جولاہے بہت پریشان تھے، انہیں ڈر تھا کہ کہیں کمہاروں کی بیٹی کی طرح ان کی بیٹی بھی کسی آفت کا شکار نہ ہو جائے۔ مگر سموں جولاہن جس کا خمیر جانے کس مٹی کا بنا تھا کسی کی بات پر کان نہ دھرتی تھی۔ حسن ہمیشہ مغرور ہوتا ہے یا مغرور سمجھ لیا جاتا ہے پس ایسا ہی کچھ معاملہ سموں کے ساتھ بھی تھا۔ سموں کی انگلیوں میں فن تھا اور دستکاری اس کے رگ و ریشے میں پیوست تھی۔ پھرآرٹس کی اعلی تعلیم نے اس کے ہنر کو گویا چار چاند لگا رکھے تھے۔ شاید اسی لیے اس کی بستی والوں کو ڈر تھا کہ کہیں کچے گھڑے کے ساتھ بیچ منجھدار ڈوب نہ جائے۔
سموں نے اپنے گرد کئی تانے بانے بنے ہوئے تھے جیسے کوکون اپنے گرد ریشم لپیٹ کر خود کو محفوظ رکھنے کی سعی کرتا ہے مگر یہی ریشم اس کی موت کا سبب بنتا ہے۔ بیچارہ یہ نہیں جانتا کہ اسی ریشم کے لیے پالا گیا ہے نہ کہ پروانہ بنانے کے لیے۔ تو سموں کا بھی یہی حال تھا اس کا فن، حسن، ذہانت اور فخر جہاں اس کی ہستی کو سنوارتے تھے وہیں کبھی بھی اس کو مٹانے کا سبب بھی بن سکتے تھے۔ کون جانے کہ ریشم کی چاہ میں کب کوکون کو بھاپ کے سپرد کر دیا جائے۔
گوری چٹی سنہرے بالوں اور ہلکی بھوری آنکھوں والی سموں کے دماغ میں نجانے کیوں ایک عجیب سی سرکشی بھری تھی۔ اپنی ذات کا ادراک اس کا سب سے قیمتی زیور تھا۔ اس کی انگلیوں میں گویا سحر تھا اور اپنے من کو کپڑے اور کاغذ پر پینٹ کرنا آتا تھا۔ وہ جس کام کا ارادہ کر لیتی، اسے پایہ تکمیل کو پہنچا کر ہی دم لیتی تھی۔
بستی کے باہر کئی بنجارے اس کی راہ تکتے مگر وہ سب سے بے نیاز تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ سب اپنی اپنی راہ ہو لیتے کہ اس پتھر کی مورت سے سر پھوڑنے کا کیا فائدہ۔ کبھی کبھی اسے محسوس ہوتا کہ ایک انجابی ڈور الگ سے اس کی روح کے تانے بانے کے بیچ میں اریب ڈال رہی ہے۔ بہت پر سکون نظر آنے کے باوجود اس کا دل چاہتا کہ اس ڈور کو کاٹ پھینکے اور آسانی سے سانس لے۔ مگر ہر طرف سے ڈوریوں میں جکڑی روح اپنے من میں اتنی شانت کیسے رہتی تھی؟ اس بات کا بھید پانے کی آرزو دیوی دیوتاٶں کو بے چین کیے رکھتی۔ اس نے اپنا چرخہ چھوڑا تھا نہ ہی کھڈی۔ اس کے کاتنے، بننے، رنگنے اور سنوارنے کا ہنراب دیسوں ملکوں سر چڑھ کر سر چڑھ کر بول رہا تھا۔
ایک دن پرانی دیویوں کو اس کے کاتنے سے سوت کی طرح جلن ہونے لگی۔ سموں کو ڈبونے کے لیے کوئی کچا گھڑا رکھنے کی کوشش کامیاب نہ ہو پائی تھی لہذا اس کو ارکنی کی طرح سبق سکھانے کا فیصلہ کیا گیا۔
