Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فاختہ کی چونچ میں دانہ

دیوندر ستیارتھی

فاختہ کی چونچ میں دانہ

دیوندر ستیارتھی

MORE BYدیوندر ستیارتھی

    یوں مجھے کالی ناتھ سے پوری ہمدردی ہے۔ اس کی سوجھ بوجھ کا میں قائل ہوں۔ اس کی ذہانت کا سکہ ماننے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا۔ باہر والوں میں جو افسانہ نگار کالی ناتھ کو پسند ہیں وہ مجھے بھی کچھ کم پسند نہیں۔ اسی لیے تو مجھے کبھی اس کی بات کاٹنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔

    شروع میں کالی ناتھ سے میری ملاقات ہوئی تو وہ ٹیگور کے کچھ افسانے پڑھ چکا تھا۔ پھر اس کی رسائی شرت تک ہوئی تو وہ شرت کا ہوکر رہ گیا۔ کم سے کم ان دنوں تو مجھے یہی محسوس ہونے لگا تھا۔ یہاں تک کہ کبھی کوئی پریم چند کا ذکر چھیڑ دیتا تو وہ ناک بھوں چڑھا کر ادھر ادھر دیکھتا جیسے اس آب و ہوا میں اس کا دم گھٹا جا رہا ہو۔ اب کالی ناتھ نے پریم چند کے کچھ افسانے بھی پڑھ ڈالے ہیں اور بات بات میں پریم چند کا ذکر کرتا ہے۔ لیکن یہ بات نہیں کہ وہ چیخوف، موپسان، ہنری اور سمرسٹ ماہم کو بالکل بھول گیا ہو۔

    جب بھی کسی روز ہماری محفل جمتی ہے تو ہمارے بیشتر دوست کالی ناتھ کی زبان سے بار بار یہ جملہ سن کر کہ ’ہم باہر والوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے‘ تنگ آ جاتے ہیں۔ یہ غنیمت ہے کہ کالی ناتھ کم سے کم پریم چند کا ذکر ضرور کرتا ہے لیکن یقین کیجیے، پریم چند کا ذکر وہ یوں کرتا ہے جیسے باتیں کرتے کرتے وہ ایک آدھ جمائی لے لے۔

    کبھی آپ بھی آئیے ہماری مجلس میں۔ ایک آدھ شام ہمارے ساتھ گذارکر دیکھیے اور بھی بہت سے دوستوں سے ملائیں گے۔ باہر کھلی جگہ ہے۔ میز لگے رہتے ہیں۔ گملوں میں پھول دیکھیے۔ پاس والی کرسی پر کوئی فاختہ بھی نظر آ سکتی ہے۔ کوئی معصوم چہرہ۔ ایک دم معصوم۔ فاختہ کا تصور برا نہیں۔ امن کی تمام تر اشاریت ایک فاختہ پر قربان ہے۔ برسات کے موسم میں جب آسمان پر بادل گھرے ہوئے ہوں اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی ہو تو کھلی جگہ میں کسی میزپر ہماری محفل جمتی ہے۔ نئے آنے والوں کے لیے ادھر ادھر سے کوئی نہ کوئی کرسی کھینچ لینے سے کام چل جاتا ہے۔

    کالی ناتھ ہماری مجلس کا روح رواں ہے۔ کوئی اس سے اتفاق کرے نہ کرے۔ وہ اپنی بات ضرور کرےگا۔ افسانے کا موضوع ہو تو بازی اسی کے ہاتھ میں رہتی ہے۔ شاعری کا موضوع ہو تو بھی وہ جی جان سے باگ ڈور کو سنبھالے رکھتا ہے۔ چاہے موضوع سائنس ہو، پالٹیکس ہو، اخبار نویسی ہو اور چاہے تحریک آزادی یا عالمگیر امن کی تحریک، وہ ہر ایک پر بول سکتا ہے اور اپنے خیال کی تائید میں نہ جانے کہاں سے حوالہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتا ہے۔ میں تو حیرت زدہ رہ جاتا ہوں۔

    کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنی مجلس میں چلنے والی بحث سے ایک دم دل چراکر میں اپنے ہی خیالات کی دنیا میں کھویا رہتا ہوں اور میرا دھیان اس وقت لوٹتا ہے جب ہماری مجلس کا کوئی رکن میری موجودگی کے باوجود میری ذہنی غیرموجودگی کا پتہ چلتے ہی میرا بازو جھٹک کر کہتا ہے۔ ’’ارے بھائی! تم کس سوچ میں ڈوب گئے؟‘‘ میں اس وقت اپنے اس وقتی ماحول کو دیکھتا ہوں جو کسی اور ہی ملک کی زبان بولتا ہے اور میں سوچتا ہوں کہ کالی ناتھ کبھی اپنی دھرتی کی زبان کیوں نہیں بولتا۔

    ہماری شام کی محفلوں کا ایک رکن ہے ساہنی۔ اب سا ہنی ٹھہرا شاعر۔ اسے یہ ناپسند ہے کہ کالی ناتھ ہمیشہ افسانوں کی دنیا میں ہی پرواز کرتا رہے اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ساہنی محفل میں آتے ہی کالی ناتھ کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کر دیتا ہے اور پھر موقع پاکر اپنا کلام پیش کرتا ہے۔ اس کے جواب میں کالی ناتھ عجیب سا منھ بناکر کہتا ہے۔ ’’وہ بات کہاں جو غالب میں ہے!‘‘

    ہمارے دوستوں میں سردار ہربندر سنگھ آہووالیہ افسانہ نگار ہیں۔ ابھی اگلے ہی روز کالی ناتھ نے اوہنری کے ایک افسانے پر اچھی خاصی تقریر جھاڑ ڈالی تو ہربندر سنگھ بری طرح جھنجھلایا۔ اپنی فاختئی رنگ کی بش شرٹ کے بٹن کھول کر اس نے سارس کی طرح گردن کو اکڑا لیا اور پھر بڑی تیز آواز میں پوچھا۔۔۔ ’’کیوں جناب! آپ کو ہمارا ایک بھی افسانہ آج تک کیوں پسند نہیں آیا؟‘‘

    اس کے جواب میں کالی ناتھ کے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ جیسے وہ کہہ رہا ہو کہ سردارجی! آپ کیا کھا کر اوہنری کا مقابلہ کریں گے۔

    ہربندر ہماری مجلس میں ابھی ایک نووارد ہے۔ لیکن میں اسے نوآموز سمجھنے کی غلطی کبھی نہیں کر سکتا۔ وضع داری کا اسے بہت پاس ہے۔ مجے اس کی بات پوری طرح سمجھنے کے لیے اپنے کان اس کے ہونٹوں کے قریب لے جانے پڑتے ہیں اور ہربندر کے بارے میں یہ تو ہم اچھی طرح سمجھ گئے ہیں کہ وہ بحث میں اس وقت الجھتا ہے جب اس کے قریب اس کا کوئی حمایتی بیٹھا ہو۔

    کالی ناتھ نے نہ جانے کیا سوچ کر کہا، ’’ہمارے نئے لکھنے والوں کے ہاں کہانی نام کی چیز یعنی کہانی کی کہانیت یکسر غائب ہو رہی ہے۔‘‘

    ساہنی نے یہ دعویٰ کیا کہ فلاں افسانہ نگار اس دور کا سب سے بڑا افسانہ نگار ہے۔ کالی ناتھ نے فوراً کہا، ’’یہ بالکل غلط ہے۔ صاحب! پریم چند والی بات اس میں کہاں؟‘‘

    ہربندر کو طیش آ گیا۔ اس سے پہلے کہ ساہنی کالی ناتھ کی بات کا جواب دے، ہربندر نے گرم ہوکر کہا، ’’کیا تمھارا مطلب ہے کہ فاختہ کی چونچ میں بھی وہ دانہ نہیں ہے جو پریم چند کی چونچ میں ہے؟‘‘

    اس کے جواب میں کالی ناتھ مسکراتا رہا جیسے وہ کہہ رہا ہو کہ یہ تو میں بھی جانتا ہوں کہ آپ کو فاختئی رنگ کی بُش شرٹ ہی زیادہ پسند ہے، لیکن فاختہ کی چونچ میں دانے کی تشبیہ تو بالکل بے معنی ہے۔

    پاس والی میز پر فاختئی ساڑھی میں سجی ہوئی ایک معصوم سی لڑکی بیٹھی چائے کی چسکی بھر رہی تھی۔ تھوڑی دیر کے لیے ہماری آنکھیں اس طرف اٹھ گئیں معلوم ہوتا تھا کہ ہماری مجلس پر فاختئی رنگ غالب آ گیا۔ ساہنی نے ہنس کر کہا، ’’وہ دن گئے جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔‘‘ اس پر قہقہہ پڑا۔

    لیکن کالی ناتھ نے جھٹ سنبھل کر بات کا رخ موپسان کی اس مشہور کہانی کی طرف پھیر دیا۔ جس میں جنگ کے دوران میں کچھ پناہ گزین کسی صحیح سلامت مقام کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کے ہمراہ ایک بیسوا بھی ہے جسے ہر کوئی اپنے سے کمتر سمجھتا ہے۔ لیکن جس کی نمائشی ٹیپ ٹاپ سے ہر کوئی متاثر ہوئے بغیر بھی نہیں رہ سکتا۔ پھر ایک ایسا مقام آتا ہے جہاں بدیسی فوجی چوکی ہے اور وہاں سے گذرنے کے لیے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ کوئی عورت فوجیوں کا دل خوش کرنے کے لیے ان کی محفل میں شامل ہونے پر رضامند ہو جائے۔ وہاں یہ بیسواں اپنے ہمسفروں کی مدد کرتی ہے۔ اسی کی بدولت دوسری عورتوں کی عزت بچ جاتی ہے۔ لیکن اگلے سفر میں سب عورتیں اس بیسوا کو اور بھی نفرت سے دیکھنے لگتی ہیں۔ کالی ناتھ بول پڑے! ’’دیکھیے موپسان کی اس کہانی کی ٹکر کی کہانی تو پریم چند نے بھی نہیں لکھی۔‘‘

    اس کے بعد کالی ناتھ کے چہرے پر ایک ایسی مسکراہٹ ابھری جس کے پیچھے تازہ اخبار کی بڑی سرخی کی طرح یہی سوال سر اٹھا رہا تھا کہ ’’ہربندر جی! آپ کیوں خواہ مخواہ افسانے کی ٹانگ توڑ رہے ہیں؟‘‘

    اتنے میں گوسوامی بھی کندھے سیکڑتا اور لمبے لمبے ہاتھ بڑھاتا آ گیا اور پاس والی میز سے ایک خالی کرسی سرکا کر ہماری مجلس میں شامل ہو گیا۔ اس نے حسب عادت ادب کی دوامی قدروں پر تقریر شروع کر دی۔

    گوسوامی کا لب و لہجہ اگرچہ اس موضوع کا پوری طرح ساتھ دے رہا تھا۔ لیکن کالی ناتھ نے تیور بدل کر کہا، ’’اجی اس موضوع پر تو کوئی ٹالسٹائی ہی کچھ کہہ سکتا ہے۔‘‘

    ’’تمھارا مطلب ہے کہ ایک ٹالسٹائی کے بعد دوسرا ٹالسٹائی پیدا ہی نہیں ہو سکتا؟‘‘ گوسوامی نے ہنس کر کہا، ’’میں پہلے بھی کئی بار کہہ چکا ہوں کہ جہاں ہمیں ادب کی دوامی قدروں کو سمجھنا چاہیے وہاں ہمیں اپنے ملک کے کلچر کو سمجھنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔‘‘

    ’’آپ کا مطلب ہے کہ ہم عمر بھر پرانے قصے کہانیاں ہی پڑھتے رہیں!‘‘ کالی ناتھ مسکرایا۔ ’’تو ہم وار اینڈ پیس اور سبین کرستوف جیسے گرنتھ کس وقت پڑھیں گے؟‘‘

    گوسوامی نے کسی امام کی طرح سنجیدہ ہوکر کہا، ’’ویسے دیکھا جائے تو یہ دیس دیس کی حدبندیاں فضول ہیں اور سچ پوچھا جائے تو انسانیت ایک ہے، تہذیب ایک ہے، ادب ایک ہے۔‘‘

    ’’لیکن پہلے تو ہمیں اپنے ہی ملک کے ادب کو سمجھنا چاہیے!‘‘ ہربندر نے اپنی بش شرٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے تیزی سے کہا،

    گوسوامی بولا ’’دیکھیے بندہ کی سیوائیں تو سب سجنوں کے لیے حاضر ہیں۔ اب جو بات کرشن مہاراج گیتا میں کہہ گئے ہیں، وہی بات تھوڑے بہت پھیر بدل کے ساتھ بائیبل میں بھی مل جاتی ہے۔ صداقت ایک ہے۔ ادب صداقت چاہتا ہے، خلوص چاہتا ہے اور آپ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ میں نے ’نئے لوگ‘ میں جو افسانے منتخب کیے ہیں، ان میں صداقت کی اسی چنگاری کو پیش پیش رکھا ہے۔‘‘

    سا ہنی نے بات کا رخ بدلتے ہوئے کہا، ’’ارے بھئی کچھ چائے وائے!‘‘

    سا ہنی نے پہلی بار میرے جی کی کہی۔ کالی ناتھ نے زور سے میز پر ہاتھ مارا۔

    ’’چائے بھی آ جائےگی، ساہنی!‘‘ میں نے ہنس کر کہا، ’’ذرا گیان گوشٹھی کو تو جمنے دو۔‘‘

    گوسوامی نے گمبھیر ہوکر کہا، ’’سردار ہربندرسنگھ کا افسانہ ’’نئے لوگ‘‘ میں انفرادی حیثیت رکھتا ہے، اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ میں نے سردارجی سے کہا تھا کہ وہ اپنے سینے کو ٹٹولیں اور کوئی ایسی چیز کاغذ پر اُتار کر رکھ دیں جسے وہ اب تک کے اپنے تجربے کا حاصل سمجھتے ہوں جس میں ان کی اپنی زبان ہو، اپنا مخصوص محاورہ ہو۔‘‘

    کالی ناتھ نے زور سے گردن ہلاکر کہا، ’’آپ کا بس چلے گوسوامی جی تو آپ تو قدم قدم پر اوہنری اور سمرسٹ ماہم کھڑے کر دیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ افسانہ لکھنا تو بہت دور کی کوڑی ڈھونڈ کر لانا ہے اور یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ محض محنت کرنے سے ہر شخص افسانہ نگار بن سکتا ہے اور میں تو سمجھتا ہوں کہ۔۔۔‘‘

    ’’کچھ بھی ہو‘‘ ہربندر کڑک کر بولا۔ ’’ہم کالی ناتھ کو یہ اجازت تو نہیں دے سکتے کہ وہ بڑے بڑے مصنفوں کے نام لے لے کر ہم پر بھاری بھرکم چٹانیں گراتا چلا جائے اور یہاں معصوم فاختائیں نیچے پستی میں پڑی اپنے پر پھڑپھڑاتی رہیں اور اپنی بلندیوں کو نہ پا سکیں۔‘‘

    گوسوامی نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ہربندر کے جسم کی لمبائی اور چوڑائی ناپتے ہوئے کہا، ’’سردار جی! آپ کو مارنے والا تو ابھی پیدا نہیں ہوا۔‘‘

    ساہنی نے بات کا رخ بدلتے ہوئے کہا، ’’سردارجی! آج تو ہم آپ کا کوئی افسانہ ضرور سنیں گے۔‘‘

    میں نے کہا، ’’واہ واہ! ساہنی، تم نے تو واقعی میری زبان کے الفاظ چھین لیے۔ میں بھی یہی کہنے جارہا تھا۔‘‘

    بڑی مشکل سے سردار جی نے اپنے جھولے سے نیا افسانہ نکالا۔ انھوں نے پہلی شرط یہی رکھی کہ کالی ناتھ اپنی زبان سے افسانے کی فرمائش کرے اور سب احباب کو چائے بھی آج وہی پلائے۔

    کالی ناتھ نے عجب سا منھ بناکر چاروں طرف یوں نظریں دوڑائیں، جیسے کہنا چاہتا ہو کہ ایک تو ہم کہانی سننے کی کوفت گوارا کریں، دوسرے چائے بھی ہم ہی پلائیں۔

    گوسوامی کو کالی ناتھ کے دل کی بات بھانپنے میں زیادہ دیر نہ لگی۔ زور سے گردن ہلاکر بولا، ’’ہم سردارجی سے متفق ہیں۔‘‘

    کالی ناتھ نے کسی قدر شرمندہ سا ہوکر بیرے کو بلایا اور چائے کا آرڈر دیا۔

    چائے آئی تو کالی ناتھ نے پہلا کپ سردارجی کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا، ’’معاف کیجیےگا سردار جی! آپ مجھے بالکل غلط سمجھے۔‘‘

    چائے کے طوفان میں سب گلے شکوے دور ہو گئے۔ اب سردار جی سے افسانہ سنانے کا تقاضا شروع ہوا۔

    سردارجی نے افسانہ شروع کرنے سے پیشتر تمہیداً کہنا شروع کیا۔ ’’دیکھیے حضرات! میں نیا رنگروٹ ہوں۔ لیکن بندوق تو آپ کو بھی تھامنی ہوگی۔‘‘ کالی ناتھ نے مسکراکر کہا، ’’میرا مطلب ہے قلم سے بھی بندوق کا کام لیا جا سکتا ہے۔‘‘

    میں نے کہا، ’’یہ ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم کا زمانہ ہے۔ قلم کی تشبیہ ذرا سوچ سمجھ کر دیجیے۔‘‘

    ’’اب کہیے؟‘‘ ہربندر نے کرسی سے اچھل کر کہا،

    ’’تو آپ قلم کو برش کی طرح چلانے پر ہی تلے ہوئے ہیں!‘‘ کالی ناتھ نے عجب سا منھ بناکر کہا، ’’لیکن یہ کام تو کوئی چیخوف یا موپسان ہی کر سکتا ہے۔ یا پھر کوئی پریم چند۔‘‘

    ’’ہم بھی تو اس روایت کے دعوے دار ہیں۔‘‘ ساہنی نے ہربندر کے لیے اپنا بازو بڑھایا۔

    ’’تو پھر یہ مانیے کہ آپ کہانی میں کہانیت کے قائل ہیں!‘‘ کالی ناتھ نے طنزاً کہا، ’’یہاں تو یہ حال نظر آتا ہے کہ اسکیچ سامنے آ گیا، کہانی تین میل پیچھے چھوٹ گئی!‘‘

    ریستوران میں بہت شور تھا اور ایسے میں یہ ممکن نہ تھا کہ ہماری محفل میں کوئی شخص افسانہ پڑھ کر سنائے۔ پھر آزو بازو چند خوبصورت چہرے بھی مختلف میزوں پر نظر آ رہے تھے اور طبیعت خواہ مخواہ مچل اٹھتی تھی اور دھیان ادھر ادھر بھٹک جاتا تھا۔

    گوسوامی نے مسکراکر کہا، ’’پہلے یہ بتائیے سردارجی! کہ اس نئے افسانے میں آپ نے کیا موضوع پیش کیا ہے؟‘‘

    ہربندر نے کہنا شروع کیا۔ ’’یہ ایک لڑکی کا افسانہ ہے جسے میں نے فاختہ کے روپ میں پیش کیا ہے اور بڑے خلوص کے ساتھ۔۔۔بڑی ہی معصوم تھی یہ لڑکی۔ ایک گھونسلے میں ایک فاختہ نے انڈے دیے۔ ان انڈوں میں سے ایک ننھی فاختہ نے جنم لیا۔ باقی انڈے گھونسلے سے نیچے گر کر ٹوٹ گئے۔ یہ ننھی فاختہ بڑی ہوئی۔ اس کے پر نکلے، اس نے اڑنا سیکھا۔ اڑنا تو اس کی سرشت کا حصہ تھا۔ اڑنا تو اس کی روایت تھی۔ وہ فاختہ ملک کے اس پار سے اس پار آئی۔ اس کی ماں اس کے ساتھ تھی۔ اپنی ماں کی پرورش کے لیے نوجوان فاختہ نے طے کیا کہ وہ کبھی شادی نہ کرےگی۔ اب نوجوان فاختہ ایک دفتر میں ملازم ہے۔ جس دن اسے تنخواہ ملتی ہے وہ اپنی جیب میں یوں نوٹ ڈال کر گھر پہنچتی ہے جیسے فاختہ اپنی چونچ میں دانہ لیے گھونسلے میں آتی ہے۔ ننھے بچوں کی پرورش کے لیے! لیکن اس نوجوان فاختہ کی چونچ میں جو دانہ ہوتا ہے وہ اس کی ماں کے لیے ہوتا ہے جس نے ایک دن اسے جنم دیا تھا۔‘‘

    کالی ناتھ سے اس موضوع پر رائے پوچھی گئی تو وہ بہت گمبھیر ہوکر بولا۔ ’’میں تو اپنی رائے افسانہ سن کر ہی دے سکتا ہوں۔‘‘ لیکن ہربندر اس شور میں افسانہ پڑھ کر سنانے کے لیے تیار نہ ہوا۔

    گوسوامی نے ہربندر کے ہاتھ سے لے کر یہ افسانہ خود پڑھنا شروع کر دیا۔ پڑھتے پڑھتے کئی بار اس کی پیشانی پر متوازی شکن نظر آنے لگتے۔ جیسے افسانہ واقعی اس کے ذہن میں اتر رہا ہو۔ ساہنی قدم قدم پر داد دینے لگتا۔ جیسے وہ ہربندر کے افسانے کی داد محض اس شرط پر دے رہا ہو کہ کل جب وہ اپنی نظم پڑھ کر سنائے تو ہربندر بھی اسی طرح اس کے کلام کی داد دے اور کھل کر کہے کہ یہ تو نئی شاعری کا ایک شاہکار ہے۔

    افسانہ ختم ہوا تو گوسوامی نے کہا، ’’یہ افسانہ پریم چند کی روایت کی بڑی شدّت سے نمائندگی کرتا ہے۔‘‘ اور اس نے اہلِ مجلس کو خاموش پاکر بڑے وثوق سے کہا، ’’ہربندر کی کوشش قابل تعریف ہے۔‘‘

    ’’کالی ناتھ جی! آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ ساہنی نے جیسے کالی ناتھ کے دل کی بات بھانپنے کی کوشش کی۔

    ’’ان کا کیا خیال ہو سکتا ہے؟‘‘ میں نے ہنس کر کہا، ’’اب ہمارے کالی ناتھ جی تو ہربندر کو اوہنری ماننے سے رہے۔‘‘

    کچھ لمحوں کے لیے جیسے ہماری مجلس کے روح رواں کالی ناتھ پر سو گھڑے پانی پڑگیا۔ گوسوامی نے مجلس کو گرماتے ہوئے کہا، ’’حق تو یہ ہے کہ تنقید بہت خلوص چاہتی ہے۔ نئے لکھنے والے ہمیشہ آتے رہیں گے۔ یہ فرض نمائندہ رسائل کے ایڈیٹروں پر عائد ہوتا ہے کہ وہ نئے لکھنے والوں کا حوصلہ بڑھائیں اور اس طرح ادب کے دھارے کو آگے لے جائیں۔‘‘

    ساہنی بھی خاموش نہ رہ سکا۔ اچھل کر بولا۔ ’’میرا تو یہ خیال ہے کہ اگر یہ افسانہ انگریزی میں ترجمہ کرکے ولایت کے کسی رسالے میں بھیجا جائے تو اس کی تعریف ہوئے بِنا نہ رہےگی۔‘‘

    ’’بشرطیکہ گوسوامی کی کانٹ چھانٹ سے بچ جائے!‘‘ کالی ناتھ نے گوسوامی کو آڑے ہاتھوں لینا چاہا۔

    گوسوامی نے کالی ناتھ کی بات ان سنی کرتے ہوئے کہا، ’’ادب اور خاص طور پر اچھا ادب ہر جگہ اپنی قدر کراتا ہے۔‘‘

    کالی ناتھ بولا۔ ’’خیراوہنری یا سمرسٹ والی بات تو نہیں ہے۔‘‘

    ’’اب چھوڑیے اوہنری کا قصہ۔‘‘ ہربندر نے طیش میں آکر کہا، ’’آپ کے پاس اپنی کوئی بات کہنے کے لیے ہو تو ہم سن سکتے ہیں!‘‘

    ’’تو کیا مجھ سے میری زبان چھین لی جائےگی؟‘‘ کالی ناتھ بھی خاموش نہ رہ سکا۔

    گوسوامی نے کندھے ہلاتے ہوئے کالی ناتھ کی بات ایک دم اَن سُنی کردی۔ پہلے سے کہیں زیادہ گمبھیر ہوکر اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’جہاں تک سردار جی کی زبان کا تعلق ہے، ظاہر ہے کہ وہ ابھی بہت خام ہے۔ اس کا شین قاف ہی نہیں، انداز بیان بھی قابلِ اصلاح ہے اور تکنیک کا تقاضا مانتے ہوئے کہیں کہیں تفصیل کی کانٹ چھانٹ بھی کرنا ہوگی۔‘‘

    ’’مطلب؟‘‘ ہربندر کسی قدر گھبرایا۔

    ’’مطلب یہی کہ لکھنے کے لیے تو بہت تپسیا کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ایک لفظ اپنا جادو رکھتا ہے۔ اسے سمجھنا ہوگا، اسے پہچاننا ہوگا۔ جیسے ہون کنڈ میں آہوتی ڈالتے ہیں۔۔۔ویسے ہی لکھنے والے کو اپنی تحریر میں گھی کی نہیں، اپنی آتما کی آہوتی ڈالنے کی ضرورت ہے۔‘‘

    ہربندر بیٹھا دانت پیستا رہا۔ کالی ناتھ نے اپنی کرسی سے اچھل کر کہا، ’’یہ تو آپ وہی بات کہہ رہے ہیں جو ایک جگہ اوہنری بھی فرما گئے ہیں!‘‘

    ریستوران میں بہت شور تھا اور ہماری مجلس میں گفتگو کا انداز دھرپد کے پکے گانے سے ہٹ کر کسی ٹھمری کا آنچل تھامنے کے لیے بیتاب دکھائی دیتا تھا۔

    گوسوامی نے فاختہ کی ادھوری کہانی کو پایۂ تکمیل تک پہنچاتے ہوئے کہا، ’’کچھ بھی ہو، یہ تو ایک حقیقت ہے کہ آج ہم جس طرح اپنی چونچ میں دانہ اٹھاکر لاتے ہیں ایسے ہی ہمارے پیشرو اٹھاکر لاتے رہے۔‘‘

    کالی ناتھ نے کچھ کہنے کی کوشش ضرور کی۔ لیکن اس کی آواز گلے میں ہی پھنس کر رہ گئی۔ کسی نے اس کی طرف توجہ نہ دی۔

    گوسوامی نے گمبھیر آواز میں اپنی بات جاری رکھی۔ ’’ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ ادب ایک ہے، افسانہ ایک ہے، صداقت ایک ہے، انسانیت ایک ہے اور ادب کا سب سے بڑا پیغام یہی ہے کی دیس دیس اور زبان زبان کی حدبندیاں محض مقامی حیثیت رکھتی ہیں۔‘‘

    ہربندر نے بڑے مفکرانہ انداز میں بات ختم کی۔ ’’ہم بھی فاختہ کے بچے ہیں۔ اڑنا ہی ہماری سرشت میں ہے اور میرا افسانہ ’فاختہ کی چونچ میں دانہ‘ فن کی بلندیوں کو چُھو نہیں سکتا تو ان کی طرف اشارہ ضرور کر رہا ہے۔‘‘

    سب کی نگاہیں کالی ناتھ پر جم گئیں۔ لیکن وہ چائے کی خالی پیالی اپنے ہاتھ میں تھامے خاموش بیٹھا رہا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے