‘

    مریم بولی، ’’تو شادی کیوں نہ کرلی؟‘‘

    ’’اس الّو کے پٹھے کو بھلا کون بیٹی دیتا؟ مگر خود جناب کا یہ کہنا ہے کہ آج تک کوئی لڑکی ہی انہیں پسند نہ آئی۔‘‘ حنیف میاں ہنس کر بولے، ’’نچے ہوئے ناریل جیسی تو صورت ہے اور اس پر طرہ یہ۔‘‘

    گھربار ہے نہیں۔ بھاوج سے جھگڑا کر بیٹھا، مطلب یہ کہ یہ کُرھنا ساری عمر کے ساتھ ہے۔ مریم نے دل ہی دل میں سوچا۔

    مریم کی طبیعت کچھ بگڑ گئی اور گھر کا سارا نظام چوپٹ ہو گیا۔ اب صبح ہی صبح پھونکوں کی آواز کے ساتھ نہ کپ چھن چھناتے تھے نہ گرم گرم پراٹھے ملتے تھے۔ محلہ کی کوئی عورت صبح ہی پراٹھے تھوپ کر تھپکی لگا دیتی اور دسترخوان پر مینڈک جیسے موٹے موٹے پراٹھے پڑے رہتے۔ مکھیاں ان پر بھنکتی رہتیں۔ صبح کا کھانا شام تک چل جاتا۔ دسترخوان پر بیٹھے بیٹھے چڑی مار بولتا، ’’بھابی بیمار پڑی اور کھانے کا مزہ چلا گیا۔‘‘

    مریم کو رضائی کی موٹی سی تہ کے باوجود بھی سب کچھ سنائی دے جاتا۔ میاں بولتے، ’’ایسا کیا مزہ بھرا پڑا تھا؟‘‘

    ’’ابے سالے تیرے، کلیجہ پر تو سور کے بال ہیں۔ کسی بات کا اثر ہی نہیں ہوتا۔‘‘

    ’’تیرے کلیجے میں تو عورت کا دل ہے، بس۔‘‘ وہ چڑھ کر بولتے۔

    ’’بھول گیا۔ کل سنایا تھا تجھے، عورت کا دل پھول ہوتا ہے جو ذرا سی تپش سے کمھلا جاتا ہے اور تو تو سالے آگ لیے لیے پھرتا ہے۔‘‘

    ’’ابے بہت دیکھے ایسے پھول!‘‘

    مریم کو رہ رہ کر غصہ آتا۔ چڑی مار کے بیچ میں منہ مارنے سے میاں اور کھٹے کھاتے۔ اس دن تو مریم کوبڑا غصہ آیا۔

    ’’جہاں میاں بیوی کے جھگڑے نہ ہوں، وہاں محبت نہیں ہوتی۔‘‘

    ’’جانے کمبخت کون سا اخبار پڑھا کرتا ہے۔ الو کی دم! ہمارا گھر دیکھو ذرا، اتنے جھگڑے ہیں اور محبت؟‘‘

    مریم نے طے کر لیا چڑی مار کا قضیہ ہی پاک کرنا ہے۔ مریم کو یقین ہو گیا کہ اب چڑی مار اس گھر سے جلد ہی منہ کالا کر جائے گا، کیونکہ اب حنیف میاں کی اور اس کی آئے دن چخ چخ ہوتی ہے اور موضوع خود مریم ہوتی۔ میاں لتاڑتے اور چڑی مار اس نیک بیوی کو گھر کی برکت کہتا۔ مریم بے حد خوش تھی کہ اب پنڈ چھوٹے گا۔ مگر میاں نے ایک دن سنایا، ’’مہینہ بھر کا سامان اس چڑی مار کے ہاتھ سے منگوالے۔ اور اب سے وہی لایا کرے گا۔ آدمی معقول ہے۔ میں تو ایک کی جگہ دو پیسے پھینک آتا ہوں۔‘‘

    مریم نے بے دلی سے روپئے تھام لیے۔ وہی لایا کرے گا۔ ظاہر ہے یہیں رہے گا تبھی تو سامان بھی لائے گا۔ وہ زور سے، تیز ہو کر بولی، ’’کیوں جی! یہ۔۔۔‘‘

    میاں نے پلٹ کر گھورا۔ وہ بات بدل گئی، ’’آج دودھ کیوں نہ پیا؟‘‘

    ’’جی نہ چاہا میرا۔‘‘ اور وہ پاؤں پٹکتے ہوئے چلے گئے۔

    مریم کا دل چاہا کہ اپنی زبان ہی کاٹ پھینکے جو وقت پڑنے پر ایک بات بھی نہیں کہہ سکتی۔

    حنیف میاں دو دن کی چھٹی پر تھے۔ بخار وخار تو کچھ نہ تھا، بس ایسے ہی سر میں ہلکا ہلکا درد اور اعضا شکنی۔ مریم نے کھانا پکا کر دسترخوان لگایا اور میاں کو آواز دی کہ ان کا جی کنمناتا رہا تھا بولے، ’’میرا جی نہیں چاہ رہا ہے۔ چڑی مار کو کھلا دے۔‘‘

    مریم نے بے دلی سے طشت میں کھانا لگایا اور بیٹھک کا پردہ ذرا سا کھسکا کر طشت آگے کو بڑھا دیا۔

    چپڑ چپڑ کی آواز سے مریم کو پتہ لگتا رہا کہ چڑی مار کھانا کھارہا ہے۔ کھانا کھا کر اس نے طشت اندر زنانخانہ میں رکھ دیا اور بولا، ’’قسم خدا کی بھابھی، تمھارے ہاتھ کے کھانوں میں وہ مزہ ہے کہ جی چاہتا ہے ان ہاتھوں میں سونے کے کنگن پہنا دوں۔‘‘

    مریم نے اکیلے میں اپنے ہاتھوں کو دیکھا۔ سونے کے کنگن؟ وہ طنزیہ انداز سے خود ہی مسکرائی۔ سونے کے کنگن پہننے کے تو اس کے نصیب کہاں ہیں؟ ہاں مسالے پیستے پیستے اور روٹیاں تھوپتے تھوپتے البتہ اس کے ہاتھ چمڑے جیسے سخت اور مردار ضرور ہو گئے ہیں۔ تین چار دن ایسے ہی گزرے۔ حنیف میاں تو بس دودھ چائے کافی پر ہی گزارا کرتے رہے اور چڑی مار ایک سے ایک بڑھیا کھانا کھاتا رہا۔

    ایک دن بڑا ہی عجیب اتفاق ہوا۔ مریم کھانے کا طشت مردانے میں کھسکا کر چق کے پیچھے سرک ہی رہی تھی کہ بیٹھک میں سے چڑی مار نکل آیا۔ ایک جھلک اس نے مریم کے ہاتھوں کی دیکھ لی، بالکل سادگی اور پشیمانی سے، جس میں نہ کسی بدمعاشی کا شبہ تھا نہ بری نظر کا۔ وہ وہیں سے بولا، ’’بھابھی، آج پتہ چلا کہ تمہارے ہاتھ کے پکے کھانوں میں اتنا مزہ کیوں ہے۔ کیوں نہ ہو، جس کے ہاتھ اتنے خوبصورت ہوں، کھانوں میں کیسے مزہ نہ آئے گا۔‘‘

    ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے سنسناتے کئی جھونکے جیسے ریگ زار میں در آئے اور مریم کا انگ انگ جیسے ٹھنڈی ہوا سے بھیگ گیا مگر وہ سنبھلی اور دروازہ کو بری طرح بند کرتے ہوئے کہ ان کو ناگواری کا اظہار ہو جائے، اندر آ اپنے پلنگ پر گر پڑی۔

    مریم خود سے یہ توقع کر رہی تھی کہ اب وہ شاید ہی چڑی مار کے لیے کوئی اہتمام کرے لیکن وہ خود ہی یہ دیکھ کر دنگ رہ گئی کہ رات کو جب اس نے کھانے کا طشت مردانے میں رکھنے کی خاطر اٹھایا تو وہ انواع و اقسام کے پکوانوں سے یوں بھرا ہوا تھا جیسے کسی نئے نویلے دولہے کے لیے سجایا ہو۔ مریم خود سے ڈر گئی۔

    دوسرے دن حنیف میاں کی طبیعت چنگی تھی۔ دفتر جانے کو اٹھے تو مریم نے بے حد التجا آمیز لہجہ میں انہیں مخاطب کیا، ’’ایک بات سنیے گا میری؟‘‘

    پتہ نہیں حنیف میاں کس موڈ میں تھے کہ بجائے گھڑکنے ڈانٹنے کے پوچھ بیٹھے، ’’کیا بات ہے؟‘‘

    مریم رک رک کر سہم سہم کر بولی، ’’دیکھیے! آپ کو اندازہ نہیں آپ کے دوست کی وجہ سے ہمارا بے حد خرچہ ہو رہا ہے۔ کسی بھی طرح سے آپ اسے یہاں سے روانہ نہیں کر سکتے؟‘‘

    حنیف میاں نے پہلے تو اسے ذرا گھورا۔ ذرا رک کر بولے، ’’شام کو سوچوں گا۔‘‘

    شام کو حنیف میاں بنایا بنایا منصوبہ لے کر آئے۔ آتے ہی انہوں نے چڑی مار کو مخاطب کر کے اپنے پن سے، یوں کہ اسے ذرا بھی شبہ نہ ہو سنایا، ’’یار تو بُرا مت مان۔ میرے بڑے بھائی اور بھاوج شام کی گاڑی سے پہنچ رہے ہیں اور کوئی دو ہفتہ قیام رہے گا۔ تجھے تو معلوم ہے کہ گھر کتنا چھوٹا ہے! اور بھابھی پردہ کرتی ہیں۔ اگر تو برا نہ۔۔۔‘‘

    چڑی مار سمجھدار تھا۔ خود ہی بات کاٹ کر بول اٹھا، ’’ارے یار کمال کرتے ہو۔ اس میں برا ماننے کا کیا سوال؟ میں ابھی چلا جاتا ہوں۔ زندگی باقی رہی تو۔۔۔‘‘ اور اس نے اپنا مٹھی بھر سامان لمحوں میں باندھ بوندھ کر تیار کر لیا۔ باہر تانگہ کے گھنگھرو چھن چھنائے اور ادھر مریم کی زندگی بھر کی بے زبانی کو زبان مل گئی۔ وہ جگر پھاڑ کر رو پڑی اور سسکیوں کے درمیان چیخ چیخ کر حنیف میاں سے کہنے لگی، ’’اسے روکیے، خدا کے لیے روکیے۔ میں۔۔۔ میں اس کے بغیر زندہ نہ رہ پاؤں گی۔‘‘

    حنیف میاں نے بے ہوش ہو جانے والی حیرت سے اسے دیکھا۔ وہ بے باکی سے کہے گئی،

    ’’اس کے بغیر میری زندگی کا کوئی تصور ہی نہیں۔ میں میں اس سے محبت کرتی ہوں۔۔۔ میں۔۔۔!‘‘

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے