Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دو بیل

مہندر ناتھ

دو بیل

مہندر ناتھ

MORE BYمہندر ناتھ

    کہانی کی کہانی

    یہ ایک بوڑھے مزدور کی کہانی ہے، جو بیس دنوں سے بیمار ہے۔ بیماری کی وجہ سے وہ اپنے اکلوتے بیل کی بھی دیکھ بھال نہیں کر پاتا ہے۔ اسی کی طرح اس کابیل بھی دو دن سے بھوکا ہے۔ گھر میں کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ اسلئے آرام کئے بغیر ہی وہ کام پر نکل پڑتا ہے۔ سارا دن گھومنے کےبعد اسے ایک مزدوری ملتی ہے۔ رشوت کے لالچ میں ایک تھانیدار اسے پکڑ لیتا ہے اور اس کے بیل کو بھی چھین لیتا ہے۔

    رات آخری ہچکیاں لے رہی تھی اور دور مشرق میں افقی لکیر پر روشنی جاگ رہی تھی۔ جوں جوں وقت گزرتا جاتا تھا، کرہ ارض پر سورج کی ہلکی سفید روشنی چھا رہی تھی، بوڑھے احمد نے کھڑکی کھولی اور جھانک کر سامنے نگاہ دوڑائی، پورے بیس دن کے بعد اس نے اس کھلے میدان کو دیکھا تھا، وہ اپنی زندگی میں بہت کم بیمار ہوا تھا، غریبی میں بیماری آ جائے تو سمجھو کہ غریب موت کی نذر ہوا، جو آدمی دن بھر کام کرے صبح سے لے کر شام تک سڑک پر پتھر کوٹتا رہے، یا دن بھر کسی فیکٹری میں گزارے، یا گندی نالیوں کو صاف کرے، بھلا وہ بیمار ہو جائے تو اس کی تیمار داری کون کرے اور تیمارداری کے لئے روپیہ چاہیے اور روپے کے لئے محنت، بیماری میں محنت کب ہو سکتی ہے۔

    بوڑھے احمد نے اٹھنا چاہا، لیکن ٹانگیں لڑکھڑا گئیں، بدن میں سنسنی سی دوڑ گئی اور کانوں میں سائیں سائیں کی سی آوازیں آنے لگیں، کھانسی، زکام، تیز بخار نے اس کا تمام خون چوس لیا تھا اور اب وہ اس گنے کی طرح سوکھا اور سکڑا ہوا معلوم ہوتا تھا، جس کا رس نچوڑ لیا گیا ہو، بدن ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا تھا اور چہرے پر سیاہی مائل رنگت چھا گئی تھی۔ گو آج بخار اور زکام سے آرام تھا لیکن کھانسی بدستور تھی، یہ سالی کھانسی نہیں چھوڑتی، کسی دن جان لے کر رہےگی اور کھانستے کھانستے اس کی چھاتی دکھنے لگتی، آنکھیں انگارے کی طرح لال ہو جاتیں اور چہرے پر زردی چھا جاتی۔

    لیکن آج بوڑھے احمد کو کچھ افاقہ تھا، کھڑکی سے مڑ کر اس نے کمرے پر نگاہ ڈالی، کمرے کی حالت دیکھ کر اسے بہت کوفت ہوئی، ہر طرف پھٹے پرانے کپڑے، ٹوٹے ہوئے برتن، پھٹی ہوئی دریاں، گندے لحاف اور ہر طرف اس کی بلغم کے نشان، کمرے کی دیواروں پر، زمین پر، کپڑوں، برتنوں پر، وہ کیا کرتا رہا، سوائے تھوکنے کے اسے کوئی کام نہ تھا، اس نے باہر کھڑکی سے جھانک کر دیکھا، آسمان کتنا صاف اور نیلا تھا، دور مشرق کی طرف سفید براق بادل ہوا میں تیررہے تھے، ہوا کتنی خوشگوار اور بھلی معلوم ہوتی تھی، گو وہ اس ہوا سے بچنا چاہتا تھا، کیوں کہ ہوا ٹھنڈی تھی، اس لئے اسے اندیشہ لاحق تھا کہ کہیں بیماری کا دوبارہ حملہ نہ ہو جائے۔

    یہ موذی نمونیہ کمرے کی اس غلاظت اور گھٹے ہوئے ماحول کو دیکھ کر بڑھے گا۔ احمد کو اپنے افلاس کا تلخ احساس ہوا، اسے معلوم ہوا کہ آج اس کا دیوالہ نکل گیا ہے اور شاید یہ ٹھیک بات تھی، اس بیماری میں اس کا تمام اثاثہ لگ گیا، پہلے اس کا اثاثہ تھا ہی کتنا، صرف چند روپے یا بانو کے گہنے، بانو نے اس دفعہ اپنی چاندی کے گہنوں کو بھی بیچ دیا تھا، بیچاری بانو! اگر نہ ہوتی تو وہ کب کا قبر میں ہوتا۔

    بچاری نے کتنی تن دہی سے اس کی تیمارداری کی تھی، دن رات ایک کر دیا تھا، کئی راتیں جاگ کر کاٹیں، دوا دارو خود لاتی رہی، اس رات کو کب بھول سکتا ہے، جب اس کے سینے میں زبردست درد اٹھا تھا، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کے پھیپھڑوں میں ایک خنجر چبھو دیا گیا ہے، رات کے اندھیرے میں اس نے اپنے آپ کو قابو میں لانا چاہا، لیکن درد بڑھتا گیا، آخر وہ چلانے لگا اور بچاری بانو خدا اس کی عمر دراز کرے، وہ غریب رات کے دو بجے جاکر دوا لائی اور اسے دوا پلائی، تب جاکر کہیں آرام ہوا، کتنا ایثار ہے، کتنی بے لوث محبت ہے۔ بچاری بانو کو اس افلاس نے کتنا نحیف کر دیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غربت کے بے رحم خدا نے اس کے جسم کی تمام خوبیوں کو فنا کر دیا ہے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے پچیس سال پہلے کی تصویر کھینچ گئی۔۔۔ جب بانو پہلی بار اس کے گھر میں دلہن بن کر آئی تھی، وہ لال رنگ کا لہنگا پہنے ہوئے تھی اور پیازی رنگ کی انگیا اور یہ لمبا گھونگھٹ، جس میں اس کی شوخ نگاہیں اسے جھانک رہی تھیں، اس کے آنے سے گھر میں پیسے کی ریل پیل ہوگئی تھی، بھلا گھر میں لکشمی آئے اور دولت مند نہ چومے۔

    اتنا کام کرنے کو ملتا تھا کہ اسے کام سے انکار کرنا پڑتا تھا اور بانو کا بھرا بھرا جسم، بانہوں کا گداز پن اور چہرے کے متناسب خدو خال، گو اس کا رنگ کالا تھا لیکن وہ کون سا گورا چٹا تھا اور پھر اس کی آواز میں اتنی مٹھاس تھی، جو اس نے چاؤڑی بازار کی طوائفوں میں بھی نہ پائی تھی اور آج بانو کیا رہ گئی ہے، ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ، آنکھوں کی چمک غائب، بانہوں کا گداز معدوم، آواز میں کر ختگی اور چال میں نقاہت۔ بوڑھا احمد کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ کسی کے پاؤں کی آہٹ آئی، سامنے دیکھا تو بانو کھڑی تھی، ایثار اور محبت کا مجسمہ، حسین اور خوبصورت، جوان اور رسیلی، بوڑھے احمد نے اپنے سر کو زور کا جھٹکا دیا اور آنکھوں کو اپنے ہاتھوں سے ملا اور پھر بانو کی طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگا۔

    ’’جانتے ہو آج کھانے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے، بچہ صبح سے رو رہا ہے اور تم بستر پر سے۔۔۔‘‘

    ’’بانو میرے قریب آؤ۔‘‘

    ’’کیوں کیا کہتے ہو۔‘‘

    ’’یہی کہ میں چھکڑا لے کر بازار جاؤں گا، میں سسک سسک کر مرنا نہیں چاہتا۔‘‘ بانو نے گردن ایک طرف جھکا لی اور آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے اور پھر سسکیاں بھر کر رونے لگی۔ ’’میرے پاس جو کچھ تھا تمھاری بیماری پر لگا دیا، حتیٰ کہ اپنے گہنے بیچ ڈالے، اب کیا کروں، کہاں جاؤں، بازار میں گئی تھی کہ کوئی کام مل جائے، لیکن بڑھیا کو دیکھ کر کون دیتا ہے، چھکڑا چلانا تو آتا نہیں، ورنہ خود چلی جاتی۔۔۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ چپ ہو گئی۔

    ’’بانو گھبراؤ مت، جب تک زندہ ہوں، تم بھوکی نہ رہوگی، اللہ کی قسم جب تم روتی ہو تو میرا کلیجہ چھلنی ہو جاتا ہے اور اگر تم زیادہ روئیں تو میں چھکڑا لے کر باہر چلا جاؤں گا۔‘‘

    ’’لیکن تم جاؤگے کس طرح، کیا چھکڑ اچلا لوگے، کیا اتنی طاقت ہے؟‘‘

    ’’آخر کیا کیا جائے، بھوک سے مرا تو نہیں جاتا۔‘‘

    اتنا کہہ کر بوڑھا احمد اٹھ کھڑا ہوا، اس کی بوڑھی رگوں میں ایک توانائی سی آ گئی، گھر میں بھوک سے سسک سسک کر مرنے سے یہ بہتر ہے کہ ان بوڑھے ہاتھوں سے کچھ کام کیا جائے، جب وہ گھر سے باہر نکلا تو اس کی نگاہ اپنے بیل پر رکی جو میدان میں ننگ دھڑنگ کھڑا تھا۔ وہ اس درخت کی طرح تھا، کہ جس کے سائے تلے ہزاروں سستاتے تھے، لیکن اسے کوئی فائدہ نہ پہنچاتے ہوں، بیل د دن سے بھوکا تھا، مالک کو دیکھ کر اس نے کان کھڑے کئے۔ بیل کے نتھنے پھول گئے ٹانگیں ہلنے لگیں اور دم کو اپنے کھردرے جسم پر پھیرتے ہوئے اس نے امید بھری نظروں سے بوڑھے احمد کی طرف دیکھا، جیسے کہ وہ کہہ رہا ہو، کچھ تو دو، دودن کا بھوکا ہوں، لاؤ کیا لائے ہو۔

    بوڑھا احمد بیل کے پاس جاکر چپ چاپ کھڑا ہو گیا، وہ نہیں سمجھتا تھا کہ وہ اس بے زبان جانور سے کس طرح اپنے دل کا حال کہے۔ احمد نے بیل کی آنکھوں میں نمی کی جھلک دیکھی، اس کا دل کانپنے لگا، وہ کیا کرے۔ اس بیل نے زندگی بھر مدد دی ہے، یہ بیل کبھی بیمار نہیں ہوا اور ہمیشہ کام کرتا رہا ہے، لیکن یہ بھی دو دن سے بھوکا ہے، اس کی آنکھوں میں آنسو ہیں، شاید اس کے ایمان کی دیواریں بھی شکستہ ہو گئی ہیں۔

    بوڑھے احمد کو اس بیل سے بہت محبت تھی، یہ بیل اس کا روزی رساں تھا، یہ ابھی بچھڑا ہی تھا کہ احمد نے اسے خرید لیا تھا، بوڑھے احمد نے اسے اپنے ہاتھوں سے کھلایا، پلایا، پالا پوسا اور بڑا کیا۔ جب تک احمد کی زندگی میں بانو وارد نہ ہوئی تھی، احمد بیل کو منّو کہہ کر پکارتا تھا۔ اسے اس بیل سے محبت سی ہو گئی تھی، ایک محبوبانہ محبت، جس دن احمد پیسے زیادہ کماتا، تو وہ منّو کو خوب کھلاتا، اس کے جسم پر مالش کرتا اور اس سےہنس کر باتیں کرتا اور جب کبھی رات کی تاریکی میں وہ اکیلا ہوتا تو منو کے پاس چلا جاتا اور گھنٹوں اس کے پاس بیٹھتا، کبھی کبھی منّو اس کے سر کو چاٹنے لگتا تھا، جیسے کوئی نرم نرم انگلیوں والی لڑکی اس کے سر کو سہلا رہی ہو، لیکن بانو کے آنے سے اس کی زندگی میں ایک نمایاں تبدیلی پیدا ہو گئی تھی، لیکن اس جانور اور احمد کے درمیان جو محبت کا رشتہ پیدا ہو گیا تھا۔ وہ ٹوٹنے کا نہ تھا، گو وہ منو کو اب اس شدّت سے پیار کر نہ سکتا تھا کیوں کہ بانو کی رسیلی باتیں منو کی ابدی خاموشی سے کئی درجے بہتر تھیں۔ وہ یہی باتیں سوچ رہا تھا کہ بیل نے پیر مارنے شروع کئے، شاید وہ کہہ رہا تھا، ’’بوڑھے میاں ماضی کے اوراق کیوں پلٹتے ہو، جانے دو، مجھے بھوک لگی ہے، تم کس سوچ میں ہو۔‘‘

    احمد نے بیل کو چھکڑے میں جوتا اور بیل چھکڑ کو آہستہ آہستہ کھینچنے لگا، نہ بوڑھے احمد میں اتنی ہمّت تھی کہ بیل کو تیز کر دیتا اور نہ بیل میں اتنی سکت تھی کہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا۔ سورج نصف النہار پر آ چکا تھا، گو سردیوں کے دن تھے، لیکن کافی گرمی ہو گئی تھی، بوڑھے احمد کے کھوکھلے جسم میں یہ دوپہر کی کڑکتی دھوپ بجلی کی مانند سرایت کرنے لگی، اس کے تمام جسم پر چیونٹیاں سی رینگنے لگیں، شاید یہ دھوپ کا اثر تھا، وہ منٹو روڈ سے ہوتا ہوا اسٹیشن کی طرف بڑھا، پاس سے ایک جوان خوبصورت گھسیارن سرخ لہنگا پہنے ہوئے گزری، چال میں بلا کی شوخی، آنکھوں میں بے پناہ کشش۔ وہ دیر تک گھسیارن کو دیکھتا رہا، حتیٰ کہ وہ نظروں سے اوجھل ہو گئی، اس نے سوچا کبھی میری بانو ایسی ہی تھی۔

    بوڑھے احمد نے دور سے آنے والے ایک چھکڑے کی طرف نگاہ ڈالی، چھکڑا سنیری سے بھرا ہوا تھا، سنیری کو دیکھتے ہی بیل کے قدموں کی رفتار تیز ہو گئی، بوڑھے احمد نے بیل کو پچکارتے ہوئے کہا، ’’یہ سینری تمھارے لئے نہیں، یہ سینری انسانوں کے لئے ہے۔‘‘ متواتر چار گھنٹے تک بوڑھا بیل کو ہانکتا ہوا ادھر ادھر کام کے لئے گھومتا رہا، دھوپ میں چلنے پھرنے سے اس کا بوڑھا دماغ چکرا گیا تھا۔ اس بیماری نے پھپھڑوں کو دماغ تک کو کمزور کر دیا تھا، صبح سے اس نے کچھ کھایا نہیں تھا، بیماری کی کمزوری اور نقاہت کیا کم تھی کہ بھوک اور فاقے نے اسے نڈھال کر دیا، اب شام ہونے کو تھی، ہوا میں خنکی سی آگئی تھی، کبھی کبھی جب ٹھنڈی ہوا اس کے سینے سے ٹکراتی تو اسے کھانسی کا دورہ پڑ جاتا اور وہ چھکڑے پر ہی کھانسنے لگتا، حتیٰ کہ اس کی آنکھیں باہر نکل آتیں، منھ انگارے کی طرح گرم ہو جاتا اور کنپٹیاں جلنے لگتیں اور بچارا حیران ہو جاتا کہ آج میرے مالک کو کیا ہو گیا ہے۔

    جوں جوں شام کی تاریکی بڑھتی جاتی، اس کے دل کی اداسی بڑھتی جاتی تھی، بوڑھے احمد کو روشنی اچھی لگتی تھی، یہ ابدی اندھیرا زندگی کو تاریک کر دیتا ہے، یہ اندھیرا نہیں، موت کی نشانی ہے، اسے روشنی اچھی لگتی ہے اور وہ روشنی میں کام کر سکتا ہے لیکن آج کام نہیں ملتا، لوگ کہتے ہیں جنگ زوروں پر ہے، روز گار عام ہے، یہاں سے مال باہر جاتا ہے، باہر سے مال یہاں آتا ہے، لیکن پھر بھی کام نہیں ملتا اور بھئی ٹھنو تو کہتے ہیں کہ آج کل چھکڑے والوں کی ریل پیل ہے، آدمی کام کرنے والا ہو، دن میں بیسیوں روپے کما سکتا ہے۔

    شام کی تاریکی رات کی سیاہی میں تبدیل ہو گئی، آسمان پر ستارے چمکنے لگے، سڑکوں پر بجلی کے قمقمے روشن ہو گئے اور اب بوڑھے احمد نے سوچا کہ اسے واپس گھر چلنا چاہئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ کارواں راستے میں رہ جائے اور اس میں اتنی طاقت نہ رہ جائے کہ وہ اپنے آخری لمحے اپنے گھر پر گزار سکے، وہ سوچتا تھا کہ وہ بانو سے کیا کہےگا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا، کہ وہ کیا کرے، اتنی وسیع زمین پر اسے کام نہیں ملتا، لوگ بے تحاشہ ادھر سے ادھر بھاگے جا رہے ہیں، یہ ٹرامیں، بسیں، یہ لاریاں کدھر جا رہی ہیں، یہ لوگوں کا ہجوم یہ رنگ رلیاں، یہ سبز ساڑھیاں، یہ موٹریں، یہ تانگے، یہ گھوڑے پالکیاں، یہ پھل پھولوں کی دکانیں، یہ سبزیوں کے چھکڑے، یہ آٹے کی بوریاں یہ گندم کے گودام، گھی کے پیسے کہاں جاتے ہیں، یہ کہاں صرف ہوتے ہیں، وہ کیوں بھوکا ہے، اس کا بیل کیوں بھوکا ہے، اس نے اوپر آسمان کی طرف دیکھا، ستارے مسکرا رہے تھے، اسے نہایت غصہ آیا، اس کا جی چاہتا تھا کہ اس کے پاس اتنی لمبی مشعل ہو کہ وہ ان مسکراتے ہوئے تاروں کا منہ جھلس دے، صدیوں سے غریب کی غربت پر مسکرائے جا رہے ہیں بےشرم، ڈھیٹ، بےحیا۔

    یکایک فضا کو چیرتی ہوئی ایک آواز آئی، ’’او چھکڑے والے۔‘‘ بوڑھے احمد نے مڑکر ایک موٹی توند والے انسان کو دیکھا۔

    ’’کام کروگے؟‘‘

    ’’کیوں نہیں حجور۔‘‘

    ’’دس من سامان ہے، کیا لوگے۔‘‘

    ’’دس آنے حجور۔‘‘

    ’’پانچ آنے ملیں گے۔‘‘ موٹی توند والا بڑھ گیا۔

    ’’ٹھہریے بابو صاحب، مجھے پانچ آنے منظور ہیں۔‘‘

    ’’اچھا تو اسٹیشن پر جاؤ، گودام میں دس بوریاں ہوں گی، یہ لو فارم اسے سنبھالو، یہ کاغذ دے کر بوریاں لے آنا، سیدھے چاندنی چوک رام رکھا مل کی دوکان پر پہنچنا۔‘‘

    بوڑھا احمد یہ کام پاکر خوش ہوا، اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اسے قارون کا خزانہ مل گیا ہے، بجھتے ہوئے دیے میں ایک بوند تیل کی بھی دیے کی روشنی کو بڑھا دیتی ہے اور بوڑھا احمد اپنی زندگی کو بڑھانا چاہتا تھا، یہ پانچ آنے نہیں پانچ روپے ہیں، آج خدا نے اس کی دعا سن لی ہے، وہ چھ پیسے سے بیل کے لئے گھاس خریدےگا، دوپیسے کا بچے کے لئے دودھ، دو آنے کے چنے اور ایک آنے کا گڑ، لو اس کا کھانا تیار ہو گیا، لیکن یہ لوگ کھانا بھی چھیننا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ غریب ہوا میں رہے، ہوا کھائے اور ہوا پہنے، بوڑھے احمد نے بیل کی رسی کھینچی اور بیل دوڑنے لگا، شاید بیل سمجھ گیا تھا کہ اس کی آخری دوڑ ہے، اگر آج اس میں رہ گیا تو کہیں کا نہ رہےگا، وہ موڑ گزر کر داہنے ہاتھ کی طرف بڑھ گیا، یہاں سڑک پر روشنی کم تھی اور درختوں کی پھیلی ہوئی ٹہنیوں نے سڑک کو اور بھی تاریک کر دیا تھا، سڑک پر سناٹا تھا، یا کبھی کبھی دور سے لاری کے ہارن کی آواز آتی تھی، ہوا سرد اور بھاری ہوچلی تھی، سامنے کی طرف دھوئیں کا غبار تھا، جو آنکھوں کو چند ھیائے دیتا تھا۔ بوڑھا احمد سردی کی وجہ سے سکڑ کر بیٹھا ہوا تھا، ٹانگوں کو اکٹھا کئے وہ سر کو ٹانگوں سے ملائے ہوئے ایک عجیب انداز میں بیٹھا ہوا تھا کہ کسی کی آواز آئی، ’’ٹھہرو چھکڑے والے۔‘‘

    آواز بھاری تھی اور ہوا میں گونجتی ہوئی آواز میں ایک قسم کا رعب تھا، جو یکلخت بوڑھے کے جسم پر طاری ہو گیا، ہاتھ رک گئے اور ایسا معلوم ہوا کہ جیسے کسی غیبی طاقت نے اس کے ہاتھ شل کر دیے ہیں۔ اس نے بائیں طرف دیکھا، تو ایک لحیم شحیم سپاہی کھڑا تھا، سپاہی نے عقابی نظروں سے بوڑھے کو تاکا اور پھر بیل پر ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالی۔ یکایک سپاہی کی نظریں بیل کی ٹانگوں پر جم گئیں اور پھر اس کی آنکھوں میں معنی خیز شرارت ٹپکی، اب وہ اس جرنیل کی طرح جس نے ایک عظیم الشان مہم سر کی ہو، اس نے بوٹوں کی ایڑیوں پر کھڑے ہوتے ہوئے کہا، ’’کیوں بڈھے، تجھے شرم نہیں آتی، کہ اس غریب جانور پر اتنا ظلم ڈھاتا ہے۔‘‘

    ’’حجور کیا بات ہے؟‘‘

    ’’حجور کا بچہ۔‘‘ سپاہی نے کڑک کر کہا، اس کڑک میں حکومت کی طاقت پنہاں تھی۔ ’’خود کھا کھا کر موٹا ہوتا جاتا ہے اور دیکھتا نہیں بیل کی طرف کتنا پتلا دبلا ہے، بےزبان جانور پر تشدد کرتے ہوئے تجھے شرم نہیں آتی، دیکھ اس کے پاؤں کی طرف خون بہے جا رہا ہے، کیا آنکھوں سے اندھا ہے، بینائی ختم ہو چکی ہے۔‘‘

    ’’حجور آپ مائی باپ ہیں، بھلا دیکھوں تو کہاں سے خون بہہ رہا ہے، صبح تو بھلا چنگا تھا۔‘‘

    ’’دیکھو اس پاؤں کی طرف۔‘‘

    سپاہی نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی اور کسی کو نہ پاکر بوڑھے کی طرف معنی خیز نگاہوں سے دیکھا۔ یہ نگاہیں کچھ مانگ رہی تھیں۔ بوڑھا اس بے زبان کی بات سمجھ گیا، لیکن بیچارہ کیا کر سکتا تھا، اس کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی اور اگر ہوتی تو آج اس نقاہت اور کمزوری میں گھر سے باہر کیوں نکلتا، اس نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا، ’’حجور آج کچھ نہیں ہے، کل آپ کی مدد کروں گا۔‘‘ سپاہی کی آنکھوں میں سے شرارے نکلنے لگے، اس کا منہ غصے سے لال ہو گیا، اس نے بوڑھے کی طرف قہر آلود نگاہوں سے دیکھا اور زمین پر تھوکتے ہوئے کہا، ’’بے زبان جانوروں پر ظلم کرتے ہو، جی چاہتا ہے تمھارا بھیجا نکال دوں، حرامی، بوڑھا کھوسٹ میں ابھی بتاتا ہوں کہ جانوروں پر ظلم کرنے سے کیا سزا ملتی ہے۔‘‘

    سپاہی نے بوڑھے کو چھکڑے سے نیچے اترنے کو کہا اور بیل کو چھکڑے سے علیحدہ کر کے آگے ہانکنے لگا، ’’رہنے دو، چھکڑے کو یہیں رکھو، تم لوگ جانوروں پر ظلم کرنے سے باز نہیں آؤگے، جب تک تمھیں پوری سزا نہ ملے۔‘‘ دوسرے دن جب بوڑھا احمد انسداد بےرحمی کے محکمے میں گیا تو اسے معلوم ہوا کہ بیل ہسپتال میں معائنے کے لئے بھیج دیا گیا ہے، اس لئے اسے بےرحمی کے ہسپتال میں جانا چاہیے، وہ خود حیران تھا کہ وہ کیا کرے اگر اس کا بیل اس سے چھن گیا، تو وہ کیا کرے گا، زندگی کی آخری کرن ہمیشہ کے لئے مفقود ہو جائےگی۔ جب وہ بےرحمی کے ہسپتال میں پہنچا تو اس نے اپنے سامنے گورے چٹے انسان کو دیکھا جو ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا، اس کی آنکھوں پر عینک لگی ہوئی تھی۔

    ’’کیا یہ تمھارا بیل ہے؟‘‘

    ’’جی حجور۔‘‘ بوڑھے نے بیل کی طرف نگاہ ڈالی۔

    ’’ہم نے اس کا معائنہ کیا ہے، اس کے خون میں تپ دق کے جراثیم ہیں، تم لوگ بہت بدمعاش ہے، بہت بے رحم ہے، کتنا ظلم کرتا ہے جانوروں پر، یہ جانور تمھیں روٹی دیتا ہے، لیکن تم اسے مارتا ہے اور دن رات بھوکا رکھتا ہے۔ اسے پوری خوراک نہ ملنے کی وجہ سے یہ بیماری ہو گئی ہے۔‘‘

    ’’حجور ایسی بات نہیں ہے۔ میرا بیل بھلا چنگا ہے اسے کوئی بیماری نہیں ہے، کل تک یہ راجی خسی تھا، بیمار تو میں ہوں، بیس دن سے بیمار ہوں، میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ میری بیوی بھوکی ہے، میرے بچّے بھوکے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر نے غضبناک ہوکر کہا، ’’کیا ہم جھوٹ بولتا ہے بے شرم کہیں کا، چپڑاسی اس بوڑھے کو دھکے دے کر باہر نکال دو، اس بیل کو ہسپتال میں پہنچا دو اور وارڈ میں داخل کر دو، اس کا علاج ہم کریں گے۔‘‘

    ’’حجور ہم بھوکے مر جائیں گے، میری بیوی میرے بچے۔‘‘

    ’’سرکار تمھارے بال بچوں کی ذمہ دار نہیں، ہم کیا کریں، نکل جاؤ، چپڑاسی اسے نکال دو اس بوڑھے کو۔‘‘

    اور جب بوڑھا احمد دروازے سے نکلا تو اس نے سوچا کہ کیا اس دنیا میں کوئی ایسا ہسپتال نہیں ہے، جہاں ان انسانوں کو داخل کیا جائے جن پر بےرحمی کی جاتی ہے، وہ اب اکیلا تھا، بالکل تنہا، اس درخت کی طرح جو صحرا میں اکیلا ہو، اس نے جانا کہ وہ اس پرندے کی طرح ہے جس کے پر ہمیشہ کے لئے کاٹ دیے گئے ہیں۔ اس کی آنکھوں کے سامنے دنیا گھومتی ہوئی نظر آئی، اس کے کانوں میں ٹراموں، کاروں اور رکشاؤں کی ٹن ٹن کے آوازیں تھیں، لیکن یہ شور لمحہ بہ لمحہ کم ہوتا گیا، وہ اب اس زمین کے قریب جا رہا تھا جہاں ابدی اندھیرا ہو جاتا ہے اور روشنی کی کرن ہمیشہ کے لئے معدوم ہو جاتی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے