ڈراپ سین
ذوق بہت دنوں سے احتشام اللہ کے کردار میں الجھا ہوا تھا۔ اس نے اس کردار پر بہت محنت صرف کی تھی۔ مشاہدے اور تجربے کی آنچ پر اسے مہینوں تپا کر کندن بنایا تھا۔ وہ روز کچھ نہ کچھ اضافہ کرتا۔ زندگی کے رویوں۔۔۔فرد کی الجھنوں۔۔۔خوشی میں روح سے اٹھنے والی تھرکتی لہروں۔۔۔غم میں ان تھرکتی لہروں کو جکڑ لینے والے آنسوؤں کو اس کردار میں تناور درخت سے نکلنے والی نئی شاخوں کی طرح اضافہ کرتا جاتا۔ احتشام اللہ گھنے درخت کی طرح مسلسل پھیلتا جا رہا تھا۔ ذوق اس کردار کی تکمیل کے لیے، راہ چلتے یا دفتر میں اور کبھی کبھی لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوے جو کچھ سوچتا، اسے جیب میں رکھی چٹ پر نوٹ کر لیتا اور جو ں ہی گھر پہنچتا تو ان کاغذوں پر منتقل کردیتا جہاں ڈرامے کے پوائنٹس درج کررکھے تھے۔ کردار کے حوالے سے ڈرامے کا حصہ جب تحریر کرتا تو ان نکات کو شامل کرتا جاتا۔
وہ جانتا تھا کہ سب لکھنے والے کچھ ایسا ہی کرتے ہیں۔ ہر بات ہر وقت دھیان میں کب رہتی ہے۔ لیکن اس نے دیگر کی بہ نسبت اس کردار پر کچھ زیادہ ہی ہوم ورک کر رکھا تھا۔
ذوق کو اس ڈرامے کا اسائنمنٹ خاص طور سے ملا تھا اور وہ اس پر کڑی محنت کے لیے آمادہ تھا۔ چند ماہ پہلے ایک بڑے اور مستحکم چینل کے پروڈکشن ڈائریکٹر نے ذوق کو مدعو کیا تو اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایک بڑے پروجیکٹ کا حصہ بننے جا رہا ہے۔ پچھلی بار جو اس کا ڈرامہ آن ایئر گیا، اسے زیادہ پذیرائی حاصل نہ ہو سکی تھی، تاہم اسکرپٹ کے حوالے سے سب نے تعریف کی تھی۔ ناقدین کا کہنا تھا کہ مضبوط اسکرپٹ کمزور ہاتھوں میں چلا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ پروڈکشن ڈائریکٹر سے گفتگو کرتے ہوے اس نے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ بیگ صاحب کے علاوہ کوئی اور ڈائریکٹ کرے تو میں لکھوں گا، ورنہ نہیں۔ پروڈکشن ڈائریکٹر نے اسے تسلی دیتے ہوے بتایا کہ اس پروجیکٹ پر توصیف احمد کام کریں گے۔ یہ سن کر وہ سرشار ہو گیا، کیوں کہ بہت عرصے سے ذوق کی خواہش تھی کہ اس کے لکھے ہوے کسی ڈرامے کو توصیف احمد جیسے سینئر اور منجھے ہوے ڈائریکٹر بنائیں۔
ڈرامہ نگار ہونے کے ناطے وہ جانتا تھا کہ لکھ کر ڈرامہ کاغذ پر منتقل کرنا، پہلی اور کیمرہ، آرٹ ورک، ایڈیٹنگ ، بیک گراؤنڈ اسکور اور پورے منظر نامے کے ساتھ اسے آٹھ ایم ایم کے فیتے پر منتقل کرنا، دوسری منزل ہوتی ہے۔ خیالوں کے کارواں کو پہلے پڑاؤ تک ہانکنے والا یقیناً مصنف ہوتا ہے، مگر دوسرے پڑاؤ اور منزل تک لے جانے والے ہاتھ، کچھ تیکنیکی اور کچھ تخلیقی مہارت رکھنے والے ہوتے ہیں۔ تب کوئی آنکھ ٹی وی اسکرین کے کسی ایک چینل پر رکتی ہے۔ ذوق توصیف احمد کی صلاحیتوں کا معترف تھا اور ہمیشہ سے اس لمحے کا منتظر تھا کہ کب وہ اس کے لکھے ہوے ڈرامے کو ڈائریکٹ کریں۔ اب یہ موقع آ گیا تھا۔ اگلے روز سے توصیف احمد، خواجہ مستوری اور ذوق کی ملاقاتیں شروع ہو گئیں اور تینوں نے مل کر ڈرامے کے خدوخال پر گفتگو شروع کر دی۔ ابتداء ہی میں اسے بتا دیا گیا کہ یہ ایک بڑے بجٹ کا پروجیکٹ ہے۔ لوکیشن، آرٹ ورک منفرد اور کرداروں کی ضرورت کے مطابق اداکاروں کا انتخاب ہوگا، خواہ پاکستان کے کسی بھی حصے سے اداکار کو بلوانا پڑے۔
ملاقاتوں کے دوران ڈرامے کی کہانی، کردار اور بنیادی تھیم پر کھل کر بحث کی گئی۔ اپنی اپنی فیلڈ کے تین منجھے ہوے پروفیشنل لوگوں نے آخرکار فائنل آئیڈیا ڈیزائن کر لیا، جس پر اس سے پہلے کسی بھی چینل نے کوئی ڈرامہ پیش نہیں کیا تھا۔ طویل ملاقاتوں کے بعد تینوں نے آپس میں عہد کیا کہ وہ آئیڈیے پر کسی سے کوئی گفتگو نہیں کریں گے، تاآں کہ یہ کس شکل میں سامنے نہ آ جائے۔
جوں جوں ذوق آئیڈیے کو کاغذ پر منتقل کر رہا تھا، کہانی کے خدوخال بھی واضح ہوتے جا رہے تھے۔ تینوں افراد کی ملاقات تقریباً روز ہی ہوا کرتی۔ اسکرپٹ درمیان میں رکھ کر وہ خوب بحث کرتے اور زیادہ سے زیادہ جان دار بنانے کے لیے مختلف پہلوؤں پر برملا اظہار کرتے۔ رفتہ رفتہ ایک منفرد اور گھتی ہوئی کہانی وجود میں آنے لگی۔ ذوق کو اس پروجیکٹ پر کام کرنے میں مزا بھی آ رہا تھا۔ ہر چند کہ وہ اپنے اسکرپٹ میں کسی دوسرے کی مداخلت کا قائل نہیں تھا، لیکن توصیف احمد کی موجودگی میں وہ خود کو بہت جونیئر محسوس کررہا تھا۔ یوں بھی طویل ہوم ورک اور ان ملاقاتوں کے دوران اسے بخوبی اندازہ ہو گیا تھا کہ توصیف احمد بلاشبہ تجربہ کار اور منجھے ہوے ہدایت کار ہیں۔
کئی ماہ کی انتھک محنت اور تیاریوں کے بعد جب پہلی بار کیمرہ آن ہوا تو ذوق کی خوشی دیدنی تھی۔ وہ ڈرامے کا کم و بیش نصف حصہ تحریر کر چکا تھا۔ جس طرح اس کی خواہش تھی کہ کوئی اس کے کام میں مداخلت نہ کرے، اس طرح وہ خود بھی دوسروں کے کاموں میں بےجا دخل اندازی سے گریز کیا کرتا۔ بالخصوص پروڈکشن کے حوالے سے قطعا خاموش رہتا۔ مگر اس بار ایسا نہیں ہوا۔ جب مرکزی کردار کے حوالے سے کوئی تیاری کی جاتی تو وہ کوشش کرتا کہ خود بھی موجود ہو۔ جب احتشام اللہ والا حصہ ریکارڈ کیا جا رہا ہوتا تو وہ سیٹ پر چلا جاتا۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ اس نے توصیف صاحب سے ڈرتے ڈرتے کچھ تبدیل کرنے کا مشورہ دیا۔ ایک دو بار انہوں نے ذوق کے مشورے پر توجہ دی، ایک دو بار مسکرا کر رہ گئے، مگر عمل نہ کیا۔ پھر یوں ہوا کہ انہوں نے ذوق کو باقاعدہ سمجھایا کہ وہ اپنی پوری توجہ صرف ڈرامے لکھنے پر مرکوز رکھے۔
ذوق کو یوں لگ رہا تھا کہ جیسا اس نے کردار لکھا ہے، وہ اسی طرح پیش نہیں کیا جا رہا ہے۔ وہ خواجہ مستوری کے پاس چلا گیا۔ اس کی بات سن کر خواجہ صاحب بولے۔
’’ذوق ہم نے یہ کردار جس طرح ڈسکس کیا تھا، ویسا ہی پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بلکہ توصیف بھائی نے کردار کی شخصیت کو مزید نکھارا ہے۔ مثلاً جس طرح وہ بولتا ہے، اس کی باڈی لینگوئج، اس کی چلت پھرت‘‘۔
’’مگر وہ جس طرح بولتا ہے۔ اس کی شخصیت پر وہ منفی اثر ڈال رہا ہے۔ میرا کردار نیگیٹیو نہیں ہے۔ میں نے اسے ایک ایسے شخص کے طور پر پیش کیا ہے جو اپنی فطرت میں دوسروں سے ایک سطح اوپر ہوشیار اور معاملہ فہم ہے۔ یہ ہوشیاری اسے منفی دکھاتی ضرور ہے مگر وہ برے انسان کے طور پر سامنے نہیں آتا۔ وہ اپنی فیملی کے ساتھ جتنا اٹیچڈ ہے، کوئی دوسرا نہیں ہے۔ مگر توصیف بھائی جس طرح ڈائیلاگ بلوا رہے ہیں، یا وہ جس طرح اپنے ہاتھوں کو جنبش دیتا ہے وہ اسے خراب اور برے آدمی کا تصور دے رہی ہیں‘‘۔
’’ہم کل بیٹھتے ہیں۔ تب اس معاملے کو اچھی طرح ڈسکس کریں گے‘‘۔ خواجہ صاحب نے ذوق کے اعتراض کو سمجھتے ہوے کہا۔
دوسرے دن خواجہ صاحب کے دفتر میں تینوں موجود تھے، مگر ملاقات بے نتیجہ رہی۔ توصیف احمد کے خیال میں ڈرامہ ابھی ابتدائی مراحل میں تھا اور کسی بھی بڑے اور اہم کردار کی زندگی میں ایک سے زیادہ مرحلے اور شیڈ آتے ہیں۔ ہم اس میں جتنا تنوع پیدا کریں گے، وہ اتنا ہی بھرپور ہوتا جائےگا۔
ذوق کو خاموش ہونا پڑا۔ وہ توصیف احمد کی بات سے مطمئن نہیں تھا۔ ذوق کو لگا کہ اس کے لکھے ہوے کردار کو توصیف احمد سمجھے بغیر اپنے انداز میں پیش کرکے اس کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔ اسے وہ انتہائی برے لگے۔ وہی توصیف احمد جن کا اس نے تصور میں ہدایت کارانہ عظمت کا بت تراش رکھا تھا وہی اب اتنے برے لگ رہے تھے کہ جی چاہا کہ ایک ٹھوکر مار کر توڑ دے۔ اس کا یہ بھی جی چاہا کہ یک جنبش قلم انہیں پروجیکٹ سے الگ کردے۔ مگر وہ جانتا تھاکہ ایسا نہیں کر سکتا۔ وہ مصنف اور تخلیق کار تھا، مگر بے بس تھا۔ توصیف احمد ڈائریکٹر تھے اور با اختیار بھی۔ اس نے بارہا دیکھا تھا کہ اختلافات کی وجہ سے پروڈیوسر ڈائریکٹر ڈرامے کے اختتام پر ناموں والے ٹیلپ سے مصنف کا نام ہی اڑا دیتے ہیں۔ کلپس اور اخباروں کے اشتہارات میں تو ایسا اکثر ہوتا ہے کہ مصنف کا نام بتانے کی زحمت ہی نہیں کی جاتی۔
بےبسی کے احساس نے ذوق کو چڑچڑا اور مایوس کر دیا۔ مگر یہ سوچ کر کہ اس کی تحریر پر برے اثرات مرتب ہوں گے، اس نے خود پر قابو پانے کی کوشش کی۔ کچھ دن سیٹ پر جانے سے بھی گریز کیا۔ مگر ایک دن خواجہ صاحب کا فون آ گیا کہ دو دن بعد کھلے سمندر میں چھوٹے جہاز پر شوٹنگ کا شیڈول بنایا گیا ہے۔ اسے بھی چلنا ہے۔ وہ حیران ہوا، کیوں کہ اس کے لکھے ہوے اسکرپٹ میں ایسا کوئی منظر نہیں تھا جو کھلے سمندر میں کسی لانچ، کشتی یا فیری پر فلمایا جانا ہو۔ اس نے خواجہ صاحب سے دریافت کیا تو وہ بولے۔
’’فائیو اسٹار ہوٹل کی لابی میں بزنس پارٹی والا سین، جس میں بیرے سے ٹرے گر جاتی ہے اور احتشام اللہ کا بیٹا اسے گیلری سے دھکا دے دیتا ہے۔ توصیف احمد نے ہوٹل کی لابی کو سمندر پر تیرتے ہوے جہاز میں تبدیل کر دیا ہے‘‘۔
’’لیکن وہ مجھ سے پوچھے بغیر ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟‘‘
’’بھئی! میں نے تمہاری طرف سے اجازت دے دی تھی۔ جہاز کے عرشے سے ویٹر کا سمندر میں گرنا، سین کو زیادہ جاندار بنارہا ہے اور ویسے بھی کچھ عرصے پہلے ایک سیاسی وزیر کے بیٹے نے ایک ہوٹل میں غریب ویٹر کو بری طرح پیٹا تھا۔ یہ سین اس واقعے کی طرف جا رہا تھا۔ کسی سیاست دان کو ناراض کرنا ہمارے چینل کی پالیسی نہیں ہے۔ لہذا تبدیل کر دیا۔ ‘‘خواجہ صاحب نے وضاحت کی۔
’’خواجہ صاحب! اگر بات منظر کو زیادہ ایکسائٹڈ بنانے کی ہے تو پھر ہم اسے دبئی کے کسی اسکائی کریپر سے دھکا دیتے ہوے دکھا کر بھی کر سکتے ہیں‘‘۔ ذوق نے اپنی سوچ کے مطابق منظر میں تبدیلی لاتے ہوے کہا۔
’’لگتا ہے تم کسی انڈین فلم کا سین بنا رہے ہو؟‘‘ خواجہ صاحب نے ہنستے ہوے کہا تو وہ چڑ گیا اور بولا۔
’’آپ کے توصیف صاحب بھی تو کسی ہالی وڈ کی فلم کا سین کاپی کر رہے ہیں‘‘۔
’’دیکھو ذوق! میں توصیف کے کیلیبر سے واقف ہوں۔ وہ کبھی کسی دوسرے کو کاپی نہیں کرتا۔ ہاں! انسپریشن لینا الگ بات ہے۔ وہ چوری نہیں کہلاتی‘‘۔ پھر وہ ایک لمحہ رکے اور بولے۔ ’’ویسے تم پرسوں ڈیک پر آ جاؤ ، ہم مزید وہیں ڈسکس کریں گے‘‘۔
فون بند ہو گیا، مگر ذوق کو مضطرب کر گیا۔ اسے معلوم تھا کہ یہ سین کہانی میں ٹرنگ پوائنٹ کا درجہ رکھتا ہے۔ احتشام اللہ کی برسوں کی محنت سے بنائی ہوئی ساکھ متاثر ہوتی ہے اور وہ پولیس کو فون کرکے اپنے ہی بیٹے کو گرفتار کروا دیتا ہے۔ اگر سین توصیف احمد اپنی مرضی سے تبدیل کرکے فلمائیں گے تو میری کریڈیبلٹی پر اثر پڑےگا۔ ایک لمحے کو اسے خیال گزرا کہ درحقیقت سمندری جہاز کے عرشے پر دولت اور امارت کی جھلک خود بخود نمایاں ہو جاتی ہے۔ یہ ایک مختلف فضا ہوگی جہاں امارات کے ساتھ شراب اور حسن کا امتزاج بہت آسانی سے پیش کیا جا سکتا ہے۔
یہ سوچ کر اس کی چڑچڑاہٹ کے ایک گوشے میں توصیف احمد باوقار انداز سے آن کر بیٹھ گئے اور وہ ایک بار پھر چڑ گیا۔
وہ ہی یہ سین کیوں لکھیں، میں کیوں نہیں؟ ذوق نے سامنے رکھے کشن پر مکا جماتے ہوے سوچا۔ میں مصنف ہوں۔ یہ میری تخلیق ہے۔ میں نے اس کردار کو بنایا ہے۔ اس کے اچھے برے کا میں ذمہ دار ہوں۔ وہ زندگی کے کس موڑ پر کب کیسے اور کیا کرےگا، یہ مجھے سوچنا چاہیے۔ اگر توصیف احمد اسے تبدیل کرنا چاہتے تھے تو مجھے بتانا چاہیے تھا۔ میں اس واقعے کو سمندر تک لانے کے لیے کچھ اور محرکات یا کشمکش پیدا کرتا۔ اسے بزنس پارٹی سے زیادہ فشنگ نائٹ میں تبدیل کر دیتا۔ چند گھنٹوں کی بزنس پارٹی اور ساری رات کھلے سمندر میں فشنگ، ہلا گلا اور مستیاں اس تاثر کو اور ابھار دیتیں، جس کی مدد سے احتشام اللہ کے بیٹے کا جذباتی پن اور نمایاں ہو جاتا۔
یہ سوچتے ہوے ذوق کی طبیعت میں بوجھل پن در آیا۔ اسے توصیف احمد ان لوگوں کی طرح دکھائی دئیے جو دوسروں کی محنت پر ہاتھ صاف کرکے خوش ہوتے ہیں۔ جیسے کسی بھارتی سپرہٹ فلم کے ساتھ کراچی کے اسٹیج اداکاروں کا بھونڈا مذاق۔۔۔جیسے صادقین کے تخلیقی قلم سے ابھرے ہوے سورۃ رحمن کے خیال انگیز نقوش کی کچی پکی نقل بنانے کی ناکام کوشش۔۔۔یا پھر کسی لازوال سریلے گیت کے ساتھ کھردری آوازوں والے پاپ گلوکار کی دھینگا مستی۔
ذوق نے وہ رات بستر سے زیادہ پیروں سے کمرا ناپتے ہوے گزاری تھی۔
دو دن بعد جہاز کے عرشے پر ایک سایہ دار جگہ کے ایک گوشے میں وہ اور خواجہ صاحب پیرا شوٹ کی کرسیوں پر دراز تھے۔ سمندری جہاز ہلکے ہلکے ہلکورے لے رہا تھا۔ سمندر بھی ذوق کی طرح تھوڑا سا بے چین تھا، مگر دونوں اپنی کیفیت کے برملا اظہار سے گریزاں بھی تھے۔ توصیف احمد اپنے پورے یونٹ اور اداکاروں کے ساتھ مختلف مناظر فلمانے میں مصروف تھے۔ وہ دن کی روشنی میں اپنا کام ختم کر لینا چاہتے تھے۔ خواجہ صاحب رات سمندر ہی میں گزارنے کا پروگرام بنا کر آئے تھے۔ ان کے پروگرام کے مطابق شوٹنگ سے فارغ ہونے کے بعد اندر ہال میں محفلِ غزل تھی جس میں استاد حامد علی خان اپنے فن کا مظاہرہ کرنے والے تھے اور جنہیں سننے کے لیے پورا یونٹ بےقرار تھا۔
شام ہو چلی تھی۔ شوٹنگ کا بہت سارا کام نبٹایا جا چکا تھا۔ ذوق کی طبیعت میں بے زاری نمایاں تھی۔ ہر چند کہ تمام شوٹنگ کے دوران اس نے محسوس کیا کہ سارے منظر اور مکالمے وہی تھے جو اس نے لکھے تھے۔ صرف جگہ تبدیل ہو گئی تھی اور جگہ کی تبدیلی اور اس پر مستزاد توصیف احمد کی ذہنی اپچ نے کہانی کے اس حصے کو بلاشبہ بہت جان دار بنا دیا تھا۔ مگر اس اعتراف کے باوجود ذوق کو محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کے ہاتھوں سے توصیف احمد نے قلم چھین کر اس کی فنی طاقت سلب کر لی ہوپھر ایک لمحے کو اس کا یہ بھی جی چاہا کہ وہ کھڑا ہو کر زور سے آواز دے اور کہے کہ توصیف احمد، آپ واقعی باکمال ڈائریکٹر ہیں۔ مگر دوسرے ہی لمحے حسد کی زنجیروں نے اس کے پیروں کو عرشے کے تختوں سے باندھ دیا۔
کیمرہ مین سورج کی روشنی کے مطابق اپنی پوزیشن بنا رہے تھے۔ غوطہ خور مستعد کھڑے ہوے تھے، کیوں کہ اب ریلنگ سے دھکا دینے والامنظر فلمایا جانے والا تھا۔ توصیف احمد ویٹر کی وردی میں ملبوس اور احتشام اللہ کے بیٹے کا کردار ادا کرنے والے دونو ں اداکاروں کو منظر سمجھارہے تھے۔ منظر سمجھانے کے بعد توصیف احمد کیمرے کے پیچھے چلے گئے۔ اشارہ ملتے ہی اداکار نے ویٹر کا کردار ادا کرنیو الے اداکار کا بازو پکڑا اور گھیسٹتے ہوے ریلنگ سے نیچے دھکا دے دیا۔ غوطہ خوروں نے فوراً چھلانگ لگا دی۔
تمام لوگ منظر کی حساسیت میں گم تھے، کہ یکایک ذوق اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور تیزی سے چلتا ہوا توصیف احمد کے قریب چلا گیا، آنا فانا ان کا بازو پکڑا اور ریلنگ کے قریب گھیسٹتے ہوے انہیں سمندر میں دھکا دے دیا۔
اب ذوق اور سمندر دونوں شانت ہو چکے تھے۔
(۲۰۰۹ء)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.