جب پو پھٹتی اور پرندے چہچہاتے ہوئے اپنے اپنے گھونسلوں سے نکلنے لگتے، تو وہ دونوں بھی اپنے اپنے گھروں سے نکل پڑتے۔ بوڑھا لنگی گنجی پہنے، کندھے سے گمچھا لٹکائے، ایک ہاتھ میں کھرپی اور دوسرے میں داؤ اٹھائے! بڑھیا بدن پر سفید ساڑی لپیٹے، ایک ہاتھ میں بکری کا پگہا، دوسرے میں رسی کا گچھا تھامے۔ دونوں ننگے پاؤ ں، کچی گلیوں اور سرسبز پگڈندیوں سے گزر کر جھیل کنارے پہنچتے۔ بوڑھا جھیل کی دائیں جانب سے لپکنا شروع کرتا اور بڑھیا جھیل کی بائیں جانب سے اور جب دونوں ایک دوسرے کے روبرو آ جاتے تو اپنی اپنی رفتار کم کر دیتے۔ ایک دوسرے کو تکتے۔ بوڑھا ہنس دیتا، بڑھیا مسکرا دیتی اور پھر دونوں اپنی اپنی زمین کو چلے جاتے۔ دونوں کی زمینیں آس پاس تھیں۔ بوڑھے کی زمین پر آم، جامن، ناریل، کٹھل اور تاڑ کے کچھ پیڑ تھے۔ بڑھیا کی زمین پر کیلے، پپیتے، سپاری اور امرود کے کئی درخت تھے۔ بوڑھا اپنی زمین میں آکر کھرپی سے مٹی ڈھیلی کرتا، گھاس اور خودرو پودے اکھاڑتا۔ داؤ سے پیلے پتے اور خشک ٹہنیاں کاٹتا چھانٹتا۔
بڑھیا اپنی زمین میں آتی، بکری کی کھونٹ زمین میں گاڑ کر کنکر پتھر چنتی۔ ٹوٹی ہوئی شاخوں اور پتوں کو بٹور کر گٹھر باندھتی۔
سو آج بھی وہ دونوں یہی کر رہے تھے کہ بڑھیا نے دیکھا، بوڑھے کی سانسیں تیز ہو گئی ہیں۔ کھرپی، داؤ اس کے ہاتھوں سے چھوٹ گئے ہیں اور وہ دانتوں سے ہونٹ دباکر، چھاتی پکڑے آہستہ آہستہ زمین پر پسرتا جا رہا ہے، تو وہ بھاگی ہوئی آئی۔ اسے سہارا دے کر درخت کے چھاؤں تلے بٹھائی۔ آنچل سے ہوا دیتے ہوئے پوچھی، ”کیا ہوا، میاں؟ طبیعت تو ٹھیک ہے؟“
بوڑھے نے لڑکھڑاتے ہوئے لہجے میں کہا، ”نہیں، کچھ نہیں، بس یوں ہی۔۔۔!“
”کچھ نہیں ہوا! تو پھر اس طرح چھاتی پکڑ کر کیوں پسر گئے؟ پسینے پسینے ہو رہے ہو!“ بڑھیا نے ڈرمائی انداز میں پوچھا۔
”بس ذرا سر چکرا گیا تھا! شاید پریشر ہائی ہو گیا ہے!“ بوڑھے نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
اتنا سننا تھا کہ بڑھیا کھلکھلا اٹھی، بولی، ”کیا کہا پریشر ہائی ہو گیا ہے! کبھی کبھی میرے سنگ بھی ایساہی ہوتا ہے، سر چکرانے لگتا ہے، پاؤں لڑکھڑانے لگتے ہیں! مگر ڈاکٹر کہتا ہے، کہ میرا پریشر لو ہو گیا ہے! عجیب بات ہے، بڑھنے پر بھی سر چکراتا ہے اور گھٹنے پر بھی!“
اور وہ دونوں ٹھٹھا مار کر ہنسنے لگے۔ بکری اکیلی کھڑی ممیاتی رہی!
اور ایک رات جب موسلادھار بارش ہو رہی تھی، زوروں کی بجلی کڑک رہی تھی، اونچے درخت اور گھنے پیڑ ہوا کے جھونکوں سے نبرد آزمائی کر رہے تھے، سائیں سائیں کی آواز سے خوف و ہراس کا ماحول بن گیا تھا کہ اچانک کنڈی کھڑکھڑانے کی آواز آئی۔ بوڑھا بستر میں سمائے کچھ پڑھ رہا تھا۔ حیرت میں پڑ گیا۔ بدبداتا ہوا ٹھا، ”کون ہو سکتا ہے، اس وقت! اس آندھی، بارش میں!“
جب اس نے دروازہ کھولا تو ہکابکا رہ گیا۔ سامنے بڑھیا بکری کا پگہا تھامے کھڑی تھی، سمٹی سمٹائی، نظریں جھکائے، تر بتر!
بوڑھا کچھ دیر یوں ہی ہکابکا کھڑا رہا۔ بڑھیا بھی سمٹی سمٹائی کھڑی رہی اور جب بوڑھے کے حواس درست ہوئے تو اس نے بڑھیا سے اندر آنے کو کہا۔
بڑھیا اندر آئی۔ بوڑھے نے النے سے گمچھا کھینچا۔ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے پوچھا، ”تم، اس وقت؟“
یہ سنتے ہی بڑھیا کی گرفت بکری کے پگہے پر ڈھلی پڑ گئی۔ بکری اسارے کے ایک کونے میں دبک گئی۔
بڑھیا سے کوئی جواب نہ بن پایا۔ وہ سینے سے گمچھا چمٹائے بت بنی کھڑی رہی اور جب بوڑھے نے سوال دہرایا تو بڑھیا کپکپاتے لہجے میں بولی، ”ڈڈڈر لگتا ہے میاں! بڑا ڈر لگتا ہے!“
بوڑھے نے غور کیا بڑھیا کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ وہ آگے بڑھا۔ دروازے کے باہر دائیں بائیں جھانکتے ہوئے لاپراوہی سے پوچھا، ”ڈر! کس کا ڈر؟“ باہر بارش اور بھی تیز ہو گئی تھی۔ تند ہوا کا جھونکا اٹھنے لگا تھا۔
بڑھیا کے ہونٹ پھر لپلپائے اور ایک لجلجی سی آواز ابھری، ”موت کا!“
بجلی کے ایک کڑکے نے بوڑھے کا دل دہلا دیا۔ بوڑھا لرزہ براندام ہو گیا۔ ماتھے پر پسینے کی چھوٹی چھوٹی بوندیں ابھر آئیں۔ اس بڑھیا کے الفاظ دہرائے، ”موت کا ڈر!“ اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے بڑھیا کو تکنے لگا۔ بڑھیا بھیگے آنچل کا گولا بنا کر آنسو پونچھنے لگی۔ منہ پررکھ کر سسکیاں دابنے لگی۔ ایک بار پھر زور سے بجلی کوند گئی! دونوں کے دل پھر دہل گئے اور پھر یکایک بوڑھے کے ہونٹ ہلے۔ ایک سوال ابھرا، ”اچھا، بی بی! ہم ایک سنگ نہیں جی سکتے؟“
یہ سننا تھا کہ بڑھیا کی جیسے پوبارہ ہو گئی! اس کی تمام بے اطمینانی جاتی رہی۔
اور تب انھوں نے ایک وعدہ کیا، ”ہم کبھی مرنے کی بات نہیں کریں گے۔ بس جیئں گے۔ جب تک جیتے رہیں گے!“
اور اب سے وہ دونوں ساتھ جینے لگے تھے!
(دو)
اور اب جب پو پھٹتی اور پرندے چہچہاتے ہوئے اپنے اپنے گھونسلوں سے نکلنے لگتے، تو وہ دونوں گھر سے نکل پڑتے۔ بوڑھا لنگی قمیض پہنے، کندھے سے گمچھا لٹکائے۔ ایک ہاتھ میں کھرپی اور داؤ اٹھائے۔ بڑھیا کرتی اور رنگین ساڑی زیب تن کیے، ہاتھ میں بکری کا پگہا اور رسی کا گچھا لیے۔ دونوں چپلیں پہنے۔ کچی گلیوں اور پکی سڑکوں سے گزر کر جھیل کنارے پہنچتے۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے جھیل کی دائیں جانب سے لپکنا شروع کرتے۔ اپنی اپنی زمین میں پہنچ کر اپنے اپنے کام میں جٹ جاتے۔ بوڑھا کھرپی سے مٹی ڈھیلی کرتا، گھاس اور خودرو پودے اکھاڑتا۔ داؤ سے پیلے پتے اور خشک ٹہنیاں کاٹتا چھانٹتا۔ بڑھیا بکری کی کھونٹ زمین میں گاڑ دیتی، کنکرپتھر چنتی۔ ٹوٹی ہوئی شاخوں اور پتوں کو بٹور کر گٹھر باندھتی۔
وہ دونوں اس روز بھی یہی کر رہے تھے کہ بوڑھے کا فون بج اٹھا۔
کان سے فون لگاتے ہی اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئے۔
نیو یارک سے بیٹے کا فون تھا۔۔۔!
بوڑھا کبھی گاؤں کے پاٹھ شالے میں معلم تھا۔ آمدنی قلیل تھی، لیکن اس نے بیٹے کو کبھی اس کا احساس ہونے نہیں دیا۔ بیٹا ذہین تھا۔ ڈاکٹری پاس کرکے امریکہ چلا گیا اور پھر وہیں کا ہو رہا۔ کچھ دنوں بعد گاؤں لوٹا تو یہ بھانڈا پھوٹا کہ اس نے ایک پاکستانی نژاد عورت سے شادی کر لی ہے! ماں باپ کو دکھ تو ہوا تھا لیکن انھوں اس کا اظہار کرنا بےسود سمجھا۔ الٹے ڈانٹ پلائی کہ بہو کو سنگ کیوں نہیں لایا۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ اگلے برس وہ اسے ساتھ لائےگا۔ لیکن واپس جانے کے بعد تو وہ جیسے لاپتہ ہو گیا۔ باپ نے دل پر پتھر رکھ لیا، لیکن ماں بیٹے کی جدائی برداشت نہ کر سکی۔ بستر سے ایسی لگی کہ پھرنہ اٹھ سکی۔ وہ ماں کی وفات پر آیا تھا، اپنی بیوی کو ساتھ لایا تھا! مگر چہارم کے بعد ہی لوٹ گیا۔
بیوی کی موت کے بعد بوڑھے کو تنہائی ڈسنے لگی تھی۔ دل میں ایک ہی سوال ابھرتا تھا، ”کیا اب وہ کبھی نہیں آئےگا، میری موت پر بھی نہیں؟“
اس روز بھی جب وہ زرد پتے اور خشک ٹہنیاں کاٹ چھانٹ رہا تھا تو اس کے دل میں وہی سوال ابھر رہا تھا کہ اچانک موبائیل بج اٹھا! اس نے حیرت سے موبائیل کی اسکرین دیکھی تو خوشی سے من جھوم اٹھا۔ مگر دوسرے ہی پل مرجھا گیا۔ دل میں سوال ابھرا، ”اتنے دنوں بعد بیٹے کومیری یاد آئی! کیوں آئی؟“
بوڑھے کا یہ سوال ابے معنی نہ تھا۔ گلوبلائزیشن کا دور دورہ تھا۔ دنیا تیزی سے بدل رہی تھی۔ بیٹا اس بات سے بخوبی واقف تھا کہ ہندستان دنیا کے نقشے پر ایک بڑی طاقت بن کر ابھر رہا ہے۔ ایسی طاقت کہ بڑے بڑے ممالک بھی پیچھے چھوٹ جائیں گے اور یہ کہ اس کے آبائی گاؤں کے قریب ایک نیا ٹاؤن شپ بن رہا ہے۔ وہاں اس کی پشتینی زمینیں تھیں جہاں اس نے ایک نرسنگ ہوم بنانے کا منصوبہ تیار کیا۔
(تین)
اور اب جب پو پھٹتی اور پرندے چہچہاتے ہوئے اپنے اپنے گھونسلوں سے نکلنے لگتے، تو وہ دونوں گھر سے نکل پڑتے۔ بوڑھا لنگی قمیض پہنے، کندھے سے گمچھا لٹکائے۔ ایک ہاتھ میں کھرپی اٹھائے۔ بڑھیا انگیا، کرتی اور رنگین ساڑی زیبِ تن کیے۔ ایک ہاتھ میں داؤ اور رسی کا گچھا لیے۔ دونوں چپلیں پہنے۔ پختہ راستوں اورپکی سڑکوں سے گزر کر جھیل کنارے پہنچتے۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے جھیل کی دائیں جانب سے لپکنا شروع کرتے۔ اپنی اپنی زمین میں پہنچ کر اپنے اپنے کام میں جٹ جاتے۔ لیکن کسی کا اب کام میں دل نہیں لگتا۔ بوڑھا بیٹے بہو اور پوتے پوتی سے ملنے کا خواب دیکھنے لگتا۔ بڑھیا تنہائی کے کالے بادل چھٹ جانے کے خیال سے مسرور ہونے لگتی اور پھر وہ دونوں اپنے اپنے کام چھوڑ کرایک دوسرے کے پاس آجاتے اور ہنس ہنس کر گفتگو کرتے۔ سو آج بھی کر رہے تھے کہ بڑھیا نے تشویش ظاہر کی، ”اچھا، اگر وہ میرے بارے میں پوچھے گا، تو کیا کہوگے؟“
بوڑھے نے بے دریغ کہا، ”وہ پوچھےگا؟ کچھ نہیں پوچھےگا۔ جس دیش میں وہ رہتا ہے وہاں یہ بڑی بات نہیں، نہ یہ بری بات سمجھی جاتی ہے۔ وہاں تو بہت سے لوگ ہیں جو شادی بیاہ نہیں کرتے اور بچے بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔“
بڑھیا مسکراکر بولی۔ اس کی مسکراہٹ میں حیرت کا کچھ شائبہ بھی تھا، ”کہیں تمہارے بیٹے نے بھی۔۔۔“
بوڑھے نے بات کا رخ موڑتے ہوئے کہا، ”جانتی ہو وہ پورے آٹھ سال بعد آ رہا ہے۔ امریکہ میں بہت بڑا ڈاکٹر ہے! بڑا مصروف رہتا ہے۔ دم لینے کی فرصت نہیں ملتی! اور ہاں! ایک پوتی ہے، میری۔ جب وہ پچھلے بار آیا تھا تو اتنی سی تھی، ایک سال کی۔ بڑی پیاری، نیلی نیلی آنکھیں، سنہرے بال، گوری چٹی، ایک دم میم! اور ایک پوتا بھی ہے۔ میں نے دیکھا نہیں ہے، مگر۔۔۔!“
”مگر۔۔۔ وہ چھ سات سال کا ہو گیا ہوگا!“ بڑھیا ڈرامائی انداز میں بولی، ”ارے، بابا، یہ سنتے سنتے تو میرے کان پک گئے ہیں۔ بس دعا کرتی ہوں کہ وہ سلامتی سے پہنچ جائیں۔“
اور وہ سب سلامتی سے دم دم ائیرپورٹ پر لینڈ کر گئے۔ جب ان کی ٹیکسی قاضی نذرالاسلام ایوینو سے گزر رہی تھی، تو بیٹے نے کھڑکی سے باہر دیکھا اور دیکھتا رہ گیا۔ وہ جب پچھلی بار آیا تھا تو سڑک کے دونوں جانب سنسان جنگل، جھاڑیاں، پوکھر اور دلدلیں تھیں، اب وہاں فلک بوس عمارتوں کا سلسلہ قائم ہو گیا تھا۔ رستوراں، ہوٹلس، اسکوٹروں اورموٹر گاڑیوں کے شو رومس اور شاپنگ مالس بن گئے تھے۔ وہ دنگ رہ گیا۔ رگھو ناتھ پور کے پاس شاندار فلائی اور دیکھا تو تعجب میں پڑ گیا۔ گاڑی جب بائیں طرف مڑی تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔ دور دور تک درختوں کا نام و نشاں نہ تھا۔ تا حد نظر زمیں ہی زمیں تھی۔ بڑے بڑے گریڈر مٹی ہموار کر رہے تھے۔
وہ زیرِ لب مسکرایا۔ اسے اپنا خواب شرمندۂ تعبیر ہوتا نظر آیا۔ جب گاڑی گاؤں کے پاس پہنچی تو اسے مزید خوشی ہوئی کہ پوکھر تالاب ہموار ہو گئے تھے۔ پگڈنڈیاں پکی سڑکوں میں تبدیل ہو گئی تھیں۔ مٹی، پھوس اور کھپریل کے مکانات گنتی کے بچے تھے۔
اور جب ٹیکسی دروازے پر آلگی تو بوڑھا لپکتا ہوا باہر آیا۔ لڑکے بالے کو دیکھا تو پھولے نہ سمایا۔ بیٹے کو سینے سے لگایا۔ بہو کو دعائیں دیں۔ پوتے پوتی کو تھرتھراتی بانہوں میں جکڑے پیار کرنے لگا۔ بڑھیا ایک کونے میں کھڑی یہ مسرت آمیز منظر دیکھ رہی تھی۔ آنچل سے خوشی کے آنسو پونچھتی ہوئی پھر دھیرے دھیرے رسوئی کی طرف چلی گئی۔
دن کے کھانے سے جب سب فارغ ہو چکے اور جب بڑھیا پھر سے رسوئی میں چلی گئی تو بیٹے نے پوچھا، ”ابّا، یہ عورت کون ہے؟“
بوڑھے نے کہا، ”دوست ہے میری۔“
یہ سن کر بیٹے بہو کی بھوئیں تن گئیں۔ وہ ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھنے لگے۔
اور تبھی بوڑھے نے گفتگو کا رخ موڑا۔ بچوں سے مخاطب ہوا، ”ارے دادا، تجھے ابھی تک جھال لگ رہی ہے؟“ پھر مٹی کا بھانڈا پوتے کی طرف بڑھا تے ہوئے کہا، ”لے رس گلے کھا! تیرے ملک میں ملتے ہیں ایسے سفید نرم ملائم رس گلے!“
پوتا لکنت آمیز لہجے میں بولا، ”ہمارا امریکہ سب، ملتا! رس گولا بھی ملتا!“
پوتی نے کہا، ”یو، اسٹوپیڈ، رس گولا، نو، رس گلا!“
اس کے ساتھ ہی قہقہوں سے سارا گھر گونج اٹھا۔
(چار)
اور اب جب پو پھٹتی اور پرندے چہچہاتے ہوئے اپنے اپنے گھونسلوں سے نکلنے لگتے، تو وہ دونوں بھی گھر سے نکل پڑتے۔ بوڑھا پاجامہ قمیض پہنے، کندھے پر کشمیری شال لٹکائے۔ بائیں ہاتھ میں پوتی کا ہاتھ تھامے۔ بڑھیا ریشمی جمپر شلوار زیبِ تن کیے، دائیں ہاتھ سے پوتے کی کلائی پکڑے۔ دونوں کے دونوں پیروں میں جوتا موزہ ڈالے۔ پختہ راستوں اور پکی سڑکوں سے گزر کر جھیل کنارے پہنچتے۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر جھیل کی دائیں جانب سے لپکنا شروع کرتے۔ اپنی اپنی زمین میں پہنچ کر اپنے اپنے کام میں جٹ جاتے۔
پوتے پوتی اچھل اچھل کر درخت سے کبھی پھل توڑتے، کبھی پتے توڑتے، کبھی ڈالیاں پکڑ کر جھولا جھلتے۔ کبھی دوڑ کر بوڑھے کے پاس آتے اور اس کی پیٹھ پر لد جاتے۔ کبھی بھاگ کر بڑھیا کے پاس جاتے اور اس کی چھاتی سے لگ جاتے۔ سچ پوچھئے تو اب وہ دونوں یہاں کام کرنے نہیں آتے تھے بچوں کے ساتھ کھیلنے آتے تھے۔ سو وہ کھیل رہے تھے۔
اور اس روز جب بڑھیا ڈیوڑھی میں بیٹھی سبزیاں بنا رہی تھی اور بہو اس کے پاس بیٹھی ساگ کے ڈنٹھل توڑ رہی تھی؛ تو بیٹا باپ کے کمرے میں بیٹھا اپنا مدعا کہہ رہا تھا، ”ابا، میں یہاں ایک نرسنگ ہوم کھولنا چاہتا ہوں۔ آپ کی رائے۔۔۔!“
”میری رائے!“ باپ نے چونکتے ہوئے کہا، ”میری رائے کی کیا ضرورت ہے، تمہیں جو اچھا لگتا ہے کرو!“
”مگر ابا، اس کے لیے زمین درکار ہے!“ بیٹے کی آواز میں ہلکی سی لرزش تھی۔
”زمین، ہاں ہاں ہے نا، زمین!“ باپ کے لہجے میں اداسی جھلکنے لگی، ”مگر صرف تیرہ کٹھے ہی بچی ہے۔ سڑک کے اس پار والی ساری زمینیں ایکوئر ہو چکی ہیں۔“
”لیکن ابا اسے رجسٹری کروانی ہوگی۔“ بیٹے نے نظریں جھکا کر کہا، ”میرے نام پر، تبھی میرا یہ پروجیکٹ پاس ہو سکےگا۔ گیفٹ ڈیڈ بنانے سے اسٹامپ خرچ کم آئےگا“
”تو اس میں پریشانی کیا ہے، بنوالو ایک گیفٹ ڈیڈ! چلو کل رجسٹری آفس چلتے ہیں۔“ باپ نے بے پروائی سے کہا۔
اور دوسرے دن زمین کی رجسٹری ہو گئی۔ پر مسئلہ اب بھی پورا حل نہیں ہوا تھا۔ نرسنگ ہوم کے پروجیکٹ کے لیے کم سے کم ایک بیگھ زمین درکار تھی۔ یعنی چھ سات کٹھہ زمین کم پڑ رہی تھی۔ ان کی اپنی زمین کے شمال میں سڑک اور مغرب میں جھیل تھی۔ بیٹے نے پوچھا، ”ابا، مشرق والی زمین کس کی ہے؟“
باپ خاموش رہا۔ آنگن میں دونوں بچے کھیل رہے تھے۔ پوتی اچھل اچھل کر پیڑ سے امرود توڑنے کی کوشش کر رہی تھی۔ پوتا بکری کا کان پکڑ کرکھینچ رہا تھا۔ بکری بےچاری ممیاتی ہوئی ادھر ادھر بھاگ رہی تھی۔ بوڑھا چلاتا ہوا باہر آیا۔ پوتے کے سامنے اکڑو بیٹھ کر سر میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بولا، ”دادا، کیا کر رہے ہو۔ دیکھو، اس کی سینگ کتنی نوکیلی ہے۔“ اور پھر پوتے کے پیٹ میں انگلی ٹیک کر کہا، ”اس میں بھونک دے گی، بڑی شریر ہے، سمجھے۔“
پوتی اب بھی اچھل رہی تھی۔ بوڑھا ہنسا۔ اسے مخاطب کر کے بولا، ”اور یہ دیکھو! میم صاحب کو! امریکہ میں رہتی ہے اور ایک امرود نہیں توڑ سکتی!“
اس کے بعد بوڑھے نے چار امرود توڑے۔ ایک پوتی کو تھما کر اس کے گال تھپتھپائے۔ دوسرا پوتے کو دے کر پیشانی پر بوسہ لیا۔ ڈیوڑھی میں آکر ایک امرود بہو کو دیا اور مسکراتے ہوئے بڑھیا سے کہا، ”تیرے تو دانت ہلتے ہیں!“ یہ کہہ کر ہنستا ہوا وہ اپنے کمرے میں چلا آیا۔ امرود بیٹے کے سامنے رکھ کر شفقت سے کہا، ”لے، بیٹا کھا!“
بیٹا کرکٹ بال کی طرح انگلیوں کے درمیان امرود نچانے لگا۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنا سوال دہراتا، بوڑھا کمرے سے کھسک لیا۔
دوسرے دن جب سب ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے، تو بیٹے نے پھر زمین کی بات چھیڑی، ”ابا، آپ نے بتایا نہیں مشرق والی زمین کس کی ہے؟“ بوڑھے نے برتن اور منہ کے درمیان نوالا معلق رکھ کر بیٹے کو دیکھا۔
اس کی طبیعت الجھنے لگی۔ بہو اور بڑھیا ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
بیٹے کا لہجہ بوجھل ہو گیا۔ بولا، ”ابّا، اگر وہ زمین نہیں ملی تو نرسنگ ہوم بنانے کا میرا خواب ادھورا رہ جائےگا۔“
باپ نظریں جھکائے بیٹھا تھا۔ بڑھیا، اب، اسے تکنے لگی تھی۔
تھوڑی دیر کے لیے فضا میں خاموشی چھائی رہی۔ پھر بیٹے جھلا کر بولا، ”میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے! اس میں اس طرح چپی سادھ لینے والی کون سی بات ہے؟ زمین جس کی ہے، میں اس سے خریدنا چاہتا ہوں۔ مفت کی تھوڑے مانگ رہا ہوں!
بڑھیا ہنوز بوڑھے کو تاک رہی تھی۔ بوڑھے کا چہرہ پیلا پڑتا جا رہا تھا۔ پیشانی پر پسینے کی بوندیں جمنے لگی تھیں۔ بوڑھے کی حالت دیکھ کربڑھیا گھبرا گئی۔ اٹھی اور ہانپتی کانپتی اپنے کمرے میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد کاغذ کا ایک پلندہ لاکر بوڑھے کے سامنے رکھا اور بولی، ”یہ ہیں اس زمین کے کاغذات! اب یہ میرے کس کام کی! نرسنگ ہوم بنےگا۔ بچے ہمارے سنگ رہیں گے۔ اس سے زیادہ ہمیں اور کیا چاہئے؟“
اور دوسرے دن مشرق والی زمین کی بھی رجسٹری بیٹے کے نام ہو گئی۔
تمام پیڑ پودے کاٹ دیئے گئے۔ چاروں طرف اونچی دیوار چن دی گئی۔ لوہے کا پھاٹک لگا کر ایک نوٹس بورڈ ٹھونک دیا گیا،
No Admission
Site for Nursing Home
اور دوسرے ہفتے بیٹا بیوی بچوں سمیت امریکہ لوٹ گیا۔ جاتے جاتے کہہ گیا کہ جلد واپس آئےگا اور نرسنگ ہوم کی بنیاد رکھےگا۔
کچھ دنوں تک تو بہو اور بچوں کے فون آتے رہے۔ دو ایک مرتبہ بیٹے سے بھی بات ہوئی مگر دھیرے دھیرے سلسلہ منقطع ہوتا گیا۔
(پانچ)
اور اب جب پو پھٹتی اور پرندے چہچہاتے ہوئے اپنے اپنے گھونسلوں سے نکلنے لگتے، تو وہ دونوں بھی گھر سے نکل پڑتے۔ بوڑھا پاجامہ قمیض پہنے، کندھے پر کشمیری شال لٹکائے۔ ایک ہاتھ میں واکنگ اسٹیک لیے۔ بڑھیا ریشمی جمپر شلوار زیب تن کیے، دائیں ہاتھ کی شہادت انگلی میں پھاٹک کی کنجیاں نچاتے ہوئے۔ دونوں کے دونوں پیروں میں موزہ جوتا ڈالے۔ پختہ راستوں اور پکی سڑکوں سے گزر کر جھیل کنارے پہنچتے۔ باؤنڈری وال پکڑکر تھوڑا دم لیتے۔ پھر ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر جھیل کی دائیں جانب سے لپکنا شروع کرتے۔ اپنی زمین کے پاس پہنچ کر پھاٹک کا تالا کھولتے اور چھاتی پھلائے زمین کا کئی چکر لگاتے۔ سو آج بھی لگا رہے تھے کہ اچانک بوڑھے کو محسوس ہوا جیسے کوئی کہہ رہا ہے، ”اب تو یہاں کیوں آتا ہے؟ یہ زمین تیری نہیں!“
بوڑھا گمبھیر ہو گیا۔ چلتے چلتے رک گیا۔ بڑھیا کا ہاتھ پکڑ کر بولا، ”چلو، گھر چلتے ہیں! ہمیں اب یہاں نہیں آنا چاہئے۔“
بڑھیا سمجھ گئی کہ بوڑھا بچوں کی جدائی سے بوکھلا گیا ہے۔ اس کی انا اس پر حاوی ہو گئی ہے۔ مگر اس نے کچھ کہا نہیں۔ چپ چاپ بوڑھے کے ساتھ چلنے لگی۔
اور جب بوڑھا پھاٹک کا تالا لگا رہا تھا، تو بار بار حقارت سے نوٹس بورڈ دیکھ رہا تھا، ”No Admission، کے الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔
ادھر آئے دن زمین کو لےکر تنازعہ کھڑا ہونے لگا تھا۔ جلسے، جلوس، چکہ جام، ریلی، مہاریلی، ہڑتال، بند، توڑ پھوڑ!
”کسان کی زمین واپس کرو! بھومی بچاؤ، دیش بچاؤ!“ کے نعرے لگنے لگے۔
غرض یہ کہ حالت دن بدن بد سے بدتر ہوتی گئی۔ بڑے بڑے صنعت کار پس و پیش میں پڑ گئے۔ بعض نے اپنے پروجیکٹ رد کریئے۔ بعض نے رد کرنے کا من بنا لیا۔
کئی سال گزر چکے ہیں۔ نیو ٹاؤن شپ پروجیکٹ ہنوز تعطل کا شکار ہے۔
ادھر امریکہ میں خاموش بیٹھا تماشہ دیکھ رہا ہے۔ اِدھر بوڑھا باپ مجبور نراس فون بجنے کے انتظار میں گھل رہا ہے۔
(چھ)
اب بھی پو پھٹتی ہے اور پرندے چہچہاتے ہوئے اپنے اپنے گھونسلوں سے نکل پڑتے ہیں، مگر وہ دونوں گھر سے نہیں نکلتے۔ بوڑھا پاجامہ قمیض پہنتا ہے، نہ کندھے سے کشمیری شال لٹکاتا ہے۔ واکنگ اسٹیک بھی نہیں اٹھاتا۔ کھرپی اور داؤ تو پہلے ہی زنگ آلود ہو گئے تھے۔ اسارے کے ایک کونے میں پڑے ہوئے ہیں۔ بڑھیا بھی رنگین ساڑی، انگیا، کرتی نہیں پہنتی، نہ ریشمی جمپر شلوار زیب تن کرتی ہے۔ پھاٹک کی کنجیوں کو ہاتھ نہیں لگاتی۔ بکری مر گئی۔ اب کسی کو جوتا موزہ اور نہ چپل پہننے کی حاجت پیش آتی ہے۔ جھیل کی دیوار پکڑ کر اب کوئی دم نہیں لیتا۔ دائیں جانب سے کوئی لپکتا ہے اور نہ کوئی پھاٹک کا تالا کھولتا ہے!
بڑھیا روزانہ شام کو آنگن میں چارپائی بچھاتی ہے۔ سہارا دے کر بوڑھے کو بٹھاتی ہے۔ بوڑھا بڑھیا کا ہاتھ پکڑ کر ہانپتے ہوئے کہتا ہے، ”میرے سنگ۔۔ رہنے سے تجھے۔۔۔ کیا ملا۔۔۔؟ الٹے تیری زمین بھی۔۔ چلی گئی۔۔ اور میرے بعد۔۔ تو پھر سے۔۔ اکیلی ہو جائےگی۔۔۔“
بڑھیا انگلی دکھا کر ڈپٹتی ہے، ”پھر وہی بات! بھول گئے، ہم نے وعدہ کیا تھا۔ ہم کبھی مرنے کی بات نہیں کریں گے۔ بس جیئں گے۔ جب تک جیتے رہیں گے!“
بوڑھا خاموش ہو جاتا ہے۔ بڑھیا کو کچھ دیر ٹکٹکی باندھے دیکھتا ہے اور پھر رونی صورت بناکر وہی بات دہراتا ہے، ”میرے بعد۔۔۔ تو پھر سے۔۔۔ اکیلی ہو جائےگی۔۔۔“
بڑھیا کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ سسکیاں دابے کہتی ہے، ”من کیوں چھوٹا کرتے ہو! وہ آئےگا! ضرور آئےگا!“
اور بڑھیا اس کا ہاتھ تھام لیتی ہے۔ بوڑھا بھی بڑھیا کی ہتھیلی مٹھیوں میں جکڑ لیتا ہے اور پھر دونوں افق کی جانب تاکنے لگتے ہیں۔ دھندلائی ہوئی نظروں سے سورج ڈوبنے کا منظر دیکھتے رہتے ہیں!
سو آج بھی دیکھ رہے ہیں!
(ایوانِ اردو، دہلی، مارچ ٢٠٠٩ء)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.