ایک بے خواب دوپہر کا فلیش بیک
آج دوپہر کے وقت جب میں کھانے کے بعد آنکھیں بند کیے پڑی تھی تو میرے پاس ایک شخص آیا اور مجھے اٹھا کر کہنے لگا۔
’’اٹھو وقت آگیا ہے انقلاب لانے کا۔‘‘
’’کیسا انقلاب؟ کون ہو تم؟‘‘
’’ارے یہ میں ہوں۔ تمہاری بغاوت، تمہارا انقلاب۔ مجھے پہچانا نہیں تم نے؟کب سے تم نے مجھے دراز میں بند کر رکھا تھا۔‘‘
میں نے اسے غور سے دیکھا۔ اس نے تھری پیس سوٹ پہن رکھا تھا۔ جو گرد سے اٹا ہوا تھا۔ کوٹ جگہ جگہ سے پھٹ چکا تھا۔ ٹائی کی ناٹ ڈھیلی ہو کر ناف تک پہنچ رہی تھی۔ چہرے پر میل جمی ہوئی تھی۔ فرنچ کٹ داڑھی اور بال بکھرے ہوئے تھے مگر اس کی آواز بہت جاندار اور مضبوط تھی اور اس کی بدحالی سے میل نہ کھاتی تھی۔
’’بھائی کون سا انقلاب؟میں نہیں جانتی تمہیں۔ جائو یہاں سے۔‘‘
’’چلا جائوں؟‘‘ اس نے آنکھوں میں بے یقینی اور آنسو بھر کر کہا تو میرا دل پسیج گیا۔
’’بھئی جب میں تمہیں جانتی ہی نہیں ہوں تو کیسے بٹھا ئو تمہیں۔‘‘
’’ایک وقت تھا جب تم پورا دن میرے ساتھ رہتی تھیں۔ رات سونے سے پہلے مجھے اپنے تکیے کے پاس رکھتی تھیں۔‘‘
’’بکواس نہیں کرو اور دفع ہوجائو یہاں سے۔ میں نہیں جانتی تمہیں۔ ‘‘
’’ارے!وہ کارل مارکس اور لینن کی کتابیں، وہ تاریخی و تہذیبی شعور، جدیدیت اور ساختیاتی مباحث، عورتوں کے حقوق، جدید علمی و ادبی تھیوریاں، انقلابی اخبار، وہ جلسے جلوس، کانفرنس، سیمینار، مختلف یونیورسٹیوں کے دورے، بڑے بڑے علمی و ادبی پروفیسر، فلسفے کی باتیں، انقلابی خواب۔۔۔ وہ میں ہی تو تھا۔‘‘
’’تو وہ تم تھے۔۔۔؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ دیکھا تمہیں یاد آگیا۔ تمہیں یاد ہے جب تم کانفرنسوں میں جاتی تھی؟یا کسی دوست کے گھر کی بیٹھک میں محفل جماتے تھے؟یا شام کو کسی چائے کے کھوکے پر بیٹھ کر انقلاب لانے کی باتیں کرتے تھے۔ تم لوگ سماج اور اس کی پس ماندہ روایات کو حقارت سے دیکھتے تھے۔ مذہبی اور سماجی رسومات میں پھنسے لوگوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ اونچے اونچے قہقہے لگاتے تھے۔ جب تم گھر آتی تھیں تو مو ٹی موٹی کتابوں کو رات دیر تک پڑھتی رہتی تھیں۔ نئے نئے خیالات تمہیں رات بھر سونے نہیں دیتے تھے۔‘‘
’’ہاں مجھے یاد آرہا ہے۔۔۔ پھر کیا ہوا؟‘‘
’’پھر تم نے مجھے بنانا شروع کیا۔ تم نے مجھ پر بہت محنت کی۔ میرے پاس کچھ نہ تھا۔ میں الف ننگا تھا۔ تم نے مجھے مارکس کا کوٹ پہنایا، لینن کی ٹائی اور داڑھی، جدیدیت کی گھڑی، جمہوریت کے بوٹ۔ تانیثیت کے بٹن۔ میں یہ سب پاکر بہت خوش تھا لیکن ایک دن۔۔۔‘‘
’’ایک دن کیا ہوا؟ــ‘‘
’’تم نے مجھے اس دراز میں بند کر دیا ہمیشہ کے لیے اور پلٹ کر میری خبر ہی نہیں لی۔ میں سالوں سے وہاں بند ہوں لیکن دیکھو میں نکل آیا ہوں۔ مجھے پھر سے اپنا لو۔ میں تمہاری منت کرتا ہوں۔‘‘
’’پھر سے؟دیکھو اب یہ ممکن نہیں۔ وقت بہت بدل گیا ہے۔‘‘
’’نہیں ابھی بھی وقت ہے۔ میں نے سنا ہے کہ آج کل لوگ پھر ایسی باتیں کر رہے ہیں جیسی تم کبھی کیا کرتی تھیں۔ میری مانو مجھے پکڑو اور نکل کھڑی ہو۔‘‘
’’پاگل آدمی۔ ہر دور میں لوگ ایسی ہی باتیں کرتے ہیں۔ تھوڑی تبدیلی کے ساتھ۔ ہر دور میں تم بنتے ہو اور پھر توڑ دیے جاتے ہو۔‘‘
’’لیکن میں نہیں ٹوٹا۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ ہاں تھوڑی گرد آگئی ہے لیکن یہ تو تم آسانی سے ہٹا سکتی ہو۔ اپنے نئے خیالات کے ذریعے سے۔‘‘
’’میں نے تمہیں دراز میں اس لیے بند کیا تھا کہ تم گھٹ گھٹ کر مرجائو لیکن تم ایسے ڈھیٹ ہو کہ پھر نکل آئے ہو۔‘‘
’’کیا؟تم مجھے مارنا چاہتی تھیں؟
’’ہاں کیونکہ تم صرف تباہی، بربادی اور ذلت ہو۔ تم کسی کو چین کی نیند نہیں سلا سکتے۔ جس جس نے تمہیں بنایا اذیت کی موت مرا۔ تم منحوس ہو۔ نکل جائو یہاں سے۔‘‘
’’ایسا نہ کہو۔ یہ تکلیف تو وقتی ہے۔ میں سب کچھ ٹھیک کر دینے کی ہمت بھی رکھتا ہوں۔ مجھے ایک بار آزما کر تو دیکھو۔‘‘
’’تم کچھ نہیں کرسکتے۔ جتنے بھی بن ٹھن کر مضبوط ہو جائو۔ تم دنیا کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتے۔ خود بھی تباہ ہوجاتے ہو اور دوسرے کی زندگی بھی برباد کر دیتے ہو۔‘‘
وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اسے روتا دیکھ کر مجھے بڑی تکلیف ہوئی میں اسے اٹھا نا ہی چاہتی تھی کہ اچانک میرے کان میں بیٹے کی آواز گونجی جو زور زور سے چیخ رہا تھا۔ میں ہڑ بڑا کر اٹھی۔
’’ماما میری ٹوپی نہیں مل رہی۔ وقت پر مسجد نہیں گیا تو مولوی صاحب ماریں گے۔‘‘
’’ہاں۔ ہاں۔ جلدی کرو‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.