دو مزدور
چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن کے پاس ہی چینی کا ایک بڑا سا کارخانہ تھا۔ اسٹیشن اور کارخانہ کے درمیان کچی سڑک پر پھوس کی ایک جھوپڑی کے دروازے پر ایک تختی لٹکی تھی جس پر لکھا تھا، ’’گرم چائے۔‘‘ جھوپڑی کے اندر مٹی کا ایک چبوترہ تھا، میز کرسی کے بدلے تاڑ کے پتّوں کی چٹائی تھی، چبوترے پر دو تین میلی اورادھ ٹوٹی پیالیاں رکھی تھیں اور دو تین میلی کچیلی دیگچیاں۔ ہوٹل کی ٹٹی والی دیوار، چبوترے کے علاوہ سامنے سڑک تک پر مکھیوں کی ایک عظیم الشان فوج پڑاؤ ڈالے تھی، سامنے سڑک پر کیچڑ سے ذرا ہٹ کر ایک مریل سا کتا بیٹھا تھا۔۔۔ مزدوروں کا ہوٹل اور کیسا ہوتا۔
گاڑی آنے میں ابھی دیر تھی، بوڑھا ہوٹل والا، جس کی ایک آنکھ ’’ماتا میا‘‘ کی بھینٹ چڑھ چکی تھی، جلدی پانی گرم کرنے کی فکر میں تھا۔ کبھی وہ میلی سی دیگچی کو چولھے سے اتار کر پنکھا جھلتا اور کبھی دیگچی کو چولھے پر رکھ کر۔ کوئلہ کچا تھا، اس لئے ساری جھوپڑی دھوئیں سے بھری تھی، بوڑھا کبھی کبھی بیتابی کے ساتھ سڑک پر دور تک نگاہ دوڑاتا، پھر آپ ہی آپ بڑبڑانے لگتا، ’’اب تک نہیں آئی حرام جادی۔‘‘ بوڑھا تھک گیا، پنکھے کو الگ رکھتے ہوئے اس نے ذرا پریشانی ظاہر کرتے ہوئے کہا، ’’اوہ! بڑھاپے میں ہی سب دکھ لکھا تھا۔‘‘
اتنے میں ایک بوڑھی عورت ایک ٹوکری میں کوئلے لئے ہوئے آئی، بوڑھے نے اس کو غصہ بھری نظروں سے دیکھا، لیکن آہستہ آہستہ کچھ بڑبڑا کر رہ گیا، بوڑھی عورت نے ذرا تیز ہوکر کہا، ’’تمھیں تو گساہی آتا رہتا ہے، سب کام بھلے اپنے ہی کر لو۔‘‘ بوڑھے نے کہا، ’’ارے جمن کی ماں! تم تو بےپھجول ہی بگڑ جاتی ہو، دیکھو نہیں سب کے آنے کا بیلا (وقت) ہو گیا۔‘‘ بوڑھی عورت منہ پھلا کر ایک طرف چپ چاپ بیٹھ گئی، بوڑھے نے جلدی جلدی چولھے پر کوئلہ رکھا، اور زور زور سے پنکھا جھلنے لگا، آنچ اچھی ہوگئی تو بوڑھا جلدی جلدی پیالیاں دھونے لگا، اتنے میں کارخانے کا ’’بمبا‘‘ بجا، مزدوروں کو چھٹی ہو گئی، اور وہ سب کارخانے سے نکلے۔۔۔ جیسے رات بھر کی بند مرغیاں صبح کو ڈربہ کھلنے پر۔۔۔
بوڑھا پھر گھبرا کر اٹھا، پیالیوں کو چبوترے پر رکھ کر چولھے کو دیکھنے لگا، چولھے میں آنچ ٹھیک تھی، مگر اس سے اسے تشفی نہ ہوئی، اس نے کہا، ’’ارے جمن کی ماں، ذرا پنکھا تو جھل۔‘‘ بوڑھی عورت اسی طرح منہ لٹکائے بیٹھی رہی، اپنی جگہ سے ذرا بھی نہ ہٹی، بوڑھے کو غصہ آ گیا، وہ بڑبڑانے لگا، ’’معلوم ہوتا ہے، جیسے ہم ہی اکیلے کھاتے ہیں، پگلی! ! اس کو کوئی غرض ہی نہیں، آج میری آنکھ بند ہو جائے تو کل ہی پتہ چل جائے، کوئی بھیک تو دے ہی نہیں اس چال سے، بوڑا ہی کہیں کی، جاہم بھی۔۔۔‘‘
اتنے میں چند مزدور ہوٹل میں آ گئے، بوڑھے نے بکنا بالکل بند کر دیا۔ فوراً آنے والوں کی طرف مخاطب ہو گیا اور لگا آپ ہی آپ بولنے، جیسے وہ باری باری سب کی باتوں کا جواب دے رہا ہے، ’’آج تو ایسی اچھی روٹی پکی ہے کہ واہ رے واہ اور بھاجی تو ایسی ہے کہ کھا کر جی خوش ہو جائے، اس کو کھا کر آدمی گھنٹوں کیا ہفتوں مزا نہیں بھول سکتا، بیٹھو بھائی بیٹھو، سب کو دیتے ہیں، ذرا چائے کا پانی ہو رہا ہے۔‘‘ بوڑھا پھر آنے والے مزدوروں کی طرف مخاطب ہوا اور سب سے پوچھنے لگا، ’’تمہیں کیا چاہئے؟ تمہیں کیا چاہئے؟‘‘ پھر کسی کو روٹی بھاجی، کسی کو بھات دال، کسی کو گوشت روٹی۔۔۔ جس نے جو مانگا اسے دیا، اداس جھوپڑی میں زندگی کی لہر دوڑ گئی، کچھ دیر چہل پہل رہی، پھر ایک کے بعد دوسرا اٹھ کر چلا گیا، صرف تین چار مزدور رہ گئے، بوڑھے نے سب سے کہا، ’’بیٹھو بھائی بیٹھو! ابھی چائے دیتے ہیں۔‘‘
اس نے دیگچی میں چائے کی پتی ڈال دی، پانی چولھے پر کھولتا رہا، بوڑھے نے کہنا شروع کیا، ’’آج تو وہ چائے پلائیں گے کہ بس رے بس، جب ہم میکلین صاحب کے یہاں تھے بھائی، تو ایک صاحب آیا، پارٹی تھا، بڑا پارٹی، ہاں بہت سے صاحب لوگ آئے، میم صاحب بھی۔ بڑا دعوت میں ہمارے پکائے کھانے کی صاحب لوگوں نے بہت تعریف کیا اور صاحب نے دس روپیہ انعام دیا۔۔۔‘‘ ایک جوان مزدور بولا، ’’ارے بوڑھا میاں! دو جلدی چائے، تم بکتے ہو۔‘‘ بوڑھا بولا، ’’ہاں بابو ابھی دیتے ہیں۔‘‘ دوسرا مزدور جس کی عمر چالیس سے زیادہ تھی، بولا، ’’ارے بلا کی! تیرا جبان بہت خراب ہو گیا ہے۔‘‘ بلاقی نے جواب دیا، ’’نہیں جمرو بھائی! بوڑھا بکتا بہت ہے، بالکل بےپھجول۔‘‘
بلاقی بالکل جوان تھا، بالکل کالا اور ہٹا کٹا، سر میں انگریزی بال اور ٹیڑھی مانگ، تیل سے سر کے بال چمک رہے تھے، بوڑھے نے سب کو چائے بناکر دی۔ ضمیر نے بلاقی سے کہا، ’’ارے کھانساماں جی تیرے باپ کے عمر سے جادے ہی ہیں، ان کو ایسا کہتا ہے۔‘‘
’’نہیں جمرو بھائی، یہ تو کھیل کی بات ہے، بڑے میاں اپنے ہی آدمی ہیں۔‘‘
ضمیر بولا، ’’نہیں تیرا جبان کھراب ہے ہی، اچھا کل بابو سے کاہے کو لڑ رہا تھا۔‘‘ بلاقی نے شکایت کے طور پر کہا، ’’سالے نے کل پھر گیر ہاجر بنا دیا جمرو بھائی! بڑا کھچڑ ہے سالا۔‘‘
’’ارے گالی کاہے کو بکتا ہے، کوئی فائدہ ہوگا اس سے۔۔۔ بابو سے لڑکر۔‘‘ بلاقی نے چائے کی پیالی اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’تو اس سالے کو کیا ملےگا؟ سیٹھ باپ ہے اس کا، اسی کو تو سارا دھن مل جائےگا، پانچ منٹ دیر ہوا، اور سالے نے گیر ہاجر کر دیا۔‘‘
’’اس بیچارے کا تو کام ہی یہی ہے، لڑائی بری بات ہے، کھوسامد برامد سے آدمی کو کام نکالنا چاہئے بلا کی۔‘‘
’’تم بھی جمرو بھائی کیسی بات کرتے ہو، کھوسامد کاہے کی، بھیک تھوڑے دیتا ہے سالا۔‘‘
’’اب کی بدماسی کرےگا تو دیں گے دو پھیٹ۔‘‘
ضمیر نے بلاقی سے چڑ کر کہا، ’’ارے پاگل مت بن، بات سمجھا کر۔‘‘ بلاقی نے تن کر کہا، ’’ارے بھیا! جو جی میں آئے کہہ لو، یونین نہیں ہے یہاں، نہیں تو تین چار دن کی ہڑتال میں ہوش آ جاتا سب کو۔‘‘
ضمیر کو پھر غصہ آ گیا، وہ بولا، ’’پھجول یونین یونین بکتا ہے، گریب کو وہاں بھی کوئی نہیں پوچھتا، ابے ہم کھد یونین کے مارے ہوئے ہیں، دیکھ۔۔۔ ہم کو ساٹھ روپیہ مہینہ ملتا تھا، ہڑتال ہوا، یونین والے بھاگ گئے سب سالے تو پھر نوکر ہو گئے۔ ہم کو دیکھ اب بیس روپیہ پر سر مار رہے ہیں، مصیبت میں کوئی کسی کا نہیں ہوتا، ابے اب یونین والا پوچھنے بھی نہیں آتا، چھ مہینہ بھوک مر مر کے کاٹا ہے۔‘‘
بلاقی نے بہادرانہ شان سے جواب دیا، ’’بس اتنے میں ہی ٹھنڈے ہوگئے، کاہے کو گئے تھے یونین میں تب ہم کہیں۔۔۔ سنو۔۔۔ مل میں جب ہڑتال ہوا تو ہم بھی تھے وہاں۔ لڑائی ہوگئی، پولس نے ہم لوگ کے سیکرٹری پر لاٹھی چلایا۔ ہم جھٹ سے لاٹھی روک کر سپاہی کو دو پھیٹ مارا، جانو بھیا کا ہوا؟ ہم گرپتار ہوگیا، سپاہی سالا نے۔۔۔ ہم کو تھانہ میں کھوب مارا اور چھ مہینہ کا جیل ہو گیا، سمے آنے سے پھانسی سے بھی نہ بھاگےگا، مگر اپناہک واسطے لڑیں گے جرور، اور سب مزدور بھائی کو مل کر لڑنا چاہئے۔۔۔‘‘ ضمیر چپ چاپ سنتا رہا، جیسے کوئی بےوقوف آدمی کسی عقلمند کی بات سنتا ہو، بلاقی اس شان سے بولتا رہا جیسے وہ کسی عظیم الشان مجمع کو مخاطب کر کے تقریر کر رہا ہو، جب بلاقی بول چکا تو ضمیر نے کہا، ’’بول لو بھیا! ابھی جوان ہو، کوئی پھکر نہیں، آجاد ہو، دوچار بال بچہ ہوتا تو معلوم ہوتا۔‘‘
بلاقی اسی جوش میں بولا، ’’یہ گلت ہے، جیتا رہے تو دیکھ لینا۔۔۔‘‘
بوڑھے ہوٹل والے کی عورت اب تک اسی طرح منہ پھلائے بیٹھی تھی، کبھی زہر بھری نظروں سے بوڑھے کو دیکھتی اور کبھی بڑبڑاتی، بوڑھا جلدی جلدی جھوٹے برتن دھو رہا تھا۔۔۔ اور آپ ہی آپ بڑبڑاتا جا رہا تھا، ضمیر اور بلاقی دونوں ہی چپ چاپ اپنی چائے ختم کر رہے تھے۔ آخر دونوں کی چائے ختم ہو گئی، بلاقی نے پوچھا، ’’اور چائے پیوگے جمرو بھیا؟‘‘
’’نہیں۔۔۔‘‘ ضمیر نے جواب دیا۔ بلاقی نے پیالی رکھ کر جیب سے ایک ٹین کی ڈبیہ نکالی، اس سے بیڑی نکال کر ضمیر کو دی، ایک اپنے ہونٹوں میں دبا کر چولھے سے آگ لے کر جلانے لگا، بوڑھی عورت بڑبڑانے لگی، مگر اس نے ذرا بھی پروانہ کی۔ بلاقی، بیڑی جلانے کے بعد ڈبیہ پر لگے ہوئے چھوٹے سے شیشے میں دیکھ کر انگلیوں سے بال سنوارنے لگا اور بال سنوارتے ہوئے بولا، ’’بڑے میاں! جمرو بھائی کا ناشتہ چائے میرا حساب میں لکھیو۔۔۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ جھوپڑی سے باہر نکلا، بولا، ’’اچھا سلام جمرو بھیا۔‘‘ پھر داہنے ہاتھ سے بالوں کو درست کرتا اور موٹی آواز میں ’’مرے مولا بلا لو مدینہ مجھے‘‘ گاتا ہوا ایک طرف روانہ ہو گیا، بوڑھے ہوٹل والے نے ضمیر سے نصیحت کے انداز میں کہا، ’’کس بوڑا ہے سے بولتے ہو بھیا۔‘‘ بڑھیا بیٹھی بیٹھی بول اٹھی، ’’ہی ہے کھراب، لونڈا پگلا معلوم ہوتا ہے۔‘‘
بلاقی کے گانے کی دھیمی آواز اب تک جھوپڑی میں آ رہی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.