اس کی بیوی اسے جگاتی ہے تو وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھتا ہے۔
’’کیا ہوا؟۔۔۔۔ خیر تو ہے؟‘‘
’’چھ بج رہے ہیں اب اٹھ جائیے۔‘‘
’’اوہ میں سمجھا۔۔۔ پھر کوئی بری خبر!‘‘
’’وہ دھڑکتے ہوئے دل پر ہاتھ رکھ لیتا ہے۔ پھر کہتا ہے‘‘
’’روز کہتا ہوں نیک بخت۔۔۔ مجھے اس طرح نہ جگایا کرو‘‘
’’آپ تو یوں ہی بدک جاتے ہیں‘‘ اس کی بیوی باورچی خانے کی طرف جاتے ہوئے کہتی ہے‘‘
’’پتہ نہیں ہر وقت کیا ڈراؤ نے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔‘‘
’’خواب؟ وہ خود سے سوال کرتا ہے۔ تو کیا یہ سب خواب تھا۔۔۔ مگر کیسا بھیانک طویل اور مکروہ خواب۔‘‘
ہاں! ہاں، یہ خواب ہی تو تھا۔۔۔ ابھی ابھی جب اخبار آئےگا۔ اس پر دسمبر ۱۹۷۰ء کی کوئی تاریخ درج ہوگی۔
رضائی میں لیٹے لیٹے وہ دیوار پر لگی گھڑی کی طرف دیکھنے لگتا ہے۔ اس کی بیوی نے بتایا ہے کہ چھ بج گئے ہیں مگر ابھی چھ بجنے میں دو منٹ باقی ہیں سوئی چھ کے ہند سے کو چھو رہی ہے مگر ابھی چھ نہیں بجے۔۔۔ یہ چھ اس وقت تک نہیں بج سکتے جب تک بڑی سوئی بارہ کے نقطے کو نہ چھولے۔ مگر یہ بڑی۔۔۔ صرف نام کی بڑی ہے اسے بڑی پر ترس آنے لگتا ہے جو دائرے کا پورا چکر کاٹ کر آتی ہے۔ چھوٹی نے اس کے مقابلے میں بارہواں حصہ سفر طے کیا ہے لیکن ابھی ابھی جب گھنٹے بجیں گے تو اس کا سہرا چھوٹی کے سر ہو گا۔
چھ بجتے ہیں !
وہ ساتھ ساتھ گنتا جاتا ہے‘‘
اسے معلوم ہے کہ جب چھوٹی چھ پر اور بڑی بارہ پر ہے تو چھ ہی بجیں گے۔ لیکن پھر بھی اسے شک ہے کیا خبر گھڑی میں کوئی خرابی ہو گئی ہو اور آج وہ پانچ یا سات بجا دے۔ چھ تک گنتی پوری ہونے پر وہ اطمینان کا سانس لینا چاہتا ہے کہ اس کی نظر روشندان پر لگے ہوئے خاکی رنگ کے کاغذوں پر پڑتی ہے ان کھرچے ہوئے کاغذوں کو دیکھ کر اسے بلیک آؤٹ یاد آتا ہے۔ پھر اس کے کان میں سائرن کی آواز گونجتی ہے۔
خندق۔۔۔۔ دھما کہ۔۔۔۔ خون۔۔۔۔۔ لاشیں۔۔۔۔ دھواں اور گھپ اندھیرا۔۔۔۔‘‘
’’بنگلہ دیش‘‘۔۔۔۔ مکتی باہنی!!‘‘
عجیب واہیات خواب تھا۔
لیکن یہ مکتی باہنی کیا ہوتی ہے یہ کس زبان کا لفظ ہے اور اس کے ذہن سے کیوں چیک گیا ہے۔ کہیں یہ خواب کی بجائے کوئی حقیقت نہ ہو کہ ہم جنگ ہار گئے ہیں۔۔۔ اس کا دل ڈوبنے لگتا ہے خدا کرے یہ خواب ہی ہو۔۔۔ خواب کی کرچیاں اس کے دل کو لہولہان کرنے لگتی ہیں۔
اس کے ذہن میں توپ دغنے لگتی ہے ’’شکست۔۔۔ شکست۔۔۔ شکست‘‘ دھماکوں کا دھواں کم ہوتا ہے تو اس کے ذہن میں لفظ ابھرتے ہیں۔
’’پاسپورٹ۔۔۔ بائیس خاندان۔۔۔ زر مبادلہ۔۔۔ بنگلہ بندھو۔۔۔ قومی ملکیت۔۔۔ عوامی حکومت!‘‘
عوامی حکومت کا خیال آتے ہی اسے یقین ہو جاتا ہے کہ یہ سب کچھ خواب تھا وہ بیوی کو بلا کر شک دور کرنا چاہتا ہے کہ گلی میں ہاکر آواز گونجتی ہے۔ ’’اخبار اے‘‘ اس کے دھیان خواب کی باتوں سے ہٹ کر ہاکر نیوز ایجنٹ اور اخبار کے مالک کی طرف چلا جاتا ہے۔ اس لمحے اس کا بڑا بچہ اخبار لا کر سامنے رکھ دیتا ہے۔ وہ اخبار اٹھا کر دیکھنا چاہتا ہے لیکن کسی انجانے خوف سے اس کا ہاتھ لرز کر رہ جاتا ہے۔ پتہ نہیں آج کس ملک نے کس بڑی طاقت کے اشارے پر کس ملک پر حملہ کر دیا ہو؟
پتہ نہیں آج کسی ملک کی فوج نے وہاں کی حکومت کا تختہ الٹ دیا ہو اور کیا خبر وہ حکومت الٹے ہوئے تختہ کو پھر سیدھا کر کے اس پر بیٹھ گئی۔ یا ابھی تک تختے پر پڑی ہو۔
نہ جانے آج کہیں ہوائی جہاز گاڑی یا بس کا حادثہ ہو گیا ہو یا کہیں طوفان اور زلزلے کی وجہ سے ہزاروں انسان موت کی نیند سو گئے ہوں کسی کارخانے میں آگ لگ گئی ہو یا کسی دکان کو لوٹ لیا گیا ہو۔ کسی کی بہو بیٹی گھر سے بھاگ گئی ہو یا اغوا کر لی گئی ہو۔
نہ جانے آج کس وجہ سے بھائی نے بھائی کا خون کر دیا ہو۔ باپ نے بیٹے کو عاق کر دیا ہو۔ اور کیا پتہ جب وہ اخبار اٹھا کر دیکھے اس میں جنوری ۱۹۷۲ء کے بجائے کوئی اور تاریخ چھپ گئی ہو۔
مگر نہیں۔۔۔ وہ تو خواب تھا۔۔۔ طویل بھیانک اور مکروہ خواب!
اسے شک دور کرنے کے لئے اخبار دیکھنا چاہئے۔
وہ اخبار دیکھتا ہے
اخبار میں سانپ لپٹا ہوا ہے۔ وہ چیخنا چاہتا ہے لیکن سانپ اس کے گلے کے گرد کنڈلی مار لیتا ہے اور اپنی دو شاخی زبان سے اس کا دماغ چاٹنے لگتا ہے۔ پھر اتر کر سیمنٹ کنکریٹ کے پکے فرش میں گھس جاتا ہے۔
وہ اخبار کو اچھی طرح الٹ پلٹ کر دیکھتا ہے۔ اخبار کورے کاغذوں کا پلندہ ہے اس پر کوئی سرخی، کوئی لفظ نہیں ہے۔ وہ گھبرا کر آنکھیں ملتا ہے کہیں وہ اچانک بصارت سے محروم نہ ہو گیا ہو۔
وہ اخبار سے منہ ڈھانپ لیتا ہے۔
اس کے کانوں میں لاکھوں سسکیوں، آہوں، چیخوں اور دھماکوں کی آوازیں گونجنے لگتی ہیں۔ وہ دیر تک بے حس و حرکت پڑا رہتا ہے۔ پھر پورے زور سے چیخ کر کہتا ہے۔
’’ہاں ہم ہار گئے، ہار گئے!‘‘
اس کے ساتھ اس کی آنکھ سے کوئی آنسو نہیں گرتا۔
مگر اخبار کے اوراق پر آہستہ آہستہ الفاظ ابھرنے لگتے ہیں، سرخیاں شہ سرخیاں، تصویریں، خبریں، کالم، کارٹون، نظمیں اداریہ اور جنگی قیدیوں کی فہرست!
وہ خبروں کی سرخیاں یوں جلدی دیکھتا ہے جیسے بہت سے زخمیوں اور مرنے والوں میں اپنی لاش تلاش کر رہا ہو۔ دوسرے کمرے کا دروازہ زور سے بند ہونے کی آواز آتی ہے وہ اچھل پڑتا ہے۔
پھر چیخ کر کہتا ہے۔
’’ہزار بار کہا ہے دروازہ آہستہ بند کیا کرو۔‘‘
کچھ عرصہ سے اچانک شور یا آہٹ سے کا دل بری طرح دھڑکنے لگتا ہے۔ اس کے قریب سوکھا پتہ گرے تو اس کا دل دھک دھک کرنے لگتا ہے۔ ڈاکٹر نے سے یقین دلایا ہے کہ اس کا دل ٹھیک ہے۔ البتہ اسے اپنے دماغ کو صاف رکھنا چاہئے۔
دروازے پر کسی گداگر کی صدا گونجتی ہے ’’اللہ کے نام پر روٹی کا سوال ہے‘‘۔
اس کی چھ سال بچی منہ ہاتھ دھو کر جلدی جلدی آتی ہے اور باورچی خانے سے روٹی لے کر دروازے کی طرف جاتی ہے وہ تڑپ کر بستر سے نکلتا ہے اور بھاگ کر دروازے کی طرف آتا ہے۔ اس کے کندھے پر لمبے لمبے تھیلے لٹک رہے ہیں اور جیسے وہ ابھی ابھی بچی کو کلور و فام سنگھا کر اور اپنے تھیلے میں ڈال کر غائب ہو جائےگا۔ وہ لپک کر بچی کو بازو سے پکڑ کر اندر گھسیٹ لاتا ہے۔ پھر بیوی سے الجھ پڑتا ہے۔
تمہیں یعقوب علی کی بچی کے اغوا کا قصہ بھول گیا ہے کیوں بچی کو خیرات دینے کے لئے بھتیجی ہو۔‘‘
نہا دھو کر جب وہ ناشتہ کرنے بیٹھتا ہے پھر اخبار اٹھا کر دیکھنے لگتا ہے۔
’’بیوی نے شوہر کو کھانے میں زہر دے دیا۔‘‘
ڈبل روٹی کا ٹکڑا اس کے منہ میں ہے لیکن وہ چبا نہیں سکتا۔ اسی لمحے اس کی بیوی اندر آتی ہے۔ ’’آپ کھاتے کیوں نہیں ؟‘‘
اس کا شک یقین میں بدل جاتا ہے۔ وہ ناشتے کی چیزیں بیوی کے منہ پر دے مارنا چاہتا ہے لیکن پھر اسے ہنسی آ جاتی ہے۔
اس کے دفتر جانے سے پہلے بچے سکول چلے جاتے ہیں لیکن وہ اس کا ذہن بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ سکول کا راستہ خطرناک ہے۔ سڑکوں پر تانگوں، بسوں، اور کاروں کا دریا بہتا ہے۔ اس نے کئی بار سوچا ہے کہ بچوں کو موٹر سائیکل پر خود سکول پہنچایا کرے۔ لیکن اسے خوف آتا ہے کسی بچے کی ٹانگ پہئے کی تاروں میں نہ پھنس جائے۔ موٹر سائیکل کسی بس یا ٹرک پر بکھرنے کا تصور کر کے وہ کانپ جاتا ہے اور اب تو ڈاکٹر نے اسے موٹر سائیکل چلانے سے منع کر دیا ہے۔ وہ خود بھی کئی دنوں سے بس یا رکشہ سے دفتر جاتا ہے۔
دفتر جانے سے پہلے اسے قریبی دکان سے گوشت یا سبزی لانا ہوتی ہے۔ وہ لپک کر گوشت کی دکان پر پہنچتا ہے۔ اس نے ایک بار اخبار میں کتوں کا گوشت فروخت ہونے کی خبر پڑھی تھی دبنے تو آسانی سے پہچانے جا سکتے ہیں مگر کتوں اور بکروں میں تمیز کرنے کے لئے اسے کافی محنت کرنا پڑتی ہے۔
گھر سے نکلنے سے پہلے اس کی بیوی شاپنگ کیلئے اجازت مانگی ہے وہ مڑ کر حسرت بھری نگاہ اپنے مکان پر ڈالتا ہے۔ شائد وہ آخری بار اپنے گھر سے جا رہا ہے۔۔۔ کیا معلوم وہ جس بس میں سوار ہو وہ حادثے کا شکار ہو جائے۔ جب اس کی لاش گھر لائی جائے اس کی ٹانگیں کٹ چکی ہوں۔ کھوپڑی کے دو حصے ہو گئے ہوں اور سڑک سے گھر تک کا سارا راستہ اس کے خون سے سر ہو گیا ہو۔ پھر اسے اپنے بچوں اور اپنی بیوہ اپنے رشتہ داروں اور اپنی انشورنس پالیسی کا خیال آتا ہے۔ انشورنس پالیسی کا خیال آتے ہی پریمیم تنخواہ اور گھر کے اخراجات کا حساب کرنے لگتا ہے۔
آفس ٹیبل پر بیٹھتے ہی اس کی نظر اپنے نام ایک خفیہ پر پڑتی ہے اور جیسے کسی نے ملازمت کا دروازہ زور سے بند کر دیا ہو۔ اس کا دل دھک دھک کرنے لگتا ہے۔
کل وہ دو گھنٹے کی چھٹی لے کر ہسپتال گیا تھا وہاں رش ہونے کی وجہ سے دفتری اوقات میں واپس نہیں آ سکا تھا۔
پچھلے ہفتے اس کی میز سے ایک فائل چوری ہو گیا تھا۔
جنگ سے پہلے بڑے صاحب کا لڑکا ولایت سے لوٹا تھا تو وہ بیوی کی علالت کی وجہ سے بر وقت مبارک باد دینے نہیں جا سکا تھا۔
پچھلے برس آڈٹ والوں نے اس کے حساب کتاب میں غلطیوں کی نشان دہی کی تھی۔ وہ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ خفیہ خط (CONFIDENTIAL LETTER) کھولتا ہے یہ اس کی ترقی کے لئے دی ہوئی درخواست کا جواب ہے۔
’’فی الحال یہ ممکن نہیں ‘‘
اس کی جان میں جان آتی ہے۔ اسے یہ سوچ کر بے حد اطمینان ہوتا ہے کہ وہ خط اس کی جواب طلبی یا برطرفی کا نہیں ہے۔
بارہ بجے کے قریب اسے اپنا گھر بیوی اور بچے یاد آتے ہیں۔
کسی بچے کا سکول سے لوٹتے ہوئے ایکسیڈنٹ نہ ہو گیا ہو۔
اس کی عدم موجودگی میں کوئی ناپسندیدہ رشتہ دار مرد، مہمان بن کر گھر نہ آ گیا ہو۔
بیوی شاپنگ کر کے لوٹنے کی بجائے کسی کے ساتھ نہ چلی گئی ہو۔
اس کا جی چاہتا ہے دفتر سے چھٹی لیکر فوراً ہسپتال پہنچے جہاں اس کے حادثے میں زخمی ہونے والا بچہ آخری سانسیں لے رہا ہے لیکن فوراً ہی اسے خیال آتا ہے کہ اتنی دیر میں اس کی بیوی بھاگ جانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اسے سب سے پہلے سٹیشن یا بس کے اڈے پر پہنچنا چاہئے۔ ڈاکٹر کی ہدایات یا د آتے ہی وہ اپنی خود ساختہ پریشانیوں کو ذہن سے جھٹکنا چاہتا ہے کہ کنپٹی پر درد کی شدید ٹیس محسوس ہوتی ہے۔ کئی دن سے درد کی یہ لہر سر کے پچھلے حصے سے اٹھ کر کنپٹی اور بائیں آنکھ پر آ کر رک جاتی ہے۔ رضا صاحب کو بھی پہلے پہلے ایسی ہی شکایت تھی۔ لیکن دماغ کی رگ پھٹ جانے کے خوف سے وہ جلدی جلدی ہسپتال پہنچنا چاہتا ہے۔
ہسپتال سے سکون اور نیند کی گولیاں لیکر وہ سیدھا بازار چلا جاتا ہے۔ بچوں کے ریڈی میڈ خوبصورت کپڑوں کی دکان دیکھ کر اسے اپنی بچی یاد آتی ہے۔ وہ بچی کے لئے ایک خوبصورت فراک پسند کرتا ہے۔ لیکن پیسے دینے سے پہلے اسے خیال آتا ہے کیوں نہ وہ گھر جا کر پہلے بچی کی خیریت معلوم کر لے۔ وہ فراک چھوڑ کر سیدھا گھر پہنچتا ہے۔
بیوی کھانا لاتی ہے۔ بچے سکول، کھیل، کتابوں اور امتحانوں کی باتیں کرتے ہیں اور اسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اب کبھی درد کی لہر اس کی کنپٹی تک نہ آئےگی۔
لیکن رات کو جب وہ سونے کے لئے بستر پر لیٹتا ہے نظر نہ آنے والے ان گنت زہریلے چیونٹے اس کے جسم سے چمٹ جاتے ہیں پھر اس کے جسم اور کھوپڑی میں سوراخ کر کے اندر گھس جاتے ہیں۔ وہ دیر تک کروٹیں بدلتا رہتا ہے۔ پھر خواب آور گولیاں کھا لیتا ہے۔
اب اسے نیند آنے لگتی ہے لیکن وہ اس نیند سے بےحد خوف زدہ ہے۔ یہ موت ایسی نیند زبردستی اس پر مسلط ہوئی جاتی ہے۔ وہ اٹھ کر بھاگنا اور گلاپھاڑ پھاڑ کر چیخنا ہے چاہتا ہے۔ ’’مجھے اس نیند سے بچاؤ‘‘ مگر وہ حرکت نہیں کر سکتا چیخ اس کے گلے میں اٹک کر رہ جاتی ہے۔ ایک دم گھونٹنے والا دھواں اس کے چاروں طرف پھیل جاتا ہے۔
اس کے دماغ میں توپ دغنے لگتی ہے۔ ’’شکست۔۔۔ شکست۔۔۔ شکست‘‘ دھواں گہرا ہو جاتا ہے۔ کلوروفام کی سی بو سے اس کا دم گھٹنے لگتا ہے۔
وہ دیکھتا ہے۔ اس کے دماغ کا آپریشن ہو رہا ہے۔
اس کے جسم کے سارے اعضاء الگ الگ کر دئے گئے ہیں۔ دونوں ٹانگیں مرجھائی مرجھائی کونے میں پڑی ہیں۔ دونوں بازو میز پر رکھے ہیں۔ اس کی کھوپڑی چیر کر اس میں سے موٹی موٹی گردنوں والے چیونٹے نکالا جا رہے ہیں وہ میز سے اپنا ایک ہاتھ اٹھا لیتا ہے۔ ٹرے میں اس کا دل پڑا دھڑک رہا ہے۔ قریب ایک بوتل میں اس کی روح کلبلا رہی ہے۔ وہ بوتل کا ڈھکنا کھول دینا چاہتا ہے لیکن نرس بوتل چھین کر الماری میں بند کر دیتی ہے۔
اسی لمحے ڈاکٹر خوش ہو کر کہتا ہے۔
’’یہ رہا درد۔‘‘
’’ڈاکٹر درد کو چمٹی سے پکڑ کر اسے دکھاتا ہے۔ یہ ایک چھوٹا نوکیلا سا پتھر ہے۔ سیاہ۔۔۔ بھورا۔۔ یا شائد گہرے سبز رنگ کا۔
ڈاکٹر کہتا ہے۔
’’یہ درد ہے۔۔۔ یہ تمہاری کھوپڑی سے نکلا ہے۔ آج کل جو ہوا چلتی ہے۔ اس میں ایسے بہت سے باریک باریک ذرات ہوتے ہیں جو آہستہ آہستہ کھوپڑی میں جمتے رہتے ہیں اور پھر درد کا نو کیلا پتھر بن جاتے ہیں۔ تمہیں آئندہ احتیاطاً سانس نہیں لینی چاہئے۔‘‘
اس کی بیوی اسے جگاتی ہے تو وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھتا ہے۔
’’کیا ہوا۔۔۔۔ خیر تو ہے؟‘‘
’’چھ بج رہے ہیں اب اٹھ جائیے‘‘
’’اوہ۔۔۔۔ میں سمجھا شائد پھر کوئی بری خبر۔۔۔؟‘‘
وہ دھڑکتے ہوئے دل پر ہاتھ رکھ لیتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.