کہانی کی کہانی
’’زمانہ قدیم کے ایک واقعہ کے گرد گھومتی یہ کہانی انسانی زندگی میں مایا کے اثر کو بیان کرتی ہے۔ ایک جنگل میں ایک مہارشی مراقبے میں تھے۔ انہوں نے اپنی دیکھ بھال کے لیے ایک کنیا کو رکھ رکھا تھا۔ وہ ان کی دیکھ بھال کرتی اور جنگل میں سکھ سے رہتی۔ پھر اس نے من بہلانے کے لیے کچھ پھولوں کو کنیاؤں میں بدل دیا۔ اس کے بعد ایک رات وہ ایک ندی کے پاس گئی اور وہاں اسے کل جگ کی جھلک دکھی اور وہ اس کی طرف کھنچتی ہی چلی گئی۔ اسے بچانے کے لیے مہارشی کو سمادھی سے واپس آنا پڑا۔‘‘
دھرم گرنتھوں میں آیا ہے کہ پرانے زمانے میں ایک مہارشی اس دھرتی کے بیچ و بیچ ایک گھنے جنگل میں تپ کیا کرتے تھے۔ ایک بار ان کے من میں آیا کہ یہ تو ست یگ کازمانہ ہے۔ ہر طرف سچ کا، انصاف کا دور دورہ ہے۔ لیکن ست یگ کے بعد آنے والے لوگوں کو بڑے دکھ اٹھانے پڑیں گے۔ اس لیے کوئی ایسا اپائے کیا جائے کہ یا تو ست یگ کی میعاد بڑھ جائے یا آنےوالے یگوں میں لوگوں کو کم سے کم دکھ اٹھانے پڑیں۔ اس مسئلے کاحل سوچتے سوچتے آخر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ست یگ کی میعاد تو بڑھائی گھٹائی نہیں جاسکتی۔ یہ تو پرماتما کے نیم میں دخل ڈالنے والی بات ہوگی۔ اس لیے اگر میں آنےوالے لوگوں کے کلیان اور بھلائی کے لیے گھور تپسیاکروں تو ہوسکتا ہے کہ ان کے دکھوں میں کسی حدتک کمی ہوجائے۔
بس ان کے من میں یہ آنا تھا کہ مہارشی نے سمادھی پربیٹھنے کافیصلہ کرلیا۔ اب سوال یہ پیداہوا کہ جب وہ پورن سمادھی کی کیفیت میں رہیں گے تو اس وقت ان کے مادی جسم کی دیکھ بھال کون کرے گا؟ یہ ان کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ انہوں نےاسی وقت اپنے یوگ بل سے ایک رشی کنیا کو جنم دیا اور اسے سارے کام کاج سمجھابجھاکر مہارشی اپنی کٹیا کے اندر دھونی رماکر سمادھی پر بیٹھ گئے۔
رشی کنیا کاروزکا معمول یہ تھاکہ صبح اٹھ کر پاک صاف پانی میں اشنان کرکے مہارشی کو پرنام کرتی، دھونی کی آگ کو تیز کردیتی۔ لکڑیاں کم ہوں تو اور ڈال دیتی، فالتو راکھ اٹھاکر باہر پھینک دیتی، پھر کٹیا کو جھاڑ پونچھ کر بگیا سےتازہ پھول توڑ کرمہارشی کی کٹیا کو سگندھ سے بھردیتی۔ دن کے وقت یا شام کو دیے کی لو میں وہ بھی اکثر آلتی پالتی مارکر سمادھی میں گم مہارشی کو ایک ٹک دیکھتی رہتی تھی۔ ایسے موقعوں پر مہارشی کے ماتھے پر چمکتے ہوئے نور کی لو اسی دھونی میں چمکتی ہوئی آگ کی کسی ننھی سی لپٹ کی طرح لگتی اور وہ سوچتی کہ اس روشنی کی مدد سےدنیا سے دکھوں کااندھیرا دور ہوسکتاہے ۔وہ سوچتی، مہارشی کی تپسیا کامیاب ہوگئی تو آنےوالے یگوں میں لوگوں کا کلیان ہوجائے گا۔
اس طرح وقت گزرتارہا۔
کچھ دیر بعد جب رشی کنیا نے اپنے آپ کواکیلا محسوس کیا تو اس نےبھی یوگ مایا سےکچھ رنگ برنگے پھولوں کی کایابدل کر ان میں جان ڈال دی اور اس طرح اپنی سہیلیوں کو جنم دے دیا۔ اب وہ دن بھر ان سہیلیوں کےساتھ کھیلتی کودتی اور اسی دوران مہارشی کی دھونی کے لیے جنگل کی لکڑیاں بھی بنن لاتی۔ اب اکثر ایسا ہوتا کہ مہارشی کاخیال رکھنےکے لیے اپنی ذمےداری کچھ دیر کے لیے کٹیا کے دروازے پر پہرہ دے رہے شیروں یا کٹیا کے چاروں طرف چکر کاٹتے ہوئےناگ ناگن کو دے کر رشی کنیا اپنی بال سہیلیوں کے ساتھ مل کر جنگل کے پیڑوں پرچڑھ کر ٹہنی ٹہنی گھومتی۔ سب سہیلیاں مل کر جنگل کے پھل پھول توڑتیں۔ کچھ کھاتیں کچھ نیچے گراتیں۔ بیچ بیچ میں وہ کٹیا میں بھی جھانک کر دیکھ لیتیں۔ پھر پیڑوں سے اتر کر وہ سروور میں تیرتی ہوئی اٹھکیلیاں بھی کرتیں اور پوجاکے لیے کنول کے پھول بھی توڑ لاتیں۔ایسے موقعوں پر رنگ برنگے پھولوں کے گیند بناکر ایک دوسری کو مارناان کاسب سے محبوب کھیل تھا۔
وقت آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہا۔
مہارشی کی سمادھی لگی رہی۔
اور رشی کنیااور اس کی سکھیوں کی عمر بھی وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہی۔ ایک دن رشی کنیا اپنی ہم جولیوں کے ساتھ کٹیا سے کچھ دوری پر جنگل میں کھیل رہی تھی کہ رشی کنیا نےسنا کہ ایک پیڑ سے چڑیا کے ننھے ننھے بوٹ چیخ چیخ کر سارا آسمان سر پر اٹھا رہے ہیں۔لڑکیوں نے سوچا ضرور بے چاروں پر کوئی مصیبت پڑی ہے۔بس پھر کیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب لڑکیاں پیڑ پر چڑھ گئیں۔ رشی کنیا سب سے آگے تھی۔ اوپر جاکر وہ کیا دیکھتی ہے کہ ایک چیل چڑیا کےگھونسلے کے عین اوپر منڈلا رہی ہے اور بوٹوں پر جھپٹنے کے لیے پنکھ تول رہی ہے۔رشی کناھ غصے میں تو تھی ہی، اس وقت اس نے پتہ نہیں دل میں کیا سوچااور پھر ایک نظر گھور کرجو چیل کی طرف دیکھا تو چیل نےایسا محسوس کیا جیسے کوئی تیر اس کےجسم میں اترتا چلاگیا ہو اور وہ اسی وقت پنکھ پھڑپھڑاکر زمین پر گرپڑی۔چیل کو گرتے دیکھ کر بوٹوں نے سکھ کی سانس لی اور رشی کنیا نے انہیں ہاتھوں میں اٹھاکر ان کی نرم نرم اور گرم پنکھوں پر ہاتھ پھیرا اور انہیں باری باری چوم لیا۔
جب رشی کنیا ان بوٹوں کو واپس اپنے گھونسلوں میں رکھ رہی تھی تو اس نے یوں محسوس کیا جیسے گھنی، گہری او رمیٹھی خوشبو کاجھونکا اس کے پاس سے گزر گیا ہو۔ ’’یہ خوشبو کہاں سے آرہی ہے؟‘‘ رشی کنیا نےمن ہی من میں سوچا اور پھر چاروں طرف گھوم کر دیکھا۔ وہاں تو کچھ نہیں تھا سوائے پیڑوں کی اوپری شاخوں کے۔ چاروں طرف نیلا آسمان پھیلا ہواتھا اور آسمان کے نیچے سنہری دھوپ دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔اتنی ساری دھوپ ایک ساتھ دیکھ کر رشی کنیا کادل کھل اٹھا اور پھر۔۔۔
ارے یہ خوشبو۔ اتنی ڈھیر سی خوشبو کہیں دھوپ کے کن ہی پھول بن کر تو نہیں کھل اٹھے۔ پھر اس نے کچھ سوچا اور نچلی ٹہنی پر بیٹھی اپنی ہم جولی سے پوچھا، ’’اری تم کو بھی خوشبو آرہی ہے؟‘‘
’’ہاں آرہی ہے۔‘‘ ایک کے بجائے سب کی سب ہم جولیوں نے جواب دیا۔
’’لیکن کہاں سے؟ یہاں تو کوئی پھول نہیں ہے۔‘‘
’’ہے۔‘‘ ہم جولیوں نے کھل کر ہنستے ہوئے کہا۔
’’کہاں ہے؟‘‘ اور رشی کنیا کی سب ہم جولیاں اس کی طرف دیکھتی ہوئی ایک مرتبہ پھر کھلکھلاکر ہنس پڑیں۔ ’’پھول ہے اور ابھی ابھی کھلا ہے۔‘‘
’’کہاں؟ کب؟‘‘ رشی کنیا نے حیران ہوکر ایک مرتبہ پھر اپنےچاروں طرف دیکھا۔
’’اری پگلی۔ ابھی جب تم چڑیوں کے بوٹوں کو چوم رہی تھیں تو تمہارے چہرے کا رنگ گلنار ہوگیا تھا۔‘‘
’’لیکن یہ خوشبو۔‘‘
’’ہاں یہ تمہارے اپنے جسم سے ہی آرہی ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ ایک مرتبہ پھر ہنس پڑیں اور ان کی ہنسی میں رشی کنیا کی شرمیلی ہنسی بھی شامل ہوگئی۔
اور پیڑوں کے پتے خوشی سےجھوم اٹھے۔ تالیاں بجانےلگے۔
رشی کنیا جوان ہوگئی تھی۔ اور ساتھ ہی اس کی سکھیاں بھی۔
اس واقعہ کے کچھ دن بعد کی بات ہے۔ رات کاسماں تھا۔ آدھی رات ادھر اور آدھی رات ادھر۔ اچانک رشی کنیا کی نیند ٹوٹ گئی۔ اس نے اٹھ کر کٹیا کے چاروں طرف دیکھا۔ اس کی ساری سکھیاں سہیلیاں گہری نیند سو رہی تھیں۔ کٹیا کے دوسرے حصے میں دیاجل رہاتھا اور مہارشی اسی طرح سمادھی میں ڈوبے انتردھیان تھے۔ تبھی رشی کنیا کی نظر باہر کی طرف پڑی۔ وہاں چاندنی کچھ اس طرح پھیلی ہوئی تھی جیسے باہیں پھیلاکر رشی کنیا کو باہر آنے کانمنترن دے رہی ہو۔ رشی کنیا نے اپنے بکھرے ہوئے لمبے بال سمیٹے اور باہر چاندنی میں آگئی۔ وہاں بگیا کے پودے، پھول، جنگل کے پیڑ، سامنے سروور کی طرف جاتاہواراستہ، ہر چیز چاندنی میں نہائی ہوئی تھی اور چاندنی امرت کی پھوہار بن کر رشی کنیا کے روئیں روئیں کو چھیدتی ہوئی جیسے اس کے وجود کی تہوں میں کہیں داخل ہوتی جارہی تھی۔ خوشی سے شرابور ہوکر اس کا من جھوم اٹھا اورخودبخود اس کے پاؤں سروور کی طرف جانے والی پگڈنڈی پر ہولیے۔
سروور میں چاروں طرف پھیلے ہوئے پھولوں نے اپنی سوئی سوئی آنکھوں سے جب رشی کنیا کو آتے دیکھا تو وہ اپنی نیند تج کر کچھ اس طرح اکٹھے ہوگئے کہ ان سے کنول کے پھولوں کی ایک بڑھیا ناؤ بن گئی۔رشی کنیا کو پھولوں کی یہ ادا بہت بھلی لگی اور وہ ناؤ پر سوار ہوگئی۔
ناؤ دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی تھی اور رشی کنیا اپنے اردگرد پھیلے ہوئے خوب صورت نظارے کو اپنی آنکھوں میں بسا رہی تھی۔ چاروں طرف دور دور تک پھیلا ہوا جنگل چاندنی کی چادر اوڑھ کر سو رہاتھا۔ اس کےسامنے سروور کے ہلکورے کھاتے ہوئے پانی پر تو تصویر اور خوب صورت ہوگئی تھی۔ نیلے پانی پر چاندنی کی پرت چڑھی ہوئی اور اس کے نیچے ایسا لگتا تھا جیسے سارا آسمان جھیل میں اترآیا ہو۔ ہلکا نیلا آکاش، آکاش پر جھلملاتے تارےگول گول سانورانی چاند سب کچھ تو جھیل کے اندر جھلمل جھلمل کر رہاتھا۔ پھر جنگل کے پیڑوں کے سائے بھی جھیل کے پانی میں نہانے چلے آئے تھے۔
تبھی ناؤ کے پاس ہی چھپ کی آوازہوئی۔ رشی کنیا نے ادھر گھوم کردیکھا تو ایک جل پری ہاتھ جوڑے کھڑی تھی۔ رشی کنیا کو اپنی طرف متوجہ پاکر جل پری نےاسے پرنام کرتے ہوئےایک بڑا قیمتی موتی رشی کنیا کے چرنوں میں رکھ دیا۔
’’اور یہ مہارشی کی بھینٹ۔‘‘ جل پری نےایک اور بڑاسا موتی رشی کنیا کے ہاتھ پر رکھا۔
’’لیکن وہ تو سمادھی میں ہیں۔‘‘ رشی کنیا نے کہا۔
’’ان کی سمادھی ٹوٹنے والی ہے۔‘‘ اس لیے میں نے سوچا۔
’’ان کی تپسیا ختم ہونےوالی ہے یہ تمہیں کیسے معلوم؟‘‘ رشی کنیا نے پوچھا۔
’’ہم جل پرانیوں کو دھرتی پرہونے والی خاص گھٹناؤں کاتھوڑا بہت گیان تو رہتاہی ہے، رشی کنیا۔‘‘
رشی کنیا اسے کچھ اور پوچھنے ہی والی تھی کہ اس نے دیکھا کہ جل پری نے سروور میں چھلانگ لگائی اور نیچے ہی نیچےاترتی چلی گئی۔ رشی کنیا کی نظر اس کا پیچھا کر رہی تھی لیکن جل پری کاپاتال کا سفر کہیں ختم ہونےمیں ہی نہیں آرہاتھا۔ تبھی رشی کنیا نے دیکھا کہ جل پری تو کہیں غائب ہوگئی ہے اور اسے کوئی اور ہی دنیا دکھائی دے رہی ہے۔ رشی کنیا کو اندازہ ہوگیا کہ وقت کی حدوں کو پاٹ کر وہ آنے والے کل جگ کے دور کی دنیا کو دیکھ رہی ہے۔
رشی کنیا کیا دیکھتی ہے کہ ہر طرف بھوک اور بیماری کا دور دورہ ہے۔ غریبی اور دردرتا نے ہر طرف پاؤں پھیلا رکھے ہیں۔ لوگ دکھ اور درد کے جال میں پھنسے سٹپٹا رہے ہیں اور نجات کاکوئی راستہ نہیں۔ ماں بچے کو بیچ رہی ہے۔ بیٹا باپ کو دھوکہ دے رہا ہے۔ انسان، انسان کادشمن ہورہا ہے۔ اندھیرے مکانوں میں لوگ ایسے زندگی گزاررہے ہیں جیسے گندی نالیوں میں کلبلاتے ہوئے کیڑے اور ان کی اندھیری زندگی میں روشنی کا کوئی گزر نہیں۔
یہ سب دیکھتے ہوئے رشی کنیا کا دل زور زور سےدھڑکنےلگا اور اس نے سوچا کہ اچھا ہی ہے کہ مہارشی ان کے کلیان کے لیے تپ کر رہے ہیں۔بھگوان کرے کہ انکاتپ سپھل ہو۔
رشی کنیا نے آنکھیں بند کرلیں۔ لیکن دوسرے ہی پل وہ پھر نیچے پاتال میں دیکھ رہی تھی۔ رشی کنیا اب کی کیا دیکھتی ہے کہ ایک بیل گاڑی سی ہے جو بیلوں کے بغیر بڑی تیزی سے بھاگتی چلی جارہی ہے۔ ہائے بھگوان۔ یہ گاڑی بیلوں اور گھوڑوں کے جوتےبغیر کیسے بھاگ رہی ہے۔ اتنے میں وہ گاڑی رکی تو رشی کنیا نےدیکھا کہ اس گاڑی میں ایک بڑا ہی خوبصورت آدمی بہت بڑھیا کپڑے پہنے ہوئے بیٹھا ہے اور گاڑے کے رکتے ہی ننگ دھڑنگ بچوں اور ادھ ننگی عورتوں نے اس گاڑی والے کے سامنے ہاتھ پھیلادیے ہیں۔
’’بابوجی کچھ مل جائے۔ پیسہ۔ دوپیسے۔‘‘
’’کچھ کھانے کو بابو۔ میرا بچہ کئی دنوں سے بھوکا ہے۔‘‘ایک عورت گود میں اٹھائے ہوئے بچے کو دکھاتی ہوئی گڑگڑارہی ہے۔لیکن وہ گاڑی والا ان سب سے بیزار نہیں دھتکار رہاتھا،گالیاں دے رہاتھا۔یہ سب دیکھ کر رشی کنیا سے نہ رہا گیا۔ اور وہ زمانے اور وقت کی حدوں کو پار کر کے اس خوب صورت آدمی کے پاس پہنچ گئی۔ ’’ارے گوتم۔ تمہیں ان اناتھوں کی مدد کرنی چاہیے۔‘‘
اس آدمی نےرشی کنیا کی طرف ایک نظر دیکھا اور بولا، ’’ان کی تو نہیں مگر میں تمہاری مدد ضرور کر سکتا ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس آدمی نے بڑی غلیظ نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور اپنی گاڑی کادروازہ کھول دیا۔
’’چلو چلتی ہو۔‘‘
رشی کنیا کے کاٹو تو خون نہیں۔ اس نے ایک نظر پلٹ کر اس آدمی کی طرف دیکھا۔ وہ اس کی طرف میلی نظروں سے دیکھتا ہوا بہت ہی بدصورت ہوگیا تھا۔ تو کیا آنےوالے زمانوں میں لوگ رشی کنیا کی طرف بھی میلی نظروں سے دیکھیں گے۔ اور وہ بھی گوتم جیسے لوگ۔ رشی کنیا سوچتی سوچتی پسینے سے بھیگ گئی اور اپنی پھولوں کی ناؤ پر واپس آگئی۔
رشی کنیا پتہ نیںھ کب تک پاتال کی دنیا کے خیالوں میں کھوئی رہتی۔ لیکن یہاں سروور کےپانی پر اتھل پتھل ہو رہی تھی۔ بڑے زور کاطوفان آگیا تھا شاید۔ سروور میں بڑی زور زور کی چھلیں اٹھ رہی تھیں۔ کنول کے پھولوں کی نازک ناؤ ڈانواڈول ہو رہی تھی اور وہ بے چارے کو مل سے پھول بڑی مشکل سے رشی کنیا کو سروور میں گرنے سے بچاپارہے تھے۔
اب ادھر تورشی کنیا اپنی ڈگمگ کرتی ناؤ سے کنارے پر پہنچنےکی کوشش کر رہی تھی اور ادھر یہ ہوا کہ کوئی ڈراؤنا سپنا دیکھ کر اس کی ایک سہیلی کی نیند ٹوٹ گئی۔ اس کے جگانے پر باقی سکھیاں جب ہڑبڑاکر اٹھیں تو انہیں دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ رشی کنیا ان کے بیچ نہیں ہے۔ وہ جلدی سے باہرآئیں تو سروور کی طرف جاتی ہوئی پگڈنڈی پر ٹوٹی ہوئی شبنم میں پاؤں کے نشان دیکھ کر وہ سب سروور کی طرف چل دیں۔ جب وہ سروور پر پہنچیں تو رشی کنیا اپنی ناؤ سے کنارے پر اتر رہی تھی۔
’’آپ اس وقت یہاں؟‘‘ سکھیوں نے پوچھا۔
’’ہاں میری نیند ٹوٹ گئی تھی۔ اور آپ۔‘‘
’’میں نےبڑا ڈراؤنا سپنا دیکھا تھا۔‘‘ ایک نے کہا۔ باقیوں نےبھی کہا کہ ڈراؤنا سپنا تو وہ بھی دیکھ رہی تھیں۔
’’ذرا بتاؤ تو؟‘‘
’’میں نے دیکھا کہ۔۔۔‘‘
’’ارے جنگل میں آگ لگی ہے۔ باپ رے باپ۔۔۔‘‘
’’کدھر؟‘‘
’’وہ دیکھو رشی کنیا۔ تمہارے پیچھے سروور کے اس پار۔‘‘
’’ارے کہیں کل یگ کی آگ ہمارے زمانے میں تو نہیں چلی آئی۔‘‘رشی کنیا نے سوچا اور اپنی نظروں ہی نظروں سے آگ کو باندھ دیا تو وہ دیکھتے ہی دیکھتے بجھ گئی۔
’’ارے رشی کنیا۔ دیکھو یہ دوشیر آپس میں لڑتے ہوئے ادھر آنکلے ہیں، لگتا ہے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں۔‘‘ رشی کنیا نےان کو بھی گھور کر دیکھااور وہ دونوں دم ہلاتے ہوئے رشی کنیا کے پاؤں میں آگرے۔
’’جاؤ بھاگو۔ آپس میں لڑنا اچھی بات نہیں ہے۔‘‘ اور وہ دونوں شیر جنگل کی طرف ہولیے۔
’’رشی کنیا! یہ آگ ،یہ پانی، جنگل کے پھول، شیر، جانور، غیرجاندار سب کے سب آپ کی بات کیسے مان لیتے ہیں؟‘‘
’’مانتے ہیں تبھی تو ست یگ ہے۔ ورنہ کل یگ نہ ہوجائے۔‘‘ رشی کنیا نےکہا۔ ’’چھوڑو ان باتوں کو۔ تم بتاؤ، وہ سپنا کیسا تھا؟‘‘
’’سپنا بڑا بھیانک تھا رشی کنیا۔ کیا بتاؤں۔ میرے تو اس کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہو رہے ہیں۔ کیا دیکھتی ہوں کہ دو آدمی ساتھ ساتھ باتیں کرتے چلے آرہے ہیں۔اتنے میں میرے دیکھتے ہی دیکھتے ان میں سے ایک آدمی سانپ بن گیا۔‘‘
’’سانپ بن گیا؟‘‘
’’ہاں سانپ بن گیا اور اپنے ساتھ چلنے والےآدمی کو کاٹ لیا۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
’’اس کے بعد اسی سانپ کی کوکھ سے سینکڑوں ہزاروں سانپ نکل کر دھرتی پر پھیل گئے اور انہوں نے پوری زمین کو اپنے شکنجے میں جکڑلیا۔ میں نے دیکھا رشی کنیا کہ ان سانپوں کے ڈر سے سمندر سوکھے جارہا تھا اور بڑے بڑے پہاڑ ڈر کے مارے کانپ رہے تھے۔ اور ان کانپتے ہوئے پہاڑوں سے یہ بڑے بڑے پتھر نیچے گرتے تھے اور لوگ ان پتھروں سے بچنے کے لیے ڈر کے مارے بھاگ رہے تھے۔ لیکن بھاگ کے جاتے کہاں۔ سب ان کے نیچے آکر کچلے جاتے تھے۔ ہر طرف چیخ وپکار تھی۔ رونا دھونا تھا اور۔۔۔‘‘ رشی کنیا سپنا سنتے سنتے سروور کی تہہ میں دیکھتے ہوئے دردناک واقعات میں کھوگئی اور اداس ہوگئی۔
جب وہ سب واپس کٹیا میں پہنچیں تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ کٹیا کی بگیا کے تمام پھول اس طرح گرکر زمیں پر بکھرے ہوئے تھے جیسے بہت بڑے طوفان نے پودوں کو جھنجھوڑ دیا ہو۔
کٹیا کے اندر جاکر رشی کنیا کو احساس ہوگیا کہ مہارشی کی سمادھی ٹوٹنےوالی ہے۔ ان کے چہرے کی طرف دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ مکمل سکون کی کیفیت سےنکل کر مادی دنیا کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ وہ اور اس کی سکھیاں مہارشی کے سامنے ہی چپ چاپ بیٹھ گئیں۔ انہوں نے محسوس کیا کہ مہارشی کی اندریاں آہستہ آہستہ اپنے اردگرد کے ماحول سے مانوس ہو رہی ہیں۔ یہ تبدیلی بہت ہی آہستہ آہستہ آرہی تھی لیکن یہ صاف ظاہر تھاکہ تبدیلی آرہی ہے۔ اس لیےرشی کنیا نے کمنڈل میں صاف جل بھر کر رکھ دیا۔ کچھ پھول باہر سے وہ خود لے آئی۔ کچھ سکھیوں کو بھیج کر سروور سےمنگاکر رکھ دیے۔ وہ سارے انتظام کرکے ہٹی ہی تھی کہ مہارشی کی سمادھی پوری طرح ٹوٹ گئی اور انہوں نے اوم اوم کا اچارن کرتے ہوئے آنکھیں کھول دیں۔
مہارشی سروور میں اشنان کرنے کے بعد جب واپس اپنےآسن پر آکر بیٹھے تو وہ خوش نہیں لگ رہے تھے۔ پھر بھی رشی کنیا نے ڈرتے ڈرتے پوچھ ہی لیا،’’آپ کا تپ سبھل رہا؟‘‘
مہارشی تھوڑا سا مسکرائے اور بولے، ’’بھگوان کی اچھا کچھ اور ہے۔‘‘
کچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔ پھر مہارشی بولے، ’’بگیا کے سارے پھول گرے ہوئے ہیں کیا کوئی طوفان آیا تھا؟‘‘
’’طوفان آیا تھا لیکن سروور میں۔‘‘
’’ہاں۔ اس کا تو مجھے پتہ ہے۔‘‘ مہارشی بولے۔ وہ کچھ دیر چپ رہےاور پھر بولے،’’رشی کنیا تم نے اپنی سکھیوں کا پریچیہ نہیں کرایا۔‘‘
’’مہاراج یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ سب کی سب میرا ہی روپ ہیں۔ یہ بتائیے کہ آپ کو سروور کےطوفان کی بات کیسے معلوم ہے۔‘‘
’’وہ سب مایا تھی۔‘‘ مہارشی بولے۔ ’’مایانے ہی آدھی رات کو تمہاری نیند اچاٹ کی تھی۔ مایا نے ہی تجھے اپنی شکتی سے پھولوں کی ناؤ پر بٹھایا۔ مایا نے ہی جل پری بن کر تمہیں موتی پیش کیا۔‘‘
’’ارے یہ موتی تو پتھر ہوگیا۔‘‘ رشی کنیا مہارشی کے چرنوں میں پتھر دیکھ کر حیران ہوگئی۔
’’ہاں سب نظر کا دھوکا تھا۔ رشی کنیا۔ ہاں تو میں کہہ رہاتھا کہ مایا نے ہی سروور کے پانی میں تجھے کل جگ کی جھلک دکھائی۔ مایا نے ہی مجھے سمادھی کی اوستھا میں بتایا کہ سروور میں طوفان آیا ہے اور رشی کنیا ڈوب رہی ہے۔ اسی لیے مجھے سمادھی توڑ کر تمہاری ڈوبتی ہوئی ناؤ کو کنارے پر لگانا پڑا۔‘‘
یہ سنتے ہی رشی کنیا کی آنکھوں سے چھم چھم آنسو برسنےلگے تو مہارشی اپنےآسن سے اٹھے اور اسے اپنے گلے سے لگاکر اس کے سرپر ہاتھ پھیرا،’’رشی کنیائیں رویا نہیں کرتیں۔ بھگوان جو کرتا ہے۔ ٹھیک ہی کرتا ہے۔‘‘
’’لیکن میری وجہ سے آپ کی سمادھی ٹوٹ گئی۔ آپ کی ورشوں کی محنت بےکار چلی گئی۔‘‘
’’یہ اچھا ہی ہوا کہ سمادھی ٹوٹ گئی۔ کنیا جوان ہوجائے تو باپ کی سمادھی ٹوٹنی ہی چاہیے۔ اس کی شادی کی فکر کرنی ہوتی ہے۔ اس لیے۔‘‘
’’نہیں۔مہارشی۔ نہیں۔ میں اپنے آپ کودوشی محسوس کر رہی ہوں۔ ایسی صورت میں تو ۔۔۔‘‘
’’شادی تو تمہاری بھی ہونی چاہیے اور تمہاری سکھیوں کی بھی۔ تم تو مجھے یہ بتاؤ کہ برکیسا ہوناچاہیے؟‘‘
رشی کنیا کچھ دیر خاموش رہی۔ مہارشی نے دوبارہ پوچھا تو بولی، ’’اگر ایسا ہی ہے تو میں شادی ایسے ویکتی سے کروں گی جو آنے والی دنیا کو ان دکھوں سے بچاسکے جن کی ایک جھلک دیکھنے سے ہی میرا دل تڑپ اٹھا تھا، جن کی وجہ سے سروور میں طوفان آگیا تھا، جنگل میں خودبخود آگ لگ گئی تھی اور بگیا کے سارے پھول ٹوٹ کر گر گئے تھے۔‘‘
’’ہماری بھی یہی اچھا ہے۔‘‘ رشی کنیا کی سکھیاں ایک آواز ہوکر بول پڑیں۔مہارشی نے بڑے پیار سےایک بار رشی کنیا کی طرف دیکھا اور پھر اس کی سکھیوں کی طرف۔ پھر وہ اسی وقت ان کے لیے مناسب بر کی تلاش میں نکل پڑے۔
مہارشی کا یہ سفر ان کی تپسیا سےبھی زیادہ مشکل ثابت ہوا ہے۔ اس بات کو ہزاروں سال بیت چکے ہیں۔ رشی کنیا اور اس کی سکھیاں گھنے جنگل سےگھرے اپنے آشرم میں اب بھی انتظار کر رہی ہیں۔ مہارشی ابھی تک نہیں لوٹے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.