موسم گرما کی سخت دھوپ میں آگ اگلتے راستوں سے کچھ پرے، سگنی داتون بیچتی رہتی۔ منہ اندھیرے وہ بستر سے اٹھ کر ہتھیلیوں سے آنکھوں کو ملتی گھر سے نکل جاتی۔ وہ چند روپیوں کے لیے سورج میں اپنے جسم و جاں کو جلاتی رہتی اور جب اُسے یقین ہو جاتا کہ اب وہاں کوئی اس کے داتون کو خریدنے والا نہیں ہے تب وہاں سے داتون والے کے پاس پہنچتی۔ اس کے پیسے ادا کرتی اور باقی بچے ہوئے پیسے لے کر گھر کی طرف چل پڑتی۔
لمبی لمبی تارکول کی سڑکوں پر شور کے کانٹے اگ رہے ہوتے مگر سگنی کے گھر وہ شور شرابہ اور ہنگامہ کہاں؟— چار لوگوں پر مشتمل اس کا چھوٹا سا پریوار ہے۔ ماں، بابوجی، وہ اور تین سال کا چھوٹا بھائی۔ ماں بابوجی کوڑے اٹھانے کا کام کرتے تھے۔ صبح ہوتے ہی ٹھیلہ لے کر دونوں نکل پڑتے۔ ماں گھر گھر جاکر کوڑے مانگتی اور بابوجی کوڑے کو ٹھیلہ میں جمع کرتے، جب ٹھیلہ کوڑے سے بھر جاتا۔ اسے کسی ویرانے میں پھینک آتے—‘
حسب معمول سگنی روز داتون بیچتی لیکن بس اسٹاپ پر اس کی عمر کے دوسرے بچے بھی داتون بیچا کرتے تھے۔ اس لیے اس کی آمدنی اتنی نہیں ہوتی جتنی ہونی چاہیے تھی۔ اس لیے وہ کبھی اسٹیشن کی طرف بھی نکل جاتی۔ اسٹیشن پر اس کی اچھی آمدنی ضرور ہو جاتی لیکن وہاں اسے پولس کا خوف دامن گیر رہتا۔ وہ داتون بیچنے کے پیسے مانگتا ورنہ ڈنڈے مار کر بھگا دیتا۔ سگنی چھپ چھپا کر داتون بیچتی رہتی اور جیسے ہی پولس پر نظر پڑتی وہ بھاگ کھڑی ہوتی—‘
سگنی دھیرے دھیرے روز اسٹیشن جانے لگی اور گھنٹے دو گھنٹے داتون بیچ کر بھاگ آتی کیونکہ اسٹیشن پر نگرانی کرنے والا سپاہی شاید دیر سے آتا تھا۔ جب تک سگنی دس بیس روپے کے داتون بیچ چکی ہوتی لیکن وہ اس سے بے خبر تھی کہ اسٹیشن کا سپاہی کسی خاص مقام سے بیٹھے بیٹھے اسے دیکھتا رہتا تھا۔ بالآخر ایک دن اس ادھیڑ عمر سپاہی نے اسے آ دبوچا۔ سگنی معافی مانگتی رہی، ہاتھ پیر جوڑتی رہی، چھوٹ کر بھاگ جانا چاہی مگر سپاہی کی گرفت مضبوط تھی۔ اس نے سگنی کی کلائی مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا اور گالیاں بک رہا تھا۔ پھر وہ اسے لگ بھگ گھسیٹتا ہوا پلیٹ فارم سے دور ایک بہ نسبت سنسان علاقے میں لے گیا۔ ادھر ایک بوسیدہ ریل کا ڈبہ پٹری کے کنارے لگا تھا۔ وہ سگنی کو لے کر اس ڈبے میں چلا گیا۔ سگنی کی آنکھوں میں اندھکار اور خوف کے سائے پھیل گئے۔ سپاہی نے بوسیدہ ڈبے کا بوسیدہ دروازہ بند کردیا۔ سگنی خوف سے کانپ رہی تھی۔ سپاہی آگے بڑھ کر اس کے جسم کو ٹٹولنے لگا۔ سگنی کسمسائی مگر سپاہی کی ڈانٹ نے اس کی آواز کا گلا دبا دیا—‘
’’چپ رہ سالی۔ نہیں تو ابھی اندر کردوں گا۔‘‘
سگنی کی زبان بند تھی مگر اس کی آنکھوں کے آنسو بول رہے تھے۔ ان آنسوؤں میں اس کا اپنا کرب چیخ رہا تھا۔ اس کی عمر ہی کیا تھی۔ یہی کوئی دس سال۔ سپاہی بھی زیادہ دیر وہاں نہیں ٹک سکا مگر سگنی ایک بت کی طرح دیر تک خاموش بیٹھی رہی۔
اس روز اس کا پورا دن کرب و اضطراب میں گزرا۔ دن کے بعد رات آگئی۔ رات تیزی سے بھاگتی رہی اور وہ دیر تک جاگتی رہی۔ سوچ کے دائرے اسے اپنے شکنجے میں کسے جا رہے تھے۔ اس کی سوچ کا دائرہ پھیلتا جا رہا تھا۔ اس نے دماغ پر زور ڈالنا شروع کر دیا تھا۔ اس کی نظروں کے سامنے بار بار اس سپاہی کا چہرہ کالے ناگ کی طرح نمودار ہوتا جو بار بار اس کو ڈستا جاتا اور ہر بار وہ تڑپ کر رہ جاتی جیسے کوئی اس کے پورے وجود کو کچلے دے رہا ہے اور وہ اس سے نجات حاصل کرنا چاہ رہی ہے۔
سگنی نے ایک گہری سانس لی اور آسمان کی طرف اپنی نظریں اٹھائیں۔ آسمان بالکل شانت تھا۔ اسے اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس کی محفوظیت کی ساری چھتیں ٹوٹ گئی ہیں۔ اس کے وجود کا ہر انگ پسینے کی بوندوں کی طرح سردی بھری فضا میں تھرتھرا رہا تھا۔ سگنی نے سوچا وہ اپنی محفوظیت کو برقرار رکھ سکے گی یا ساری دیواریں منہدم کرکے آزاد ہو جائےگی۔ وہ ماں بابو جی کو ساری باتیں بتا دے یا اپنے اندر ہی دفن کرلے۔ وہ بہت دیر تک کشمکش میں گھری رہتی ہے اور نہ جانے کب نیند کی دیوی آکر اس کے اوپر اپنی چادر تان دیتی ہے۔
پیٹ کی آگ نے سگنی کو پھر سے داتون بیچنے کے لیے مجبور کر دیا۔ وہ اٹھی اور داتون والے کے پاس پہنچ گئی۔ داتون والے نے داتون دے دیا۔ وہ اسے لے کر سیدھے اسٹیشن پہنچ گئی اور بے دھڑک داتون بیچنے لگی۔ اس کی نظر اس سپاہی پر پڑی مگر اس کی پروا کئے بغیر وہ داتون بیچتی رہی۔ سپاہی نے بھی اسے دیکھا مگر کچھ نہ بولا صرف مسکرا کر رہ گیا۔
اب وہ بے دھڑک اسٹیشن پر داتون بیچتی جیسے اسے کسی کا خوف نہ ہو۔ سپاہی بھی اسے روز دیکھتا مگر کچھ نہ کہتا۔ البتہ جب اس کے اندر کا ناگ پھن اٹھاتا تو وہ سگنی کو لے کر اسی بوسیدہ ڈبے میں چلا جاتا۔ اب سگنی بھی مزاحمت نہیں کرتی۔ اس نے اسے بھی اپنے مختلف کام کی طرح معمول میں شامل کر لیا تھا۔
وقت کی زنجیروں میں ہر شخص گرفتار ہے۔ کوئی زنجیر توڑ کر نکل جاتا ہے۔ کوئی زندگی بھر اسی میں گرفتار رہتا ہے۔ کوئی زنجیر خود پہن لیتا ہے اور کسی کو وقت پہنا دیتا ہے۔ وقت ہر لمحہ ایک زنجیر جوڑتا رہتا ہے۔ ایک سرا کبھی دوسرے سے نہیں ملتا۔ حالانکہ اس سرے کا پتہ لگاتے لگاتے انسان موت کی زنجیر اپنے گلے میں ڈال لیتا ہے۔
کئی دن تک سگنی اسٹیشن داتون بیچنے نہیں آئی تو سپاہی کو تشویش ہوئی کہ آخر سگنی کیوں نہیں آرہی ہے۔ دن اسی طرح گزرتے گئے۔ آخر ایک ہفتے کے بعد پھر سگنی اسٹیشن پر داتون لے کر نمودار ہوئی۔ اس کا چہرہ بالکل اترا ہوا تھا جیسے وہ خوب روئی ہو۔ غمگین چہرے پر کوئی ایسا دکھ تھا جسے وہ چاہ کر بھی نہیں چھپا پا رہی تھی۔ سپاہی نے اسے بغور دیکھا اور سوچنے لگا— ’’یہ سگنی کو کیا ہو گیا۔ ہرنی کی طرح چوکڑی بھرنے والی لڑکی آج اتنی بجھی بجھی کیوں ہے۔۔۔ اس کی آواز بھی پھٹی پھٹی ہے۔ وہ ٹھیک سے گاہک کو اپنی طرف متوجہ بھی نہیں کرپا رہی ہے۔‘‘
سپاہی اس کے پاس پہنچ گیا۔ سگنی نے سپاہی کو نگاہ اٹھا کر دیکھا اور سر جھکا کر کھڑی ہو گئی۔
’’کیا بات ہے سگنی؟— آج تو اتنی اداس کیوں ہے؟‘‘
سگنی خاموش رہی۔
’’بتانا کیا بات ہے؟‘‘
سُگنی کی آنکھوں سے جھرنے پھوٹ پڑے۔ وہ سسکتے ہوئے بولی۔
’’ہمرے ماں باؤ جی سب مر گئے۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’جھونپڑیا میں آگ لگ گئی تھی۔۔۔ بہت لوگ مر گئے۔۔۔‘‘
سپاہی کو یاد آیا۔ اس نے اخبار میں پڑھا تھا کہ سیلم پور پشتہ کی جھونپڑیوں میں آگ لگ گئی تھی۔ جس میں پچاس لوگ جل کر مر گئے تھے۔ سپاہی کو سچ مچ بہت افسوس ہوا۔ وہ سگنی کو ہمدردی سے دیکھنے لگا جو مسلسل روئے جا رہی تھی۔ جیسے کئی دن کے بعد بادل گھرنے کے بعد بارش ہوئی تھی—‘
’’رو مت سگنی۔۔۔ رو مت۔۔۔ یہ سب بھگوان کی لیلا ہے‘‘— سپاہی نے اسے ڈھارس بندھائی۔
’’اب ہمرا اس دنیا میں کوئیو نہیں۔۔۔ ہم ایک دم اکیلی رہ گئی‘‘— سگنی ہچکیاں لے لے کر رو رہی تھی۔
’دکھ کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ دکھ تو بس دکھ ہے۔ دل سے آنکھوں تک دکھ ہی دکھ۔ دکھ کی وجہ سے ہی آنکھیں ساون بھادو بن جاتی ہیں۔ دل رونے لگتا ہے مگر دکھ نہیں پگھلتا لیکن نہ جانے کیا ہوا کہ سپاہی ایک دم موم کی طرح پگھل گیا۔ اس کی آنکھوں کا کوئی کنارہ ضرور نم ہورہا تھا۔ وہ کچھ دیر سوچتا رہا۔ پھر ایک بھرپور نگاہ سگنی پر ڈالی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف چل پڑا۔ سگنی نے نفرت سے سپاہی کو دیکھا۔ وہ سمجھ گئی کہ آج بھی وہ اُس ڈبے میں لے جائےگا۔ غصہ تو بہت آیا مگر اپنی زبان سے کچھ نہ کہا۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ چلتی رہی لیکن آج سپاہی اس بوسیدہ ڈبے کی طرف جانے کے بجائے اسٹیشن کے باہر آگیا۔ سگنی کو حیرت ضرور ہوئی لیکن پھر اس نے سمجھا کہ ہوسکتا ہے اب کوئی نئی جگہ لے جائے۔ اسٹیشن کے کچھ ہی فاصلے پر سپاہی کا کوارٹر تھا۔ وہ اپنے کوارٹر کے سامنے پہنچ گیا۔ دروازے پر اس نے دستک دی۔ اس کی بیوی مایا نے دروازہ کھولا۔ ایک لڑکی کے ساتھ شوہر کو دیکھ کر اسے حیرت ہوئی—
’’کون ہے یہ؟۔۔۔ کس کو ساتھ لائے ہو؟‘‘— اس نے کھرے لہجہ میں سپاہی کے کچھ کہنے سے پہلے ہی دو سوال داغ دیے۔ سپاہی خاموش رہا۔ وہ سگنی کو لے کر گھر میں داخل ہو گیا۔ مایا بھی اس کے پیچھے پیچھے آئی—
’’میں پوچھتی ہوں کون ہے یہ——؟‘‘ مایا سپاہی کے سامنے دیوار کی طرح کھڑی ہو گئی۔
’’یہ ایک یتیم اور غریب بچی ہے۔۔۔ پچھلے ہفتے سیلم پور پشتہ کی جھونپڑیوں میں جو آگ لگی تھی۔ اس میں اس کے ماں باپ جل کر مر گئے۔ اب اس کا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔۔۔ اب یہ یہیں رہے گی ہمارے پاس۔۔۔ ہماری بھی کوئی اولاد نہیں ہے۔۔۔ یہ رہےگی تو گھر آباد ہو جائےگا‘‘— سپاہی نے نہ صرف تفصیل ہی بتائی بلکہ اپنا فیصلہ بھی سنا دیا۔ مایا نے سگنی کو سر سے پیر تک غور سے دیکھا۔ کچھ دیر یونہی دیکھتی رہی۔ سوچتی رہی۔ دھیرے دھیرے اس کے چہرے پر قائم سختی دور ہوتی چلی گئی اور اس نے پھر بڑی اپنائیت سے کہا—
’’آبیٹی، میرے پاس آ۔۔۔‘‘
سگنی سپاہی کی باتیں سن کر حیرت میں پڑ گئی تھی۔ اس نے ایک نظر سپاہی کو دیکھا۔ پھر مایا کو اور مایا کے پاس آ گئی۔ مایا نے اس کے گال تھپتھپائے—
’’کتنا پیارا چہرہ ہے۔ کیا نام ہے؟‘‘—
’’سگنی!‘‘
’’نہیں آج سے تیرا نام سنگیتا رہےگا۔۔۔ میں تجھے بیٹی کی طرح پالوں گی۔۔۔ چل پہلے نہا لے‘‘— وہ سگنی کو لے کر باتھ روم کی طرف بڑھتی ہے۔ پھر رک کر سپاہی سے مخاطب ہوتی ہے— ’’سنو جی، جاؤ اس کے لیے ایک دو اچھے کپڑے خرید لاؤ۔۔۔‘‘
’’ابھی لے کر آیا!‘‘ — سپاہی کہتا ہوا تیزی سے باہر نکل گیا۔
سگنی سمجھ نہیں پاتی ہے کہ سپاہی کے اندر اچانک یہ تبدیلی کیسے آ گئی۔ اب تک میرے بدن سے کھیلنے والا مجھے اپنے گھر لے آیا اور ایک طرح سے اس نے اپنی بیٹی تسلیم کر لیا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس میں بھی اس کی کوئی مصلحت ہو کہ جب گھر پر رہوں گی تو جب چاہےگا میرا استعمال کرےگا۔ ذہنی طور پر اس نے خود کو اس کے لیے بھی تیار کر لیا تھا کہ جب اس کا مقدر ہی یہی ہے تو پھر اس سے گھبرانا کیسا—‘
وقت گزرتا جاتا ہے۔ مایا سگنی کو بالکل اپنی بیٹی کی طرح پرورش کرنے لگتی ہے۔ سپاہی بھی اس پر شفقت لٹانے لگتا ہے لیکن وہ کبھی نظر ملا کر بات نہیں کرتا جیسے وہ اس کا مجرم ہو۔
سگنی اب اور بھی حسین اور جوان نظر آنے لگی تھی۔ مایا نے اسے پہلے تو خود پڑھایا پھر ٹیوٹر رکھ کر اسے دسواں پاس کروایا۔ اب سگنی اخبار، میگزین بھی پڑھنے لگی تھی۔ ٹی۔ وی۔ پر سماچار بھی دیکھتی۔ اسے سمجھتی بھی اور مایا سے اس پر اظہار خیال بھی کرتی—‘
سگنی کو ایسا محسوس ہوتا گویا کسی نے اسے جھولے پر بٹھا کر بڑی لمبی پینگ دے دی ہو۔ اس کے چہرے سے خوشی ٹپکی پڑتی تھی مگر دل دھڑکے بھی جارہا تھا۔ دل کے اندرونی گوشے میں ایک کانٹا سا چبھتا رہتا۔ اس کی آنکھیں خوف ذدہ دروازے کو تکتی رہتیں— جب رات اس کے کمرے میں اندھیرے کے ساتھ سمٹ جاتی تو یاد دلاتی اسے ماضی کے وہ ہر ایک پل جو اس نے سپاہی کے ساتھ بوسیدہ ریل کے ڈبے میں گزارے تھے۔ وہ ان لمحوں کو یاد کرکے اداس ہو جاتی۔ اس کی سوچ بکھرنے لگتی۔ فقط اداس لمحے کا نام زندگی تو نہیں—
لمحے کبھی روشنی ہیں۔
لمحے کبھی چاندنی ہیں۔
لمحے کبھی راگنی ہیں۔
کبھی کسی پل چمکنے لگتا سورج— سگنی کی زندگی کا بھی سورج روشن ہو گیا تھا۔ اپنی تابناکی کے ساتھ۔
سپاہی کے اندر بھی ایک کانٹا تھا جو ہمیشہ اسے چبھتا رہتا۔ اس نے سگنی کو زبان سے بیٹی تو بنا لیا تھا لیکن اس کی چرھتی جوانی اور سندرتا کو دیکھ کر کبھی کبھی اس کے اندر کا سانپ پھن اٹھا کر سگنی کو ڈسنے کے لیے اکساتا مگر اسے مایا کا ڈر بھی رہتا۔ مایا سایہ کی طرح اس کے ساتھ رہتی۔ جب کچن میں کھانا بناتی اس وقت بھی اپنے ساتھ رکھتی اور اس سے باتیں کرتی رہتی۔ دیر رات تک اسے اپنے پاس بٹھاتی اور اپنے بیتے دنوں کی باتیں اسے سناتی رہتی۔ سپاہی یہ سب دیکھ کر اندر ہی اندر کڑھتا رہتا۔ اسے ماں بیٹی کا یہ پیار کھلنے لگا تھا۔ وہ ہر ممکن کوشش کرتا کہ سگنی اس کے کمرے میں بھی آئے، اس سے باتیں کرے، اس کا دل بہلائے لیکن سگنی شاید سپاہی کے پاس آنے سے بھی ڈرتی تھی، کتراتی تھی۔ اسے اس بات کا بھی ڈر تھا کہ اگر مایا کو پتہ چل گیا تو شاید اسے ہی خراب لڑکی کہہ کر گھر سے نکال دے کہ اس کے پتی پر اس نے ڈورے ڈالنے شروع کر دیے ہیں۔
اب سگنی الگ کمرے میں سوتی تھی کیونکہ اسے دیر تک پڑھنے کی عادت ہو گئی تھی۔ وہ مختلف Subject کی کتابوں میں اپنا زیادہ تر وقت گزارتی کہ ماضی کا کوئی بھی پل وہ اب اپنے ذہن کے نہاخانے میں رکھنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ اس سے فرار حاصل کرنا چاہتی تھی اور ماضی کی یادوں سے چھٹکارا پانے کا حل اس نے کتابوں میں تلاش لیا تھا—‘
آج کی رات اپنے برہنہ جسم پر سیاہ راکھ مل کر نمودار ہوئی تھی۔ ہوائیں دیوانہ وار رقص کر رہی تھیں۔ سیاہ بادل امڈے چلے آتے تھے۔ رات کے ایک بج رہے تھے۔ سپاہی کی آنکھوں سے آج نیند نے اپنا خیمہ اکھاڑ لیا تھا۔ اس کا ذہن بار بار سگنی پر جاکر مرکوز ہو جاتا۔ اسے کبھی لگتا کہ اس نے گھر میں لاکر سگنی کو غلطی کی ہے۔ اسے اسی حال میں چھوڑ دیتا تو جب چاہتا اس کا استعمال کرتا لیکن گھر میں لاکر اپنے لیے مشکل پیدا کر لی ہے۔ مایا کو پتہ چلےگا تو کیا سوچےگی۔ وہ تو اسے بالکل اپنی بیٹی ہی سمجھتی ہے۔ جہاں بھی جاتی ہے ساتھ لے کر جاتی ہے۔ ایسی حالت میں کیا وہ سگنی سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے کسی گوشے سے آواز آتی— اس میں حرج ہی کیا ہے۔ وہ تمہاری سگی بیٹی تو نہیں ہے۔ گھر میں رکھ لینے سے کوئی بیٹی تو نہیں ہوجاتی پھر سگنی کو بھی تو سب کچھ پتہ ہے۔
مختلف قسم کی کشمکش میں گھرا سپاہی اپنے کمرے سے بالآخر نکلتا ہے اور سگنی کے کمرے کی طرف چل پڑتا ہے۔ اس کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔ سگنی گہری نیند میں سوئی تھی۔ نائٹ بلب میں وہ اور بھی حسین لگ رہی تھی۔ دوپٹہ ایک طرف سرک گیا تھا اور جوانی کے نشیب و فراز سپاہی کے ضبط کے باندھ توڑے ڈال رہے تھے۔ وہ دھیرے دھیرے اس کے پلنگ پر بیٹھ جاتا ہے۔ اس کے ہاتھوں میں کنپن شروع ہو جاتی ہے اور چہرے پر پسینے کی بےشمار بوندیں لرزنے لگتی ہیں۔ اس کشمکش کے عالم میں اس کا ہاتھ سگنی کے بدن سے جا ٹکراتا ہے۔ سگنی کی آنکھ اچانک کھل جاتی ہے اور وہ چونک کر اٹھ بیٹھتی ہے۔ سپاہی کو اپنے قریب بیٹھا دیکھ کر اس کی آنکھوں میں نفرت کے شعلے بھبھک اٹھتے ہیں۔ وہ اسے نفرت سے دیکھتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ ڈوپٹہ دور پھینک دیتی ہے اور شمیض اتارنے کے لیے ہاتھ بڑھاتی ہے... سپاہی کے اندر جیسے ایک بجلی سی کوندتی ہے۔ وہ لپک کر سگنی کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے۔ اس کا دوپٹہ اٹھا کر اسے قاعدے سے اوڑھاتا ہے۔ اس کا ایک پلو سر پر ڈالتا ہے اور بلکتے ہوئے اس کی پیشانی پر ایک شفیق بوسہ ثبت کرتا ہے اور سر جھکائے دھیرے دھیرے کمرہ سے نکل جاتا ہے۔
سگنی کے اندر بھڑکتے ہوئے شعلے اچانک سرد ہوجاتے ہیں اور اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج سچ مچ اس کا کھویا ہوا باپ اس کو مل گیا—!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.