ایک بے خوف آدمی کے بارے میں
کہانی کی کہانی
ایک معمولی کلرک کی کہانی ہے جس نے اپنے شوق سے اردو زبان سیکھی اور اس سے محبت کی۔ یہاں تک کہ اپنی مادری زبان پشتو کے بجائے اردو میں ہی کہانیاں لکھیں۔ نفع و نقصان کی کشمکش سے بلند ہو کر اور اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشیں قربان کرکے اس نے اپنی جمع پونجی لگا کر کتاب چھپوائی۔ اس کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ قومی زبان سے محبت کے اس ثبوت سے اسے چھوٹی موٹی ابدیت حاصل ہو جائے۔
کشور خان چنگلی وال میرا ساتھی ہے۔ ہم دونوں بندرگاہ پر کام کرتے تھے۔ ہم دونوں ہی شہروں کی اس تھکی ماندی دلہن۔۔۔ کراچی۔۔۔ کے گرفتار ہیں۔ دونوں اپنی اپنی زادبوم سے آکر یہاں بس گئے اور اس خوب صورت، بدصورت، مشکل، من موہنے، سفاک اور چہیتے اور جادو بھرے شہر کے دامِ محبت میں اس طرح گرفتار ہوئے کہ اب کہیں اور دل نہیں لگتا۔ اسی شہر میں ہمارے گھر بنے، اسی شہر میں بچوں کی کلکاریوں سے یہ گھر آباد ہوئے۔ اب یہ ہمارے بچوں کا شہر ہے اور ہمارا شہر ہے۔ کبھی کبھی اس شہر کی رفتار اور اس کے بوجھ سے دل اوبنے لگتا ہے تو اپنے اپنے چنگلی گاؤں لوٹ جانے کو جی چاہتا ہے مگرعجیب قصہ ہے کہ دو دن کے لیے بھی ہم اس شہر سے بچھڑ جائیں تو سب کچھ پھیکا پھیکا لگتا ہے۔ دوسری سب بستیاں کاٹنے کو دوڑتی ہیں۔ ہم پھر کراچی لوٹ آتے ہیں۔
کشور خان برسوں پہلے گاؤں ڈاک خانے چنگلی سے مزدوری کرنے یہاں آیا تھا۔ یہ گاؤں صوبہ سرحد کے گلزار ضلعے سوات کی پھولوں بھری تحصیل ڈگر میں بسا ہوا ہے۔ اس گاؤں کے کسی روشن محلے مداخیل میں کشور خان رہتا تھا۔ یہ جب چنگلی سےکراچی آیا تو بس اتنی اردو جانتا تھا کہ رہگیروں سے وقت پوچھ لے اور کیماڑی کا رستہ معلوم کرلے۔ اس نےکیماڑی پہنچ کربندرگاہ پر مزدوری شروع کردی۔ محنت سےکام کیا تو بندرگاہ والوں نےاسے قاصد بھرتی کرلیا۔ اس نے سر پر ٹین کی ایک چھت ڈال لی اور کراچی میٹرک کا کورس خرید لایا۔ دن میں یہ گھنٹی کی آواز پر دوڑ دوڑ کے کام کرتا رہا اور راتوں میں اپنی کراچی میٹرک کا کورس پڑھتا رہا اور پاس ہوگیا۔
پھر اس نے انٹر کی کتابیں خرید لیں۔
پھر بی اے کی کتابیں خرید لیں۔
اس عرصے میں اس نے محسوس کیا کہ میرتقی اور انیس اور مرزا غالب اور ڈپٹی نذیر اور اقبال اور اسمعیل میرٹھی اور احمد ندیم قاسمی بہت پیارے لوگ ہیں اور اس نے فیض احمد فیض سے محبت کرنا سیکھ لیا اور فراق گورکھپوری کی چاہت میں مبتلا ہوگیا (اگرچہ فراق کا پورام نام ہندوؤں جیسا تھا۔)
ایک دن اس نے مجھ سے کہا کہ یار اسد خانا! اردو بڑا پیارا چیز ہے، بالکل میری پشتو کی طرح۔ پھر ایک اور دن اس نے بڑی رازداری سے مجھے بتایا کہ وہ اب اردو میں کہانیاں لکھنے لگا ہے۔ میں نے کہا قربان کشور خان شاباشے۔
کشور خان نے جب انٹر پاس کیا تھا تو بندر گاہ والوں نے اسے بابو بنا دیا تھا، اسے ایک میز اور ایک کرسی دے دی تھی جس پر بیٹھ کر فارغ وقت میں اس نےآدم خان درخانئے کی کہانی اپنے طور پر لکھی اور فلم اسٹار بدر منیر کی جرأت اور دلیری کو سامنے رکھ کے بھی ایک کہانی لکھی اور سید سلیمان ندوی علیہ الرحمہ کے ’’خطبات مدراس‘‘ آرام آرام سے پڑھے۔ مجھ ناچیز نے اپنی کتاب ’’کھڑکی بھر آسمان‘‘ چھپوائی تو کشور خان بہت خوش ہوا، کہنے لگا، ’’خان صیب! دوست کا کتاب چھپے تو لگتا ہے جیسے دوست کے باڑے میں میٹھے پانی کا چشمہ نکل آیا ہے۔ یارا، تیرے کو کتاب مبارک ہو۔‘‘ پھر کچھ شرماکے بولا، ’’میں نے بھی ایک کتاب لکھی ہے، آپ مشورہ دو تو اس کو چھپوادوں، بولو تو نہیں چھپواؤں۔‘‘
میں نے کشور خان کو ہمت اور بے خوفی سے ترقی کرتے دیکھا ہے۔ مجھے معلوم ہے اسے بہت آگے بڑھنا ہے۔ مجھے خبر ہے یہ اپنی ماں کو اور اپنے بال بچوں کو ایک اور خوشی دینا چاہتا ہے اور اپنے ’’گراں‘‘ والوں اور اپنے دوستوں کے درمیان سربلند ہونا چاہتا ہے۔ ایسے بے خوف آدمی کا رستہ کون روک سکتا ہے؟ میں نے کہا، ’’بسم اللہ! ضرور چھپواؤ اپنی کتاب۔ ‘‘ اور میں نے اسے اپنے خطاط دوست سید اسحاق بزمی سے ملوا دیا۔ سید اسحاق بونیر (سوات) کے سید بادشاہ کی اولاد میں سے ہیں، گویا ایک طرح سے کشور خان کے مرشد زادے اور گرائیں ہیں۔ انہوں نے بہت پیار سے ان صفحات کی کتابت کردی اور کشور خان کی کتاب تیار ہوگئی۔
میں اردو ادب کا طالب علم، اس جادو زبان کے طلسمات کا اسیر، اپنے ساتھی کشور خان چنگلی وال سے اس بات پر خوش ہوں کہ اس نے اردو زبان سے پیار کیا۔۔۔ اتنا پیار کہ ایک کتاب لکھ دی۔ کشور خان کا کوئی دعویٰ نہیں۔ ہم عصر ادیبوں میں اسے کوئی نہیں جانتا، کوئی نہیں جانے گا۔ اس کا کوئی گروہ، کوئی ’’لابی‘‘ نہیں۔ ہائی بروا سے کبھی تسلیم بھی نہیں کریں گے، ظاہر ہے۔ مگر کشور خان کو اس بات سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ وہ تو صرف اپنے چھوٹے بیٹے اکبر خان کراچی وال کو جرأت اور جواں مردی اور کامرانی کی ایک کہانی سنانا چاہتا ہے اور کہنا چاہتا ہے کہ بچہ اکبر خانا! دیکھا، تمہارا باپ تیرا قومی زبان کا مصنف ہے۔
اس کتاب کو چھپوانے میں جتنے پیسے خرچ ہوئے اتنے پیسوں میں کشور خان اپنے کئی شوق پورے کر سکتا تھا۔۔۔ دو مینڈھے خرید سکتا تھا، سوٹ سلوا سکتا تھا، ایک اور کمرے پر ٹین ڈلوا سکتا تھا۔۔۔ مگر وہ بلند ہمت بہت ہے، وقت کے سمندر میں اپنے لکھے ہوئے لفظوں سے ایک ٹاپو بنا دینا چاہتا ہے، چھوٹی موٹی ابدیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اسے خبر ہے کہ چاہے کتنے ہی چاؤ سے پالا جائے، مینڈھے اپنی طبعی عمر کو پہنچ کے مرجاتے ہیں۔ سوٹ بھی تار تار ہو جاتے ہیں۔ چھتیں بالآخر بیٹھ جاتی ہیں۔
اسے ایک دانش ورثے میں ملی ہے کہ،
کہ ترا دلو ختو شاہاں اور سلطانان۔۔۔
یعنی دنیا سے بڑے بڑے بادشاہ اور سلاطین اٹھ گئے تو کیا ہوا؟ ان کی وجہ سے کوئی فرق نہ آیا۔ اگر ایک لمحے میں ہزاروں آدمی فنا ہوتے ہیں تو دوسرے ہی لمحے ہزاروں اور پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس آمد و رفت کا کوئی حساب نہیں، ایک بحربے پایاں ہے جو بہا چلا جاتا ہے۔ (رحمان بابا۔)
اور اس بحر بے پایاں میں ایک چھوٹا سا بے خوف آدمی ایک چھوٹی سی کتاب سے اپنا ننھا سا ٹاپو بنا رہا ہے۔ خدا اسے خوش رکھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.