Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک بڑا کھیل

غضنفر

ایک بڑا کھیل

غضنفر

MORE BYغضنفر

    ریموٹ کا بٹن دبتے ہی ٹی۔وی کے اسکرین پر ایک عجیب و غریب تصویر ابھر آئی۔

    دو چہروں کے چشم و لب ورخسار آپس میں اس طرح گڈ مڈ کر دیے گئے تھے کہ اس تصویر میں کئی چہروں کا گمان ہوتا تھا۔ وہ لب، چشم اور رخسار تھے تو جانے پہچانے فلمی ستاروں کے مگرملائے اس طرح گئے تھے کہ صاف صاف کوئی ایک تصویر نہیں بن پا رہی تھی۔ اسے دیکھ کر پہچاننا دشوار تھا کہ اصل تصویر کس کی ہے؟ کیوں کہ کسی طرف سے کوئی چہرہ دکھائی دیتا تھا تو کسی طرف سے کوئی۔ایک جانب سے دیکھیے تو کوئی اور نظر آتا تھا اور دوسری جانب سے نگاہ ڈالیے تو کوئی اور۔

    اس تصویر کے ساتھ ہی سماعت کے پردے سے ایک آواز بھی ٹکرانے لگی جو اسکرین پر ابھرنے والی عام آوازوں سے قدرے مختلف تھی:

    ’’پہچانیے اور پائیے پچاس ہزار کا نقد پرسکار۔ جلدی اپنا موبائل اٹھائیے اور نمبر گھمائیے: 9990237388 کیا پتا آپ ہی وہ مقدر کے سکندر ہوں جس کے اکاؤنٹ میں جانے کے لیے پچاس ہزار کے کڑکڑاتے ہوئے نوٹ کب سے پھڑ پھڑا رہے ہیں۔ دیر مت کیجیے ۔فوراً ڈائل کیجیے۔ نمبر آپ کے اسکرین پر موجود ہے۔یاد رکھیے ،وقت کم ہے اور امید وار بہت زیادہ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بازی کوئی اور مارلے جائے۔‘‘

    یہ پرکشش اور دل فریب آواز تیکھے نین نقش والی ایک ایسی حسینہ کے مے ارغوانی سے لبریز لبِ لعلیں سے نکل رہی تھی جس کا نیم عریاں سراپا بھی بول رہا تھا۔

    میری نگا ہیں جو آواز سنتے وقت مد ہوش کن سراپے پر مرکوز ہو گئی تھیں پچاس ہزار کے لالچ میں جیتے جاگتے جسم سے اترکر اسکرین والی تصویر کے پاس سرک آئیں۔

    کمنٹری کے جوشیلے اور لبھاونے بول اور پچاس ہزار کے لہراتے ہوئے نوٹ ذہن کو تازیانے لگانے لگے۔ اس تازیانے پر اشہب دماغ برق رفتاری سے دوڑنے لگا:

    نگاہیں مختلف صورتوں کو گھورتی اور مختلف چہروں کے خط و خال کو نہارتی ہوئی ایک فلمی ستارے کے تاب دار چہرے پر جا رکیں ۔یہ ستارہ وہ تھا جو پردۂ سیمیں پر طرح طرح سے چمکا تھا۔ الگ الگ رنگوں میں دمکا تھا۔ کبھی مہم جوئی کے معر کے سرکیے تھے توکبھی شجاعت و دلیری کے کارنامے سر انجام دیے تھے۔کبھی ہیروئن کو ویلن کے چنگل سے چھڑا یا تھا تو کبھی کسی شریف انسان کو بدمعاشوں کے نرغے سے نکلا لا تھا۔کبھی کسی ڈوبتے ہوئے بچّے کو دریا میں کود کر ڈوبنے سے بچایا تھا تو کبھی جلتے ہوئے گھرمیں داخل ہوکر کسی بوڑھے کو آگ کی لپٹوں کے گھیرے سے باہر نکال لا یا تھا۔ کبھی اپنی جان جو کھم میں ڈال کر ایک ایسے گروہ کا پردہ فاش کیا تھا جو مختلف محکموں سے خفیہ کا غذات چراکر غیر ملکیوں کے ہاتھوں بیچ رہاتھا ۔کبھی تنِ تنہا ڈاکوؤں سے مقابلہ کرکے گاؤں والوں کے جان و مال کو بچایا تھا۔ کبھی کسی محاذپر غنڈوں کے تخریبی منصوبوں کے پراخچے اڑاتے تھے تو کسی سرحد پر دشمنوں کے چھکے چھڑاتے تھے ۔

    کچھ دیر تک اس ستارے کے پاس رکی رہنے کے بعد نگاہیں اڑکر کسی اور مشہور ستارے کے پاس جا پہنچیں۔

    وہ ستارہ ایسا تھا جس نے درجنوں فلموں میں لڑکیوں کی عزّتیں لوٹی تھیں۔اپنے وطن کو دشمنوں کے ہاتھ بیچنے کی سازش کی تھی۔ سیکڑوں بےگنہہ انسانوں کو بم سے اڑا دیا تھا۔ کتنی ہی بستیوں کو آگ میں جھلس ڈلاتھا۔ بےشمار بچوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر بھیک مانگنے کے لیے انھیں شہر کے نکڑوں پر بٹھا دیا تھا۔

    اس تصویر میں یہ دونوں چہرے موجود تھے مگر اس تصویر کا اصل چہرہ کون تھا یہ پہچاننا مشکل تھا۔ اس لیے کہ ایک طرف سے دیکھنے پر وہ ہیرو کی تصویر لگنے لگتی تھی اور دوسری جانب سے نظر ڈالنے پر ویلن کی بن جاتی تھی۔

    اس کی شناخت بھی مشکل تھی کہ اگر وہ کسی ہیرو کی تصویر تھی تو کس ہیرو کی اور اگر کسی ویلن کی تھی تو کس ویلن کی؟ اس لیے کہ چہرے کی آنکھیں، لب اور رخسار ہماری نظروں کو مختلف ایسی شکلوں تک لے جاتے تھے جو اس طرح کے کاموں میں مصروف رہا کرتے تھے۔

    ’’جلدی کیجیے، وقت بہت کم ہے ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ سوچتے ہی رہ جائیں اور کوئی دوسرا۔۔۔ اور سنیے رقم پچاس ہزرا سے بڑھ کر اب ساٹھ ہزار ہو چکی ہے‘‘

    کمنٹری جاری تھی۔ خوبصورت اناؤنسر نہایت جو ش و خروش کے لہجے میں نئے نئے لفظوں اور فقروں کے اضافے کے ساتھ اپنی آواز کا جادو جگا رہی تھی۔ اس کے جوش وخروش کا یہ عالم تھا کہ اس کا سراپا ہمہ وقت حرکت میں رہتا تھا اور اس کے جسم کے بعض حصّے و فورِ جوش میں گیند کی طرح اچھل اچھل پڑتے تھے۔

    میرا دماغ آدھی ادھوری آنکھوں، بگڑے ہوئے ہونٹوں اور کٹے پھٹے رخساروں کو جوڑنے اور ان کے جوڑ سے ایک سالم چہرہ بنانے میں مصروف تھا۔ ذہن مختلف زاویوں سے سوچ رہاتھا۔نگاہیں تیزی سے اپنا زاویہ بدل رہی تھیں۔ نقش ابھرکر ڈوب جاتے تھے۔ تصویر بنتے بنتے بگڑ جاتی تھی۔ شناخت ہوتے ہوتے رہ جاتی تھی۔

    انعام کی رقم بڑھتی جا رہی تھی۔ وقت گزرتا جا رہا تھا اور ادھر ذہن تھا کہ دھند میں الجھا ہوا تھا۔

    اچانک میرے ذہن میں ایک شور سا اٹھا اور آنکھوں کے سامنے ایک منظر ابھرنے لگا:

    ایک طرف سے کمان کی شکل کا ایک رتھ ابھرا۔ رتھ کا اگلا حصّہ غائب تھا۔ جہاں سے اگلا حصّہ غائب تھا وہاں پر ایک اونچی سی کرسی پر شاہی لباس میں راجا نما کوئی شخص براجمان تھا۔ اس شخص کے چہرے پر آ ہنی خود تھا۔ داہنے ہاتھ کی مُٹھی میں کوئی سفید سی ڈبیا تھی جس پر بار بار اس کا انگوٹھا دباؤ ڈال رہا تھا۔ دوسرے ہاتھ میں باگ ڈور تھی۔کمان نمارتھ سے تیر چھوٹ رہے تھے۔ تیروں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔ شعلے برس رہے تھے۔ رتھ تیزی سے آگ برسا تا ہوا اس طرف کو بڑھ گیا جدھر سورج آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔

    کچھ دیر بعد ویسا ہی ایک رتھ سورج والی سمت سے نکلا اور اپنی مخالف دشا میں بڑھنے لگا۔ اس رتھ کا بھی اگلا حصّہ نہیں تھا۔ اس میں بھی سر پر آہنی خود والا ایک شخص بیٹھا تھا۔ بائیں ہاتھ میں اس کے بھی لگام تھی اور داہنے ہاتھ کی مٹھی میں ایک سفید ڈبیا دبی تھی جس پر انگوٹھا رہ رہ کر دباؤ ڈال رہا تھا۔ اس رتھ سے بھی تیروتفنگ کی بارشیں ہو رہی تھیں اور ان سے بھی شعلے نکل رہے تھے۔ چنگاریاں چھوٹ رہی تھیں۔

    یہ رتھ بھی ایک طرف سے آیا اور آگ برساتا ہوا دوسری طرف نکل گیا۔

    رتھ تو غائب ہو گئے مگر ان کے تیروں کے شعلے باقی رہ گئے۔ شعلوں کے نیچے سرسبز زمین تھی جس کے سبزے تیزی سے راکھ ہوتے جا رہے تھے۔

    کچھ دیر بعد دونوں رتھ دونوں سمتوں سے نکل کر پردے پر آ گئے اور آگے بڑھتے ہوئے اس طرح ایک دوسرے کے قریب ہو گئے کہ ان میں سے ایک دوسرے کی اوٹ میں چھپ گیا۔ کون سا رتھ چھپ گیا تھا اور کون سا دکھائی دے رہا تھا یہ بتانا مشکل ہے۔ دونوں رتھوں کے آہنی خود والے آدمی بھی ایک ہو گئے تھے۔ یعنی ان دونوں میں سے ایک ہی شخص دکھائی دے رہا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کی اوٹ میں اس طرح آگئے تھے جیسے ایک دوسرے میں ضم ہو گئے ہوں۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے جادوئی فلموں میں ایک شخص اپنا شریر تیاگ کر دوسرے میں سما جاتا ہے۔

    یہ منظر دیکھتے ہی میری آنکھوں میں یکا یک ایک کہانی کے اوراق کھل گئے:

    ایک صفحے پر درندوں کے ہوس کی شکار قریب سترہ برس کی گورے رنگ والی ایک خوبصورت سی لڑکی جس کی آنکھیں بڑی بڑی ،بال سیاہ، داہنے گال پر موٹا سا تل تھا مانند لاش بے حس و حرکت پڑ ی تھی۔

    دوسرے صفحے پر بلوائیو کا جتھا تھا جن کے جوروستم کی تاب نہ لاکر بے شمار لاشوں کے انبار میں اس لڑکی کی ماں بھی پڑی تھی جس کی ساری انتڑیاں باہر نکلی ہوئی تھیں۔

