کہانی کی کہانی
یہ ایک ایسےلنگڑے بوڑھے پیر کی کہانی ہے جس کے پاس ایک کتا بھی ہے۔ وہ ہر روز شام کو کافی ہاؤس کے سامنے بیٹھا رہتا ہے اور وہاں طرح طرح کے کرتب دکھاتا رہتا ہے۔ بعد میں کافی ہاؤس کو توڑ دیا جاتا ہے اور اس کی جگہ بننے والی کثیر منزلہ عمارت کی تیسری منزل میں اسے دوبارہ کھولا جاتا ہے۔ ایک دن جب وہ سیڑھیوں سے چڑھتا ہوا کافی ہاؤس کے سامنے پہنچتا ہے تو اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
اس دن میں بہت اداس تھا۔
اپنے آخری دنوں میں وہ بھی اداس رہنے لگا تھا۔
ان د دنوں اس کے مریدوں کی بھیڑ چھٹ گئی تھی۔ وہ ان کی طرف دھیان جو نہ دیتا۔ ان کی بجائے وہ اپنے کتے میں زیادہ دلچسپی لینے لگا تھا۔
میرا خیال تھا اوگھڑ پیر کو اپنے لنگڑا ہونے کا کوئی غم نہیں۔ لیکن اس کے آخری دنوں میں میرا بھرم ٹوٹنے لگا۔ میں اس کی بے چینی کا کارن کھوجتے ہوئے اس کی بائیں ٹانگ کو دیکھتا رہتا۔ وہ بھی اسے ٹٹولتا ہوا اندر ہی اندر ٹوٹتا رہتا۔
پہلے کافی ہاؤس بند ہوتے ہی اپنے گرد آکھڑا ہونے والوں کو دیکھتا ہوا وہ کسمسانے لگتا۔ اس کی زرد آنکھوں میں عجیب چمک آجاتی۔ دن بھر کی خجالت کوجھاڑ کر وہ اپنی بیساکھی کے سہارے اٹھ کر کھڑا ہو جاتا۔ دو چار قدم لڑکھڑانے کے بعد بڑی روانی سے ناچتا ہوا اپنے دھول بھرے لمبے بالوں کو جھٹکنے لگتا۔ ہماری حیرت بڑھتی جاتی۔ دھیرے دھیرے ہم اس کے ناچ میں کھو جاتے۔ پھر وہ گھڑی آتی جب اس کی آدھی ادھوری ٹانگ بیساکھی میں جذب ہو جاتی۔ ہمیں یقین ہو جاتاپیر لنگڑا نہیں ہے اس کی اس کی دونوں ٹانگیں سالم ہیں۔ اس کے ناچ میں کوئی کج نہیں۔ وہ زندگی کی تال کو پہچانتا ہے اور اس کی لےپر ناچتا ہے۔
لوگوں کے من کو پڑھتے ہوئے میرے منہ سے نکل جاتا: ’’یہ پہنچا ہوا فقیر ہے۔ بیساکھی کو زندہ ٹانگ بنانے کا گر جانتا ہے۔‘‘
بھکتوں کو میری بات پر سرہلاتےدیکھ کر پیر کی داڑھی مسکرانے لگتی۔ اس میں اٹکے تنکے تھرکھنے لگتے۔ پیر بیساکھی کو پھینک کر ایک ہی ٹانگ پر ناچنے لگتا اور اپنے بازوآگے کو پھیلا دیتا پھر ہاتھوں کو اوپر اُٹھا دیتا۔ جیسے دنیا بھر کے دین دکھیوں کے لیے دعا کر رہا ہو۔وہ ناچتا رہتا اور اس کا چھوٹے قد کا کتا کوں کوں کرتا ہوا اس کی بیساکھی کو چاٹتا رہتا۔ مجھے وشواس ہو جاتا کہ پیر کو اپنے لنگڑا ہونے کا کوئی ملال نہیں ۔کبھی کبھی مجھے لگتا وہ اپنے اپاہج ہونے کو وردان سمجھتا ہے۔
یہ بات اس وقت کی ہے جب کافی ہاؤس دھرتی پر تھا۔ پیر اس کے سامنےوالے نیم کے پیڑ کے نیچے ڈیرہ ڈالے پڑا رہتا۔ اپنی چیتھڑوں کی پوٹلی اور ٹین کے ڈبے کو پیڑ کی جڑ میں رکھے سگرٹ بیڑی پھونکتا رہتا۔ کافی ہاؤس کی طرف دیکھتا ہوا اپنے کواندر ہی اندر کھوجتا رہتا۔