ایک دن ایتھنے بھیس بدلے سموں کی بستی میں آن موجود ہوئی۔ ریشمی لباس میں ملبوس اور ریشم کی تہوں میں لپیٹے کئی ہتھکنڈے ساتھ لیے ہوئے تھی۔ جولاہے گھبرا گئے کہ انھوں نے صدیوں دور دیس سے تاجروں کے بھیس میں آنے والے حملہ آوروں کی صعوبتیں جھیلی تھیں۔ ایتھنے کو امید تھی کہ سب سر جھکا کر ملیں گے مگر کم ذات جولاہے اتنی جلد سر جھکانے کے عادی نہ تھے۔ گئے وقتوں میں اسی جرم کی پاداش میں ان کے آباٶ اجداد کی انگلیاں کاٹ دی گئی تھیں کیوں کہ نہ تو اپنا فن مفت بیچنے کو تیار تھے اور نہ ہی اپنا پیشہ تبدیل کرنے کے عادی۔ ان جولاہوں نے اپنے اس چرخے کو گھروں اور گیتوں کی زینت بنا کر سپنننگ، ویوینگ اور سائزینگ کی دستکاریاں لگا لیںاتھیں۔ جہاں کھیتوں کی چاندی کو ہنر مندی سے عمدہ میعار کے کپڑے میں بن کر سونا کمایا جا سکتا تھا۔
داؤ پیچ شروع ہوئے۔ سموں کے گرد مکڑی کے جالے بنے جانے لگے۔ کہیں ایکسپورٹ کا کوٹہ، کہیں ڈیوٹی، کہیں وسائل کی عدم دستیابی اور کبھی بجلی کی بندش۔ دھیرے دھیرے فن محدود ہوتا گیا اور روٹی روزی کے لالوں نے جولاہوں کی نیندیں حرام کر دیں۔ ان حالات میں سموں کے فن کو سانس لینے کے لیے ہوا تک بھی کم محسوس ہوتی تھی۔ ایک آرٹسٹ اپنا فن کب تک کاغذ کینویس اور رنگوں کی قیمت پر بیچتا ہے؟ اس لیے ایتھنے کو امید تھی کہ ایک دن سموں بلا مقابلہ ہی دستبردار ہو جائےگی۔
مگر ایسا نہیں تھا ایتھنے کو بالاخر سموں کے مقابل آنا ہی پڑا۔ وہ دیومالائی داستان کی دیوی تھی جس نے ان کہانیوں کے مطابق زیوس کے سر سے جنم لیا تھا، گویا وہ عقل ہی عقل تھی تو دوسری جانب سموں سر تاپا حسن و فن سے سجی ایک زندہ حقیقت۔ ایتھنے کے اندر طاقت تھی ہنر تھا غرور تھا اور دوسری جانب سموں کی رگ رگ میں صدیوں کا ہنر پرویا ہوا تھا، ہزاروں سال سے اس کی نانیاں دادیاں چرخہ لے کر بیٹھتیں تو کاتنے کے ساتھ ساتھ لمبی ہوک بھر کر ماہیے گاتیں، ان کے سینوں میں عشق کی تڑپ تھی ان کے پسینوں میں پہلی بارش کے بعد مٹی سے اٹھنے والی مہک تھی۔ ان کی آنکھوں میں جگنو چمکتے تھے اور چہرے پر روہی کی لہروں کا جال بچھا تھا۔ انھوں نے نسل در نسل اپنی اقدار کی حفاظت کی تھی۔ سموں ان کا مان تھی کیسے شکست تسلیم کر لیتی۔
دوسری جانب دیوی اپنے سب جال بچھائے منتظر تھی۔
سموں کہنے لگی کہ میں ارکنی نہیں ہوں کہ جس کے سامنے شکست خوردہ ہونے کی ذلت سے بچنے کے لیے تم نے اسے مکڑی بنا دیا تھا۔ تم ہماری بستی میں ایک دخیل کی مانند آئی ہو، اگر مہمان بن کر آتی تو ہم اپنے مہمانوں کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں، مگر تمہارے ارادے نیک نہیں لگتے۔
ایتھنے نے با رعب مگر میٹھے لہجے میں جواب دیا: تم لوگ نہ جانے کس غلط فہمی کا شکار ہو۔ میں تو تم لوگوں کی مدد کرنے آئی ہوں۔۔۔ کاتو، بنو، رنگو مگر میرے پاس بیچو۔ میرا نام لگا کر چھاپ دو۔۔۔ اچھے دام دلا دوں گی۔
سموں مسکراتے ہوئے بولی: یعنی تم تسلیم کرتی ہو کہ اب ہمارا فن تمہیں پیچھے چھوڑنے والا ہے مگر تم اپنی حاکمیت سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہو۔
ایتھنے نے جواب دیا تمہارے صدیوں پرانے فن میں میں نے نئی روح پھونکی ہے تم لوگوں کو زندگی کے جدید طریقوں سے روشناس کرایا ہے، مگر تم لوگ جاہل کے جاہل ہی رہنا میری تجویز میں تم لوگوں کا فائدہ ہے۔ جب پیٹ بھرا ہو تو ایسے افکار بھلے لگتے ہیں۔ خالی پیٹ تو چاند بھی روٹی ہی نظر آتا ہے۔
ٹھیک ہے کہ ہم نے تم لوگوں سے کئی ہنر سیکھے ہیں مگر یہ ہنر اتنے مہنگے نہیں تھے کہ ان کے خراج میں اپنے وجود گروی رکھ دیے جائیں۔
اگر ہم اپنا و جود گروی نہ رکھیں تو تم کیا کروگی؟ کیا ہمیں بھی مکڑی بنا دوگی؟ نہیں اب ہرگز ایسا ممکن نہیں۔
اب تم خود پر سجا انسانی حقوق کا خول اتنی آسانی سے اتار کر پھینک نہیں سکتی۔ سموں کی اس بات کے جواب میں ایتھنے کے ہونٹوں پر زہر آلود مسکراہٹ ابھری، کہنے لگی دیکھ لو کتنی قومیں مجھے خراج ادا کرتی ہیں تم جیسی حقیر ہستی آخر کب تک میرے سامنے ڈٹی رہےگی۔
مگر سموں اپنے ارادے کی پکی تھی ہار ماننے پر تیار نہ ہوئی۔ جانتی تھی کہ جدید دور میں جب دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے کوئی اس کی انگلیاں کاٹ کر نہیں لے جائےگا۔ اس کا فن، اس کا مان اور صدیوں کا ہنر اتنی آسانی سے خاک میں نہیں مل سکتا۔
ایتھنے لاجواب ہو کر خاموش ہو گئی مگر سموں کو لگا کہ یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔
قمری مہینے کی آخری راتیں تھیں چاند کو جانے کس پہر طلوع ہونا تھا؟ اندھیرا پھیل چکا تھا اور جھینگروں کی آوازیں رات کی گہرائی میں مزید اضافہ کر رہی تھیں۔ ٹمٹماتے تاروں نے آسمان کے آنچل پر پھیل پر اپنے رب کے بنائے نمونوں کو مزید روشن کر دیا تھا۔ اسی دورران ایتھنے کہیں اندھیرے میں گم ہو گئی اور سموں آنے والے وقت کی فکر میں غلطاں و پیچاں نیند کی وادیوں میں جا پہنچی۔
ہر صبح ایک نیا دن، نئی امید کے ساتھ طلوع ہوتا ہے اور اسی نئی امید کو لے کر جب سموں نے دن کا آغاز کیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اس کی بستی کے سب گھروں سے چرخے غائب ہیں اور دستکاریوں سے راتوں رات کھڈیاں اکھاڑ لی گئی ہیں۔
اگرچہ کاتنے کے لیے ان سب کی انگلیاں تو سلامت تھیں مگر چرخے غائب تھے؟
سموں اپنی بستی کے بڑے بوڑھوں کے پاس پہنچی کہ دریافت کرے ماجرا کیا ہے؟
ایتھنے نے ان کی سب پرانی کھڈیاں خرید کر انھیں اپنی نئی ملوں میں کام دلا دیا تھا جہاں ان کو بہتر معاوضے کا لالچ دیا گیا تھا اور مزید یہ کہ وہ کاروبار اور تجارت کے داٶ پیچ اور نفع نقصان کی فکر سے آزاد رہیں گے۔ بستی والوں کو کہا گیا تھا کہ اب ان کے مالی حالات سدھر جائیں گے قرض اتریں گے اور خوش حالی کا دور دورہ ہوگا۔
بستی سے باہر دور پرے دریا کنارے اپنی بستی کے سب چرخے جلتے دیکھ کر سموں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ دھویں کے مرغولوں کے ساتھ پرانی وقتوں کی سوت کاتنے والی بڑھیا کے ماہیے نوحوں کی مانند فضا کو مغموم کیے ہوئے تھے۔ کتنی دیر تک وہ فضا میں بلند ہوتے شعلوں کو دیکھتی رہی پھر اچانک وہ تلخ مسکراہٹ سے ایتھنے کو دیکھنے لگی۔
چرخوں کی آگ بجھ نہیں رہی تھی اور ان سے بلند ہوتے شعلوں نے ایتھنے کے ریشمی لباس کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.