ایک بلیک کومیڈی
کہانی کی کہانی
اس افسانے میں ٹی وی سیریل میں پیش کیے جانے والے واقعات کی بے معنویت اور ہلکے پن پر طنز کیا گیا ہے اور جرنلزم کی دنیا میں پیش آنے والے واقعات کے تاریک گوشوں پر بھی ہلکی سی ضرب لگائی گئی ہے۔
میں کہانیاں لکھتا ہوں اور اس بات پہ خوش ہوتا ہوں کہ بہت سےلوگ میری کہانیاں پڑھتے، پسند کرتے ہیں۔ کہانیاں لکھنے کا مجھے کوئی معاوضہ نہیں ملتا۔ ملنا چاہیے، مگر نہیں ملتا۔ وجہ سب کو معلوم ہے۔ اس لیے میں ٹی وی سیریئل لکھ کے اپنی روزی کماتا ہوں۔ میں یہ سیریئل خوش ہو کے لکھتا ہوں کیوں کہ لکھنا بجائے خود ایک کارخیر ہے۔ جو مجھ سےسیریئل لکھواتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ لوگ میرے سیریئل دیکھتے، پسند کرتے ہیں۔ میرے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ وہ سچ کہہ رہے ہیں۔ اس لیے میں یقین سے نہیں کہتا کہ وہ جھوٹے ہیں اور (مارکیٹ میں یہ بات پھیلا کر) سیریئل پر لگے ہوئے اپنے پیسے کو تحفظ دینا چاہتے ہیں۔ شوبز کی ڈانواں ڈول اکونومی میں یہ سب کرتے رہنا ضروری ہوتا ہوگا۔
مجھے پروا نہیں ہے۔ جیسا جیسا میرے کلائنٹ کہتے جاتے ہیں، میں کرتا جاتا ہوں۔ بس کہانی کا پلاٹ اور مکالموں کی زبان straight رکھتا ہوں اور ڈرامے کے تنے ہوئے تار پر خود کو متوازن رکھتے ہوئے (چھتری اٹھائے) بڑھتا چلا جاتا ہوں۔ اس طرح تیرہ قسطوں کی لکھائی پوری ہو جاتی ہے اور میرا کلائنٹ خوش خوش اپنے شوبز بازار میں ’’یاقسمت یا نصیب‘‘ کہتا داخل ہو جاتا ہے۔ میں فرصت پایا ہوا ’سفید کالر مزدور‘ اپنی ڈیسک پہ آ بیٹھتا ہوں اور اپنی (ذاتی) کہانیاں لکھنا شروع کر دیتا ہوں۔ میں خوش میرا خدا خوش۔
کلائنٹ جانتا ہے کہ مارکیٹ کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے خاں صاحب کو۔۔۔ یعنی مجھے، کچھ نہیں کرنا۔ یہ میرا ’سر درد‘ نہیں ہے۔ میرا ’سردرد‘ اس وقت شروع ہوتا ہے جب سیریئل لکھائی کے ہنگام peak hours..میں۔۔۔میری اپنی کوئی کہانی شدت کے ساتھ آنا چاہتی ہے اور میں اسے بچے کی طرح بہلاتا ہوا باہر کے کمرے سے اٹھا کر نرسری میں پہنچا آتا ہوں کہ ’’ابھی یہاں بیٹھو، مہمان چلے جائیں گے تو ہم تم خوب کھیلیں گے۔‘‘ کبھی یہ کوشش کامیاب ہوتی ہے، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کہانی پیچھا نہیں چھوڑتی اور مجھے کسی اور طرح اس معاملے کو نمٹانا ہوتا ہے۔ موقع مل جائے اور کلائنٹ چوکنا نہ ہو تو میں آئی ہوئی کہانی کو سیریئل میں incorporate کر دیتا ہوں، گاہک بھی سمجھتا ہے کہ یہ کوئی اچھی بات ہوئی ہے۔ میرا کام نکل جاتا ہے۔
بعد میں، میں اپنی کہانی کو اس کی موجودہ لوکیشن سے salvage کرتا اور جھاڑ جھٹک کے اپنی ڈیسک پر لاتا ہوں اور مکمل کرتا ہوں۔ کلائنٹ چوکنا۔۔۔اور بور آدمی ہوا تو یہ سب نہیں ہو پاتا۔ پھر میں بیزار سا ہونے لگتا ہوں۔ لیکن کوئی بھی کارکن اپنے بریڈ اینڈ بٹر سے بیزار ہونا افورڈ نہیں کر سکتا۔ اس لیے میں خود کو مستعدی سے اپنے کام میں لگا دیتا ہوں، ساتھ ہی ساتھ اپنے کہانی کار خاں صاحب کو (جو بار بارجماہیاں لے کر اس چکی کی مشقت کو بھگتا رہا ہوتا ہے) بہلاتا جاتا ہوں۔
اس وقت میں جو کچھ لکھ رہا ہوں اسی ’بہلانے‘ کے بیان میں ہے، مثلاً میں یہ کرتا ہوں کہ کسی مائنر کردار کا پورا نام ’’داؤد چیڑقناتی‘ یا Peter the Unprepared یا کچھ بھی رکھ دیتا ہوں۔ ہدایت کار پڑھ کے ہنستا ہے اور اپنی کاپی میں اس نام کو عامر، فائز، حامد یا رخسانہ سے بدل لیتا ہے اور پرنٹ کرا لیتا ہے۔ پھر کبھی تو وہ نام کے انوکھے پن کی داد دیتے ہوئے فون پر laughter دیتا ہے یا snigger کرتا ہے۔۔۔سامنے بیٹھا ہو تو مسکراتا ہے یا کچھ بھی مزےدارgesture دے کر خوش کر دیتا ہے اور بات ختم ہو جاتی ہے۔‘‘
اس وقت جو سیریئل میں لکھ رہا ہوں اس کے ایک درجہ دوم کردار کا نام میں نے نیم بیزاری میں للا رکھ دیا تھا جو کلائنٹ کو اتنا پسند آیا کہ ایک بار جب میں نے اسے افتخار شمسی کہہ کے بلانا چاہا تو کلائنٹ اور ہدایت کار دونوں نےاصرار کیا کہ للا بہترین نام ہے، یہ شمسی و مسی رہنے دیجیے۔
میں کبھی یوں بھی کرتا ہوں کہ ڈرامے کی ٹرمنالجی میں جسے (Mood) کہا جاتا ہے اور باقاعدہ within brackets لکھا جاتا ہے وہاں میں بھی کچھ اپنے حسابوں مزے دار سا لکھ دیتا ہوں، مثلاً یہ لکھنے کی بجائے کہ کردار الف نے بے ڈھنگے پن سے ہنستے ہوئے blah blah کہا۔۔۔ میں لکھ دوں گا کہ الف ہائینا کی طرح ہنسا۔ الف نے GWB کی کی طرح ایک مقدس طیش میں فرمایا کہ (Terrorism کے خلاف ہماری کروسیڈ۔۔۔ وغیرہ) یا الف نے اپنے ایک ایک لفظ کو تھپکتے، اس پر مساس کرتے ہوئے کہا۔۔۔
By the way اس لفظ مساس نے مجھے اور ہدایت کار کو ایک بار بہت خفیف کیا تھا۔ خیر، گریمر اسکول کی پڑھی ہوئی سب بچیوں سے یہ توقع تو نہیں کی جا سکتی کہ انہوں نے منٹو صاحب کو ورنا کیولر میں پڑھ ہی لیا ہوگا۔
جو سیریئل فی الوقت میں لکھ رہاہوں اس نے مجھے ہلکان کردیا ہے۔ موجودہ ہدایت کار کو پروفیشنلی ایک چوکھا ہدایت کار کہا جا سکتا ہے، کس لیے کہ اس نےاسٹیج بھی ڈائریکٹ کیا ہے، نیو wave تھیئٹر سے بھی اس کی وابستگی رہی ہے۔ خاصا پرانا چاول ہے۔ خوب نکتے نکالتا ہے۔ مگر سیریئل کی لکھائی ختم ہونے میں نہیں آ رہی، مہینے گزر گئے ہیں۔ میں اپنی ڈیسک پر جانا چاہتا ہوں، وہ ظالم رسے ڈال کے روکے ہوئے ہے۔ میں نے ابتدائی بہلاووں سےخود کو بہت بہلا لیا، اس کی موجودگی میں جماہیاں لے لے کے تھک گیا میں۔ تاہم سیریئل کا خاتمہ ابھی ایک ڈیڑھ ماہ دور ہے۔ میں خود کو بہلانے کی لیے اوچھے ہتھیار استعمال کرنے لگا ہوں۔
سیریئل کی کہانی کا ویلن ایک جعلی investment firm کا مالک گفا (Guffaw) بھائی ٹین ٹپڑ والا پولیس کی اعانت مجرمانہ سے underground چلا جاتا ہے۔ اس کی بد دیانتی سے برباد ہونے والا ایک نوجوان، گفا بھائی ٹین ٹپڑ کے گر گے للا بھائی کو دھر پکڑنے اور اپنے پیسے حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ للا شیر دا پتر اپنے boss تک سے بد دیانتی کرتا ہے اور یہ جھوٹ بولتا ہے کہ نوجوان نے اپنی چھوٹی سی رقم نہیں چھینی بلکہ سبھی پیسے لوٹ لیے ہیں۔ Guffaw بھائی اپنے گر گے للا سے سچ قبلوانے کے لیے، (مجبوراً) اسے اپنےAir conditioned Torture Chamber میں پہنچوا دیتا ہے۔ (اللہ معاف کرے) میں نے یہ سین اس طرح لکھا ہے،
Night. Indoors. Guffaw’s den (in fact his air-conditioned torture chamber) sence, 9. (L’la is being tortured. Mr. Director! Pl. improvise, as you are good at improvisation & TORTURE, both.)
للا، (سین کھلتے ہی للا کی چیخ سنائی دیتی ہے) بتا رہا ہوں، بتا رہا ہوں۔۔۔گفا بھائی کو بلاؤ۔۔۔ میں سب دے دوں گا، دے دوں گا سب۔۔۔(روتا ہے)
ٹورچر چیمبر ساؤنڈ پروف بھی ہے۔ وہاں امپورٹڈ strobe lights بھی لگی ہے۔ للا چیختا ہے تو اس کے high نوٹ پر سرخ لائٹ جھپکتی ہے۔ middling نوٹ پر اور نج اور low نوٹ پرyellow لائٹیں جھپکتی اور عجب دلآویز منظر دکھاتی ہیں۔ ایک طرف دیوار پر انٹرکوم لگا ہے جس پر خوش رنگ، حیات آفریں polka dots کی آرائش ہے۔ اسے دیکھ کر زندگی پراعتماد بحال ہوتا ہے۔
ماشٹر، (یہ ٹورچر کرنے والوں کا فورمین ہے، انٹرکوم پرboss سے کہتا ہے) سر! یہ آپ کو بلا رہا ہے۔ بتا دے گا، کہہ رہا ہے سب دے دوں گا۔
گفا، ادھر ہی لے آ، بجی (busy) ہوں۔۔۔اور سن! حالت اس کی ٹھیک کرکے لانا۔۔۔تجھے پتا ہے۔۔۔blood shlood دیکھنا میرے کو اچھا نہیں لگتا۔ کیا؟
گفا busy اس طرح ہے کہ وہ بہت بڑے اسکرین پر اپنی pilgrimage کے latest روح پرور مناظر دیکھ رہا ہے جو اس کے پوتے نے گھر کےcomcorder پر تیار کیے تھے۔ پوتا خود بھی کبھی کبھی اسکرین پر دکھائی دے جاتا ہے۔ وہ کیم کورڈر کے سامنے بھی کھسروں کی طرح move کرتا اور بات بات پہ تالی پھٹکارتا ہے۔
-CUT-
N.B اسکرپٹ کی پہلی ریڈنگ کے موقعے پر سیریئل کیproposed female lead نے، جو حاملہ تھی، اوپر لکھا یہ سب کچھ پڑھا تو وہ ہنسی ہنستے ہنستے کرسی سے گر گئی اور bleed کرنے لگی۔ اسے ریہرسل روم سے منتقل کرنے کے لیے ایک مہنگے گائنی اسپتال کی ایمبولینس بلائی گئی۔ شام تک معلوم ہوا کہ مجوزہ female lead (جو کہ حاملہ تھی) اب ویسی نہیں ہے۔ وما علینا الا البلاغ۔
پروڈیوسرز کو دوسری Female lead کا بندوبست کرنا پڑا مگر جلد ہی production house کے پارٹنرز میں سے کسی ایک حرام زادے کی غیر ضروری توجہ سے وہ حاملہ ہو گئی جس پر پوری یونٹ نے بھنگڑا ڈالا۔ (The Blundering Bastards!) اس پوری صورت حال سے برہم ہوکر senior most partner نے جو خاصا محتاط اور یبوس آدمی تھا، اپنی پارٹنر شب ختم کر دی اور اپنے مالی مفادات اس اداکار کو فروخت کر دیے جو اب تک ٹورچر یونٹ کے foreman کا رول کر رہا تھا۔ اس نےآتے ہی male lead کو فارغ کر دیا اور خود میک اپ پہن کر کیمروں کے آگے آکھڑا ہوا۔
اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ یونٹ کے لوگوں نے پھر ایک بار بھنگڑا ڈالا۔ (The Blundering B’s!) اور سیریئل کا کام تیزی سے نمٹانے لگے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.