ایک دانا کی خودنوشت
کوئی چراغ لے کر بھی نکلے تو روئے ارض پر مجھ جیسا دانا نہیں ڈھونڈ سکتا۔ میری ساری زندگی دانائی کی کھلی کتاب ہے اور آج میرا جی چاہ رہا ہے کہ میں اپنی اس خداداد صلاحیت سے جڑی کچھ امثال آپ سب کے ساتھ بانٹوں تاکہ آپ سب بھی مجھ سے دانائی کے کچھ گر سیکھ سکیں۔ اگر آپ کے ادراک و معرفت کے سب در کھلے ہیں تو یقین مانیے دانائی سے بھرپور میری زندگی کے تجربات سے آپ کے لیے سیکھنے کو بہت کچھ ہے!
کہانی بالکل شروع سے بیان ہو تو لطف رکھتی ہے ورنہ اس کی حیثیت گیس سے بھرے اس غبارے کی سی ہوتی ہے جو کسی ہاتھ سے چھوٹ کر چھت سے لگا ہوا نظر تو آتا ہے لیکن دراصل وہ معلق اور لامکان ہوتا ہے۔ میری پیدائش کے پیچھے کسی کی دانائی کارفرما تھی یا نہیں یہ میں پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتا البتہ اس کے پیچھے یقیناً اللہ تعالی کی کوئی بڑی حکمت کارفرما تھی۔ اگر وہ ذات ہر دَور میں مجھ جیسے دانا پیدا نہ کرتی تو آج انسان چاند پر نہ ٹہل رہا ہوتا۔ میری بدقسمتی کہ میں ایک انتہائی بدنما گاؤں میں توکل پسند کاشتکار کے گھر پیدا ہوا۔ میرا باپ جن تین عدد کھیتوں پر فصل کاشت کرنے کے لیے اپنے بیلوں سے دوگنی محنت کرتا تھا، ایسا نادان اور کم نظر تھا کہ اس کی پیش بِینی صرف سال بھر کے لیے مطلوبہ اناج اور گھر کا چولہا گرم رکھنے کے لیے چند پیسوں تک محدود رہا کرتی تھی۔ جب ہمارا ایک بیل مر گیا تو میرے بڑے بھائی نے سکول چھوڑ کر نوجوانی سے کچھ پہلے اس کی جگہ لے لی۔ مجھ سے بڑی بہن بس نام کی ہی لڑکی تھی ورنہ فصل کی بوائی اور کٹائی کے وقت، چارہ کترتے ہوئے اور اس کا بڑا سا گٹھڑ سر پر اٹھائے گھر لاتے ہوئے، بھینسوں کو نہلاتے، انہیں چارہ ڈالتے اور ان کا دودھ دوہتے ہوئے مجھے اس کا چہرہ، کارکردگی اور استعداد بھی اپنے اکلوتے بیل سے کم نہیں لگا کرتے تھے۔ نجانے میرے والدین اور بڑے بھائی بہن کو مجھ سے کیا اللہ واسطے کا بیر تھا کہ وہ ہمہ وقت مجھے زمین کی طرف نہیں بلکہ سکول کی طرف دھکیلنے کی فکر میں رہتے تھے مگر مجھے نہ تو سکول سے کوئی دلچسپی تھی اور نہ اپنی زمین سے۔ یہی وجہ تھی کہ میں زیادہ تر چوہدریوں کے باغ میں واقع شہتوت کے ایک بوڑھے درخت کی اونچی ٹہنی پر بیٹھ کر آسمان پر اپنے پیچھے ایک پراسرار سفید لکیر چھوڑتے، آہستہ آہستہ آگے کو سرکتے ہوائی جہاز کو دیکھا کرتا تھا۔
