دو اور دو بائیس
مجھے سو فیصد یقین ہے وہ کسی لڑکی کی وجہ سے نہیں بلکہ محض اپنی پڑھائی کی وجہ سے ان دنوں ہروقت انٹرنیٹ پر رہنے لگا ہے’’
ماریہ نے کچھ چڑتے ہوئے میری طرف دیکھ کر کہا تو اس کے چہرے پر پھیلا ادھوری سچائی کا پورا یقین مجھے بری طرح جھنجلاہٹ میں مبتلا کر گیا۔ وہ بہت کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے بدلتا دیکھ کے بھی طیب پر شک کرنے کو تیار نہ تھی۔ میں مانتا ہوں، وہ میرا بھی بہت پیارا کزن تھا اور میں بھی اس سے ماریہ جتنی محبت ہی کرتا تھا مگر اس کی طرح اندھے اعتبار سے گریزاں تھا۔ اسی لئے میں طیب کی بدلتی ہوئی عادت و اطوار کا چپکے چپکے تفصیلی جائزہ لے رہا تھا جو روز بروز میرے شک کو یقین میں بدلتی جا رہی تھیں۔ مجھے ہرگز گوارا نہیں تھا کہ وہ کسی غلط راستے پر چل نکلے۔ پچھلے کچھ ہفتوں سے اس کی سرگرمیاں مشکوک سی ہو گئی تھیں۔ ہمارے ساتھ وقت گزارنے کی بجائے مسلسل لیپٹاپ سے چپکے رہنا اس کا وطیرہ بنا ہوا تھا۔ مجھے قریب آتے دیکھ کر چوروں کی طرح تیزی سے اسے چھپانے کی کوشش بھی کرتا۔ کبھی اس مخصوص براؤزر کو ہی بند کر دیتا تھا۔ میرا ذہن شک سے یقین کا سفر طے کر رہا تھا کہ کچھ تو ایسا ہے جس کی پردہ داری ہے۔ اسی لئے کہیں دیر نہ ہو جائے کے مصداق میں آج ماریہ کو بھی اپنے اس خوف میں حصہ دار بنانا چاہ رہا تھا تاکہ ہم دونوں مل کر اس کا کوئی سدباب کر سکیں لیکن وہ یقین کرتی تو نا۔۔۔!
‘’اے احمقوں کی ملکہ! تم آخر سوچنے سمجھنے کا کام کب شروع کرو گی‘’ غصے کی شدت سے اپنی جلتی ہوئی کنپٹیوں کو دباتے ہوئے میں چیخا تو وہ سہم کر چند قدم پیچھے ہٹ گئی اور خوفزدہ سی دیوار سے جا لگی۔
نہ جانے تم جیسی گاؤدی لڑکی یونیورسٹی تک کیسے پہنچ گئی جبکہ سچ تو یہ ہے کہ تم ابھی تک دو اور جمع دو چار سے آگے نہیں سوچ سکتی ہو’’
ہم تینوں اسی گھر میں ساتھ ساتھ پل کر جوان ہوئے تھے۔ وہ اس وقت میرے کمرے میں چائے دینے آئی تھی اور میں حسب معمول آج بھی اسے سمجھانے بیٹھ گیا تھا کہ وہ طیب کی سرگرمیوں پر مکمل نظر رکھے۔ مجھے معاملات کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے۔ آج پھر میری طرف سے طیب کی ذات پر شکوک و شبہات کے سائے پڑے تو ماریہ کا چہرہ تاریکی میں ڈوب گیا۔ وہ ناگواری کے بھاری بوجھ تلے کسمسائی۔ بے چینی سے پہلو بدلتے ہوئے اپنے دوپٹے کو دائیں شانے سے اتار کر بائیں پر پھیلانے لگی۔ تھوڑی دیر سر جھکائے پیر کے ناخن سے زمین کو کریدتے ہوئے کچھ سوچتی رہی پھر دونوں ہاتھ کمر پر باندھ کر دوبارہ اپنا اعتماد بحال کرتے ہوئے تن کر میرے سامنے کھڑی ہو گئی۔ ایسے ہی جیسے کالی گھٹاؤں کے گزر جانے کے بعد نکھری نکھری سی چمکیلی دھوپ منڈیروں پر آ بیٹھی ہو۔ اب کی بار اس کی بڑی بڑی آنکھیں اعتماد سے بھری تھیں۔ اس کے تیور میں اپنی ہی بات سچ ہونے کا یقین کسی ضدی بچے کی طرح چوکڑی جمائے بیٹھا تھا۔
مگر کسی کو دھوکہ دینے کے لئے لازم ہے کہ انسان کے پاس اس سے نفرت، دھوکہ یا دشمنی جیسی کوئی وجہ ضرور ہو۔ اگر ہم کسی کے ساتھ برا نہیں کریں گے تو کوئی ہمارے ساتھ بلاوجہ برائی کیوں کرےگا بھلا؟’‘
یہ سن کر بےاختیار میں نے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھامنا چاہا تو میرے ہاتھ میں پکڑا چائے کا کپ چھلک گیا۔ میرا شدت سے دل چاہا کہ اسی لمحے لاعلمی اور خوش گمانی کی اس پوٹ کو پکڑ کر روئی کی طرح دھنک ڈالوں۔ اس وقت وہ مجھے معصوم سے کہیں زیادہ جاہل نظر آ رہی تھی۔ نجابے کیسے لمبا سانس لے کر میں نے خود کو اسے پیٹنے سے باز رکھا۔ چند لمحے اس کے گول مٹول بھولے بھالے چہرے پر نظریں جما کر سوچتا رہا کہ کیسے سمجھاؤں؟ آخر اس نتیجے پر پہنچا کہ کسی مچھلی کو تو شاید درخت پر چڑھنا سکھایا جا سکتا ہو مگر اسے یہ باور کرانا ممکن نہیں کہ لوگ بلاقصور بھی دوسروں کی زندگی جہنم بنا دیتے ہیں۔ آہ۔۔۔ یہ اپنی سادگی اور معصومیت کی وجہ سے دنیا میں کیسے کیسے دھوکے نہ کھائےگی، یہی سوچ کر میرا بلڈ پریشر بڑھنے لگا۔ میں نے چائے کا کپ سائڈ میں رکھا اور اسے شانون سے پکڑ کر زور زور سے جھنجھوڑتے ہوئے سمجھانے کی آخری کوشش کی۔
دیکھو! ماریہ۔۔۔ کسی بھی جھوٹ اور دھوکے کے پیچھے دشمنی نہ بھی ہو تو بھی اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے۔ چاہے وہ حسد یا جلن کا جذبہ ہی کیوں نہ ہو۔ اقتدار کی خواہش یا طاقت کا گھمنڈ سر چڑ ھ کر بولنے لگے۔ میں حیران ہوں تم آخر کب تک دو اور دو کو چار ہی سمجھتی رہوگی۔ یہ دنیا بڑی ظالم چیز ہے۔ جب بھی چاہے گی دو اور دو کو بائیس بناکر تمھارے قدموں تلے سے زمین کھینچ لےگی اور تمھیں خبر تک نہ ہوگی’’
میرے ہاتھوں کی سختی اور لہجے کا پتھریلا پن اس کے اعصاب پر خراشیں ڈالنے لگا تو اسے گھٹن سی محسوس ہوئی۔ مجھے نہیں علم یہ کیا تھا۔ ڈر، خوف یا بد گمانی کی خلش کہ اس کی بے جان نگاہیں مسلسل میرے عقب میں کھلی کھڑکی پر جمی ہوئی تھیں جہاں دھیرے دھیرے رات اتر رہی تھی۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کمرے میں حبس اور اندھیرا پھیلنے لگا تھا۔ میں نہیں جانتا، اس نے میری بات پر یقین کیا یا نہیں مگر میری تسلی کے لئے طیب کی نگرانی کرنے اور حقیقت کی تہہ تک پہنچنے کا وعدہ کر لیا۔ اس کے بعد تھکے تھکے پیر گھیسٹتی میرے کمرے سے نکل گئی۔
ایک ہی گھر میں پروان چڑھنے کی وجہ سے ہماری محبت کی یہ مثلث بہت مکمل اور خوبصورت تھی۔ کئی بار لوگوں سے سنا بھی تھا کہ محبت کی تکون کبھی تکمیل کو نہیں پہنچتی۔ ہم یہ سن کر خوب ہنستے کیونکہ ہم تینوں بچپن سے اب تک اپنی چاہت اور یگانگت کی ست رنگی دنیا بسا کر ایسے غلط تصورات کو ’‘مہابیانیہ’’ ثابت کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔
میں کچھ ہفتوں سے فضا میں عجیب مشکوک سی سرسراہٹیں محسوس کر رہا تھا۔ ایسا لگنے لگا تھا طیب ہم دونوں سے دور ہو گیا ہو۔ ہم دونوں سے دور۔۔۔ کہنا شاید غلط ہو گا چلئیے! یوں کہ لیتے ہیں کہ وہ صرف مجھ سے دور ہو گیا تھا۔ یونیورسٹی سے آکر سارا وقت کمپیوٹر پر کچھ کام کرتا رہتا، کبھی بہت پرجوش لگتا اور کبھی سوچوں میں ڈوبا بےچین، مضطرب سا محسوس ہوتا۔ میں نے کئی بار وجہ جاننا چاہی مگر ہر بار وہ ہنس کر ٹال گیا۔ اگر کبھی میرے پاس آتا بھی تو مشکل سے دس پندرہ منٹ بیٹھتا اور کوئی بہانہ بناکر دوبارہ لیپ ٹاپ کے سامنے چلا جاتا اور کئی بار گھنٹوں بتائے بنا گھر سے بھی غائب رہنے لگا تھا۔ اگر کبھی لیپٹاپ بند کر بھی دیتا تو پھر بھی ماریہ کے ساتھ اس کی آنکھوں ہی آنکھوں میں ان کہے پپیغامات کی ترسیل بذریعہ مسکراہٹ و گنگناہٹ میرے بدن پر بھی رینگنے لگتی۔ ان دونوں کے درمیان دوستی سے بڑھ کر کوئی گہرا تعلق پروان چڑھ رہا تھا۔ وہ مجھ سے اپنا یہ نیا تعلق چھپانے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے لیکن میں اتنا بےوقوف نہ تھا کہ محبت کے وائی فائی سے پھوٹنے والی ان خوشگوار لہروں کو محسوس نہ کر سکوں۔ ان کے پیار کو دیکھ کر دھیرے سے زیر لب مسکرا دیتا۔ سب کچھ جانتے بوجھتے بھی انجان بنا رہتا تاکہ ان کو کوئی شرمندگی محسوس نہ ہو۔ وہ دونوں مجھے بہت پیارے تھے اور ان کی خوشی کے لئے میں کچھ بھی کر سکتا تھا۔ خاص طور پر ماریہ کی خوشی کے لئے تو کسی حد تک بھی جا سکتا تھا۔ اس لئے خود ہی گھر والوں کے سامنے بہانے بہانے سے ان کی پسند اور شادی کا تذکرہ بھی کرنا شروع کر دیا تھا تاکہ سب لوگ ذہنی طور پر پہلے سے تیار ہو سکیں اور عین وقت پر کسی کو مسئلہ نہ ہو۔
کئی دن تک طیب کی کڑی نگرانی کرنے کے بعد ماریہ شک کے راستوں سے گزرتے ہوئے جب یقین کی سیڑھی اتری تو مایوسی کے گھنے جنگلوں میں جا نکلی۔ اب راستہ ڈھونڈنے کے لئے روتی ہوئی میرے پاس آئی تھی۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور خوبصورت آنکھوں سے اعتماد کی بجائے خوف جھلک رہا تھا۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی مگر روٹھے ہوئے الفاظ اسے بےزبان کیے دے رہے تھے۔ اپنے اندھے اعتبار کی شکست شاید ہر بااعتماد انسان کو انجام کے بعد یونہی لاچار کر دیتی ہوگی۔ کچھ لمحے بےبسی سے ادھر ادھر دیکھنے اور اپنے ہونٹ کاٹنے کے بعد مشکل سے اتنا ہی بول سکی۔
ٹھیک کہتے تھے۔ تمھارا شک بالکل درست تھا۔ پلیز طیب کو روک لو، بچا لو، ورنہ وہ لوگ اس کی جان لے لیں گے
یہ کہا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
جان لے لیں گے یہ کیا کہ رہی ہو؟ میں نے اسے جھنجھوڑ ڈالا، کون اس کی جان لینا چاہتا ہے اور کیوں؟’’میں جو پانی پی رہا تھا۔ حیرت اور گھبراہٹ میں پانی کا گلاس سائڈ ٹیبل پر رکھنے کی بچائے آدھے راستے میں ہی چھوڑ بیٹھا جو چھناکے سے گر کر چکنا چور ہو گیا مگر ہم دونوں میں سے کسی نے بھی اس پر کوئی توجہ نہ دی۔ مجھے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے اندیشوں کے تیز بہاؤ میں، اعتماد کی زمین میرے قدموں تلے کھسکتی جا رہی ہو۔
میں نے سب معلوم کر لیا ہے۔ اس نے دہشت گردوں کے خلاف فیس بک پر ‘’للکار’’ نامی کوئی گروپ جوائین کیا ہوا ہے اور سارا دن دوسرے کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر ان کے خلاف زہر اگلتا رہتا ہے۔ آج جب وہ باتھ روم میں تھا تو میں نےجلدی جلدی اس کے ان باکس میسجیز بھی چیک کیے تھے۔ تین میسیجیز ان ہی لوگوں کی طرف سے تھے۔ انہوں نے اسے باز نہ آنے کی صورت میں جان سے مارنے کی دھمکی دی ہوئی ہے اور بے دردی سے قتل کیے گئے کچھ لوگوں کی تصویریں بھی ثبوت کے طور پر بھیجی ہوئی ہیں۔
یہ سن کر میں اور بھی زیادہ گھبرا گیا۔ انجانے خوف اور دہشت کی کرچیاں فضا میں پھیل کر ہماری روحوں کو زخمی کرنے لگیں۔ مجھے تو پہلے ہی شک تھا کہ وہ کسی غلط راہ پر چل نکلا ہے۔ مگر میں تو اسے عورت کا چکر سمجھ رہا تھا۔ معاملہ اتنا گھمبیر ہوگا یہ تو تصور بھی نہ کیا جا سکتا تھا۔ میں بےبسی سے اپنے ہاتھ ملنے لگا اور ماریہ اپنی آنکھیں، کہ بہرحال مجھے اپنی صنف کی مضبوطی کا بھرم بھی عزیز تر تھا۔
راز کھل جانے پر ہم نے اسے سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کر دیکھی۔ پیار، غصہ، خفگی، سختی سارے حربے آزما لئے مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوا۔ ’‘آپکو کیا علم میں کیا کر رہا ہوں اور اس کا کیا اجر ملےگا مجھے
اب تو اس نے الٹا بیابانگ دہل ’‘للکار’’ نامی اس انقلابی تنظیم سے باقاعدہ وابستگی قبول کر لی تھی جو دنیا کے مختلف ملکوں میں پھیلے ممبران پر مشتمل تھی۔ وہ تو مجھے بھی اس میں شریک کرنے پر بضد تھا۔ میرے انکار پر صبح شام مجھے بزدلی کے طعنے دیتا۔ اس تنظیم میں شمولیت کے لئے اصرار کرتا کہ جس میں شامل یہ سب نوجوان اپنی جان کی پرواہ کیے بنا سینہ سپر ہو گئے تھے اور اپنے اپنے لیپٹاپ کے سامنے بیٹھے ان دہشت گردوں کو ہر وقت بھڑکاتے اور للکارتے رہتے تھے۔
گھر میں بھی دو مخالف گروپ بن گئے تھے۔ کچھ کے خیال میں وہ ٹھیک راستے پر تھا جبکہ باقی سب گھر والے مجھ پر چیخ رہے تھے کہ میرے ہوتے ہوئے یہ سب کیسے اور کیوں ہو گیا؟ میں ان کو کیا جواب دیتا۔۔۔ شرمندگی سے سر جھکا لیتا۔ واقعی ایسی بے خبری بھی قابل معافی تھی کیا؟
پھر بائیس جنوری کا وہ ناقابل فراموش دن آ ہی گیا جس کے خوف سے ہماری راتوں کی نیندیں اڑی ہوئی تھیں۔ چڑھتی دوپہر میں کالے بادل بھی کہیں کہیں سے امڈ رہے تھے۔ میں کسی دوست کے پاس بیٹھا تھا جب ماریہ کے فون نے مجھے دہلا دیا۔ وہ بمشکل ہچکیوں میں روتے ہوئے مجھے بتا پائی کہ فورا اسپتال پہنچوں۔ طیب بہت زخمی ہے اور بھرے بازار میں اس پر گولیاں برسائی گئی ہیں جن میں سے تین اس کے پیٹ اور سینے میں بھی لگی ہیں۔ اس کی حالت بہت تشویشناک ہے۔ یہ سن کر میرے تو پیروں تلے سے زمین نکل گئی اور قدم جیسے من من بھرکے ہو گئے۔ جیسے تیسے دوست کے ساتھ اسپتال پہنچا تو لاش ایمبولینس میں رکھی جا رہی تھی۔ بچپن کے دوست اور اپنے بھائی جیسے کزن کو کھونے کا غم کتنا جان لیوا ہو سکتا ہے، یہ مجھ سے زیادہ کون جان سکتا تھا سوائے ماریہ کے۔۔۔ اور وہ تو نہ زندوں میں تھی نہ مردوں میں، نا رو رہی تھی نہ چیخ رہی تھی۔ بس چپ چاپ بے نور آنکھوں سے لاش کا چہرہ دیکھے جا رہی تھی۔ اس کے ارمانوں کا سورج گھنے سیاہ بادلوں کی اوٹ میں چھپ چکا تھا۔ شکستہ خوابوں کے ڈھیر تلے دبی وہ سانس بھی مشکل سے لے رہی تھی۔ اس کے غم میں ہوائیں ساکت ہو گئیں اور فضائیں خاموش۔ جذبوں کی دو طرفہ ترسیل رک چکی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اپنی محبت کے وائی فائی کا واحد پاسورڈ ہمیشہ کے لئے بھول گئی ہو جسکی ریکوری ممکن نہ رہی ہو۔ سنگی مجسمے کی طرح اسپتال کے ستون سے لپٹی ایمبولینس کو خوشیوں کی طرح اپنی زندگی سے دور جاتے دیکھ رہی تھی۔
گہرے بادلوں کی وجہ سے دوپہر دو بجے ہی سورج نے سیاہ چادر اوڑھنا شروع کر دی۔ جیسے کچھ ناراض سا پہاڑوں کے پیچھے دبکنے کی کوشش کر رہا ہو۔ تاریکیوں سے اس کی آشنائی بڑھنے لگی اور پھر جلد ہی پوری طرح خود کو سیاہ رات میں چھپا لیا۔ یہ اندھیری کالیں راتیں اپنے بطن میں جانے کیسے کیسے تلخ اور بھیانک راز چھپائے ہوتی ہیں کہ ساری دنیا کو امید اور روشنی بخشنے والا سورج بھی ان کے سامنے ہار مان کر چھپ جاتا ہے۔
تدفین کے عمل سے فارغ ہونے کے بعد میں دکھ سے نڈھال، گہرے بادلوں سے اٹی ہمیشہ سے زیادہ سیاہ، بین کرتی ماتمی رات میں گھر کی طرف پلٹا۔ گلی سے لےکر گھر کے دروازے تک ہر چیز پر موت کا سوگ زہریلے سانپوں کی طرح لپٹا ہوا تھا۔ سب گھر والوں کے ساتھ اپنا دکھ بانٹ کر میں نے ادھر ادھر دیکھا۔ ماریہ کہیں نظر نہ آئی۔ بوجھل قدموں سے اس کے کمرے میں پہنچا اور پرسہ دینے کے لئے اس کے پاس دیوار کے سہارے زمین پرڈھیر سا ہو گیا۔ لوگوں کی بات سچ ہو گئی۔ آج ہماری پیار بھری مثلث ٹوٹ گئی تھی۔ اپنے دوست کی اچانک بےوفائی پر ماتم کرنے کے سوا ہمارے پاس رہ ہی کیا گیا تھا۔ سو آنکھیں بند کرکے ان لمحات کو کوسنے لگا جنہوں نے ہم دونوں سے ہمارا پیارا دوست چھین لیا تھا۔ ضبط کا بندھن ٹوٹا تو ماریہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگی لیکن میں مرد ہونے کی وجہ سے اپنے آنسو اندر ہی اندر پینے پر مجبور تھا۔ میں نے اسے خود سے قریب کر لیا۔ رونے کے لئے اسے جس کندھے کی ضرورت تھی وہ مجھ سے بہتر بھلا اور کس کا ہو سکتا تھا؟
کافی دیر تک میں اس کا درد سمیٹنے اور اسے زندگی کی طرف راغب کرنے کی کوشش میں ہلکان ہوتا رہا مگر وہ کچھ سمجھنے کو تیار ہی نہیں تھی۔ اس سے وعدہ بھی کیا کہ میں ہر ممکن کوشش کروں گا اسے کبھی طیب کی کمی محسوس نا ہو۔ رات گئے اسے کچھ صبر آیا تو میں بھی اپنے کمرے میں چلا آیا تاکہ تنہائی میں پھوٹ پھوٹ کر رو سکوں اور اپنے دل کا بوجھ بھی ہلکا کر لوں۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے اضطرابی کیفیت میں دروازہ بند کر کے کانپتے ہاتھوں سے اپنا لیپٹاپ آن کیا اور تیزی سے ایک ایک کر کے اپنے فیک اکاونٹس سے جان چھڑانے لگا۔ آخری بارمیں نے’‘للکار’’ نامی تنظیم کا پیج بہت غور سے دیکھا اور ڈیلیٹ کے بٹن پر ہاتھ رکھ دیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.