Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک جاسوسی کہانی

جوگندر پال

ایک جاسوسی کہانی

جوگندر پال

MORE BYجوگندر پال

    کہانی کی کہانی

    یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو ریٹائرمینٹ کے بعد اسٹیشن سے پیدل ہی گھر کی طرف چل دیتا ہے۔ چاندنی میں سنسان سڑک پر خاموش چلتا ہوا وہ اپنی بیتی ہوئی زندگی، دفتر میں اپنی کارکردگی اور بیوی کے ساتھ خود کے رشتوں پر غور کرتا جاتا ہے۔ مگر تبھی اسے احساس ہوتا ہے کہ کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ اور جب تک اسے اس بات کا یقین ہوتا ہے تب تک اسے اپنے خسر کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا جا چکا ہوتا ہے۔

    بابرنےفیصلہ کیا کہ وہ اپنا سامان وہیں اسٹیشن ماسٹر کی نگرانی میں چھوڑ کر پیدل ہی اپنے گاؤں کو ہولے۔

    چاندنی رات ہے اور زیادہ سے زیادہ ڈھائی میل کافاصلہ ہے۔۔۔ چلو۔۔۔ اس نے اپنے آپ کوحکم دیا اور مسکرانےلگا۔۔۔ ارے بھائی ریٹائر ہوکے آرہے ہو۔ اب بھی حکم وکم چلاتے رہوگے تو اوروں کو چھوڑدو اپنا کہناخود آپ بھی نہ مانو گے۔

    اسٹیشن ماسٹر سے مل کر وہ ریلوے پلیٹ فارم سےباہر آگیا اور اس کی آنکھوں سے برآمد ہوکر اس کےسامنے ایک سڑک دور دور تک سیدھی بچھتی چلی گئی۔ سڑک کے دونوں کناروں پر برگد کےدرخت داڑھیاں لٹکائے چپ چاپ گویا ہتھیار ڈال کر نہتے کھڑے تھے۔

    خبردار! فرار ہونے کی کوشش کی تو گاڑ کے رکھ دوں گا۔

    بابر کے نام سے بڑے بڑے ڈاکو کانوں پر ہاتھ رکھتے تھے۔

    نہیں، کانوں تک نہیں، ایک دم سیدھے اوپر اٹھاؤ۔

    برگد کا وہ درخت تو نرا پرا رام سنگھ دکھائی دےرہاتھا۔ بابر کی آنکھوں کی دونالی بندوق کے سامنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے۔۔۔

    بابر ہنسنے لگا۔ جب تک آزاد تھا چاروں طرف دھاندلی مچائے ہوئے تھا، پر اب گڑگیا ہے تو داڑھی کھول کے فقیر بن گیا ہے۔۔۔ نہیں۔۔۔ بابر نےذراسنجیدہ ہوکر اپنے آپ سے اتفاق کرنے سےانکار کردیا۔۔۔ رام سنگھ طوفانی ضرور تھالیکن شروع سے ہی دل کاگہرا اور گڑا ہوا فقیر تھا۔

    وہ سڑک پر اترآیا اور اس کے قدم تیزتیز اپنی حویلی کی طرف اٹھنےلگے۔۔۔میں نےاچھا ہی کیا کہ اطلاع دیے بغیر چلا آیا ہوں، نشو کو ہمیشہ شکایت رہتی ہےکہ میں اطلاع کے بغیر اچانک غائب ہوجاتا ہوں۔۔۔ اور اطلاع کےبغیر آجاتاہوں، تب۔۔۔؟ تب بھی یہی لگتا ہے کہ کسی ڈاکو کی قید سےایک آدھ گھنٹے کی مہلت لے کے آئے ہو۔۔۔ چلو اچھا ہوا۔ اس دھندے سے چھٹکارا ہوگیا ہے۔ اب مزے سےساری عمر اپنے گاؤں کی حویلی میں گزاردیں گے، جو من میں آیا، کریں گے۔۔۔ پر جوکچھ بھی کرنا ہے وہ تو تم کرچکے ہو بابر۔ نہیں، ابھی ہمیں بڑےبڑے ڈاکے ڈالنے ہیں نشو، اور پھر اکٹھا سولی پر چڑھنا ہے۔۔۔ تو ٹھیک ہے میرے ڈاکو، میں ابھی جاکے تمہارے غارکی جھاڑ پھونک کرتی ہوں۔۔۔ ابھی۔۔۔؟ اور کیا؟ اتنی بڑی حویلی ہے، دوچارماہ بھی پہلے گاؤں نہ گئی تو کیا ہم چمگاڈر ہیں کہ وہاں چین سے الٹا لٹک کرگزاردیں گے؟ تم اپنی ریٹائرمنٹ پر چلے آنا، میں ابھی جاکے حویلی کو رہنے کے قابل بناتی ہوں۔۔۔ تو پھر مجھے کون اس قابل بنائے گا کہ میں تمہاری حویلی میں رہ سکوں۔۔۔؟ وہاں پہنچ لو، پھر دیکھو کیسے اس قابل بناتی ہوں۔۔۔

    بابر سوچ رہاتھا کہ چوکیدار کو سمجھاکر باہر حویلی کے گیٹ پر ہی روک دوں گا اور دبے پاؤں نشو کی خواب گاہ کی طرف ہولوں گااور پھر روشندان سے دروازے کی اندرونی چٹخنی کھول کر چپکے سے اس کے ساتھ جاپڑوں گا۔ نشو اس عمر میں بھی کھلی آنکھوں سےسپنے دیکھنےکی عادی ہے۔ جاگ بھی پڑی تو خواب میں ڈوبی پڑی رہے گی اور جب خواب سے اوپر ابھرے گی تو مجھے سچ مچ وہاں پاکر خوشی سے کانپتی ہوئی گلے سے چمٹالے گی۔۔۔ ڈاکو۔۔۔ ڈاکو۔۔۔ اسے اپنا ڈی، ایس، پی شوہر اس لیے محبوب تھا کہ اسے ڈاکو سالگتاتھا۔

    بابرکسی آٹو موبیل کے مانند اسپیڈ میں اڑا جارہا تھا کہ اسے بےچین سا احساس ہونے لگا کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ دراصل جس دن سے وہ اپنی پوسٹ سے ریٹائر ہوا تھا اسے کئی بار محسوس ہوچکا تھا کہ کوئی اس کے پیچھے لگا ہوا ہے وہ بزدل نہ تھااور پیشے کی تربیت اور ضبط کے باعث اس میں اتنا حوصلہ تھا کہ سامنے سے دس آدمی بھی ٹوٹ پڑیں تو وہ ان کے مقابلے میں ڈٹ جائے، لیکن کوئی آگے ہو نہ پیچھے۔ بس کہیں چھپ کر ہر لحظ آپ کی ٹوہ میں ہو۔ اس حالت میں آپ پر گومگو اور ڈر کی کیفیت طاری ہو ہی جاتی ہے۔ بابر نے اپنے خوف پر قابو پانے کی کوشش کرتےہوئے بدستور آگے بڑھتے رہنا چاہا، پر وہ برگد کادرخت ڈاڑھی ہلا ہلا کر اس پر ہنسنےلگا۔۔۔ بابر، اپنے پیچھے دیکھنے سے کیوں گھبرارہے ہو۔۔۔؟ دیکھو۔۔۔ وہ دیکھو، کون آرہاہے۔۔۔؟ بابر نے تیزی سے اپنا سر موڑ لیا۔ پیچھے کوئی بھی نہیں آرہاتھا۔۔۔ نہیں، وہ ۔۔۔ وہاں تھوڑے فاصلے پر۔۔۔ نہیں! وہ تو کتا ہے۔ کتا اچھل اچھل کر چاندنی میں پھنسے ہوئے اپنے ہی سائے سے لڑ رہاتھا۔، یا شاید کھیل رہاتھا، بابر کو اپنی طرف دیکھتے ہوئے پاکر وہ رک گیا اور اس کی طرف سراٹھاکر شاید سوچنےلگا کہ بھونکنا شروع کردے یا اُسے جانے دے۔ بابر نے اسے پچکار کر اپنے پاس بلانا چاہا جس سے کتے کو غصہ آگیا او روہ بے اختیار بھونکنےلگا۔ اس کے بھونکنےکی آواز سن کر بابر چونک پڑا۔۔۔ یہ تو۔۔۔ یہ تو غفار کے کتے کی آواز ہے۔ غفارایک نہایت جابر مجرم تھا۔ ایک بار بابر نےاسے اپنی پناہ گاہ میں جالیا تو کہیں سےیہی کتا۔۔۔ ارے ہاں، یہی تو تھا۔۔۔اسے کاٹ کھانے کے لیے کود پڑا۔۔۔اور۔۔۔ اور بابر نےاسے شوٹ کرکے وہیں ٹھنڈا کردیا۔۔۔ یہ کتا۔۔۔ یہ ۔۔۔ یہ تو۔۔۔ بابر نےبڑے غور سےدیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ کتا دراصل چپ چاپ کھڑا ہے اور اس کا اتنا بڑا سایہ چاندنی میں سےاچھل اچھل کر بھونک رہا ہے۔۔۔ ایسے کیسے۔۔۔؟ نہیں،سایہ بھی خاموش تھا۔۔۔ اور کتا بھی۔۔۔ لیکن اس کے کانوں میں بھونکنے کی صداجوں کی توں آرہی تھی۔۔۔ بابر کو اپنے پاؤں بڑے وزنی محسوس ہونےلگے لیکن وہ ہمت کرکے اپنے راستے پر تیز تیز ہولیا۔ تین چار برگدوں کے قہقہوں نے اس کا پیچھا کیا اور آگے کے کئی برگد ہڑبڑاکر جاگ اٹھے اور جاگنے کے باوجود خواب کی کیفیت میں اپنی ڈاڑھیاں نوچنے لگے۔۔۔ بابر انجانے میں مسکرانے لگا اورمسکراتے مسکراتے اسے یاد آیا کہ ایک دفعہ میں نےنہایت غصہ کی حالت میں ایک مجرم کی ڈاڑھی نوچی تھی کہ میرے ہاتھ آگئی۔

    ہائیں! تم۔۔۔؟

    ہاں، کیا کرتا بابر صاحب؟ آپ کو میری اصلی شکل پسند نہیں تو مجھے خیال آیا کہ سادھو مہاتماکیوں نہ بن جاؤں،لوگ سادھو کہیں گے تو اپنے آپ کو سادھوؤں سا ہی لگوں گا۔۔۔

    لیکن مہاتما جی،میری دانست میں توآپ جیل بھگت رہے تھے۔۔۔ میں بڑی مستعدی سے اسے پستول کی زدمیں رکھے ہوئے تھا۔۔۔ اس نےمجھے بڑی ملائمت سے بتایا، جیل مجھے بھگت رہی ہے بابر صاحب۔۔۔

    وہ کیسے۔۔۔؟

    ایسے۔۔۔ وہ کسی چھلاوے کی طرح الٹی جست لگاکے پشت کی کھلی کھڑکی سےکود گیا۔۔۔ اتنا نڈر اور جیالا آدمی تھا کہ اس کا پیچھا کرنے کو اس لیے جی چاہاکہ اس سے ایک اور ملاقات ہوجائے گی۔

    برابر اندھا دھند سڑک پر چلاجارہاتھا۔ اس کی آنکھیں کھلی تھیں مگر نامعلوم وہ کہاں دیکھ رہا تھا۔ اس کے عین سامنے۔۔۔ وہ ۔۔۔ بڑا سا پتھر پڑا تھا اور پتھر پر چاندنی اوندھی ہوکر لیٹی ہوئی تھی اوراس کی رگ رگ میں سماگئی تھی جس سےاس میں جان پڑگئی تھی۔۔۔ ان کی وہ ساری رات اسی طرح بیت جاتی تو شاید صبح کو وہاں پتھر کی بجائے کوئی سچ مچ کا جاندار پڑا ہوتا، کوئی آدمی، چوپایہ، پرندہ یا سانپ، لیکن ۔۔۔ ار۔۔۔ر! تیز گام بابر کا پاؤں پتھر سے ٹکراگیا۔ چاندنی بابر کے سائے سے ہڑبڑاکر الگ ہوگئی، پتھر پھر پتھر ہوگیا اور بابر گرتے گرتے بمشکل بچا۔۔۔ ہہ ہا ہہ۔۔۔ پیچھے سے کسی کے ہنسنےکی آواز آئی۔۔۔ بابر نے اپنے کوٹ کی اندرونی جیب میں ہاتھ ڈال کر پستول نکالنا چاہا لیکن اسے یاد آیا کہ پستول تو اس کے سوٹ کیس میں رکھا ہے۔ جو وہ اسٹیشن ماسٹر کے پاس چھوڑ آیا ہے۔۔۔ وہ مڑ کر کھڑا ہوگیا اور اپنی آنکھوں کو سرچ لائٹ کے مانند بہ احتیاط گھمانے لگا۔۔۔ اور گھماتے گھماتے انہیں فوراً ایک جگہ پر ٹھہرالیا۔۔۔ وہ۔۔۔ وہاں چاندنی کے پیچھے درخت کے سائے میں کوئی انسانی خاکہ مسکرارہاہے! بابر کی آنکھیں اپنے اوپر پڑتے ہی وہ خاکہ درخت کے گہرے سائے کی طرف اچھل گیا۔ لیکن بابر نے شاید اسے پہچان لیا تھا۔۔۔ نہیں، یہ میرا وہم ہے۔ ایسے کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔ اپناپاؤں سہلاکر اس نے پھر اجاڑ سڑک پر چلنا شروع کردیا اور کچھ دور جاکر اس کے اعصاب کا تناؤ کم ہوا تو وہ ڈھیلی ڈھیلی نظروں سے آس پاس دیکھنے لگا۔ لیکن بابر کی ویرانی کااثر تھا یا کیا تھا کہ اس کی آنکھ بار بار اپنے ذہن کی طرف اٹھ رہی تھی۔

    بابر کا ذہن ایک پرہجوم شاہراہ بنا ہوا تھا اور کئی مجرم جنہیں وہ پھانسی دلواچکا تھااس شاہراہ پر اتنے چین اور آزادی سےگھوم رہے تھے کہ یہیں کہیں سے کٹے ہوئے راستوں کی بستیوں کے مکین معلوم ہوتے تھے۔ ان کے عمل و حرکت پر یہاں کوئی پابندی نہ تھی۔ کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ وہ خونی اور ڈاکو ہیں۔ کسی کو مرکے کہیں پہنچنا نصیب ہو تو وہ اپنی اچھائیوں کےسوا وہاں کچھ نہیں لاسکتا۔ بابر کو یقین تھا کہ سب کےسب یہاں بڑی بے ضرر اورنیک زندگی بسر کر رہے ہیں۔۔۔ یہ لالو۔۔۔ وہ روپا۔۔۔ وہ بنتو۔۔۔ موہنا۔۔۔ راگھو۔۔۔ سب کے سب اتنے سیدھے اور صاف ہیں کہ اپنی بجائےاپنے بھوت دکھائی دیتے ہیں۔۔۔

    ان بھوتوں کو ہردم سر پر چڑھا رکھوگے۔۔۔ گزشتہ بار بھی حسبِ عادت جب وہ اپنی بیوی سے ان کی باتیں لے بیٹھا تو اس نے متنبہ کیا۔۔۔ تو ایک دن یہ تمہیں تمہارے دماغ سے باہر ہانک دیں گے۔ زندہ تھے تو تمہاری جان کے بیری تھے، اور اب مرکھپ چکے ہیں تو یہیں کھٹکا لگارہتا ہے کہ تمہیں پاگل بناکر چھوڑیں گے۔۔۔ انہیں چھوڑو اور اپنی باتیں کرو۔۔۔

    اپنی باتوں کے لیے ہی ان کی باتیں کر رہاہوں نشو۔۔۔ نہیں، پہلے پورا قصہ سن لو۔۔۔ ہاں، تو جب مجھے اطلاع ملی کہ لالو اپنی محبوبہ کےہاں آپہنچا ہے تو میں فوراً پچیس جوان لے کر وہاں جاپہنچا۔۔۔ تم لالو کو نہیں جانتیں، پچیس تو کیا پچیس سو میں سے بھی للکار کر صاف نکل جاتا، لیکن اب کے یہ ہوا کہ لاڈو اسپیکر پر میری آواز سنتے ہی وہ باہر آگیا اور مجھ سے مخاطب ہوکے کہنے لگا۔۔۔ اگر اعتبار کرسکتےہیں بابر صاحب، تو اپنی پونی سےملنے کے لیے ایک گھنٹے کی مہلت مانگتا ہوں۔۔۔ میں پورے چھ بجے اپنےآپ کو گرفتاری کے لیے پیش کردوں گا۔۔۔ اور وہ پورے چھ بجےآگیا نشو۔۔۔

    پر اب اس کے سوا اس کے پاس اور چارہ ہی کیاتھا۔۔۔؟

    میں نےکہانا، تم لالو کو نہیں جانتیں۔ اگر اسے اپنے وعدے کا پاس نہ ہوتا تو کسی بھی دوزخ کی دیواریں اس کے لیے کوئی اتنی اونچی نہ تھیں۔۔۔ اس نے گرفتاری کے بعد واپسی پر مجھے بتایا، میں بہت براآدمی ہوں بابر صاحب، لیکن اپنی پونی کے سینے پر سرٹکالوں تو کم سے کم چارپانچ روز تک پورا فرشتہ بنارہتا ہوں۔ پہلے ہی آپ میری یہ کمزوری دریافت کرلیتے تو آپ کو کوفت نہ ہوتی۔۔۔ اور نشو، آج تک وہ میرے ذہن میں محبت کے فرشتے کے مانند آباد ہے۔ کئی بار۔۔۔ ہنسو نہیں۔ کئی بار تم سے ملے ایک عرصہ بیت جاتا ہے تو مجھے لگتا ہے، میں نہیں، میرا لالو تم سے ملنے کو بےتاب ہے اور جی چاہتا ہے کہ کام وام سے بلاجھجک استعفادے کر تمہارے پاس چلا آؤں۔

    نہیں بھئی، بھول کے بھی ایسا نہ کرنا۔ کروگے تو ان آخری دنوں کا کیا ہوگا جو تمہاری پنشن پر ہمیں گاؤں کی حویلی میں باہم گزارنے ہیں۔۔۔

    تم میرا مذاق اڑا رہی ہو نشو، لیکن یہی تو میں کہہ رہا ہوں، جو محبت کرتے ہیں وہ صرف گھنٹہ بھر کی فوری رفاقت کی خاطر سولی سے بھی نہیں ڈرتے۔

    نہیں بابا، تم دودس ایسے اور محبت کرنے والوں کو سولی پر چڑھواکر اس وقت مجھ سے ملنے آؤ جب تمہاری ایک ماہ کی چھٹی جمع ہوجائے۔۔۔ یہ تو تمہارے بڑے بھائی نے جائداد کے بارے میں وکیل کا نوٹس بھیجا ہے۔

    بابر یک لخت اداس ہوگیا اور آدمی غصہ یا خوشی میں جھوٹ بول سکتا ہے لیکن اداسی میں وہ ہمیشہ سچ بولتاہے۔۔۔

    ہم بھی کیسے بھائی ہیں نشو۔۔۔ مجھے یاد آرہا ہے کہ ایک بار ہم نے ایک قاتل کو یہ مشہور کرکے پھانس لیا تھا کہ اس کا چھوٹا بھائی اچانک حادثہ پیش آجانے سے ہسپتال میں پڑا ہے۔کیا یہ کمینگی نہیں کہ کسی کو برائی کی سزا دینے کے لیے اس کی اچھائی کو ایکسپلائیٹ کیا جائے؟ میرے بیشتر مجرموں کو اپنی برائیوں کی سزا اپنی اچھائیوں کے باعث ملی ہے نشو۔۔۔ نشو، میں کئی بار سوچتا ہوں کہ میری فطری محبتیں ۔۔۔ میری زندگی کی اولین قدریں دم توڑچکی ہیں، دستور اور قانون کی عادتوں سے میری زندگی کا اوپر اوپر تو سب ٹھیک ہے لیکن میرے اندر انسانیت کا جوہر مرچکا ہے۔

    اس کی بیوی ہنس پڑی۔۔۔

    میرے ابا کو ہماری شادی کے وقت یہی تو ایک اعتراض تھا مولوی صاحب، کہ آپ پولس کے آدمی ہیں۔

    ہاں، نشو، میں نے اپنی زندگی سے مذاق ہی کیا ہے کہ صرف پولس کاآدمی بنارہا۔ میں نے زندگی سےقانون اور ضابطہ تو برتا ہے، لیکن انصاف نہیں برت پایا۔

    بابر اپنے گردوپیش سے غافل اس جنگل کے بیچوں بیچ سیدھی راہ پر چلا جارہا تھا اور اپنے دل ہی دل میں بیوی سے ماضی کی ملاقاتیں دہرانے کے بعد اس وقت اس کی غیرموجودگی میں اس سے یہیں مل رہا تھا۔۔۔

    میں کھرا آدمی نہیں ہوں نشو، بلکہ عمر بھر اَن کھرے آدمیوں کےشکار میں لگارہا ہوں جو محض ضابطہ میں دھوکا کھاکے اپنے اپنےمقام سے اکھڑ گئے، وہ جو بھی تھے، کھرے تو تھے،لیکن مجھے اعتراف ہے کہ میں جو بھی ہوں ایک کھرا نہیں ہوں۔ میں نے ہمیشہ پیشہ وری کی ہے، تم سے بھی یہی کیا ہے۔ تمہیں ساری عمر انتظار کرنا پڑا کہ کب میری پنشن ہو اور کب میں فرصت سے تم سے محبت کروں، ضابطے کے اس المیے پر غور کرو نشو، کہ ہم نے اپنی محبتوں کو بڑھاپے تک روکے رکھا۔۔۔ کہ میرا بھائی کوڑی کوڑی کا محتاج ہے۔ لیکن میں اسے حساب کتاب سےایک کوڑی بھی زیادہ نہیں دینا چاہتا ہوں۔۔۔ ڈاکو بڑے بھولے ہوتے ہیں نشو اورمحض اوپری ڈاکے کی کھٹاکھٹ سے بدنام ہوجاتے ہیں۔ اصل ڈاکہ تو یہ ہے ک ڈاکو انسانیت کی نس نس کاٹ کر بھی قانون کا محافظ بنارہے۔۔۔ نشو، جب میری ماں مر رہی تھی تو میں نوکری حاصل کرنےکے لیے بڑی مستعدی سے مقابلے کے امتحان میں بیٹھاہواتھا، اور جب گھر پہنچا تو مجھے دوخبریں ملیں، ماں کی موت کی اور اپنی نوکری کی، اورمیں خوش تھا کہ چلونوکری تو مل گئی۔۔۔ ڈاکو میں ہوں نشو، محبتوں کا۔۔۔ اور نفرتوں کا بھی نشو۔۔۔ جس سے بھی میں نے نفرت کی ہے اسے محبت سے اتنے زور سے بھینچا ہے کہ وہ لٹ پٹ جائے۔۔۔ تمہیں معلوم ہے میں تمہارے دولت مند باپ سے نفرت کرتا ہوں، لیکن گزشتہ سال جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ اپنی وصیت لکھ رہا ہے تو میں اس سے نہایت محبت سے پیش آتا رہا اور سچے دل سے محسوس کرتا رہا کہ جسے میں نفرت سمجھتا تھا اس میں دراصل میری یہی محبت کارفرما تھی۔۔۔ تمہارے ابا کی صحت اب کیسی ہے نشو؟ خیریت کی چٹھی تو آتی رہتی ہے نا؟۔۔۔ تم چپ کیوں ہوگئی ہو؟ شاید ناراض ہوگئی ہو کہ میں نے تمہارے ابا کے بارے میں اپنی نفرت کا ذکر کیوں کیا ہے۔ میں تو۔۔۔ میں تو محض بات کرنے کے لیے بات کر رہا تھا نشو۔۔۔ میں۔۔۔ میں تمہارے ابا کی عزت کرتا ہوں، لیکن تمہیں سمجھانا چاہ رہاتھا کہ میں نہایت چھوٹا آدمی ہوں۔۔۔ میں تمہیں سمجھانا چاہتا ہوں نشو، کہ مجھ میں ڈاکو بننے کی بھی ہمت نہیں۔ میں ایک ادنیٰ چور ہوں اور اسی وجہ سے مجھے قانون کی تائید او رڈاکوؤں کی سرکوبی کاحق حاصل ہے۔۔۔ تم ابھی تک مجھ سے ناراض ہو۔۔۔ ہے نا؟

    اچھا بابا معاف کردو۔۔۔ میں تمہارے ابا سے بھی معافی مانگ لوں گا۔۔۔ خدا مجھے معاف کرے، جو شخص ہم سے اتنا وابستہ ہے کہ وصیت میں اپنی بے حساب دولت کا سب سے بڑا حصہ ہمارے نام لکھ دے وہ یقینا ہماری تمام تر محبتوں کا حقدار ہے۔۔۔ لیکن مجھے تسلیم ہے نشو، کہ میں بہت برا آدمی ہوں۔۔۔ میں اعتراف کرتا ہوں۔۔۔ نشو، مجھے اپنے سبھی گناہوں کا سچے دل سے اعتراف ہے۔

    کہا جاتا ہے کہ چاندنی آدمی کو پاگل بنادیتی ہے، شاید اس لیے کہ چاندنی میں آدمی کو سچ بولنے اور سوچنے کی ناقابلِ برداشت خواہش ہونے لگتی ہے۔۔۔ بوڑھے برگدوں نے مجرم کا اعتراف ٹوٹ کر کے چاند کا شکریہ ادا کیا جسے ذرا سا سرہلاکر قبول کرکے وہ بادلوں کی طرف بڑھنے لگا۔ ایک بار پھر اپنے قدموں کی آواز سنتے ہوئے بابر کو احساس ہوا کہ کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔۔۔ کون۔۔۔؟

    وہی دھندلا سا انسانی خاکہ! بابر کو رکتے ہوئے پاکر وہ بھی ٹھہر گیا۔

    تم؟

    بابر کسی کو اپنے ذہن کی شاہراہ میں ڈھونڈنے لگا اور پھر وہاں سے ادھر ادھر کٹی ہوئی سبھی راہوں کا چپہ چپہ اس نے چھان مارااور جسے وہ ڈھونڈ رہا تھا وہ کہیں نہ ملا تو پھر اپنے سامنے کھڑے خاکے پر نگاہ جمالی۔

    میں اگر واقعی میں ہوں تو پھر تم کون ہو۔۔۔؟ بولو، کون ہو۔۔۔؟ کیا۔۔۔ کیا۔۔۔؟

    بولو بابر۔۔۔ بابر کو جواب دو۔۔۔ فرار ہونا چاہتے ہو۔۔۔؟ لیکن فرار ہونا چاہتے ہو تو میرا پیچھا کیوں کر رہے ہو۔۔۔؟ تمہیں ڈر ہے کہ میں خودکشی کرلوں گا تو تم کیسے بچے رہو گے۔۔۔ جاؤ، جاؤ بابر، میں تمہارے بغیر ہی اچھا ہوں۔۔۔ قاتلوں اور خونیوں کی سچائیاں مجھے ہمیشہ بچائے رکھیں گی۔۔۔ جاؤ بابر! بابر کا پیچھا چھوڑو۔ جاؤ۔۔۔و۔۔۔ لالو۔۔۔ رامو۔۔۔ روپے۔۔۔ موہنے سب آؤ! آؤ، اس شخص کو مار مارکر بھگادو۔۔۔ جان سےماردو۔۔۔ موہنے۔۔۔ رامو۔۔۔ دیکھو بابر میری طرف بڑھ رہا ہے۔۔۔ تمہاری طرح مجھے بھی گرفتار کرنا چاہتا ہے۔۔۔ خبردار! ایک قدم بھی اور آگے بڑھایا تو تمہارا گلا گھونٹ دوں گا۔۔۔ بچاؤ۔۔۔

    چاند بادلوں میں گھس گیا تو چاروں طرف اندھیرا چھا گیا۔

    خبردار۔۔۔

    بابر اپنی جان بچانےکے لیے سرپٹ دوڑنے لگا۔۔۔ اور برگدوں نے صلاح و مشورہ ختم کرکے آخری فیصلہ کیا اور اپنی جگہوں سے اکھڑ اکھڑ کر اس کی چاروں طرف گھیرا ڈال لیا۔۔۔ بچاؤ۔۔۔ گھیرا تنگ ہتا گیا۔۔۔ اور تنگ۔۔۔

    بچاؤ۔۔۔ اور تنگ۔۔۔

    بہت ڈراما ہولیا بابر۔۔۔ اب ہاتھ اونچے کرلو۔۔۔ ہم نے تمہارے سسر کے خون کے سارے ثبوت فراہم کرلیے ہیں۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے