ایک کہانی کا بوجھ
بہت دنوں سے ایک کہانی کا بوجھ اٹھائے پھر رہا ہوں۔
عرفی چچا کی کہانی کا بوجھ۔!
عام طور پر کہانیاں بوجھ نہیں ہوتیں۔ لکھنے والوں کے لئے تو وہ ایک نشہ ہوتی ہیں۔ ایک سرور۔ ایک خواب کی سی کیفیت جس میں اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، صبح شام، کوئی خیال پرورش پاتا رہتا ہے، کچھ منظر بنتے بگڑتے جاتے ہیں، کچھ کردار انگڑائی لے کر بیدار ہونے لگتے ہیں۔ تکمیل پاجانے والی ہر کہانی ایک کامیابی ہوتی ہے۔ قدرت کا انعام ہوتی ہے۔ جو یہ کڑی مسافت طے کرتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ کبھی مہینوں، برسوں صحرا نوردی کے باوجود کوئی نخلستان نہیں ملتا۔ کبھی آسمان سے اچانک کوئی خزانہ اتر آتا ہے۔
مگر عرفی چچا کی کہانی ایک بوجھ ہے۔
پریشان کر دینے والا، تھکا دینے والا، اعصاب کو شل کردینے والا بوجھ۔
عرفی چچا نے انتقال سے تین دن قبل دبئی سے آخری ای میل بھیجی تھی۔
’’تو نے جو کہانی بھیجی ہے، وہ آٹھویں صفحے کے دوسرے پیراگراف پر ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے آگے دو صفحے اضافی ہیں۔ بلکہ یوں سمجھ، کہ کہانی کا بیڑہ غرق کرنے کے لئے کافی ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تو کہانی کو ربڑ کی طرح کھینچنے کی عادت کب چھوڑےگا۔ سو دفعہ سمجھایا ہے تجھے کہ ہر بات کو منطقی انجام تک پہنچانا ضروری نہیں ہوتا۔ تین دن بعد مجھے پھر ہسپتال میں داخل ہونا ہے۔ اینجیو پلاسٹی کرانی ہے۔ میں موت سے نہیں ڈرتا۔ مرنے کے بعد رسوائی سے ڈرتا ہوں۔ وعدہ کر، کہ اگر میں مر گیا تو کسی کو یہ بات پتا نہیں چلے گی کہ تجھے ایسا تیسرے درجے کا افسانہ نگار بنانے میں میرا بھی کوئی کردار ہے۔ ہسپتال جانے سے پہلے تجھے کوریئر کے ذریعے ایک نامکمل کہانی بھیجوں گا۔ اسے مکمل کر کے دکھا، تاکہ مجھے تسلی ہو کہ بیس برس کی افسانہ نگاری سے تُو نے کچھ نہ کچھ تو سیکھا ہے۔‘‘
عرفی چچا کے رخصت ہونے کی خبر اور ان کا بھیجا ہوا پارسل ایک ساتھ موصول ہوئے۔
ان کے بچھڑ جانے کا دکھ کتنے ہی دنوں تک ایک تاریک سایہ بن کر ہمارے گھر پر منڈلاتا رہا۔
وہ میرے لئے ایک جلاد تھے۔ پرانے وقتوں والے ظالم استاد تھے۔ وہ نہ ہوتے تو میں بہت پہلے کہانی لکھنے کے شوق سے جان چھڑا چکا ہوتا، مزے سے ڈیڈی کی طرح کوئی سرکاری افسری کر رہا ہوتا اور کام نہ کرنے کے باوجود تنخواہ اور سہولیات پا رہا ہوتا۔
ڈیڈی اور عرفی چچا، ایک دوسرے کی ضد تھے۔ ڈیڈی نے سرکاری افسری کے ذریعے پوری زندگی کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ ایک سیدھی، سایہ دار سڑک پر آرام دہ سفر۔ عرفی چچا کو منصوبہ بندی سے نفرت تھی۔ انہوں نے زندگی بھر شادی نہیں کی تھی۔ وہ نت نئے چیلنجز قبول کرنے والے، اچانک کسی بھی جانب چل پڑنے والے تھے۔ کسی بہت بڑی کمپنی میں، کسی بہت بڑے عہدے پر جا پہنچے تھے۔ پھر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر دنیا کی سیر کو نکل گئے۔ بہت سا وقت انگلینڈ میں گزارا۔ پھر دبئی میں جا بسے۔
ڈیڈی اور عرفی چچا، ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ لیکن خون کے رشتے میں کچھ ایسی کشش ہوتی ہے کہ آدمی تعلق کی ڈور کو توڑ بھی نہیں سکتا۔
وہ سال، دو سال میں آتے تھے۔ کبھی ایک ہفتے کے لئے۔ کبھی دس دن کے لئے۔ خاندان میں روز دعوتیں ہوتی تھیں۔ ہر محفل قہقہوں سے گونجتی رہتی تھی۔ عرفی چچا کا کھلنڈرا پن سب کو بھاتا تھا۔ وہ آتے تھے تو ان کے سوٹ کیسوں میں سب کے لئے تحائف بھرے ہوتے تھے۔ اور واپس جاتے تھے تو یہ سوٹ کیس کتابوں سے بھرے ہوتے تھے۔ اردو کے ناول، افسانوں کے مجموعے، تراجم۔
میں ان کا چہیتا بھتیجا تھا لیکن میرے لئے بھی وہ بس، عرفی چچا تھے۔ بےفکر، خوش باش، دولت مند۔ میرا خیال تھا کہ وہ دبئی جا کر یہ کتابیں دوستوں میں اسی طرح تقسیم کر دیتے ہوں گے جیسے یہاں کپڑے اور گھڑیاں اور کھلونے بانٹتے تھے۔ میں نے کبھی سوچا ہی نہیں، کہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے، وہ یہ کتابیں خود پڑھتے ہوں۔ عرفی چچا کا ماضی پراسراریت کے کسی رنگین غبارے میں چھپا ہوا تھا اور ان کی روایت شکنی انہیں نوجوانوں کا محبوب بنائے رکھتی تھی۔
لیکن ایک دن سب کچھ بدل گیا۔
ان دنوں عرفی چچا آئے ہوئے تھے۔ ہم سب گھر والے کسی خاندانی شادی میں جانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ عرفی چچا گہرا نیلا سوٹ پہنے، سرخ ٹائی لگائے، خوشبو سے مہکتے، میرے پاس آئے اور بولے۔ ’’تم افسانے لکھتے ہو۔؟‘‘ ان کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی اور ان کے ہاتھ میں میری یونیورسٹی کا وہ سالانہ میگزین تھا جس میں میرا افسانہ چھپا تھا۔
میں نے گڑبڑا کر کہا۔ ’’جی، بس ایسے ہی۔۔۔ کبھی کبھار۔۔۔‘‘
وہ مسکرائے اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے۔ ’’کمال ہے۔ مجھے معلوم ہی نہیں تھا۔ کبھی بتایا بھی نہیں تم نے۔‘‘
اس دن کے بعد ان کا ہاتھ ہمیشہ میرے کندھے پر رہا۔
اس دن کے بعد مجھے پتا چلا کہ یہ وہ عرفی چچا نہیں تھے جو شرارتی، جملے باز، لاپرواہ نظر آتے تھے۔ یہ کوئی اور آدمی تھا۔ کہانی کے عشق میں مبتلا کوئی دیوانہ۔ پریم چند سے بیدی تک، موپساں سے دستو ویسکی تک، سب کچھ گھول کر پی جانے والا۔
سچی بات یہ ہے کہ میں ذرا ڈر گیا۔ عرفی چچا کا یہ نیا روپ عجیب سا لگتا تھا۔ اجنبی سا۔
اس روز انہوں نے رات بھر بیٹھ کر میگزین میں چھپے ہوئے افسانے کی سرخ بال پین سے اصلاح کی۔ اصلاح کیا کی، ہر صفحہ لال کر دیا۔ اتنے اضافے، اتنی ترامیم، کہ آدمی دیکھ کر ڈر جائے۔ اضافی مکالمے، اضافی منظر کشی اور کئی سطریں پوری پوری قلم زد۔
اگلی شام، میں نے پورا افسانہ دوبارہ لکھا۔ عرفی چچا کی ہدایات کے مطابق۔ مجھے اندازہ ہوا کہ انہوں نے غضب کی کاٹ چھانٹ کی تھی۔ کچھ جگہ انہوں نے قدیم وضع کے مترادفات استعمال کئے تھے جو میرے طرز تحریر سے لگا نہیں کھاتے تھے لہٰذا میں نے اس اصلاح کو قبول نہیں کیا۔ لیکن باقی ایڈیٹنگ ایسی تھی کہ کوشش کے باوجود میں کچھ تبدیل نہ کر سکا۔ پورے افسانے کا جیسے پیرہن ہی بدل گیا تھا۔ کہانی وہی رہی، جو تھی۔ مگر زیادہ تیکھی ہو گئی۔
رات گئے میں نے انہیں افسانہ دکھایا۔
وہ غور سے پڑھتے رہے۔ پھر انہوں نے کہا۔ ’’بہتر ہو گیا ہے۔ لیکن اس ساری مشق کا مقصد افسانے کو بہتر کرنا نہیں تھا۔ صرف کچھ سمجھانا تھا۔ تمہیں جملہ لکھنا آتا ہے۔ یہی اصل صلاحیت ہوتی ہے اور یہی تمہاری طاقت بن سکتی ہے۔ سمجھے۔؟‘‘
میں نے سر ہلایا۔
عرفی چچا نے کہا۔ ’’لاپرواہی سے مت لکھو، فالتو جملہ مت لکھو، پوری توجہ مرکوز رکھو کہانی پر۔۔۔‘‘
میں نے کہا۔ ’’عرفی چچا، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آپ اتنے اچھے افسانہ نگار ہوں گے۔۔۔‘‘
وہ ہنسے۔ ’’افسانہ نگار۔؟ یہ تم سے کس نے کہہ دیا کہ میں افسانہ نگار ہوں۔؟‘‘
’’مذاق نہ کریں، چچا۔‘‘ میں نے کہا۔
مجھے بہت دنوں بعد پتا چلا کہ وہ مذاق نہیں کررہے تھے۔ افسانے کو خوب سمجھنے، کہانی کو طرح طرح سے تراشنے کی بے مثال صلاحیت رکھنے، دنیا بھر کی کہانیوں کے دیار میں کوچہ گردی کرنے کے باوجود وہ افسانہ نگار نہیں تھے۔ بلکہ یوں کہئے کہ انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر افسانہ نویسی سے دور رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔
پہلے پہل مجھے حیرت ہوتی تھی۔ جو آدمی کہانی کے فن پر ایسا قادر ہو، یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ کہانی نہ لکھے۔
بہت عرصے بعد، شاید تین چار سال بعد، جب میری ان سے خاصی بےتکلفی ہو چکی تھی، انہوں نے ایک بار بتایا کہ نوجوانی میں انہوں نے چند افسانے لکھے تھے لیکن بہت جلد انہیں احساس ہو گیا تھا کہ ایک تو ان سے کہانی اچھی طرح فنش نہیں ہوتی، کوشش کے باوجود موثر اختتام سے محروم رہتی ہے اور دوسرے یہ کہ وہ خود کو نت نئی کہانیوں، نت نئے پلاٹس تلاش کرنے کے معاملے میں مجبور پاتے تھے۔ ’’قدرت کا نظام ہے یہ۔‘‘ انہوں نے کہا تھا۔ ’’کسی کو ہزار کوشش کے باوجود نئی کہانی نہیں سوجھتی۔ کسی پر کہانیوں کی برسات ہوتی رہتی ہے۔ آدمی زمین کی طرح ہوتا ہے۔ بنجر۔ یا زرخیز۔! رفتہ رفتہ مجھ پر کھلا کہ مجھے زیادہ لطف کہانی پڑھنے میں آتا ہے۔ کہانی لکھنے میں نہیں۔‘‘
میں نے کئی بار ضد کی، مگر عرفی چچا نے مجھے اپنا لکھا ہوا کوئی افسانہ نہیں دکھایا۔
ان کی ساری دلچسپی میری تربیت میں تھی۔ وہ پاکستان آتے تو چوبیس گھنٹے کسی آمر کی طرح میرے سر پر سوار رہتے تھے۔ دبئی میں ہوتے، تب بھی فون اور ای میل کے ذریعے مجھے اپنی گرفت میں رکھتے تھے۔ یوں لکھو۔ یوں نہ لکھو۔ یہ تمہیں ایک میل لمبا جملہ لکھنے کا کیا شوق ہے۔ اس جنّاتی زبان کی جان چھوڑ دو۔ کہانی کے اختتام پر تم مداری کی طرح ہیٹ میں سے خرگوش کیوں نکالنا چاہتے ہو۔
عرفی چچا کی وجہ سے ہی میں نے بدیسی کہانیوں کے ترجمے شروع کئے جنہیں ڈائجسٹوں والے بخوشی قبول کر لیتے تھے۔ لیکن عرفی چچا اس سے بھی مطمئن نہیں ہوئے۔ وہ مجھے مسلسل آزمائش میں رکھنا چاہتے تھے۔ ان کی پٹاری میں عجیب و غریب امتحانات تھے۔ وہ مجھے کوئی ادھوری کہانی، یعنی کسی افسانے کے ابتدائی صفحات دیتے تھے اور اسے مکمل کرنے کے لئے کہتے تھے۔ میں کہانی مکمل کرتا تھا تو اصل کہانی کا اختتام پڑھوا کر مجھے شرمندہ کرتے تھے۔ وہ کسی عجیب و غریب نام والے غیر ملکی کہانی کار کی تخلیق پڑھواتے تھے اور کہانی کا کوئی اور متبادل انجام سوچنے پر مجبور کرتے تھے۔ کسی بھی کہانی کو ہیرو کے بجائے ہیروئین کے نکتۂ نظر سے لکھ کر دکھانے کی فرمائش کرتے تھے۔
ایک بار، جب وہ پاکستان آئے ہوئے تھے، میں نے ان سے کہا۔ ’’عرفی چچا۔ اب تو آپ کو یقین ہو گیا ہے نا، کہ میں محض ایک اوسط درجے کا افسانہ نگار بن سکتا ہوں، اچھا کہانی کار کبھی نہیں بن سکتا۔؟‘‘
ان کی آنکھیں چمکیں۔ ’’محنت جاری رکھوگے تو اوسط درجے کے افسانہ نگار بن جاؤگے۔ ویسے اردو کے نوے فیصد سے زیادہ افسانہ نگار اوسط درجے کے ہی ہیں۔‘‘
میں نے کہا۔ ’’گویا میرا شمار اکثریت والوں کے ساتھ ہوگا۔ چلئے، یہ تو اطمینان کی بات ہے۔ لیکن کیا آپ یہ بات جانتے ہیں کہ میری عمر اٹھائیس سال ہو چکی ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ ہر لکھنے والا بیس سے پچیس سال کی عمر تک اپنا اسلوب، اپنا انداز، سب کچھ مکمل کر چکا ہوتا ہے۔ اچھا، برا، جیسا بھی اسے بننا ہوتا ہے، بن چکا ہوتا ہے۔‘‘
وہ ہنسے۔ ’’ایک تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ جو لوگ بات بے بات تحقیق کے حوالے دیتے ہیں وہ عموماً کاہل ہوتے ہیں اور محنت سے جی چراتے ہیں۔‘‘
’’میں سچ کہہ رہا ہوں، چچا۔‘‘
وہ کچھ دیر چپ رہے۔
پھر انہوں نے کہا۔ ’’ایک بات یاد رکھنا۔ دو کام ایسے ہیں جو لکھنے والے کو زندگی بھر کرنے پڑتے ہیں۔ شہرت ملے، یا نہ ملے۔ بڑا کہانی کار تسلیم کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ لکھنے والے کو آخر وقت تک یہ کام کرنے ہوتے ہیں۔‘‘
میں خاموش بیٹھا انہیں دیکھتا رہا۔ ان کی آواز میں سنجیدگی تھی اور ان کی آنکھیں کمرے کے دروازے پر مرکوز تھیں۔
’’پہلا کام ہے، بڑھئی کا کام۔ ٹھوکا پیٹی۔ تراش خراش۔ سچا بڑھئی لکڑی کو اس وقت تک تراشتا رہتا ہے جب تک وہ ایک حسین تخلیق میں نہیں ڈھل جاتی۔ رندہ چلاتے چلاتے اس کے ہاتھ شل ہو جاتے ہیں، اس کی کلائی میں اور کندھوں میں درد اتر آتا ہے لیکن اس کی آنکھیں اسی لکڑی پر مرکوز رہتی ہیں اور اس کے ہاتھ رواں رہتے ہیں۔ تکمیل کے آخری مرحلے تک۔‘‘
کمرے کی خاموشی میں ان کی آواز گونجتی تھی اور میں ایک سحر زدہ معمول کی طرح انہیں دیکھتا تھا۔
’’دوسرا کام ہے، امیجی نیشن۔ تخیل کی پرواز۔ انسانوں کو دیکھنا اور ان میں کہانیاں ڈھونڈنا۔ آنکھیں کھلی رکھنا اور خیال کو کسی سرکش گھوڑے کی طرح بھاگتے رہنے کی اجازت دینا۔ یہ سب سے مشکل کام ہے۔ نیکی کی ہزار پرتوں کے پیچھے چھپی بدی تلاش کرنا۔ سیاہ اور سفید کے درمیان سرمئی رنگ کا کھوج لگانا۔ سوچنا اور مسلسل سوچنا۔ کیا نظر آ رہا ہے، کیا نہیں نظر آ رہا ہے۔ ہزار زاویے ہوتے ہیں زندگی کے، منظروں کے، آدمی کے۔ وہ آنکھ پیدا کرنی پڑتی ہے جو ایک نہیں، دس، بیس، پچاس زاویوں سے دیکھ سکے۔‘‘
یہ لمحہ، آگہی کا لمحہ تھا۔
عرفی چچا جیسے کوئی اسمِ اعظم سکھا رہے تھے۔
اور نہ جانے کیسے، اسی لمحے مجھے خیال آیا کہ کیا عرفی چچا بھی ہزار پرتوں کے درمیان چھپے ہوئے تھے۔؟ وہ کیا تھا جو مجھے نظر نہیں آتا تھا۔؟ بس، ذرا سی دیر کو یہ خیال کسی ستارے کی طرح چمکا اور پھر بہت سے خیالات کے درمیان گڈمڈ ہو گیا۔
پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا، عرفی چچا سے ملاقاتیں کم ہوتی گئیں کیونکہ انہوں نے دل کا روگ پال لیا تھا۔ دبئی کا کوئی جرمن ہسپتال تھا جہاں انہوں نے ڈاکٹروں سے یاری گانٹھ لی تھی۔ غذائی پابندیاں، سیڑھیاں چڑھنے کی ممانعت، ہر دو ماہ بعد چیک اپ۔ ان کی پہلی اینجیو پلاسٹی کے موقع پر ڈیڈی اور امی پندرہ دن ان کے پاس رہے۔
ٹیلیفون پر ان کی آواز ویسی کراری نہیں رہی تھی لیکن انٹرنیٹ کے وسیلے سے وہ مجھے اپنی گرفت میں رکھنے کی ذمہ داری سے کبھی غافل نہیں ہوئے۔
چار سال بعد، ان کی آخری ای میل موصول ہوئی۔ وہی، جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ میری کہانی آٹھویں صفحے پر ختم ہو جاتی ہے اور باقی دو صفحات کہانی کا بیڑہ غرق کرنے کے لئے کافی ہیں۔
اور تین دن بعد، ان کے رخصت ہو جانے کی اطلاع۔
چند ہفتے تک ہمارے گھر پر غم کا سناٹا چھایا رہا۔ خاندان والے تعزیت کے لئے ڈیڈی کے پاس آتے رہے۔ سوئم، قرآن خوانی، پرسے، پرانی باتیں۔ میرے لئے بھی وہی روایتی سے دلاسے تھے۔ ان کی مغفرت کی دعا کرو، اللہ تم سب کو صبر دے، اس دنیا سے سب کو جانا ہے۔ انہیں میرے دکھ کی خبر کہاں تھی۔ انہوں نے ایک دور کا رشتہ دار کھو دیا تھا۔ ایک محفل باز، کھلنڈرا آدمی چلا گیا تھا اور بس۔ انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ مجھ سے میرا سائبان چھن گیا تھا۔ میرا استاد، میرا یار، میرا راہ نما نہیں رہا تھا اور میرے کندھے پر کوئی ہاتھ نہیں رہا تھا۔
عرفی چچا کے بھیجے ہوئے پارسل کا خیال مجھے بہت دنوں بعد آیا۔ شاید ایک مہینے بعد اور ساتھ ہی مجھے یاد آیا کہ انہوں نے کوئی نامکمل کہانی بھیجنے کا وعدہ کیا تھا۔
میں نے اپنے کمرے کو چھان مارا۔ موٹے، سفید گتے کا وہ بڑے سائز کا لفافہ میں نے خود وصول کیا تھا۔ لیکن اب وہ میرے کمرے میں کہیں نہیں تھا۔
لفافہ بہت تلاش کے بعد اسٹور روم میں اخبارات کی ردی کے درمیان سے برآمد ہوا۔
عام طور پر وہ مجھے انگریزی کی کہانیوں کی فوٹو اسٹیٹ کاپیاں بھیجتے تھے۔ دوسری زبانوں سے انگریزی میں منتقل کی جانے والی کہانیاں۔
لیکن اس لفافے میں جو صفحات تھے، ان پر اردو لکھی نظر آ رہی تھی۔
فل اسکیپ کاغذ پر، ہاتھ سے لکھے ہوئے سولہ صفحات۔ کاغذوں کا مٹیالا رنگ اور ان کے مڑے ہوئے کونے بتاتے تھے کہ یہ کئی برس پرانی تحریر تھی۔
اس تحریر کا کوئی عنوان نہ تھا۔ مگر اس ہینڈ رائٹنگ کو میں اچھی طرح پہچانتا تھا۔ یہ عرفی چچا کی تحریر تھی۔ وہی لام اور نون کے گھومتے ہوئے دائرے۔ وہی جما ہوا خط۔ ساری زندگی انہوں نے میری مسلسل ضد کے باوجود، اپنی کوئی تحریر پڑھنے کو نہ دی تھی۔ ہمیشہ باتوں میں ٹال دیا تھا اور اب یہ صفحات میرے ہاتھ میں تھے۔
میں نے ابتدائی سطروں پر نظر ڈالی تو اندازہ ہوا کہ یہ کوئی کہانی تھی۔
عرفی چچا کی لکھی ہوئی، سیدھے، براہ راست انداز میں شروع ہوتی کہانی۔
کسی خان بہادر عنایت خان کے ذکر سے شروع ہونے والا قصہ۔
مجھے وہ شام یاد آئی، جب کمرے کی خاموشی میں ان کی آواز گونجتی تھی اور وہ زندگی کے اور منظروں کے اور آدمی کے ہزار زاویوں کا ذکر کرتے تھے اور اس بڑھئی کے بارے میں بتاتے تھے جس کے ہاتھ رندہ چلاتے چلاتے شل ہو جاتے ہیں۔
اور مجھے احساس ہوا کہ عرفی چچا کی لکھی ہوئی کہانی میرے اندر کوئی بےچینی پیدا کرتی ہے۔ کوئی اضطراب۔ کوئی دھڑکا کہ نہ جانے کیا ہونے والا ہے۔
میں نے مٹیالے کاغذ پر نظر جمالی۔
عرفی چچا نے لکھا تھا۔
’’خان بہادر عنایت خان انسانوں کی اس نسل کا نمائندہ تھا جو اب معدوم ہوتی جارہی ہے۔ ساٹھ برس کی عمر میں بھی وہ ہم جیسے نوجوانوں کے مقابلے میں زیادہ وجیہہ، زیادہ اسمارٹ اور زیادہ پرکشش تھا۔ اس کی آواز گرجدار تھی، رنگ سرخ و سفید تھا اور قد سوا چھ فٹ تھا۔ لیکن یہ تو محض باہر کا تماشا تھا، ظاہری کھیل تھا۔ اس سے زیادہ حیرت انگیز اس کا باطن تھا۔ جیسے سکہ اپنی کھنک سے اور شیشہ اپنے عکس سے اپنے اوصاف کی خبر دیتا ہے، ایسے ہی خان بہادر عنایت خان اپنے کردار اور اپنے مزاج سے کھرا آدمی نظر آتا تھا۔
پانچ برس پہلے جب میں اس عمارت میں داخل ہوا تھا تو ’’خان بہادر اینڈ کمپنی‘‘ کا دفتر اس عمارت کی صرف ایک منزل پر پھیلا ہوا تھا اور یہ ایک منزل بھی کرائے پر حاصل کی گئی تھی۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ خان بہادر عنایت خان 1960 کے عشرے میں شراکت میں کروڑوں کا کاروبار کرتا تھا لیکن جب دوست دغا دے گئے تو اس نے اپنے بہت معمولی سے سرمائے سے اپنا ذاتی کاروبار شروع کیا تھا۔ ابھی کاروبار شروع ہوا ہی تھا کہ میں اپنی ڈگری اور ایک غیر رجسٹرڈ کمرشل انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے شارٹ ہینڈ اور ٹائپنگ کے ایک روایتی سرٹیفکیٹ کے ساتھ پہنچ گیا۔
یہ بات آج تک میرے لئے ایک معمہ ہے کہ میرا انتخاب کیوں ہوا۔ انٹرویو کے لئے خوش پوش اور شکل سے پڑھے لکھے نظر آنے والے نوجوان بھی آئے تھے اور ہوش و خرد پر بجلیاں گرانے والی حسینائیں بھی۔ میری نیلی ٹیٹرون کی پتلون پر گھٹنے کے پاس کسی اناڑی رفوگر کی مہارت کا نشان ثبت تھا اور تیل لگے ہوئے بال جمے ہوئے تھے۔ انٹرویو لینے والوں میں خان بہادر عنایت خان کے علاوہ کمپنی کے دو ڈائریکٹرز بھی تھے جو اپنے عہدے کی اہمیت کا احساس دلانے کی خاطر فرعونیے بیٹھے تھے۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ کمپنی کو ایک ایسے سیکریٹری کی ضرورت ہے جو اپنی شخصیت سے منیجنگ ڈائریکٹر کا سیکریٹری نظر آئے اور دوسرے نے کہا کہ تجربہ بڑی ضروری چیز ہے، خاص طور پر اگر کسی اچھی کمپنی میں کام کرنے کا برسوں کا تجربہ کسی کے پاس ہو تو اسے فوراً اس عہدے کے لئے منتخب کیا جاسکتا ہے۔ خان بہادر عنایت خان کچھ نہ بولا۔ وہ درخواستوں کے ڈھیر پر میری درخواست رکھے مجھے خاموشی سے دیکھتا رہا۔ جب اس کے دائیں بائیں بیٹھے ڈائریکٹرز شخصیت اور تجربے کے بارے میں اپنے احمقانہ نظریات کئی بار دہرا چکے تو میں نے مایوس ہو کر وہی کیا جو مجھے کرنا چاہئے تھا۔
میں نے کہا۔ ’’حضرات۔ میں آپ کو ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں۔ اگر آپ کسی شاندار شخصیت والے آدمی کو ہی سیکریٹری رکھنا چاہتے ہیں تو لاہور چلے جایئے۔ وہاں آپ کو کئی ناکام فلمی اداکار مل جائیں گے جن کی شخصیت کا تاثر بہت اچھا ہوگا۔ اچھی تنخواہ ہوگی تو ان میں سے کئی اپنا فلاپ کیریئر چھوڑ کر آپ کے پاس آنے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔‘‘
’’کیا مطلب ہے اس بات کا مسٹر عرفان۔؟‘‘ دائیں جانب بیٹھے ہوئے فرعون نے تیوری پر بل ڈال کر کہا۔
’’دوسرا مشورہ یہ ہے۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’کہ امریکہ کی کسی فاؤنڈیشن یا کارپوریشن سے رابطہ قائم کیجئے۔ وہاں آپ کو بڑے تجربہ کار سیکریٹری ملیں گے۔ بس یہ ہے کہ انہیں اس ترقی پذیر ملک میں لانے کے لئے سہولتیں زیادہ دینی ہوں گی اور ادائیگی ڈالرز میں کرنی ہوگی۔‘‘
غصے اور حقارت سے ڈائریکٹرز کے چہرے بگڑ گئے تھے مگر خان بہادر عنایت خان کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔
اس وقت میں جذباتی بحران کا شکار تھا لہٰذا میں نے اس مسکراہٹ کو ایک لکھ پتی آدمی کی جانب سے تحقیر کا مظاہرہ جانا اور کہا۔ ’’اگر میں کسی بہت مشہور کمپنی کا بہت تجربہ کار سیکریٹری ہوتا تو آپ مجھے رکھ لیتے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ پھر میں آپ کی ٹٹ پونجیا قسم کی کمپنی میں آتا ہی کیوں۔؟‘‘
’’آپ جا سکتے ہیں مسٹر عرفان۔‘‘ بائیں جانب بیٹھے ہوئے ڈائریکٹر نے غصّے سے پھٹ پڑنے کی خواہش کو دباتے ہوئے کہا۔
’’ظاہر ہے۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’مجھے جانے سے کون روک سکتا ہے۔ لیکن جانے سے پہلے مجھے اپنے جذبات کا اظہار کرنے سے بھی کوئی نہیں روک سکتا۔ اتنی دیر سے آپ لوگ جس تجربے کا ذکر کر رہے تھے، یہ کہاں ملتا ہے۔؟ کس پیڑ پر اگتا ہے۔؟ جب آپ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا تھا، اس وقت یہ کس بھاؤ دستیاب تھا۔؟ آپ لوگ شکل سے پڑھے لکھے نظر آتے ہیں، کیا آپ اتنی سیدھی بات بھی نہیں جانتے کہ ہر شخص تجربے کے بغیر ہی سفر کا آغاز کرتا ہے۔ کسی نوجوان سے تجربہ طلب کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی شیر خوار بچے سے اپنے قدموں پر چل کر دکھانے کی خواہش کا اظہار کیا جائے۔ کہاں سے لاؤں میں تجربہ۔؟ میں آپ کو باہر بیٹھے ہوئے پچاس امیدواروں سے بہتر انگریزی لکھ کر دکھا سکتا ہوں، ذہانت میں ان کا مقابلہ کرسکتا ہوں، شارٹ ہینڈ اور ٹائپنگ میں ان سب کو اپنی رفتار سے شکست دے سکتا ہوں مگر تجربہ۔‘‘ میں نے اٹھنے کی تیاری کرتے ہوئے کہا۔ ’’تجربہ میرے پاس نہیں ہے۔‘‘
جب میں کرسی کھسکا کر کھڑا ہوا اور میں نے اپنی درخواست واپس لینے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو مجھے احساس ہوا کہ خان بہادر عنایت خان کی نظریں مجھ پر ہی جمی ہوئی ہیں اور اس کے ہونٹوں پر وہی دھیمی مسکراہٹ ہے۔
’’میری درخواست واپس کر دیجئے جناب۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’اس کے ساتھ میری ڈگری اور سرٹیفکیٹس کی نقول ہیں۔ کہیں اور ملازمت کی درخواست دوں گا تو وہاں کام آ جائیں گی۔‘‘
خان بہادر عنایت خان نے درخواستوں کے ڈھیر پر اپنا بھاری بھرکم ہاتھ رکھ کر کہا۔ ’’درخواست تو واپس نہیں کی جا سکتی۔‘‘
’’کیوں۔؟‘‘
’’کیونکہ اس کے ساتھ آپ کی تعلیمی استعداد کے ثبوت ہیں، آپ کا نام پتا ہے۔ یہ سب ہمارے ریکارڈ میں رہےگا۔‘‘
خان بہادر عنایت خان کی بات سن کر میں ہی نہیں، اس کے دائیں بائیں بیٹھے ڈائریکٹرز بھی ششدر رہ گئے۔ میں نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا اور بند کر لیا۔ بظاہر اس بات کا ایک ہی مطلب تھا۔ لیکن یہ کیسے ممکن تھا۔؟
خان بہادر عنایت خان نے کہا۔ ’’آپ باہر انتظار کیجئے۔ ہمیں باقی لوگوں کے بھی انٹرویوز کرنے ہیں۔‘‘
کمرے سے باہر آکر بھی میں خیالات کے نرغے میں رہا۔ اپنی باری کا انتظار کرنے والے کئی امیدوار مجھے دیکھ کر مسکرائے، کچھ نے ایک دوسرے کو کہنیاں مار کر سرگوشیاں کیں۔ دوپہر سے شام ہو گئی۔ امیدوار کم ہوتے گئے۔ شام سوا پانچ بجے جب آخری امیدوار بھی چلا گیا تو خان بہادر عنایت خان اپنے ڈائریکٹرز کے ساتھ کمرے سے نکلا۔
’’مسٹر عرفان۔‘‘ اس نے اپنی گرجدار آواز میں کہا۔ ’’آپ کو دس پندرہ منٹ اور انتظار کرنا ہوگا۔ اپنی تقرری کا لیٹر لے کر جایئےگا۔‘‘
شکست خوردرہ ڈائریکٹرز مختلف کمروں کی طرف روانہ ہو گئے اور وہ شیشے کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔
یہ پہلا موقع تھا جب خان بہادر عنایت خان نے مجھے حیران کیا۔ لیکن اس کے بعد ایسے مواقع بار بار آتے رہے۔ شاید یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ حیران کرنے کے اس مقابلے کا ایک فریق میں بھی تھا۔ میں نے بھی اسے کئی مرتبہ اپنی صلاحیتوں سے اور کمپنی کے لئے اپنی وفاداری سے مرعوب کیا۔ کمپنی کچھ عرصہ قبل ہی قائم ہوئی تھی اس لئے یہاں حسد اور رقابت کی وہ فضا موجود نہ تھی جو پرانی کمپنیوں کے برسوں پرانے ملازمین پیدا کرتے ہیں۔ رفتہ رفتہ میری اہمیت بڑھتی گئی۔ مجھے اہم اجلاسوں میں شریک کیا جانے لگا۔ میری رائے کے بارے میں استفسار کیا جانے لگا۔ یہ شاید اس دلچسپی کے سبب تھا جو میں کمپنی کے امور میں لیتا تھا۔ یا شاید اس محنت کے سبب تھا جس کی بدولت میں کاروباری گر سیکھتا جا رہا تھا۔
فیصلہ شاید اس دن ہوا جب کمپنی کے روایتی سالانہ اجلاس کے بعد منعقد ہونے والی بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ میں، میں نے کمپنی کو راہ بدلنے کا مشورہ دیا۔!
میٹنگ میں سات لوگ موجود تھے۔ چار ڈائریکٹرز تھے۔ خان بہادر عنایت خان تھا۔ اس کا بیٹا وجاہت خان تھا اور میں تھا۔ ڈائریکٹرز نے میری تجاویز سننے سے قبل ہی ایسے سوالات کرنے شروع کر دیئے جن کا مقصد محض مضحکہ اڑانا تھا۔ اس شور و غل میں صرف خان بہادر عنایت خان کے بیٹے وجاہت خان نے میرا ساتھ دیا۔ اس نے کہا۔ ’’میرا خیال ہے کہ ہمیں مسٹر عرفان کی پوری بات سن لینی چاہئے۔ بات سنے بغیر تنقید کرنا ذرا غیرجمہوری سی بات لگتی ہے۔‘‘ وہ آکسفورڈ سے تعلیم حاصل کر کے آیا تھا لہٰذا دوسروں کی نسبت زیادہ روشن خیال تھا۔ اس کے کہنے پر ڈائریکٹرز ذرا محتاط اور خاموش ہو گئے کیونکہ وہ خان بہادر عنایت خان کا جانشین تھا اور مستقبل کا منیجنگ ڈائریکٹر تھا۔
میں نے کہا۔ ’’تھینک یو جینٹلمین۔ میں صرف دس منٹ لوں گا۔‘‘
خان بہادر عنایت خان نے کہا۔ ’’اگر بات کام کی ہے تو ہم تمہیں دس گھنٹے بھی دے سکتے ہیں۔‘‘
میں نے ممنونیت کے اظہار کے طور پر سر جھکایا اور کہا۔ ’’میں آپ کو مارکیٹ کی اونچ نیچ سے آگاہ نہیں کرنا چاہتا۔ یہ آپ سب مجھ سے بہتر طور پر جانتے ہیں۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کمپنی کو کسی ایسے شعبے میں قدم ضرور جمانے چاہئیں جو منافع بخش بھی ہو اور قابل اعتبار بھی۔ اس وقت ہم صرف درآمدات پر بھروسہ کر رہے ہیں جو ایک خطرناک بات ہے، جس دن بجٹ میں کوئی ناقابل یقین قسم کی ڈیوٹی لگ گئی اس دن کمپنی بیٹھ جائےگی۔‘‘
چاروں ڈائریکٹرز یوں بیٹھے تھے جیسے انہیں کسی جنونی کی بکواس سننے کے لئے زبردستی باندھ کر بٹھا دیا گیا ہو۔
میں نے کہا۔ ’’میرا خیال ہے کہ کمپنی کو پروڈکشن کے شعبے میں قدم رکھنا چاہئے۔ کاغذی کارروائیوں اور باہر سے مال منگواکر مقامی ایجنٹوں اور ڈیلروں کے حوالے کر دینے اور معمولی منافع پر قناعت کر لینے کے بجائے اپنا مال خود بنانا اور خود بیچنا چاہئے۔‘‘
خان بہادر عنایت خان خاموش بیٹھا مجھے دیکھ رہا تھا۔
اس کے بیٹے وجاہت خان نے کہا۔ ’’یہ بڑی مبہم قسم کی تجویز ہے۔‘‘
میں نے اپنے سامنے رکھی فائل اٹھا کر خان بہادر عنایت خان کے سامنے رکھ دی اور کہا۔ ’’نہیں وجاہت صاحب۔ میں اس سروے اینڈ فزیبلٹی رپورٹ کے ساتھ آیا ہوں۔ میری تجویز یہ ہے کہ کمپنی بچوں کے لئے ریڈی میڈ گارمنٹس کا کاروبار شروع کرے۔!‘‘
اس بار سب نے چونک کر مجھے دیکھا۔ خان بہادر عنایت خان فائل کھول چکا تھا مگر اس کی نظریں مجھ پر ہی جمی ہوئی تھیں۔
میں نے کہا۔ ’’یہ سات کروڑ کا پراجیکٹ ہے۔ اس میں زمین کی قیمت بھی شامل ہے۔ فیکٹری کی تعمیر کے اخراجات بھی۔ مشینیں، سیلز کا شعبہ، پبلسٹی کا بجٹ، کارکنوں کی تنخواہیں، مال لانے اور لے جانے والی گاڑیاں۔ ہر چیز کے بارے میں تفصیل موجود ہے۔ اخراجات جاریہ کا حساب علیحدہ ہے اور منجمد ہو جانے والے سرمائے کا حساب الگ ہے۔ ملبوسات کس بھاؤ تیار ہوں گے، کتنے میں فروخت ہوں گے اور فی ہزار ہمیں کیا منافع ملےگا۔ اس رپورٹ میں سب کچھ موجود ہے۔‘‘
کمرے میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔
کچھ دیر بعد خان بہادر عنایت خان کی آواز گونجی۔ ’’کیا آپ بتا سکتے ہیں مسٹر عرفان کہ آپ نے اسی شعبے کا انتخاب کیوں کیا۔؟‘‘
میں نے کہا۔ ’’میرے ذہن میں ایک اور شعبہ بھی تھا۔ تعمیرات کا شعبہ۔ فلیٹس بناکر فروخت کئے جائیں یا شاپنگ سینٹرز بنائے جائیں۔ لیکن دو باتیں آڑے آ رہی تھیں۔ ایک تو یہ کہ اچھے کارکن، انجینئر، مستری، راج۔ ان دنوں سب خلیجی ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔ اور دوسرے یہ کہ اس میں سرمائے کے بلاک ہونے کے امکانات خاصے ہوتے ہیں۔ شہر کے کئی منصوبے ناکام ہو چکے ہیں۔‘‘
’’اور گارمنٹس۔؟‘‘
’’یہ ایک پھلتا پھولتا کاروبار ہے۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’خاص طور پر بچوں کے ملبوسات کا کاروبار۔ کیونکہ ہمارے ملک کی شرح پیدائش، ڈیمو گرافی کے ماہرین کے مطابق بہت زیادہ ہے۔ مرنے والوں کے مقابلے میں پیدا ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہے اور بظاہر اگلے تیس چالیس سال تک اس میں کمی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔‘‘
اس کے بعد میں کچھ نہ بولا۔ کوئی بھی کچھ نہ بولا۔ سب نے خان بہادر عنایت خان کی نظروں میں توصیف کی چمک دیکھ لی تھی۔ اور اس کے بیٹے وجاہت خان کو مسکراتے دیکھ لیا تھا۔
تین ماہ میں فیکٹری کی نئی عمارت تعمیر ہو گئی۔
چوتھے ماہ مشینیں لگ گئیں۔
اور پانچویں ماہ کارکنوں کے تقرر اور اخبارات میں اشتہاری مہم کے ساتھ ہی پروڈکشن شروع ہو گئی۔
چھٹے ماہ خان بہادر عنایت خان نے مجھے طلب کیا۔
میں کمرے میں داخل ہوا تو میں نے وہاں خان بہادر عنایت خان کے ساتھ اس کے بیٹے وجاہت خان کو بھی اپنا منتظر پایا۔ ’’عرفان صاحب۔‘‘ وجاہت خان کے لہجے میں سنجیدگی تھی۔ ’’تشریف رکھئے۔ بابا آپ سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
میرا دل دھڑکنے لگا۔ وجاہت خان اپنے باپ کو تمام ڈائریکٹرز کی طرح خان صاحب کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے ’خان صاحب‘ کے بجائے ’بابا‘ کہا تھا۔ ان دونوں کے چہروں پر اتنی سنجیدگی تھی کہ میں نے اندیشوں کو ہر جانب سے یلغار کرنے اور خوف کو کسی سائے کی طرح پھیلتے محسوس کیا۔
خان بہادر عنایت خان نے دراز کھول کر ایک فائل نکالی اور میری جانب کھسکا کر کہا۔ ’’مسٹر عرفان۔ یہ وہ سروے اور فزیبلٹی رپورٹ ہے جو آپ نے ملبوسات کے کاروبار کے سلسلے میں تیار کی تھی۔‘‘
میں نے دھڑکتے دل سے کہا۔ ’’جی ہاں۔‘‘
’’آپ کو پتہ ہے مسٹر عرفان، اس رپورٹ کی بنیاد پر ہم نے سات کروڑ روپے کا یہ منصوبہ شروع کیا تھا۔ پورے سات کروڑ کا منصوبہ۔ لیکن آپ کی یہ رپورٹ اور اس میں پیش کئے جانے والے نتائج غلط ثابت ہو رہے ہیں۔‘‘
مجھے یوں لگا جیسے میرے قدموں تلے سے زمین نکل گئی ہو۔ میں نے بمشکل کہا۔ ’’مگر۔۔۔ مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے۔؟‘‘
وجاہت خان نے کہا۔ ’’یہ ہو چکا ہے۔ آپ نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ فیکٹری میں تیار ہونے والے مال کی کھپت اسی ملک میں ہو جائےگی اور بارہ شہروں سے ہماری سیلز ٹیموں کے ذریعے کم از کم پچاس ہزار ملبوسات کے آرڈرز ہر ماہ مل جائیں گے۔‘‘
میں نے یوں سر ہلایا جیسے تھانے میں تفتیش کے دوران کوئی مجرم اقرار کرتا ہے۔
خان بہادر عنایت خان نے کہا۔ ’’ہمیں پچاس ہزار ملبوسات کے آرڈرز نہیں ملے ہیں۔!‘‘
پھر ایک عجیب بات ہوئی۔
وجاہت خان مسکرایا اور اس کے ساتھ ہی خان بہادر عنایت خان کے چہرے پر بھی وہ نرم دھیمی مسکراہٹ پھیلنے لگی۔
وجاہت خان نے کہا۔ ’’آپ کی رپورٹ یوں غلط ثابت ہو رہی ہے کہ عرفان صاحب کہ ہمیں پہلے ماہ اسّی ہزار ملبوسات کے آرڈرز ملے ہیں۔!!‘‘
اس سے پہلے کہ میرے حواس بحال ہوتے، خان بہادر عنایت خان میز کے گرد گھوم کر آیا اور مجھے ایک جھٹکے سے اٹھا کر گلے سے لگا لیا۔ ’’میں تمہیں مبارکباد دیتا ہوں۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’یہ میری نہیں، تمہاری کامیابی ہے۔‘‘
اس کے بیٹے وجاہت خان نے مجھ سے ہاتھ ملایا اور کہا۔ ’’میری طرف سے بھی مبارکباد۔ بابا دراصل سرپرائز دینا چاہتے تھے۔‘‘
بےیقینی، حیرت اور مسرت کے عالم میں، میں نے ان اعداد و شمار کو دیکھا جو ’’خان بہادر گارمنٹس‘‘ کی کامیابی کی خبر دے رہے تھے۔ یہ بارہ شہروں کے آرڈرز تھے جبکہ ابھی برانڈ کی بھرپور اخباری پبلسٹی کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا۔
خان بہادر عنایت خان نے کہا۔ ’’عرفان۔ بعض اوقات تقدیر عجیب و غریب فیصلہ کراتی ہے۔ کل جس وقت مجھے یہ خبر ملی کہ آرڈرز اتنے زیادہ ہیں تو مجھے سب سے پہلے تم یاد آئے۔ اور وہ دن یاد آیا جب میں نے تمہیں اپنا سیکریٹری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ یہ فیصلہ کمپنی کے لئے ایک نئی راہ کھول دےگا۔؟ تمہاری قوت فیصلہ اور تمہاری کاروباری سوجھ بوجھ پر مجھے اتنا ہی اعتماد ہے جتنا اپنے اوپر ہے۔ یا وجاہت پر ہے۔‘‘
’’شکریہ خان صاحب۔‘‘ میں نے کہا۔
’’صرف شکریہ سے کام نہیں چلےگا۔‘‘ خان بہادر عنایت خان نے کہا۔ ’’تمہیں خود کو اس اعتماد کا اہل ثابت کرنا ہوگا۔ کل بورڈ کی میٹنگ میں تمہاری ترقی کا اعلان کیا جائےگا۔ تم بدستور میرے سیکریٹری رہوگے لیکن تمہارا عہدہ ڈائریکٹرز کے مساوی ہوگا۔ تم میں اور دوسرے ڈائریکٹرز میں فرق یہ ہوگا کہ تم ملبوسات کے اس منصوبے کے نگراں بھی ہوں گے۔ وجاہت اور تم مل کر اس نئے کاروبار کو فروغ دینے کی حکمت عملی بناؤ گے۔‘‘
وہ نہ جانے کیا کیا کہتا رہا۔ تنخواہ کے بارے میں اور سہولتوں کے بارے میں اور کمپنی کی نئی پالیسی بنانے کے بارے میں۔ مگر میں کچھ سننے یا سمجھنے کے قابل نہیں تھا۔ عملی زندگی کا آغاز کرتے ہی اتنی بڑی کامیابی اتنی جلدی نصب ہوگی، یہ میں نے سوچا بھی نہ تھا۔ خان بہادر عنایت خان ٹھیک ہی کہہ رہا تھا۔ تقدیر بعض اوقات عجیب و غریب فیصلے کرتی ہے۔
چھ ماہ بعد ہماری چھوٹی سی دنیا میں زیبی داخل ہوئی۔
اس وقت تک میں کمپنی کا طاقتور ترین ڈائریکٹر بن چکا تھا۔ بیشتر فیصلے مجھ پر چھوڑ دیئے جاتے تھے۔ باقی چار ڈائریکٹرز عضو معطل بن کر رہ گئے تھے۔ جب کمپنی کا مالک ہی نہیں، مالک کا بیٹا بھی آپ کے ساتھ ہو تو آپ کو ایسے اختیارات کے حصول سے کون روک سکتا ہے۔ خان بہادر عنایت خان مجھ پر اتنا ہی بھروسہ کرتا تھا جتنا اپنے بیٹے وجاہت پر۔ لیکن یہ اعتماد بے سبب نہیں تھا۔ میں اس آزمائش پر پورا اترنے کی خاطر شب و روز محنت کرتا تھا۔ عہدہ یا اختیار یا تنخواہ کی خاطر نہیں، خان بہادر عنایت خان کی خاطر، جس نے ایک ذرے کو آفتاب بنادیا تھا۔
اسٹینو گرافر کے عہدے کے لئے جو درجنوں امیدوار آئے تھے ان میں زیبی بھی تھی۔ لیکن اس وقت وہ زیب النسا تھی۔ میں نے اسے پہلی بار اس وقت دیکھا جب خان بہادر عنایت خان نے انٹرکام پر مجھ سے کہا۔ ’’عرفان۔ میں انٹرویو لے لے کر عاجز آ چکا ہوں۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ باقی امیدواروں کو کل دوپہر بلا لیا جائے۔؟‘‘
میں نے اپنے کمرے سے باہر جھانک کر دیکھا اور کہا۔ ’’خان صاحب۔ صرف ایک امیدوار باقی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اسے فارغ کرنے میں آپ ڈھائی منٹ سے زیادہ نہیں لیں گے۔‘‘
’’بھیج دو یار۔‘‘ خان بہادر عنایت خان کے لہجے میں تھکن تھی۔
جب گزرے ہوئے فیشن کے کپڑوں میں ملبوس زیب النسا سر جھکائے کمرے میں داخل ہوئی تو میرا خیال تھا کہ وہ ڈھائی نہیں تو تین منٹ میں اسی طرح سر جھکائے ضرور باہر آجائے گی۔
لیکن پانچ منٹ گزر گئے۔ دس منٹ گزر گئے۔
پندرہ منٹ ہوئے تو مجھے تشویش ہونے لگی۔
تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر جب میں ایک فائل اٹھا کر خان بہادر عنایت خان کے کمرے میں بلا مقصد گھسا تو زیب النسا کرسی کھسکا کر کھڑی ہو رہی تھی۔
خان بہادر عنایت خان نے مجھے دیکھ کر کہا۔ ’’لیجئے مس زیب النسا، عرفان صاحب خود ہی آ گئے ہیں۔‘‘ پھر اس نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’عرفان صاحب۔ یہ زیب النسا ہیں۔ ان کے لئے تقرری کا لیٹر بنا دیجئے۔ گریڈ تین کا۔‘‘
میں نے آنکھیں پھاڑ کر اس لڑکی کو دیکھا۔ گریڈ تین کا مطلب تھا سینئر گریڈ جو عام طور پر اسٹینو گرافر کو دس بارہ سال کی محنت کے بعد ملتا تھا۔ مگر یہ خان بہادر عنایت خان کا حکم تھا اور اس کا حکم ٹالنا میرے لئے گناہ کے مترادف تھا۔ میں اسے اپنے کمرے میں لے گیا اور لیٹر ٹائپ کرانے کے دوران خود بھی ایک مختصر سا انٹرویو لیا۔ بظاہر غیر اہم نظر آنے والی یہ لڑکی خاصی سمجھدار اور ذہین تھی۔ اس میں ایک ہی خامی تھی۔ وہ لباس کے معاملے میں پسماندہ نظر آتی تھی۔ میں نے باتوں باتوں میں اس سے کہا کہ ملبوسات تیار کرنے والی اتنی بڑی کمپنی کے عملے کو خوش لباس ہونا چاہئے۔ اس نے میری بات سے اتفاق نہیں کیا لیکن ساتھ ہی ڈرتے ڈرتے یہ بھی پوچھا کہ کیا چائے بنانے والی کمپنی کے عملے کے پاس نفیس ٹی سیٹ ہونے ضروری ہیں اور کیا مشروبات بنانے والی فیکٹری میں ہر شخص ہاتھ میں بوتل اٹھائے پھرتا ہے۔ مجھے سخت تاؤ آیا۔ اگر خان بہادر عنایت خان کا حکم درمیان میں نہ ہوتا تو شاید وہ اپنی بدتہذیبی کی سزا پاتی اور ناکام و نامراد گھر جاتی۔ لیکن میں اپنے غصے کو پی گیا اور اسے لیٹر دے کر، کمپنی کے قواعد و ضوابط بتاکر اور اوقات کار سمجھا کر رخصت کر دیا۔
اگلے دو ماہ میرے لئے سخت محنت اور سخت حیرت کے مہینے تھے۔ ملبوسات کا کاروبار یوں پھیلتا جا رہا تھا جیسے کسی چھوٹی سی بوتل سے بہت بڑا جن نکلتا آ رہا ہو۔ اس جن پر قابو پانا اور اسے تابع رکھنا بہت مشکل کام تھا لیکن میں نے اور وجاہت خان نے اسے اپنا مطیع بنانے کا عزم کر رکھا تھا۔ چھپر پھاڑ کر دینے والا محاورہ ہماری نظروں کے سامنے درست ثابت ہو رہا تھا۔ مگر اس بہت بڑی بساط پر کھیلی جانے والی اس بہت بڑی بازی کی ہر چال پر نظر رکھنا ضروری تھا۔ محنت ضروری تھی اور دیوانہ وار جدوجہد ضروری تھی اور ہر دم مستعد رہنا بھی ضروری تھا۔
لیکن محنت کے ساتھ ساتھ ہی مجھے اپنی حیرت پر بھی قابو پانا پڑ رہا تھا۔ اس حیرت کا سبب زیب النسا تھی۔ زیب النسا جو اب زیبی ہو چکی تھی۔ تبدیلی اس کے نام میں ہی نہیں، اس کی شخصیت میں بھی آئی تھی۔ یہ وہ گنوار نظر آنے والی یا بے ہنگم لباس پہننے والی زیب النسا نہیں تھی۔ یہ زیبی تھی۔ لباس کی تراش سے ادا کی سادگی تک، چال کے رقص سے لہجے کی معصومیت تک، سرتاپا قیامت۔ دفتر میں بہت سی لڑکیاں کام کرتی تھیں۔ فیکٹری کا تو زیادہ تر عملہ خواتین پر مشتمل تھا۔ مگر ان سب میں زیبی سب سے جدا، سب سے بلند نظر آتی تھی۔
یہ بڑی عجیب بات تھی کہ زیبی میں حسین لڑکیوں کی روایتی صفات موجود نہ تھیں۔ وہ مغرور نہیں تھی۔ سرد مہر نہیں تھی۔ اسے اپنے حسن کے گرد مجمع جمع کرنے کی خواہش نہیں تھی اور سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ بے وقوف نہیں تھی۔ خان بہادر عنایت خان نے اسے اس کی ذہانت کی بنیاد پر منتخب کیا تھا۔
رفتہ رفتہ ہم زیبی کی ذہانت کے عادی ہو گئے۔ ہم اسے جوابات ڈکٹیٹ نہیں کراتے تھے۔ صرف مدعا بیان کر دیتے تھے اور وہ خود خط کا مسودہ تیار کر لیتی تھی۔ اسے انگریزی پر خاص عبور تھا اس لئے وہ خطوط کے ذریعے کمپنی کی خفگی یا مایوسی یا تحسین کو مکتوب الیہ تک بخوبی پہنچا دیتی تھی۔ اس کی کامیابی میرے لئے حیرت کا باعث تھی۔ اس لئے نہیں کہ کمپنی میں پہلی بار کوئی لڑکی اپنی صلاحیتوں کے ذریعے آگے آ رہی تھی۔ بلکہ اس لئے کہ یہ مجھے اپنی ہی داستان کا دوسرا حصہ لگ رہا تھا۔ بالکل اسی طرح میں بھی یہاں آیا تھا اور بالکل اسی طرح میں بھی کامیاب ہوا تھا۔
جس روز زیبی کمپنی کے ڈائریکٹرز کے اجلاس میں پہلی بار شریک ہوئی اس روز مجھے یقین ہو گیا کہ وہ میرے ہی نقش قدم پر چل رہی ہے۔ اس کا انداز وہی تھا، لہجہ وہی تھا، تیور وہی تھے۔
پورے اجلاس میں وہ خاموش بیٹھی رہی اور اپنے سامنے رکھے پیڈ پر نوٹس لیتی رہی۔ جب خان بہادر عنایت خان نے ملبوسات کی کوالٹی کے بارے میں اس کی رائے جاننا چاہی تو اس نے کہا۔ ’’میرے خیال میں ملبوسات کی ڈیزائننگ بہت اچھی نہیں ہے۔!!‘‘
کمرے میں سناٹا چھا گیا۔ بالکل اسی طرح جیسے ڈیڑھ دو سال قبل ملبوسات کے شعبے میں قدم رکھنے کی میری تجویز پر چھا گیا تھا۔ خان بہادر عنایت خان اسی طرح خاموش بیٹھا زیبی کو دیکھتا رہا۔
اور بالکل اسی طرح اس کے بیٹے وجاہت خان نے کہا۔ ’’آپ کا اعتراض بہت مبہم ہے۔‘‘
’’نہیں وجاہت صاحب۔‘‘ زیبی نے کہا۔ ’’میرا اعتراض بالکل واضح ہے۔ ہماری کمپنی بچوں کے ملبوسات تیار کر رہی ہے لیکن ملبوسات کے ڈیزائن تیار کرتے وقت ہم نے بچوں کی نفسیات کو پیش نظر نہیں رکھا ہے۔‘‘
میں نے کہا۔ ’’یہ آپ کیسے کہہ سکتی ہیں۔ ہم نے چالیس ڈیزائن متعارف کرائے ہیں۔ چھ رنگ استعمال کئے ہیں اور ہر ڈیزائن کے ملبوسات چار مختلف سائزوں میں دستیاب ہیں۔‘‘
’’آپ کی بات بھی درست ہے عرفان صاحب۔‘‘ زیبی نے کہا۔ ’’ہمارے ملبوسات میں بلاشبہ بہت اچھے رنگ استعمال ہوتے ہیں۔ شوخ رنگ، سرخ، نیلے، پیلے، سبز، جامنی، سفید۔ مگر بچے صرف رنگ ہی نہیں مانگتے ہیں۔‘‘ اس نے بولتے بولتے رک کر میری طرف دیکھا۔ یوں جیسے وہ یہ نکتہ صرف مجھے سمجھانا چاہ رہی ہے۔‘‘ بچے دلچسپ چیزیں مانگتے ہیں۔ کارٹون مانگتے ہیں۔ والٹ ڈزنی جیسے کارٹون۔ یا پوپائے دی سیلر قسم کے اور جانور مانگتے ہیں۔ بطخیں، بھالو، شیر، ہاتھی اور بندر۔ کھلونوں کی تصویریں مانگتے ہیں۔ ٹرین یا طیارے یا کار۔ ہمیں یہ سب کچھ ملبوسات پر چھاپنا چاہئے تاکہ بچے انہیں دیکھ کر مچل جائیں۔‘‘
سب دم بخود بیٹھے تھے۔ زیبی نے جیسے ہم سب کی نگاہوں کے سامنے سے پردہ اٹھا دیا تھا۔
پھر زیبی نے ایک فائل خان بہادر عنایت خان کے سامنے رکھ دی۔ ’’اس فائل میں بیس پچیس ڈیزائن موجود ہیں۔ یہ فیصلہ کرنا آپ لوگوں کا کام ہے کہ انہیں کپڑے پر چھاپا جائے یا سیا جائے یا اسٹیکر بنا کر چپکا دیا جائے۔‘‘
سب نے وہ ڈیزائن دیکھے۔ غیر ملکی رسالوں اور بچوں کی کتابوں سے لئے جانے والے یہ کارٹون اور ڈیزائن بلا شبہ خوبصورت تھے۔ نظروں کو اپنی جانب راغب کرتے تھے۔
میں نے کہا۔ ’’میرے خیال میں یہ نہایت عمدہ تجویز ہے۔ اس پر اعتراض برائے اعتراض تو کیا جا سکتا ہے لیکن اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ یہ میری رائے تھی جو حرف آخر ہوتی تھی۔ خان بہادر عنایت خان اور وجاہت خان نے تجویز قبول کر کے اجلاس ختم کر دیا۔
اگلے روز وہ میرے کمرے میں آئی تو میں نے پوری ایمانداری سے اس کی تعریف کی۔ وہ یقیناً اس تعریف کی مستحق تھی۔ میں نے کہا۔ ’’حسین خواتین اور ہینڈسم مرد عموماً انتہائی بےوقوف ہوتے ہیں۔ تم نے اس مفروضے کو غلط ثابت کر دکھایا ہے۔‘‘
وہ مسکرائی تو اس کے گالوں میں ایک ننھا سا گڑھا نمودار ہوا۔ ’’شکریہ۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’مگر اس مفروضے کو تو خود آپ بھی غلط ثابت کر چکے ہیں۔ آپ بھی تو خاصے ذہین ہیں۔!‘‘
مجھے یوں لگا جیسے میرے قریب کوئی دھماکا ہوا ہو۔!
وہ بولی۔ ’’میں آپ کا شکریہ ادا کرنے آئی تھی۔ کل کے اجلاس میں اگر آپ میری تجویز کو ویٹو کر دیتے تو اسے مسترد ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا تھا۔‘‘وہ دیر تک بچوں کے ملبوسات کے بارے میں باتیں کرتی رہی۔ ان کو پرکشش بنانے کے بارے میں، ان میں متضاد رنگ استعمال کرنے اور انہیں نفیس پیکنگ میں پیش کرنے کے بارے میں۔
وہ چلی گئی تب بھی میں بیٹھا اس کی کرسی کو گھورتا رہا۔ اس کی آواز اب تک میرے کانوں میں گونج رہی تھی۔ کیا کہا تھا اس نے۔؟ اس مفروضے کو تو خود آپ بھی غلط ثابت کر چکے ہیں۔ آپ بھی تو خاصے ذہین ہیں۔! سیدھی صاف بات تھی۔ آپ بھی تو ہینڈ سم ہیں، پرکشش ہیں، شاندار ہیں۔ یہ بات میں نے کئی بار سنی تھی۔ ہر بار لفظ مختلف تھے۔ پیرایہ جدا تھا۔ کہنے کا انداز علیحدہ تھا۔ بات بہر طور یہی تھی۔ لیکن اس بات نے کبھی مجھ پر اثر نہ کیا تھا۔ اثر شاید بات میں نہیں ہوتا۔ بات کے ہمراہ نظر آنے والی ادا میں ہوتا ہے اور ہنسی کے ساتھ گالوں میں نمودار ہونے والے گڑھے میں ہوتا ہے اور آنکھوں سے جھلکنے والے جذبات میں ہوتا ہے۔
شام پانچ بجے وجاہت خان نے کمرے کا دروازہ کھول کر کہا۔ ’’کیوں اداس بیٹھے ہو بھائی عرفان۔؟ کیا کسی پرانی محبوبہ کا خط آ گیا ہے۔؟‘‘
’’پرانی محبوبہ کا نہیں، نئی محبوبہ کا خط آیا ہے۔‘‘ میں نے اٹھتے ہوئے کہا۔ ’’اور میں اداس اس لئے ہوں کیونکہ اس نے خط میں جلد شادی کر لینے کی فرمائش کی ہے۔‘‘
’’میرا بھی یہی کیس ہے۔‘‘ وجاہت خان نے کہا۔ ’’چل عندلیب، مل کے کریں آہ و وزاریاں۔‘‘
ہم ایک ساتھ کمرے سے باہر نکل گئے۔
تین ماہ بعد وجاہت خان نے مجھ سے وہی بات کہی جو میں بہت پہلے سوچ چکا تھا۔ ’’یار، یہ جو لڑکی ہے۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’آنسہ زیب النسا عرف زیبی۔ یہ بالکل تمہاری طرح نہیں ہے۔؟‘‘
’’کیا مطلب۔؟‘‘ میں نے غصے سے کہا۔
’’میرا مطلب وہ نہیں ہے جو تم سمجھ رہے ہو۔‘‘ وہ ہنسا۔ ’’دیکھو نا، وہ بالکل تمہاری طرح کمپنی میں آئی، کسی سفارش کے بغیر بھرتی ہوئی اور اب تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس کی ذہانت زبردست ہے، قوت فیصلہ عمدہ ہے۔ ایک راز کی بات بتاؤں، بابا بھی اس لڑکی سے سخت متاثر لگتے ہیں۔ بالکل اسی طرح، جیسے وہ تم سے متاثر ہیں۔‘‘
’’پھر۔؟‘‘
’’پھر یہ کہ مجھے لگتا ہے وہ دو چار سال میں میری اور تمہاری جگہ سنبھال لےگی۔ اس کے بعد بابا ہم دونوں کو لات مار کر باہر کر دیں گے اور یوں ہماری عیش و عشرت کی اس زندگی کا ڈراپ سین ہو جائےگا۔‘‘
’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔‘‘ میں ہنسا۔ ’’اگر زیبی کی جگہ کوئی مرد ہوتا تو میں اس کا ایسی جگہ ٹرانسفر کر دیتا کہ وہ ترقی کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ مگر زیبی کو صلاحیتوں کی بنیاد پر آگے بڑھنے سے روکنے کو دل نہیں چاہتا۔‘‘
’’اچھا۔!‘‘ وہ معنی خیز انداز میں مسکرایا۔ ’’تمہارا دل بھی نہیں چاہتا۔؟ عجیب اتفاق ہے۔!‘‘
وجاہت خان نے یہ بات شاید مذاق میں کہی تھی۔ مگر اس کے لہجے میں کوئی ایسی بات تھی جو کھٹکتی تھی۔ شاید یہ صرف مذاق نہیں تھا اور اسی روز بہت دیر تک سوچ بچار کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اب وقت ضائع نہیں کیا جا سکتا۔ زیبی میں بےشمار خوبیاں تھیں اور ایسی لڑکیاں روز روز نہیں ملتیں۔ میرے پاس وہ سب کچھ تھا جو آسودگی کی اور بہتر مستقبل کی ضمانت کہلاتا ہے۔ اس ادارے میں میرا مقابلہ صرف وجاہت خان کر سکتا تھا لیکن مقابلہ یقیناً سخت رہتا۔ ہمارا عہدہ ایک تھا، تنخواہ ایک تھی، وہ اپنے باپ کی طرح سرخ و سفید تھا مگر قد میں اور جسامت میں مجھ سے پیچھے تھا۔ اس کے پاس خان بہادر عنایت خان کی جانشینی تھی تو میرے پاس وہ ذہانت تھی جس کے بل پر کمپنی چل رہی تھی۔
اگلے روز میں نے زیبی کو ایک جوابی خط کا متن سمجھانے کے بعد پوچھا۔ ’’یہ تم پرفیوم کون سا استعمال کرتی ہو۔؟‘‘
وہ حیرت سے بولی۔ ’’پرفیوم۔؟ میں تو کوئی پرفیوم استعمال نہیں کرتی۔‘‘
چند لمحوں کے لئے وہ میری آنکھوں میں نمودار ہونے والی حیرانی کو دیکھتی رہی، پھر شرم سے سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ تیزی سے باہر نکل گئی۔
یوں میں نے زیبی کے حصول کی جنگ کا آغاز کیا۔ وہ اتنی حسین تھی کہ تاخیر کرنا زندگی کی سب سے بھیانک غلطی ثابت ہو سکتا تھا۔ میں اسے جیتنا چاہتا تھا لیکن میں یہ بھی جانتا تھا کہ اسے حاصل کرنے کے لئے مجھے زبردست نفسیاتی جنگ لڑنی پڑےگی۔ وہ دو محبت بھرے جملوں سے پگھل جانے والی عام لڑکی نہیں تھی۔ اس کا ہتھیار اس کا ذہن تھا اور اس پر اثر کرنے کے لئے نئے حربوں کی ضرورت تھی۔ میرا اثاثہ میری ذہانت تھی اور میں لڑکیوں کی نفسیات بخوبی جانتا تھا۔ لڑکیاں قلعوں کی طرح ہوتی ہیں۔ قسم قسم کے قلعوں کی طرح۔ اونچی فصیلوں والے۔ مضبوط دروازوں والے۔ سرخ پتھروں والے اور کچی مٹی والے۔ ہر قلعے کی تسخیر کا نسخہ جدا ہے۔ کہیں دروازہ کھلا رہتا ہے اور لشکر کشی کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ کہیں چار جانب سے محاصرہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ کہیں دیوار ایسی کچی نکل آتی ہے کہ نقب لگانا بڑا آسان کام ثابت ہوتا ہے اور کہیں شب خون مارنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ بعض قلعے ایسے ہوتے ہیں جو ایک صدا سنتے ہی ہر در وا کر دیتے ہیں اور بعض ایسے کہ کسی طالع آزما کو کمند پھینک کر انہیں تسخیر کرنا پڑتا ہے۔ سب قلعے اور سب لڑکیاں بہت مضبوط نظر آتی ہیں مگر دیوار کہیں نہ کہیں سے کمزور ہوتی ہے، کوئی نہ کوئی جگہ ایسی ضرور ہوتی ہے جہاں نقب لگانا ممکن ہوتا ہے۔
اگلے روز میں نے اسے اپنے کیریئر کے آغاز کی داستان سنائی۔ کلیہ یہ ہے کہ لڑکیاں خوبصورت گفتگو سے، چست جملوں سے اور نیم مزاحیہ فقروں سے بہت جلد اور بہت زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ میری کہانی سن کر زیبی کا ہنستے ہنستے برا حال ہو گیا۔
’’خدایا۔‘‘ اس نے ہنسی پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ ’’عرفان صاحب، اس بدتہذیبی کے باوجود آپ کو رکھ لیا گیا۔؟‘‘
’’بالکل رکھ لیا گیا۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’بعض اوقات انسان کی ذہانت اس کی بدتہذیبی کو آؤٹ کلاس کردیتی ہے۔ تمہیں یاد ہے جب تم یہاں آئی تھیں تو میں نے تم سے خوش لباسی کے بارے میں کچھ کہا تھا۔ جواب میں تم نے بھی خاصی بدتمیزی کا مظاہرہ کیا تھا۔‘‘
’’وہ بد تمیزی تو خیر نہیں تھی۔‘‘ وہ پھر ہنسی۔
’’بدتمیزی اگر شائستگی کے پیرہن میں ہو تب بھی بدتمیزی ہی رہتی ہے۔ تمہاری بدتہذیبی کو درگزر کرنے کی دو وجوہات تھیں۔ پہلی یہ کہ تمہارا انتخاب خان بہادر عنایت خان نے کیا تھا۔‘‘
’’اور دوسری۔؟‘‘
’’دوسری یہ کہ تم میں مجھے اپنی جھلک نظر آئی تھی۔ تمہیں شاید احساس نہ ہو لیکن میں جانتا ہوں اور وجاہت جانتا ہے کہ تم میرا نقشِ ثانی ہو۔ تم بالکل میری طرح یہاں آئی ہو، بالکل میری طرح آگے بڑھ رہی ہو۔ تمہیں حیرت ہوگی کہ خان بہادر عنایت خان صاحب کا بھی یہی خیال ہے۔‘‘
وہ حیران بیٹھی مجھے دیکھتی رہی۔
میں نے سوچ سمجھ کر، پورے اعتماد سے کہا۔ ’’شاید اسی لئے میں تمہیں پسند کرتا ہوں۔!‘‘
یہ بالکل سیدھی سادی بات تھی۔ عام سی بات جس میں کوئی عامیانہ پن نہ تھا۔ آدمی دفتر میں کئی لوگو ں کو پسند کرتا ہے، کئی لوگوں کو ناپسند کرتا ہے۔ یہ محبت کا فلمی اقرار نہ تھا۔ عشق کا گھٹیا اظہار نہ تھا۔ اس کے باوجود پردے کے پیچھے بےشمار معنی قطار در قطار بیٹھے تھے۔ میں نے اس کے چہرے پر حیا کا رنگ آتے دیکھا۔ یوں جیسے بادل دھیرے دھیرے چھانے لگیں۔
مگر وہ ایک ذہین لڑکی تھی۔ اس نے کہا۔ ’’آپ نے یہ نہیں بتایا عرفان صاحب، کہ پنڈی والوں کے ٹیلیکس کا کیا جواب دینا ہے۔ کوئی پارٹی ہم سے مال خرید کر ایکسپورٹ کرنا چاہتی ہے۔‘‘
میں اسے دیکھتا رہا۔ پھر میں نے کہا۔ ’’ان سے کہہ دو کہ جنوری سے پہلے ہم اپنے ملبوسات باہر بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے اور جنوری کے بعد بھی اگر مال ایکسپورٹ کرنا ہوگا تو یہ نیک کام ہم خود کریں گے۔‘‘
وہ مسکرائی اور رخصت ہوگئی۔
اس کے جانے کے بعد میں نے اطمینان کا سانس لیا اور اپنی حکمت عملی پر پھر غور کرنا شروع کیا۔ اب تک سب کچھ ٹھیک ٹھاک جا رہا تھا۔ ابھی میں سوچ بچار میں مصروف تھا کہ دروازہ دھڑ سے کھلا اور وجاہت خان اندر داخل ہوا۔
’’یہ کیا کہا ہے تم نے زیبی سے۔؟‘‘ اس نے پوچھا۔
میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وجاہت کا ردعمل اتنی جلدی سامنے آئےگا۔ کچھ سوچے سمجھے بغیر میں نے کہا۔ ’’ٹھیک ہی تو کہا ہے۔‘‘
وہ کرسی گھسیٹ کر میرے سامنے بیٹھ گیا۔ ’’بھائی عرفان، فالتو مال اگر کسی کے ذریعے ایکسپورٹ کردیا جائے تو اس میں کیا نقصان ہے۔؟‘‘
مجھے یوں لگا جیسے سینے سے کوئی بھاری بوجھ ہٹ گیا ہو۔ وہ زیبی کی نہیں، دفتری معاملات کی بات کرنے آیا تھا۔ میں نے کہا۔ ’’ہمیں اندھا دھند فیصلہ نہیں کرنا چاہئے۔ ملبوسات کی بہت بڑی مارکیٹ ہماری منتظر ہے۔ ہمیں کسی ایجنٹ یا دلال کے سہارے آگے بڑھنے کے بجائے خود سارا کام سنبھالنا چاہئے۔ میرا خیال ہے کہ جنوری تک ہم نئی مشینیں خرید لیں گے۔ اس کے بعد خود آرڈرز لے کر آئیں گے۔‘‘
مگر وجاہت مجھ سے متفق نہ تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ہمارے درمیان کسی بات پر اختلاف ہوا تھا۔ دو دن تک ہم صبح و شام ایک دوسرے کو قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے، بحث کرتے رہے، دلائل کی جنگ لڑتے رہے۔
تیسرے دن معاملہ خان بہادر عنایت خان کی عدالت میں پیش ہوا ور فیصلہ میرے حق میں ہو گیا۔
خان بہادر عنایت خان نے کہا۔ ’’عرفان ٹھیک کہہ رہا ہے۔ ایکسپورٹ شوق سے کرو۔ مگر خود کرو۔ بیساکھیاں صرف معذور استعمال کرتے ہیں۔‘‘
وجاہت خان کا چہرہ خفت سے سرخ ہو گیا۔ شاید اسے توقع نہیں تھی کہ اس کے موقف کو یوں کھڑے کھڑے مسترد کر دیا جائےگا۔ وہ اٹھا اور تیزی سے باہر نکل گیا۔
میں بھی جانے کے لئے اٹھا تو خان بہادر عنایت خان نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے بٹھا لیا۔
’’میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں عرفان۔‘‘
میں نے کہا۔ ’’جی، فرمایئے۔‘‘
خان بہادر عنایت خان نے کہا۔ ’’بات اس کمپنی کے بارے میں ہے اور میرے بارے میں ہے۔ میں نے کچھ فیصلے کئے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ پہلے ساری بات تمہیں بتا دی جائے تاکہ تم بالکل صاف، کھری رائے دے سکو۔ تم جانتے ہو کہ مجھے تمہاری رائے کا ہمیشہ خیال رہا ہے۔ ‘‘
میں خاموش بیٹھا رہا۔
خان بہادر عنایت خان نے کہا۔ ’’اس سال کے آخر میں، میں ریٹائر ہونا چاہتا ہوں۔! میری عمر پینسٹھ سال ہو چکی ہے اور میں اب اس عمر میں کمپنی کے معاملات کا ذہنی دباؤ زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکتا ہوں۔ دسمبر میں، میں کمپنی چھوڑ کر اپنے گاؤں چلا جاؤں گا جہاں ہماری آبائی حویلی موجود ہے۔ وہ حویلی مجھے بار بار بلاتی ہے۔ میں وجاہت کی وجہ سے اس کی پکار کو ہمیشہ نظر انداز کرتا رہا لیکن اب تم آ گئے ہو۔ مجھے یقین ہے کہ تم کمپنی کا اور وجاہت کا پورا پورا خیال رکھ سکتے ہو۔ وجاہت میرا اکلوتا بیٹا ہے اور تم اس کے اکلوتے دوست ہو۔ یہ کمپنی تمہاری ہے، بزنس تمہارا ہے۔ لیکن اب تمہیں ایک بات یاد رکھنی ہے اور وہ یہ کہ وجاہت بھی تمہارا ہے۔‘‘ وہ بولتے بولتے ایک لمحے کے لئے رکا۔ پھر اس نے کہا۔ ’’میرے وکیل نے تمام دستاویزات تیار کر لی ہیں۔ کمپنی کا آدھا مالک اب وجاہت ہے اور آدھے مالک تم ہو۔!!‘‘
’’خان صاحب۔‘‘ میں نے بمشکل کہا۔ ’’یہ۔۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔؟‘‘
اس نے میری حیرت کو نظرانداز کرکے کہا۔ ’’لیکن تم اس وقت تک کمپنی کے پچاس فیصد کے مالک رہو گے، جب تک وجاہت تمہارے ساتھ رہےگا۔ جس دن تم دونوں علیحدہ ہوئے، اس دن تم۔۔۔کمپنی کے آدھے مالک نہیں رہوگے۔ سمجھ رہے ہونا میری بات۔؟ تم اسے میری خود غرضی کہہ لو یا کوئی اور نام دے لو۔ لیکن میری پیشکش یہی رہےگی۔ جب تک تم وجاہت کے ساتھ ہو، تم کمپنی کے مالک ہو۔ لیکن جس دن یہ شراکت ٹوٹی اس دن۔۔۔‘‘
’’وہ دن نہیں آئےگا خان صاحب۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’یہ ایک ایسے شخص کا وعدہ ہے جو آپ کے احسانوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔‘‘
وہاں سے نکل کر میں سیدھا ایئرپورٹ پہنچا۔ اپنے ایک دوست کو، جو سعودی عرب جارہا تھا، الوداع کہنے کے بعد میں واپس پہنچا تو کمپنی کے احاطے سے ایک ایمبولینس سائرن بجاتی نکل رہی تھی۔ طوفان کی رفتار سے دوڑتی ایمبولینس کے شیشے میں، میں نے پل بھر کے لئے وجاہت کا چہرہ دیکھا۔ پھر ایمبولینس زن سے آگے نکل گئی۔
میں بھاگتا ہوا اندر پہنچا تو دروازے میں زیبی سے ٹکراتے ٹکراتے بچا۔
’’کیا ہوا۔؟‘‘ میں نے چلاکر پوچھا۔
’’خان صاحب۔‘‘ اس نے لرزتی آواز میں کہا۔ ’’انہیں دل کا دورہ پڑا ہے۔‘‘
میں واپس اپنی کار کی طرف بھاگا۔ میں نے گاڑی اسٹارٹ کی تو کار کا دوسرا دروازہ کھلا اور زیبی اندر آبیٹھی۔ آنسو، جنہیں شاید اس نے بہت دیر سے روک رکھا تھا، اب اس کے چہرے پر بہنے لگے تھے۔
راستے میں پڑنے والا پہلا سگنل توڑنے کے بعد میں نے اس سے پوچھا۔ ’’کیسے پڑا دل کا دورہ۔؟‘‘
وہ بولی۔ ’’آہستہ چلایئے۔ میں آپ کے کمرے کی طرف جا رہی تھی۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ آپ باہر گئے ہوئے ہیں۔ اچانک خان صاحب اپنے کمرے سے نکلے۔ ان کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ انہوں نے چیخ کر وجاہت صاحب کو بلایا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ بہت غصے میں ہیں۔ پھر۔۔۔ پھر وہ گر گئے۔۔۔ جیسے کوئی بے جان بدن گر جاتا ہے۔۔۔۔ میں نے آپ کو آواز دی۔۔۔مگر آپ تھے ہی نہیں۔۔۔ پھر دوسرے لوگ آ گئے۔۔۔‘‘
ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں گھستے ہی مجھے احساس ہو گیا کہ خان بہادر عنایت خان کا انتقال ہو چکا ہے۔ دو اردلیوں نے وجاہت خان کو پکڑ رکھا تھا اورہ پاگلوں کی طرح رو رہا تھا اور زور آزمائی کر رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر اس کے جنون میں اضافہ ہو گیا۔ ’’عرفان۔‘‘ اس نے پوری قوت سے چلاکر کہا۔ ’’مجھے چھڑاؤ ان لوگوں سے۔ یہ لوگ میرے بابا کو مجھ سے چھین رہے ہیں۔ مجھے چھڑاؤ عرفان۔‘‘ صدمے نے اسے پاگل کر رکھا تھا۔ میری ہدایت پر اردلی اسے گھسیٹتے ہوئے ایک کمرے میں لے گئے۔ پھر ڈاکٹروں نے اسے خواب آور دوا کا انجکشن لگا دیا۔ انجکشن لگنے کے بعد بھی وہ مچلتا رہا، تڑپتا رہا۔ رفتہ رفتہ اس کے اعصاب، دوا کے سامنے شکست کھانے لگے۔ ذرا سی دیر میں وہ پرسکون نیند کی آغوش میں چلا گیا۔
اردلی اور نرسیں اور ڈاکٹر چلے گئے۔ میں اس کے سرہانے بیٹھا رہا۔ خان بہادر عنایت خان ، وہ بےمثال آدمی جا چکا تھا۔ آبائی حویلی کی پکار پر لبیک کہے بغیر۔ دنیا کے جھمیلوں سے جان چھڑائے بغیر۔ میں سر جھکائے رو رہا تھا جب زیبی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ ’’حوصلہ کیجئے عرفان صاحب۔ کمپنی کے دوسرے لوگ آنے ہی والے ہوں گے۔ آپ کو تو ابھی بہت کام کرنے ہیں۔ حوصلہ دینا ہے۔ ہمت بندھانی ہے۔ کمپنی کی، ہم سب کی، وجاہت صاحب کی۔‘‘
میں نے آنسو صاف کر کے اسے دیکھا۔ اس ہنگامے میں، میں یکسر بھول چکا تھا کہ وہ میرے ساتھ آئی ہے۔
’’تم ٹھیک کہتی ہو۔‘‘ میں اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’مجھے واقعی حوصلے سے کام لینا ہوگا۔‘‘
وہ بولی۔ ’’میں نے ڈاکٹروں سے بات کی ہے۔ وجاہت صاحب کو یہاں ہسپتال میں رکھنا ضروری نہیں ہے۔ آپ انہیں اپنے ساتھ لے جائیں۔ میں کسی نرس کا بندوبست کر لیتی ہوں۔ آٹھ آٹھ گھنٹے کے وقفے سے انہیں ایسے ہی دو انجکشن اور لگیں گے اور اگلے چوبیس گھنٹے تک کسی کو ان کے پاس ہی رکنا ہوگا۔‘‘
میں وجاہت کو ایمبولینس کے ذریعے لے کر اپنے اپارٹمنٹ پہنچا۔ ایک نرس اور کمپنی کے ایک چوکیدار کو وہیں چھوڑ کر میں تدفین کے انتظامات میں مصروف ہو گیا۔
جنازے میں بےشمار لوگ شریک تھے۔ جو لوگ کمپنی کے تھے، انہیں تو میں پہچانتا تھا۔ لیکن ان کے علاوہ بھی بہت سے لوگ آئے تھے۔ وہ شاید خان بہادر عنایت خان کے دوست تھے۔ ہر ایک کے چہرے پر غم کی پرچھائیاں تھیں۔ میرا دل بار بار بھر آتا تھا۔ مگر پھر زیبی کی بات میرے کانوں میں گونجنے لگتی تھی اور میں حوصلہ قائم رکھتا تھا، دل پر قابو پا لیتا تھا۔
رات گئے جب میں واپس اپنے اپارٹمنٹ پہنچا تو وجاہت بستر کے سرہانے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ میں نے غصے سے نرس کو اور چوکیدار کو دیکھا۔ میں انہیں اچھی طرح سمجھا کر گیا تھا کہ خواب آور انجکشن لگانے میں ایک منٹ کی تاخیر بھی نہیں کرنی ہے۔
’’میں انجکشن نہیں لگواؤں گا عرفان۔‘‘ وجاہت نے کہا۔ ’’ان لوگوں کا کوئی قصور نہیں ہے۔ میں نے انہیں منع کیا ہے۔‘‘
میں نے کہا۔ ’’تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ ڈاکٹروں نے ہدایت کی ہے۔۔۔‘‘
’’ایسی کی تیسی ڈاکٹروں کی۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’میں اب ٹھیک ہوں۔ میں تم سے بات کرنا چاہتا تھا ورنہ میں انجکشن لگوا لیتا۔‘‘
میرے اشارے پر نرس اور چوکیدار دوسرے کمرے میں چلے گئے۔
’’کیا بات ہے۔؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’میں۔۔۔میں صرف تم سے یہ بات کر رہا ہوں عرفان۔‘‘ اس نے اپنے ہاتھوں کی لرزش کو چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’’میں بابا کا۔۔۔ اپنے بابا کا قاتل ہوں عرفان۔!‘‘
’’میں نے کہا ہے نا، تمہارا دماغ ۔۔۔‘‘
’’میری بات سن لو عرفان۔ خدا کے لئے۔ جانتے ہو کیا ہوا تھا۔ میں نے تمہارے جانے کے بعد فون پر بابا سے بات کی تھی۔ میں نے کہا تھا کہ آپ نے آج ایک ڈائریکٹر کے سامنے اپنے بیٹے کو ذلیل کر دیا ہے۔ میں نے۔۔۔ میں نے کہا کہ اب اس کمپنی میں یا تو عرفان رہےگا یا میں رہوں گا۔۔۔ تمہیں پتہ ہے عرفان۔۔۔اس کے بعد ہی بابا کو۔۔۔بابا کو۔۔۔‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
میں نے اس کی پیٹھ تھپتھپاکر کہا۔ ’’دل کا دورہ ایسے نہیں پڑتا۔ تم خواہ مخواہ احساس جرم کا شکار ہو۔‘‘
’’یہ تو ہمیشہ ساتھ رہےگا۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’میں تم سے تو معافی مانگ سکتا ہوں۔ مگر بابا سے۔۔۔‘‘
میری ہدایت پر اس نے بغیر احتجاج کئے انجکشن لگوا لیا اور ذراسی دیر میں پھر سو گیا۔
میں رات بھر جاگتا رہا۔ اس کے سرہانے بیٹھا رہا۔
علی الصبح جب نرس نے آخری انجکشن لگا دیا تو میں نے اٹھ کر ہاتھ منہ دھویا۔ میں نے شیشے میں اپنی شکل دیکھی اور بڑھے ہوئے شیو اور سرخ آنکھوں سے جھلکنے والی وحشت پر خود حیران رہ گیا۔
زیبی اس وقت آئی جب میں ناشتہ کر رہا تھا۔ میری شکل دیکھ کر اس نے کہا۔ ’’آپ شاید رات بھر جاگے ہیں۔ میں نے صبح آپ کی اجازت کے بغیر آفس میں فون کر کے چھٹی کا اعلان کر دیا تھا۔‘‘
’’اچھا کیا تھا۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’بیٹھو۔‘‘
اس نے کہا۔ ’’میں بیٹھنے کے لئے ہی آئی ہوں۔ آپ اب سو جایئے۔ میں وجاہت صاحب کا خیال رکھوں گی۔‘‘
اگلے تین چار دن اسی طرح گزرے۔ شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر زیبی نہ ہوتی تو مجھے اور وجاہت کو سنبھلنے میں بہت وقت لگتا۔ وہ صورتحال کو سنبھالنا جانتی تھی۔ آدمی کو تسلی دینا جانتی تھی۔ اس نے مجھے اور مجھ سے کہیں زیادہ وجاہت کو سہارا دیا۔ اسی کی بدولت ہم نارمل ہوتے گئے۔ چھٹے دن وہ ہمیں دفتر لے گئی۔ دفتر، جہاں کاروبار تھا، مصروفیت تھی، ذمہ داریاں تھیں۔ زیبی نے ہم پر کام لاد دیا تاکہ ہم مصروف ہو جائیں۔ اتنے مصروف کہ کوئی غم، کوئی یاد ہمیں نہ ستا سکے۔ وہ کسی سائے کی طرح ہم دونوں کے ساتھ ساتھ رہتی تھی۔
وہ اس دن بھی ہمارے ساتھ تھی جب خان بہادر عنایت خان کے وکیل نے وجاہت کو ان کی وصیت سے آگاہ کیا۔ وجاہت نے حیرت سے پوچھا۔ ’’اور باقی پچاس فیصد ملکیت۔؟‘‘
وکیل نے کاغذات پلٹتے ہوئے کہا۔ ’’باقی پچاس فیصد کے مالک عرفان صاحب ہیں۔‘‘
وجاہت کے چہرے پر کسی جذبے کا عکس نہ تھا۔ نہ نفرت کا، نہ مایوسی کا، نہ خوشی کا۔ البتہ حیرت ضرور تھی۔ پھر وکیل نے اسے ساتھ رہنے والی اس شرط سے آگاہ کیا جس کے تحت علیحدہ ہونے کا فیصلہ کرنے کی صورت میں، مجھے اپنے حق سے دستبردار ہو جانا تھا۔ اس نے کہا۔ ’’اگر عرفان صاحب خود الگ ہونے کا فیصلہ کریں گے یا کسی قانونی مجبوری کے تحت علیحدہ ہوں گے تو آپ پوری کمپنی کے مالک بن جائیں گے۔ لیکن اگر آپ نے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا یا عرفان کو زبردستی علیحدہ کیا تو پھر عرفان صاحب اپنا حصہ طلب کر سکتے ہیں۔ ویسے خان صاحب نے آپ کے نام اپنی آبائی حویلی بھی کی ہے اور سات ہزار ایکڑ زرعی زمین بھی۔‘‘
اس شام وجاہت میرے کمرے میں آیا۔
’’میں تمہارا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں عرفان۔‘‘ اس نے کہا۔
’’کس بات کا شکریہ۔؟‘‘
’’بابا نے تمہیں میرا سرپرست بنایا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ فیصلہ انہوں نے تم سے پوچھ کر کیا ہوگا۔ وہ صرف تم پر اعتماد کرتے تھے۔ اس فیصلے کا مطلب یہی ہے کہ وہ مجھے بے سہارا نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔‘‘ اس کے لہجے میں خلوص تھا۔
رفتہ رفتہ وہ نارمل ہوتا جا رہا تھا۔ زیبی کا بھی یہی خیال تھا۔
پہلے وہ گھنٹوں خاموش بیٹھا رہتا تھا۔ مگر اب وہ کمپنی کے امور میں دلچسپی لینے لگا تھا۔
ایک دن اس نے مجھ سے کہا۔ ’’عرفان۔ اب ہمیں اپنے نئے منصوبوں کی طرف توجہ دینی چاہئے۔‘‘
’’کون سے نئے منصوبے۔؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’وہی ملبوسات کو ایکسپورٹ کرنے والا معاملہ۔ میں تین چار دن سے اسی کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔‘‘
’’کیا سوچ رہے ہو۔!‘‘
’’میرا خیال ہے۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’کہ تم کام شروع کردو۔ سعودی عرب اور دبئی وغیرہ کی پارٹیوں سے مل آؤ، آرڈرز کی پوزیشن دیکھ آؤ۔ ایک مہینے کا دورہ رکھ لو۔ پھر جاپان چلے جاؤ۔ نئی مشینوں کا آرڈر دے دو۔‘‘
’’تم ایک ماہ کے غیرملکی دورے کا ذکر یوں کر رہے ہو جیسے کسی قریبی گاؤں جانے کے لئے ابھی، اسی وقت روانہ ہونا ہو۔‘‘
وہ بولا۔ ’’ابھی نہیں، لیکن اسی ہفتے چلے جاؤ۔ دیر کرنے سے کیا حاصل۔ جب ایک کام کرنا ہی ہے تو اسے ٹالنا یا تاخیر کرنا بےمقصد ہے۔ میں زیبی سے کہہ دیتا ہوں۔ وہ ٹریول ایجنٹ کی مدد سے تمہارا سارا پروگرام طے کر لےگی۔‘‘
ایک ہفتے بعد میں روانہ ہو گیا۔ روانگی سے پہلے میں نے زیبی کو وجاہت کے سلسلے میں ضروری ہدایات دیں۔‘‘ اسے تنہا ہرگز نہیں چھوڑنا اور اس کو اتنا مصروف رکھنا کہ وہ اپنے صدمے کو، اپنے دکھ کو یاد ہی نہ کر سکے۔‘‘
’’آپ بےفکر ہوجایئے۔‘‘ زیبی مسکرائی۔ ’’آپ جانتے ہیں کہ آپ کی بات میرے لئے حکم کا درجہ رکھتی ہے۔‘‘
اگلے ایک ماہ کے دوران سخت مصروفیت کے باوجود زیبی کا یہ جملہ مجھے بار بار یاد آتا رہا۔ آپ کی بات میرے لئے حکم کا درجہ رکھتی ہے۔ کیوں رکھتی ہے۔؟ میں اس کے تصور سے پوچھتا تھا اور وہ شرما کر کہتی تھی۔ کیا آپ یہ سیدھی سی بات بھی نہیں سمجھتے۔؟ کاروباری مذاکرات کے دوران، خشک گفتگو اور اعداد و شمار کی بیزار کن بحث کے دوران، ہر ملک میں، ہر زمین پر وہ مجھے یاد آتی رہی اور میں نے پہلی بار جانا کہ محبت کیسی طاقت ہوتی ہے، ہجر کیسا کرب دیتا ہے، یاد یار کیسے جادو جگاتی ہے اور وصل کی امید راہوں کو کس طرح روشن کرتی ہے۔
میں واپس آیا تو ایئرپورٹ پر زیبی میری منتظر تھی۔ کوئی چہرہ کیسے گلستاں ہو جاتا ہے، یہ میں نے اسی دن دیکھا۔ اس کے ساتھ وجاہت تھا۔ وہ زیبی سے بھی زیادہ مسرور نظر آتا تھا۔ وہ مجھ سے لپٹ کر بولا۔ ’’وہ آئیں ملک ہمارے خدا کی قدرت ہے۔ بھائی، تم توایک مہینے کے لئے گئے تھے۔ دو ماہ بعد لوٹ رہے ہو۔ مجھے تو یقین ہو چلا تھا کہ ٹوکیو میں کیمونو پہننے والی کسی حسینہ نے تمہیں گرفتار کر لیا۔‘‘
میں نے کہا۔ ’’حسینہ نے گرفتار تو کیا ہے مگر وہ کیمونو نہیں پہنتی۔‘‘
’’بہت عمدہ۔‘‘ وہ قہقہہ مار کر مجھے کار کی طرف گھسیٹتا ہوا لے گیا۔ ’’کیا عجیب اتفاق ہے۔ ہمیں بھی ایک حسینہ نے گرفتار کر لیا ہے اور وہ بھی کیمونو نہیں پہنتی۔ یہ بتاؤ، گھر چلوگے یا دفتر۔؟‘‘
میں نے کہا۔ ’’دفتر۔‘‘
دفتر میں ایک حیرت انگیز نظارہ میرا منتظر تھا۔
جہاں میرا کمرہ تھا، وہاں اب زیبی کی نشست تھی اور جہاں خان بہادر عنایت خان بیٹھتا تھا، وہ کمرہ اب وجاہت خان کے پاس تھا۔
اس سے پہلے کہ میں کچھ پوچھتا، وجاہت خان نے کہا۔ ’’تمہارے لئے میں نے دو نئے کمرے بنوائے ہیں۔ ایک تو وہ سامنے والا ہے اور دوسرا فیکٹری میں ہے۔ فیکٹری والا کمرہ دیکھوگے تو دنگ رہ جاؤگے۔ ایسا کمرہ شاید پاکستان کے کسی ایگزیکٹو کے پاس نہیں ہوگا۔‘‘
میرے دماغ میں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی تھی۔ اگر وجاہت کے لہجے میں محبت نہ ہوتی تو اس اقدام کا مطلب صاف تھا۔ مجھے کمپنی کے بجائے فیکٹری میں بیٹھنا تھا۔ مگر وہ اتنی خوشی سے، ایسے والہانہ انداز میں باتیں کر رہا تھا کہ مجھے اپنے اندیشے بےبنیاد محسوس ہونے لگے۔
اسی وقت زیبی اندر داخل ہوئی۔ میں دیوار پر لگی پینٹنگ دیکھ رہا تھا مگر میں نے زیبی کو وجاہت سے نگاہوں ہی نگاہوں میں کوئی سوال کرتے دیکھ لیا۔
’’عرفان۔‘‘ وجاہت نے کہا۔ ’’میں تمہیں ایک خوشخبری سنانا چاہتا ہوں۔ میں زیبی سے شادی کر رہا ہوں۔!‘‘
دیوار پر لگی پینٹنگ اچانک دھندلی پڑ گئی اور مجھے یوں لگا جیسے میں کسی اندھے کنوئیں میں گرتا جا رہا ہوں۔
وجاہت کی آواز گونج رہی تھی۔ ’’میں صرف تمہارا انتظار کر رہا تھا۔ یہ خوشخبری تمہیں سنانے کے لئے میں کس قدر بے چین رہا ہوں، تم اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔‘‘
بےیقینی کے اس پہلے لمحے میں، میں نے زیبی کو دیکھا۔ اس کے چہرے پر، اس کی آنکھوں میں مسرت رقصاں تھیں۔ اس ایک لمحے میں ہی میں نے اندازہ لگا لیا کہ اس بازی میں مجھے مات ہو چکی ہے۔ شہ مات۔!
اس کے بعد میں نے جو اداکاری کی، وہ اگر ہالی وڈ کا کوئی گدھا بھی کر لیتا تو آسکر ایوارڈ جیت کر لے جاتا۔ میں نے وجاہت کو گلے سے لپٹا لیا۔ اسے چوم لیا۔ پھر میں نے زیبی کو چھیڑنا شروع کیا اور تین جملوں میں ہی راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ وجاہت اپنے انکشاف سے زیادہ میرے ردعمل پر خوش تھا۔ اس نے کہا۔ ’’عرفان۔ سارے انتظامات اب تمہیں ہی کرنے ہیں۔ شادی کے فوراً بعد مجھے ایک ماہ کی چھٹی بھی تم ہی دو گے۔ اس ایک ماہ کے دوران تمہیں سارا کام سنبھالنا ہوگا۔‘‘
’’سب ہو جائےگا۔‘‘ میں نے بے فکری سے کہا۔ ’’تم یہ بتاؤ کہ ہنی مون کہاں مناؤگے۔ لندن۔؟ پیرس۔؟ جنیوا۔؟ میں آج ہی تمہاری سیٹیں بک کروا دیتا ہوں۔‘‘
’’ہنی مون صادق نگر میں منائیں گے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’صادق نگر۔؟‘‘ میں نے حیرت سے کہا۔ ’’یہ کیا ہے۔؟‘‘
’’وہاں آبائی حویلی ہے۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔ ایک لمحے کو وہ بالکل خان بہادر عنایت خان کی طرح لگا۔ ’’جہاں سے بابا نے اپنی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ میں یہ خوشیوں بھرے دن اسی حویلی میں گزاروں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے کہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔
وہ رات میں نے کانٹوں کے بستر پر گزاری۔ بار بار زیبی کا چہرہ میری نگاہوں کے سامنے آ جاتا تھا اور نفرت کسی وحشت خیز لہر کی طرح میرے بدن پر چھانے لگتی تھی۔ ان دونوں نے مجھے دھوکہ دیا تھا۔ وجاہت نے میری عدم موجودگی سے فائدہ اٹھایا تھا، زیبی کو اپنی جانب کھینچ لیا تھا اور زیبی نے ایک ذہین اور شاطر لڑکی کی طرح اس کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا۔ قانونی طور پر وجاہت کا مستقبل زیادہ محفوظ اور زیادہ پرکشش تھا۔ وہ کمپنی کا پچاس فیصد مالک تھا اور میرے علیحدہ ہونے کی صورت میں سو فیصد مالک۔ میرے پاس صرف پچاس فیصد ملکیت تھی اور الگ ہونے کی صورت میں ایک غیریقینی مستقبل۔ وجاہت کے پاس ایک حویلی بھی تھی، وہ شاندار بنگلہ بھی جو اس کے باپ نے اپنے لئے بنوایا تھا اور سات ہزار ایکڑ زرعی زمین بھی۔
یہ میری محبت کی شکست نہیں تھی۔ میری کم مائیگی کی ہار تھی۔ وجاہت خان نے ورثے میں ملنے والی دولت اور اثر و رسوخ کے بل پر مجھے شکستِ فاش دے دی تھی۔ چار جانب اندھیرا تھا اور خاموشی تھی۔ مگر کوئی آواز مجھے اٹھنے کا حکم دے رہی تھی۔ اٹھنے کا اور لڑنے کا حکم۔ شاید یہ میرے دل کی آواز تھی۔ دل کبھی ہتھیار نہیں ڈالتا، کبھی شکست نہیں مانتا۔ اتنی کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد، اتنے خواب دیکھنے کے بعد میں بھی شکست نہیں مان سکتا تھا۔ کبھی نہیں۔!!‘‘
افسانہ بس یہاں ختم ہو جاتا تھا۔
ایک ناتمام کہانی۔
کسی انجام سے محروم داستان۔
اپنی آخری ای میل میں عرفی چچا نے لکھا تھا۔ ’’ہسپتال جانے سے پہلے تجھے کوریئر کے ذریعے ایک نامکمل کہانی بھیجوں گا۔ اسے مکمل کر کے دکھا، تاکہ مجھے تسلی ہو کہ بیس برس کی افسانہ نگاری سے تونے کچھ نہ کچھ تو سیکھا ہے۔‘‘
اور انہوں نے اپنی زندگی کی کہانی بھیج دی تھی۔!
نہ جانے کتنی دیر تک میں اپنے کمرے میں وہ مٹیالے صفحات تھامے، ساکت بیٹھا رہا۔
کیوں بھیجی تھی عرفی چچا نے یہ کہانی۔؟ ہسپتال جانے سے قبل کیا وہ جان گئے تھے کہ اگلا قدم فنا کی دہلیز کے اس پار رکھنا ہے۔؟ سوال، طرح طرح کے سوال، مجھ پر یلغار کرتے تھے۔
ایک نامکمل کہانی کو تکمیل تک پہنچانے کے بہانے وہ مجھے کیا بتانا چاہتے تھے۔؟ کہانی میں آگے کیا ہوا تھا۔؟ جسے وہ اپنی محبت کی شکست نہیں، اپنی کم مائیگی کی ہار کہہ رہے تھے، وہ کیا سچ مچ ان کی زندگی کی سب سے بڑی شکست تھی۔؟ وہ دل، جو ہتھیار ڈالنے، شکست ماننے کو تیار نہیں تھا، انہیں کس جانب لے گیا تھا۔؟
اس رات میں ٹھیک طرح سے سو بھی نہیں سکا۔
اگلے روز میں نے وہ کہانی پھر پڑھی۔ ایک بار، دو بار، تین بار۔
اور ہر بار میری اداسی بڑھتی گئی۔ جیسے پرانی تصویروں کے البم میں کسی بچھڑ جانے والے کو ہنستا مسکراتا دیکھ کر دل میں ملال اترتا ہے۔ یہ کہانی بھی ایک قدیم فلم کی طرح تھی۔ عرفی چچا، جیتے جاگتے عرفی چچا، زندگی کی توانائی سے بھرپور عرفی چچا، اس کے ہر فریم سے جھانکتے تھے اور ان کے گرد دوسرے کردار چلتے پھرتے دکھائی دیتے تھے۔ زیبی اور وجاہت اور خان بہادر عنایت خان۔ کسی تھیڑ کا اسٹیج تھا جس پر محبت کی ازلی تکون کا کھیل جاری تھا اور میں، نیم تاریکی میں موجود کرسیوں پر بیٹھا واحد تماشائی تھا جو نہ ہنس سکتا تھا، نہ رو سکتا تھا، بس اداسی کے بوجھ تلے دبتا جاتا تھا۔
یہ بوجھ بڑھتا گیا۔ اگلے دن اور اس کے اگلے دن۔
عرفی چچا نے ہی مجھے زندگی کو اور منظروں کو اور آدمی کو دس، بیس، پچاس زاویوں سے دیکھنا سکھایا تھا۔ سو خیالات تھے، جو ہر جانب سے حملہ آور ہو رہے تھے۔ عرفی چچا کی خوشحالی، ان کے وسائل کی فراوانی میرے اندر نت نئے اندیشوں کے بیج بکھیرتی جاتی تھی۔ کیا انہوں نے وجاہت خان کو مار ڈالا تھا۔؟ وہ جوانی میں ہی کمپنی چھوڑ چھاڑ کر دنیا کی سیر کو نکل گئے تھے، برسوں انگلینڈ میں رہے تھے، پھر دبئی جا بسے تھے۔ خاندان والے بس سرسری سی باتیں جانتے تھے۔ لیکن کمپنی چھوڑ کر چلے جانے کی صورت میں تو انہیں خالی ہاتھ رہ جانا تھا۔ وسائل سے محروم آدمی دنیا کی سیر کو کیسے جا سکتا ہے۔؟ وہ زندگی کیسے بسر کرسکتا ہے جو عرفی چچا نے کی۔؟
کبھی مجھے سب خدشے بے بنیاد لگتے تھے۔ اپنی فکر مندی مضحکہ خیز لگتی تھی۔ اور کبھی دل میں آویزاں عرفی چچا کی حسین تصویر کے نقش بگڑنے لگتے، ان آنکھوں میں شر اترنے لگتا تھا اور ان ہونٹوں پر عیاری کی مسکراہٹ کھیلنے لگتی تھی۔
اور بوجھ۔؟ بوجھ تھا کہ دل پر کسی بھاری سل کی طرح رکھا رہتا تھا اور بڑھتا ہی جاتا تھا۔
یہ تو مجھے بہت دنوں بعد پتا چلا کہ میں خود اس بوجھ سے چھٹکارا نہیں پانا چاہتا۔ چالیس برس پرانی اس داستان کے انجام کا کھوج لگانا ایسا مشکل کام بھی نہیں تھا۔ اتنا بڑا کاروبار کرنے والی کمپنی کا سراغ جگہ جگہ مل سکتا تھا۔ اسٹاک ایکسچینج، انکم ٹیکس، سابق کارپوریٹ لا اتھارٹی، کہیں نہ کہیں سے ملنے والے بکھرے ہوئے کاغذی پرزوں کو جوڑکر تصویر کسی حد تک مکمل کی جاسکتی تھی۔ شاید زیبی نامی کوئی بوڑھی عورت بھی مل سکتی تھی۔
لیکن اگر اس ساری مشق کے نتیجے میں عرفی چچا کے بارے میں میرے بدترین خدشات درست ثابت ہو جاتے تو۔؟ یہ خیال ہی میرے دل کو مٹھی میں جکڑ کر مسلنے لگتا۔
سو میں بہت دنوں سے ایک کہانی کا بوجھ اٹھائے پھر رہا ہوں۔
پریشان کردینے والا، تھکا دینے والا، اعصاب کو شل کر دینے والا بوجھ۔ زندگی بھر ساتھ رہنے والا بوجھ۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.