کہانی کی کہانی
کہانی میں زندگی کے دو اہم پہلو سکھ اور دکھ کی عکاسی کی گئی ہے، جو دونوں ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔ سکھ بہت خوش ہے اور ملاح سے کہتا ہے کہ وہ کشتی کو اور تیز چلائے، کیونکہ اس کنارے پر بہت سارا سکھ اس کا انتظار کر رہا ہے۔ وہیں دکھ بہت دکھی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ کشتی دھیرے چلے، کیونکہ اس پار اور دکھ اس کا انتظار کر رہا ہے۔ اسی درمیان کشتی بھنور میں پھنس جاتی ہے۔ کسی طرح سکھ اور ملاح مل کر کشتی کو بھنور سے نکال لیتے ہیں۔ اس کے بعد سکھ سوچتا ہے کہ ا گر وہ دکھ کی بھی مدد کرے تو ہو سکتا ہے اس کا بھی کچھ دکھ کم ہو جائے اور وہ اس کی جانب چل پڑتا ہے۔
ناؤ میں دو آدمی سوار تھے۔
ایک چاہتا تھا، ’’ہے بھگوان!یہ ناؤ مجھے جلدی پار لگائے۔‘‘
دوسرا بھگوان سے پرارتھنا کر رہا تھا، ’’ہے بھگوان! یہ ناؤ تو ڈوب ہی جائے۔‘‘
پہلا آدمی سکھی تھا۔ اور بہت سے سکھ دوسرے کنارے پر اس کا انتظار کر رہے تھے۔ دوسرا آدمی بے حد دکھی تھا۔ مزید پریشانیاں دریا پار کی دنیا میں منہ بائے کھڑی تھیں۔ اپنی اپنی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے سکھی آدمی نے ناؤ والے سے کہا کہ بھائی ذرا پتوار تیز تیز چلاؤ تاکہ میں اس پار جلدی پہنچ سکوں۔
دوسراآدمی جو اپنے غم میں ڈوبا پریشان سا تھا، اس نے پہلے مسافر کی بات کو سنا۔ پہلے تو اسے کچھ سمجھ ہی نہیں آئی۔ لیکن پھر پریشانی کے عالم میں اس مسافر کے الفاظ کو فضا سے دوبارہ اکٹھا کرکے سنا اور اس کے مفہوم کوکچھ کچھ سمجھا تو اس نے ملاح سے کہا، ’’نہیں بھائی ملاح۔ تیز جانے کی ضرورت نہیں۔ میں تو کہتا ہوں، اس ناؤ کو کسی بھنور میں پھنسا دو۔ ایسا بھنور جس سے یہ کبھی باہر نہ نکل سکے۔ ڈوب جائے۔ پاتال میں چلی جائے۔ دنیا والوں کو ڈھونڈنے پر بھی نہ ملے۔‘‘ اس سے آگے پتہ نہیں وہ کیا کیا بڑبڑاتا رہا۔ اس نے یہ کہنے کی بھی ضرورت نہ سمجھی کہ پتوار کوآہستہ چلاؤ۔ہاں جب مقصد ہی یہ ہے کہ ناؤ ڈوب جائے تو پھر پتوار کے آہستہ یا تیز چلنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔
سکھی مسافر نے جب دوسرے مسافر کی بات سنی تو اس نے اس کی طرف لاتعلق نظروں سے دیکھا اور من ہی من میں سوچا کہ پتہ نہیں لوگ مرنا کیوں چاہتے ہیں؟ کچھ دیر تو اس کے بارے میں اندازے لگاتا رہا لیکن پھر اس نے دوسرے کی زندگی میں ٹانگ اڑانا مناسب نہ سمجھا۔یوں بھی وہ اپنے سکھوں کی دنیا میں اس قدر رنگا ہوا تھا کہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس پر دوسروں کے دکھوں کا سایہ پڑے۔ اس لیے اس نے ملاح کو ایک بار پھر تاکید کی کہ وہ پتوار تیز تیز چلائے۔
’’نہیں بھائی۔ آہستہ آہستہ چلو۔ بلکہ ہوسکے تو ناؤ کو لہروں کے حوالے کردو۔ پتوار چلاؤ ہی نہیں۔‘‘ دوسرے آدمی نے کہا۔
ملاح نے ان دونوں کی بات کی طرف کوئی دھیان نہ دیا۔ ملاح کا تو کام ہے پتوار چلانا۔ اور ناؤ کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے پہنچانا۔ اسے اپنے مسافروں کی نجی زندگی سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ یوں بھی اس وقت دریا میں باڑھ آئی ہوئی تھی۔ پانی کی رفتار تیز تھی۔ معمول سے بہت تیز۔ دریا کا پاٹ بھی زیادہ پانی آجانے کی وجہ سے زیادہ چوڑا ہوگیا تھا۔ ہوا بھی کچھ مخالف تھی۔ اس لیے ایک تو اسے دریا کی لہروں کو کاٹنے اور اس کے رخ کو دوسرے کنارے کی طرف رکھنے کے لیے کافی محنت کرنی پڑرہی تھی۔ ناؤ کو کھیتے ہوئے راستے پر رکھنے کے لیے زیادہ زور لگانا پڑ رہا تھا۔ لہروں کی تیزی کے سامنے اس کے پتواروں کی کوئی پیش نہیں چل رہی تھی۔ ایسے میں اپنے بازوؤں میں مزید طاقت بھرنے کے لیے اس نے ایک ماجھی گیت گانا شروع کردیا۔
ملاح کا گیت سن کر سکھی مسافر پر نشہ سا سوار ہوگیا۔ اس کے انگ انگ میں سرور بھر گیا۔ کیا گیت ہے۔ اس نے من ہی من میں سوچا۔ ایک ان پڑھ ملاح زندگی کے کتنے بڑے بھید کوآشکار کر رہا ہے کہ پانی آتارہتا ہے، جاتا رہتا ہے لیکن دریا کہیں نہیں جاتا۔ وہ اسی طرح گھاٹ پر ہر وقت موجود رہتا ہے۔ اسی طرح دنیا میں بندے آتے ہیں۔ اپنی عمر بتاکر بندے چلے جاتے ہیں۔ لیکن یہ زندگی دریا کی طرح زمین کے پاٹ پر ہر وقت موجود رہتی ہے۔ اس مسافر کولگاکہ جیسے دریا کی لہروں کی شائیں شائیں، ملاح کے پتوار کی چھپ چھپ اور ملاح کے الفاظ مل کر ایک ایسے گیت میں ڈھل گئے ہیں جو دریا کے پاٹ سے اٹھ کر سارے برہمنڈ پر چھا رہا ہے۔ اوپر آسمان کو اپنے سروں میں سمیٹ رہا ہے اور وہ ملاح جیسے ایسا کھیون ہار ہے جو اسے اس دنیا سے اٹھاکر کسی انجانی دنیا میں لے گیا ہے یا لے جارہا ہے۔
وہ سکھی مسافر اپنے خیالوں میں اس طرح ڈوبا اپنی ناؤ سے اوپر اٹھ کر پتہ نہیں کن آسمانوں کی روح پرور فضاؤں میں سیر کر رہا تھا۔ اس کاوجود جیسے ہلکا پھول ہوگیا تھا۔ خوشبو ہوگیا تھا اور وہ خوشبو بن کر چاروں طرف پھیل گیا تھا۔
گاؤ اور گاؤ۔
پتوار چلاؤ۔ اور تیز چلاؤ۔
اسے پتہ نہیں تھا۔ لیکن اس کے ہونٹ یہ الفاظ ادا کر رہے تھے۔
اس کے برعکس ناؤ میں دوسری طرف بیٹھے دکھی آدمی کی حالت غیر ہو رہی تھی۔ ملاح کے پتوار کی چھپ چھپ اس کے ذہن پر، اس کے دل و دماغ پر ہتھوڑے کی سی چوٹ کر رہی تھی۔ کراری چوٹ۔ اسے لگ رہا تھا کہ اس کا سر، جو ذہنی پریشانیوں کی وجہ سے پہلے سے چکرا رہا تھا، پتواروں کی چھپ چھپ کی چوٹ سےجیسے پھٹ ہی جائے گا۔ پہلے پہل ناؤ میں بیٹھ کر جب اسے چکر سا آیا تھا تو اس کاخیال تھا کہ چاروں طرف دوڑتی اور ناؤ کے گرد چکر کاٹتی ہوئی لہروں کی وجہ سے وہ ایسا محسوس کر رہا ہے جیسے اسے چکر آرہا ہو۔ لیکن تھوڑی دیر بعد جب اس کے ماتھے پر ٹھنڈی ہوا کے ٹکڑانے کے باوجود پسینے کے قطرے پھسلنے لگے تو اس کو یہ احساس ہوا کہ پتوار کی چھپ چھپ اس کی کنپٹیوں پر چوٹ پر چوٹ لگا رہی تھی۔ اور پھر جلتی پر تیل ڈالا ملاح کے گیت نے۔
کیسا بیہودہ گیت ہے اور کیسا بے سرا گا رہا ہے۔ جیسے بوجھ کے نیچے دبا ہوا گدھا ڈکچوں ڈکچوں کر رہا ہو۔ وہ بوکھلا سا گیا۔ تبھی اس کا دھیان دریا میں چکر کھاتی ایسی لہروں کی طرف گیا، جہاں بھنور کی صورت، پانی میں ایک گڈھا سا بن رہا تھا۔ اسے لگاجیسے وہ ان لہروں میں پھنسا نیچے ہی نیچے اترتا جا رہا ہو۔ نیچے اور نیچے۔ دریا کا وہاں پر کوئی تلا نہیں۔ جیسے زمین وہاں پر پھٹ گئی ہو، اور وہ نیچے ہی نیچے پاتال تک پہنچ گیا ہو۔ پاتال، جہاں ہر چیز پانی کی تھی۔ اس کے نیچے پانی اس کے اوپر پانی۔ اور وہ ڈوب رہا تھا۔ نہیں اس کا تو جسم ہی پانی کا بن گیا تھا۔
بند کرو یہ بک بک۔
بند کرو یہ چھپ چھپ۔
غصےمیں تلملاکر دکھی آدمی کا پانی بنا وجود ہاڑمانس کا بم بن گیا تھا۔
بڑبڑا کر ملاح کا گیت بنا وجود ہاڑمانس کا بن گیا اور اسے لگا کہ وہ ناؤ میں بیٹھا ہے اور پتوار چلا رہا ہے۔
ملاح کے گیت کا سر ٹوٹا تو سکھی آدمی کا خوشبو بنا وجود آسمانوں کی بلندیوں سے اترکر پھر ناؤ میں آکر بیٹھ گیا اور دیکھنے لگاکہ ناؤ نے کتنا فاصلہ طے کیا ہے۔ یا وہ دوسرے کنارے سے کتنا دور ہے۔
تبھی اصلیت کو بھانپ کر سکھی آدمی کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی سانس نیچے ہی رہ گئی۔ اس نےگھبراکر دیکھا۔ ناؤ بڑے سے بھنور میں پھنسی ایک ہی جگہ یوں چکر پرچکر لگا رہی تھی جسے ہماری دھرتی اپنے محور پر سورج کے گرد چکر کاٹا کرتی ہے۔ دونوں میں فرق صرف یہ تھا کہ دھرتی کاچکر کاٹنا کسی کو محسوس نہیں ہوتا اور ناؤ کے چکر کھانے کی وجہ سے اسے چکر آنے شروع ہوگئے تھے۔ ملاح ناؤ کو اس بھنور سے نکالنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا تھا۔دکھی آدمی نے ناؤ کو چکر کاٹتے دیکھا تو اس کے دل کو سکون سا ملا۔ اسے لگا کہ بھگوان نے اس کی سن لی ہے۔ تھوڑی ہی دیر کی بات ہے۔ ناؤ ڈوب جائےگی اور اسے دنیا کے تمام دکھوں سے نجات مل جائے گی۔
سکھی آدمی کے چہرے پر ہوائیاں اڑرہی تھیں۔ وہ اپنی جگہ پربیٹھا اپنی ساری طاقت ملاح کو دے آرہاتھا۔ اپنے بازوؤں کی طاقت کوملاح کے بازوؤں میں بھر رہاتھا تاکہ اسے ناؤ کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے مدد مل سکے۔ اس کا سارا وجود پتوار بن گیا تھا اور اس کے سکھوں بھری زندگی کی دشمن ہو رہی ایک ایک لہر سےلڑ رہا تھا۔ ملاح تو ناؤ کو بھنور میں پھنسا دیکھ کر ملاح رہ ہی نہیں گیا تھا۔ وہ خواجہ خضر بن گیا تھا۔ حضرت نوح بن گیا تھا۔ جیسے اس کے ذمے اس کی ناؤ میں بیٹھے دو آدمیوں کو نہیں بلکہ پوری زندگی کے وجود کوبچانا تھا۔ پوری دھرتی کو بچانا تھا۔ دھرتی جو ساری زندگی کامنبع ہے، اسے بچاناتھا۔وہ اپنا پورا تان لگا رہاتھا۔ اس نے اپنے بازوؤں میں دوڑ رہے خون کو جیسے اپنے ہاتھوں میں پکڑے پتواروں میں بھر دیا ہو۔ وہ پتوار جاندار بن کر پانی کی لہروں سے لڑ رہے تھے، جو جھ رہے تھے۔
اور پھر یہ ہوا کہ جب ایک انسان کا خون دوسرے آدمی کے وجود میں طاقت بن کر دوڑا اور ملاح کے بازو ہی پتوار بن گئے تو لہریں ہار گئیں۔ بھنور ہار گیا، دریا ہار گیا اور ناؤ ایک میل کا لمبا چکر کاٹتی ہوئی بھنور سے باہر نکل آئی، اور دوسرے کنارے کی طرف دھیرے دھیرے یوں بڑھنے لگی جیسے۔۔۔ جیسے آپ نے کنول پھول کو پانی پر تیرتے دیکھا ہوگا۔۔۔ ویسے ناؤ جب پرسکون لہجے میں دھیرے دھیرے سرکتی ہوئی دوسرے کنارے کی طرف بڑھ رہی تھی تو ملاح پھرحضرت نوح کا چولا اتار کر عام ملاح بن گیا۔ اپنی ناؤ اور ناؤ پر سوار دو آدمیوں کی جان بچا کر جیسے اس نے ساری دنیا کو ڈوبنے سے بچا لیا تھا۔
ایسے موقع پر اس کی خوشی اس کے ہونٹوں پر گیت بن کر تھرک اٹھی۔
ندی بہتی جائے۔
ندی رہتی جائے۔
ہم بہیں بھی اور رہیں بھی۔
کوئی ایسا کرو اپائے رے۔
پانی آئے رے، پانی جائے رے۔
ملاح کے گیت کے یہ بول جب دریا کی لہرں پر تیرتے ہوئے دور فضاؤں میں بکھر رہے تھے تو سکھی آدمی دیکھ رہا تھا کہ ناؤ کو ڈوبنے سے بچاکر ملاح کو کس قدر سکھ ملا تھا، ایک سکون تھا، خوشی تھی جو روشنی کا ہالہ بن کر ملاح کے چہرے کے گرد پھیل رہی تھی۔ گیت کے بول بن کر فضا میں بکھر رہی تھی۔ اس نے ناؤ کو ڈوبنے سے نہیں بچایا تھا، اس کے سکھوں کو بھی ڈوبنے سے بچایا تھا۔ اور صرف اس کے سکھوں کو ہی نہیں، اس کے رشتے دار، دوست احباب، اس کے جاننے والے جن کے ساتھ مل کر وہ سکھوں کو بھوگتا ہے، ان سب کےسکھوں کو بچایا ہے۔ جس طرح پانی میں کنکر پھینکا جائے تو اس میں لہروں کا ایک دائرہ سا بنتا ہے، اس کی لہریں دور تک پھیلتی چلی جاتی ہیں، اسی طرح اس کے سکھوں کی لہریں بھی دور تک پھیلتی چلی جائیں گی۔
اور پھر سکھی آدمی نے سوچا۔ میں نے تو صرف نظروں ہی نظروں میں ملاح کی ہمت بندھائی تھی۔ جذباتی سطح پر ہی اس کی حوصلہ افزائی کی تھی، اور اس نے ناؤ کو ڈوبنے سے بچالیا۔
ایسے میں اگر میں حقیقی طور پر اس دکھی آدمی کی مدد کروں تو کیا۔۔۔
اس نے نظریں اٹھاکر ناؤ کے دوسرے کنارے پر بیٹھے دکھی آدمی کی طرف دیکھا۔اس کا چہرہ غمگین تھا۔ اسے لگتا تھا کہ پانی کے بھنور سے تو وہ بچ کر آگیا ہے لیکن دریا کے دوسرے کنارے پر دکھوں کے جو بھنور اس کا انتظار کر رہے ہیں، ان سے بچنا محال ہوگا۔ اس کی نظریں اب بھی پیچھے چھوٹ گئے دریا کے اس حصے پر جمی تھیں جہاں پانی کے گہرے بھنور بن رہے تھے۔
’’نہیں۔ میں اسے ڈوبنے نہیں دوں گا۔‘‘ سکھی آدمی نےسوچا۔وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور ناؤ کے دوسرے حصے میں جاکر دکھی آدمی کے پاس بیٹھ کر اس کے کندھے پر ہمدردی کا ہاتھ رکھ دیا۔ناؤ پانی کی ہموار لہروں پر دھیرے دھیرے سرکتی دوسرے کنارے کی طرف بڑھ رہی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.