Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ڈوپٹہ

ذاکرہ شبنم

ڈوپٹہ

ذاکرہ شبنم

MORE BYذاکرہ شبنم

    میں جیسے ہی اپنے گیٹ کے قریب پہنچی۔ ایک ادھیڑ عمر کی عورت اور ایک کمسن لڑکی کو بیٹھے ہو ئے پایا۔ میں نے پرس سے چابی نکالی اور گھر کا دروازہ کھولتے ہو ئے ان لوگوں سے پوچھ ہی لیا۔ کون ہیں آپ لوگ اور آپ کو کیا چاہیے، وہ عورت جو اب میں یوں مخاطب ہوئیں۔ بیٹی ہم قسمت کے مارے ہیں حالات کے ستا ئے ہو ئے بس یوں ہی بھٹکتے ہو ئے کچھ دیر سستانے کے لیے تمہاری دہلیز پر بیٹھ گئے، ہمیں کچھ نہیں چاہیے بس تھوڑا سا پانی پلا دو پھر اس عورت نے جھجکتے ہو ئے رک رک کر کہا بیٹی اگر کچھ دینا ہی چاہتی ہو تو اس معصوم اندھی لڑکی کو اپنا ایک ”ڈوپٹہ“ دے دو تاکہ یہ اپنے بدن کو اچھی طرح ڈھانپ سکے۔۔۔ میں اندر جاکر پانی لے آئی اور انہیں تھما دیا۔ ویسے آج کے دور میں کسی بھی انجانے کو اندر بلانا اور ہمدردی دکھانا نقصاندہ بھی ہوتا ہے، ایسے کئی واقعات اکثر ہمیں سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں۔۔۔ مگر نجانے کیوں ان لوگوں کو دیکھ کر مجھے پہلی ہی نظر میں ان سے ہمدردی ہو نے لگی میں ان کے بارے میں سوچ ہی رہی تھی دیکھا تو وہ عورت اس لڑکی کو جیسے سنبھال کر پانی پلانے لگیں، مجھے احساس ہو گیا کہ واقعی وہ کمسن دیکھ نہیں سکتی، دیکھنے میں لڑکی خوبصورت تھی تقریباً پندرہ سولہ کی ہوگی تعجب کے ساتھ افسوس بھی ہوا کہ اتنی کم عمر میں اس لڑکی کی آنکھوں کی رو شنی نہیں رہی۔۔۔ دونوں ماں بیٹی لگ رہے تھے، کافی تھکے ہوئے سے اور ان کے چہروں سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ دونوں کا فی مایوس ہیں، ایسا لگ رہا تھا جیسے ان پر کوئی بہت بڑا غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے اور ان کے بارے میں جا ننے کے لیے میرا دل نہ جانے کیوں بار بار مجھ سے اصرار کر نے لگا، میں نے سو چا کب کے بھوکے پیاسے ہوں گے کچھ بھی مانگ کر کھانے سے بھی شاید جھجھک محسوس کر رہے ہیں۔ اس عورت نے جھجھک تے ہو ئے مانگا بھی تو ایک ڈو پٹہ جس کی اس لڑکی کو ضرورت تھی کیونکہ جو ڈوپٹہ اس نے اوڑھ رکھا تھا وہ بہت پرانا اور جگہ جگہ سے پھٹا ہوا تھا۔۔۔ میں نے انہیں اندر بلایا اور کچھ رو ٹیاں اور سالن انہیں کھانے کو دیا انہوں نے سب سے پہلے اپنی اندھی بچی کو کھلایا پھر آخر میں چند لقمے خود کھائے مایوسی کی گرد سے بھرے ان خوبصورت چہروں کے پیچھے چھپی دردناک سچائی کو جاننے کے لیے بے چین میں اس عورت سے پو چھ بیٹھی، یہ لڑکی آپ کی بیٹی ہوگی اتنی کم عمر میں اس کی آنکھوں کی رو شنی کو کیا ہوا۔ کہیں یہ پیدائش سے ہی ایسی نہیں ہے؟ آخر آپ لوگ اس طرح بھٹک کیوں رہے ہیں۔۔۔؟ آپ کے چہروں پر اس قدر مایوسی اور خوف کیوں چھایا ہوا ہے۔ کیا اس دنیا میں آپ کا اور کوئی نہیں ہے۔۔۔؟ میں نے ایک ساتھ کئی سوال کر ڈالے جو کافی دیر سے میرے من میں اٹھنے لگے تھے میرے سوالات پر وہ اور غمزدہ ہو گئیں ان کی آنکھیں لمحہ بھر میں انسوؤں سے لبریز ہو گئیں، پھر وہ اپنی بیٹی کی طرف دیکھتے ہو ئے کہنے لگیں، یہ میری بچی پیدائشی اندھی ہرگز بھی نہیں ہے، ہمارے شہر کے انسانیت سوز فسادات نے اس کی آنکھوں کی چھین لی، ان دہشت گردوں کی لگائی ہوئی نفرت کی آگ میں میری معصوم بچی کی آنکھیں جھلس کر رہ گئیں میری بچی کی معصوم نظریں اس دردناک منظر کی تاب نہ لا سکیں اس عورت کی درد ناک بات سن کر مجھے اور زیادہ تشو یش ہونے لگی مجھ سے صبر نہیں ہو سکا اور میں درمیان میں ہی بول پڑی، یہ سب کیسے ہوا کیا آپ کا سب کچھ فساد میں برباد ہو گیا۔۔۔؟

    میری بات سن کر اس عورت کے منہ سے ایک آہ نکلی پھر وہ مجھ سے یوں گو یا ہوئیں۔ بیٹی ہم ایک اچھے گھر انے سے ہیں ہمارا بھی ایک بڑا خاندان تھا، کاروبار بھی بہت پھیلا ہوا تھا ہماری کپڑوں کی ملیں تھیں۔ سبھی تعلیم یافتہ بھی تھے بہت اچھی طرح خوشی خوشی زندگی بسر ہو رہی تھی۔۔۔ مگر اچانک ہمارے شہر میں ایسا فساد برپا ہوا، اس فساد کی زد میں سبھی آ گئے اور بر باد ہو گئے۔ لمحوں میں شہر کا شہر نفرت کی آگ میں یوں جلنے لگا کہ پتہ ہی نہیں چلا اس میں کس کا کیا قصور ہے وہاں تو قصور وار بھی مارا گیا اور بےقصور بھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہماری کپڑوں کی ملیں جل گئیں دوکانوں اور مکانوں میں آگ لگا دی گئی جو ہمارے مرد تھے ان کپڑوں کے ساتھ ہی جل کر راکھ ہو گئے سب کو اپنی اپنی جانیں بچانے کی فکر تھی یہ سب کس نے کیا اور کیوں؟

    یہ سو چنے کا وقت کس کے پاس تھا، ایک بچ گیا تو دس فسادیوں کے چنگل میں پھنس کر مارے گئے اور گھروں میں بھی فسادیوں نے دھاوا بو لا کوئی کسی کو بےدردی سے قتل کر رہا تھا تو کوئی بیٹی کی عصمت لوٹ رہا تھا، ہمارے گھر میں بھی فسادیوں کا ہجوم گھس آیا، میری بڑی لڑکی جو مشکل سے صرف اٹھارہ سال کی تھی بڑی پیاری بچی تھی کالج میں زیر تعلیم تھی اس معصوم کی عصمت ہماری آنکھوں کے سامنے لوٹی گئی۔ میری بچی ان درندوں کے سامنے ہا تھ جو ڑ جوڑ کر التجا کرتی رہی مگر ان وحشیوں نے اسے نہیں بخشا، میں چیختی رہی چلاتی رہی کہ کوئی میری بچی کو بچالے مگر ہماری سنتا بھی تو کون سب اپنے آپ کو بچانے میں لگے ہوئے تھے۔ میرا دس سالہ لڑکا اپنی بہن کے ساتھ ہو تے ہوئے اس ظلم کو دیکھ نہ سکا جب وہ اپنی بہن کو بچانے کے لیے دوڑا تو ان وحشیوں نے اُس کے پیٹ میں چھرا گھونپ دیا اور پھر گھر کے سارے سامان کو بھی آگ لگا دی میری یہ معصوم بچی ایک کو نے میں سہم کر اپنی بہن کے ساتھ ان درندوں کا وحشیا نہ سلوک دیکھ رہی تھی، اپنی پرواہ کئے بغیر اپنی بہن کو بچانے کی خاطر آگے بڑھی مگر ان درندوں نے اس کو جلتی ہوئی آگ میں زور سے ڈھکیل دیا اور تبھی اس بربادی کی آگ نے اس کی آنکھوں کی روشنی چھین لی۔ ہمارا سب کچھ برباد ہو چکا تھا، میری وہ بچی ان ظالموں کے وحشی پن کو برداشت نہ کر سکی وہیں پر دم توڑ گئی۔۔۔ ہم دونوں کے علا وہ ہمارا کو ئی بھی تو نہیں بچا، کسی طرح میں اس کو لے کر وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئی ہم دونوں کی جانیں پتہ نہیں خدا نے کیوں بخش دیں، اس قدر بھیانک مناظر دیکھتے ہوئے بھی شاید اس بچی کی خاطر میری سانسیں دم نہیں توڑ سکیں میری آنکھوں کے سامنے میرے گھر کے سارے افراد ختم ہو گئے۔ اس کشیدگی اور خوف کے سائے میں جینے کی تمنا اب کس کو ہے، خوشی اور چین کے بارے میں تو ہم خواب میں بھی نہیں سو چ سکتے یہاں موت بھی تو اتنے وحشیا نہ پن کی ملتی ہے خوف سے دل دہل جا تے ہیں، کاش کے ہم بھی اسی وقت اس جہنم نما دنیا سے کوچ کر جاتیں اس کی آنکھوں کی روشنی چلی ہی گئی مگر اس وحشت ناک مناظر سے یہ اتنی خوف زدہ ہو چکی ہے اس نے بو لنا بھی چھوڑ دیا ہے بولے بھی تو کیا بولے اور کس سے بولے اس کا ایک دور ایسا بھی گذرا ہے جب یہ لمحہ بھر کے لیے بھی چپ نہیں بیٹھتی تھی، ہر وقت گنگنا تے رہنا اس کا مشغلہ تھا سب کو کچھ نہ کچھ بول کر ہنساتے رہتی تھی اس کو اپنی دیدی سے بےحد پیار تھا اور اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ ہر وقت کھیلا کرتی تھی اسے چھیڑا کرتی تھی، اس تشدد بھرے فساد نے اس کی آ نکھوں کے ساتھ اس کی ہنسی اس کی شوخی سب کچھ چھین لیا۔

    یہاں تک کہ اس کی زبان پر بھی تالے لگ گئے ہیں، نہ جانے کب تک میں اس کی حفاظت کر پاؤنگی۔۔۔ میرا دل درد سے بھر آیا میں نے اس لڑکی پر نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ اس کی بےنور آنکھوں سے آنسوؤں کی قطاریں خاموشی کے ساتھ بہہ بہہ کر گالوں پر سے گذرتے ہو ئے اس کے پھٹے پرانے ڈوپٹے میں جذب ہو نے کی کوشش کر رہے تھے۔۔۔ اس عورت کی آواز پر پھر ایک بار میں ان کی طرف متوجہ ہوئی وہ کہہ رہی تھیں۔۔۔ بیٹی بس اب تو ہر وقت میں خدا سے یہی دعا کرتی ہوں کہ میری آنکھوں کے سامنے ہی میری معصوم اور خوفزدہ بچی کو اپنے پا س بلا لے تاکہ میں چین سے مر تو سکوں۔۔۔ پھر وہ مجھ سے پو چھنے کے انداز میں بولنے لگیں۔ بیٹی آخر یہ انسان اتنے درندہ صفت کیوں ہو گئے ہیں۔ ان کی انسانیت کہاں کھو گئی ہے۔ یہ انسان نفرت کے شعلوں میں کیوں جھلس رہے ہیں، یہ فتنے فساد یہ نا قابل یقین بر بریت، انسانوں کا انسانوں پر ظلم، یہ قتل عام، یہ لوٹ مار، آتش زنی، شہر کے شہر اس آگ میں جل رہے ہیں ہر کسی کے سر پر قتل و غارت گری کا بھوت سوار ہے، نہ انہیں اپنوں کی حفاظت کا ہو ش ہے نہ دوسروں کی بربادی کا خیال انسان کا اصل مذہب تو انسانیت ہے مگر یہ انسان کو کیا ہو گیا ہے جو انسا نیت کی بلندی کے قد سے گرتا ہو ا پستی کی طرف بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ خدا ہی رحم فرمائے۔۔۔ یہ کہتے ہو ئے وہ جا نے کے لیے اٹھ کھڑے ہو ئے۔۔۔ تب مجھے ہو ش آیا مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں ایک بہت بڑی کھائی میں گرتے گرتے خود کو بڑی مشکل سے سنبھال پائی ہوں، میں جلدی سے کمرے میں گئی اور ایک بڑا سا ڈوپٹہ لاکر اس عورت کے ہاتھوں میں رکھ دیا تبھی اس ماں نے اپنی بیٹی کے بدن سے اس پھٹے پرانے ڈوپٹہ کو جدا کیا اور یہ ڈوپٹہ اسے اوڑھا دیا، ساتھ ہی مجھے دعائیں بھی دینے لگیں۔۔۔ انہیں جاتے ہوئے دیکھ کر بےساختہ میری زبان سے نکلا، آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں؟ آپ کا اس دنیا میں کوئی بھی تو نہیں ہے، میری بات سن کر وہ عورت بول پڑیں، بیٹی جس نے پیدا کیا ہے وہ بڑی طاقت رکھتا ہے، ہم جہاں بھی جائیں گے وہ ہم پر ایک نظر کرم ضرور رکھےگا بس اب تو ایک اسی کا بھروسہ ہے۔۔۔ پھر میری زبان نے کچھ بھی کہنے کو میرا ساتھ نہیں دیا، میری درد میں ڈوبی نمنا ک آنکھیں انہیں جاتے ہو ئے دور تک دیکھتی رہیں وہ لڑکی اس ڈوپٹے کو اس طرح اپنے بدن سے لپیٹ کر جا رہی تھی، مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ خاموشی سے اس ڈوپٹے سے ایک وعدہ لے رہی ہو کہ اسے اپنے اندر محفوظ رکھ لے۔۔۔ اور میں سو چ رہی تھی کہ میں نے ایک ڈوپٹہ دے کر اس لڑکی کے بدن کو تو ڈھانپ دیا۔ مگر ایسے نہ جانے کتنے بےسہارا لوگ ہوں گے جو ان فسادات میں گھر سے بے گھر ہوکر گلی گلی بھٹک رہے ہوں گے، ایسی کتنی مائیں اور بہنیں ہوں گی، جوروٹی کپڑوں کی محتاج ہوں گی۔۔۔ یہ انسان آخر انسانیت کا لبادہ کیوں کر اتار پھینک چکے ہیں، انہوں نے یہ خوفناک وحشت کا لبادہ کیوں اوڑھ رکھا ہے، یہ لو گ آخر کب اسے اتار پھینکیں گے اور کب انسانیت اور اخلاق کا پاکیزہ ڈوپٹہ اوڑھیں گے وہ دن آخر کب آ ئےگا جب انسانوں کو انسان کے روپ میں دیکھ کر یہ روتی بلبلاتی ہو ئی انسانیت مسکرائےگی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے