نکاح کے دو بول کیا پڑھائے گئے بس ہر ایک یہی سوچ لیتا ہے کہ زندگی بھر کا سودا ہو گیا۔ ان دو لفظوں سے زندگی بھر کے لیے دو دِل اور دو جسم بندھ گئے۔ اور لڑکی کے لیے تو اب کسی پرائے یعنی دوسرے مرد کی طرف دیکھنا بھی حرام۔ پسند نا پسند سب ایک طرف جو ہے جیسا ہے بس نباہ کرنا ہے۔ نعیمہ اور انور کی شادی ایسے ہی ہوئی تھی۔ دونوں پڑھے لکھے تھے اپنے فیصلے خود کر سکتے تھے لیکن خاندانی مزاج اس کے برخلاف تھا۔ دونوں کے گھر والوں نے یہ رشتہ طے کیا تھا۔ لیکن شادی کے بعد کسی نے بھی ایک دوسرے کو پسند نہیں کیا۔ جلد ہی دونوں کو اس بات کا احساس ہو گیا کہ ہندوستان کے پچہتر فیصد جوڑوں کی طرح وہ دونوں بھی ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ شروع شروع کے دن ایک دوسرے کو دریافت کرنے میں گزر گئے اور پھر بچے پیدا ہوئے ایک، دو، تین اور عمر کی ایک دہائی یوں ہی گزر گئی۔
شادی کے ابتدائی دنوں میں نعیمہ نے اچھے کپڑے زیورات اور سجنا سنورنا بھی کیا۔ یہ سب بھی وہ شاید اس لیے نہیں کرتی تھی کہ شوہر کو خوش کرسکے بلکہ اس لیے کرتی تھی کہ یہ اس کا شوق تھا۔ لیکن جلد ہی اس کا یہ شوق بھی دھیما پڑ گیا۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ انور نے کبھی اس کے زیورات، کپڑوں اور پسندیدہ چیزوں میں دلچسپی نہیں لی۔ کبھی اسے پسندیدگی یا تعریفی نظروں سے نہیں دیکھا۔ لہٰذا تعریف سننے والی بے چین عورت دھیرے دھیرے نعیمہ کے اندر کہیں مر گئی۔ لیکن اس کا ردعمل بھی نعیمہ میں شدید ہوا۔ نعیمہ نے بھی انور کے اندر کے مرد کو ترسانا شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ فاصلے بڑھنے لگے۔ دونوں ایک دوسرے کی خرابیاں نکالتے کیڑے بینتے۔ نعیمہ تن جاتی، تم نے کیا ہی کیا ہے میرے لیے؟ تمہیں تین بچوں کی ماں بنایا ہے۔ انور جواب دیتے تو نعیمہ اور چڑھ جاتی۔ یہ کام تو جانور بھی کر لیتے ہیں۔ بس تم سے بات کرو تو بھی مصیبت نہ کرو تو بھی مصیبت۔ انور کہتے۔
ہاں غلط بات کو صحیح کرنا تمہاری عادت ہے۔ لیکن میں نے جو سہا ہے میں ہی جانتی ہوں۔ بچے سرکاری اسپتالوں میں پیدا ہوئے، سرکاری اسکولوں میں پڑھے، جو تم نے دیا اس میں گزر کیا تمہارا گھر چلایا۔ تمہاری اور تمہارے بچوں کی خدمت گزاری کی اور جب تمہارے آگے پھیلی ہوئی یہ ہتھیلی خالی رہنے لگی تو ٹیوشن کرکے چار پیسے بھی کمائے۔
نعیمہ جب بھی اس طرح کی شکایتیں کرتی تو جذباتی ہو جاتی۔ رونے اور کانپنے لگتی۔ لیکن انور نے نہ کبھی اسے پیار کیا نہ چھپایا نہ دلجوئی کی۔ بلکہ وہ پتھر کی طرح بےحس بیٹھے رہتے۔ سگریٹ پیتے رہتے یا اخبار پڑھتے رہتے۔ بس کبھی کبھی درمیان میں وہ بھی نعیمہ کی زیادتیوں کو گنواتے۔ تو نعیمہ اور جھنجھلا جاتی اور کہتی ’’میرے اندر کوئی خوبی نہیں سب خرابیاں ہی خرابیاں ہیں تو کیوں رکھا ہے مجھے چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ میں خود ہی چلی جاؤں گی کسی دن۔ لیکن یہ جملے تو نعیمہ ایک بار نہیں کئی مرتبہ ادا کر چکی تھی۔ کبھی کبھی یہ بھی امید اسے ہوتی تھی کہ شاید انور اس بات پر تڑخ جائیں اور کہیں کہ آئندہ ایسے الفاظ منہ سے نکالے تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔ اسے اس کی اہمیت کا احساس دلائیں غصہ سے ہی سہی لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ بلکہ انور تو کچھ ایسا تاثر دیتے جیسے تمہاری مرضی میں نے تمہیں زبردستی تو نہیں روک رکھا۔ رہو یا جاؤ۔
انور اسے ایسے نظر انداز کرتے کہ اس کا دل پارہ پارہ ہو جاتا۔ وہ روتی جاتی سسکتی جاتی۔ گھر سے باہر نکلتی۔ ادھر ادھر بےمقصد سڑکوں پر ماری ماری پھرتی بازاروں میں شاپنگ کرتے اور گاڑیوں میں گھومتے جوڑوں کو دیکھتی تو اپنی قسمت پر اور روتی۔ اسے کبھی کبھار انور نے کچھ لاکر دیا تو پسند نہ ہونے کے باوجود بھی وہ اس کی تعریف کرتی اور خوش ہوتی لیکن ایسا تو شادی کے ان بیس برسوں میں مشکل سے دو یا تین مرتبہ ہی ہوا ہوگا۔ بازاروں سے وہ گھبرا کر نکل جاتی اور کسی نہ کسی سہیلی کے جاکر کچھ وقت گزارتی۔ جاتی تو کہاں جاتی؟ میکہ تو بہت دور تھا اور پاس بھی ہوتا تو وہاں وہ کیسے جاتی کیا کرتی۔ شروع شروع میں تو وہ اس لیے نہیں گئی کہ چھوٹی دو بہنیں بیاہنے کو بچی ہیں۔ اماں انہیں کی فکر میں گھلی جا رہی ہیں۔ اب وہاں بھی تو بہت کچھ بدل گیا تھا۔ بہنیں اپنے گھروں کی ہوئیں اور آگے پیچھے اماں ابا اپنے گھروں کے۔ کبھی مہمان بطور میکے جاتی تھی اب کہاں جائے؟؟ اور پھر سوچتی بچے ابھی چھوٹے ہیں۔ ان کا کیا قصور— ذرا پل جائیں تو کہیں بھی چلی جاؤں گی۔ جب خود ہی کمانا خود ہی کھانا تو اماں کے پرانے گھر کو ہی آباد کرلوں گی۔ اور پھر خود بہ خود واپس گھر کی طرف قدم اٹھ جاتے۔ بس یوں ہی روتے بلکتے لڑتے جھگڑتے دن ماہ سال اور پھر ایک یگ بیت گیا بیس برس۔ اب بیٹی پرائی ہوئی تو ذرا جان میں جان آئی۔ دونوں لڑکے ابھی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ انور بالکل نہ بدلے تھے بلکہ دھیرے دھیرے ان کا چڑچڑاپن بڑھتا جا رہا تھا۔ بات بات پر جھگڑے ہوتے۔ اس دن تو حد ہو گئی۔ نعیمہ کی کئی روز سے طبیعت خراب چل رہی تھی۔ گھر بے ترتیب پڑا تھا۔ اتفاق سے ان کا کوئی دوست آ گیا۔ بس اس کے جانے کے بعد گھر میں جیسے قیامت آ گئی۔ یہ توڑ وہ توڑ ادھر سامان پٹخ ادھر پٹخ۔ کس پھوہڑ سے پالا پڑا ہے۔ زندگی خراب ہوگئی میری۔ چیخ چیخ کر انور نے سارا گھر سر پہ اٹھا لیا۔ دونوں لڑکے سہم گئے ابھی ان کی بساط ہی کیا تھی۔ ایک کی دس برس اور ایک کی چودہ برس۔ نعیمہ آج نہ چیخی نہ چلائی نہ اس نے کوئی ردعمل ظاہر کیا۔ وہ خاموش یہ تماشا دیکھتی رہی اور سوچتی رہی۔ اس بے حس انسان کے ساتھ اس نے کیسے بیس برس گزار دئیے جسے یہ بھی احساس نہیں کہ اس کی بیوی بیمار پڑی ہے۔ بخار میں تپ رہی ہے۔ اس نے سوچا اب مجھے روکنے والا میرے پیروں میں بیڑی ڈالنے والا کوئی نہیں۔ بچے بھی نہیں۔ یہاں بے مصرف چیزوں کی طرح کب تک پڑی رہوں۔ میری حیثیت بھی گھر کے اس سامان سے زیادہ کچھ نہیں۔ تپتے جسم کی تپش بڑھتی چلی گئی۔ اسے محسوس ہونے لگا اس کے جسم کے روئیں روئیں میں مہین مہین سوئیاں چبھ رہی ہیں۔ کتنی اکیلی کتنی تنہا تھی وہ زندگی کے اس طویل سفر میں۔ اس نے ایمانداری سے خود کو کھنگالا۔ کیا اس نے کوشش نہیں کی اس گھر کو بنانے سنوارنے میں؟ اور اس کا شوہر انور... باوجود لاکھ کوششوں کے نعیمہ اس کے اندر داخل نہیں ہو سکی اور نہ ہی وہ نعیمہ کو سمجھ سکا۔ نعیمہ کے جذبات احساسات ہمیشہ انور کی مشینی زندگی کی زد میں آکر ختم ہوتے چلے گئے۔ وہ سوچتی اور حیران رہ جاتی کہ تعلیم یافتہ دو انسانوں کی سوچ کے دھارے اتنے مختلف ہو سکتے ہیں؟ وہ خوبصورت احساس اس کے اندر اب بھی زندہ تھا جب شادی سے پہلے اور شادی کے بعد کئی مردوں نے اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اس نے محبت کی ان پینگوں کو بڑھنے نہیں دیا۔ کبھی کبھی وہ سوچتی شاید انور بھی اپنے اندر کوئی نہ کوئی کرب لیے جی رہے ہوں... بزرگوں کے فیصلے کو لادے لادے شاید ہم دونوں کی ہی کمر ٹوٹ گئی تھی۔
نعیمہ نے دل ہی دل میں گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ بڑبڑاتی ہوئی جانے کی تیاری کرنے لگی۔ لیکن کیا لے کیا نہ لے۔ جب جانا ہی ہے تو سامان کیسا؟ کیا کرےگی اس سامان کا اسے سامان سے کوئی محبت نہیں۔ اس نے دو جوڑی کپڑے بیگ میں ڈالے اور خاموشی سے گھر کو خیرباد کہہ کر باہر قدم رکھ دئیے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ چار قدم چلی تھی کہ وہ پتھر کا بت بن گئی۔ جب اس نے بیٹی داماد کو آتے دیکھا۔
ارے امی۔ کیسی ہیں آپ؟ ابو نے فون پر بتایا تھا آپ کئی روز سے بیمار ہیں۔ بیٹی نے ماں کے گلے میں باہیں ڈال دیں۔ امی اچھی تو ہیں آپ۔ ارے! آپ کو تو اب بھی بخار ہے۔ داماد نے ماحول کی سنجیدگی کو جانے بغیر گھر میں قدم رکھے تو نعیمہ بھی اپنے آنسو پیتی ہوئی بیٹی کے ساتھ گھر میں داخل ہو گئی۔ لیکن امی یہ بیگ لے کر آپ جا کہاں رہی تھیں؟
بیٹا وہ... وہ... پڑوس والوں کو ضرورت تھی ذرا بیگ کی۔ اوہ— چلئے آرام کیجیے۔ میں دے آتی ہوں۔
نہیں نہیں کوئی بات نہیں۔ میں صبح کو بھجوا دوں گی۔ بیگ ایک طرف رکھ کر نعیمہ اپنے کپکپاتے وجود کو لے کر بستر پر ڈھیر ہو گئی۔ یہ سوچے بغیر کہ اس کا یہ فیصلہ وقتی ہے یا...؟
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.