    اور تیسرے صفحے پر رضاکاروں کا ایک دستہ تھا جس سے اس لڑکی کا باپ گڑ گڑا کر التجا کر رہا تھا کہ وہ لڑکی اس کی اکلوتی بیٹی ہے ۔وہ بہت خوبصورت ہے۔ اس کی طرح نہیں ہے بلکہ اپنی ماں پر گئی ہے۔ اسے ڈھونڈ لاؤ خدا تمھارا بھلا کرےگا اور رضاکار نوجوان بڑے جذبے کے ساتھ بوڑھے باپ کو یقین دلارہے تھے کہ اس کی بیٹی زندہ ہوئی تو چند ہی دنوں میں اس کے پاس ہوگی۔

    اس صفحے پر یہ بھی درج تھا کہ ان رضاکار نوجوانوں نے ہر طرح سے لڑکی کی دلجوئی کی۔ اسے کھانا کھلایا، دودھ پلایا اور لاری میں بٹھایا اور یہ بھی لکھا تھا کہ ایک دن باپ نے کیمپ میں ان رضاکار نوجوانوں کو دیکھا۔ لاری میں بیٹھے تھے۔ وہ بھاگا بھاگا ان کے پاس گیا۔ لاری چلنے ہی والی تھی کہ اس نے پوچھا، بیٹا! میری بیٹی کا پتا چلا؟ سب نے ایک زبان ہوکر کہا ’’چل جائےگا چل جائےگا‘‘ اور لاری چلا دی۔

    کہانی کے کھلتے ہی تصویر میں گڈ مڈ ہوئے ہوئے چشم و لب و رخسار کھٹا کھٹ ایک دوسرے سے ملتے اور ہم آہنگ ہوتے چلے گئے اور آدے ادھورے ،ٹیڑھے میڑھے اور بے ترتیب خط و خال سے ایک واضح اور سالم چہرہ ابھر آیا۔

    اس چہرے کو دیکھ کر میری آنکھیں چمک اٹھیں۔ میری انگلیوں نے فوراً انعام دلانے والے نمبروں کے بٹن دبا دیے۔

    ’’مبارک ہو آپ کا نمبر لگ گیا ہے۔ آپ کے لک نے ساتھ دیا اور آپ کیوں میں لگ گئے، کسی وقت بھی آپ سے جواب پوچھا جا سکتا ہے۔ موبائل رکھیےگا نہیں، آپ کی قسمت لب بام ہے، کبھی بھی آپ کا لک زور مار سکتا ہے۔‘‘

    تصویر کی شناخت میں نے کرلی تھی اور مجھے یقین تھا کہ میرا قیاس غلط نہیں ہوگا اور ستر ہزار کا انعام مجھے ہی ملےگا۔ اسی لیے میں بے چینی سے اس کال کا انتظار کر رہا تھا جس میں مجھ سے پوچھا جانے والا تھا کہ میں اپنا جواب بتاؤں۔

    میری دھڑکنیں بڑھتی جا رہی تھیں۔ دھڑکنوں کی بڑھتی ہوئی رفتار کی وجہ صرف انعام کا لالچ ہی نہیں تھا بلکہ میری وہ خوشی بھی تھی جو تصویرکی شناخت کر لینے پر میرے رگ وپے میں جاری و ساری ہو گئی تھی اور اسکی ایک وجہ میری وہ حیرت بھی تھی جو تصویر کی شناخت کے بعد میرے ذہن و نظر میں بھر گئی تھی۔

    صدائے سحر ساز کے انتظار کی کیفیت شدّت اختیار کرتی جارہی تھی۔ ہونے والی تاخیر میری تشویش بھی بڑھاتی جا رہی تھی۔ تشویس کے ساتھ یہ فکر بھی لاحق ہوتی جا رہی تھی کہ موبائل کا میٹر بڑھتا جا رہا تھا اور میرے پیسے کٹتے جا رہے تھے۔

    جب کافی دیر ہو گئی اور یہ بات ذہن میں گھر کرنے لگی کہ کال کے انتظار میں میں اپنی کافی رقم گنوا چکا ہوں اور ممکن ہے اب بہت کم بچی رہ گئی ہو اور کہیں ایسا نہ ہو کہ بالکل ہی ختم ہو جائے تو یہ خیال بھی آیا کہ موبائل بند کردوں مگر کسی دباؤ نے مجھے ایسا کرنے نہیں دیا۔ شاید صحیح شناخت کے زعم اور انعام کے طمع نے مرے موبائل کو کان سے ہٹنے نہیں دیا۔

    میرا موبائل میرے کان سے اس طرح چپکا ہو اتھا جیسے کسی پارک کے کسی کو نے میں کوئی عاشق کسی عارضی معشوق کے جسم سے چپکا رہتا ہے۔ سماعت کو ایک ایسی صد ا کا بےصبری سے انتظار تھا جس کی دھمک سے میرے دل و دماغ کے ساتھ ساتھ میرے گھر کے درو دیوار اور آس پاس میں بھی بلکہ دور دور تک بھی دھماکا ہو سکتا تھا۔

    خوبصورت لبوں سے پرکشش کمنٹری جاری تھی۔ پردے پر بے ترتیب خدوخال والی بےشناخت تصویر توجہ کھینچنے میں جٹی ہوئی تھی۔ الڑھ بنی حسینہ کا بیدار سراپا جادو جگانے میں مشغول تھا۔ کمنٹری کے دل آویز اور ہیجان آمیز بول اپنے آہنگ بلند کرنے میں مصروف تھے۔

    مگر اس وقت میرے لیے یہ سب کچھ بے معنی ہوگیا تھا۔ میرے لیے تو وہ تصویر گنجینۂ معانی بن گئی تھی جس کے ابھرتے ہی سمتیں بے معنی ہو گئی تھیں

    آب سیلاب بن گیا تھا

    پھول انگارے میں تبدیل ہو گیا تھا

    بادصموم باد صر صر میں بدل گئی تھی

    آسمان زمین پر آ گیا تھا

    اب مجھے دیکھنے سننے اور کچھ پانے کے بجائے دکھانے کی جلدی تھی۔ جلدی تھی کہ میں نے اصل کی شناخت کرلی تھی۔ ایک نئی حقیقت دریافت کر لی تھی۔ میں چاہ رہا تھا کہ وہ تصویر میری پتلیوں سے نکل کر لوگوں کی آنکھوں میں پہنچ جائے اور دنیا جان جائے کہ اصل تصویر کیا ہے مگر میڈیا دیر کررہا تھا ۔کب سے ایک ہی رکارڈ بجا رہا تھا۔

    ’’لگے رہیے۔ موبائل کو کان سے الگ مت کیجیے۔ کبھی بھی آپ کا نمبر آ سکتا ہے اور ستر ہزار کی رقم آپ کی جھولی میں جا سکتی ہے۔‘‘

    میڈیا کا یہ کھیل شروع میں بہت اچھا لگا تھا۔ اس کھیل کا ایک ایک پہلو دامنِ دل کھینچتا تھا مگر

    اب یہ کھیل اکتا ہٹ کے ساتھ ساتھ تکلیف دہ بھی ہوتا جا رہا تھا۔ آخر میرا نمبر کیوں نہیں آ رہا تھا۔ اس میں اتنی دیر کیوں ہو رہی تھی؟ میں حیران و پریشان تھا کہ میرے ذہن کے ایک گوشے میں ایک خیال کسی کو ندے کی طرح لپک اٹھا۔

    کہیں ایسا تو نہیں کہ میڈیا اس کھیل کے ساتھ ساتھ کوئی اور کھیل بھی کھیل رہا ہو؟ اس خیال کے آتے ہی ٹی وی کا اسکرین پھیل کر کافی بڑا ہو گیا اور اس پر ایک بڑے کھیل کی جھلکیا جھلملانے لگیں۔

    (مجموعہ پارکنگ ایریا از غضنفر، ص 151)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے