ایک رات کی خاطر
میرے کندھوں سے کب اترے گا صابی تو بولتا کیوں نہیں؟ تجھے پتہ ہے اب میں بوڑھا ہو چکا ہوں۔ میرے قویٰ جواب دے گئے ہیں۔ تجھے لاد کر دو قدم چلتا ہوں تو میری سانس پھول جاتی ہے۔ مجھے ناف پڑ جاتی ہے ناف ٹھیک ہوتی ہے توچک پڑ جاتی ہے اے زلیخا کے معبود تجھے مجھ پر ترس کیوں نہیں آتا؟ تو نے مجھے زندہ درگور کیوں کر دیا ہے؟ درختوں پر بھی پھل آئیں تو ان کی ٹہنیاں سر سبز ہو جاتی ہیں، میں کتنا بد نصیب ہوں کہ مجھے بھاگ بھی لگے تو گھن کی طرح۔ تیری ماں خوش قسمت تھی کہ اتنی جلدی اسے زندگی سے چھٹکارا مل گیا۔ میر ی زندگی بھی کیا زندگی ہے، مرنے سے کہیں بدتر، کہیں مشکل۔
جی میں آتا ہے گھٹنوں تک تیری ٹانگیں کاٹ کر تجھے چارپائی پر ڈال دوں۔ کم بخت، نصیب مارے نہ تو گھر سے باہر نکلے اور نہ مجھے لوگوں کی کڑوی کسیلی باتیں سننا پڑیں۔ آج تو چودھریوں کے پروہنے پر کیوں بھونکا تھا۔ موئے تو نے بھونکنے پر ہی اکتفا نہیں کیا، تو نے دانتوں سے اس کی ٹانگ بھی بھنبھوڑ ڈالی۔ پھر وہ تجھے مارتے نہیں تو اور کیا کرتے! پتہ ہے تجھے جتنی بھی سوٹیاں لگیں سب کی سب میرے دل پر برسیں۔ میں کتنا بےبس ہوں انہیں تمہیں اور مارنے کا کہتا رہا۔ مجھے معاف کر دے صابی! میں ان کے قہر سے ڈر گیا تھا اور جس بات سے میں ڈر رہا تھا وہی ہو کر رہی۔ ظالموں نے میری ہڈی پسلی بھی ایک کر دی۔ میں تو بس یہی کہتا ہوں جنہوں نے تمہیں مارا اللہ ان کو تمہارے جیسی اولاد دے تو میرے سینے میں ٹھنڈ پڑے۔ آج تو مجھے تم پہ بہت غصہ آیا۔ جی میں آیا کلہاڑی سے تمہاری بانہیں اور پنڈلیاں کاٹ دوں جن سے تو چوپائیوں کی طرح چلتا ہوا ڈیوڑھی سے باہر نکل جاتا ہے۔ اگر تجھے قید کر کے رکھوں تو رو رو کر آسمان سر پہ اٹھا لیتا ہے کتنا ظالم ہے تو! میں تیرا کیا علاج کروں۔ غصے میں کیا سے کیا سوچ جاتا ہوں مگر پھر تمہاری ماں کی تصویر میری آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔ تیرے ہونے سے پہلے ہم دونوں نے کتنے خواب سجائے تھے۔ سوچا تھا تو آئے گا تو گھر میں بہار آ جائےگی مگر تو ایسا آیا کہ اپنی ماں کو کھا گیا۔
تمہاری لکڑی ایسی ٹانگوں کی مالش کرتے کرتے میری بانہیں سو گئی ہیں جی میں آتا ہے ٹوکے سے تجھے اتنا باریک کتر دوں کہ تیرے ذرے خاک میں مل کر خاک ہو جائیں مگر پھر اپنی بےبسی آڑے آتی ہے۔ سوچتا ہوں غصے کا ابال اترےگا تو تجھے زمین سے کیسے اکٹھا کروں گا، تجھ سے کیسے باتیں کروں گا۔ تو میرے جسم کا حصہ ہے مجھے احساس ہے کہ میں کوئی درخت نہیں جو ایک شاخ کاٹ دی تو دوسری نکل آئےگی۔ دوسری نکل بھی آئے تو تمہاری جگہ نہیں لے سکتی تو میری پلوٹھی شاخ ہے ناں۔ مگر تیرے ساتھ تو یہ ساری باتیں ہی فضول ہیں نہ تو یکھتا ہے نہ سنتا ہے اور نہ سمجھتا ہے تو تو پتھر ہے پتھر! نہ دکھ تجھ پہ اثر کرتا ہے اور نہ سکھ تجھے فرحت دیتا ہے وہ خود کلامی کی سی کیفیت میں بولتا رہا مگر صابی اپنے دھیان اس کے کان کو چاٹے جا رہا ہے اور اس کی رالیں اس کے باپ کی قمیض میں جذب ہوتی جارہی تھیں۔ ایک دوبار اس نے تنگ آکر ہاتھ کی مدد سے صابی کے منہ کو کان سے دور کیا مگر صابی کے چیخنے چلانے پر دوبارہ اس کے منہ کو پکڑ کر اپنے کان پر لگا دیا۔ وہ رو رہا تھا مگر پتھر کا صنم اپنے دھیان مکھیوں کی طرح اس کے کان کا گڑ چاٹے جا رہا تھا۔
ڈیرے پر پہنچ کر اس نے صابی کو ایک طرف رکھا اور بیلوں کی کھرلی میں گتاوا کرنے کے لیے آستینیں چڑھانے لگا۔ صابی کی آواز پر وہ ایک بار پھر چونکا۔ صابی نے اس کے سامنے ہاتھ پھیلا رکھا تھا اور کہہ رہا تھا، بابا آں! چھنا دے۔ اسے پھر سے غصہ آ گیا۔
بولا آنہ کہاں ہے کم بخت میرے پاس اور تمہارے لئے اتنے آنے کہاں سے لاؤں میں، تمیں تو سارا دن یہی کام ہے۔ صابی چیختا رہا اور وہ اس کی طرف متوجہ ہوئے بغیر اپنے کام کرتا رہا۔ بھینس کو چارا ڈالنے کے بعد وہ حقہ لے کر ایک طرف بیٹھ گیا اور اس بات کا انتظار کرنے لگا کہ بھینس کو چارا کھا لے تو وہ اس کا دودب دھوئے اور سورج غروب ہونے سے پہلے واپس گاؤں پہنچ جائے۔
واپسی پر پھر اس نے صابی کو کندھوں پر لادا اور بائیں ہاتھ میں دودھ کی بالٹی لے کر گاؤں کی طرف چل پڑا۔ صابی کو جیسے بھولا ہوا سبق یاد آگیا۔ اس نے پھر چپڑ چپڑ کان کو چوسنا شروع کر دیا۔ ایک دوبار تھوک کی وجہ سے موہن کو اپنا کان بند ہوتا محسوس ہوا تو اس نے چھوٹی انگلی کی مدد سے اسے صاف کیا اور دودھ کی بالٹی کو ایک ہاتھ سے دوسرے پاتھ میں بدلتا گاؤں کی طرف بڑھنے لگا۔ جب وہ چوراہے میں پہنچا تو اسے دور سے اماں جنتے نظر آئی جو دوسرے گاؤں کی طرف سے آنے والی سڑک پر چلی آ رہی تھی۔ اسے یاد آیا کہ وہ اسی کے کام سے دوسرے گاؤں گئی ہوگی۔ اس نے کئی بار جنتے سے کہا تھا کہ اسے دوسری شادی نہیں کرنی مگر وہ ایک نہ مانی اور یہی اصرار کرتی رہی کہ اسے دوسری شادی ضرور کرنی چاہیے۔ وہ کہتی تھی ضروری تو نہیں کہ دوسری بیوی سے بھی اس کی اولاد صابی جیسی ہو اور پھر تمہارے گھر میں روٹی پکانے والا بھی تو کوئی نہیں۔ اگرچہ اس کی قسمت کے حساب سے اس کی زندگی میں کسی خوشی کی آمد خارج از امکان تھی مگر چار و ناچار اس نے شادی کے لیے ہاں کر دی۔ وہ جنتے کی طرف منہ کر کے ابھی یہ سوچ رہا تھا کہ وہ اس کے قریب آ گئی اور پسینہ پوچھتے ہوئے بولی، لڑکی والوں نے ہاں کر دی۔ پہلے تو وہ صابی کی وجہ سے کچھ گھبرائے مگر جب میں نے بتایا کہ تمہاری دو بیگھے ذاتی زمین ہے تو وہ راضی ہو گئے۔
صابی کو ڈھوتے ڈھوتے اس کی زندگی کے بارہ سالوں کی طرح بارہ دن بھی بیت گئے اور اس کی شادی ہو گئی۔ گھر میں کوئی خوشی کا موقع ہوتا تو شاید ضرور ہاتھ آتا البتہ دکھ کی بات تھی سو وہ ہو کر رہی۔ پہلے تو صابی کو صرف گاؤں کے لوگ پیٹتے تھے۔ اب اس کے گھر میں اس کی جان کی ایک اور دشمن آ گئی تھی۔ شادی کے تیسرے ہی دن صابی کی دوسری ماں نے اپنے میکے کے سوٹ پر تھوک لگانے کی پاداش میں مرچوں والا سوٹا اس کے منہ پر دے مارا جس سے صابی کا اوپر والا ہونٹ لہولہان ہو گیا۔
موہن نے بیوی کو بہت سمجھایا کہ یہ تو پاگل ہے، نادان ہے مگر اس کے تیور مزید بگڑ گئے اور وہ غصے سے چیخنے لگی۔ نہ دن کو چین نہ رات کا آرام، اس مصیبت نے تو میری زندگی عذاب میں ڈال دی۔ اسے کہیں دفعان کیوں نہیں کرتے، اس سے تو اچھا ہے اسے نہر میں پھینک دو۔ شریفاں کے منہ سے نہر کا لفظ سن کر اسے اپنے کندھوں سے بوجھ اترتا محسوس ہوا مگر اس کی آنکھوں کی چمک دھند میں ڈوبتی چلی گئی۔ شریفاں کی کروٹوں اور اپنی بیزاری نے اسے مزید اندھا کر دیا۔
اس نے سوچا شریفاں کیا کہہ رہی تھی؟ صابی کو نہر میں پھینک دوں! مگر کیسے؟ یہ تو میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔ پھر اس نے سوچا اگر جسم کا حصہ ناسور بن جائے تو اسے کاٹ کر پھینک دینا چاہیے بالکل ویسے ہی جیسے درختوں کی خشک ٹہنیاں کاٹ دی جاتی ہیں۔
وہ سارا دن خاموش رہا۔ پچھلے پہر اس نے صابی کو اپنے کندھوں پہ لادا اور ڈیرے کی طرف چل پڑا۔ آج رات اس کی پانی کی باری تھی۔ آج اس نے صابی سے کوئی بات نہیں کی، نہ اسے دکھ سنایا اور نہ اپنی ڈھارس بندھائی۔ آج شام اس نے بھینس کا دودھ بھی نہیں دھویا۔ عشاء کی اذان کے ساتھ اس نے صابی کو اپنے کندھوں پر اٹھایا اور سوئے کے کنارے چلتا رہا، چپ، گم صم ایک ڈیڑھ گھنٹہ پیدل چلنے سے سردی کی رات میں بھی اس کے کپڑے پسینے سے بھیگ گئے۔ بڑی نہر کی پٹڑی پر پہنچ کر اس نے اپنی الجھی ہوئی سانسوں کو درست کرنے کی کوشش کی۔ اس نے سوچا اس بوجھ کر یہیں سے پھینک کر واپس بھاگ جائے مگر پھر اسے خیال آیا کہ یہ کم بخت کنارے کے پاس گر کر شور نہ مچا دے اس لئے وہ اسے اٹھائے ہوئے پل پر پہنچ گیا۔ پل کو آدھا پار کرنے کے بعد اس نے لوہے کے جنگلے سے نیچے جھانکا اور اپنی آنکھیں بند کر کے اپنے کندھوں کے بوجھ کو نہر میں دھکا دے دیا۔
چھپ کی ایک زور دار آواز نے کچھ لمحوں کے لئے اس کے اعصاب شل کر دیے مگر جیسے ہی اسے ذرا ہوش آیا اس نے دوڑ لگا دی۔ بڑی نہر سے کافی دور آ کر اس کے کان میں خارش ہوئی تو اس نے نادانستہ صابی کے منہ کو پکڑ کر اپنے کان سے لگانے کی کوشش کی مگر صابی تو نہیں تھا! اس کا دل دھک سے بیٹھ گیا۔ اس نے سوچا اس کے کندھوں کا بوجھ کم ہو گیا! مگر یہ کیا؟ کندھوں کا سارا بوجھ دماغ میں منتقل ہو گیا تھا اور دماغ کندھوں سے کہیں نازک تھا۔
گھر پہنچتے پہنچتے اسے تیز بخار ہو گیا اور وہ اپنی چارپائی پر اوندھے منہ گر پڑا۔ بہت سے پچھتاوؤں نے اسے گھیر لیا جس میں ایک پچھتاوا یہ بھی تھا کہ آج کی رات بھی شریفاں کی رات نہ ہو سکی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.