اس کے گرد بھیڑ کے اکٹھا ہونے میں اس کی نگاہوں کے زرد سونے پن کا بڑا ہاتھ تھا۔ لوگ اس میں کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے۔ پیر مسکرانے لگتا۔ ہونٹوں پر پھیلی مسکراہٹ کونگاہوں کے پھیکےپن میں کھلتے دیکھ کر مرید عقیدت سے بھر جاتے تبھی پیر صدا لگانے لگتا۔ اونگھتے آس پاس کو آنکھیں ملتے دیکھ کر میں بول پڑتا، ’’یہ صَدا نہیں فطرت کے دل کے ناسور کی ہوک ہے۔‘‘
مریدوں کو سن ہوا دیکھ کر پیر اپنی پوٹلی سے چیتھڑا نکالتا۔ اسے زمین پر بچھا کر مجھے اس پر بیٹھنے کا اشار کرتا۔چند ہی لمحوں میں وہ اپنے کو سمیٹ کر آنکھیں بند کر لیتا۔ اسے اپنے میں ڈوبا دیکھ کر لوگ منتیں ماننے لگتے۔ اس کے گھور گمبھیر چہرے کو دیکھتے ہوئے سجدہ کرتے اور اپنے ٹھکانوں کو چل دیتے۔ رات گیےآکاش کی آنکھیں ٹپکنے لگتیں ،پیڑ سسکیاں بھرنے لگتا۔ دھرتی بھی سبکنے لگتی۔ پیر آنکھیں کھولتا۔ مجھے اپنے پاس بیٹھا دیکھ کر کہتا: ’’تم اس زرد چہرے والے سے ناطہ توڑ لو اس کے پاس کچھ نہیں۔ میرے پاس بھی اسے دینے کو کیا دھرا ہے! اس کی میرے لیے عقیدت بھی اس کو نجات نہیں دلا سکتی۔‘‘
مجھے خاموشی سے اپنی بات سنتے دیکھ کر وہ بیڑی سلگا لیتا۔ دو چار کش کھینچنے کے بعد اسے زمین پر مسل دیتا:’’تم اس کا مارگ جانتے ہو نہ منزل۔ اس کے انتشار کا ٹھکانہ نہیں۔ ہسپتال کے عقب میں رہتے رہتے وہ دماغی دق میں مبتلا ہو گیا ہے۔‘‘
’’تم کیسے جانتے ہو؟‘‘
’’وہ میرا پرانا مرید ہے۔ بہت پہلے اس نے مجھے بتایا کہ اسے آئینہ دیکھ کر وحشت ہوتی ہے۔‘‘
’’وہ کیوں؟‘‘
’’وہ کہتا تھا آئینے میں پہلے اسے ایک کے دو پھر دو کے چار پھر ان گنت چہرے دکھائی دینے لگتے ہیں۔‘‘
’’اس کا کارن بھی بتایا ہوگا۔‘‘
’’وہ کوئی ڈاکٹر تھوڑی ہے لیکن مجھے پتہ ہے کہ اس پر دق کے زہر کا اثر ہے۔اس روگ کے مردہ ہیجان نے اس کا دماغی توازن بگاڑ دیا ہے۔ اس کی کسی بات میں ٹھہراؤ نہیں رہا۔ اب وہ کسی پل کچھ بھی کر سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کسی دن وہ آئینے سے ہی بھڑ جائے اور کانچ کے ٹکڑے اس کے رگ وریشے کو کاٹ ڈالیں۔‘‘
’’پھر تو اسے بچانا چاہئے۔‘‘
’’کوئی کسی کو بچا سکتا ہے؟‘‘ پیر نے میری بات کو رد کرتے ہوئے پوچھا، ’’کیا اس نے کبھی تمہارے ساتھ کافی پیتے ہوئے اچانک ہی کہنا شروع نہیں کر دیا؟‘‘
’’کیا کہنا شروع نہیں کر دیا۔‘‘
’’یہی کہ قید سے بھاگنے والے پانچوں میں سے ایک بھی نہیں بچا۔ تین پولیس کی گولی کا شکار ہو گیے اور دو نے آتم ہتیا کر لی۔‘‘
’’کئی بار وہ بڑبڑا یا ضرور ہے لیکن میرے پلے کچھ نہیں پڑا۔‘‘
’’یہی بڑبڑاہٹ اس کی بیماری کی نشانی ہے۔ اس کا منہ سے نکالی بات کے بدلے سگرٹ مانگنا اور سگرٹ ملتے ہی وہسکی کے لیے گڑگڑانا اس بیماری کے کارن ہے جو اس پر قابو نہ رہنے سے لفظوں پر بھی کوئی۔۔۔۔ورنہ۔۔۔ خیر تم اس سے پیچھا چھڑاؤ۔ اب تو اس کے چہرے پر تانبئی چمک بھی لہرانے لگی ہے۔ باتیں کرتے ہوئے منہ سے جھاگ چھلکتی ہے۔ پتہ نہیں وہ کیوں نہیں سمجھتا کہ بات ڈھیر لگانے کی نہیں بات کاٹ چھانٹ کرنے کی سوجھ بوجھ ہونے کی ہے۔۔۔۔ لیکن بندر کےہاتھ بلیڈ لگ جائے تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔۔۔!‘‘
پیر خاموش ہو جاتا۔ آس پاس ماتمی دھن گونجنے لگتی۔ میرے من کے پردے پر ایک کے بعد دوسرا چہرہ ابھرنے لگتا۔ اس پر پیر کا جھنجھلانا یاد آتا اور سامنے کی چیز دور اور دور کا منظر بالکل سامنے دکھائی دینے لگتا۔ پیر کی خاموشی بولنے لگتی،
’’تم تو اس کی محبت سےکبھی باز نہیں آتے جس کے بازو کہنیوں تک برف میں دھنسے ہوئے ہیں۔ اسے صرف سردی ستاتی ہے جھلس کر رکھ دینے والی لو کا احساس تک نہیں۔ کیا تماشہ ہے کہ اس کے لیے موسم تین چوتھائی مرچکا ہے۔ میں نے اسے کئی بار سمجھایا ہے کہ ایک باگ کا گھوڑا ایک ہی سمت میں مڑتا رہتا ہے لیکن دِشائیں انگنت ہیں۔ کاش وہ جانتا کہ کوئی راہ منزل تک نہیں جاتی، دِشاؤں کو بدل بدل کر پہننے میں ہی ہماری مکتی ہے۔ صرف برف کی بات کرنے، اس میں دفن اپنے بازوؤں کو دیکھ کر چونکنے اور اس کی دہائی دینے سے کچھ بھی بننے والا نہیں۔ سوائے اس کے کہ ہم کو لہو کا بیل بن جائیں۔۔۔‘‘
فضا میں گھر کرتی ٹھنڈک کو محسوس کر کے میں پہلو بدلتا۔ اس کے ساتھ ہی میرے سامنے روس کی یاتراسے لوٹے سرکاری لوٹن کبوتر کا چہرہ آجاتا۔ وہ بار بار کہتا۔ تم نہیں جانتے سمور کا کوٹ اور سمادار کیا چیز ہیں۔ ہمیں اپنی بات پر مسکراتے دیکھ کر اس کا روز بروز چوڑا ہوتا ہوا ماتھا کھل اٹھتا۔ وہ لو سے مرجھائی پسینہ پسینہ ہوئی شام کو بھول کر اپنی گود میں پڑے سمور کے کوٹ کو اوڑھنا شروع کر دیتا۔ میں اسے کافی پینے کے لیے کہتا تو وہ گھر میں پڑے سمادار کی یاد دلاتا۔ اب میں کافی نہیں پیتا۔ سمادار میں بنے قہوے کے سوائے مجھے کچھ اچھا نہیں لگتا۔
’’میں نے ٹرانسپورٹ بھون کا انچارج ہوتےہوئے بھی یاترانہیں کی۔ میرے دفتر میں دنیا بھر کے سندراستھانوں کے چتر لٹکے ہیں، لیکن فاصلہ طے کرنے کا سکھ میرے بھاگیہ میں نہیں۔ دوسروں کو اپدیش دینے اور خود سمے اور ستھان کو سر کرنے میں ناکام رہنے جیسا دکھ کوئی نہیں۔ صرف ذریعہ مل جانے سےمنزل نہیں مل جاتی۔۔۔‘‘ وہ بلور اٹھا کر پھر پپوٹوں میں سجا لیتا۔
’’اسی کو بدقسمتی کہتے ہیں۔‘‘
پٹھان کو یوں اداس دیکھ کر مجھے پیر کی بات یاد آ جاتی۔ اتنے بڑے ڈیل ڈول کے آدمی کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ہم کہیں سے چلتے ہیں نہ کہیں پہنچتے ہیں۔ یاترا پانو پر چلنے کا نام نہیں۔۔۔ دراصل دونوں میں سے کوئی بھی نہیں چلتا۔۔۔ وقت نہ ہم ۔۔۔ و اتاورن کے بے چین ہوتے ہی پٹھان کی دائیں طرف بیٹھا ڈاک بابو کافی کا پیالہ میز پر رکھ دیتا اور اپنی پائپ سے کھیلنے لگتا۔
وہ اس وقت کو یاد کرتا جب وہ محض ڈاکیہ تھا۔ لوگوں کو چٹھیاں بانٹنے سے پہلے انہیں پڑھ کر خوش ہوا کرتا تھا۔ اب بھی وہ باہر کے دیشوں سے آنے والی ڈاک کو کھولنا نہیں بھولتا۔ ان میں سے ایک آدھ خط اب بھی خود اس کے مالک تک پہنچاتا ہے اور انہیں اس میں لکھی تحریر کو سمجھاتے ہوئے اندر ہی اندر پھولتا رہتا ہے۔۔۔ پائپ کو صاف کرتے ہوئے وہ سمرقند اور شکاگو سے آئے ان خطوط کو یاد کرنے لگتا ہے جس میں لکھا ہے۔۔۔ ہم زندہ ہیں اس لیے محسوس کرتے ہیں۔۔۔ ہم محسوس کرتے ہیں اس لیے زندہ ہیں۔۔۔ اسے معاملے کی باریکی کو سمجھنے میں ناکام ہوا دیکھ پیر کہتا۔۔۔ یہ بےچارہ نہیں جانتا کہ ہماری پیاس ہمارے اندر کے چشمے سے ہی بجھ سکتی ہے۔ پیر کی بات کے کانوں میں گونجتے ہی میں ڈاک بابو کی طرف دیکھنے لگتا۔ وہ اپنی مسکین مونچھوں کو اور بھی دبانے کی کوشش کرتا تو مجھے اس کے ڈرائنگ روم میں سجے کاغذ کے پھول یاد آنے لگتے۔
مجھے کافی ہاؤس کلچر کی بابت سوچتے پاکر پیر آکاش میں پھیلے ستاروں کو دیکھتا اور جھلا اٹھتا: ’’یہ دیودھر بھی خوب ہے۔ یونیورسٹی کے پروفیسر ایسے ہی ہوتے ہیں؟ اس سے کوئی بات کرو اپنی جیب ٹٹولنے لگتا ہے۔ یہ آدمی ہے یا کوڑے دان؟ بھلے ہی اس میں کچرے کی بجائے ہیرے پڑے ہوں۔ سارے گیان دھیان کے باوجود اس بےچارے کو یہ پتہ نہیں چل سکا، ہر سچائی بھرم کے سہارے کھڑی ہے اور ہر بھرم میں کہیں بہت اندر سچائی اونگھ رہی ہے۔ ویسے تالستائی، نطشے، برگساں اور پکاسو پر چرائی ہوئی تنقید نشر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ آخر چور بھی مالدار کہلانے کا حق رکھتا ہے۔ بھلے ہی ایک دن ندامت۔۔۔‘‘
پیر کی بات سن کر میں حیر ت میں ڈوب جاتا۔۔ یہ آدمی کافی ہاؤس کے باہر سے ہی اندر بیٹھے لوگوں کی بابت کیسے جان لیتا ہے۔ مجھے کافی ہاؤس ایک مردہ گھر دکھائی دینے لگتا جہاں ہم سب اپنا اپنا پوسٹ مارٹم کرنے پر بھی خود کو جان نہیں پاتے۔ ہمارے اندر کی سٹراند ہی ہمیں خود فریبی میں ڈال کر اپنے سے بہت دور کر دیتی ہے۔۔۔ میں پیر سے پوچھتا۔۔۔ کیا ہم میں سے کوئی بھی سالم نہیں۔۔۔؟ پیر جواب نہ دیتا۔ اس کی خاموشی اور بھی گہری ہو جاتی۔ رات بھی تھک ہار کر اونگھنے لگتی۔ دھیرے دھیرے بےبسی کی چادر اوڑھ کر سو جاتی۔
پھر وہ رات آئی جب راج بھون کا کرودھ پاگل پن کی حدوں میں داخل ہو گیا۔ اچانک ہی سب کچھ مسمار کیا جانے لگا۔ جان، بےجان ہر چیز کو انجانے میں دھر لیا گیا۔ اس رات کافی ہاؤس کو بھی ملیا میٹ کر دیا گیا۔ اس کے استھان پر ایک انڈرگراونڈ مارکیٹ بنانے کا اعلان ہو گیا۔
پیر کے لیے بہت بڑا حادثہ تھا۔ دھرتی سے اس کا عشق جنون میں تبدیل ہو چکا تھا اور نیا کافی ہاؤس بارہ منزل عمارت کی تیسری منزل پر تھا۔
پیر بڑی مشکل سے اپنا اڈہ چھوڑکر نئے کافی ہاؤس میں جانے کو راضی ہوا۔ اپنی بیساکھی، چیتھڑوں کی پوٹلی اور ٹین کا ڈبہ سنبھال کر چل پڑا۔ اس کا چھوٹے قد کا باریک آواز والا کتا بھی اس کے ساتھ تھا۔ مجھے بار بار کتے کی طرف دیکھتے پاکر وہ رک گیا، ’’شاید تمہیں یدھشٹر کا کتا یاد آ رہا ہے؟‘‘ وہ مسکرایا، ’’یہ وہ تو نہیں لیکن اس سے کم بھی نہیں‘‘ وہ پھر چلنے لگا۔
کافی ہاؤس والی بلڈنگ کے بڑے دروازے پر پہنچ کر وہ ٹھٹک گیا، ’’اگر میں یہیں ڈیرا ڈال دوں؟‘‘ اس نے میری طرف پہلی بار بےبسی سے دیکھا۔
’’نہیں یہاں بیٹھنے سے بات نہیں بنےگی۔‘‘
’’اچھا چلو۔‘‘ تھوڑا سوچ کر وہ سیڑھیاں چڑھنے لگا۔کافی ہاؤس تک پہنچنے کے لیے چالیس سیڑھیاں تھیں۔ پہلی دس چڑھتے چٹھے اس کا دم پھول گیا، وہ رکا نہیں۔ لیکن اکیسویں سیڑھی پر پاؤں رکھتے ہی وہ لڑکھڑا گیا۔
’’میں اوپر نہیں جاؤں گا۔‘‘ اس نے اپنے کو بڑی مشکل سے سنبھالا، ’’یہ سیڑھی دوسری سیڑھیوں کے مقابلے میں کافی بڑی ہے۔‘‘ اس نے سیڑھی کے کونے میں پوٹلی اور ڈبہ رکھ دیا اور بائیں پہلو میں بیساکھی کو لٹا کر وہیں بیٹھ گیا۔ اس دن سے پیر اداس رہنے لگا۔ اس دن اس نے کچھ نہ کھایا۔ میرے بہت کہنے پر آدھی رات کو ایک پیالہ کافی پی۔ پھر اکتاہٹ بھرے لہجے میں مجھے گھر جانے کے لیے کہنے لگا۔ دوسری شام کو اس کی عجیب حالت تھی۔ اس کے ہاتھ میں مٹی کی ایک ٹانگ والی گڑیا تھی۔ گڑیا کو دیکھتے ہوئے وہ روئے جاتا تھا۔ روتے روتے اپنی بیساکھی چاٹتے کتے کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگتا تھا۔ مجھے دیکھ کر بھی اس نے گڑیا ہاتھ سے چھوڑی نہ رونا بند کیا تو میں نے پوچھا، ’’یہ کیا ہے؟‘‘
’’یہی تو ہے جسے میں نےآج تک چھپائے رکھا۔‘‘ اس کی آواز میں تھکن اور اداسی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔ ‘‘یہ مجھے ایک کمہارن نے دی تھی۔ ان د دنوں میں گلی محلے گھومتے ہوئے صدا لگاتا اور لوگوں کو ان کی نجات کا یقین دلاتا پھرتا تھا۔۔۔‘‘ پیر نے آہ بھری۔ ’’ایک دن وہ کمہارن میرے پاس سے گذر رہی تھی۔ میری صدا سن کر رک گئی ،ایک پل میری طرف دیکھتے رہنے کے بعد اس نے اپنے سر پر رکھے ٹوکرے میں سے یہ گڑیا نکال کر میرے ہاتھ میں تھما دی۔ مجھے اپنی طرف حیرت سے تکتے پاکر بولی۔۔۔ اسے سنبھال کر رکھنا۔۔ اسی دم مجھے لگا گڑیا بےجان مٹی نہیں ہے۔۔ لیکن میں نے اسے چیتھڑوں میں چھپا دیا۔ آج برسوں بعد اسے نکالا ہے۔۔‘‘ پیر خاموش ہو گیا۔
’’وہ کیوں؟‘‘
’’کل سیڑھی پر لڑ کھڑاتے ہی مجھے اس کا خیا ل آیا اور اس کے بھیدکا پتہ چل گیا۔‘‘
’’کون سے بھید کا؟‘‘
’’یہی کہ اس گڑیا نے اپنی رچنا کے دوران کمہار کے وجود سے منکر ہونے کاپاپ کیا، کمہار نے اسے ادھورا چھوڑ دیا۔ یہ نہیں جانتی تھی۔۔۔ یہ بےچاری نہیں جانتی تھی۔ پیر ولاپ کرنے لگا۔‘‘
’’کیا نہیں جانتی تھی؟‘‘ میں سہم گیا۔
’’یہ معصوم نہیں جانتی تھی کہ ایک آنچ کی کسر کا نتیجہ کتنا المناک ہوتا ہے۔ ایک آنچ کی کسر آدمی کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔۔۔‘‘ پیر کافی ہاؤس کو جاتی باقی سیڑھیوں کو غمناک آنکھوں سے دیکھتا ہوا کتے کو سہلانے لگا، ’’اب مجھے اس جانور کا ہی بھروسہ رہ گیا ہے۔‘‘
مجھے خاموش کھڑا دیکھ کر وہ بولا، ’’شاید تم حیران ہو گیے۔ یہ بھکارن کا کتا نہیں اپنی مالکن کے مرتے ہی اس کی لاش کو لاوارث چھوڑ کر روٹی کی تلاش میں نکل گیا تھا۔‘‘
’’کیا کہتے ہو؟‘‘ میں نے ڈوبتی ہوئی آواز میں پوچھا۔
’’میں غلط نہیں کہتا۔ مجھے وشواس ہے میرے مرنے کے بعد یہ مجھے چھوڑ کر نہیں جائےگا، آپ لوگوں کا انتظار کرے گا ،شمشان گھاٹ تک میرا ساتھ دےگا۔ دیکھتے نہیں آج بھی میری بیساکھی کو کتنے پیار سے چاٹ رہا ہے۔‘‘ پیر نے پھر کتے پر نظریں جما دیں۔
’’میری ایک ہی سمسیا ہے۔ میں اپنا مردہ خراب نہیں ہونے دینا چاہتا۔۔۔‘‘
اس دن کے بعد پیر اٹھ کر کھڑا ہوا نہ اس نے ناچ کر دکھایا نہ صدا ہی لگائی۔ اس نے اپنے بھکتوں سے منہ موڑ لیا۔ اب وہ تھا، مٹی کی لنگڑی گڑیا تھی، چھوٹے قدکا کوں کوں کرتا کتا تھا جو لگاتار بیساکھی چاٹتا رہتا تھا۔ وہ تو مجھے بھی بھلا دینے پر تل گیا تھا۔ یہ دیکھ مجھے یقین ہو گیا کہ اس کے دن تھوڑے ہیں۔ میں نے ایک بیرے کو راضی کیا کہ اگر وقت بےوقت کچھ ایسا ویسا ہو جائے تو مجھے فون کر دے۔ دوسرے ہفتے بیرے نے مجھے پیر کے مرنے کی اطلاع دی۔ میں نےفوراً پوچھا، ’’اس کا کتا تو اس کے پاس بیٹھا ہے۔‘‘
میر ی بات کا جواب نہ دے کر اس نے مجھے کافی ہاؤس پہنچنے کے لیے کہا۔ کافی ہاؤس کی اکیسویں سیڑھی پر قدم رکھتے ہی میں نے جو کچھ دیکھا اس نے میری روح سن کر دی۔پیر چت لیٹا تھا۔ اس کے سینے پر ایک ٹانگ کی گڑیا اوندھی پڑی اس کی داڑھی چوم رہی تھی اور اس کا کتا بڑے شوق سے اس کی آدھی ادھوری ٹانگ کو چبا رہا تھا۔
مجھے اپنی طرف بڑھتے دیکھ وہ غرایا اور مجھ جھپٹا۔ میرے پیچھے ہٹتے ہی اس نے اپنے دانت لنگڑی ٹانگ میں گاڑ دیے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.