ایک روز سخت گرمیوں میں میرا باپ بیل کی طرح کھیتوں میں کام کرتے کرتے ایسا گرا کہ پھر کبھی نہ اٹھ سکا۔ اس کے گزرنے کے بعد مجھے یہ شدید خطرہ لاحق ہو گیا کہ اب مجھے بھی ہانک کر اس کی جگہ لینے کے لیے کھیتوں میں جھونک دیا جائےگا لیکن نامعلوم وجوہات کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔ ماں، بڑا بھائی اور بڑی بہن مجھے بدستور سکول کی طرف ہی دھکیلتے رہے مگر میری نظریں تھیں کہ آسمان سے ہٹتی ہی نہ تھیں۔ میری ماں کتابوں کا بستہ لے کر میرے پیچھے پیچھے بھاگتی رہی اور میں ہی ہی ہاہا کرتے ہوئے اس کے آگے آگے۔ ایک روز وہ بھی تھک ہانپ کر زمین پر ایسی گری کہ زمین کے اندر جاکر ہی دم لیا۔
ویسے تو میری یاداشت بہت اچھی ہے لیکن ذہن پر جتنا بھی زور ڈالوں کچھ یاد نہیں پڑتا کہ والدین کے گزرنے کے بعد میرے بڑے بھائی اور بہن نے مجھے کیسے پالا اور جوان کیا۔ اٹھارہ برس کی عمر میں جب میں نے جہاز پر بیٹھ کر سعودی عرب جانے کی خواہش دونوں کے آگے رکھی تو میری عجیب و غریب خواہش سن کر وہ پہلے تو خُوب روئے پِیٹے، میرا ہاتھ پکڑ کر زمین کے تینوں کھیت اور ماں باپ کی دونوں قبریں دکھائیں مگر میں نے ان کی ایک نہ سنی۔ میں ان کی طرح کوئی نادان اور کم نظر تھوڑا ہی تھا جو زمین کے مختصر سے ٹکڑے کی طرف دیکھتا۔ مجھ بصیر کی نظریں تو آسمانوں پر تھیں۔ یہ درست ہے کہ پہلا ایجنٹ ویزے کے پیسے کھا گیا، میرے ویزے پر دوہرے پیسے خرچ ہوئے جس کا انتظام میرے بڑے بھائی نے گنے کی چار ٹرالیاں، تین بکرے اور اپنی لاڈلی سفید گائے بیچ کر کیا لیکن آخر کار میرا خواب شرمندۂ تعبیر ہو ہی گیا۔
بہن بھائی نے ایئر پورٹ پر مجھے تازہ سرخ گلابوں کے ہار پہنا کر رخصت کیا تو نجانے کیوں خوشی کے اس موقع پر وہ مسلسل روئے جاتے تھے۔ اتنا روئے، اتنا روئے کہ میری کوفت ایک شدید خطرے میں ڈھلنے لگی کہ کہیں آنسوؤں کا یہ سیلابی ریلہ مجھے بہا کر واپس گاؤں ہی نہ لے جائے۔ خدا خدا کرکے یہ طویل غمگین اور جذباتی منظر تبدیل ہوا۔ اگلا منظر میرے دیرینہ خواب کی تکمیل تھا اور میں آسمانوں پر اسی جہاز پر محوِ پرواز تھا جسے پورا بچپن میں اشتیاق بھری نظروں سے دیکھتا چلا آیا تھا۔ اپنی کھڑکی سے نیچے بادلوں کی سفید موٹی مگر بےترتیب تہہ دیکھ کر مجھے اپنا وہ سفید کھیس یاد آ گیا جو میں صبح بیدار ہونے کے بعد کبھی تہہ نہ کرتا تھا اور ہمیشہ ماں سے ڈانٹ کھاتا تھا۔ نامعلوم وجوہات کی بنا پر باوجود کوشش کے میں کھڑکی سے اپنے جہاز کے پیچھے اس پراسرار سفید لکیر کو نہ ہی دیکھ سکا اور نہ ہی اسے چھو سکا!
اور پھر اگلے کئی برس میری دانائی کا سفر اپنی تمام تر ہنگامہ آرائیوں کے ساتھ جاری رہا۔ سعودی عرب پہنچ کر علم ہوا کہ دراصل ایجنٹ نے آزاد ویزے کی آڑ میں یہاں بھی میرے ساتھ دھوکہ ہی کیا تھا۔ بغیر قانونی و شناختی کاغذات کے میں اگلے تین سال تک کفیل کے ایک گھٹیا پاکستانی ہوٹل پر سٹیل کے گِھسے ہوئے برتن دھوتا رہا۔ چونکہ سیانا تھا سو اس دوران آگے بڑھنے اور ترقی کا سوچتا رہا۔ اس حکمت عملی کے تحت تنور پر روٹیاں لگانے کا ناپسندیدہ اورمشکل فن سیکھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے تین برس کے لیے تین سو ریال زیادہ تنخواہ کا مستحق ٹھہرتے ہوئے تنور پر روٹیاں لگانے کے کام پر باقاعدہ معمور ہوا۔ جب تنور کی گرمائش میری دانائی کو چاٹنے لگی تو میں نے اگلی اڑان بھری۔ باورچی سے یاری گانٹھی اور اس سے ہنڈیا پکانے کا فن سیکھنا شروع کیا۔ یہ میری بالغ النظری کا ہی شاخسانہ تھا کہ اس باورچی کے مالک سے جھگڑے اور اس کی پاکستان مستقل واپسی کے بعد مزید تین سو ریال کی ترقی پاکر اسی ہوٹل کا باورچی مقرر ہوا۔ اس پورے عرصے کے دوران بڑا بھائی اور بڑی بہن مجھے اپنی زمین کی طرف واپس بلاتے رہے مگر وہ نادان تھے، صرف اپنی محدود عقل و بصیرت کے مطابق سوچتے اور بات کرتے تھے۔ اپنے مستقبل اور ترقی پر میری اتنی گہری نظر نہ ہوتی تو میں بھی دوسروں کی طرح اپنے اٹیچی کیسوں پر رنگین رسیاں باندھ کر، سامان کی قیمت سے کہیں زیادہ وزن کے پیسے ائیر پورٹ پر بھرکر ہر سال پاکستان جاتا اور دونوں کی شادیوں اور بھائی کے ہر سال ہونے والے بچوں کے ان گنت عقیقوں میں ضرور شرکت کرتا۔ جب وہ مجھے بلا بلا کر تھک گئے تب کہیں جاکر میں نے سکھ کا سانس لیا۔رات کو زمین پر لگے سخت گدّے پر لیٹتا تو کمرے میں میرے ساتھ رہنے والے ساتھی سیف الرحمن کی ایک بات پر مجھے جتنا غصہ آیا کرتا تھا اس سے کہیں زیادہ ہنسی جب وہ مجھے اکثر کہا کرتا تھا۔
’’غلام یسین جس کی اپنی زمین ہو وہ کبھی تمہاری طرح زمین پر نہیں سوتا!’‘
چونکہ وہ میری ساری کہانی سے واقف تھا سو مجھے چڑانے کے لیے اکثر کسی مشہور گائیک کی غزل ٹیپ ریکارڈر پر لگا دیا کرتا تھا جس کے بول تھے۔۔۔
’’اب میں راشن کی قطاروں میں نظر آتا ہوں۔۔۔ اپنے کھیتوں سے بچھڑنے کی سزا پاتا ہوں!‘‘
میں ساتویں کلاس فیل ضرور تھا مگر پیدائشی ذہین تھا سو اپنے ہوٹل میں کام کرنے والے تمام ساتھیوں سے زیادہ اچھی اردو لکھ پڑھ لیتا تھا اور سب کے پاکستان سے آئے ہوئے خطوط پڑھنے اور لکھنے کی ذمہ داری کچھ فخر اور کچھ نخرے کے ساتھ سرانجام دیا کرتا تھا۔ میرے ساتھ کام کرنے والے سب ساتھیوں کی اپنی کم پڑھی لکھی بیویوں سے لڑائیوں کے قصے پڑھ پڑھ اور لکھ لکھ کر میں ایک بار پھر دور کی کوڑی لایا۔ میں نے مصمّم ارادہ کر لیا کہ گاؤں میں میرا نام اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں چھپائے بیٹھی اس’’ٹھیکرے کی منگ’‘ سے شادی کسی صورت نہیں کروں گا۔ میں نے اپنی روشن نظری کا ثبوت دیتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ خواہ کچھ بھی ہوجائے مگر میں شادی صرف شہر کی کسی پڑھی لکھی لڑکی سے ہی کروں گا۔ گاؤں میں اس بات پر خوب طوفان برپا ہوا اور بھائی بار بار فون پر ایک ہی بات دہراتا رہا۔
’’غلام یسین تمہارا رشتہ اللہ بخشے ابا امی نے طے کیا تھا، اپنی زبان دی تھی۔۔۔ میری عزت کا نہیں تو اپنے مرحوم والدین کے عہد کا ہی کچھ لحاظ کر لو۔۔۔ تمہاری اس ضد کی وجہ سے ان کی اور میری عزت خاک میں مل جائےگی!‘‘
لیکن میرا ناسمجھ بھائی کیسے سمجھ سکتا تھا کیونکہ میری پرواز تو ہمیشہ ارفع ہی رہی تھی سو میں اس کے لاکھ سمجھانے پر بھی زمین پر نہ آیا۔ میری قسمت کہ تھوڑی بہت غلط بیانی کی مدد سے عمر کے تیسویں برس مجھے ایسی پڑھی لکھی بی اے پاس لڑکی مل ہی گئی۔ میرا خیال تھا کہ میرے خاندان کا کوئی فرد میری بدعہدی کی وجہ سے میری شادی میں شرکت نہیں کرےگا لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر شدید ناراضگی کے باوجود میرے بھائی بہن اور پورے خاندان نے اس شادی میں بھرپور طریقے سے شرکت کی اور میں پورے جاہ و جلال کے ساتھ اپنی تمام جمع پونجی اس شادی میں جھونک کر واپس سعودی عرب چلا آیا۔ دن رات نئی نویلی بیوی اور اس کے گھر والوں کے تقاضوں اور دھمکیوں کے بعد میں نے اپنی پڑھی لکھی بیوی کو خدا خدا کرکے سعودی عرب بلوا تو لیا لیکن وہاں پہنچ کر اورمیری اصلیت جانتے ہی گھر میں دوبالکل مختلف اقسام کے برتن باقاعدگی کے ساتھ بجنا شروع ہو گئے۔ زندگی کے ہر معاملے میں میرا رخ جنوب کی طرف اور میری بیوی کا شمال کی طرف ہوتا۔ وہ میری کسی بات سے کبھی مرعوب ہی نہیں ہوتی تھی اور ہر بحث کے بعد بہت آسانی سے مجھے دنیا کا جاہل اور احمق ترین شخص قرار دے دیا کرتی تھی۔ میرا ایمان تھا کہ دانائی کا کتابوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن بات بات پر ساتویں فیل کا طعنہ بہت فراخدلی کے ساتھ میرے حصے میں آتا۔ میں اس جیسا غصیلا اور نادان نہیں تھا سو اپنی مسلمہ دانائی کا سہارا لیتے ہوئے اس کے غصے کو آخری حد تک پہنچنے سے پہلے اپنی ہار مان کر اسے چاروں شانے چِت کر دیا کرتا تھا اور وہ نادان ہر بار اسے اپنی فتح سمجھ لیا کرتی تھی۔ اس کے بعد اگلے کئی برس ہم مستقل مزاجی کے ساتھ ایک دوسرے سے الجھتے رہے اور ایک دوسرے کے محاذ پر بلا اشتعال گولہ باری بھی کرتے رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس خانہ جنگی کی صورتحال اور گولہ باری کے بعد ہر مرتبہ عارضی جنگ بندی نے بہت اچھے نتائج دئیے جس کا نتیجہ اگلے سات برسوں میں ہوبہو میرے جیسے گول مٹول دو خوبصورت بیٹوں اور دو انتہائی خوبصورت بیٹیوں کی شکل میں سامنے آیا۔
چار بچے ہونے کے بعد جب بیوی کی شدتِ مخالفت میں بھی بتدریج کمی دیکھنے کو ملی تب کہیں جا کر میں نے سکون کا سانس لیا اورمیں اٹھتے بیٹھتے دل ہی دل میں اپنی دانشمندانہ حکمت عملی اور دانائی پر نازاں ہوتا۔ میری پڑھی لکھی بیوی کو روز اول سے مجھ پر اصل اعتراض میرے ریسٹورانٹ میں کام کرنے پر تھا۔ ایسے میں لوہا گرم دیکھ کر میں نے ایک اور دانشمندانہ فیصلہ کیا اور یہ سوچ کر کہ لمبی چھلانگ لگانے کے لیے دو قدم پیچھے ہٹنا ہی دانائی ہوتی ہے، میں نے یہ کام چھوڑ کر اپنی الیکٹرونکس اور متفرق اشیاء کی دکان کھول لی۔ دو برس بعد جب کام چل نکلا تو میری بھری دکان اور ریالوں سے لبالب بھرا گلہ دیکھ کر میرے کفیل کی رال ٹپکنے لگی اوراس نے مجھے اتنی آسانی سے چلتا کیا کہ مجھے یقین آتے آتے بھی مہینوں لگے۔ اپنے دوستوں سے قرض لے کر اپنا اقامہ تبدیل کیا اور پھر اس قرض کو اتارنے کے لیے کچھ عرصہ رات دن ٹیکسی چلائی۔ جب قرض تقریباً اتر چلا تھا کہ مسلسل بےآرامی کے باعث گاڑی چلاتے ہوئے نیند آ جانے سے ایکسیڈنٹ کروا بیٹھا۔ میں تو معجزانہ طور پر بچ گیا مگر ٹیکسی تباہ ہو گئی۔ اس روز مجھے ہسپتال میں پٹیوں سے جکڑا دیکھ کر میری پڑھی لکھی بیوی کو پہلی بار کچھ عقل آئی اور اس نے تسلیم کیا کہ ریسٹورانٹ کا کام ہی بہتر تھا اور یہ کہ اپنی شناخت کھو کر انسان بہت کچھ کھو دیتا ہے۔ بیوی کا باقی ماندہ زیور بیچ کر ٹیکسی والا نقصان پورا کیا۔ میری بیوی کو تو اردگرد اور سرنگ کے آخر میں مکمل اندھیرا نظر آرہا تھا مگر دانا لوگوں کی بات کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ میں نے جب اپنی بیوی کو بتایا کہ میں پاکستان گاؤں جا کر اپنے حصے کی زمین بِیچ کر پیسے لاؤں گا تو شاید زندگی میں پہلی بار وہ میری دانائی پر ایمان لے آئی۔ مجھے دل ہی دل میں صرف ایک ہی فکر لاحق تھی کہ شادی کے بعد چودہ برس تک میں نہ تو پاکستان گیا تھا اور نہ ہی کبھی پلٹ کر اپنے بھائی اور بہن کی کوئی خبر لی تھی۔ وہ بھی یقیناً تھک ہار کر مجھ سے مایوس ہو گئے تھے اور یہی وجہ تھی کہ عرصہ دراز سے فون پر بھائی اور بہن کی جذبات سے لرزتی ہوئی آواز نہیں سنی تھی!
کسی سے قرض لے کر پاکستان کی ٹکٹ لی، کچھ پیسے جیب میں ڈالے اور خیالوں میں اپنے حصے کی ایک سوا ایکڑ زمین کا حصہ لاکھوں میں وصول کرنے کے ہوائی قلعے تعمیر کرتا ہوا میں پاکستان اپنے گاؤں پہنچ گیا۔ یہاں آکر علم ہوا کہ بھائی پچھلے دو برسوں سے فالج کا شکار ہوکر بستر سے جا لگا تھا، بہن کئی برس کی بےاولادی کے بعد طلاق کا طوق گلے میں پہنے واپس گھر آ بیٹھی تھی، بھائی کے سب بچے سکول چھوڑ کر اپنی پھوپھو کے ساتھ مل کر زمین کاشت کرتے تھے اور پائی پائی جوڑ کر اپنے باپ کا علاج کروا رہے تھے۔ اسی چکر میں تمام بھینسیں اور بکریاں علاج کا ایندھن بن چکی تھیں۔ گھر کی حالت دگرگوں تھی اور کھانا پینا بھی بمشکل پورا ہو رہا تھا۔ بھائی اور بہن برسوں بعد میری صورت دیکھ کر مجھ سے لپٹ کر اتنا روئے کہ میں نے اسی وقت ا پنے اصل ارادے پرچار حرف بھیج ڈالے۔ میری آمد کے تیسرے روز میرا بڑا بھائی میری آنکھوں کے سامنے چل بسا۔ شاید وہ اب تک میرا ہی منتظر تھا۔ آخری سانس لیتے ہوئے نجانے کیوں اس نے میرا ہاتھ انتہائی مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔ اس کی وفات کے چوتھے روز سب گھر والوں نے خاندان کی سربراہی والی علامتی پگ میرے سر پر سجا دی۔ دانائی اور انسانیت ایک ہی ندی کے دو پاٹ ہیں سو میں نے فیصلہ کیا کہ اپنے مطلقہ بہن اور مرحوم بھائی کے بچوں پر دستِ شفقت رکھتے ہوئے آسمان سے ناطہ توڑ کر پھر سے اپنی زمین سے ناطہ جوڑوں گا۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد کل رات میں نے اپنی بیوی کو سعودی عرب فون کر کے سب حالات اور اپنا فیصلہ بتایا تو وہ مجھ پر یہ کہہ کر برس پڑی۔
’’تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا غلام یسین۔۔۔ جانے والا تو چلا گیا مگر جو ابھی زندہ ہیں انہیں کیوں جیتے جی مارنا چاہتے ہو۔۔۔ عقل کو ہاتھ مارو اور یہ آنکھوں پر بندھی جذبات اور رشتوں کی کالی پٹی اتارو، اپنا حصہ بیچ کر پیسے جیب میں ڈالو اور چپ چاپ واپس چلے آؤ۔۔۔ پہلا حق صرف بیوی بچوں کا ہوتا ہے۔۔۔ اگر تم میں ذرا سی بھی عقل ہوتی تو مجھے یہ اطلاع دینے سے پہلے کم از کم ایک بار یہ ضرور سوچتے کہ تمہاری پڑھی لکھی بیوی اور بیرون ملک پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے والے بچے تمہارے اس پسماندہ گاؤں اور گھر میں کیسے رہیں گے جہاں ڈھنگ کا ایک غسل خانہ تک نہیں۔۔۔ اگر تم نے ایسی کوئی بھی بیوقوفانہ حرکت کی تو یاد رکھنا تمہارے اور میرے راستے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الگ ہو جائیں گے۔۔۔ تم میری اور اپنے بچوں کی شکلیں دیکھنے کو ساری عمر ترسو گے۔۔۔ تمہارے متعلق میری پہلی رائے یہی درست تھی اور آج تم نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ تم دنیا کے احمق ترین شخص ہو۔۔۔ ساری زندگی اپنے احمقانہ فیصلوں سے تم نے یہ ثابت کیا ہے کہ تم ایک پڑھی لکھی بیوی کے بالکل لائق نہ تھے!‘‘
تب سے شہتوت کے اسی پرانے درخت تلے بیٹھایہی سوچ رہا ہوں کہ خواہ کوئی کچھ بھی سمجھے مگر میں اپنا حصہ لے کر واپس ہی چلا جاؤں گا۔ لمبی چھلانگ لگانے کے لیے دو قدم پیچھے ہٹ جانا ہی دانائی ہوتی ہے!!!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.