Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دو کوڑی کا آدمی

تاج الدین محمد

دو کوڑی کا آدمی

تاج الدین محمد

MORE BYتاج الدین محمد

    کالج کے وسط میں ایک خاصا وسیع و عریض چوک تھا۔ موسم گرما کے آخری دن چل رہے تھے۔ سہ پہر کے چار بجے شدید گرمی کے دنوں میں ہم دو دوست چائے خانے پر بیٹھے خوش گپیوں میں مشغول تھے۔ تبھی شاہنواز نے اچانک کسی بات پر برافروختہ ہو کر اپنی سیکو فائیو گھڑی میرے منھ پر پھینکتے ہوئے کہا۔ جتنے کی یہ گھڑی ہے اتنے کے کپڑے بھی تمہارے بدن پر نہیں ہوں گے۔ دو کوڑی کے انسان غریب کہیں کا! کہتے ہوئے رعونت اس کے چہرے سے ٹپکنے لگی۔ غرور اس کی شکل پر برس رہا تھا۔

    اس وقت اسکول و کالج کے لڑکوں کے لیے گھڑی بڑی چیز ہوا کرتی تھی۔ میں نے اپنے حقیر ترین کپڑے اور خستہ حال جوتے کو غور سے دیکھا اور غم سے نڈھال ہو کر انتہائی نرمی سے کہا۔ میں نے ایسا کیا کہہ دیا جس سے تم اس قدر خفا ہو گئے؟ دوست یار تو آپس میں ہنسی مذاق کر ہی لیا کرتے ہیں۔ پچاس روپے ہی تو ادھار مانگے تھے، نہیں دینا تھا تو خوش اسلوبی سے منع کر دیتے؟ لیکن میری ایسی تضحیک کرنا تمہیں زیبا نہیں دیتا؟ دوستوں کے ساتھ ایسا رویہ بالکل مناسب نہیں ہے کہتے کہتے لرزتے اور کپکپاتے ہوئے آنسوؤں کے کئی بوند چھلک کر میری بوسیدہ قمیض پر گر پڑے۔ میری بات کا کوئی جواب نہ دے کر اس نے اپنی گھڑی اٹھائی اور خاموشی سے وہاں سے رخصت ہو گیا۔

    شاہنواز نے عجیب مزاج پایا تھا۔ پل میں ہمدرد تو پل میں چڑچڑاپن اس کی طبیعت کا اٹوٹ حصہ تھا۔ اس بد مزاجی و ترش روئی کی وجہہ سے کالج میں بہت ہی کم لڑکوں سے اس کی دوستی تھی۔ یہ اس کی جبلت تھی اور وہ اپنی اس عادت کے ہاتھوں مجبور تھا۔ لیکن مجھے اس سے بے پناہ محبت تھی پتہ نہیں کیوں؟

    میں کافی دیر تک چائے کی دکان پر پراگندہ و منتشر ذہن لیے بیٹھا رہا۔ اس درمیان کئی لوگ آئے اور گئے لیکن میں ساکت و منجمد یونہی سب کو دیکھا کیا۔ اچانک ایک تیز جھکڑ آئی اور لو کے تھپیڑے چہرے کو گرد آلود کرتے ہوئے تیزی سے گزر گئے۔ میں آندر آکر جھونپڑی کی اوٹ میں بیٹھ گیا۔ شاہنواز کے تیز و تند لفظوں کی مار دماغ پر یوں برس رہے تھے جیسے بارش کے دنوں میں جھونپڑی پر اولے برستے ہیں۔ منگو نے قریب آ کر میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بڑے ادب سے کہا۔ حضرت آپ کو یہاں بیٹھے کافی دیر ہو چکی ہے۔ کیا کالج میں کوئی الجھن ہو گئی ہے؟ کسی سے کوئی جھگڑا تو نہیں ہوا؟ میں نے آپ کو اس قدر پریشان پہلے کبھی نہیں دیکھا؟ مجھے بھی بتائیے شاید میں آپ کی کوئی مدد کر سکوں؟

    منگو کوئی عام چائے والا نہیں تھا۔ ہمارے ساتھ ہی اسکول میں پڑھتا تھا۔ اس کا باپ میٹرک کے بعد اپنے بیٹے کی تعلیم جاری نہ رکھ سکا۔ مزدور کا بیٹا جو ٹھہرا بیچارہ! کالج کا خرچ اٹھانا اب اس کے باپ کے بس کی بات نہیں تھی۔ دو بہنیں بیاہنے کو ابھی باقی تھیں جن کی شادی کی عمر اب نکل رہی تھی۔ گھر کے حالات اچھے نہیں تھے۔ غربت و افلاس سے تنگ آ کر اور مجبور ہو کر منگو نے کالج کے چوراہے پر چائے کی ایک دکان ڈال لی تھی۔

    منگو کوئی جواب نہ پاکر خاموش ہو رہا۔ تھوڑی دیر بعد چائے کی ایک پیالی میری طرف بڑھاتے ہوئے کہنے لگا۔ سنا ہے امتحان سر پر ہے اگر فارم بھرنے کے پیسے نہیں ہیں تو مجھ سے لے لو۔ جب گھر سے پیسے آ جائیں تو مجھے دے دیجئے گا۔ میں نے آپ دونوں کی کچھ ایسی ہی گفتگو ابھی ابھی سنی تھی پھر آپ کا دوست ناراض ہو کر یہاں سے چلا گیا۔ منگو کو حقیقت حال کا صحیح علم نہیں تھا۔ پھر اسے اچانک کچھ یاد آیا کہنے لگا۔ گھر میں سب خیریت تو ہے نا؟ آج آپ کچھ بول نہیں رہے ہیں۔ اس وقت سے روئے ہی جا رہے ہو۔ ضرور کوئی بڑی مصیبت آپ پر آن پڑی ہے۔

    باتوں باتوں میں پچاس روپے کا نوٹ پاکٹ میں منگو نے کب رکھ دیا مجھے پتہ بھی نہیں چلا۔ پھر بڑے پیار سے میری داڈھی میں ہاتھ ڈال کر ٹھڈی کو اوپر اٹھاتے ہوئے بولا۔ آج تو آپ بہت ہی اداس اور فکر مند ہیں جناب؟ کوئی عشق وسق کا معاملہ تو نہیں ہے؟ ویسے مجھے آپ سے ایسی امید تو نہیں؟ آنسو کے دو چار قطرے پھر کچی فرش پر گرے ہلکی سی غبار اوپر کو اٹھی اور آنسو زمین میں جذب ہو گئے۔ منگو نے حسب عادت سر کھجایا اور اپنی دکھ بھری نظر میرے چہرے پر گاڑ دی اور ٹکٹکی باندھے مجھے دیر تک دیکھتا رہا جب اسے کچھ تسکین حاصل ہوئی تو رنجیدگی کے ساتھ پوچھا۔ جناب ایک کپ چائے اور چلے گی پھر بغیر جواب کا انتظار کیے چائے بنانے میں مشغول ہو گیا۔

    سورج کی کرنیں آج پہلے سے کہیں زیادہ تلخ تھیں۔ بہار کا موسم شاید اب کے دیر سے آئے۔ پت جھڑ بھی اس بار خوب رہا۔ سارے ہی پیڑ ننگے ہو گئے ہیں، بالکل میری طرح۔ دل کی بے اطمینانی ایک شور میں بدل چکی تھیں جو مجھ سے باہر نکلنے کا راستہ مانگ رہی تھیں۔ میں مخدوش سی کرسی پر بیٹھا کئی سوچوں میں گم تھا۔ چائے کب آئی اور کب ختم ہو گئی مجھے پتہ بھی نہیں چلا لیکن تکلیف بدستور باقی تھی درد اور بڑھ گیا تھا۔ مجھے میرے سینے پر اپنی بے عزتی کا بھاری بوجھ محسوس ہو رہا تھا۔

    تبھی سڑک پر تیز رفتار اسکوٹر دھول اڑاتا ہوا نکل گیا۔ منگو نے اسکوٹر سوار کو غور سے دیکھا اور زیر لب بڑبڑایا۔ یہ بدمعاش لڑکے کس قدر تیز اسکوٹر چلاتے ہیں؟ کوئی بیچ راستے میں اچانک آکر ٹکرا گیا تو ان لونڈوں کی جان آفت میں آ جائے گی؟ اتفاقاً اگر کوئی مر گیا تو اس بیچارے کا کیا بنے گا؟ لیکن یہ سبق حاصل کیے بغیر کچھ سیکھتے بھی نہیں؟ یہ کہاں ماننے والے ہیں؟ انہیں ڈر بھی نہیں لگتا؟ نظریں اسکوٹر سوار کا تعاقب کرتی رہیں۔ پھر وہ میری طرف دیکھتے ہوئے اچانک گویا ہوا اوہ! میں نے دیر سے پہچانا یہ تو آپ کا دوست شاہنواز تھا۔

    منگو نے مجھے ایک اور چائے پلائی۔ بقول منگو بالکل کڑک چائے جو طبیعت کی ساری کثافت اور تکلیف کو یک لخت ہی دور کر دے۔ اب میری طبیعت قدرے بحال ہو رہی تھی۔ تبھی ایک لڑکا چوراہے سے بھاگتا ہوا چائے کی دکان پر آیا۔ اس نے چند ساعت پہلے مجھے یہاں بیٹھے دیکھا تھا اور شاہنواز کے توسط سے مجھے پہچانتا بھی تھا۔ اس نے دور سے ہی آواز لگائی اور پاس آکر مجھے جھنجھوڑتے ہوئے بولا۔ تمہارے دوست شاہنواز کا باہر والے روڈ پر اسکوٹر سے ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ پولیس والے اسے پکڑ کر لے گئے ہیں۔ وہ تھانے میں ہے جلدی چلو۔

    ہم دونوں بھاگتے ہوئے تھانہ پہنچے۔ شاہنواز کو چوٹ تو کم آئی تھی لیکن جس بوڑھے کو اس نے اسکوٹر سے دھکاّ لگایا تھا اس کے پیر سے تھوڑا بہت خون بہہ رہا تھا۔ زخم زیادہ گہرا تو نہیں تھا لیکن بوڑھا درد کی تاب نہ لاکر رو رہا تھا۔ کچھ لوگ تھانے کے پاس جمع ہو گئے تھے اور اسے دلاسا دے رہے تھے۔ ایک شخص نے پانی بہا کر گھاؤ دھو دیا اور ایک پرانا کپڑا بوڑھے کی ٹانگ پر لپیٹ دیا تھا۔

    ہم تھانے کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے کمرے میں داخل ہو چکے تھے۔ حضور غلطی ہو گئی آئندہ خیال رکھوں گا کچھ لے دے کر معاملہ ختم کر لیجئے شاہنواز کی لرزتی اور لڑکھڑاتی ہوئی آواز کمرے کے اندر سے آ رہی تھی۔ لینے دینے کا نام سن کر سپاہی بوکھلا گیا۔ پھر دانت پیستے ہوئے کہنے لگا۔ ہر جرم کا متبادل پیسہ نہیں ہے؟ ساری ہی غلطیوں کا مداوا روپیہ ہے کیا؟ بدتمیز انسان خبطی کہیں کے! معافی چاہتا ہوں جناب شاہنواز گڑگڑایا۔ پھر سپاہی نے آہستگی سے غصے میں منھ بگاڑ کر کہا ”چلے بھی جاؤ اب یہاں سے“۔

    میں اندر والے کمرے میں پہنچ چکا تھا۔ مجھے دیکھ کر شاہنواز کے چہرے پر شرمندگی و پشیمانی کے آثار نمودار ہوئے لیکن میری موجودگی سے اسے قدرے اطمینان بھی حاصل ہوا۔ سپاہی اسکوٹر کے کاغذات دیکھ رہا تھا۔ کاغذ دیکھ کر کہنے لگا۔ تمہارے انشورنس کی معیاد بھی پوری ہو چکی ہے اسے ختم ہوئے ایک ماہ گزر گیا۔ ڈرائیونگ لائسنس بنانا تو تمہارے لیے ضروری ہے نہیں؟ تمہارے ابا کہیں کسی تھانے میں داروغہ لگ رہے ہوں گے؟ تمہارا اسکوٹر ضبط ہوگا اور چالان بھی کٹے گا۔ تم نے ایک بوڑھے کو گھائل کر دیا ہے۔ وہ تو خیر ہے کہ چوٹ کم آئی اگر وہ مر جاتا یا ہڈّی وغیرہ ٹوٹ جاتی تو کیا ہوتا؟ تم بدمعاش لونڈوں کو تمہارے امیر باپ آوارہ گردی کرنے کے لیے اسکوٹر تو خرید کر دے دیتے ہیں لیکن لائسنس نہیں بنواتے؟ نہ ہی اسکوٹر چلانے کی تمیز سکھاتے ہیں؟ بلاؤ اپنے باپ کو یہ اسکوٹر انہیں کے نام سے ہے۔ اس جرم کی سزا تمہیں ضرور بھگتنی پڑے گی کہتا ہوا سپاہی چیخا اور کمرے سے باہر نکل آیا اور یک لخت ہی آپے سے باہر ہو گیا۔ پھر اندر کسی کو آواز لگاتے ہوئے بولا رجسٹر لے کر جلدی باہر آو کہتا ہوا سپاہی اسکوٹر کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا۔

    شاہنواز نے اپنی سیکو فائیو گھڑی سپاہی کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ حضور اسے رکھ لیجئے میرے پاس پیسے نہیں ہیں مجھے برائے مہربانی چھوڑ دیجئے اور چالان نہ کیجئے۔ سپاہی تھوڑی دیر خاموش رہا پھر اس نے بڈھے کی طرف نگاہ اٹھائی بڈھا پیر پکڑے زمین پر بیٹھا اب تک آہ و زاری کر رہا تھا۔ سپاہی اپنی پیشانی پر انگلیاں پھیرتے ہوئے کہنے لگا۔ افسوس میں اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا؟ گھڑی نہیں چلے گی سو روپے دینے ہوں گے۔ یہ سن کر شاہنواز کو کچھ ڈھارس بندھی اس نے برجستہ کہا حضور سو تو بہت زیادہ ہے بیس پچیس سے کام چلا لیجئے۔ سپاہی غصے میں ہکلاتے ہوئے اور بل کھاتے ہوئے چلایا پھر دھیرے سے بولا۔ نہیں بالکل نہیں پچاس سے کم نہیں ہوگا۔ تمہیں جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔ دو چار دن جیل میں چکّی پیسو گے تو تمہاری عقل ٹھکانے آ جائے گی۔ تمہارے جیسے کتنے آوارہ لونڈوں کو میں نے ٹھیک کر دیا ہے۔ شاہنواز نے معافی مانگتے ہوئے پاکٹ میں ہاتھ ڈالا لیکن جیب سے پرس غائب تھا ممکن ہے حادثے کے وقت کہیں گر گیا ہوگا۔ دس اور بیس کے دو نوٹ اوپر کی جیب میں نظر آئے۔ شاہنواز نے دونوں نوٹ سپاہی کی طرف بڑھایا جسے دیکھتے ہی سپاہی نے حقارت سے ٹھکرا دیا۔

    پھر سپاہی نے چمچماتی ہوئی سیکو فائیو گھڑی پر ایک نظر دوڑائی اسے بغور دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہا سودا تو اچھا ہے۔ میں تمہیں اس بار چھوڑ دیتا ہوں۔ لیکن دھیان رہے اگر آئندہ ایسی غلطی دوبارہ ہوئی تو جیل جاؤ گے تب تمہارے ہوش بالکل ہی درست ہو جائیں گے۔ میں نے تمہاری شکایت پہلے بھی سن رکھی ہے۔ اس قدر تیز اسکوٹر چلانا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اپنی اور دوسروں کی جان کے دشمن اوباش لونڈے کہتا ہوا سپاہی برآمدے میں جا کر ایک ٹیبل پر بیٹھ گیا۔

    میں نے اپنی جیب میں اس امید سے ہاتھ ڈالا کہ شاید کچھ روپیہ نکل آئے تاکہ ملا کر سپاہی کو دے دیا جائے۔ اچانک میری جیب میں پچاس کا لپٹا ہوا ایک نوٹ مجھے ملا۔ میں نے حیرت سے نوٹ کو کئی بار دیکھا اور کچھ سوچتا ہوا مؤدبانہ لہجے میں سپاہی سے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا اور پچاس روپے سپاہی کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ حضور گستاخی معاف ہو میرے دوست کی گھڑی واپس کر دیجئے۔ سپاہی چند دقیقہ الٹ پلٹ کر نوٹ کو غور سے دیکھتا رہا پھر گھڑی شاہنواز کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔ خیال رہے آئندہ پکڑے گئے تو خیر نہیں۔

    ہم جیل سے اسکوٹر لے کر تھوڑی دیر کو بوڑھے کے پاس کھڑے ہو گئے۔ اسے کسی ڈاکٹر کے پاس لے جانے کا سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک مجھے میرے کاندھے پر ایک تھرتھراتے ہوئے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ شاہنواز کے چہرے پر اُس طنز و تشنیع کا دکھ عیاں تھا۔ لرزتے ہوئے ہونٹھ کچھ بولنے سے قاصر تھے۔ جھکی ہوئی نظریں کچھ کہنا چاہتی تھیں لیکن الفاظ اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ فضا پر گہری خاموشی تھی اور آسمان پر عجیب سا دھندلکا چھایا ہوا تھا۔ پورب سے ہلکی ہوا بہہ رہی تھی۔ ہوا میں خنکی کا احساس قدرے نمایاں تھا۔ سورج غروب ہو چکا تھا اور اس کی تپش ماند پڑ گئی تھی۔ دن بھر کی شدید گرمی کے بعد ماحول پر سکون اور ٹھنڈا ہو گیا تھا۔

    بوڑھا اب تک اپنا زخمی ٹانگ لیے تھانے کے چبوترے پر بیٹھا درد سے کراہ رہا تھا۔ سپاہی اس کے قریب آیا سپاہی کو دیکھتے ہی اس کی آواز مدھم پڑ گئی۔ سپاہی نے بوڑھے کو پچاس روپیہ دیتے ہوئے کہا۔ بابا اِن کے ساتھ بازار چلے جاو کسی ڈاکٹر سے مرہم پٹی کروا لینا۔ چوٹ زیادہ نہیں لگی ہے۔ بچے نے معافی مانگ لی ہے۔ بچہ ہے اس عمر میں غلطیاں ہو جاتی ہیں۔

    بوڑھے نے آنکھیں پھاڑ کر سپاہی کو حیرت سے دیکھا پھر ایک شفقت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ چند ساعت ہمیں تکتا رہا۔ پھر پچاس روپے کے نوٹ پر تعجب خیز نظر ڈالی۔ اس کی غمزدہ آنکھوں میں محبت کا شعلہ رقصاں تھا۔ اس کے روئیں روئیں سے مسرت ٹپک رہی تھی۔ اس نے انگلیاں چٹخائیں اور وجد میں آ کر یک لخت ہی اٹھ کھڑا ہوا اور بازار کی طرف تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا چل پڑا۔ ہم انتہائی متعجب ہو کر اسے دیکھتے ہی رہ گئے۔ اس کے ٹانگوں میں بلا کی طاقت تھی اس کے قدم بازار کی طرف تیزی سے بڑھ رہے تھے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے