ایک نا مختتم یکایک کے آغاز کا معما
موتی نے سرخ پھولدار اور ریشمی کپڑے سے بنی، روئی سے بھری، پتلی اورچوکورگدیلی دیوار پر جھاڑ کر پہیے دار کرسی کے تختے پر پٹخی، مگرگدیلی پر پڑے میل کچیل کے کالے چکٹ، جھاڑنے سے لاپروا، کپڑے سے ناسور کی طرح چمٹے رہے۔ موتی نے آگے کھسکتے ہوے کرسی گاڑی کو پچھلی ٹانگ سے پکڑ ا اور گاڑی کو دھکیل کر دو قدمچے نیچے سڑک تک پہنچانے کی کوشش کی۔ گاڑی عدم توازن کا شکار ہوتی، قدمچوں سے دھڑدھڑاتی، سڑک پر آگے کھسکتی گئی۔ قدمچوں اور کرسی گاڑی کا درمیانی فاصلہ جانچ کر موتی نے دروازے کے بیچ لگی کنڈی کو بند کر کے تالا لگایا۔ خودکودونوں ہاتھوں کے بل گھسیٹ کر بازو کرسی کے ہتھوں پر جمائے اور جسم کواونچا اٹھاتے، پہیے دار کرسی پر پڑی میل کچیل کے چکٹوں والی گدیلی پر رکھ دیا۔ روز کا معمول ہونے کے باوجود اس مشقت نے موتی کوتھکا دیا۔ اب وہ وقت تھا کہ کپڑے بدلتے ہوے بھی تھکن ہوجاتی اور نڈھال کر دیتی۔ سانس کے ٹھیرجانے کے بعد اس نے دھڑ کے نچلے حصے کو اِدھر اُدھر کرکے گدیلی کا نرم حصہ جانچا اور جسم کو آرام دہ جگہ محسوس کرنے کے بعد پہیے دار کرسی کو دھکیلنے والی چرخی کے ہینڈل کوسیدھے ہاتھ سے گھماتا، سنیما والی گلی سے چمن بزار کی طرف بڑھنے لگا۔ ابھی بہت سویرپن تھی۔ نیم اندھیرا۔ مگر پھر بھی جانے کیوں ملّا کی اذان سے پہلے موتی کی نیند ٹوٹ جاتی تھی۔ حالانکہ مسجد کی دیوار ان کے گھر کے ساتھ تھی مگر وہ دن تھے کہ موتی دیر تک پڑا اینڈتا تھا۔ اذان کی آوازتک اس کے کان میں مچھر کی طرح بھنبھنا پاتی تھی۔ اب یوں کہ آخری پہر کے آتے سحر خیز مرغے کی مانند اٹھ بیٹھ جاتا۔ چمن بزار کے قریب ہوتے سوچ آنے لگی، وہ اس سویر جائے گاکدھر؟ہوٹل پر۔ پر چائے والے نے ہوٹل کھولا ہوگا کہ نہیں؟ابھی تو سورج بھی خوفزدہ چوہے کی طرح دبکا پڑا ہے۔ لیکن بھلا وہ پڑے پڑے کتنی کروٹیں بدلے؟ نذو لنگڑے کے چلے جانے کے بعد اس سے اکیلے گھر بیٹھا نہ جاتا تھا۔ ہینڈل گھماتاموتی کا ہاتھ بلاارادہ آہستہ ہوتا گیا۔ گاڑی کی رفتار سست ہوتی گئی۔ گاڑی کا ایک پہیہ لہرائے جا رہا تھا۔ اسی لہرانے سے موتی کو نذو لنگڑے کی یاد آنے لگی۔ نذو لنگڑے کی دونوں ٹانگیں کمزور تھیں۔ جیسے ان میں ہڈیاں ہی نہ ہوں۔ خالی گوشت سے بنی۔ ان لچکتی ٹانگوں کے بل چلتے نذو لنگڑے کا جسم عجیب فحش انداز میں مٹکتا تھا۔ موتی کو ایک بات یاد آگئی۔ ایک دن موج میں موتی نے نذولنگڑے سے پوچھ لیا تھا،
’’ابے، لنگڑے یہ تو جھٹکے لے لے کر سارا دن کس کو چودتارہتا ہے؟‘‘
’’اپنی قسمت کو، اور کس کو، بھین چود!‘‘ نذو لنگڑے نے سانپ کی طرح بل کھا کر گالی دی تھی۔
’’شکر نہیں کرتا کنجر، چودتو رہا ہے!‘‘ جواب دیتے موتی کے حلق سے بے اختیار قہقہہ ابل پڑا تھا۔ تب نذو لنگڑا لچکتا اس کے منھ پر لعنت رکھنے آیا تھا اور موتی نے کرسی گاڑی بھگا کر اپنی جان بچائی تھی۔ اس یاد کے آتے ہنس پڑنے سے موتی کے کھلے منھ کے اوپری ہونٹ کے دونوں کناروں اور گالوں کے درمیان لکیرمزید گہری ہوگئی۔ نذو لنگڑے سے موتی کی لگتی بھی بڑی تھی، اور رہتے تو وہ کٹھے تھے۔ اسی ایک کمرے میں جس سے آج کل موتی اپنے نکالے جانے کی فکرمیں پستا رہتا۔ اُن دنوں موتی کو یوں گھسٹ گھسٹ کر کرسی گاڑی قدمچوں سے کھسکانی نہیں پڑتی تھی۔ نذو لنگڑا گاڑی کو گھر سے سڑک، سڑک سے گھر میں رکھتا۔ موتی کو اس پر جم جانے میں مدد کرتا۔ پتا نہیں حرام زادہ بنا بتائے کہاں چلا گیا! اب موتی ڈھونڈے تو کہاں؟چند ایک دن تو اس نے واپسی کی آس سجائے رکھی۔ جب وہ ٹوٹی تب موتی کی ہرصدا کے آخر میں ’’کوئی کسی کا نہیں‘‘ کے الفاظ کا اضافہ ہوگیا جو ایک ٹھنڈی آہ کے ساتھ منھ سے نکل جاتے۔
چمن بزارپہنچ کر موتی نے دکھن کا رخ کیا۔ بزار کے اوپر میلی ترپالوں اور پرانے شامیانوں کے سائبان نے اندھیر اکر رکھا تھا۔ اس اندھیرپن میں ساری بزارسرنگ بنی ہوئی تھی۔ کہیں کہیں جلتے زرد بلبوں کی پیلاہٹ میں پلاسٹک کی تھیلیاں اور مڑے تڑے کاغذ ہوا کے زور پر اپنی جگہیں بدل رہے تھے۔ بزار پہنچ کر سڑک اوبڑ کھابڑ ہوگئی۔ دکاندار لوگ صفائی کرکے کچرا سڑک پر پھینک دیتے تھے۔ پھر اس کا کچھ حصہ جمعداروں کے جھاڑو سمیٹتے اور کچھ سڑک سے لپٹا رہ جاتا۔ وہی گند، مٹی اور پانی کا سہارا لے کر، چھوٹے موٹے انسان کی طرح اپنی جگہ بنالیتا۔ تب جمعداراور جھاڑو بھی اس کا بال بیکا کرنے سے قاصر ہو جاتے۔ ان اوبڑ کھابڑوں کے ساتھ گندکچرے کی ڈھیریاں بھی تھیں۔ ابھری ہوئی۔ جیسے اونٹ کے کوہان ہوتے ہیں۔ یا ان سے تھوڑا مختلف۔ ایک ڈھیر میں سے سڑتے ٹماٹروں کی بو موتی کے نتھنوں میں گھسی۔ ہتھ گاڑی چلاتا موتی کا ہاتھ تیز ہو گیا۔ رجب قصائی کے تھڑے کے پاس خون کی بساند تھی۔ اسی جگہ آوارہ کتے مرغی کے پروں اور انتڑیوں میں تھوتھنیاں گھمارہے تھے۔ موتی کا ہاتھ تھکنے لگا۔ اس نے تھوڑا آگے گاڑی لدھا رام جنرل مرچنٹ کی دکان پر روک دی۔ پر اب لدھا رام کہاں؟اب تویہ مجاہد جنرل اسٹور ہے۔ یہ سب یکایک کیسے ہو گیا؟ اس خیال کے آتے موتی کی زبان پر لفظ’’یکایک‘‘ پھنس گیا۔ زبان تانگے میں جتے گھوڑے کی ٹاپوں کی طرح’’یکا، یک‘‘ کو دو حصوں میں دہرانے لگی۔ یادیں، عبد الحق ساند کے گایوں کے ریوڑ کی طرح اچھلتی ٹاپتی، موتی کے اندر آ گھسیں۔ آگے پیچھے، بے ترتیب و بے مہار۔ اسے لدھارام کی دکان کے آگے بنا چھپر یاد آنے لگا۔ تب اس بزار کا رستہ سیدھااور یکساں تھا۔ روز پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا تو سڑک پر درخت کھڑے جھومتے رہتے۔ دو اطراف قائم دکانیں ایک دوسرے سے دوردور تھیں۔ اب کی مانند قبر کے کناروں کی طرح پسلیاں نہیں توڑتی تھیں۔ بزار کے اوپر نیلا آسمان دمکتا تھا۔ موتی کو چاچا محمد پناہ کے ہاتھ سے بنی گلقند والی چائے کی یاد آئی۔ وہ کبھی کبھی چائے پینے لدھا رام والے چھپر کے نیچے آٹھیرتا۔ یہ چھپر جیسے دکان کا صحن تھا۔ اس میں پڑی بنچ پر کوئی نہ کوئی بیٹھنے والا دکان کے اندرموجود لدھا رام سے حال احوال کر رہا ہوتا۔ سردیوں کی اُس شام جب وہ یہاں پہنچا، لدھارام ایک تغاری میں آگ جلوائے اپنے ہاتھ تاپ رہا تھا۔ ابھی موتی سے حال احوال ہو رہا تھا کہ آخوند صاحب آپہنچے۔ یہاں پہنچ کر موتی کی یادیں گڑبڑا گئیں۔ آخوند صاحب کا اصل نام اس نے یاد کرنا چاہا، مگر اس وقت اسے اپنا اصل نام بھی یاد نہیں آرہا تھا۔ ہاں یہ یقین تھا، جیسے سارے اسے ’موتی‘ بلاتے تھے، شہر بھر انھیں ’آخوند صاحب‘ کہتا تھا۔ سِن پینتالیس پچاس کے لگ بھگ۔ دبلے پتلے۔ لمباسا قد۔ شانوں پر بکھری زلفیں اور بڑھائی ہوئی قلمیں۔ ڈاڑھی مونچھ صفاچٹ۔ بوسکی کی قمیض اور سفیدلٹھے کی شلوار۔ یہ تھے آخوند صاحب۔ ان کا کپڑا لتا، کھانا پینا سب شہروالے کرتے تھے۔ رہائش ڈاکٹر سبحان علی شاہ کے بنگلے میں۔ موتی کو یاد نہ آیا کہ آخوند صاحب کس کے بیٹے تھے۔ بس اسی بنگلے کی نچلی منزل میں آخوند صاحب کے ساتھ والے کمرے میں ڈاکٹر صاحب کی اسپتال تھی۔ ڈاکٹر صاحب اوپر ی منزل پر رہتے تھے۔ موتی کو یاد آیا، شاید ڈاکٹر سبحان شاہ کے بڑے یا چھوٹے بھائی ہوں۔ لیکن اس خیال پر موتی کو یقین نہ تھا۔ اور ہاں، ڈاکٹر سبحان شاہ تھے تو ڈاکٹر، مگر ان کی اسپتال میں ہمیشہ کمپونڈر بیٹھا ہوتا۔ ان کو اپنی اسپتال میں موتی نے کبھی بیٹھا نہ دیکھا۔ وہ اوپر اپنے گھر پر ہی ہوتے۔ جب کوئی مریض آیا، کمپونڈرنے گھنٹی دبا ئی، ڈاکٹر صاحب اسی لمحے سیڑھیاں اتر آپہنچتے۔ مریض دیکھ کر اس کی دوا درمل کرتے، اور پھر جھٹ سے اوپر چڑھ جاتے۔ مریض سے پیسے تک کمپونڈر لیتا رہتا۔ انھیں اپنی بیوی سے عشق تھا۔ اس کے بغیر رہ نہ پاتے۔ ان کو شہر بھر ’’زال مرید‘‘ کہتا۔ خود بولتے، ’’کچھ سمجھ نہیں آتا، قبر میں اس کے بغیر کیسے رہ پاؤں گا۔‘‘ اپنے بڑے بیٹے کو وصیت کی ہوئی تھی، ’’خبردار جو ان ملّا مولویوں کی بات پرمیری قبر کچی بنوائی۔ یاد رکھنا، باہر نکل آؤں گا۔‘‘
آخوند صاحب پر نظر پڑتے ہی سیٹھ لدھارام اٹھ کھڑا ہواتھا۔
’’سائیں، بھلی کرے آیا، بھلی کرے آیا!‘‘ لدھا رام نے اپنی کرسی خالی کر کے آخوند صاحب کو بٹھایا اورخود سامنے پڑی لکڑی کی بنچ پر جا بیٹھا۔
’’اباپُٹ نور محمد۔ جا۔ جا بابا، ایک اور گلقند والی چائے بول آ۔ چاچا پناہ کو بتانا، خاص آخوند صاحب کے لیے ہے۔ ایسا کر، تُو موتی اور میرے لیے بھی لے آ۔ دل کرے تو اپنے لیے بھی بول دینا۔ آج آخوند صاحب کے ساتھ ہم بھی عیش کرتے ہیں۔‘‘ لدھا رام نے دکان پر کام کرنے والے لڑکے کو روانہ کیا۔
’’سائیں لدھارام، آج ارادہ کیا، تمھارے پاس آکر تمھیں عزت دیں، اور دو باتیں بھی کرلیں گے‘‘، آخوند صاحب لدھا رام سے بولے۔
’’سائیں، آج توقرب کر دیا آپ نے۔ میرے بھاگ سائیں!‘‘ موتی کی یادداشت کی تختی پر وہ منظر صاف ابھر آیا۔ لدھارام کی باتیں سنتے آخوند صاحب ہلکی مسکان میں سر ہلاتے جا رہے تھے۔ لدھا رام جھک کر آخوند صاحب کے قریب ہوا۔
’’سائیں، دو دن پہلے ایک جوڑا خرید کر پریل درزی کو دے آیا تھا۔‘‘
’’ہاؤلدھا رام۔ خمیسو دھوبی کپڑے لایا تھا تو اس نے بتایا تھابابا۔‘‘
’’سائیں وہی بوسکی۔ میں نے کہا، آپ کو اور کپڑا پسند نہیں۔ سائیں، میں خود لینے گیا تھا۔‘‘ لدھا رام نے بات کی اخیر کرتے دونوں ہاتھ آخوند صاحب کے سامنے جوڑے۔
’’اچھا کیا بابا لدھارام۔ اور سنا پُٹ! تکلیف تو نہیں کوئی؟‘‘ آخوند صاحب بیچ جملے میں موتی سے مخاطب ہوے۔
نہ ابا، نہ! آپ کے ہوتے ہمیں کوئی دکھ تکلیف پہنچے گی؟خیر ہی خیر!‘‘ موتی کے دونوں ہاتھ جڑے تھے۔
’’ہاؤ سائیں، موتی بیچارے کی بات برابر ہے۔ آپ کے ہوتے ہمیں کیا فکر۔‘‘
’’ادا لدھارام، وہ شمشاد مٹھائی والے نے تمھاری اُدھار چکادی، بابا؟‘‘
’’آخوند سائیں، ادا شمشاد کے وعدے کو مہینہ اوپر ہوگیا ہے۔ پر سچ کہوں، مجھے حیا آتی ہے کہ اس سے پوچھنے جاؤں۔ ہوگا بیچارہ کسی مسئلے میں۔‘‘
’’میاں لدھا رام، تم نے عزت داروں والی بات کی ہے۔ شمشاد کل میرے پاس آیا تھا۔ اس سے دیر سویر ہوگئی ہے۔ کہہ رہا تھا، اب تو مجھے تو ادا لدھارام کی دکان کے سامنے گزرتے شرم آتی ہے۔ ایک ہفتے میں چکادے گا بابا۔‘‘
’’نہ سائیں نہ! ہماری اپنی بات ہے۔ کیا میں، کیا ادا شمشاد! چھ بیسوں کی تو بات ہے۔ اور سائیں، کچھ دن پہلے وڈیرابھورل آیا تھا۔ بتا رہا تھا کہ آپ اس کے بیٹے کی نوکری...‘‘ لدھارام نے آدھی بات پر جملہ ختم کردیا۔ موتی کو دکھ لگ گیا۔ وڈیرا بھورل آیا اور مجھ سے ملے بغیر چلا گیا! وڈیرے بھورل سے میل ملاپ کا چھوٹا بڑا منتظر رہتا تھا۔ جب وہ اپنے گاؤں سے شہر آتا تو گھوڑا مختیار کار آفیس میں باندھ کر پہلے ساری بزارکا چکر لگاتا۔ اور ہر ایک سے مل ملا کر، خیر خیریت دریافت کرکے، پھر اپنے کام دھندھے کی فکر کرتا۔ اس کے حالی احوالی ہونے کا انداز اتنا نرم اور میٹھا تھا کہ موتی کو کبھی شمشاد مٹھائی والے کی جلیبیاں اتنی میٹھی نہیں لگیں۔ ویسے وڈیرے بھورل کا سارا گاؤں اپنی مثال آپ تھا۔ سب کے سب اشراف اور مہربان ہونے میں ایک دوجے سے بڑھ کر تھے۔ مگر وڈیرے بھورل سا بیٹا کوئی ماں کیسے جنے؟وڈیرے بھورل کی شرافت اور مٹھاس پن کا واقعہ موتی کی گدلی آنکھوں میں پانی لانے لگا۔ ایک مرتبہ وڈیرے کے گھر ایک چور نے نقب لگالی۔ مٹی کی موٹی دیوارکو رنبے سے کھودتے کھودتے چور کوفجر ہو گئی۔ تب وڈیرابھورل، جو یہ سارا ماجرا دیکھ رہاتھا، چور کو رسان سے بولا، ’’ابا، اب تم جاؤ۔ اب تو سورج بھی نکلنے والا ہوگا۔‘‘ بس چور روتا، دہاڑیں مارتا بھاگ نکلا۔ اسی شام کو وہ سارے خاندان سمیت معافی کے لیے آپہنچا۔ وڈیرا بھورل بھلا کیسے معاف نہ کرتا۔ اوپر سے کھانا وانا کھلا کر ان کے غریبی حال پر اپنی بھوری بھینس بھی ان کے ساتھ کردی تھی۔
’’سائیں، وڈیرا بھورل تو ہم سے ملا ہی نہیں۔‘‘ موتی اپنے الفاظ کونکلنے سے روک نہ سکا۔
’’ابا موتی، وڈیرے کے مہمان آئے تھے۔ وہ مہمانداری کا سامان لینے آیا تھا۔ بھلا یہ ہوسکتا ہے کہ وڈیرا آئے اور کسی سے نہ ملے؟تو بھی صفا چریا ہے۔‘‘
’’ہاؤ سائیں، بات تو حق کی ہے۔‘‘ موتی ہلکا پھلکا ہوگیا۔ پھر اسے خود پر غصہ آنے لگا۔ یہ وڈیرے بھورل کے بارے میں اس نے ایسے منھ پھاڑ کر کیسے بول دیا؟
’’میاں لدھا رام، اپنے بھورل کا بیٹا شہر پڑھ آیا ہے۔ اب ہم نے سوچا، اپنا بچہ ہے۔ اپنے اسکول میں اچھی پڑھائی کروائے گا۔ ہے کہ نہیں؟‘‘
’’سائیں بالکل بالکل۔ اس کی نوکری کب کروا رہے ہیں؟‘‘
’’لدھارام، اس کی نوکری ہوگئی ہے بابا۔ تمھیں سب پتا ہے، ڈی سی صاحب سے ہمارے کتنے واسطے ہیں۔ پر صرف ڈی سی کیا، اوپر تک ہماری پہنچ ہے۔ اب ڈی سی صاحب ہمیں کوئی جواب دیتا؟پر
نہ! ڈی سی صاحب اپنے ماسٹر منظور کا پرانا واسطے دار ہے۔ ہم نے سوچا، خود ڈی سی کے پاس چلے جائیں تو ماسٹر منظور سوچے گا، ہم نے اسے پھلانگ کر راہ بنالی۔ سو اس کو لے کر گئے تھے اور ماسٹری لے کر آگئے۔‘‘
’’وَہوا سائیں، وَہوا! سائیں، آفرین ہو۔ بڑا خیال رکھتے ہیں آپ اپنے شہر کا۔‘‘
’’لدھا رام بابا، اپنا شہر ہے۔ ہمیں ہی کرنا ہے۔‘‘
’’سائیں برابر۔ غریب شاہوکار سب آپ کو دعائیں کرتے ہیں۔‘‘
’’کرنی بھی چاہییں بابا۔ یہ کام وام ایسے ہی آسان تھوڑی ہیں۔‘‘
’’صدقے صدقے! سائیں، میرا مالک مکان بھی بڑا نیک مرد ہے۔ سائیں اس پر بھی شفقت کی نظر۔‘‘ موتی کے الفاظ دل سے نکل پڑے۔
’’بابا موتی، ہم نے بھلا کبھی کوتاہی کی ہے؟‘‘
’’نہ بابا نہ! توبہ توبہ! ایسے نہیں سائیں۔ وہ ہمارا بڑا لیحاظ رکھتا ہے۔‘‘
’’بابا لدھا رام، اپنے موتی کو ہماری طرف سے آٹھ آنے دے دو۔‘‘
’’بابا! ویسے بھی آپ کا کھاتے ہیں‘‘، موتی آٹھ آنے لیتے ہوئے بولا۔ اتنے میں گلقند والی چائے بھی آگئی اور ساتھ ہوٹل کا مالک چاچا محمد پناہ بھی۔
’’سائیں، لڑکا چائے لینے آیا تو بتایا کہ آخوند صاحب بیٹھے ہیں۔ میں نے کہا، میں بھی ساتھ چلتا ہوں۔‘‘
’’نہ محمد پناہ بابا، نہ! آؤ بیٹھو۔ کوئی خیر خبر؟‘‘
’’سائیں آخوند صاحب، حال احوال سب خیر۔ وہ میونسپل والوں کو آپ نے کہہ دیا تو پھر وہ نہیں آئے۔ اور سائیں، حق انصاف کی بات تھی ان لوگوں کی۔ گلی میں بھینسیں باندھنے والا اپنا کام مجھے بھی ٹھیک نہیں لگا۔ بس گھر کے ساتھ باڑا بنوا رہا ہوں۔ بھینسوں کو وہاں رکھوں گا۔‘‘
’’کام تم نے اچھا سوچا ہے، محمد پناہ۔ پر میونسپل والوں کی بھی زورا زوری ہے۔ ایسے تھوڑی ہوتا ہے کہ عزت دار کے دروازے پر جا پہنچے۔ اگر ایسی بات ہے تو ہمیں کہیں۔ ہم کس لیے ہیں؟ ہم محمد پناہ کو سمجھا دیں گے۔ اپنا آدمی ہے، بھلا ہم سے باہر جائے گا؟کیوں میاں لدھا رام؟‘‘
’’ہاؤ سائیں! ہوتا تو ایسے ہے۔ ہمارے شہر کی ریت رواج بھی یہ ہے کہ کوئی مسئلہ معاملہ ہو، خانگی، سرکاری، سب آپ کے پاس آتا ہے۔‘‘
’’بس بابا، وہ بھی انسان ذات ہیں۔ کبھی ایسے، کبھی ویسے۔ خیرمحمد پناہ، تم دل میں نہ کرنا بابا۔‘‘
’’نہ سائیں نہ! محمد پناہ دل میں برائی نہیں رکھتا آخوند صاحب۔‘‘
موتی کا تصور اسے کڑھے ہوے دودھ کی گاڑھی چائے میں گلقند کے تیرتے ذروں کی جانب لے گیا۔ اس کے منھ میں مٹھاس آگئی۔ تا وقتیکہ اس نے ٹھنڈی آہ بھر کر کرسی کی پشت سے لگے سر کو اٹھایا، آنکھیں کھول کر اِدھر اُدھر جانچا، یہاں وہاں کچھ نہ تھا۔ لدھا رام اپنی دکان گھر سمیٹ کر کب کا کہیں چلا گیا تھا۔ موتی کے پاس نذو لنگڑے کی طرح لدھا رام کی بھی کوئی خیر خبر نہ تھی۔ بس وہ دونوں اسے یاد بہت آتے تھے۔ موتی نے کرسی گاڑی کے ہینڈل پر دباؤ ڈالا۔ گاڑی لہراتے چلنے لگی۔ یہ لہراہٹ بھی کچھ دن پہلے کی تھی۔ مالک مکان مولا بخش مرحوم کا بیٹا فضل تیسری بار کرایہ لینے آیا تب بھی موتی کے پاس کرائے کی رقم پوری نہ تھی۔ اب لوگ کہاں ہاتھ ڈھیلا کرتے ہیں۔ پورا دن مانگ مانگ، جھولی پھیلاتے پھیلا تے موتی نیم جان ہوجاتا، تب بھی شام تک اتنا مل نہ پاتا کہ اگلا سورج سکھ سے ابھرے۔ وہ دن گم ہوگئے جب شہر کے لوگ بزار سے گزرتے موتی کو روک کردو آنے چار آنے دے جاتے تھے۔ کبھی موتی کو جلدی ہوتی تودکان والے سے اگلے دن کا کہہ کرگاڑی آگے بڑھا جاتا۔ بس دن راتوں میں بدل گئے۔ اب تو فضل نے کرایہ نہ ملنے پر موتی کی کرسی گاڑی اٹھا کر سڑک پر پھینک ماری۔ پھر موتی نے اپنے کفن دفن کے لیے رکھی رقم سے پیسے نکالنا ضروری سمجھا۔ کرایہ تو پورا ہوگیا مگر گاڑی میں لہراہٹ آگئی۔ بزار کے اوپر ٹنگے ترپالوں اور شامیانوں کے پھٹے سوراخوں سے روشنی کے لہریے بزار میں اترنے لگے۔ جمعدارنیاں اور جمعدار لمبے لمبے جھاڑو سنبھالے سڑک بُہارنے شروع ہو گئے تھے۔ جھاڑوؤں کی زرد تیلیاں جمعداروں کے چہروں کی طرح سست سست بے جان انداز میں اِدھراُدھر رینگ رہی تھیں۔ سمیٹی جانے والے گند کے درمیان گزرتے موتی نے گرد و غبار کے ذروں کے دھندھلکے میں ’’بخشل کلاتھ اسٹور‘‘ کا بورڈ دیکھا۔ ٹین کی چادر کے بورڈ پر سرخ حرفوں میں بڑے بڑے الفاظ۔ اس دکان سے ایک ہفتہ پہلے موتی کو دھکے اور گالیاں پڑی تھیں۔ صبح کا وقت تھا اور ہمیشہ کی طرح اس نے دکان کے سامنے آواز لگائی تھی۔ ’’سائیں کا خیر، بادشاہ کا خیر! بابا اللہ کے نام پر موتی مجبور کو روپیہ دو۔‘‘ بس دکان کا مالک عبد الجبار دکان کی سیڑھیاں اترتا، گالیاں دیتا آیا۔ ’’ابھی کوئی گراہک نہیں آیا اور یہ حرامی آمرا۔ نکل یہاں سے بے غیرت! ہم نے تمھارا ٹھیکہ لیا ہوا ہے؟‘‘ اپنا قصور موتی کی سمجھ میں نہ آیا اور عبدالجبار کی غصے میں بند ہوتی آنکھوں اور منھ پر پڑتی جھریوں کی وجہ بھی وہ سمجھ نہ پایا۔ یہ عبد الجبار چاچا حسن کا بیٹا تھا۔ جب چاچا حسن اس دکان پر ہوتا تھا تب یہ چھوٹی سی دکان تھی۔ موجودہ دکان کا ایک تہائی۔ سفید ڈاڑھی والا چاچاحسن اس پر بیٹھا ہنستا رہتا۔ بچوں کو وہ ہمیشہ ’’او تمھاری نانی مر جائے، کیا چاہیے تمھیں؟‘‘ کہا کرتا تھا۔ اس کی دکان پر ناس نسوار سے بیڑی اور تمباکو تک، پراندوں سے لے کر ٹوپی میں کاڑھے جانے والے شیشوں اور موتیوں تک، آٹے دال سے تیل صابن تک ہر چیز مل جاتی تھی۔ شہر کا قریب ہر فرد ماما حسن کا کاہگ تھا۔ اورصرف کاہگ نہیں بلکہ قرضی بھی۔ کیا مرد کیا عورت۔ عورتیں بزار نہ آسکنے کی صورت میں بچے کے ہاتھ مکھیاری ’’دیکھنے اور پسند کرنے کے لیے‘‘ چیزیں منگوالیتی تھیں۔ جو پسند نہ آتی، واپس پہنچ جاتی۔ پیسے کا ہونا نہ ہونا کوئی معنی نہ رکھتا تھا۔ بس ضرورت ہونی کافی تھی۔ بھلا کوئی آج تک پیسے ساتھ لے گیا؟ اگلے چاند یا اگلی فصل پر چاچا حسن کو پیسے پہنچ جاتے۔ موتی اور نذو لنگڑے تو روز کسی نہ کسی وقت اس کے ہاں پہنچ جاتے۔ پھر ان کا مذاق ہوتا۔ بڑا پد مارنے کا مقابلہ ہوتا، جس میں چاچا حسن ان سے ہمیشہ جیت جاتا۔ موتی اور نذو لنگڑا چاند کے چاند ایک ایک بیسا چاچا حسن کے پاس رکھوا دیتے۔ پھر ان پیسوں سے کبھی صابن تیل، کبھی نسوار بیڑی، کبھی موم بتی تو کبھی چاول یا چینی لیتے رہتے۔ موتی کو لگتا تھا، چاچا حسن سے ایک دو روپے کی چیزیں زیادہ ہی لے لی ہیں، مگر چاچا ان سے حساب کہاں کرتا؟کبھی تو یوں بھی ہوا کسی مجبوری میں چاچا حسن سے پیسے مانگنے جا پہنچے اور اس نے دو چار روپے نکال کر رکھ دیے۔ ’’بھئی سب پیسے اما نت ہیں۔ چاہو تو سارے لے جاؤ۔‘‘ چاچاحسن کی یاد پر موتی کی آنکھوں سے دو آنسولڑھک کر خالی جھولی میں آ ٹپکے۔ اسے پھر خیال ستانے لگا، یہ سب کچھ یکایک بدل کیسے گیا؟ کاش’’یکایک‘‘ اس شہر میں بدروح کی طرح نہ اترتا۔ اس کی سوچوں میں غمزدگی ہربند کو توڑنے لگی۔ انگنت دائرے طواف کی ابتداکرنے لگے۔ اختتام ہنوز منتظر۔
موتی کی کہانی ابھی جاری ہے مگر نذو لنگڑے کی کہانی اختتام تک پہنچ چکی ہے۔ یہ تب ہوا جب بہت پہلے ایک شام، جس وقت سورج اپنا وجود خاتمے کی نذر کرنے لگا تھا، اس وقت نذو لنگڑا تانگا اسٹینڈ کے پاس گزر رہا تھا۔ اسی چال میں۔ مٹکتا، جھٹکے لیتا۔ اس نے چار دیواری سے عاری تھانے کی پیلی عمارت کے آگے منظر دیکھا تھا اور اس منظر نے اسے وہیں گاڑ دیا۔ چھڑکاؤ کی ہوئی مٹی پر ٹاہلی کے نیچے، تھانے کے سامنے، باہر سے آنے والانیا تھانیدار ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے کرسی پر بیٹھا تھا۔ آخوند دریانومل صاحب اس تھانیدار سے ملنے ملانے گئے تھے۔ معمول کی طرح یہی کہنے اور سمجھانے، شہر میں کوئی فساد، جھگڑا یا جرم ہو، آپ کو کسی کارروائی کی ضرورت نہیں۔ بس آخوند صاحب کو آگاہ کردیں۔ وہ خود سنبھال لیں گے۔ اور وہ سنبھالتے رہے ہیں۔ یہ سنتے ہی باہرسے آنے والاتھانیدار غضبناک ہو کر اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اور وہ آخوند دریانو مل صاحب کی زلفوں کو پکڑے ایک دو تھپڑیں جڑ نے کے بعدسیفٹی ریزر سے آخوند صاحب کی زلفیں مُنڈوا رہا تھا۔ نذو لنگڑے نے باہر سے آنے والے تھانیدار کی پھنکارتی آواز سنی تھی۔ ’’تُو ہندو ہو کر ہم پر حکم چلاتا ہے؟ہمیں نوکر سمجھ رکھا ہے کیا؟ہاں؟تیرے باپ کا راج ختم ہوگیا یہاں۔ سمجھے؟بہت ہوگیا۔ نکل یہاں سے اور اپنے سگوں کے ملک جا۔ وہاں جا کر یہ کنجرپن چلانا۔‘‘ تب نذو لنگڑے نے اپنے آپ کو وہاں سے آزاد کیا اور موتی کوخبر کیے بغیر چل نکلا۔ ہو سکتا ہے اس نامختتم ’’یکایک‘‘ کایہی آغازہو۔ ہوسکتاہے نہ ہو۔ بھلا نذو لنگڑے جیسے بے وفا شخص کا کیا اعتبار۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.