Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دوسرا کفن

شفق

دوسرا کفن

شفق

MORE BYشفق

    کہانی کی کہانی

    ’’یہ کہانی منشی پریم چند کی کہانی 'کفن' کی آگے کی کہانی کو بیان کرتی ہے۔ منشی پریم چند اپنی کہانی کو گھیسو اور مادھو کے نشہ میں دھت ہو کر شراب خانے کے سامنے گر پڑنے پر ختم کرتے ہیں۔ بس، یہ کہانی وہیں سے شروع ہوتی ہے اور گھیسو اور مادھو کے گاؤں پہنچنے تک کی داستان بیان کرتی ہے۔‘‘

    صبح گھسیو کی آنکھیں کھلیں تو شراب خانہ ویران پڑا تھا۔

    سورج نکلے دیر ہو گئی تھی دیوار کا اوپری حصہ دھوپ میں نہانے لگا تھا، ادھر ادھر جوٹھے دونوں پر مکھیاں بھنک رہی تھیں، شراب کے مٹی کے پیالے اوندھے سیدھے پڑے تھے۔ شراب بیچنے والا اپنی دکان بڑھا چکا تھا اور شراب خانے کی فضاء پر کسلمندی چھائی ہوئی تھی۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی تو بدن کا جوڑ جوڑ دکھتا محسوس ہوا، رات کا خمار ابھی باقی تھا۔ بھرے پیٹ میں ایسی ٹوٹ کر نیند آتی ہے کہ دنیا کی خبر نہیں رہتی۔

    دنیا کا خیال آتے ہی وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا، رات جس کتے کو انہوں نے پوریاں کھلائی تھیں وہ ان دونوں کے بیچ میں گھس کر سورہا تھا۔

    گھسیو نے در در کر کے ایک لات ماری تو کتے نے پہلے اسے نیم وا آنکھوں سے دیکھا پھر دوسری لات اٹھتے دیکھ کر کاہلی سے دم ہلانے لگا، رات کی دعوت نے اسے ان کا ممنون بنا دیا تھا۔

    ’’اے مادھو اٹھ۔۔۔‘‘ اس نے مادھو کا شانہ ہلایا۔ ’’صبح ہو گئی رے۔‘‘

    ’’اونہہ ہونے دو۔۔۔‘‘ مادھو نے کسمسا کر شانہ چھڑانا چاہا تو گھسیو نے اور زور سے ہلایا، ’’صبح ہو گئی۔‘‘

    ’’تو کون سی نئی بات ہوئی، ابھی مجھے سونے دو۔‘‘

    ’’جلدی سے اٹھ جا، اگر گاؤں والوں نے دیکھ لیا تو بہت جوتے پڑیں گے، یاد ہے ہم کا ہے کو بازار آئے تھے؟‘‘

    مادھو کا ہاتھ جیسے بجلی کے ننگے تار سے چھو گیا، وہ اچھل کر بیٹھ گیا، کچھ دیر دونوں ہاتھوں سے سرتھامے خمار سے لڑتا رہا پھر کھڑا ہو گیا، ’’اب کیا ہوگا؟‘‘

    ’’میں نے رات ہی کہہ دیا تھا کہ بدھیا کی طرف سے نشچنت رہ، اسے بڑھیا کفن ملے گا مگر گاؤں والے۔۔۔‘‘

    جھاڑو لگانے والا کوڑا سمیٹتا ہوا ان کی طرف بڑھا، گرداڑ نے لگی تو دونوں شراب خانے سے باہر نکل آئے۔ کتا بھی ان کے پیچھے باہر نکلا۔ سورج گز بھر اونچا ہو گیا تھا، مگر دھوپ میں تیزی نہیں تھی۔ بازار بھی بند تھا اکا دکا دکانیں کھلنے لگی تھیں۔ وہ دونوں فکر کے اندھیرے میں گم دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہے تھے، اب وہ گاؤں کیسے جائیں گے؟ گاؤں والوں نے انتظار کیا ہوگا، ہم شام کے نکلے صبح کو خالی ہاتھ جائیں گے تو؟ بدھیا کو مرے دو رات ایک دن گزر گیا، لاش خراب ہو گئی ہوگی۔

    مادھو کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر گھسیو نے سمجھایا۔ اتنا دکھی ہونے سے کیا فائدہ، مرنے والا کہیں واپس آتا ہے، آج تو اس کی آتما بہت پرسن ہوگی، اس نے جیون میں جو سکھ نہ دیا مر کر دے دیا، آخر وہ ہمارے سکھ کے لئے ہی جیتی تھی نا؟

    مگر مادھو کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ بدھیا نے ایک اور بھی سکھ دیا تھا جس کی لذت گھسیو بھول گیا ہوگا۔ کتنی محنت کرتی تھی اور اسے پیٹ بھر کھانا بھی نہیں ملتا تھا، پھر بھی اس کا بدن کیسا گول گتھنا تھا اور اس نے کبھی انکار بھی نہیں کیا چاہے جتنا نوچو گھسوٹو جھنجھوڑو، تن میں ارپت من بھی، اب سب ختم ہو گیا۔ بدھیا کے مرنے سے نکھٹو کہہ کر برادری میں بدنامی بھی ہوئی اور گاؤں والے بھی اسے ہتیا کہہ رہے تھے اب کوئی اپنی لڑکی نہ دےگا، ہائے مورکھ تو نے اس کی قدر نہ کی، اسے بڑے زور کا رونا آیا، اسے روتا دیکھ کر گھسیو بھی رونے لگا، پیچھے سے کتے نے اس کا ساتھ دیا تو دونوں چپ ہو گئے۔

    ’’در۔۔۔‘‘ گھسیو نے مٹی کا ایک ڈھیلا اٹھا کر کتے پر پھینکا، ’’سسرا پیچھے پڑ گیا ہے۔‘‘

    کتا ڈیلا کھاکر چپ ہو گیا مگر اس کا منہ آسمان کی طرف اٹھا رہا۔

    ’’پھر روئے گا سالا منحوس۔۔۔‘‘ مادھو کھسیا کر بڑا سا ڈھیلا کھوجنے لگا۔

    ’’چھوڑو بھی،‘‘ گھسیو نے کہا۔ ’’دھوپ کڑی ہو رہی ہے اور کوس بھر جانا ہے، یہ تو جانور ہے رات کو کھلا دیا تو گلام بن گیا ہے۔‘‘

    ’’یہ جناور ایک وقت کھانے سے گلام بن گیا اور ایک ہم لوگ اور بدھیا۔۔۔‘‘ مادھو پھر رونے لگا۔

    مگر اب کتے کی وجہ سے گھسیو روتے ہوئے ڈرتا تھا۔ اس نے پیچھے پلٹ کر دیکھا، کتا کھڑا ہوا انہیں جاتے دیکھ رہا تھا، گھسیو نے اس بار نہ مادھو کا رونے میں ساتھ دیا نہ رونے سے روکا تو مادھو خود ہی چپ ہو گیا۔

    ’’اب یہ سوچ! گاؤں والوں سے کیا کہیں گے،‘‘ گھسیو نے پھر پلٹ کر دیکھا کتا ان کا بدلا تیور دیکھ کر لوٹ رہا تھا۔

    ’’کہہ دیں گے جیب کٹ گئی۔‘‘

    ’’مگر ہماری جیب کہاں ہے؟‘‘ گھسیو نے ٹھنڈی سانس بھری، پچھلے برس زمیندار نے جو قمیص دی تھی وہ اتنی کمزور تھی کہ ایک جاڑا بھی نہ سہار سکی۔

    مادھو نے اپنا اور گھسیو کا جائزہ لیا۔ بدن پر صرف ایک دھوتی جو میل سے چکٹ کر کھال کے رنگ کی ہو گئی تھی۔

    ’’کہہ دیں گے دھوتی کے پھینٹے سے کہیں گر گیا اور ہم ساری رات ڈھونڈتے رہے۔‘‘

    ’’کہنے کو تو کچھ بھی کہہ دیں گے، کوئی وشواش نہیں کرےگا، گھسیو نے لاپرواہی سے کہا۔ ’دوچار جوتوں سے ہمارا کیا بگڑےگا ہم تو اس کے عادی ہو گئے ہیں۔ ‘‘

    رات کا کھایا پیا ہضم ہو چکا تھا اور دھیرے دھیرے بھوک پھر چمکنے لگی تھی، مگر اب تو دور دور تک اندھیرا تھا، نہ بدھیا تھی نہ گھر میں کچھ تھا اور نہ گاؤں والوں سے بھلے کی کوئی امید، کھیت بھی اجاڑ پڑے تھے، آلو کی فصل بوریوں میں بند ہو چکی تھی۔

    گاؤں سے کچھ پہلے ایک سوکھا ہوا پیڑ دیکھ کر گھسیو نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا، ’’ہم بھی کتنے مورکھ ہیں کفن کفن کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑی چیز آگ ہے۔ ہمیں چتا کی کوئی فکر نہیں، آخر لکڑی چاہئے کہ نہیں؟‘‘

    مادھو نے باپ کو تعریفی نظروں سے دیکھا، بڑوں کی بدھی بڑی ہوتی ہے، کفن نہیں تو ہم چتا کی لکڑی لے کر گاؤں جائیں گے، کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا اچھا رہےگا۔

    کلہاڑی نہیں تھی اسے لئے لکڑی توڑنے میں دیر بھی لگی اور طاقت بھی مگر انہوں نے دو گٹھر تیار کر لئے اور دونوں نے ایک ساتھ سوچا۔ اگر بدھیا کا معاملہ نہ ہوتا تو یہ لکڑی بازار میں بیچ دیتے اور پیٹ کی آگ بجھ جاتی مگر۔۔۔

    انہوں نے بھاری دل سے گٹھر سرپر رکھا۔ جب گاؤں کی سرحد میں پہنچے تو یہ سوچ کر انہیں ہول آنے لگا کہ اگر گاؤں والوں نے دھیان نہ دیا ہوگا اور بدھیا کی لاش ویسے ہی پڑی ہوگی تب۔۔۔ لات گھونسوں کی انہیں پرواہ نہیں اگر اس کے بدلے بدھیا کا کریا کرم ہو جائے تو سستے چھوٹیں گے۔

    جب وہ گاؤں میں داخل ہوئے تو اپنے دروازے پر بھیڑ دیکھ کر ان کی گھبراہٹ اور بڑھ گئی، صاف ظاہر تھا کہ بدھیا کی لاش جوں کی توں پڑی ہے بلکہ سڑ رہی ہے۔ اب اتنے لوگوں کا سامنا وہ کیسے کریں گے، اگر سب نے ایک ایک لات بھی ماری تو، بھوک سے یونہی برا حال ہے۔

    ’’میں تو نہیں جاؤں گا،‘‘ گھسیو نے ہمت ہار دی۔ ’’میں بوڑھا ہو گیا ہوں اور نہیں چاہتا کہ تجھ پر دوہرے کفن کا بوجھ پڑے۔‘‘

    ’’اکیلے میں بھی نہیں جاؤں گا ،’’مادھو بھی خوفزدہ تھا۔ ’’آخر ہمارے دروازے پر اتنے جنے کیوں اکٹھا ہوئے ہیں۔‘‘

    گھسیو بضد تھا کہ مادھو جائے۔ اس کی گھر والی کا معاملہ ہے جو ہو گیا سو ہو گیا۔ اب ایسی بےوفائی نہیں کرنی چاہئے۔ مگر مادھو اب تک خوشی اور غم دونوں میں باپ کو حصہ دار بنا تا رہا تھا لہٰذا اس کا خیال تھا کہ چلیں تو دونوں نہیں چلیں تو دونوں۔

    اتنے میں کسی کی انگلی ان کی طرف اٹھی پھر سارے سر ان کی طرف گھوم گئے۔

    بھاگو۔ دونوں نے ایک دوسرے کو کہا، مگر انہیں لگا زمین نے ان کے پاؤں تھام لئے ہیں۔ وہ پیچھے گھومے ضرور مگر ان سے بھاگا نہ گیا۔ گاؤں کے کچھ لوگ ان کی طرف دوڑے آ رہے تھے۔

    گئی جان۔۔۔ گھسیو رونے لگا تو مادھو نے بھی اس کا ساتھ دیا جیسے جیسے آنے والے قریب ہوتے جا رہے تھے ان کی آنکھوں کے سامنے نیلے پیلے دائرے چکراتے محسوس ہو رہے تھے، پھر یہ دائرے بڑی تیزی سے گردش کرنے لگے، اندھیرے کی ایک لہر آئی پھر انہیں کچھ یاد نہ رہا۔

    دوبارہ آنکھیں کھلیں تو انہوں نے کسی کو کہتے سنا۔

    ’’دیکھئے حجوریہ بدھیا کا پتی، یہ سسر ہے۔‘‘ یہ لوگ اتنے گریب ہیں کہ بیمار بدھیا کی دوا دارو نہ کر سکے، ان کے پاس کفن کے پیسے بھی نہیں ہیں، حجورنے دیکھا ہوگا کہ یہ چتا کے لئے خود سے لکڑیاں توڑ کر لا رہے تھے۔

    ہاں مکھیاجی، صرف قانون بنانے سے نہ سماج نیائے ملےگا نہ سماج پری ورتن ہوگا۔ ایک بھاری بھرکم آواز سنائی دی۔ آزادی ملے پچاس برس گزر گئے مگر پچھڑے لوگوں کی حالت میں کوئی سدھار نہیں ہوا، آج کی گھٹنا نے لرزا دیا، آج ہماری ایک بہن اس لئے مر گئی کہ اسے دوا نہ مل سکی، اس کے گھر والوں کے پیٹ میں نہ دانا ہے نہ تن پروستر۔ میں پرتگیا کرتا ہوں کہ اگر آپ لوگوں نے ہمیں جن آدیش دیا تو ہم سماج پری ورتن کو کتابوں سے نکال کر سب کے درمیان لائیں گے، میں اپنی پارٹی کی طرف سے ان بدنصیب لوگوں کو دس ہزار روپے دینے کا اعلان کرتا ہوں۔ زور کی تالیاں بجیں فوٹو گرافر ان کی اور ان کی جھوپڑی کی تصویریں لے رہے تھے۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے