ڈولی
وہ اک شہر نور تھا۔
ایک سے بڑھ کے ایک پری زاد جھلملاتے لباس میں ادھر سے ادھر بھاگا پھرتا تھا۔ میں کسی بہت گھنے اندھیرے سے یکدم ادھر آن نکلی تھی اور حیرت سے چاروں سمت دیکھتی تھی کہ کسی بہت بڑی تقریب کا اہتمام ہے۔ وسیع پنڈال میں رنگ برنگ بتیاں روشن، فانوس جگمگاتے تھے۔ ست رنگے شامیانے کے بانسوں پر رنگین قمقے لپٹے تھے۔ سامنے اسٹیج، مخملیں قالین اور طلائی صوفوں سے سجا تھا۔ ایک جانب سرخ دیوان پر سنہری گاؤ تکیے لگے تھے۔
’’اسی عالم حیرت میں کھڑی ادھر ادھر دیکھتی تھی کہ یکدم کسی نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ میں نے گھوم کر دیکھا۔ ایک عجب مانوس صورت نظر آئی۔ حافظہ پر بہت زور ڈالا مگر یاد آتے آتے رہ گیا کہ اس کو کہاں کب دیکھا تھا۔ مگر چہرہ ایسا مانوس کہ گویا برس ہابرس کا ساتھ رہا ہو۔ اس نے بڑی دردمند حلاوت کے ساتھ کہا، ’’تم یہاں کھڑی ہو؟ چلو دیر ہو رہی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ اس وقت اچانک سردی کے مارے مجھ پر کپکپی طاری ہو گئی۔ مگر اس کے ہاتھ تو مجھ سے بھی زیادہ سرد تھے۔ ذرا سے لمس پر میرا تمام جسم برف ہو گیا۔ میں نے اس کی طرف پھر غور سے دیکھا۔ ایک دھند بار بار میری آنکھوں اور اس کے چہرے کے درمیان آ جاتی تھی اور مجھے کچھ یاد آتے آتے رہ جاتا۔ برسوں پرانی کوئی سنسان دوپہر۔ یا پھر سردیوں کی تنہا رات۔ جب اچانک شب کی طوالت کے باعث نیند اچٹ جائے۔ آنکھیں اور ذہن دھل جائیں۔ بالکل خالی۔ گونجتے کمروں کی طرح۔ کھڑیوں کے پٹ گرد اڑاتی آندھیوں میں آپس میں بجتے ہوں۔ مٹی اڑاڑ کے آنکھوں، ناک اور منہ میں، دانتوں تلے کرکراتی ہو۔ محض ایک مانوس چہرے کا ٹمٹماتا دیا کمرے میں روشن ہو۔ وہی چہرہ جو یاد آتے آتے رہ جائے۔
’’تم یہاں کھڑی ہو۔ چلو دیر ہو رہی ہے؟‘‘ وہ میرا ہاتھ تھام کر چل دی۔ پنڈال سے کافی دور ایک نیم روشن مکان کی طرف جس کا بڑا دروازہ کھلا تھا۔ اندر ایک وسیع کمرے میں بڑے بڑے نیم روشن فانوس تلے بہت سے لوگ بیٹھے تھے۔ ادھر ادھر طرح طرح کا سامان بکھرا تھا۔ خالی صندوق، جھلملاتے کپڑے، زیورات کے بےشمار ڈبے جو کھلے پڑے تھے اور خالی تھے۔۔۔ بالکل خالی۔ مگر کوئی بھی ان کے خالی ہونے کی طرف متوجہ نہ تھا۔ گویا ان کا خالی ہونا ہی درست ہو۔ میں نے حیرت سے سب کچھ دیکھا۔ مگر اس سے بھی زیادہ حیرت مجھے تب ہوئی جب سب نے اپنی اپنی مصروفیات سے ہاتھ اٹھا لیا۔ گویا سب کے سب میرے ہی منتظر تھے۔ سب نےمجھے گھیر لیا۔ میں انجانے میں کسی واردات میں گھر چکی تھی۔
شاید یہ سب کچھ واقعی میری ہی خاطر کیا گیا تھا۔ مگر یہ کیسے ممکن ہے؟ میں نے اپنی جانب دیکھا۔ مرجھائے جسم، اڑتے بالوں اور بے رنگ چہرے کو اور پھر اس سارے طمطراق کو۔ یہ کیونکر ممکن ہے۔ میں نے پہلے دن سے یاد کرنا چاہا۔ میں کہ ازل سے ٹوٹی پھوٹی، ادھوری چیزوں کی ہم نشین تھی اور پھر سنسان دوپہریں اور سایوں سے سرسراتی گھنی راتیں جو میری ہمدم ہوئیں اور مکانوں کی خاموش ممٹیاں اور ان پر بیٹھنے والے ساکت پرندے اور وہ سب لوگ جن سے بنا لفظوں اور آوازوں کے میری گفتگو رہی۔ میل ہا میل کے فاصلوں پر بھی ایک ایسی قربت جو ہڈیوں میں اتر جاتی ہے۔ وہ سب کے سب مجھے ایک ایک کر کے قطار صورت نظر آئے۔ تو پھر میری خاطر اتنا اہتمام کیوں کر ہو سکتا ہے اور اب وہ اچانک، اس انجانی جگہ، انجانے منظر میں گویا سب کچھ میرا منتظر تھا۔ لوگوں کی آنکھوں میں اشتیاق بھرا انتظار تھا۔
اس نے مجھے ایک چوکی پر بٹھا دیا۔ میرے سامنے زمین پر ایک جانب نقرئی سینی میں جو ایک جوڑا سجا تھا، سلمے ستارے جڑا۔ اس کا رنگ عجب تھا۔ اگر چاہو بھی تو لفظوں میں بیان نہ کر سکو۔ وہ جوڑا، مور کے پروں کا جگمگاتا، سبزی مائل فیروزی رنگ کا تھا۔ ایک دم آنکھوں میں اتر جانے والا۔ جس پر چاندنی کا مسالہ جڑا تھا اور اس جوڑے سے کچھ دور ایک صندوق، گہرے بھورے رنگ کی چکنی چمکتی لکڑی کا صندوق بنا قفل کے۔۔۔ اتنا بڑا۔۔۔ بالکل خالی، کسی سامامان کا منتظر۔
’’چلو پہلے غسل کرلو۔۔۔ یہ جوڑا لے لو۔۔۔ اس کے بعد پھر۔۔۔‘‘ اس نے وہ جوڑا اپنی بانہوں پر ڈال لیا اور مجھے ایک جانب لے کر چل دی۔ غسل اور اس سردی میں! ایک شدید کپکپاہٹ سے میں لرزنے لگی۔ ’’سردی تو ہے۔ مگر پہلے ہی خاصی دیر ہو چکی ہے۔۔۔‘‘ اس نے ایک تنگ دروازے پر رکتے ہوئے کہا، ’’لو۔۔۔ میں باہر انتظار کرتی ہوں۔‘‘
’’پھر میں وہ جوڑا اٹھائے اس تنگ دروازے سے اندر چلی گئی۔ پانی بےحد ٹھنڈا تھا۔ مگر میں خود بخود ان حالات کی اسیر ہوچکی تھی۔ رفتہ رفتہ میرے اندر اضطراب بڑھنے لگا۔ یہ سب اہتمام میری خاطر تھا۔۔۔ تو کیا یہ تقریب؟ ایک دم سے مجھے جھٹکا لگا۔ ’’نہیں!‘‘ میں لباس تبدیل کرتے کرتے رک گئی۔ ’’یہ کیسے ممکن ہے۔‘‘ مجھے احساس ہوا کہ یہ سب انتہائی غلط ہے اور غلط بات کا مرتکب ہونے سے پہلے کی متلی میرے سینے میں کلبلانے لگی۔ یہ انتہائی غلط ہے۔ مجھے اپنے ٹوٹے پھوٹے وجود پر قے آنے لگی۔ یہ میں کیا کر رہی ہوں۔ میں نے بہت یاد کرنا چاہا۔ میں لباس تبدیل کر کے باہر آ گئی۔ وہ ابھی تک میری منتظر کھڑی تھی۔ مجھے اس لباس میں دیکھ کراس نےمحبت سے گلے لگا لیا۔ اس کا جسم برف کی مانند تھا۔
’’بس ٹھیک ہے۔ ابھی کچھ دیر میں دوسرا لباس تبدیل کر لینا۔ وہ لوگ آتے ہی ہوں گے۔‘‘ اس نے مجھے لے جاکر اس کھلے صندوق کے قریب بٹھا دیا۔ سب لوگ اپنا اپنا کام چھوڑ کر میری جانب متوجہ ہوئے۔ تب میں نے پہلی بار دیکھا ان سب کے چہرے مانوس بے حد مانوس مگر ایک دھند میں لپٹے تھے۔ ان کے نقوش پانی میں جھلملاتے عکس کی طرح ایک دوسرے میں تحلیل ہو جاتے تھے۔ ایک عجب نقاہت نے مجھے بےحس و حرکت کر دیا۔ شاید وہ کوئی خوف تھا جس نے میری زبان میری آنکھوں تک کو خشک کر ڈالا تھا۔ میں نے بےبسی سے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ اس کے ہاتھ میں سرخ چوڑیاں تھیں جو وہ اب مجھے پہنانے کے لیے آ رہی تھی۔ میں نے اس کی آنکھوں سے التجا کی۔ اس نے اپنی نم آلود آنکھیں جھکا لیں۔
’’میں جانتی ہوں۔‘‘ پہلی چوڑی چڑھاتے ہوئے اس نے سرگوشی کی، ’’میں جانتی ہوں۔ مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا۔‘‘ اس نے چاروں طرف پھیلے پرتکلف انتظامات کو دیکھا اور وہ بےشمار مہمان جو نہ جانے کہاں کہاں سے چل کر آئے تھے اور آخر میں اس نےوہ مور پنکھ دوپٹہ میرے سر پر ڈال دیا۔ ’’آؤ اٹھو!‘‘ پھر وہ مجھے اٹھاکر لوگوں کے درمیان لے آئی۔ وہ چکنی لکڑی کا صندوق۔۔۔ بنا قفل کے۔ بالکل خالی۔ منہ کھولے۔۔۔ کسی سامان کا منتظر۔ میرے بالکل قریب تھا۔ اتنا قریب کہ میرے پاؤں اس سے چھو رہے تھے۔
پھر اچانک لوگوں نے میرے قریب سمٹنا شروع کر دیا۔ اتنا قریب کہ میرا دم گھٹ گیا۔ وہ میرے پہلو سے پہلو لگائے بیٹھی رہی۔ لوگوں کے ہجوم سے بچانے کی خاطر اس نے اپنی باہیں میرے گرد ڈال دیں۔ ’’لو دیکھو! تم نے آئینہ تو دیکھا ہی نہیں۔‘‘اس نے اپنے پہلو سے ایک آئینہ نکال کر میرے سامنے رکھ دیا۔ مگر میں نے اس چہرے کو نہیں پہچانا۔ مجھے اب تک یقین نہیں وہ چہرہ کس کا تھا۔ یا شاید وہ آئینہ تھا ہی نہیں۔ وہ تو سچ مچ کا کوئی چہرہ میرے روبرو تھا۔ اگر وہ میرا عکس تھا تو میں اتنے طول طویل عرصے تک اس کے ساتھ کیوں کر رہی۔ میں نے یاد کرنا چاہا۔ میں تو اس سے بےحد مختلف تھی۔ یا شائد اتنے طویل برسوں سے میں نے آئینہ نہیں دیکھا تھا۔ شاید یہ سب اسی دوران ہوا ہو۔ مگر ایک ہنسی، میرے حلق سے اٹک اٹک کے نکلی۔ ایسی آواز جوں کسی ذبح ہوتے بکرے کے گلے سے نکلتی ہو۔ وہ مرجھایا۔۔۔ بےرنگ، دھبوں بھرا چہرہ جس پر بدرنگ بال نیچے تک جھک آئے تھے۔ بےرونق ٹکٹکی باندھے آنکھیں اور سب سے بڑھ کر وہ پیشانی تک جھک آنے والا مور پنکھ آنچل۔ بےبسی کے احساس نے میرا سینہ جکڑ دیا۔
’’نہیں ایسا نہ کرو۔‘‘ میں نے پھر التجا کرنا چاہی۔ مگر وہ تو سب کے سب میرے گرد جمع تھے۔ میرے اوپر ٹوٹے پڑے تھے اور وہ مجھے اپنے گھیرے میں لیے تھی، گویا مجھے تسلی دے رہی ہو۔ اچانک باہر گھوڑوں کی ٹاپ کا شور اٹھا۔ ’’آ گئے۔ وہ آ گئے۔‘‘ میرے گرد جمع ہونے والے تیزی سے باہر بھاگے۔ میرا جی چاہا میں کسی ان ہونی، ان جانی سمت بھاگ نکلوں۔ مگر میرے پاؤں اس صندوق تلے دبے تھے اور میں انہیں کوشش پر بھی ہلا نہ پا رہی تھی۔ اس نے مجھے اور اپنی باہوں کے حلقے میں داب لیا۔
تب چاروں سمت سرگوشیاں کرتا۔۔۔ پھیلتا۔۔۔ گونجتا ایک وسیع گیت اٹھا۔ میں نے غور سے سننا چاہا۔ ڈولی میں سوجا سوار سکھی ری۔۔۔ مجھے یاد آیا۔۔۔ یہ گیت۔۔۔ وہ برسوں برسوں پہلے گلیوں میں سانس لینے والا گیت۔۔۔ اور جاتی سردیوں کے پھول پتے اور ان کے ساتھ لپٹی خوشبوئیں۔۔۔ وہ تنہا کھڑکی جس میں سے نیچے گلی میں جھانکا جا سکتا تھا۔ وہ لوئی کی بکل میں چھپا شخص جس کے ہاتھ میں ٹمٹماتی لالٹین ہوتی اور ایک لمبی۔۔۔ گونجتی الاپ۔۔۔ ڈولی میں ہو جا سوار۔۔۔ سکھی ری۔۔۔ میری آنکھیں خشک پتھر۔۔۔ پلکیں تک جھپکنا بھول چکی تھیں۔
’’اٹھو!‘‘ اس نے مجھے تھام کر اٹھانا چاہا۔ مگر اس چکنی چمکتی لکڑی کے صندوق تلے سے پاؤں ہی نہ نکلنے پائے تھے۔ پاؤں جو ننگے تھے۔ ’’وہاں جوتے کی تو کوئی ضرورت نہ ہوگی۔۔۔‘‘ اس نے کہا اور پھر مجھے اس طرح اٹھایا کہ پاؤں اس لکڑی سےآزاد ہو گئے۔ پھر کچھ لوگ۔۔۔ نئے، اجنبی لوگ۔۔۔ دھند میں لپٹے چہرے لیے آئے۔ ’’ٹھیک ہے۔۔۔ تیار ہے۔۔۔‘‘ کسی نے کہا۔ تب میں نے دیکھا اس صندوق کے چار ڈانڈے تھے۔۔۔ شاید وہی رہ رہ کے میرے پاؤں پکڑتے تھے۔ انہوں نے بڑھ کر ڈانڈے تھامے۔
گیت کی گونج اب دیواروں میں سرایت کر گئی تھی۔ ڈولی میں ہو جا سوار سکھی ری۔ ہجوم میرے گردیوں جمع ہو رہا تھا گویا مکھیوں کا بہت بڑا چھتا اور اس چھتے کی بھنبھناہٹ وہی گیت تھی۔ ایک ہی بول۔ ایک ہی تھرتھراہٹ۔
تب اس نے اپنی نرم محبت بھری باہوں میں اٹھا کر مجھے اس ڈولی میں سوار کرا دیا۔۔۔ سب نے پکارا، ’’وہ کہاں ہے۔۔۔ اس کو بلاؤ! اور یہ دوسرا جوڑا اس کے ساتھ کر دو!‘‘ میں نے چاروں طرف دیکھنا چاہا۔۔۔ خوف اور اشتیاق سے کانپتے ہوئے۔۔۔ وہ کون ہے۔۔۔ کیا ہے۔۔۔ کیا میں اسے دیکھ سکوں گی!
مگر وہ باہر ہی میرا منتظر رہا۔ کہاروں نے ڈانڈے کاندھے پر رکھا۔ پھر میں نے جانا کہ ہجوم سے بہت دور نکل آئی ہوں۔ گیت کی صدائیں دور، بہت دور رہ گئی تھیں۔ کہاروں کے ہانپتے سانس میرے گرد منڈلا رہے تھے۔ ان کے قدموں کی آواز میرے کانوں میں گونجتی تھی۔۔۔ اور ان میں ڈوبتی ابھرتی۔۔۔ ابھرتی ڈوبتی۔۔۔ گھوڑے کی ٹاپ کہ میرے ساتھ ساتھ چلی جاتی تھی۔ پھر یکدم کہاروں کے قدم تیز ہو گئے۔ بےانتہا تیز۔ گھوڑے کی ٹاپ میں عجب برق رفتاری آ گئی۔ کبھی کبھی یہ ٹاپ اس قدر قریب آ جاتی کہ گویا کہیں میرے اندر ہی اندر سے اٹھ رہی ہو۔ مگر پھر وہ قریب آتے آتے دور ہو جاتا۔۔۔ ڈولی کے پردے گرے تھے۔ پھر کہاروں کے قدموں کی صدا بھی ختم ہو گئی، باوجود اس کے کہ وہ کہیں زیادہ تیز بھاگتے اور ہانپتے چلے جا رہے تھے اور وہ ٹاپ بھی تھم گئی، حالانکہ میں جانتی تھی کہ وہ ایک ہاتھ سے میری ڈولی کا کنارہ تھامے ہوئے ہے، یوں گویا کوئی اپنی امانت کو تھامے لیے جاتا ہو۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.