ڈراکیولا
مصنف کا بیان
’’میں ہر بار تمہارے گھر کی الگنی پر گیلے کپڑے کی طرح ’’ٹنگی‘‘ رہی۔ تم میرے لئے مٹھی مٹھی بھر دھوپ لاتے تھے۔ اور میں تھی، برف جیسی یخ۔۔۔ دھوپ تمہاری میٹھوں سے جھر جھر جاتی تھی۔۔۔ سوکھتی کیسے میں۔۔۔؟ تمہارے ہی گھر کی الگنی پر ٹنگی رہی۔ دُکھ دینے کے لئے تمہیں۔‘‘
وہ کچھ ایسا ہی سوچتی تھی۔ اپنے بارے میں۔۔۔ وہ یعنی، صوفیہ مشتاق احمد۔ اُسے اپنے بارے میں کچھ بھی سوچنے کا حق حاصل تھا۔ جیسے یہ کہ راتیں کیوں ہوتی ہیں؟ جیسے یہ، کہ آسمان پر ٹمٹماتے تاروں میں، اس کی بھولی بسری عمر کیسے سماجاتی ہے۔ جیسے یہ کہ صبح کیوں ہوتی ہے۔ سورج کیوں نکلتا ہے۔ دھوپ سے زندگی کا کیسا رشتہ ہوتا ہے۔۔۔؟
قارئین، مجھے احساس ہے کہ میں نے کہانی غلط جگہ سے شروع کر دی۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایسا میرے ساتھ اکثر ہوا ہے۔ مگر پیارے قارئین، مجھے اس بات کا اعتراف کر لینے دیجئے کہ مجھے اس کہانی کو لکھنے کا کوئی حق نہیں تھا اور یقین جانیے، اس کہانی کے کرداروں سے، ملنے سے قبل تک مجھے اس بات کا احساس تک نہیں تھا کہ زندگی سے جڑی بے حد معمولی سچائیاں اتنی تلخ، اتنی سنگین بھی ہو سکتی ہیں۔۔۔ مجھے یہ بھی احساس ہے کہ آج کے عہد میں، جس کے بارے میں یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اس سے زیادہ مہذب ترین دنیا کا کوئی تصور جارج بش کے پاس بھی نہیں ہے۔۔۔ اور نیوکلیائی ہتھیاروں کی، انسانوں کے قتل عام کی اس سے بدصورت مثال شاید تاریخ کے بے رحم صفوں پر بھی مشکل سے ہی ملے گی۔۔۔ مجھے احساس ہے کہ انسانی بم، جینوم، کلوننگ اور نیو ٹکنالوجی کے اس عہد میں میں آپ کو ایک ایسی کہانی سنانے جا رہا ہوں، جس پر چوتھی دنیا کے مہذب ترین لوگ شاید ہی بھروسہ کرسکیں۔۔۔ انسانوں کو غلام بنانے والی کہانیاں اور غلاموں سے کیڑے مکوڑوں سے بھی زیادہ بدترین سلوک کی فنتاسیاں، معاف کیجئےگا، لوگ بھولے نہیں ہیں۔۔۔ تاریخ کے صفحات اذیت اور جبر کی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں۔۔۔ لیکن یقین جانئے، میں ایسی کوئی رس بھری، لذیذ داستان آپ کے سامنے رکھنے نہیں آیا۔۔۔ اور آپ ہنسیں گے، یقیناً آپ کو ہنسنا چاہئے۔۔۔ کہ خود کو مہذب ثابت کرنے کی ریس میں اگر آپ کو کوئی ایسا قصہ سنایا جائے کہ عظیم طاقتوں میں سے ایک بننے جا رہے ملک ہندستان میں، سن 2005 میں، ایک مسلمان لڑکی اپنی شا دی کے لئے، ’’شاہزادوں‘‘ کا انتظار کرتے کرتے تھک گئی اور اچانک ایک دن اُس نے ایک تنہا، اُداس کمرے میں۔۔۔ آسیبی داستانوں کے مشہور زمانہ کردار ڈراکیولا کو دیکھ لیا۔۔۔ تو چونکئےگا مت۔۔۔
اور یقین جانیے، ہماری اس کہانی کی کردار صوفیہ مشتاق احمد کے ساتھ یہی ہوا۔۔۔
آدھی رات کا گجر بج چکا تھا۔ کمرے میں زیرو پاور کا بلب جل رہا تھا۔ باہر خوفناک آندھیاں چل رہی تھیں۔ پتّے سرسرا رہے تھے۔ باہر کوئی جنگل نہیں تھا۔ پھر بھی چمگادڑوں، بھیڑیوں، الّو اور طرح طرح کی خوفناک آوازیں رات کے پُراسرار سناٹے کو اور بھی زیادہ خوفناک بنا رہی تھیں اور یقیناً یہ دستک کی آواز تھی۔۔۔ نہیں۔ کوئی تھا، جو دیواروں پر رینگ رہا تھا۔۔۔ کیا ویمپائر۔۔۔؟اُف، خوفناک آوازوں کا ریلا جسم میں دہشت کا طوفان برپا کرنے کے لئے کافی تھا۔ سہمی ہوئی سی وہ اٹھی۔ بدن میں کاٹو تو خون نہیں۔۔۔ وہ اٹھی، اور تھرتھراتی، کانپتی کھڑکی کی طرف بڑھی۔ لڑکھڑاتے کانپتے ہاتھوں سے کھلی کھڑکی کے پٹ بند کرنے چاہے تو ایک دم سے چونک پڑی۔۔۔ کوئی تھا جو دیواروں پر چھپکلی کی طرح رینگ رہا تھا۔ اُف۔ اس نے خوفزدہ ہو کر دیکھا۔ یقیناً یہ ڈراکیولا تھا، ہونٹ انسانی خون سے تر۔۔۔ دانت، لمبے، بڑے اور سرخ۔۔۔ وہ اپنے ’’کو فن‘‘ سے باہر آیا تھا۔ صبح کی سپیدی تک اپنے ہونے کا جشن منانے یا پھر انسانی خون کا ذائقہ تلاش کرنے۔۔۔ وہ یکبارگی پھر خوف سے نہا گئی۔ کسی اسپائیڈر مین کی طرح ڈراکیولا اُس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ دیوار پر آرام سے چھپکلی کی طرح۔۔۔ پنجوں پر اُس کی گرفت مضبوط تھی۔ وہ اُسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کی گھگھی بندھ گئی۔ وہ چیخنا چاہتی تھی مگر۔۔۔ رینگتا ہوا، ڈراکیولا، ایکدم، دوسرے ہی لمحے اس کے کمرے میں تھا۔۔۔ اُس کی آنکھوں میں وحشیانہ چمک تھی۔۔۔ اور اس کے نوکیلے دانت اُس کی نازک ملائم گردن کی طرف بڑھ رہے تھے۔۔۔ اس کی آنکھوں میں نیم بے ہوشی کی دھند چھا رہی تھی۔۔۔
مصنف سے صوفیہ مشتاق احمد کی بات چیت
’’اف، ڈراؤنا خواب، لیکن اس صدی میں ڈراکیولا۔۔۔ آپ کتابیں بہت پڑھتی ہیں، ڈراؤنی کتابیں؟‘‘
’’نہیں پڑھتی۔‘‘
’’پھر یہ خواب‘‘
’’نہیں، یہ خواب نہیں ہے۔ دیکھئے۔۔۔‘‘
مصنف کے لئے یہ صبر آزما لمحہ تھا۔ یقیناً اس کی گردن کی ملائم جلد کے پاس کئی داغ تھے۔۔۔ لیکن کیا یہ ڈراکیولا کے نوکیلے دانتوں کے نشان تھے، یا۔۔۔ مصنف اِن ’’اذیت گزار‘‘ لمحوں کے سفر سے، پھیکی ہنسی ہنستا ہوا اپنے آپ کو باہر نکالنے کا خواہشمند تھا۔۔۔
’’یقیناً یہ داغ۔۔۔ آپ سمجھ رہے ہیں نا، ایک صبح ہم اٹھتے ہیں۔ اور کیڑے نے۔۔۔ کیڑا۔۔۔ آپ سمجھ رہے ہیں نا۔۔۔؟‘‘
صوفیہ مشتاق احمد کا چہرہ اس وقت، لیوناڈوی ونچی کی پینٹنگ مونالزا کی طرح ہو رہا تھا، جس کے تاثر کو آپ لفظوں کا لباس پہنا ہی نہیں سکتے۔ یقیناً۔۔۔ وہ کیڑا ہی تھا۔ نوکیلے دانتوں والا ایک خوفناک کیڑا۔۔۔ اور آپ سے زیادہ بہتر کون جانے گا کہ اس صدی میں انسان سے زیادہ خوفناک کیڑا۔۔۔ دوسرا کون ہو سکتا ہے۔۔۔‘‘
ہے۔۔۔ ہے۔۔۔ ہے۔۔۔، مصنف پھیکی ہنسی ہنسنے پر مجبور تھا۔۔۔ ’’یہ سب تو دانشوری، دانشمندی کی باتیں ہیں۔ ہے۔۔۔ ہے۔۔۔‘‘
مصنف کے الفاظ کھو گئے تھے۔۔۔ لیکن وہم و گمان کی ایک بے نام سی کہانی یہ بھی تھی کہ مصنف نے وہ داغ دیکھے۔۔۔ اور یقیناً وہ داغ اس کی گردن پر موجود تھے۔۔۔
لیکن اس کہانی کے ساتھ اس بے معنی گفتگو، ڈراکیولا، صوفیہ مشتاق احمد کی گردن میں پڑے ڈراکیولا کے نوکیلے دانتوں کے نشان کا کوئی رشتہ نہیں ہے۔۔۔ لیکن یقیناً اس گفتگو کے بعد ہی اس کہانی کی بنیاد پڑی تھی، اور یقیناً۔۔۔ اب جو کچھ میں سنانے جا رہا ہوں، وہ بیان کی شکل میں ہے اور اس بیان میں، میں شامل ضرور ہوں، لیکن یہ یقین کرنا ضروری ہے کہ اس کہانی میں، اپنی طرف سے میں نے کوئی اضافہ یا الٹ پھیر نہیں کیا ہے۔۔۔ اس سے پہلے کہ الگ الگ بیانات کا سلسلہ شروع ہو، مختصراً اس کہانی کے کرداروں سے آپ کا تعارف کرا دوں۔ دلّی جمنا پار رہائشی علاقے میں ایک چھوٹی سی مڈل کلاس فیملی۔۔۔ بڑی بہن ثریا مشتاق احمد۔ عمر پینتیس سال۔ ثریا کے شوہر اشرف علی۔۔۔ عمر چالیس سال۔ نادر مشتاق احمد، ثریا کا بھائی۔ عمر 30 سال۔ اور ہماری اس کہانی کی ہیروئن (نہیں معاف کیجئےگا، بڑھتی عمر کے احساس کے ساتھ ایک ڈری سہمی سی لڑکی ہماری کہانی کی ہیروئن کیسے ہو سکتی ہے )صوفیہ مشتاق احمد، عمر 25 سال۔
تو اس کہانی کا آغاز جنوری مہینہ کی 8تاریخ سے ہوتا ہے۔ سردی اپنے شباب پر تھی۔ سرد ہوائیں چل رہی تھیں۔ دانت سرد لہری سے کٹکٹا رہے تھے۔ لیکن جمنا پار، پریہ درشنی وہار، فلیٹ نمبر بی 302 میں ایک ناخوشگوار حادثہ وقوع پذیر ہو چکا تھا۔
کوئی تھا، جو تیزی سے نکلا۔۔۔ پہلے لڑکھڑایا، پھر باہر والے دروازہ کی چٹخنی کھولی اور تیز تیز، سرد رات اور کہاسوں کے درمیان، سیڑھیوں سے اترتا ہوا، بھوت کی طرح غائب ہو گیا۔۔۔
’’وہ چلا گیا۔۔۔‘‘ یہ جیجو تھا۔ صوفیہ مشتاق احمد کا جیجو، آنکھوں میں خوف اور الجھن کے آثار۔۔۔ وہ چلا گیا اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے۔‘‘
نادر مشتاق احمد نے نظریں اٹھائیں۔ منظر کچھ ایسا تھا جیسے ویتنام اور ناگا ساکی، ایٹم بم دھماکے کے بعد ندیوں سے اٹھتے ہوئے آگ کے شعلے آسمان چھو گئے ہوں۔۔۔ ’’کیا ہوا، اُسی سے پوچھتے ہیں۔‘‘
’’لیکن، کیا پوچھیں گے آپ۔۔۔ ثریا ججو کی طرف مڑی۔ پھر ایک لمحے کو نظر اٹھا کر اس نے نادر کی طرف دیکھا۔۔۔ جذبات پر قابو رکھو، اُف، دیکھو۔۔۔ وہ کیا کر رہی ہے۔۔۔‘‘
’’شاید وہ آ رہی ہے۔۔۔‘‘ جیجو نے ہونٹوں پر انگلی رکھی۔۔۔
’’کوئی اس سے کچھ بھی نہیں پوچھےگا۔‘‘ یہ ثریا تھی۔۔۔
’’تم بھی کیسی باتیں کرتی ہو باجی۔ کوئی اس سے بھلا کیا پوچھ سکتا ہے۔ وہ بھی اس ماحول۔۔۔ اور ایسے عالم میں۔ لیکن۔۔۔ کچھ۔۔۔‘‘
’’کچھ نہیں ہو گا۔‘‘
’’ہم نے فیصلہ کرنے میں۔۔۔‘‘
ثریا مشتاق احمد، ایک لمبا سانس لیا۔ آواز ڈوبتی چلی گئی۔۔۔ ’’کہہ نہیں سکتی۔۔۔ مگر۔۔۔ اس نے اپنے شوہر اور نادر مشتاق احمد کی طرف ایک گہری نظر ڈالی۔۔۔ ’’ہم نے آپس میں بات کی تھی۔ اس کے سوا ہمارے پاس دوسرا راستہ ہی کیا تھا۔‘‘
’’وہ آ رہی ہے اور اب ہمیں خاموش ہو جانا چاہئے۔۔۔ اور یقیناً ہمارے تاثرات ایسے نہیں ہونے چاہئیں کہ اسے کسی بات کا شک ہو کہ ہم اس کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں۔۔۔ اور یقیناً ہمیں اس کی نفسیات کو بھی سمجھنا ہوگا۔‘‘
یہ جیجو تھا۔۔۔
باہر کہاسا زمین پر گر رہا تھا۔ رات برف سے زیادہ ٹھنڈ ہو گئی تھی۔۔۔ دروازہ چرچڑانے کی آواز ہوئی۔ برف پگھلی۔ دھند چھٹی۔ سامنے صوفیہ کھڑی تھی۔ صوفیہ مشتاق احمد۔ ایک لمحے کو وہ ان کے پاس آ کر ٹھہری۔ لیکن رُکی نہیں۔۔۔ دوسرے ہی لمحے، وہ اپنے کمرے میں واپس لوٹ گئی۔۔۔
پہلا بیان: ثریا مشتاق احمد
میں ثریا مشتاق احمد۔ پیدا ہوئی اترپردیش کے بلند شہر میں۔ محلہ شیخاواں۔ مسلمانوں کا محلہ۔ زیادہ تر شیخ برادری کے مسلمان۔۔۔ پاس میں مسجد تھی۔ پاپا مشتاق احمد کی چھوٹی سی دکان تھی۔ اسٹیشن روڈ پر۔ پنج گانہ نمازی۔۔۔ پیشانی پر سجدے کے داغ۔ چہرہ ایسا نورانی اور معصوم کہ میں نے زندگی میں آج تک نہیں دیکھا اور ممی تو جیسے گائے تھیں۔ نادر چھوٹا بھائی تھا۔ اُس سے پانچ سال چھوٹا اور صوفیہ سمجھ سے دس سال چھوٹی تھی۔۔۔ بچپن میں چھوٹی چھوٹی آنکھیں مٹکاتی تو شرارت سے سارا گھر خوشی سے جھوم جایا کرتا۔
کالج میں داخلے سے قبل ہی اشرف زندگی میں آ گئے تھے۔۔۔ کیسے۔۔۔؟ یہ لمبی کہانی ہے۔ چھوٹے سے شہر میں ایسی کہانیوں کے پر لگ جاتے ہیں۔ پھر کبوتر کی طرح پرواز کرتی یہ کہانیاں شیخاواں کے ایک گھر سے دوسرے گھر میں گونجنے لگی تھیں۔۔۔
مما کو ہائپرٹینشن تھا۔۔۔
پپا جلد گھر آ جاتے تھے، طبیعت کی خراب کا بہانہ بنا کر۔۔۔ پڑوس والی مسجد سے نماز کی صدا بلند ہوتے ہی، وہ تیز تیز لپکتے مسجد پہنچ جایا کرتے۔ وہاں سے آتے، تو لفظوں کے تیر سے اداس اور گھائل ہوتے۔۔۔ ممی اور وہ گھنٹوں اشرف کے بارے میں باتیں کرتے رہتے۔۔۔ مثلاً کیوں آتا ہے۔ کیا کام ہے۔۔۔ خاندان تو اچھا ہے نا۔۔۔ یہ لڑکی ناک تو نہیں کٹائے گی۔ صوفیہ تو کافی چھوٹی ہے۔۔۔
نادر نے صرف ایک بار جلتی آنکھوں سے میری کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔۔۔ بجیا، یہ کیا تماشہ ہے۔ چاروں طرف تم دونوں کے ہی ریڈیو بج رہے ہیں۔
’’تو بجنے دو نا۔۔۔‘‘
تب گول گول آنکھیں نکال کر صوفیہ نے میری طرف دیکھا تھا۔
’’ایک ریڈیو میرے لئے بھی لادو نا۔۔۔‘‘
’’پاگل، ایک ریڈیو نے ہی طوفان مچا دیا ہے۔۔۔‘‘ نادر ناگواری سے بولا۔
لیکن میں یہ کہانی کیوں سنا رہی ہوں۔ میری اور اشرف کی کہانی میں اگر کچھ دلچسپ ہے تو صرف یہ، کہ ہم نے لو میرج کی تھی۔ پھر اشرف دلی آ گئے۔ اور میں بھی دلی آ گئی۔۔۔ اور جیساکہ مہانگروں میں ہوتا ہے ایک دن خبر آئی۔ پپا نہیں رہے۔ دوسرے سال خبر آئی۔ ممی نہیں رہیں۔ شیخاواں اجڑ گیا۔ گھر ویران ہو گیا۔ بلند شہر سے رشتہ ٹوٹ گیا۔۔۔ نادر اور صوفیہ دونوں دلی آ گئے۔ کبھی کبھی احساس ہوتا، اشرف ان دونوں کی موجودگی سے پریشان تو نہیں ہیں۔ لومیرج کا یہ بھی ایک فائدہ تھا کہ اشرف کسی بھی بات پر بولتے یا ٹوکتے نہیں تھے۔ مگر من میں کچھ گانٹھیں تو پڑ ہی جاتی ہیں۔۔۔ کبھی جب اشرف کو، ان کی اپنی دنیا میں قید اور اداس دیکھتی تو دل کی بات ہونٹوں پر آ جاتی۔۔۔
’’وہ۔۔۔ ایک دن پرواز کر جائیں گے۔۔۔‘‘
’’ہاں۔۔۔‘‘
’’کون جانتا تھا، ممی پاپا اس طرح ہمیں ذمہ داریوں سے باندھ کر۔۔۔‘‘
اشرف کہیں اور دیکھ رہے ہوتے۔۔۔
’’تم ان دونوں کی موجودگی کو لے کر۔۔۔ نہیں میرا مطلب ہے۔۔۔‘‘
اشرف گہرا سانس کھینچ کر کہتے ہیں۔۔۔ ’’بچے ہیں۔۔۔ لیکن۔۔۔ پرائیویسی کے یہی دن ہیں۔ یہ دن واپس نہیں آتے۔۔۔ یہ دن چلے گئے تو۔۔۔‘‘
نہیں، مجھے احساس تھا، اشرف کی رومانی دنیا میں نئی نئی فتاسی اور خوبصورت کہانیوں کی ایک بڑی دنیا آباد ہے۔۔۔ وہ اکثر اس کا ذکر بھی کیا کرتے۔۔۔ مثلاً ہنسی ہنسی میں۔۔۔ ’’ثریا، یہ لباس کیوں بنایا گیا۔۔۔ شا دی کے بعد گھر میں میاں بیوی کو لباس نہیں پہننا چاہئے۔۔۔ نیچرل ڈریس۔۔۔ آخر ہم قدرتی لباس میں کیوں نہیں رہ سکتے۔۔۔؟ بس یہی تو چار دن ہوتے ہیں۔ ایک ساتھ سوئمنگ۔۔۔ ایک ساتھ۔۔۔‘‘
اشرف جب دن میں مجھے لے کر کمرہ بند کرنے کی کوشش کرتے تو وحشت سی ہوتی۔۔۔ صوفیہ کیا سوچےگی۔ بڑی ہو رہی ہے۔ پھر جیسے کمرے کے بند سناٹے میں کوئی کیڑا چپکے سے منہ نکالتا۔۔۔ اشرف ایکدم سے بوکھلا کر اُس سے الگ ہو جاتے۔ خود ہی آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیتے۔۔۔
’’جاؤ۔ تمہیں آزاد کرتا ہوں۔‘‘
مصنف سے ثریا مشتاق احمد کی مختصر سی گفتگو کے کچھ حصے،
’’تو گویا تم سمجھ رہی تھی۔۔۔ کہ کیڑے۔۔۔‘‘
’’ہاں۔۔۔‘‘
’’یقیناً یہ کیڑے صوفیہ نے بھی دیکھے تھے۔۔۔؟‘‘
’’اور نادر نے بھی۔۔۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’نادر کو اپنی خودداری کا احساس تھا۔۔۔ وہ ایک بوجھ کی طرح اس گھر میں رہنے کے خلاف تھا اور اسی لئے اپنے لئے ایک چھوٹی سی نوکری کا بندوبست کرتے ہی۔۔۔‘‘
’’اُس نے یہیں تمہارے قریب ایک فلیٹ لے لیا۔‘‘
’’ہاں۔ اور پھر صوفیہ کو بھی لے گیا۔۔۔‘‘
’’نہیں۔ شروع میں نہیں لیا گیا۔ اسے اپنی مجبوریوں کا احساس تھا۔ مگر۔۔۔ صوفیہ چپ چاپ رہنے لگی۔۔۔ سارا سارا دن گم صم۔۔۔ اپنے آپ میں کھوئی۔ کسی سے بولنا چالنا تک نہیں۔ بس جی چاہا تو کبھی کبھی ٹی وی کے آگے بیٹھ گئی۔ اُس کا بس چلتا تو سارا سارا دن بستر پر سوئی رہتی۔۔۔ مگر جیجو اور پرائے کے گھر میں رہنے کا احساس۔۔۔ اور اچانک اس دن۔۔۔ وہی کیڑا۔۔۔
’’کیڑا۔۔۔؟‘‘
ثریا مشتاق احمد اپنے بیان میں گم ہو گئی تھیں۔
ثریا مشتاق احمد کے بیان کا دوسرا حصہ
مٹیا مارفوسس۔ آپ نے یقیناً یہ کہانی پڑھی ہو گی۔ نہیں، میں کیڑے میں، یا کیڑا مجھ میں تبدیل ہو گیا، ایسی کوئی بات نہیں۔ مگر وہ تھا، یہیں۔۔۔ کمرے میں۔۔۔ صبح، سورج نکلنے سے پہلے ہی، بستر چھوڑتے ہوئے، میں نے اسے اشرف کی آنکھوں کے پاس رینگتے ہوئے صاف دیکھا تھا۔ نہیں، مجھے کہیں سے کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔ یقیناً وہ تھا۔ اور میرے بھگانے سے پہلے ہی۔۔۔
اس دن ارم کا برتھ ڈے تھا۔ اِرم کون۔ میری بیٹی۔ اشرف کی آنکھوں کا تارا۔ پانچ برس کی ارم کولے کر اشرف کی آنکھوں میں خوابوں کے اتنے جھومر اور فانوس دیکھے کہ ڈر ڈر جاتی۔۔۔ وہ ایک خوبصورت شیشے کا ایکوریم تھا، جو اشرف اُس کے لئے خصوصی طور پر لے کر آئے تھے۔۔۔ شیشے کی رنگین دنیا میں تیرتی سپنیلی مچھلیاں۔۔۔ ’’یہ سون مچھریاں ہیں۔۔۔‘‘ اشرف نے کہا تھا۔۔۔ ایک دن میری بٹیا اس سے بھی خوبصورت ایک سون مچھلی بن جائے گی۔۔۔ انسانی سون مچھلی۔ پھر اپنی ہی بات پر وہ زور سے ٹھہاکہ لگا کر ہنسے تھے۔ گھر سے باہر نکلتے ہوئے شام کی پارٹی کے بارے میں وہ کچھ تفصیلات بتا کر گئے تھے۔ بچوں کی فہرست بن گئی تھی۔ ڈرائنگ روم خوبصورت ڈھنگ سے سجانے کے لئے کہہ گئے تھے۔۔۔ ’’ کیڑا‘‘۔۔۔ ایک بار پھر اشرف کے دروازہ کے باہر نکلتے ہی میں نے کیڑے کی جھلک دیکھی تھی۔ کیڑا۔۔۔ میں چیختے چیختے رہ گئی۔۔۔ تب تک اشرف باہر نکل چکے تھے۔۔۔ چار بجے شام میں وہ واپس آئے تو ڈرائنگ روم کو ویسے کا ویسا پا کر وہ چیخ اٹھے۔
’’صوفیہ کہاں ہے۔۔۔‘‘
’’وہ۔۔۔ سورہی ہے۔۔۔‘‘
’’کیا۔ سات بجے تک محلے ٹولے کے بچے آ جائیں گے اور ابھی تک وہ سو رہی ہے۔ اتنے سارے لوگوں کو پالنے کا ٹھیکا لے لیا ہے تم نے۔ یہ سونے کا وقت ہے۔۔۔ اور تم۔۔۔ تم کیا کرتی رہی۔۔۔‘‘
اشرف غصے سے بول رہے تھے۔۔۔ کیڑا ان کی آنکھوں کی پتلیوں پر چپ چاپ بیٹھا تھا۔ کمرے سے باہر نکل کر دیوار سے سٹی ہوئی، تھر تھر کانپ رہی صوفیہ کو میں نے پہلی بار دیکھا۔ شاید اشرف نے بھی صوفیہ کا یہ رنگ دیکھ لیا تھا۔ ایک لمحے کو وہ ٹھہرے۔ پھر اپنے کمرے میں داخل ہو گئے۔ دروازہ زور سے بند کر لیا۔۔۔
نادر مشتاق احمد کا بیان
نہیں۔ میں اشرف بھائی کو قصوروار نہیں ماننا۔ یقیناً ہم نے ان کی زندگی میں سیندھ لگائی تھی۔ تقدیر کی مجبوری اپنی جگہ، لیکن اپنے اپنے فیوچر کے لئے کسی کی زندگی میں جبر کے طور پر داخل ہونے کا ہمیں کیا حق تھا۔۔۔ صوفیہ اُس دن کا فی روئی تھی۔ مجھے احساس تھا۔ شاید جان لیوا تنہائی کے اداس مکالمے اُسے بار بار پریشان کر رہے تھے۔ مجھے اسے ایک بھائی کی سطح پر، اس سناٹے سے باہر نکالنا تھا۔ اور میں نے اسے نکالا۔ دوسرے دن، یعنی اس ناخوشگوار حادثے کے دوسرے دن میں اسے اپنے گھر لے گیا اور ایک دو ماہ بعد اس کا داخلہ کمپیوٹر میں کرا دیا۔ شاید اُسے اپنی تنہائیوں کو بانٹنے کا موقع مل جائے۔ میں جانتا تھا۔ وہ کوئی دوست نہیں بناسکتی۔ بوائے فرینڈ تو بالکل نہیں۔ لیکن بڑی ہوتی صوفیہ کی ذمہ داری سے آزاد ہونے کا خیال مجھے زیادہ ستائے جا رہا تھا۔ کیونکہ مجھے امریکہ جانا تھا۔ میرے خواب امریکہ میں بستے تھے اور پھر شروع ہوا آنکھ مچونی کا کھیل۔۔۔ نہیں صاحب۔ پہلی بار احساس ہوا، کہ بجیا نے خود لڑکا پسند کر کے کتنی قابلیت دکھائی تھی۔۔۔ رشتہ دار، عزیز، جان پہچان والے، رشتہ گھر، شا دی ڈاٹ کام، مہندی ڈاٹ کام.. لڑکا دیکھنے کا سفر شروع ہوا تو جیسے ایک نئے بازار کو دیکھنے کا موقع ملا۔ نہیں صاحب۔ مجھے معاف کیجئے۔ یقیناً اس لفظ سے بہتر کوئی لفظ میرے پاس نہیں ہے۔ بازار۔۔۔ ہر کسی نے اپنے اپنے جانور کو پال یوس کر تیار کیا تھا۔ بقرعید کے موقع پر فروخت کرنے کے لئے۔۔۔ قیمتیں آسمان چھو رہی تھیں۔ اُس پر گھر گھرانہ، شجرہ نسب کی تفصیل۔۔۔ یہ بازار میرے لئے اور بجیا کے لئے نیا تھا۔ صوفیہ ہمیں گاڑی میں آتے جاتے ہوئے دیکھتی۔ بجیا کو فون پر باتیں کرتے ہوئے سنتی۔ پھر واپس آ کر ہمارے خاموش چہرے پر اپنی ادھ کھلی آنکھیں رکھ کر، واپس اپنے کمرے میں لوٹ جاتی۔۔۔ بجیا کو کبھی کبھی غصّہ آ جاتا۔۔۔
’’سب کے رشتے ہو جاتے ہیں۔ مگر یہاں۔۔۔‘‘
جیجو ایک لمبا سانس بھر کر کہے۔۔۔ ’’فکر کیوں کرتی ہو، آسمان سے ایک دن۔۔۔‘‘
وہ صوفیہ کے کمرے میں جاتے۔ اسے بانہوں کے سہارے واپس لے کر آتے۔۔۔ ’’کیا کمی ہے اس میں۔۔۔ اور ابھی عمر کون سی عمر نکلی جا رہی ہے۔۔۔‘‘ہوئی ہے۔۔۔‘‘ وہ ایک بار پھر ٹھنڈا سانس بھرتے۔ ہر چیز کا وقت مقرر ہے۔ کیوں صوفیہ۔ ایک دن چپکے سے ایک شاہزادہ آئے گا اور ہوا کے رتھ پر بیٹھا کر۔۔۔‘‘
’’نہیں۔ کوئی نہیں آئے گا۔‘‘ صوفیہ مسکرانے کی کوشش کرتی۔
’’آئےگا۔۔۔‘‘ جیجو میری طرف مڑتے۔ ’’نادر، اس قدر پریشان ہونے ضرورت نہیں ہے۔ صوفیہ سے زیادہ خوبصورت لڑکی میں نے کم کم دیکھی ہے، اس کا اعتراف کرتا ہوں۔ مگر کمی کیا ہے صوفیہ میں۔۔۔‘‘ جیجو ہنستے۔ بس ایک کمی ہے۔ خوبصورت کے ساتھ خوب سیرت بھی ہے اور خوب سیرت ’’لڑکیوں کے بازار ذرا ٹھنڈے ہیں۔۔۔‘‘
’’میں کیا خوب سیرت نہیں تھی۔۔۔‘‘ ثریا آنکھیں تریرنے کی کوشش کرتی تو جیجو فلک شگاف قہقہہ بلند کرتے۔۔۔’’ خود پر کیوں لیتی ہو۔ صوفیہ مختلف ہے۔ اور ایک دن۔۔۔
میں سوچتا تھا۔ ایک دن۔۔۔ ایک دن کیا ہوگا۔۔۔ کوئی معجزہ ہو جائے گا۔۔۔ چمتکار۔ امریکہ بار بار خوابوں میں منڈراتا ہے۔ نہیں ہنسیے مت۔۔۔ پریتی زنٹا، منموہن سنگھ اور ہمارے نیتاؤں سے زیادہ کلنٹن، بش اور کیری مجھے اپنے لگتے تھے۔ جینفر لوپیز کے خیالوں میں، میں زیادہ ڈوبا رہتا تھا۔۔۔ ہاں، یاد آیا۔ ایک لڑکا اور آیا تھا۔ فریاد عارف۔ لدھیانہ کا۔ قد پانچ فٹ دس انچ۔ عمر چالیس سال۔ باہر رہنے کا، دس برس کا تجربہ تھا۔ عمر زیادہ تھی تو کیا ہوا۔ یہ رشتہ ہمیں نیٹ سے ملا تھا۔ صوفیہ کی تصویر اور بایوڈاٹا لڑکے کو پسند آیا تھا۔ اُس کی تصویر بھی نیٹ سے ہم نے نکال لی تھی۔ شکل اچھی نہیں تھی۔ لیکن کیا شکل ہی سب کچھ ہوتی ہے۔۔۔ ہاں، اُس کے ہونٹوں کے پاس ایک داغ تھا۔۔۔ پتہ نہیں، کس چیز کا داغ تھا۔ جلے کا یا۔۔۔ مگر داغ تھا۔۔۔ ڈرتے ڈرتے ہم نے تصویر صوفیہ کے حوالے کی۔ مگر تصویر دیتے ہوئے یقیناً ہمارے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ نظر جھکی ہوئی تھی۔
صوفیہ مشتاق احمد کا بیان
تصویر میں ہاتھ میں لیتے ہی ہنس پڑی تھی۔ یہ پاپا کے کوئی دوست ہیں کیا۔۔۔ نہیں، کم از کم جیجو مجھ سے اتنا برُا مذاق نہیں کر سکتے۔ جیجو کے گھر سے باہر آنے کے بعد بھی میں جیجو کے لئے ذرا بھی خفا نہیں تھی۔ یقیناً وہ سب سے زیادہ مجھے پہچانتے تھے۔ اور یقیناً میرے لئے سب سے زیادہ جنگ بھی، وہی لڑتے تھے اور خاص کر ایسے موقع پر، جب کمرے میں یکایک کالی کالی بدلیاں چھا جاتیں۔۔۔ پھر جیسے تیز تیز آندھیوں کا چلنا شروع ہو جاتا۔ نہیں، میں نے تصویر دوبارہ دیکھی۔۔۔ اور اچانک چہرے کا طواف کرتی آنکھیں داغ کے نشان کے پاس آ کر ٹھہر گئیں۔ ہونٹ کے نیچے کا حصہ۔۔۔ تصور اور خیالوں کی وا دیوں میں، بوسے کے لئے سب سے خوبصورت جگہ۔ میں تو اس جگہ کا بوسہ بھی نہیں لے سکتی۔ میں ہنس رہی تھی۔ پاگلوں کی طرح ہنس رہی تھی۔ کمرے میں دھند بڑھ رہی تھی۔ شاید باہر جیجو، بجیا اور نادر بھائی نے میرے ہنسنے کی آوازیں سن لی تھیں۔۔۔
’’صوفیہ۔‘‘
دروازے پر تھاپ پڑ رہی تھی۔
نادر غصے میں تھے۔۔۔ ’’دروازہ کیوں بند کر لیتی ہو۔‘‘
بجیا کی آنکھوں میں ایک لمحے کو ناگواری کے بادل لہرائے۔۔۔ ’’ہم نے ابھی رشتہ منظور کہاں کیا ہے۔ صرف تم سے رائے پوچھی ہے۔۔۔
’’نہیں۔ وہ۔۔۔ کیڑا۔‘‘
دروازہ کھولتے ہوئے میری آنکھیں وحشت میں ڈوبی تھیں۔۔۔ جیجو نے سہارا دیا۔۔۔ صوفے تک لائے۔۔۔ کچھ ہی دیر میں مکالمے بدل گئے۔
’’مگر کیڑا۔۔۔‘‘
نادر نے بجیا کی طرف دیکھا۔۔۔ ’’کیڑے بڑھ گئے ہیں۔ کیوں۔ رات بھر کاٹتے رہتے ہیں۔ دوا کا چھڑکاؤ کرو۔ یا گڈ نائٹ لگاؤ۔ مگر کیڑے نہیں بھاگتے۔۔۔‘‘
بجیا یعنی ثریا مشتاق احمد نے پلٹ کر میری طرف دیکھا۔ ہونٹوں پر ایک طنز بھری مسکان تھی۔
’’آپ یقین جانیے، کوئی تھا۔ جو دیواروں پر رینگ رہا تھا۔ ایک دم سے کمرے کی دھوپ اُتر گئی۔ تاریکی چھا گئی ہے۔۔۔ کمرے میں کہاسے بھر گئے اور۔۔۔ میں بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر۔۔۔ میں نے دیکھا۔۔۔ جیجو آہستہ آہستہ میری طرف دیکھ رہے تھے۔۔۔ پھر اُن کے ہونٹوں پر ایک مصنوعی مسکراہٹ داخل ہوئی۔۔۔
’’ایک ستارا آئے گا۔۔۔‘‘
’’ستارے آسمان سے آتے آتے لوٹ گئے۔۔۔‘‘ یہ بجیا تھی۔
’’ہاں، لیکن گھبراؤ مت، ایک ستارہ آئےگا اور یوں اچھل کر تمہاری جھولی میں جا گرےگا۔۔۔‘‘ یہ جیجو تھا۔۔۔ ہونٹوں پر ہنسی۔ پھر وہ تمہاری آنکھوں میں، کبھی ہونٹوں پر آکر چیخےگا۔۔۔ یہ میں ہوں۔ پاگل۔ پہچانا نہیں مجھے۔ تمہاری قسمت کا ستارہ۔۔۔
’’اس کے چہرے پر دھوپ بہت تھی۔ تم نے دیکھا نا‘‘ بھائی نظر نیچی کئے بہن کو ٹٹول رہا تھا۔
’’میں جگنو تلاش کرنے گئی تھی۔ راستہ بھٹک گئی۔۔۔‘‘یہ وہ تھی۔ اُس کی آواز اندر کے روشن دان سے بلند ہوئی اور اندر ہی اندر گھٹ گئی۔
جیجو کا بیان
دراصل اس 40 سال کے ادھیڑ مرد کی تصویر دیکھ کر مجھے خود بہت غصہ آیا تھا۔۔۔ نادر اور ثریا، رشتہ کے لئے مجھے کم ہی لے جاتے تھے۔ دراصل وہ اس ’’مہرے‘‘ کو آخری وقت کے لئے بچا کر رکھنا چاہتے تھے اور کسی خاص موقع پر ہی خرچ کرنا چاہتے تھے۔ یہ سب میرے لئے بھی نیا تھا۔ کیونکہ ہر برس بدلتے کلینڈر کے ساتھ ہی، میں صوفیہ کو دیکھ کر اداس اور پریشان ہوا ہا جا رہا تھا اور آپ سمجھ سکتے ہیں، خود صوفیہ کی کیا حالت ہوگی۔۔۔ میرے لئے یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ مسلمانوں کے یہاں، ایک خوبصورت جوان لڑکی کی شا دی کو لے کر اتنی ساری الجھنیں سامنے آ سکتی ہیں۔۔۔ گھر گھرانہ اچھا۔ خاندان سیّد۔ مگر کسی کو لڑکی کا قد کچھ کم لگتا۔ کسی کو عمر کچھ زیادہ۔ کبھی کبھی جی چاہتا کہ پوچھنے والوں کا گریبان پکڑ کر کہوں، کہ اٹھارہ سال سے رشتہ تلاش کرتے ہوئے تم لوگوں نے اسے 23سال کا کر دیا ہے اور اب۔۔۔ شاید میرے اسی غصے کی وجہ سے نادر اور ثریا مجھے کبھی اپنے ساتھ نہیں لے گئے۔ مگر۔۔۔ کبھی کبھی اپنی بڑی ہوتی ارم کو دیکھ کر گہری سوچ میں گرفتار ہو جاتا۔ کیا میرے ساتھ بھی۔۔۔ اور ہوا یوں، کہ اچانک اُس دن ارم کو دیکھا تو ایکدم سے چونک گیا۔۔۔ ارم غائب تھی۔ ارم میں صوفیہ آ گئی تھی۔۔۔
مصنف کا بیان
قارئین، ایک بار پھر مداخلت کے لئے معافی چاہوں گا۔ کہانی شروع ہوئی تو سوچ کے دائرے پھیلتے چلے گئے۔ یہ میں کہا ں جا رہا ہوں۔ کیا یہ بھی کوئی کہانی ہو سکتی ہے۔ ایک مسلمان لڑکی کو لڑکے کی تلاش ہے۔ عمر 23 سال، خوبصورت، تعلیم یافتہ۔۔۔ تہذیب کی اتنی صدیاں پار کرنے کے بعد بھی، چوتھی دنیا کے، ہتھیاروں کی ریس میں آگے نکلنے والے ایک بڑے ملک میں، یہ مسئلہ ایک کہانی کا جزو بن سکتا ہے، میں نے کبھی سوچا نہیں تھا۔۔۔
اس دن، میں دوبارہ نادر مشتاق احمد کے گھر گیا۔ دروازہ کے پاس پہنچ کر بیل پر انگلی رکھی۔ دروازہ کھولنے والی وہی تھی۔
’’آئیے۔‘‘
’’نادر؟‘‘
’’وہ باہر گئے ہیں۔‘‘
صوفیہ، صوفے پر دھنس گئی۔ کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد بولی۔۔۔
’’چائے بناؤں!‘‘
’’نہیں۔ ابھی رہنے دو۔‘‘
میں آہستہ آہستہ آنکھیں گھماتا کمرے کی ویرانی کا جائزہ لے رہا تھا۔ دیوار پر قطار میں اڑتی چار چڑیائیں کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہی تھیں۔ تیسری والی چڑیا کی قطار ٹوٹ گئی تھی۔ تیسری چڑیا کیل سے جھول رہی تھی۔ پتہ نہیں کب سے۔ دیوار پر کنارے مشتاق احمد کی تصویر لگی تھی۔ تصویر پر ذرا بھی گرد نہیں تھی۔ جیسے ابھی ابھی گرد صاف کی گئی ہو۔ لیکن کمرے کی باقی چیزیں۔۔۔
’’اندھیرا ہے‘‘ میں آہستہ سے بولا۔ جبکہ دوپہر کے تین بج رہے تھے۔ کھڑکی کے پاس پردہ پڑا تھا۔
’’اِس گھر میں ہمیشہ اندھیرا رہتا ہے۔۔۔‘‘ صوفیہ آہستہ سے بولی۔
’’اور وہ ڈراکیولا۔۔۔‘‘
میں آہستہ آہستہ کھڑکی کے پاس بڑھا۔۔۔
’’نہیں، یہاں نہیں۔۔۔‘‘ یہاں میرے ساتھ آئیے۔ میرے کمرے میں۔۔۔‘‘
وہ تیزی سے اٹھی۔۔۔ مجھے لے کر اپنے کمرے میں آ گئی۔۔۔ سنگل بیڈ کا دیوان پڑا تھا۔۔۔ چادر کئی دنوں سے بدلی نہیں گئی تھی۔۔۔ کمرہ بے رونق تھا اور یقیناً اس کمرے میں کھڑکی کے راستے گھنے کہرے، داخل ہو جاتے ہوں گے۔۔۔
’’یہاں۔۔۔ یہاں سے۔ یہ دیوار جو ہے۔۔۔ آپ دیکھ رہے ہیں نا۔۔۔‘‘
’’مگر یہاں تو کوئی قبرستان نہیں ہے۔‘‘
’’آہ۔ نہیں ہے۔۔۔‘‘ صوفیہ اپنے بستر پر بیٹھ گئی۔۔۔ ’’میں نے کب کہا، کہ یہاں قبرستان ہے۔ مگر بن جاتا ہے۔ رات کے وقت۔ اپنے آپ بن جاتا ہے۔۔۔ دھند میں ڈوبا ہوا ایک قبرستان۔ ڈھیر ساری قبریں ہوتی ہیں۔ ایک کھلا ہوا ’’کوفن‘‘ ہوتا ہے۔ وہ یہاں۔۔۔ یہاں دیواروں پر رینگتا ہوا، کھڑکی سے اچانک میرے کمرے میں کود جاتا ہے۔۔۔‘‘
’’یقیناً، وہم۔۔۔ اور وہم کا تعلق تو۔۔۔‘‘
’’مجھے پتہ ہے۔ وہم ہے میرا۔ مگر کیا کروں۔ وہ رات میں، آپ یقین کریں میرے کمرے میں ہوتا ہے۔۔۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’اب یہ بھی بتانا پڑےگا بھلا۔ خون پیتا ہے۔۔۔ یقین نہیں ہو، تو یہ داغ دیکھئے۔‘‘ اس نے اپنی گردن دکھائی۔ گردن پر یقیناً نیلے داغ موجود تھے۔
’’کوئی یقین نہیں کرتا۔ میں بھی مانتی ہوں، وہم ہے مگر۔ وہ ہے۔ وہ آتا ہے۔۔۔ اور۔۔۔‘‘
میں نے کہانی بدل دی۔ ’’اوہ۔۔۔ تم نے بتایا تھا۔ تم بار بار مرتی تھی۔۔۔
’’کون نہیں مرےگا ایسے۔۔۔ جب آپ بار بار اسے سجا کر باہر لے جاتے ہوں۔ یا کبھی کبھی سج دھج کر گھر میں ہی نمائش یا میلہ لگا دیتے ہوں۔ ایک حد ہوتی ہے۔ کوئی بھی کتنی بار مرتا ہے۔ کتنی بار مرسکتا ہے کوئی۔ میں تو ہر بار، ہر پل۔۔۔‘‘
صوفیہ کہتے کہتے رک گئی تھی۔۔۔
’’مگر اُس دن نہیں مری۔ اس دن۔ میں نے سوچ لیا تھا اور مطمئن تھی۔‘‘
’’اس دن۔۔۔‘‘
’’ارے وہی۔ اِن ڈسنٹ پروپوزل۔‘‘ وہ کہتے کہتے رُکی۔۔۔ ایک ہنسی چہرے پر شعلے کی طرح کوندی۔ پروپوزل، کبھی بھی ان ڈسنٹ نہیں ہوتا۔ مگر بجیا اور بھیا کسی ساتویں عجوبے کی طرح اس پروپوزل کو لے رہے تھے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ میں پہلی بار کمرے میں کھکھلا کر ہنسی تھی۔ ’’اب مزہ آئےگا۔‘‘ وہ ٹھہری۔۔۔ پھر بولی۔ اب کسی کو کیا پتہ۔ میرے جسم میں کتنے انگارے اکٹھے ہو گئے ہیں۔ اب تو شاید سرد بھی ہونے لگے ہوں یہ انگارے۔۔۔ نہیں، سرد نہیں۔ بڑھتے بڑھتے پورے جسم میں پھیل گئے ہیں۔ پھیلتے پھیلتے۔۔۔ آپ نہیں سمجھیں گے۔‘‘ اُس نے گہرا سانس لیا۔
’’لیکن پروپوزل؟‘‘
’’وہ بھی نیٹ سے برآمد ہوا تھا۔ صوفیہ کے ہونٹوں پر ہنسی تھی۔۔۔ ’’ عمر بھی زیادہ نہیں تھی۔ تھکے ہارے لوگوں کے لئے یہ بھی ہاتھ آیا ایک موقع تھا مگر۔۔۔ جس وقت بجیا اور بھائی اُس سے ملنے ہوٹل گئے، وہ ہوٹل کی لابی میں بیٹھا سگریٹ کے گہرے گہرے کش لے رہا تھا۔ یہ بجیا نے ہی بتایا۔
اِن ڈسنٹ پروپوزل
ہوٹل کی لابی میں اس وقت زیادہ لوگ نہیں تھے۔ نادر اور صوفیہ اس کے سامنے بیٹھے تھے۔ وہ سگریٹ کے گہرے گہرے کش لے رہا تھا۔ ظاہر ہے، وہ لڑکی کی تصویر دیکھ چکا تھا۔ لیکن اُس نے ملنے کا تجسس نہیں دکھایا تھا۔ سگریٹ کے گول گول مرغولے کے درمیان اُس کے چہرے کے تاثر کو پرکھا نہیں جا سکتا تھا۔۔۔
نادر نے گلہ کھکھارتے ہوئے اسے متوجہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس کی انگلیوں میں، مہنگی سونے کی انگوٹھیاں تھیں۔ عام طور پر مسلمانوں مردوں میں سونا پہننے کا رواج نہیں ہے۔ گلے میں بھی سونے کا ایک چین پڑا تھا۔ یقیناً اُس کی منشا یہ تھی کہ سامنے والا اسے کسی رئیس سے کم نہ سمجھے۔
ثریا نے پہلو بدلا اور ناگوار آنکھوں سے نادر کو دیکھا۔۔۔ اس نے سگریٹ آرام سے ختم کیا۔ ایش ٹرے میں سگریٹ کے باقی ٹکرے کو مسلا۔ پھر مسکرایا۔۔۔
’’معاف کیجئےگا۔ سگریٹ میری مجبوری ہے۔‘‘
’’کیوں نہ ہم معاملے کی بات کریں۔‘‘ نادر نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
وہ ایک بار پھر مسکرایا۔۔۔ ’’مجھے بھی جانے کی جلدی ہے۔ دراصل میں سوچ رہا تھا۔۔۔ نہیں، جانے دیجئے۔ کسی بھی چیز کو تاڑ کی طرح کھینچنے میں میری دلچسپی نہیں ہے۔ بھاگتی دوڑتی دنیا میں الجبرے کے فارمولے کی طرح میں نے زندگی گزاری ہے۔ دو پلس دو برابر چار۔۔۔ سمجھ گئے نا۔ میرا پروپوزل ہو سکتا ہے، آپ کو پسند نہیں آئے۔ مگر سوچئےگا۔ مجھے کوئی جلدی نہیں ہے۔ نہیں پسند آئے تو آپ جا سکتے ہیں۔ کوئی جہیز لیتا ہے۔ کسی کی کوئی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔ کسی کی کوئی۔۔۔ میرے پاس سب کچھ ہے۔ خود سے حاصل کیا ہوا۔۔۔ اس لئے مجھے کچھ نہیں چاہئے۔‘‘ وہ ایک لمحے کو ٹھہرا اور دوسرے ہی لمحے جیسے نشانہ سادھ کر اس نے گولی داغ دی۔۔۔
’’ایک دوسرے کو اچھی طرح پر سمجھنے کے لئے بہتر ہے کہ ہم ایک رات ساتھ ساتھ گزاریں۔‘‘
اس نے ہمارے تاثرات کی پرواہ نہیں کی۔ جملہ ختم کرنے ہی اٹھا اور دوسری طرف منہ کر کے دوسرا سگریٹ سلگا لیا۔ لائٹر کی خوبصورت ٹیون کے ساتھ ایک شعلہ لپکا تھا، جس کی طرف پلٹ کر دیکھنے کی ہم نے ضرورت محسوس نہیں کی۔
صوفیہ کا جواب
واپس گھر لوٹنے تک جیسے یہ دنیا ایک چھوٹے سے سیپ میں بند ہو چکی تھی۔ صوفے پر برسوں کی بیمار کی طرح ثریا دھنس گئی۔ دوسرے صوفے پر نادر نے اپنے آپ کو ڈال دیا۔ آنکھیں بند کر لیں۔ دل و دماغ پر پتھراؤ چل رہے تھے۔۔۔ کب کس وقت صوفیہ آ کر قریب میں بیٹھ گئی، پتہ بھی نہیں چلا۔ مگر جیسے ساری دنیا الٹ پلٹ ہو چکی تھی۔۔۔ سیپ کے منہ کھل گئی تھے۔ یا سیپ، لہروں کی مسلسل اُچھال کے بعد ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گئی تھی۔
’’کیوں، کیا ہوا۔۔۔؟‘‘
یہ صوفیہ تھی۔ معمول کے خلاف اس کے ہونٹوں پر ایک ہنسی بکھری ہوئی تھی۔۔۔ جیسے وہ یقیناً اس موسم کی عادی ہو چکی ہو۔۔۔!
جیجو پاس میں آ کر بیٹھ گئے۔ صوفیہ نے جیجو کی طرف دیکھا اور ایک بار پھر کھکھلا کر ہنس دی۔
’’یہ آتش بازی بھی پھس ہو گئی۔ کیوں جیجو۔۔۔؟‘‘
لیکن یہ سچ نہیں تھا۔ نادر مشتاق احمد اور ثریا مشتاق احمد کی آنکھوں میں حساب کتاب کا سلسلہ جاری تھا۔۔۔
’’بتا دوں؟‘‘ یہ نادر مشتاق احمد تھا۔
’’نہیں، جیجو نے درد کی تاب نہ لا کر آنکھیں بند کر لیں۔۔۔
’’بتانے میں حرج ہی کیا ہے۔۔۔‘‘ ثریا کی آواز دبی دبی تھی۔۔۔
’’نہیں۔ مجھے بتائیے۔‘‘ صوفیہ اور قریب آ گئی۔ میں جانتی ہوں مجھے کوئی پسند نہیں کرسکتا۔ میں کتنی بار آپ لوگوں سے کہہ بھی چکی ہوں۔ مگر۔۔۔ اﷲ کے واسطے بتایے ہوا کیا ہے۔۔۔‘‘
اور پھر، جیسے ایک کے بعد ایک آتش بازی چھوٹتی چلی گئی۔ آتش بازیوں کا کھیل رُکا تو دوسرا بم کا گولہ صوفیہ نے داغ دیا۔
’’میں تیار ہوں۔ اسے آنے دیجئے۔ کب بلایا ہے۔۔۔‘‘ ثریا کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے، اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔۔۔ میں تھک گئی ہوں۔ اب حوصلہ نہیں ہے، اب یہ کھیل ختم ہو جانے دیجئے۔ اب ایک آخری کھیل۔۔۔ ہم سب کے فائدے کے لئے۔ وہ پھر رُکی نہیں۔ دوسرے ہی لمحے وہ نگاہوں سے اوجھل ہو گئی۔۔۔
ایک خوفناک کہانی کا انت
قارئین۔ کوئی دنیا اس سے زیادہ خوبصورت اور کوئی دنیا اس سے زیادہ بدصورت نہیں ہو سکتی۔ یہ میرا مانتا ہے۔ اور شاید یہ اسی لئے بطور مصنف میں اس کہانی کا گواہ رہا۔۔۔ بطور مصنف میں نے اپنے آپ کو بھی اس کہانی میں شامل کیا۔۔۔ مجھے نہیں معلوم، ثریا اور نادر نے صوفیہ کی رضامندی کو اپنی منظوری کی ہری جھنڈی کیسے دے دی۔ یا پھر صوفیہ اس پروپوزل کے لئے مان کیسے گئی۔ اس ترقی یافتہ ملک میں شا دی کے اس بھیانک بازار کا تصور میرے لئے ممکن نہیں ہے۔ شاید اسی لئے اس خوفناک کہانی کا انت سنانے کا حوصلہ مجھ میں نہیں ہے اور اسی لئے اب میں آپ کے درمیان سے رخصت ہوتا ہوں۔۔۔ جنوری ماہ کی بھیانک ٹھنڈک اپنے عروج پر تھی۔ اس دن کی صبح عام صبح جیسی نہیں تھی۔ مگر صوفیہ مطمئن تھی۔ وہ شان سے گانا گنگناتی ہوئی اٹھی۔۔۔ دوپہر تک سرد لہری میں اضافہ ہو چکا تھا۔۔۔
گھڑی کی تیزی سے بڑھتی سوئیاں ایک نئی تاریخ لکھنے کی تیاریاں کر رہی تھیں۔
ڈرائنگ روم میں ایک دوسرے کو گھیر کر سب بیٹھ گئے تھے۔ جسے کسی میّت میں بیٹھے ہوں۔ جنازہ اٹھنے میں دیر ہو۔۔۔ ایک ایک لمحہ برسوں کے برابر ہو۔ پھر جیسے ہونٹوں پر جمی برف، بھاپ بن کر پگھلی۔۔۔
’’آہ، یہ نہیں ہونا چاہئے تھے۔۔۔، یہ جیجو تھا۔
’’کیا ہوگا؟‘‘ ثریا کی آنکھوں میں اڑ کر وہی کیڑا آ گیا تھا۔۔۔
نادر نے بات جھٹکی۔۔۔ رات میں یہ کیڑے پریشان کر دیتے ہیں۔‘‘
’’شی۔۔۔ وہ آ رہی ہے۔۔۔‘‘ جیجو نے مسکرانے کی ناکام کوشش کی۔۔۔ ’’اور جان لو، وہ کوئی کیڑا نہیں ہے۔‘‘
اور جیسے وقت تھم گیا۔۔۔ صوفیہ ایک لمحے کو ان کے سامنے آ کر رکی۔۔۔
’’آپ لوگ۔۔۔ آپ لوگ اتنے پریشان کیوں ہیں۔‘‘
نہیں۔ یہ وہ لڑکی تھی ہی نہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر ڈر جانے والی۔۔۔ پتوں کی طرح بکھر جانے والی۔۔۔ اس کی ساری تیاریاں مکمل تھیں۔۔۔
وقت آہستہ آہستہ قریب آ رہا تھا۔
اس نے پلٹ کر جیجو کی طرف دیکھا۔۔۔ نہیں یہ جیجو نہیں تھے۔ جیجو کی جگہ کوئی لاش تھی۔ چہرے پر، کاٹو تو خون کا نشان نہیں۔ آنکھیں بےحرکت۔۔۔
اس نے پلٹ کر بھائی کی طرف دیکھا۔ بھائی ہمیشہ کی طرح نظریں نیچی کئے، اپنے آپ سے لڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔
بہن نے چہرہ گھما لیا تھا۔ اس لئے وہ بہن کے جذبات کو نہیں دیکھ سکی۔۔۔
پھر جیسے کمرے میں ایٹم بم کا دھماکہ ہوا۔۔۔
’’پانچ منٹ باقی رہ گئے ہیں بس، وہ آتا ہو گا۔۔۔ میں کمرے میں ہوں۔ آپ اسے کمرے میں ہی بھیج دیجئےگا۔‘‘
اس کی آواز نپی تلی تھی۔
پھر وہ وہاں ٹھہری نہیں۔ سیڑھیاں چڑھتی ہوئی اپنے کمرے میں آ گئی۔۔۔
اور انت میں کہانی
کوئی امتحان ایسا بھی ہو سکتا ہے، اس نے کبھی سوچا نہیں تھا۔ بچپن سے لے کر آج تک اپنی خاموشی کے ریگستان میں چپ چپ سلگتی رہی۔ کسی نے بھی اس کے اندر کی آواز کو کب سنا تھا۔ کسی نے بھی اس کے اندر کی لڑکی کو کب دیکھا تھا۔ خود اس نے بھی نہیں۔ نہیں۔ یہ سچ ہے۔ ایک عرصہ سے وہ اپنے آپ سے نہیں ملی۔ کمپیوٹر کوچنگ سے گھر اور گھرسے اپنے اداس کمرے کا حصہ بنتے ہوئے بس وہ خلاء میں ڈوبتے ابھرتے بھنور کو دیکھنے میں ہی صبح سے شام کر دیتی۔۔۔ کمرے کے آسیب چپ چپ اُسے گھیر کر بیٹھ جاتے۔۔۔ اسے سمجھنے والا کون تھا۔ اسے پڑھنے والا کون تھا۔۔۔ وہ عشق نہیں کرسکتی تھی۔ وہ اپنے لئے کوئی لڑکا پسند نہیں کرسکتی تھی۔ انٹرنیٹ پر چیٹنگ کرتے ہوئے اس کے ہاتھ کانپتے تھے۔ کسی لڑکے سے دو منٹ چیٹنگ کے بعد ہی اُس کی سانس دھونکنی کی طرح چلنی شروع ہو جاتی۔ بدن کانپنے لگتا۔ سائبر کیفے کی ایک ایک شئے گھومتی ہوئی نظر آتی۔ وہ بدحواس پریشان سی گھر آتی تو۔۔۔‘‘
لیکن گھر کہاں تھا۔ ماں باپ ہوتے تو گھر ہوتا۔ بہن اور جیجو کا گھر، گھر کہاں ہوتا ہے۔ بھائی کا گھر، گھر کہاں ہوتا ہے۔ گھر میں تو سپنے رہتے ہیں۔ سپنوں کے ڈھیر سارے ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل اسٹار۔۔۔ یہ چھوٹے چھوٹے تارے تو ہتھیلیوں سے چھوٹ چھوٹ کر گرتے رہے۔ اندھیرے کمرے میں آسیبی مکالمے رہ گئے تھے۔۔۔
’’کھانا بنایا۔۔۔؟‘‘
نہیں۔
’’کیوں؟‘‘
خواہش نہیں ہوئی۔۔۔
’’خواہش یا۔۔۔؟‘‘
ہونٹوں پر ایک ناگوار ساتاثر ابھرا۔ کیا بس اِسی کام کے لئے رہ گئی ہوں۔۔۔
’’ہو سکتا ہے۔ بھائی نے یہی سوچا ہو۔‘‘
’’نہیں۔ بھائی اس محبت کرتا ہے۔‘‘
’’سارے بھائی محبت کرتے ہیں مگر۔۔۔‘‘
’’میرا بھائی۔۔۔‘‘ وہ کہتے کہتے رُک جاتی۔۔۔
تمہارا بھائی ہر لمحہ، تمہارے اندر ہوتا ہے۔ جانتی ہو کیوں؟
’’نہیں۔‘‘
’’اس کے پاس سپنے ہیں۔۔۔‘‘
’’تو۔۔۔؟‘‘
’’وہ اڑنا چاہتا ہے۔ اڑ کر اپنے لئے بھی سپنے دیکھنا چاہتا ہے۔ مگر تم۔ افسوس۔ تم نے اس کے سپنوں کو راکچھس کے ان دیکھے قلعے میں نظر بند کر رکھا ہے۔ وہ تم سے چھٹکارا چاہتا ہے۔۔۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ ایک جھٹکے سے اُٹھ کر وہ آئینہ کے سامنے کھڑی ہو گئی۔۔۔‘‘ جھوٹ بولتے ہو تم۔ کوئی چھٹکارا نہیں چاہتا۔ سب پیار کرتے ہیں مجھ سے۔ ہاں، بس، عمر کے پنکھ پرانے پڑ رہے ہیں۔ پنکھ پرانے ہو جائیں تو کمزور ہو جاتے ہیں۔ میں ایک بے ارادہ سڑک بن گئی ہوں۔ کوئی گزرنا ہی نہیں چاہتا۔‘‘
’’نہیں ڈرو مت۔‘‘
کمرے کے آسیب اسے گھیر رہے ہیں۔ خود سے باتیں کرتے ہوئے سارا دن گزار لیتی ہو۔ پتہ ہے بہن کیا کہتی ہے؟
’’نہیں۔‘‘
’’بھائی پر ناراض ہوتی ہے۔ اسی لئے تو تمہیں وہاں سے نکالا گیا۔ تم کوئی کام ہی نہیں کرتی تھی۔ بس سوتی رہتی تھی۔‘‘
’’سوتی کہاں تھی۔ میں تو خود میں رہتی تھی۔ خود سے لڑتی تھی۔‘‘
’’کیا ملا۔ بہن نے بھائی کے یہاں بھیج دیا۔‘‘
’’بھیجا نہیں۔ میں خود آئی۔۔۔‘‘ کہتے کہتے ایک لمحے کو وہ پھر رُک گئی۔۔۔
’’دراصل تم ٹیبل ٹینس کی بال ہو۔۔۔ سمجھ رہی ہونا، چھوٹی سی ٹن ٹن۔۔۔ بجنے والی بال۔۔۔ لیکن اس بال کو راستہ نہیں مل رہا ہے۔۔۔
’’کیا کروں میں۔۔۔‘‘
’’افسوس، تم ابھی کچھ نہیں کر سکتی۔۔۔ تم صرف آگ جمع کرتی رہو۔ سن رہی ہو نا۔ آگ۔۔۔ اپنے آپ کو برف کی طرح سردمت پڑنے دو۔ سرد پڑ گئی تو۔۔۔ لاش کو اپنے گھر کون رکھتا ہے۔ وہ بھی بدبو دیتی لاش۔۔۔‘‘
ٹیبل ٹینس بال کی طرح ادھر ادھر لڑھکنے کا سلسلہ جاری رہا۔۔۔ پتہ نہیں، وہ کتنی بار مری۔ پتہ نہیں وہ کتنی بار زندہ ہوئی۔ بہن اور بھائی کے ہزاروں سوالوں سے لاتعلق، اپنے ہی آسیب سے لڑتی لڑتی تھک گئی تو اُس ’’اِن ڈسنٹ پروپوزل‘‘ کے لئے اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔
اور یہ حیرت کرنے والی بات تھی۔۔۔ پہلی بار اسے لگا۔ کمرے میں آسیب اکٹھا نہیں ہوئے ہوں۔ پہلی بار لگا، اُس کے اَن کہے مکالموں کی بھاپ سے کمرے میں ’’کہاسے‘‘ نہیں جمع ہوئے ہوں۔۔۔ کمرے میں خوف کی چادر ہی نہیں تنی ہو۔۔۔ کمرے میں ڈھیر سارے چمگادڑ نہیں اکٹھا ہوئے ہوں۔ جیسے بہن، دھیرے سے ہنستی ہوئی ایک دن بھائی سے بولی تھی۔۔۔ آسیب، وہاں آسیب رہتے ہیں سمجھاؤ اسے۔ کمرے کو اپنی خاموشی سے اس نے آسیب زدہ بنا دیا ہے اور یقیناً اُسے بھائی کا چہرہ یاد نہیں۔ بھائی نے ہمیشہ کی طرح نظریں جھکا کر کچھ دھیرے دھیرے کہنے کی کوشش کی ہو گی۔
مگر آج۔۔۔
آوازوں کے تیر غائب تھے۔ شب خونی ہوا کا پتھراؤ گم تھا۔۔۔ آئینہ میں وہ پاگل لڑکی موجود نہیں تھی۔ جسے بار بار بہن کی پھٹکار سننی پڑتی تھی۔ نہیں لڑکی۔ ایسے نہیں۔ مانگ ایسے نکالو۔ لباس، کپڑے کیا ایسے پہنے جاتے ہیں۔ زلفیں کیا ایسے سنواری جاتی ہیں۔
وہ دھیرے سے ہنسی۔۔۔
آئینہ والی لڑکی جو بھی ہنسی۔
پھر وہ تیز تیز ہنستی چلی گئی۔۔۔
کمرے کی دیوار گھڑی پر ایک اچٹتی نظر ڈال کر وہ کمرے سے ملحق باتھ روم میں چلی گئی۔ کمرے کا دروازہ اس نے ’’اڈگا‘‘ کر رکھا تھا، تاکہ ’’اُس کی‘‘ آہٹ کی اطلاع اسے باتھ روم میں مل سکے۔ باتھ روم کا ٹائلس ذرا سا گندہ ہو رہا تھا۔ اس نے شاور کے نیچے کے دونوں نل کھول لیے۔ گیزر چلا دیا۔ گرم گرم پانی جب تلووں سے ہو کر بہنے لگا تو وہ ٹائلس کو اپنے بےحد ملائم گورے ہاتھوں سے تیز تیز رگڑ نے لگی۔ ٹائلس کے چاروں طرف صابن کے جھاگ پھیل گئے تھے۔ اُس نے اپنے لئے ایک بے حد خوبصورت اور سینسیشنل نائیٹی کا انتخاب کی تھا۔ یہ نائیٹی سیاہ رنگ کی تھی۔ جو اس کے گورے ’’جھنجھناتے‘‘ بدن سے بے پناہ میچ کھاتی تھی۔ نائیٹی اس نے باتھ روم کے ہینگر میں ٹانگ دیا۔ صابن کے گرم گرم جھاگ اور فواروں سے، وہ کچھ دیر تک اپنے ننگے پاؤں سے کھیلتی رہی۔۔۔ پھر مدہوشی کے عالم میں ٹوٹتے بنتے جھاگوں کے درمیان بیٹھ گئی۔۔۔ ایک لمحے کو آنکھیں بند کیں۔ دوسرے ہی لمحے کپڑے اُس کے بدن سے آزاد ہو کر اڑتے چلے گئے۔ اُس نے نل بند کیا۔ جسم میں مچلتے طوفان کا جائزہ لیا۔۔۔ صابن کے جھاگوں کو ہاتھوں سے اڑایا۔۔۔ یا پھر اپنے ننگے بدن کے ساتھ وہیں لیٹ گئی۔۔۔
کمرے کا دروازہ چرمرایا تو اچانک وہ، جیسے خواب کی وادیوں سے لوٹی۔۔۔ منہ سے بے ساختہ آواز بلند ہوئی۔۔۔
’’آپ انتظار کیجئے۔۔۔ آ رہی ہوں۔‘‘
ایک لمحے کو وہ حیران رہ گئی۔۔۔ کیا یہ اس کی آواز تھی۔۔۔؟صوفیہ کی آواز۔۔۔ جس کے بارے میں مشہور تھا کہ صوفیہ کے تو منہ میں زبان ہی نہیں۔ کیا یہ وہ تھی۔۔۔ آج سارے موسم جیسے بدل گئے تھے۔۔۔ وہ بدل گئی تھی۔۔۔
ایک لمحے کو باتھ روم کی کنڈی پر ہاتھ رکھ کر وہ ٹھٹھکی۔۔۔، دروازہ بند کروں یا۔۔۔ نہیں۔۔۔ بند نہیں کروں گی۔۔۔ بند کرنے سے کیا ہوگا۔۔۔ آئینہ کے سامنے برقع پہننے سے کیا حاصل۔ شرط رکھنے والے کو تو سب کچھ دیکھنا ہے۔ اسے پورا پورا۔ ایک وقت آتا ہے، جب مانگیں جسم سے آگے نکل جاتی ہیں۔ جسم کی ساری حدود توڑ کر۔ آگے۔ بہت آگے۔۔۔ اُس نے ہلکی سی انگڑائی لی۔ بیسن کے آئینہ میں اپنے عکس کو ٹٹولا۔۔۔ نہیں وہ ہے۔ ایک مدہوش کر دینے والی ’’صفت‘‘ کے ساتھ۔۔۔ نہیں، یقیناً، وہ کسی بیوٹی کنسٹٹ میں شامل نہیں ہے۔ مگر وہ۔۔۔ ایک لمحے کو اُس نے پلکیں جھپکائیں۔۔۔ آئینہ میں گیزر چل رہا تھا۔ نہیں یہ گیزر نہیں تھا۔ یہ تو وہ تھی۔ مجسم، سرتا پا آگ۔۔۔
اس نے گیزر بند کر دیا۔ ٹھنڈے پانی کا شاور کھول دیا۔۔۔ شاور کی بوندیں آگ میں گرتی ہوئی دھواں دھواں منظر پیش کر رہی تھیں۔ چاروں طرف سے آگ کی جھاس اُٹھ رہی تھی۔ ٹائلس سے۔۔۔ برہنہ دیواروں سے۔۔۔ آئینہ سے۔۔۔ اور۔۔۔ وہ ایک دم سے چونکی۔ کمرے میں کوئی انتظار کر رہا ہے۔۔۔ آگے بڑھ کر اُس نے ٹوول کھینچا۔۔۔ ہینگر سے نائیٹی کھینچی۔ آئینہ کے سامنے کھری ہوئی۔ آئینہ میں بھاپ جم گئی تھی۔ تولیہ سے بھاپ صاف کرنے لگی۔ پھر ایک بار اپنے آپ کو ٹٹولا۔۔۔ اور دوسرے ہی لمحے دھڑاک سے اس نے باتھ روم کا دروازہ کھول دیا۔۔۔
کمرے میں، یعنی وہ جو بھی تھا، دیوار کے اس طرف منہ کئے کسی سوچ میں گم تھا۔ دروازہ بھڑاک سے کھلتے ہی وہ یکایک چونکا۔ اس کی طرف مڑا اور یکایک ٹھہر گیا۔۔۔
سلیولیس نائیٹی میں صوفیہ کا جسم کسی کمان کی طرح تن گیا۔۔۔ ’’آئی ایم صوفیہ مشتاق احمد۔ ڈاٹر آف حاجی مشتاق احمد۔ عمر پچیس سال۔ پچیس سے زیادہ لوگ تم سے پہلے مجھے دیکھ کر جا چکے ہیں۔۔۔ تمہارا کا نمبر۔
’’مجھے اس سے زیادہ مطلب نہیں۔۔۔‘‘ یہ لڑکا تھا۔ مگر آواز میں کنپکپی برقرار۔۔۔ جیسے پہلی بار جرم کرنے والوں کے ہاتھ کانپ رہے ہوتے ہیں۔۔۔
’’بیٹھئے۔‘‘ وہ آہستہ سے بولی۔
لڑکا بیٹھ گیا۔ اُس نے لڑکے کے چہرے پر اپنی نظریں گڑا دیں۔ چہرہ کوئی خاص نہیں۔ گیہواں رنگ۔ ناک تھوڑی موٹی تھی۔ بدن دبلا تھا۔ قد بھی پانچ فٹ سات انچ سے زیادہ نہیں ہو گا۔ وہ آسمانی جینس اور میرون کلر کی ٹی شرٹ پہنے تھا۔ مینئل سفاری شوز اس کے پاؤں میں بالکل نہیں جچ رہے تھے۔۔۔ لڑکا اس سے آنکھیں ملانے کی کوشش میں پہلی ہی پائیدان پر چاروں خانے چت گرا تھا۔
’’دیکھو مجھے۔۔۔‘‘ وہ آہستہ سے بولی۔
’’دیکھ رہا ہوں۔۔۔‘‘ لڑکے نے اپنی آواز کو مضبوط بنانے کی ناکام سی کوشش کی۔
’’نہیں تم دیکھ نہیں رہے ہو، دیکھو مجھے۔۔۔ نائیٹی کیسی لگ رہی ہے۔۔۔‘‘
اس بار لڑکے نے ایک بار پھر اپنی مضبوطی کا جوا کھیلا تھا۔۔۔ ’’اچھی ہے۔۔۔‘‘
’’اچھی نہیں۔ بہت اچھی ہے۔۔۔‘‘ وہ مسکرائی۔۔۔ کیسی لگ رہی ہوں میں۔۔۔‘‘
لڑکا ایک لمحے کو سکپکایا۔۔۔ وہ دھیرے سے ہنسی۔۔۔ نظر جھکانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ دیکھنے پر ٹیکس نہیں ہے اور تم تو۔۔۔ کسی بازار میں نہیں، اچھے گھر میں آئے ہو۔۔۔ یقین مانو۔ ایک دن تو یہ ہونا ہی تھا۔ اسی لئے تمہاری شرط کے بارے میں سن کر مجھے تعجب نہیں ہوا۔۔۔ تمہارے لئے یہی بہت ہے کہ تم مرد ہو۔ مرد ہو، اس لئے تمہارے اندر کا غرور بڑھا جا رہا تھا۔ پہلے تم نے جہیز کا سہارا لیا۔ رقم بڑھائی، رقم دگنی تگنی کی اور پھر۔۔۔ یقین مانو، میرے گھر والوں نے سوچا تھا کہ یہ موم کی مورت تو بُرا مان جائے گی۔ مگر میں نے ہی آگے بڑھ کر کہا۔۔۔ بہت ہو گیا۔۔۔ آخری تماشہ بھی کر ڈالو۔۔۔‘‘
باہر رات گر رہی تھی۔ نہیں، رات جم گئی تھی۔ جنوری ماہ کی ٹھنڈ لہریں جسم میں تیزاب برپا کر رہی تھیں۔ لیکن وہ جیسے ہر طرح کے سرد و گرم سے بے نیاز ہو کر ٹک ٹکی باندھے اسے دیکھ رہی تھی۔
’’بستر پر چلو یا۔۔۔‘‘
اتنی جلد۔۔۔ اتنی جلدی کیا ہے۔۔۔‘‘ لڑکے کی آواز گڑبڑائی تو وہ پوری قوت لگا کر چیخ پڑی۔۔۔
’’جلدی ہے۔ تمہیں نہیں۔ لیکن مجھے ہے۔ تم سے زیادہ بھوکی ہوں میں۔ کتنے بھوکے ہو تم۔۔۔ پتہ ہے یہاں آ کر، اس کمرے میں آکر مجھ سے نظریں ملاتے ہوئے بھی شرم آ رہی ہے تمہیں۔۔۔ بس اتنے بھوکے ہو۔ نہیں۔ باہر۔۔۔ باہر والوں کی پرواہ مت کرو۔ وہاں ایک بھائی ہے، جب تک میں باہر نہیں نکلوں گی۔ تیر کی طرح زمین میں گڑا، اپنے ناکارہ ہونے کے احساس سے مرتا رہےگا، سہمی سہمی سی ایک بہن ہوگی اور سہمے سہمے سے سوال ہوں گے۔۔۔ نہیں اُن سوالوں کی پرواہ مت کرو۔۔۔ میں کرتی تو اس وقت نائیٹی پہن کر تمہارے سامنے نہیں ہوتی۔۔۔ انہیں بس یہی پڑی تھی کہ میری شا دی ہو جائے۔۔۔ پھر تم ملے۔ تم مجھے بستر پر آزما کر، میرے بدن کو منظوری دینے والے تھے۔ سچ، ایک بات بولنا۔ تم مجھ سے شا دی کرنا چاہتے تھے یا میرے بدن سے۔۔۔‘‘
’’وقت۔۔۔‘‘ لڑکے نے پھر مضبوط لفظوں کا سہارا لیا۔۔۔ ’’وقت بدل رہا ہے۔‘‘
’’وقت‘‘ وہ زور سے ہنسی۔۔۔ ’’بدل رہا ہے نہیں۔ بدل گیا ہے۔ لیکن تم کیوں کانپ رہے ہو۔ دیدار کرو میرا، دیکھو مجھے‘‘
کمرے میں نور کا جھماکا ہوا۔۔۔
ایک لمحے کو اس کے ہاتھ پیچھے کی طرف گئے۔۔۔ نائیٹی کے ہک کھلے اور نائیٹی ہوا میں اڑتی ہوئی بستر پر پڑی تھی۔۔۔
لڑکا بستر سے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ کانپ رہا تھا۔ اس کی پلکوں پر جیسے انگارے رکھ دیئے گئے تھے۔۔۔ نہیں، انگارے نہیں۔۔۔ برف کی پوری سلی۔۔۔ وہ جیسے پلک جھپکانا بھول گیا تھا۔۔۔ ہوش اڑ چکے تھے۔ آنکھیں ساکت و جامد تھیں۔۔۔ ایک دھند تھی جو روشندان چیرتی ہوئی کمرے میں پھیل گئی تھی۔
’’دیکھو مجھے۔۔۔‘‘
وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی آئینہ کے قریب آ گئی۔۔۔ ’’دیکھو مجھے۔ میں نے کہا تھا، نا۔ تم سے زیادہ بھوکی ہوں۔۔۔ پچیس لوگ تم سے پہلے بھی مجھے دیکھے بغیر واپس لوٹ چکے ہیں۔۔۔ سمجھ سکتے ہو۔ پچیس بار تو یونہی مری ہوں گی۔۔۔ شا دی کے ہر احساس کے ساتھ بدن میں انگارے پلتے تھے۔۔۔ جانتے ہونا، فرائیڈ نے کہا تھا، عورت مرد سے زیادہ اپنے بدن میں انگارے رکھتی ہے۔۔۔ اور میں تو بڑی ہوئی تب سے انگارے جمع کرتی رہی تھی۔۔۔ فلم سے سیریل، ٹی وی، دوست سہیلیوں کی شا دی۔۔۔ مجھ سے بے حد کم عمر لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہونے کے قصّے۔۔۔ ہر بار انگاروں کی تعداد بڑھ جاتی۔ میں ہر بار انگارے چھپا لیتی۔۔۔ وہ زور سے چیخی۔۔۔ رنڈی نہیں ہوں میں۔ بازار میں نہیں بیٹھی ہوں۔ تم نے سودا نہیں کیا ہے میرا۔ میری میں نے بھی تسلی کی تھی کہ اگر تم میرے شوہر ہوئے تو تمہیں تو پورا پورا مجھے دیکھنا ہی ہے۔۔۔ اور پھر۔۔۔ میرے گھر والے یوں بھی تھک گئے ہیں۔‘‘
اس نے بے حد مغرور انداز میں آئینہ میں اپنی ایک جھلک دیکھی۔ جیسے قلوپطرہ نے اپنی ایک جھلک دیکھی ہو اور فاتحانہ انداز میں سراٹھا کر اپنے ملازموں سے کہا ہو۔۔۔ یہ آئینہ لے جاؤ، اس کا عکس بھی مجھ سے کم تر ہے۔ کوئی ایسا آئینہ خانہ لاؤ جو میری طرح دکھ سکے۔
وہ مغرور اداؤں کے ساتھ مڑی۔ بستر سے نائیٹی کو اٹھایا اور دوسرے ہی لمحے نائیٹی کے ’’بدن' میں داخل ہو گئی۔۔۔
لڑکا ابھی بھی تھر تھر کانپ رہا تھا۔۔۔
’’یہ کوٹھا نہیں تھا اور اتنا طے ہے کہ تم آج تک کسی کوٹھے پر نہیں گئے۔۔۔ دیکھو۔۔۔ تم کانپ رہے ہو۔ نہیں، ادھر آؤ۔ اس نے بےجھجک اس کا ہاتھ پکڑا۔ مرر کے سامنے لے آئی۔ یو نو، تم کیسے لگ رہے ہو۔ جوناتھن سوئفٹ کے گھوڑے۔۔۔ لیکن نہیں۔ تم گھوڑے بھی نہیں ہو۔۔۔ تم ایک ڈرپوک مرد ہو جو ایک خوبصورت بدن کو آنکھ اُٹھا کر غور سے دیکھ بھی نہیں سکتا۔۔۔‘‘
لڑکا بے حس و حرکت تھا۔ ساکت و جامد۔ لاش کی طرح سرد۔۔۔
صوفیہ مشتاق احمد کی آنکھوں میں برسوں کی ذلت چنگاری بن کر دوڑ گئی۔۔۔ بھوک، نفرت پر غالب آ گئی۔۔۔ ’’دیکھتے کیا ہو۔۔۔ میں پوچھتی ہوں۔ اب بھی تم اس کمرے میں کھڑے کیسے ہو۔ تم تو شرط کا بوجھ اٹھانے کے قابل بھی نہیں ہو۔ نامرد کیڑے۔ نہیں۔ وہیں کھڑے رہو اور جانے سے پہلے میری ایک بات اور سن لو۔ میں نے کہا تھا نا تم سے زیادہ بھوکی ہوں میں مگر رنڈی نہیں تھی۔ ارے، تمہاری جگہ میں ہوتی، میں نے شرط رکھی ہوتی تو کم از کم یہاں آنے کی جرأت کے بعد، میں نے نہیں کم از کم تمہیں چھوا ضرور ہوتا۔ دھیرے سے، تمہارے ہاتھوں کو۔۔۔ کہ بدن کیسے بولتا ہے۔۔۔ کیسے آگ اُگلتا ہے۔ لیکن تم۔۔۔ تم تو بند کمرے میں، اپنی ہی شرط کے باوجود، چھونا تو دور اسے دیکھنے کی بھی ہمت نہیں کرسکے۔۔۔‘‘ ایک لمحے کو جیسے اُس کے اندر برقی لہر دوڑ گئی۔ بےحد نفرت کی آگ میں سلگتے ہوئے صوفیہ احمد نے اُسے زور کا دھکا دیا۔۔۔ ’’گیٹ لاسٹ۔‘‘
لڑکا پہلے ہڑبڑایا۔ پھر سرعت کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گیا۔ ایک لمحہ کو صوفیہ مشتاق احمد مسکرائی۔ اپنا عکس آئینہ میں دیکھا۔۔۔ نہیں۔ اب اسے مضبوط ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس نے ٹھنڈا سانس بھرا۔ باہر کہاسے گر رہے تھے۔ سرد ہوا تیز ہو گئی تھیں۔ کھڑکی کھلی رہ گئی تھی۔ اف، اس درمیان وہ جیسے وہ دنیا و مافیہا سے بالکل بے خبر ہو گئی تھی۔ تیز، جسم میں طوفان برپا کرنے والی سردی کو بھی۔۔۔ اُس نے اپنے ہی دانتوں کے کٹکٹانے کی آواز سنی اور اچانک ایک لمحے کو وہ ٹھہر گئی۔ وہی جانی پہچانی دستک۔۔۔ خوفناک آوازوں کا شور۔ جیسے دیواروں پر کوئی رینگ رہا ہو۔ کیا ویمپائر۔۔۔؟ ڈراکیولا۔۔۔؟ باہر یقیناً اس ’’پُراسرار‘‘ تماشے کا حال جاننے کے لئے اُس کے گھر والے موجود ہوں گے۔۔۔ اور اس کا بے چینی سے انتظار بھی کر رہے ہوں گے۔۔۔
مگر۔۔۔ یہ دستک۔۔۔ خوفناک آوازیں۔۔۔ دیواروں پر رینگنے کی آواز۔۔۔ جیسے ہزاروں کی تعداد میں چمگادڑیں اڑ رہی ہوں۔ پیڑوں پر اُلو بول رہے ہوں۔ شہر خموشاں سے بھیڑیوں کی چیخ سنائی دے رہی ہو۔۔۔ وہی رینگنے کی آواز۔۔۔ برفیلی، تیز ہوا سے کھڑکی کے پٹ ڈول رہے تھے۔۔۔ وہ تیزی سے آگے، کھڑکی کی طرف بڑھی۔۔۔ گہری دھند کے باوجود شہر خموشاں کا منظر سامنے تھا اور وہاں دیوار پر چھپکلی کی طرحی رینگتا ڈراکیولا، اس بار اُسے بے حد کمزور سا لگا۔۔۔ شاید وہ شہر خموشاں میں واپس اپنے ’’کوفن‘‘ میں لیٹنے جا رہا تھا۔ جب کہ صبح کی سپیدی چھانے میں ابھی کافی دیر تھی۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.