ایک دفعہ کا ذکر ہے
یہ ایک عورت کی کہانی ہے۔
بلکہ یہ ایک بےحد معمولی عورت کی کہانی ہے۔ اگر تم ہنکارا بھرتے رہے تو امید ہے کہ یہ رات بھر میں ختم ہو جائے ورنہ کہیں میں سناتے سناتے سو گئی تو یہ پھر میرے ذہن سے اتر جائےگی یا ہوسکتا ہے کہ میں یہ کہانی کہنے کا ارادہ ہی ترک کردوں اور پھر وہی اونگھ اور بیزاری مجھ پر طاری ہو جائے۔ تم پوچھوگے کہ یہ کہانی سنانے کے لیے میں نے تم ہی کو کیوں چنا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تم میری بات قطعاً نہیں سمجھتے اور جب بات سمجھنے والے کم ہوجائیں تو آدھی بات سمجھنے والوں کی نسبت نہ سمجھنے والوں سے بات کرنا بہتر ہے۔ تم کہانی سنتے سنتے سو جاؤگے میں کہتے کہتے۔ صبح تک ہم بھول چکے ہوں گے کہ ہم نےکوئی کہانی کہی سنی۔
آج مجھے برسوں برسوں پہلے کی ایک کہانی یاد آ گئی۔ تم پوچھوگے اتنے عرصے کے بعد مجھے یہ کہانی کیوں یاد آئی۔ تو یہ سب اس پودے کا قصور ہے جو تم نے کیاری میں لگایا۔ اگر مجھے ذرا سا بھی شک ہوتا کہ یہ پودا اس زمین میں لگ جائےگا۔ بڑا ہوگا۔ پھول لائےگا تو میں تمہیں یہ پودا لگانے سے روکتی۔ میں نے سمجھا تھا کہ اس بنجر شہر کی بنجر زمین میں یہ پودا ہرگز نہ لگےگا۔ مگر حیرت ہے کہ آج اس میں ایک پھول بھی آ گیا اور اس پھول میں سے مہک اڑتی ہے اور اس مہک کے ساتھ مجھے اس عورت کی کہانی یاد آئی۔ تم سن رہے ہو؟ ہنکار ابھرتے جاؤ۔ یہ کہانی سننے سنانے کے آداب میں ہے۔
تو وہ عورت ایسی تھی کہ اس نے کہانی میں جنم لیا تھا۔ جب پہلی بار اس نے اپنے اردگرد پھیلی دنیا کو دیکھا تو اس کو ہر طرف کہانیاں ہی کہانیاں نظر آئیں۔ صابن کے بڑے بڑے رنگین بلبلوں ایسی خوبصورت کہانیاں، جو ایک مسلسل پھوار کی صورت اس کے حواس پر گرتی تھیں۔ وہ بلبلے اپنے چمک دار رنگوں کے ساتھ اس کے آس پاس، اس کے ہاتھوں سے نکلتے۔ دور فضا میں تحلیل ہو جائے۔ جب اس نے بولنا سیکھا تو اس نے سب سے پہلے اپنے قریب ترین شخص سے یہی کہا، دیکھو! یہاں آس پاس ہر جگہ کتنی کہانیاں تیرتی پھرتی ہیں۔ وہ پہلی بار تھی کہ اس نے کسی سے کچھ کہا اور اس سننے والے نے کچھ نہ سمجھا اور وہ پہلا دن تھا کہ اس کو اپنےآپ پر شک پیدا ہوا۔ کیا یہ کہانیاں نہیں ہیں اور صرف مجھے نظر آتی ہیں یا پھر میں نہیں ہوں اور یہ کہانیاں ہیں۔ یا پھر نہ ہی میں ہوں نہ ہی کہانیاں۔ کیونکہ کہانی کے بغیر وجود اس کو بالکل ناممکن نظر آیا۔ اب وہ تن تنہا ان رنگین کہانیوں کو اپنے گرد چاروں طرف اڑتے، کھلکھلاتے، ہنستے دیکھتی رہتی۔
پھر عجب بات ہوئی۔ وہ اسکول جانے لگی۔ ایک شخص اس کو سائیکل پر اپنے ساتھ بٹھاکر لے جاتا اور راستے میں کبھی کبھی ایک آدھ بات کرلیتا۔ وہ شخص عجب تھا کہ اس کی ہر بات بہت غور سے سنتا۔ آخر اس نے ہمت کرکے اس سے کہا، ’’دیکھو اس راستے کے سارے درخت، پھول پتے، یہ بجلی کے کھمبے مجھ سے باتیں کرتے ہیں۔ جب روز میں ان کے قریب سے گزرتی ہوں تو یہ مسکراتے ہیں۔ میرا حال احوال پوچھتے ہیں۔ واپسی پر میں ان کو خدا حافظ کہتی ہوں۔ ان سے گلے ملتی ہوں۔ ان بجلی کے تاروں پر بیٹھی چڑیاں بھی مجھے پکارتی ہیں۔‘‘ وہ یہ سن کر ہنس دیا اور کہنے لگا، ’’بی بی تم نے حضرت سلیمان کی کہانی سنی۔ وہ تمام جانداروں، چرندپرند، یہاں تک کہ چیونٹیوں تک کی زبان سمجھتے تھے اور سمندروں اور ہواؤں اور جن و انس پر ان کی حکومت تھی اور ان کا تخت ہواؤں میں اڑتا تھا۔‘‘
’’تو پھر تم بھی کہانیاں دیکھتے ہو؟‘‘ وہ خوش ہو گئی، ’’مگرمیں تو حضرت سلیمان نہیں، پھر شجر حجر مجھ سے کلام کیوں کرتے ہیں۔ میں ان چرند پرند کی زبان کیوں کر سمجھتی ہوں؟‘‘ یہ سن کر وہ ہنسا اور یاد دلانے لگا کہ اب کے امتحان میں اس کے نمبر بہت ہی کم آئے ہیں اور گھر میں اس پر ڈانٹ پڑنے کے امکانات نہایت واضح ہیں۔ ’’ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے سڑک کے موڑ والے برگد سے کہا، ’’مجھے حساب نہیں آتا۔ مگر میں حضرت سلیمان کی طرح چرند پرند، درختوں پھولوں سے باتیں کرتی ہوں اور مجھے قطار میں چلتی چیونٹیوں کی تمام مصروفیات کا علم ہوتا ہے اور یہ بھی کہ رنگین شیشے کے کنچے کو جب جلتے بلب کے رخ رکھ کر دیکھو تو اس میں روشن سمندر ہوتا ہے اور اس میں سرخ مچھلیاں تیرتی ہیں۔‘‘
پھر جب اس نے لفظ پڑھنا شروع کیے تو اسے معلوم ہوا کہ کہانیوں کے رنگوں کو لوگ قید کر کے مار ڈالتے ہیں۔ اس پر اس کا دل بوجھل ہو گیا۔ اب وہ رنگین، ہفت رنگ بلبلے اس کے آس پاس اڑنا بند ہو گئے۔ کہانیاں اب سفید و سیاہ لکیروں میں ڈھل گئی تھیں۔ کچھ عرصہ وہ ان سفید سیاہ لکیروں سے صلح نہ کر پائی کیونکہ ان کے باعث شجر حجر، پھول پرندوں نے اس سے کلام کرنا بند کر دیا تھا۔ رفتہ رفتہ وہ ان سب کی زبان بھولنے لگی اور بالآخر بھول گئی۔ پھر اچانک اس نے ایک لڑکی کی کہانی پڑھی جو ایک خرگوش کے پیچھے سرنگ میں بھاگتی بھاگتی، نیچے ہی نیچے مسلسل، اندھیرے گہرے بے تہہ اندھیرے میں گرتی چلی گئی۔ صدیوں تک اور اس نے اپنے آپ کو آنسوؤں کے تالاب میں پایا۔ تو آنسوؤں کے تالاب میں پہنچ کر سب چیزوں کے رنگ ڈھلتے گئے۔ اب واقعی ہر چیز سفید و سیاہ میں مقید ہوگئی۔ کہانیاں لفظوں میں اسیر ہوگئیں۔ فضا ان کے اڑتے چمکتے رنگوں سے خالی ہو گئی۔
رنگوں کی موت کا سلسلہ تب سے شروع ہوا۔ مگر تم ہنکارا نہیں بھر رہے۔ تمہیں بار بار کہنا پڑتا ہے۔ یہ کہانی کے آداب کے خلاف ہے۔ تو رنگوں کی موت کا سلسلہ تب سے شروع ہوا۔ اسے اپنے آپ پر کلر بلائنڈ ہونے کا شبہ ہونے لگا۔ درختوں، پھولوں، پتوں، پرندوں، موسموں کے رنگ ختم ہوتے جا رہے تھے۔ انسانوں کی شکلیں بدلنے لگیں۔ لفظوں کے مفہوم الٹ پلٹ ہو گئے۔ اب اس کو آس پاس بہت سے کہانیاں سنانے والے مل جاتے۔ شہزادیاں سرشام سولہ سنگھار کیے، بال بال موتی پر وئے جھروکوں میں آن کھڑی ہوتیں۔ مگر اسےان سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اس کو اسکول کے ایک ساتھی نے ایک گردن کٹی شہزادی کی کہانی سنائی جو اسے بے حد زندہ اپنے اردگرد سانس لیتی محسوس ہوئی۔
’’تو ان بیش بہا یاقوتوں کا راز یہ تھا کہ ایک شہزادی کا سر گردن سے علیحدہ کٹا پڑا تھا اور گردن سے قطرہ قطرہ لہو ٹپکتا اور دریا میں گرتے ہی یاقوت بن جاتا۔‘‘ تبھی اسے معلوم ہوا کہ یہ کہانیوں کی دنیا عجب ہے۔ اچھی کہانیاں کٹی گردن سے ٹپکنے والا قطرہ قطرہ لہو ہے کہ دریا میں گرتے ہی یاقوت بن جاتا ہے۔ لہو رنگ۔ شفاف۔ تو اسے اپنی گردن میں گردش کرنے والے لہو کے ایک ایک قطرے کا حساب دینا تھا۔ لہو کی اپنی زبان اپنے لفظ ہیں اور جو لوگ یہ زبان جانتے ہیں ان کا لہو ان کا اپنا نہیں کسی انجانے معاہدے کا پابند ہوتا ہے۔ چنانچہ ان قطروں کو یاقوت بنانے کا سراغ اس نے اس لہو کی زبان جاننے والوں کی تحریروں سے پایا اور یہی اس کی تباہی کا آغاز تھا۔ قیامت کا ورود ہو چکا تھا۔ ہر چیز جڑوں سے اکھڑ رہی تھی۔ سو تم کیا جانتے ہو کہ وہ کھڑکھڑا ڈالنے والی کیا ہے۔ بلند کو پست، پست کو بلند کرنے والی۔ کوٹ ڈالنے والی۔ کیا یہ سب لوگ اس بات سے بےخوف ہو گئے کہ ایک زلزلہ ان کو اس وقت آلے جب کہ وہ دن میں کھیل کود میں مصروف ہوں یا پھر وہ اچانک زمین میں دھنسا دیے جائیں۔
پہاڑ دھنکی روئی کے گالوں کی طرح فضا میں اڑتے چلے جاتے تھے اور انسان پتنگوں کی مانند تھے۔ چیزوں کی حدیں مٹ چکی تھیں۔ سو اس نے اپنے وجود کو کبھی پاؤں میں روندے جانے والے کیڑوں کے ہم راہ پایا اور کبھی آسمان کی قوسوں پر جھولتے دیکھا۔ بارہا منوں مٹی تلے زندہ دبا جانا۔ گھنے تاریک جنگلوں میں اژدھوں کی پھنکاروں کے سامنے تن تنہا پایا۔ کہانی اژدھے کے منہ سے نکلنے والا شب چراغ تھی اور اس کو حاصل کرنا سنسان راتوں کی تنہائیوں میں منتظر منتظر رہنا تھا۔ اس اژدھے کے لیے۔
تب پہلی بار اس کو احساس ہوا کہ وہ عورت ہے اور شب چراغ حاصل کرنا تو مرد کی روایت ہے۔ ہاں یہ ہے کہ اس کی گردن کا لہو قطرہ قطرہ گر کر یاقوت بن سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے بھی گردن کا کٹنا لازمی ٹھہرتا ہے۔ جب شہزادیوں کی گردنیں دیو تن سے علیحدہ کرتے ہیں تو وہ عظمت کی علامتیں بن جاتی ہیں مگر ایک عام معمولی عورت کی گردن اس کے جسم سے جدا ہو جائے تو اس کی گردن سے ٹپکنے والا قطرہ قطرہ لہو یاقوت نہیں بنتا۔
تم ہنکارا نہیں بھر رہے۔ شاید یہ کہانی، کہانی نہیں۔ تم سو چکے میں جاگ رہی ہوں۔ ابھی اس کہانی کو آگے جانا ہے۔ کیونکہ اس معمولی عورت، بےحد عام عورت نے شب چراغ کی جستجو کو خیرباد کہہ دیا۔ مگر پھر ایک عجب واقعہ ہوا۔ ایک کھڑی دوپہر اچانک کسی نے اس کا نام پکارا۔ اس نے مڑ کر دیکھا۔ اب کے کسی نے اس کو اس کی پشت سے آواز دی۔ وہ گھومی۔ اب کے کسی نے اس کو اوپر سے پکارا۔ اس نےچہرہ اوپر اٹھایا۔ پھر کسی نے اس کو پاؤں تلے آوازدی۔ وہ زمین پر جھک گئی۔ اب چاروں سمت اس کے نام کی پکار تھی۔ اس نے دیکھا شجر حجر پھر اس سے ہم کلام تھے۔ چرند پرند کیڑے مکوڑے۔ گزرے ہوئے، آنے والے، سب ممکن وجود اس سے بات کرتے تھے۔ دنیا میں زمین سے آسمان تک شور کا دھواں آ نکلتا تھا۔ ان سب چیزوں کے وہ پرانے خوبصورت رنگ ڈھل چکے تھے اور اب اس کے یہ ساتھی اس کے ہمدم نہیں، اس کے مدعی تھے۔ اس پر جرح کرنے والے۔ جن کے جوابات دیتے دیتے وہ نڈھال ہو چکی ہے۔
وہ تو جن و انس، سمندروں، ہواؤں، چرند پرند پر کچھ اختیار نہیں رکھتی۔ پھر بھی ایک طویل طویل عرصے سے عصا کے سہارے کھڑی جنات سے وہ عجیب و غریب محل تیار کراتی ہے۔ صدیوں سے ایستادہ۔ اب اس عصا کو دیمک چاٹ رہی ہے۔ قریب ہے کہ وہ عصا بھر بھرا ہوکر گر جائے اور اس کے ساتھ ہی وہ خود بھی اور تب سب پر اس کی موت کا راز کھل جائے۔ محل کی تعمیر کا کام رک جائے۔ ناممکن ہے۔ بےسود۔ لا حاصل۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.