Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فیلیئر

MORE BYبلال حسن منٹو

    ایک روز، مارچ کے مہینے میں، پیر کی صبح، مجھے چھٹی جماعت شروع کرنا پڑی۔ پانچویں جماعت تک، جب ہم جونیئر سکول میں تھے تو سینئرسکول کو بڑی حسرت سے دیکھا کرتے تھے جہاں لڑکے نیکروں کی جگہ پتلونیں پہنتے تھے۔ کبھی کبھی یہ سوچ کر کہ ہم بھی عنقریب پانچویں جماعت پاس کر کے وہاں سینئرسکول میں جاکے پڑھیں گے، ہمیں کچھ کچھ ڈر بھی لگتا تھا کیونکہ سینئر سکول میں اساتذہ کو بچوں کو سوٹیوں اور بلیک بورڈ صاف کرنے والے لکڑی کے ڈسٹروں سے مارنے کی اجازت تھی جبکہ جونیئر سکول میں استانیاں صرف تھپڑ اور گھونسے مار سکتی تھیں اور لڑکیوں کے سروں کے بال کھینچ سکتی تھیں کیونکہ یہ ایک عام رواج ہے کہ لڑکیاں لمبے لمبے بال رکھتی ہیں جو آسانی سے ہاتھ میں آ جاتے ہیں اور ان کو زور زور سے کھینچا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ سیدہ زوبیہ رضا کے بالوں کو مس رعنا قریب قریب ہر روز کھینچتی تھیں کیونکہ وہ سکول سے صرف دس منٹ کے پیدل فاصلے پر رہتی تھی مگر ہمیشہ کلاس شروع ہونے کے دس پندرہ منٹ بعد سکول پہنچتی تھی۔ جونیئر سکول میں مس طیبہ اور مس رعنا جیسی دو ایک استانیاں ہی زیادہ ظالم تھیں ورنہ باقی تو بیچاری کچھ خاص زک نہیں پہنچاتی تھیں۔

    سینئر سکول اور جونیئر سکول کے درمیان گراؤنڈ میں ایک بہت بڑا اور گہرا گڑھا تھا۔ سینئر سکو ل کے لڑکے بتاتے تھے کہ 1971ء میں جب ہمارے ملک پاکستان کی اپنے ہمسایہ ملک ہندوستان سے جنگ ہوئی تو ایک روز اچانک ہندوستان کے کچھ جہاز تیزی سے اڑتے ہوئے آئے اور آکر یہاں ماڈل ٹاؤن میں چند ایک بم گرا کر چلے گئے۔ ان میں سے کچھ بم ادھر اس گراؤنڈ میں بھی آن پھٹے تھے اور اس طرح یہ گڑھا وجود میں آ گیا تھا۔ مگر بعد میں، کچھ برس بعد مجھے یہ پتہ چلا تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا تھا اور دراصل اس جگہ ایک زمانے میں تیراکی کیلئے تالاب بننا شروع ہوا تھا جو پھر پیسے کم پڑ جانے کی وجہ سے سکول والوں نے روک دیا تھا۔ نجانے سکول والوں کو اس گڑھے کو واپس بھر دینے کا خیال کیوں نہ آیا، کیونکہ یہ گہرا اور خطرناک تھا اور اس میں گرکر سکول کے بچے یونیفارم پہنے پہنے ہلاک یا معذور ہو سکتے تھے۔ شاید سکول والوں نے اسے یہ سوچ کر یونہی چھوڑ دیا ہوگا کہ اگر کبھی پیسے جمع ہو گئے تو نیا گڑھا کھودنے کے عوض اس کھدے کھدائے گڑھے میں تیراکی کا تالاب بنا لیں گے لیکن پھر شاید پیسے جمع ہونے کا انتظار کرتے کرتے اتنا وقت گزر گیا کہ اس عظیم الشان گڑھے کی تہہ سے بڑے بڑے درخت اگ کر باہر، زمین کی سطح سے بھی اوپر نکل آئے اور جوں جوں وہ درخت اونچے ہوتے گئے توں توں لوگ بھولتے گئے کہ یہاں پر تو کبھی تیراکی کا تالاب بننا مقصود تھا۔

    پتلون پہننے اور سوٹیوں اور ڈسٹروں سے مار پڑنے کے علاوہ ایک اور فرق بھی تھا سینئر اور جونیئر سکول کا اور وہ یہ تھا کہ سینئر سکول میں لڑکیوں کو داخلہ نہیں دیا جاتا تھا۔ اس زمانے میں ایسے سکول کم کم ہوتے تھے جہاں دس بارہ برس سے زیادہ عمر کے لڑکے لڑکیاں اکٹھے، ایک ہی جماعت میں بیٹھ کر پڑھتے ہوں کیونکہ یہ بات شرافت اور اسلام کے خلاف ہے اور پاک ممالک اور پاکیزہ معاشروں میں اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ پانچویں جماعت کے بعد جونیئر سکول کی لڑکیاں ادھر ادھر دوسرے سکولوں میں پڑھنے چلی جاتی تھیں۔ جیسے مس نبیہا کا سکول جس کا نام نجانے کیا تھا مگر سب اسے اس طرح ہی پکارتے تھے یعنی ’’مس نبیہا کا سکول۔ مس نبیہا کا سکول۔‘‘

    اس سال مارچ کے مہینے میں، چھٹی جماعت کا پہلا دن ختم ہونے تک سینئر سکول کے بارے میں میرا تمام جوش ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔ میں سکول کے پرنسپل کے خوف میں پہلے سے بھی زیادہ مبتلا ہو چکا تھا اور اردو کے استاد سر شوکت سے دونوں ہاتھوں پہ دو دو سوٹیاں کھا چکا تھا۔

    اس پہلے روز صبح مجھے سکول پہنچنے میں تھوڑی دیر ہو گئی کیونکہ ابا سے ٹائی بندھوانے کی جگہ میں کچھ دیر یہ کوشش کرتا رہا کہ اسے خود ہی باندھ لوں۔ چونکہ میں ابا کو کئی بار ٹائی باندھتے دیکھ چکا تھا، میرا خیال تھا کہ میں خود، بغیر کسی مدد کے یہ کام کر سکتا ہوں۔ اس میں ہوتا ہی کیا ہے؟صرف اتنا کہ گلے میں ٹائی ڈال کے ایک دو بار بائیں طرف والے چوڑے حصے کو دوسرے حصے کے اوپر ڈالنا ہوتا ہے جس سے ایک سوراخ سا وجود میں آتا ہے جس میں سے اسی چوڑے حصے کو گزارنا ہوتا ہے۔ اس کے بعداسے ایک اور سوراخ میں سے کھینچ کھانچ کے گزارکر لٹکتے ہوئے پتلے حصے کے اوپر لٹکا دینا ہوتا ہے۔ مگر جب کوشش کے باوجود مجھ سے یہ کام نہ ہوا اور ٹائی ابا ہی سے بندھوانی پڑی تو میں کھسیانہ ہو کے بڑبڑایا کہ جونیئر سکول کی طرح الاسٹک والی بندی بندھائی ٹائی ہی خرید لیتے تو بہتر رہتا۔

    جب میں تیز تیز چلتے، تقریباً بھاگتے بھاگتے، سکول پہنچا تو سکول شروع ہونے کی گھنٹی بج رہی تھی اور میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ پہلے کلاس میں جاکر سیٹ مل کے اس پہ بستہ رکھوں اور پھر اسمبلی لان میں جاؤں۔ لیٹ آئے ہوئے بچے اپنے بستوں کو راہداری میں دیوار کے ساتھ رکھ کے اسمبلی میں جا رہے تھے۔ میں نے بھی یہی کیا۔

    اسمبلی گراؤنڈ کے شمالی حصے میں گراؤنڈ کے سرے سے چند فٹ ادھر سیمنٹ کا ایک مستقل سٹیج بنا ہوا تھا جو گراؤنڈ سے کوئی ڈیڑھ فٹ اونچا تھا۔ اس پر چار پانچ بڑی کلاسوں کے لڑکے ایک قطار میں کھڑے ہوئے اسمبلی کی کاروائی شروع ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ سٹیج کے بیچوں بیچ ایک لمبا سا لوہے کا پائپ نصب تھا۔ سٹیج کی پشت پر لان کا جو چھوٹا چند فٹ چوڑا ٹکڑا باقی تھا، اس پر پرنسپل صاحب سمیت تمام اساتذہ حضرات ایک قطار بناکر کھڑے تھے۔

    جیسا کہ عام طور پر سکولوں میں بچے ہاؤسوں میں تقسیم ہوتے ہیں، ہمارے سکول میں بھی ایسا ہی تھا۔ ہاؤسوں کے نام پنجاب کے مختلف شہروں پہ رکھے گئے تھے۔ لاہور، گوجرانوالہ، شیخوپورہ اور سیالکوٹ۔ البتہ جو ہوسٹل میں رہنے والے بچوں کا ہاؤس تھا اس کا نام اقبال تھا۔ یعنی علامہ اقبال، ہمارے قومی شاعر اورفلسفہ کے بلند پایہ ماہر۔ یہ عجیب سی بات تھی کہ صرف ایک ہاؤس کا نام کسی انسان پہ رکھا گیا تھا اور باقی سب کے شہروں پہ۔ نامعلوم ایسا کیوں تھا۔ یہ بھی عجیب بات تھی اور نامعلوم ایسا بھی کیوں تھا کہ یہ نام پنجاب کے شہروں پہ تھے جبکہ اگر پانچ ہاؤس ہی بنانے تھے تو پاکستان کے چار صوبوں کے دارالخلافوں اور ایک پاکستان کے اپنے دارالخلافہ کے نام رکھے جا سکتے تھے، یعنی لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ اور اسلام آباد۔

    خیر، جیسا تھا سو تھا۔ اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ایک تو یہ کہ ایسی باتوں سے کیا فرق پڑتا ہے کہ آپ نے فلاں چیز کا نام یہ کیوں رکھا اور وہ کیوں رکھا؟ دوسرا یہ کہ اگر ایسی باتوں سے فرق پڑتا بھی ہو تو بھی اب ان کا ذکر فضول ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ ماضی میں جاکر اس قسم کی خرابیوں کو دور کیا جا سکے اور نہ ہی اس بات کی کوئی ضمانت دی جا سکتی ہے کہ سکول والے میرا مشورہ سن کر اپنے ہاؤسوں کے نام بدل ہی دیتے۔ ایک تیسری بات بھی ہے اور وہ یہ کہ اگر ایسا ہی مجھے ان ناموں پر اعتراض تھا تو تب ہی جا کے میں نے یہ بات سکول والوں سے کیوں نہ کہی؟ اور اگر تب میری ایسی ہمت نہ پڑ سکی تو پھر اب ان اعتراضات کو اٹھانے سے کیا میں اپنے آپ کو باہمت اور بہادر ثابت کر سکوں گا؟

    میرا ہاؤس شیخوپورہ مقرر ہوا تھا ا س لیے میں اسمبلی میں جا کے شیخوپورہ ہاؤس کی قطاروں میں کھڑا ہو گیا۔ ذرا پیچھے کی طرف، کیونکہ میں دیر سے پہنچا تھا۔

    جب سب قطاریں بن گئیں اور لڑکے فارغ کھڑے کھسر پھسر کرنے لگے تو اسمبلی شروع ہوئی۔ ان چار پانچ لڑکوں میں سے، جو سٹیج پر چڑھے کھڑے تھے، سب سے دائیں والا دو قدم آگے بڑھا اور زور سے چلایا۔ Silence

    یعنی خاموش ہو جاؤ۔ سب خاموش ہو گئے۔ پھر اس نے دو تین بار کبھی ہمیں attention ہونے کو کہا اور کبھی stand at ease۔ زور زور سے اور بلا وجہ چلا چلا کے۔ ہم بھی زمین پر پاؤں مار مار کے کبھی attention ہو کے سیدھے کھڑے ہو جاتے رہے اور کبھی stand at ease کرتے رہے جس میں ٹانگیں کھول کے کھڑے ہوتے ہیں او ر ہاتھ پیچھے باندھ لیتے ہیں، حالانکہ اگر stand at easeہے تو پھر اس کا مطلب تو یہ ہونا چاہیے کہ آپ اپنی مرضی سے آسانی کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ جس بھی طرح آپ کا دل چاہے۔

    ہم سے یہ سب کرواکے وہ لڑکا پائپ کے ساتھ مصروف ہوا جس پہ رسی کے ساتھ پاکستان کا جھنڈا بندھا ہوا تھا۔ اس نے رسی کھینچ کھینچ کے بڑی سرعت سے جھنڈے کو اوپر پائپ کے سرے پہ پہنچایا تاکہ وہ وہاں ہوا کے دوش پر لہرا سکے اور ہمارے وطن کی عزت اور سربلندی میں اضافے کا باعث بنے۔ یہ سب کرکے وہ اپنی جگہ واپس چلا گیا۔

    اس سکول میں یہ ایک عجیب بات تھی کہ روز صبح ایک لڑکا انگریزی کے اخبار میں سے تین چار خبریں پڑھ کے سنایا کرتا تھا۔ یہ پرنسپل صاحب کے حکم پہ ہوتا تھا جو قد میں لمبے تھے اور جن کی آنکھیں سرخ اور غضبناک تھیں۔ وہ ہر اسمبلی کے دوران خبروں کے بعد سٹیج پہ چڑھ آتے تھے اور پڑھی گئی خبروں کے بارے میں انگریزی میں سوالات کرتے تھے۔

    Where is Paris?

    Who is the Prime Minister of India?

    What is the capital of Brazil?

    ایسے بین الاقوامی نوعیت کے سوالات تھے جو وہ پوچھتے تھے۔ جو لڑکے جواب نہ دے سکتے تھے ان کی پرنسپل صاحب بہت بےعزتی کرتے تھے اور انہیں سرعام ڈانٹتے دھمکاتے تھے۔ عام طور پر سوالات اگلی صفوں میں کھڑے ہوئے لڑکوں سے ہی پوچھے جاتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ اسمبلی میں آگے کھڑے ہونا کوئی فخر اور خوشی کی نہیں بلکہ خوف کی بات سمجھی جاتی تھی۔

    اس روز پرنسپل صاحب سٹیج پر آئے اور ایک تقریر شروع کی۔ یہ تقریر زیادہ تر چھٹی جماعت کے لیے تھی کیونکہ وہ جونیئر سکول سے پاس ہوکے یہاں آج پہلے دن نئی آئی تھی۔ یعنی ہم لوگ۔ پرنسپل صاحب نے چھٹی جماعت کو سینئر سکول میں خوش آمدید کہا اور بتایا کہ اب وہ بڑے ہو گئے ہیں اور انھیں ذمہ داری اور تمیز کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ یعنی جیسا کہ ہم جونیئر سکول میں غیر ذمہ داری اور بدتمیزی کا بازار گرم کرتے کرتے اچانک یہاں کسی خاص جگہ آن پہنچے تھے جہاں ایسے بازار گرم کرنے کی کوئی خاص ممانعت تھی۔ آخر وہ بھی تو اسی سکول کا حصہ تھا، جونیئر سکول، جہاں سے ہم آئے تھے۔ سو ہمیں خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہنے کے عوض ایسے تنبہیی انداز میں اس قسم کی باتیں کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ جیسے ہم کوئی خراب اور نا پسندیدہ لوگوں کا گروہ ہوں؟ یہ بھی کہا کہ اگر ایسا نہ ہوا، یعنی ہم نے ذمہ داری اور تمیز کا مظاہرہ نہ کیا، تو وہ بہت بری طرح پیش آئیں گے۔ ہم پرنسپل صاحب سے پہلے ہی بے حد ڈرتے تھے۔ وہ کبھی کبھی جونیئر سکول معائنہ کیلئے آتے تھے اور کلاسوں میں گھس گھس کر بچوں سے انگریزی میں اوٹ پٹانگ سوالات کرتے رہتے تھے جن کے جواب کبھی کوئی بچہ نہ دے سکتا تھا۔ یہ وہ اس لیے کرتے تھے کہ جونیئر سکول کی ہیڈ مسٹریس صاحبہ کو جتلا سکیں کہ دیکھو کیسے نالائق بچے ہیں تمہارے سکول میں اور تم کیسی ناکام ہیڈ مسٹریس ثابت ہو رہی ہو۔ ایسا کرنے سے ممکن ہے کہ یہ ہوتا ہو کہ ہیڈ مسٹریس صاحبہ،جو گہری سرخ لپ اسٹک لگاتی تھیں، تنخواہ میں اضافے کامطالبہ نہ کر پاتی ہوں یا ہو سکتا ہے کہ ایسا کرنے کا مقصد صرف ہمیں اور ہیڈ مسٹریس صاحبہ کو ہراساں کرنا ہو اور اس سے پرنسپل صاحب کے دل کو اطمینان محسوس ہوتا ہو۔

    وہ ہمیشہ انگریزی بولتے تھے اور اگر بھولے سے کوئی ان سے اردو میں بات کر لیتا یا کوئی بچہ بھولے سے ان کے کسی سوال کا جواب اردو میں دے دیتا تو وہ بڑی خوف ناک شکل بناتے اور ڈرامائی انداز میں اپنا سر جھکاکے اپنا کان بات کرنے والے کے منہ کے سامنے لے جا کے کہتے :

    ’’ What? What is this language you speak?‘‘

    آج بھی وہ انگریزی میں بولتے چلے جا رہے تھے۔

    This is an english medium school. English medium! I don't want to hear you speak anything but english. And if I catch anyone speaking urdu, he will be punished severely.

    خیر یہ بات تو ہمیں پتہ ہی تھی اور ہم کچھ نہ کچھ ایسے ناپسندید ہ واقعات کے لیے تیا ر بھی تھے، لیکن پھر اسی وقت ایک دم انھوں نے انگلی سے سب سے اگلی قطار میں کھڑے ایک لڑکے کی طرف اشارہ کیا اور اس سے پوچھا:

    Who tied your tie? یعنی تمہاری ٹائی کس نے باندھی؟

    اس لڑکے کو شاید یقین نہ آیا کہ بھری اسمبلی میں پرنسپل نے خاص اسی کو بات کرنے کیلئے چناہے۔ وہ خاموشی سے اسی طرح پرنسپل صاحب کو دیکھتا رہا جیسے اس سوال سے پہلے دیکھ رہا تھا۔ اس کے ساتھ کھڑے لڑکے نے جب کھسر پھسر کر کے کچھ کہا تو تب اسے سوجھا کہ ہاں ایسا ہی واقعہ ہوا ہے کہ اس آدمی نے مجھ ہی سے انگریزی میں بات کی ہے۔

    Sir....sir....yes sir

    اس نے کہا۔ پھر اس نے تھوک نگلی اور اس کی آواز حلق میں پھنس گئی۔

    Yes sir ? Yes sir ? What yes sir? I asked you a question. Who tied your tie?

    پرنسپل صاحب نے چیخ کر پوچھا۔

    اس نے بمشکل کہا Sir. Daddy.

    ’’کھی کھی کھی‘‘ کچھ لڑکے ہنسے۔

    Daddy? Daddy?

    پرنسپل صاحب نے مصنوعی تعجب سے پوچھا۔

    Sir, father. Father, sir. اس بےچارے نے کہا۔

    Father?? Father?? Father?? پرنسپل صاحب بہت اونچی آواز سے دھاڑے اور ہر بار ’’فادر‘‘ کہتے ہوئے ان کی آواز اور بلند ہوتی گئی۔ انھوں نے اپنی ٹھوڑی کو اپنے دائیں ہاتھ کی مٹھی میں پکڑا، اس طرح کہ شہادت کی انگلی ان کی ناک کے سرے پر ٹک گئی اور سر کو آہستہ سے پہلے دائیں سے بائیں اور پھر بائیں سے دائیں گھمایا جیسے کوئی بہت ہی مایوس کن بات سنی ہو۔

    He is a little child whose father dresses him up. His daddy!

    انہوں نے بلند آواز اور ڈرامائی انداز میں کہا۔

    ’’ہی ہی ہی ہی‘‘کچھ لڑکے پھر ہنسے۔

    اب انھوں نے انگلی کے اشارے سے لڑکے کو سیٹج پر بلایا۔ لڑکے نے ادھر ادھر دیکھا کہ شاید کسی معجزے سے یوں ہوا ہو کہ پرنسپل صاحب نے کسی اور کو بلایا ہو۔ پھر وہ آہستہ آہستہ، کانپتا کانپتا سٹیج پر جاکے ان کے سامنے سرجھکاکے کھڑا ہوگیا۔

    پرنسپل صاحب کا ایک ہاتھ تواپنی ٹھوڑی کے گردہی رہا جبکہ دوسرے سے انھوں نے اس لڑکے کی ٹائی کو پکڑ کے یوں کھینچا کہ اس کا منہ اسمبلی کی طرف پھیر دیا۔ جیسے کسی مویشی کے ساتھ رسی سے کھینچاتانی کی جائے۔

    What is your name? انہوں نے اسی غضبناک آواز میں پوچھا۔

    Farooq, sir. لڑکے نے لرزتی آواز میں جواب دیا۔

    اب پرنسپل صاحب نے اس سے پوچھا کہ اسے ٹائی باندھنی کیوں نہیں آتی اور وہ چھوٹے بچوں کی طرح اپنی ڈیڈی جان سے ٹائی کیوں بندھواتا ہے؟ ڈیڈی جان ہی کہا تھا۔ لڑکا خاموش رہا اور خوف اور بےعزتی کے احسا س سے اس کا چہرہ سرخ ہوتا چلا گیا۔ ظاہر ہے کہ اس کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا یا شاید اسے انگریزی پر ایسی دسترس نہ تھی کہ پرنسپل صاحب کے مقابل کچھ بول سکتا۔ دسترس ہوتی بھی تو اس سوال کا جواب ہو بھی کیا سکتا تھا؟ ٹائی نہیں باندھنی نہیں آتی تو بس نہیں آتی۔ جیسے مجھے۔

    پھر پرنسپل صاحب نے حکم جاری کیا کہ کل وہ ٹائی باندھنا سیکھ کر آئےگا اور یہیں اسمبلی میں کھڑا ہو کر سب کے سامنے ٹائی باندھ کر دکھائےگا۔ یہ بھی کہا کہ اگر اسے کل تک ٹائی باندھنا نہ آئی تو وہ اسے گھر واپس بھیج دیں گے اور یہ کہ اگر اس نے کل چھٹی کی تو اس سے اگلے دن اسے اسمبلی میں بیس سوٹیاں ماری جائیں گی۔

    Go back now. پرنسپل صاحب نے کہا۔

    لڑکا سٹیج سے اترا اور اپنی جگہ کی طرف دو قدم چلا۔ پھر تھوڑا لہرایا۔ ذرا سا دائیں اور ذرا سا بائیں اور بے ہوش ہو کے دھڑام سے زمین پر گر پڑا۔ دسویں جماعت کے دو لڑکے بھاگے آئے اور اسے اٹھا کر ڈسپنسری میں لے گئے جہاں ایک کمپونڈرہمیشہ موجود رہتا تھا اور ہر آنے والے بیمار کو ایک میٹھی لال دوا پلا دیتا تھا۔

    سٹیج پر کھڑے ان چار پانچ لڑکوں نے قومی ترانہ گانا شرو ع کیا اور باقی سکول نے اپنی آواز ان کے ساتھ شامل کی۔ سٹیج کے پیچھے اسمبلی کی طرف منہ کئے کھڑے پرنسپل صاحب بار بار کہتے :Louder....louder

    تب میں نے سوچا کہ آج کی طرح روز لیٹ پہنچنا بہتر ہے تاکہ مجھے کبھی اگلی قطار میں کھڑا نہ ہونا پڑے اور تاکہ پرنسپل صاحب کے غضب سے خدا مجھے محفوظ رکھے۔

    نئی کلاس کے نئے کمرے میں جو جو جہاں جہاں آکے پہلے دن بیٹھ جاتا، بس و ہی پورے سال کیلئے اس کی سیٹ رہتی۔ اس کو سِٹ ملنا کہتے تھے۔ یعنی کہ جیسے آپ نے کرسی کو ہاتھوں سے مل مل کے اپنا بنا لیا ہو۔ ہاں یہ اور بات تھی کہ کلاس ٹیچر مستقل طور پر، یا کسی اور مضمون کا استاد صرف اپنی کلاس کے دورانیہ کے لیے، کسی کی سیٹ بدل سکتا تھا۔ کلاس ٹیچر اسے کہتے تھے جس کی صبح پہلی کلاس ہوتی تھی۔ اسے کلاس ٹیچر کیوں کہتے تھے، مجھے علم نہیں، مگر شاید اس کا تعلق اس بات سے ہو کہ یہ دن کی پہلی کلاس ہوتی تھی اور اس میں حاضری لگائی جاتی تھی۔ سیٹیں جب بدلی جاتی تھیں تو عموماً سزا یا انعام دینے کے مقصد سے بدلی جاتی تھیں۔ اگلی سیٹیں انعام کے طور پر اور پچھلی سزا کے طور پر۔ گوکہ اس کے عین الٹ ہونا چاہیے تھا اور شرارتی یا نالائق بچوں کو ہمیشہ آگے بٹھائے جانا چاہیے تھا تاکہ استاد کی نظر ان پہ مستقل رہے۔ جو بچے پچھلی کلاس میں اول یا دوم آئے ہوتے، ان کو کلاس کا مانیٹر بنا دیا جاتا۔ اول آئے ہوئے کو فرسٹ مانیٹر اور دوم آئے ہوئے کو سیکنڈ مانیٹر۔ مانیٹر، یعنی وہ لڑکا جو نگرانی کرتا کہ بچے شور نہ مچائیں اور بدتمیزی نہ کریں۔ بس یہ طے شدہ تھا کہ اول اور دوم آئے ہوئے لڑکے ہی مانیٹر بنیں گے، چاہے وہ کمزور اور ڈرپوک ہی کیوں نہ ہو ں، جوفرسٹ اور سکینڈ آنے والے لڑکے اکثر ہوتے بھی تھے۔

    میرے کتابوں کے بستے کا ایک لمبا سا سٹریپ تھا جسے میں اپنے سر پہ یوں چڑھا لیتا تھا کہ بستہ پیچھے تقریباً میری پیٹھ کے برابر لٹکا رہتا تھا اور جب میں چلتا تھا تو میری پیٹھ سے بار بار۔۔۔ کبھی دائیں حصے سے، کبھی بائیں حصے سے۔۔۔ ٹکراتا تھا۔ بستے پر PIA لکھا تھا، یعنی پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائینز حالانکہ یہ بستہ امی ابا نے مجھے دوکان سے خرید کر دیا تھا، کسی ہوائی جہاز میں سفر کرنے پہ انعام کے طورپر مفت نہیں ملا تھا۔

    اس پہلے دن، اس ہولناک اسمبلی کے بعد میں بستہ لٹکائے نئی کلاس میں پہنچا تو تمام سیٹیں ملی جا چکی تھی۔ اپنی کلاس میں اس دن بس میں ہی دیر سے پہنچا تھا اور اب صرف ایک سیٹ، دور، پیچھے، سب سے پیچھے، خالی تھی۔ سیٹیں دو دو کی تین قطاروں میں لگی ہوئی تھیں مگر جہاں مجھے خالی سیٹ ملی تھی وہ اتنی پیچھے تھی کہ بس صرف ایک ہی کرسی میرے دائیں جانب مزید تھی۔ یعنی بائیں جانب کوئی کرسی نہیں تھی۔

    ایک گورا سا، لمبا اور توانا لڑکا جس کی داڑھی اگلے چھ ماہ میں شیو کرنے کے قابل ہونے والی تھی میرے ساتھ والی کرسی پہ پہلے سے بیٹھا مجھے دیکھ دیکھ کے مسکرا رہا تھا۔ میں اس کلاس میں باقی سب کو جانتا تھا کیونکہ وہ میرے ساتھ ہی پانچویں جماعت پاس کر کے جونیئر سکول سے آئے تھے۔ صرف یہ لڑکا نیا تھا۔ یہ لمبا لڑکا، جو مجھے دیکھ دیکھ کے تب تک مسکراتا رہا جب تک میں اس کے ساتھ والی کرسی پہ بیٹھ نہ گیا۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ یہ لڑکا ہماری کلاس میں باقی سب سے عمر میں بڑا تھا۔

    جب میں اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا تو بڑا لڑکا کچھ اور مسکرایا، اب کہ اپنے دانت بھی دکھا کے۔

    ’’کیا نام ہے؟‘‘ اس نے بڑے لڑکوں کی طرح پوچھا اور میر ے جواب دینے سے پہلے ہی کہا: ’’میرا نام ذوالفقار ہے۔‘‘ پھر اس نے ایک اور بڑے لڑکوں والی حرکت کی۔ مجھ سے ہاتھ ملانے کیلئے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا۔

    ’’اس سے بات نہ کر۔یہ فیلیئر ہے۔‘‘ سامنے بیٹھے ہوئے عینک والے مکرم نے مڑ کر مجھے بتایا۔

    ’’یہ تیسری دفعہ فیل ہوا ہے۔‘‘ مکرم پھر بولا۔

    ہم جب پاس ہو کے نئی کلاس میں جاتے تھے تو ہمیشہ ایک یا دو بچے وہاں ایسے پاتے تھے جو فیل ہونے کی وجہ سے اگلی جماعت میں جانے کے بجائے اسی جماعت میں ایک سال مزید لگا رہے ہوتے تھے۔ انھیں ہم سب بڑی حقارت سے ’’فیلیئر‘‘ کہہ کر پکارتے تھے اور عام طور پر یہ بات بالکل واضح ہوتی تھی کہ ایسے لڑکوں سے میل ملاپ یا یاری دوستی رکھنا غیر مناسب ہے۔

    میں ذرا شرمندہ سا ہوا۔ حالانکہ فیل تو وہ ہوا تھا، مگر پھر بھی، میں شرمند ہ ہو اکہ مکرم مجھے اس کے سامنے یہ بتا رہا ہے کہ وہ فیلیئر ہے اور مشورہ بھی دے رہا ہے کہ اس سے بات نہ کروں۔

    ’’فیلیئر ہے تو کیا ہوا؟‘‘ میں نے جواباً مکرم سے کہا۔

    ’’ہاں تو کیا ہوا؟‘‘ فیلیئرنے بھی کہا اور مکرم کی کرسی کو ہلکا سا دھکا دیا۔ ’’تو اپنا کام کر عینکو۔‘‘ پھر اس نے میری طرف دیکھ کر دانت نکالے۔ اسی وقت ہمارے اردو ٹیچر اور کلاس ٹیچر سر شوکت کلاس میں داخل ہوئے۔ کلاس نے کھڑے ہوکر ان کا استقبال کیا اور انھیں سلام کیا۔ انھوں نے رجسٹر کھول کے حاضری لینی شروع کی۔

    S1، S2، S3۔۔۔ یعنی شیخوپورہ ہاؤس 1-2-3 وغیرہ۔ وہ اس طرح ہمارے رول نمبر پکارتے گئے اور ہمYes sir, Yes sir کہتے گئے۔ کبھی کبھی کوئی لڑکا Present sir بھی کہہ دیتا تھا۔

    L-15 یعنی لاہور ہاؤس 15 شوکت صاحب نے سب سے آخر میں کہا اور ایک لمحے کو ٹھٹک کر اوپر دیکھا۔

    Present sir فیلیئرنے کہا اور ڈھٹائی سے دانت نکال کر شوکت صاحب کو دیکھ کے مسکرایا۔

    شوکت صاحب نے تاسف سے سر ہلایا۔’’ تمہیں ایک چانس اور مل گیا؟ خدا کرے یہ تمہارا آخری چانس ہو۔‘‘

    فیلیئرنے کچھ نہ کہا اور صرف ان کی جانب دیکھ کر مسکراتا رہا۔ شوکت صاحب نے سر تھوڑا اور ہلایا اور حاضری رجسٹر بند کردیا۔ فیلیئر نے میری طرف دیکھ کے ایک زیر لب قہقہہ لگایا اور میری ٹانگ پہ ہلکی سے چپت رسید کی۔ بے وجہ۔

    شوکت صاحب کرسی پہ ذرا آرام سے ٹیک لگا کے، ٹانگیں لمبی لمبی پسار کے، بیٹھ گئے۔ مارچ کے اوائل کی اس پیاری صبح باہردرختوں کے پتے سرسرا رہے تھے اور ان سے چھن چھن کے اور لرز لرز کے روشنی کی کرنیں کھڑکیوں سے اندر کمرے میں پہنچ رہی تھیں۔ شوکت صاحب نے برا سا منہ بنایا، شاید اس لیے کہ انھیں اس پیاری صبح یہ کام کرنا پڑ رہا تھا۔ یعنی ایسے غیردلچسپ بچوں کو پڑھانا پڑ رہا تھا جن میں سے کئی نے زندگی میں پہلی بار پتلون پہنی تھی۔

    پھر شاید انھوں نے دل ہی دل میں تہیہ کیا کہ ’’آج تو میں ہرگز کچھ نہیں پڑھاؤں گا۔‘‘

    انہوں نے بیزاری سے کھڑکی کے باہر درخت کو دیکھا اور دائیں ہاتھ سے اپنی آنکھیں ملنے لگے۔

    ’’باری باری کھڑے ہوتے جاؤ اور اپنا تعارف کرواتے جاؤ۔ اپنا نام، والد کا نام اور پانچویں جماعت کے امتحان میں اپنی پوزیشن۔‘‘

    یہی ہوا۔ ایک ایک کر کے لڑکے کھڑے ہوتے گئے اور یہ سب کچھ بتاتے گئے۔ سب سے پہلے ذاکر اٹھا اور پھر ہارون۔ ذاکر پانچویں میں اول آیا تھا اور ہارون دوم اور دونوں کو توقع تھی کہ مانیٹر بن جائیں گئے۔ یہ دونوں صبح سب سے پہلے آئے تھے اور اس وجہ سے سب سے اگلی قطار میں بیٹھے ہوئے تھے حالانکہ یہ بالکل غیرضروری تھا کیونکہ اگر یہ دیر سے بھی آئے ہوتے تو مانیٹر بن جانے کے بعد شوکت صاحب خود ہی انھیں پہلی قطار میں بیٹھا دیتے اور ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ذاکر چاہے مانیٹر بن جاتا اور اس بات پہ جتنا مرضی اتراتا اور اپنے اول آنے پر جتنا مرضی گھمنڈ کرتا، اسے یہ تو معلوم نہیں تھا نہ کہ ایک روز جب وہ ٹوائیلٹ میں تھا تو میں اور مکرم اسے چابی والے سوراخ سے جھانک کر گندے کام کرتے دیکھتے رہے تھے اور ’’ہی ہی ہی’’ کر کے ہنستے رہے تھے۔

    میں چپ بیٹھا بچوں کے تعارف سنتا رہا جو مجھے پہلے ہی سب معلوم تھے۔

    ’’اوئے، اوئے۔۔۔‘‘ فیلیئر نے سرگوشی میں مجھے پکارا۔

    ’’دیکھو۔۔۔ یہ دیکھو‘‘ اس نے اپنی گود کی طرف اشارہ کیا۔

    ’’Shhhh.‘‘ شوکت صاحب بولے۔ ’’آواز نہ آئے۔‘‘

    چند لمحوں کے بعد فیلیئر نے پھر سرگوشی کی۔

    ’’اب دیکھو۔ اب۔ جلدی سے۔‘‘

    اف۔

    میں کیسے بتاؤں؟ یہ بھلا کوئی ایسی بات ہے جو کوئی کسی کو بتا بھی سکتا ہے؟ کچھ اس سے بھی بھیانک بات روئے زمین پہ آج تک وقوع پذیر ہوئی ہوگی؟

    جب میری نظر وہاں اس کی گود پر پڑی، جہاں دیکھنے کی دعوت وہ مجھے دے رہا تھا، تو میں نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھا کہ اس کی پتلون کے کچھ بٹن کھلے ہوئے تھے اور اس نے ان کھلے بٹنوں کو معاشرتی علوم کی کتاب سے کچھ کچھ ڈھانپا ہوا تھا۔ لمحے دو لمحے بعد وہ اس کتاب کو مکمل ہٹا دیتا اور سرگوشی میں مجھے کہتا: دیکھ۔ دیکھ۔ یہ دیکھ۔ مجھے سمجھ نہ آئی کہ کیا کروں۔ میں سخت گھبرا رہا تھا اور گھبرانے سے بھی کہیں زیادہ شرمندگی محسوس کر رہا تھا حالانکہ اس کی اس حرکت میں میرا کوئی قصور بھی نہ تھا۔ تبھی اس نے یکلخت مجھ پہ ایک اور حملہ کیا۔

    ’’تو بھی دکھا نا۔‘‘ اس نے کہا۔

    مجھے تو سانپ سونگھ گیا۔میں بھی دکھاؤں؟

    ایسی باتیں اس طرح کرنے کی ہوتی ہیں؟ ایسی شرمناک باتیں۔ اس طرح ہنسی خوشی بھی بھلا اردو کی پہلی کلاس میں کوئی ایسی باتیں کرتا ہے؟ اچانک؟اپنی پتلون کے کھلے بٹنوں کو معاشرتی علوم کی کتاب سے ڈھانپ کے؟

    ’’دکھا نا۔‘‘ اس نے پھر کہا۔ مگر اب یکایک مجھے محسوس ہوا کہ ارد گرد کچھ گڑبڑ ہے۔ کلاس میں مکمل خاموشی چھا چکی تھی اور کوئی بچہ اپنے تعارفی کلمات نہیں کہہ رہا تھا۔ میں نے سامنے دیکھا تو شوکت صاحب میری جانب گھور رہے تھے۔ ایک ایک کر کے لڑکے بھی پیچھے دیکھنے لگے۔

    ’’وہاں کیا ہو رہا ہے؟‘‘ شوکت صاحب نے پوچھا اور کرسی سے اٹھ کے میری طرف بڑھے۔

    ’’سر، سر۔۔۔‘‘ میں نے گھبرا کے کہنا شروع کیا۔

    ’’وہاں ہو کیا رہا ہے؟ تم کر کیا کر رہے تھے؟‘‘

    فیلیئر کمال چالاکی اورسرعت سے اپنی پتلون کے بٹن بند کر چکا تھا۔ ظاہر ہے کہ وہ یہ کام اکثر کرتا تھا اور اس میں طاق تھا۔ اب وہ یوں بیٹھا تھا کہ جیسے شوکت صاحب صرف مجھ سے مخاطب ہوں۔ خود وہ سیدھا، سامنے بلیک بورڈ کو معصومیت سے دیکھ رہا تھا جیسے مجھے سے بالکل لاتعلق ہو۔

    ’’کچھ نہیں سر۔‘‘ میں نے کہا؛ ’’وہ۔۔۔ وہ۔۔۔‘‘ بھلا ایسی گندی اور شرمناک باتیں بتاتے ہی کیسے ہیں کسی کو؟

    شوکت صاحب کچی گولیاں نہیں کھیلے تھے اور فیلئیر کو تو لگتا تھا کہ بہت ہی اچھی طرح جانتے تھے۔ میں جب یہ اول فول بک رہا تھا تو وہ آکر فیلیئر کے عین پیچھے کھڑے ہو گئے اور ابھی میں ’’وہ وہ۔۔۔‘‘ ہی کہے جا رہا تھا کہ انھوں نے فیلیئر کے بال اپنی مٹھی میں پکڑے اور انھیں اوپر کھینچ کر اسے کرسی سے اٹھا کے کھڑا کرنا چاہا۔ فیلیئر بھی شوکت صاحب کو اتنا ہی جانتا تھا جتنا کہ وہ اس کو۔ اس نے بال کھینچنے کا موقع نہ دیا اور خود ہی تیزی سے کھڑا ہو گیا۔

    ’’سر میں اسے اپنا نام بتا رہا تھا۔‘‘ وہ بولا۔

    ’’جھوٹ جھوٹ۔‘‘ مکرم نے پیچھے مڑ کے کہا۔’’ سر نام تو اس نے پہلے ہی بتا دیا تھا۔ جب آپ آئے ہی نہیں تھے کلاس میں۔‘‘

    ’’مانیٹر کون کون ہیں؟‘‘ شوکت صاحب نے پوچھا۔

    حالانکہ ابھی کوئی باقاعدہ مانیٹر بنا ہی نہیں تھا، مگر چونکہ ذاکر اول آیا تھا اور ہارون دوم، دونوں اپنی جگہوں پر کھڑے ہو گئے۔

    ’’سر ذاکر فرسٹ آیا ہے اور ہارون سیکنڈ۔‘‘ مکرم پھر بولا۔

    ’’اس کا مطلب ہے یہ مانیٹر ہیں۔ ذاکر، جاؤ جا کے دفتر سے کین لے کر آؤ۔‘‘

    کین۔ بانس کی موٹی، مہلک سوٹی۔

    جس اثنا میں کین کا انتظار ہو رہا تھا شوکت صاحب ہمیں بتا تے رہے کہ فیلیئر کیسا خبیث اور نالائق لڑکا ہے۔ انھوں نے صاف صاف کہا کہ بہتر ہے کہ باقی کلاس فیلیئر سے دور رہے اور اس بات پر کف افسوس ملے کہ اس نالائق بدمعاش کو تیسری بار فیل ہونے کے باوجود ایک موقع اور دے دیا گیا تھا، محض اس لیے کہ وہ پرنسپل صاحب کا دور کا رشتہ دار تھا۔ انھوں نے میری کرسی اٹھواکر کلاس کے دوسرے سرے پر، سب سے بائیں جانب والی قطار کے سب سے پیچھے رکھوا دی۔ میں شرمندہ اور پریشان، کن اکھیوںسے کبھی کبھی فیلیئر کی سمت دیکھتا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ اسے اس سب کی کافی عادت تھی اور اس لیے وہ اطمینان سے صرف مسکرائے جا رہا تھا اور کبھی کبھی مجھے یا کسی اور لڑکے کو جو اس کی جانب دیکھتا، آنکھ مار دیتا تھا۔

    ’’آج تمہارا پہلا دن ہے۔‘‘ شوکت صاحب نے مجھ سے کہا۔ ’’تمہیں صرف چار کینز ماروں گا۔‘ یہ کسی ’’سزانامہ‘‘ میں درج نہیں تھا کہ کس بات پر کتنی سوٹیاں پڑیں گی اور پہلے دن کم پڑیں گی یا زیادہ۔ سزا کے معاملے میں جس استاد کا جو دل چاہتا وہ طے کر لیتا تھا۔

    مجھے چار سوٹیاں پڑیں۔ ہتھیلیوں پر۔ دو بائیں اور دو دائیں ہتھیلی پر۔ شاں۔۔۔ شاں کر کے کین ہوا کو چیرتی نیچے آتی تھی اور ہتھیلی پہ پڑنے سے پہلے،خوف زدہ کر دیتی تھی۔ میری آنکھوں سے دو آنسو نکلے۔ ایک دائیں آنکھ سے، ایک بائیں آنکھ سے اور میرے ہاتھوں پہ کین پڑنے سے لال لال پتلے نشان بن گئے، ایک دائیں ہاتھ پہ، ایک بائیں ہاتھ پہ۔ کیسا دائیں بائیں ہو رہا تھا سب، پہلے ہی دن۔ آنسو تھوڑی دیر میں جذب ہو گئے اور اس کے کچھ دیر بعد نشان ہتھیلیوں کی کھال میں غائب ہو گئے۔

    فیلیئر کو بارہ سوٹیاں پڑیں۔ ایک ایک ہاتھ پہ چھ چھ۔ نشان تو اس کی ہتھیلیوں پہ بھی پڑے ہوں گے مگر آنسو اس کا کوئی نہ نکلا۔ شوکت صاحب ہمیں سزاد ے کے واپس اپنی کرسی پہ چلے گئے تو فیلیئر نے میری طرف دیکھ کر اپنی ہتھیلیاں آپس میں رگڑیں اور مجھے اشارہ کیا کہ میں بھی ایسا ہی کروں۔ مگر میں نے اپنی نظریں شوکت صاحب کی جانب لگا لیں اور ہاتھوں کو پتلون کی جیب میں ڈال دیا۔

    میری پوری کوشش تھی کہ فیلیئر سے قطع تعلق کر لوں مگر یہ مشکل تھا۔ کلاس میں سب سے پیچھے دائیں طرف وہ اور بائیں طرف میں بیٹھتا تھا اور ہم دونوں کے درمیان فاصلہ تھا مگر کرسی کوئی نہیں تھی۔ میں اس سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتا تھا گوکہ یہ ضرور ہے کہ کبھی کبھی میں اس کی طرف دیکھ لیتا تھا۔ کن اکھیوں سے، کچھ اس خیال سے کہ ضرور کوئی نہ کوئی عجیب بات دیکھنے کو ملےگی۔ اگر کبھی وہ اس لمحے میری طرف ہی دیکھ رہا ہوتا تو میں شرمندہ ہو جاتا یا کبھی ڈھیٹ بن جاتا اور اس کی طرف دیکھنے سے آنکھیں ہٹانے کی بجائے یہ ایکٹنگ کرتا کہ میں اسے نہیں دیکھ رہا بلکہ کسی گہری سوچ میں گم، فضاء میں کہیں اس سے پرے گھور رہا ہوں۔ کلاس کے علاوہ بھی فیلیئر کہیں نہ کہیں میرے مقابل آ ہی جاتا تھا۔ واٹر کولر کے کمرے میں، کینٹین میں، کسی راہداری میں، سڑھیاں چڑھتے اترتے۔ عجیب بات تھی کہ اس نے کبھی مجھ سے بات کرنے کی دوبارہ کوشش نہیں کی۔ دیکھ کے مسکرا دیتا تھا یا کبھی آنکھ مار دیتا تھا۔ بس۔ میں محسوس کرتا تھا کہ اس کا مجھ سے بات نہ کرنا میرے لیے اس کی حقارت کا مظہر تھا اور اس خیال سے میں کڑھتا تھا اور پھر یہ سوچ کر ذرا ہتک بھی محسوس کرتا تھا کہ اس کا ضرور یہ خیال ہوگا کہ دیکھو میں کیسے کیسے جرات مندانہ کاموں میں طاق اور مشاق ہوں جبکہ یہ کیسا ڈرپوک ہے جو صرف چار سوٹیاں پڑنے پر بھی رو پڑتا ہے۔

    اس سکول کے کینٹین سے کوئی کھانے کی چیز لے کر نکلنا بہت مشکل کام تھا۔ کینٹین سے ایک راہداری باہر کی جانب آتی تھی اور اس میں ہمیشہ بہت بھیڑ ہوتی تھی۔ اس کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بڑے بڑے لڑکے کھڑے رہتے تھے اور چھوٹے لڑکوں کے برگروں اور چکن پیٹیوں پر ہاتھ مار کر انھیں اچکنے کی کوشش کرتے تھے۔ لڑکے عموماً اپنا برگر یا پیٹی مضبوطی سے پکڑ کے کینٹین سے باہر آنے کی کوشش کرتے تھے مگر پھر بھی اکثر یہ ہوتا تھا کہ باہر پہنچتے پہنچتے ان کے ہاتھوں میں کچھ ملیدے کے علاوہ بہت زیادہ نہیں بچتا تھا۔

    مجھے پیسے لیکر سکول جانے کی عادت نہیں تھی بلکہ ایسا کرنے سے کچھ چڑسی تھی۔ کبھی دو تین روزبعدامی زبردستی پیسے پکڑا دیتیں تو میں ایک ڈیڑھ روپیہ رکھ لیتا مگر عام طور پہ جب بھی امی کہتیں کہ پیسے لے لو تو میں کہتا کہ نہیں، ضرورت نہیں ہے۔ یہ بات جھوٹ نہ تھی اور میں صرف اس وجہ سے انکار نہیں کرتا تھا کہ مجھے چڑتھی بلکہ یہ واقعی غیرضروری تھا اور شاید مجھے چڑ تھی ہی اسی لیے کہ جب ضرورت نہیں ہے تو کیوں پیسے لے کر سکول جاؤں؟ جوں ہی آدھی چھٹی کی گھنٹی بجتی، میں اور میرے ایک دو دوست اپنے دوسرے ہم جماعتوں سے پیسے مانگنا شروع کر دیتے تھے۔ کبھی کوئی چار آنے دے دیتا تھا اور کبھی کوئی آٹھ آنے۔ کبھی صرف چکن پیٹی کے پیسے اکٹھے ہوتے تھے اور کبھی برگر اور بوتل کے بھی جمع ہو جاتے تھے مگر ایسا دن کوئی کوئی ہی آتا کہ کسی بھی شے کے لیے پیسے پورے نہ ہو سکیں۔ بریک ختم ہونے سے کوئی پانچ منٹ پہلے ہم یہ کاروبار بند کرکے کینٹین کی طرف بھاگتے اور جلدی سے جس چیز کے پیسے اکٹھے ہوئے ہوتے، وہ خرید کے مزے لے لے کر کھا جاتے۔ بریک ختم ہونے کے آس پاس کینٹین جانے کا یہ بھی فائدہ تھا کہ بڑے بڑے لڑکے، خطرناک لڑکے، تب تک کینٹین کی راہداری سے جا چکے ہوتے تھے۔

    میرے پا س اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے کہ ہم ایسا کیوں کر تے تھے۔ یعنی بھیک کیوں مانگتے پھرتے تھے۔ اگر امی کو پتہ چل جاتا کہ میرے ان سے پیسے نہ لینے کی یہ وجہ تھی تو وہ سخت غصے میں آتیں۔تب اس قسم کی باتیں معیوب سمجھی جاتی تھیں اور کچھ گھروں یا علاقوں میں ہو سکتا ہے آج بھی سمجھی جاتی ہوں۔ میرا کسی دوست کے گھر کھانا کھا لینا یا کھا نے کے وقت چلے جانا تک معیوب گنا جاتا تھا سو ظا ہر ہے کہ یوں پیسے مانگنا تو بہت ہی برا سمجھا جاتا۔میں نہیں جانتا کہ جن دوستوں کے ساتھ مل کے میں یہ کام کرتا تھا وہ ایسا کیوں کر تے تھے مگر اپنے بارے میں مجھے بس یہ علم ہے کہ میں نے کبھی یہ نہیں سمجھا تھا کہ اس طرح پیسے مانگنے میں کوئی خراب بات تھی۔ سمجھا ہوتا تو جان بوجھ کے کیوں ایسا کرتا؟ جس طرح ابا کے ایک دوست فضوا نکل کہتے تھے کہ میں واقعی یہ نہیں سمجھتا کہ کوئی خدا موجود ہے۔ اگر سمجھتا کہ ہے اور میرے دل سے آواز اٹھتی کہ ہے، تو کیوں جان بوجھ کے میں کہتا کہ نہیں ہے؟ خاص طور پہ جب کہ آپ یہ بھی بتاتے ہیں کہ جہنم میں خدا کو نہ ماننے والوں کیلئے کیسے کیسے عذاب دینے کے بندوبست مو جود ہیں۔ امی کو فِضو انکل ان باتوں کی وجہ سے سخت ناپسند تھے اور وہ کہتی تھیں کہ میری اللہ پاک سے دعا ہے کہ جب یہ شخص جہنم کی آگ میں جل رہا ہو تو میں وہ منظر دیکھ سکوں۔ جب یہ الٹا لٹکا ہو اور اس کی کھوپڑی کے نیچے دھیمی آنچ کا شعلہ مستقل جلے اور وہ مغز جس کے اندر سے اس کے یہ خیالات برآمد ہوتے ہیں، موم کی طرح پگھل پگھل کر ٹپکے، تو میں وہ منظر دیکھ سکوں۔ جب اس کی زبان کو، جس سے یہ ایسی باتیں بکتا ہے، کالے کو برے اور دیگر سانپ یا بچھو ڈسیں، تو میں وہ منظر دیکھ سکوں۔

    اس روز ہم خوب کامیاب رہے تھے اور ہم تینوں کے لیے ایک ایک چکن پیٹی کا بندوبست ہو گیا تھا۔ میں کینٹین سے اپنی پیٹی خرید کر نکلنے لگا تو میرے عین سامنے راہداری میں فیلیئر کھڑا تھا۔ اس نے بڑے اطمینان سے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور میری پیٹی کا ایک ٹکڑا توڑ کر کھا نے لگا۔

    ’’چھٹی کہ بعد مجھے ملیں‘‘۔ اس نے ٹکڑا چباتے ہوئے کہا۔ ’’ادھر سائیکل سٹینڈ کی دیوار کے ساتھ‘‘۔

    سائیکل سٹینڈ کینٹین کے پیچھے تھا اور تین طرف سے کھلا تھا۔ اس کی دیوار ایک ہی طرف تھی اور اس دیوار کے پیچھے بڑے بڑے درخت اور ان کے پیچھے ٹینس والا گراؤنڈ تھا۔

    ’’کیوں؟ کیا ہے؟‘‘ میں نے گھبراکے پوچھا گو میں کچھ خوش بھی ہوا کہ آج اس نے حقارت نہیں دکھائی اور مجھے شاید اپنے برابر کا سمجھا ہے۔

    ’’ملیں نا بس۔ کچھ دکھانا ہے‘‘۔ فیلیئرنے کہا اور چکن پیٹی کا ایک اور ٹکڑا توڑ کے چلتا بنا۔

    دکھانا ہے؟ میں لرز اٹھا کہ کہیں وہی ذلیل حرکت تو نہیں کر نی اس نے دوبارہ؟ مگر مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ میں اس دہشت ناک امکان کے باوجود سائیکل سٹینڈ کے پیچھے ضرور جاؤں گا۔

    جب میں چھٹی کے بعد وہاں پہنچا تو فیلیئر دیوار کے پیچھے کی بجائے اپنی سائیکل تھامے سامنے ہی کھڑا تھا۔

    ’’ ادھر نہیں۔ ادھر سینئر لڑکے بہت ہیں۔ میرے ساتھ آ‘‘۔ اس نے کہا۔

    ’’کہاں؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’میرے گھر۔ میری سائیکل پہ جائیں گے۔ گھر پہ کوئی نہیں ہے۔‘‘

    ’’تمھارے گھر؟ کیوں؟ دکھانا کیا ہے؟‘‘ میں نے خوف سے پوچھا۔

    ’’چل آ جلدی۔‘‘ اس نے میرے سوالات کا جواب دیئے بغیر کہا۔

    میں نے کہا کہ میں گھر بتائے بغیر اس طرح سکول سے کسی اور کے گھر نہیں جا سکتا خاص کر جب کہ میں اسے بالکل بھی جانتا نہ تھا۔ فیلیئر یہ سن کر غصے میں آیا اور اس نے کہا کہ ٹھیک ہے، تمھاری مرضی۔ نہیں دیکھنا تو نہ دیکھو۔

    ’’دکھانا کیا ہے؟‘‘

    ’’نہ۔ بتا نے کی بات نہیں ہے۔ گھر چل۔ وہیں دکھاؤں گا۔ پھر تجھے سائیکل پہ واپس بھی چھوڑ دوں گا۔ چل آ۔‘‘

    میں اس کی سائیکل پہ پیچھے کیرئیر پر بیٹھ گیا اور اس نے پیڈل مارنے شروع کیے۔

    ’’کسی کو بتانا نہیں ہے۔ اچھاـ؟‘‘

    ’’اچھا۔‘‘ میں نے کہا۔ حالانکہ کچھ پتہ نہ تھا کہ دکھانا کیا ہے۔

    اس کا گھر زیادہ دور نہیں تھا۔ گیٹ پر شلوار قمیض میں ملبوس ایک چوکیدار کھڑا تھا اور اندر ایک نیلی ٹیوٹا گاڑی کھڑی تھی۔

    ’’اماں بابا دوسری کار میں گاؤں گئے ہیں۔‘‘ اس نے سائیکل روک کر کہا۔ ‘‘مجھے گاڑی بھی چلانی آتی ہے۔‘‘

    ’’مجھے نہیں آتی۔‘‘ میں نے کہا۔

    وہ گھر میں داخل ہوکر مجھے سیڑھیوں سے اوپر کی منزل پر لے گیا اور کمرے میں لے جا کے دروازے کو اندر سے کنڈی لگا دی۔ پھر اپنے سکول بیگ میں سے ہی اس نے دو چمکدار کاغذوالے رنگین رسالے نکالے۔

    ’’یہ لے۔ دیکھ۔ بیٹھ جا۔‘‘

    میں نے بیٹھنا کیا تھا، ان عجیب و غریب رسالوں کو دیکھتے ہی میری آنکھیں خوف اور حیرت سے باہر نکل آئی تھیں۔وہیں کھڑے کھڑے میں نے تھوک نگلی اور ان کے صفحے پلٹنے لگا۔ ننگے لوگ۔ اتنے بہت سے اور اس قدر ننگے لوگ؟ آدمی اورعورتیں۔ اس طرح کیوں ان ننگے لوگوں نے اپنی تصویریں کھینچوائی تھیں؟ اور پھر رسالوں میں چھپوا بھی دیں؟ یہ کیسے لوگ ہوں گے؟ ان کے گھر والے انھیں کچھ نہیں کہتے ہوں گے؟ جس جس طرح کی وہ تصویریں تھی اور جو جو وہ ننگے لوگ ان میں کر کے ساری دنیا کو دکھا رہے تھے اس سے میں بےحد حیران اور خوفزدہ تھا۔ یہ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ اس بات کی کیا ممکنہ وجہ ہو سکتی ہے؟ اگر یہ بور ہو رہے تھے، یا ان کے پاس کرنے کو کوئی کام نہیں تھا تو یہ تفریح کے لیے کسی باغ کی سیر کو جا سکتے تھے یا ہاکی کھیل سکتے تھے اور ان میں جو لڑکیاں تھیں وہ سلائی کڑھائی میں اپنا دل لگا سکتی تھیں۔ خاص یہی مشغلہ اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ میں سوچوں میں گم صفحے پلٹتا رہا۔ اس قدر لا تعداد ننگے لوگ؟

    مجھے خیال ہی نہ رہا کہ فیلیئر بھی کمرے میں موجود ہے۔ اس نے میرے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور کہا’’ بیٹھ جا، بیٹھ کے آرام سے دیکھ نا۔‘‘

    ’’تجھے پتہ ہے’’ سیکسی ’’کا کیا مطلب ہوتا ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    ’’کس کا؟۔ ‘‘

    ’’سیکسی کا۔ ‘‘

    میں نے یہ لفظ پہلے بھی سنا ہوا تھا اور اب سے کافی پہلے جب ایک بار اسے سنا تھا تو نوید بھائی سے پوچھا بھی تھا کہ اس کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ اس کا کوئی خاص مطلب نہیں ہوتا اور یہ ایک مہمل سی بات ہے۔ جب غصہ آئے، یا کوئی کام ٹھیک سے نہ ہو تو جیسے ’’اوہو’’ کہہ سکتے ہیں، ویسے ہی یہ لفظ کہہ دیتے ہیں۔ لیکن کہنا نہیں چاہیے۔ مگر اب، اس وقت فیلیئر کیوں مجھ سے اس کے معنی پوچھ رہا تھا؟

    ’’اوہو۔‘‘ میں نے کہا اور اپنی دانست میں فیلیئر کو اس لفظ کے معنی بتائے۔ مگر فیلیئر کو کچھ سمجھ نہ آئی۔ شاید اس کو بھی صحیح طرح سے نہیں پتہ تھا۔

    ’’یہ دیکھ۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ لوگ جو کر رہے ہیں نا، یہ سیکسی ہوتا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔ ‘‘یہ سارے سیکسی کام کر رہے ہیں۔‘‘ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ وہ بکواس کر رہا تھا یا نوید بھائی کو اس لفظ کے معنی نہیں پتہ تھے؟ اس خیال سے میں ملول ہوا کہ اس چیز کا امکان پیدا ہوا تھا کہ کوئی بات ایسی بھی ہے جس کا نوید بھائی کو صحیح طرح علم نہیں ہے۔

    ’’تجھے نہیں پتہ تھا نا؟؟‘‘ فیلیئر نے پوچھا۔

    ’’نہیں۔‘‘ میں نے تھوک نگل کے کہا۔

    ’’میری گرل فرینڈ بھی ہے۔‘‘ اس نے فخر سے کہا۔‘‘ فون گرل فرینڈ۔ فون پہ باتیں کرتی ہے۔‘‘

    کچھ لمحے فیلیئرخاموشی سے مجھے رسالوں میں منہمک دیکھتا رہا اور خوف سے زرد ہوتے میرے چہرے کے رنگ سے شاید لطف اٹھاتا رہا۔

    ’’نہانا ہے؟‘‘ وہ بولا۔ ’’شاور میں؟ میرے باتھ روم میں شاور ہے۔‘‘

    ’’نہانا؟ کیوں؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’ویسے ہی۔ شاور میں؟ چل دونوں نہاتے ہیں۔‘‘

    اسی وقت دروازے پہ دستک ہوئی اور میں بری طرح ہڑبڑا اٹھا۔ اس کی پیش کش سے بھی اور دروازے کی دستک سے بھی اور میں نے رسالے جلدی سے پلنگ کے نیچے پھینک دیے۔

    ’’صاحب کھانا۔‘‘ باہر سے آواز آئی۔

    ’’اوہو‘‘ فیلیئرنے افسوس سے کہا اور میری طرف دیکھا۔

    ’’میں جاؤں؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’ٹھہر جا۔ کھانا پڑا رہےگا۔‘‘ اس نے کہا۔’’ چل نہاتے ہیں۔‘‘

    مگر میں ایسا گھبرا چکا تھا کہ اب مزید وہاں ٹھہرنانہ چاہتا تھا۔ ابھی مجھے اس حیرت انگیز اور خوفناک معاملے کو ہضم کرنے کے لیے کچھ وقت درکار تھا۔ ان بلا وجہ ننگے لوگوں کو، اس لفظ سیکسی کے نئے معنی کو اور فیلیئر کی اس شاورمیں غیر ضروری طور پر نہانے کی دعوت کو۔ میں نے کہا کہ نہیں مجھے جانا چاہیے کیونکہ امی کھانے پر میرا نتظار کریں گی اور یہ نہ ہو کہ اتنی دیر ہو جائے کے وہ غضبناک ہو جائیں۔

    ’’میری سائیکل لے جا۔ کل سکول لے آنا۔ ‘‘ اس نے کہا۔

    لیکن میں اس کی سائیکل نہیں لے جا نا چاہتا تھا۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ وہ کیسا لڑکا ہے۔ یعنی سکول کے اس پہلے روز اسنے جو کیا تھا اور پھر آج جو چیزیں اس نے مجھے اپنے گھر لے جاکے دکھائی تھیں اور جس جس طرح کی باتیں کی تھیں، وہ کیسے لڑکے کر تے ہیں؟ اچھے؟ برے؟ یابڑے ہی بدمعاش اور خراب؟ یا نہ اچھے نہ برے، بس لڑکے جو عمر میں بڑے ہونے لگتے ہیں؟ اور یہ بھی تھا کہ میں کسی اور لڑکے کی سائیکل لے کے گھر نہیں جا نا چاہتا تھا۔ امی اس پہ کچھ زیادہ خوش نہ ہوتیں اور بہت سوال جواب کرتیں۔ میں نے فیلیئر سے کہا کہ میرا گھر قریب ہی ہے اور میں بہت آرام سے پیدل جا سکتا ہوں، اس لیے سائیکل کی ضرورت نہیں ہے۔

    ۔۔۔۔۔۔

    یہ فیلیئر کے گھر جانے کے بہت عرصہ بعد کی بات نہیں ہے کہ ایک دن جب میں، طلعت، سائمو، قمر اورعاقب، مظہر کے گھر جمع تھے، مظہر نے اعلان کیا کہ طلعت کو ایک نہایت خطرناک بیماری ہو چکی ہے جس کا نام پلیگ ہے۔

    طلعت یہ سنتے ہی رونا شروع ہو گیا۔ اسے بغیر پوچھے ہی معلوم تھا کہ یہ بات مظہر کو بلیک ہینڈ نے بتائی ہے، وہ غیبی اور خطرناک طاقت جس کے بارے میں کبھی ٹھیک سے پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ مظہر کے قابو میں تھی یا مظہر اس کا چیلا تھا۔

    ’’اب کیا ہوگا؟‘‘ عاقب نے پوچھا۔

    پلیگ تو بہت خطرناک ہو تی ہے۔ سائمونے کہا، ’’ لندن میں جب پلیگ پھیلی تھی تو اسے Black Death کہتے تھے‘‘۔ اس پر مظہر نے ہمیں بتایا کہ طلعت کو پلیگ ہونے کی وجہ یہی ہے کہ پلیگ کا دوسرا نام بلیک ڈیتھ ہے۔‘‘ بلیک ہینڈ - بلیک ڈیتھ‘‘۔ اس نے معنی خیز مسکراہٹ سے کہا۔ ’’یہ بیماری طلعت کو بلیک ہینڈ نے کروائی ہے۔‘‘

    ’’مگر طلعت بچارے نے کیا کیا ہے جو Black Hand نے اسے یہ بیماری لگا دی ہے؟‘‘ عاقب نے پوچھا۔’’اب یہ مر جائےگا؟‘‘

    اس پر مظہر نے بتایا کہ Black Hand ہم سب سے ناراض ہو گیا ہے۔ کیوں ہو گیا ہے، ابھی اس نے مظہر کو بھی نہیں بتا یا، مگر یہ ضرورہے کہ طلعت بیچارے کو پلیگ ہو گئی ہے۔

    ’’مگر یہ لگتا تو ٹھیک ہے با لکل۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’یہی تو پلیگ کی بات ہے۔ پتہ ہی نہیں چلتا۔ Black Hand مجھے نہ بتا تا تو ہمیں کبھی پتہ نہ چلتا۔‘‘ مظہر بولا۔پھر اس نے طلعت کی طرف گھور کے دیکھا جو بس روئے چلا جا رہا تھا۔

    ’’رونے کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘ اس نے کہا۔

    ’’اب یہ مر جائےگا؟‘‘ عاقب نے پھر پوچھا۔

    مظہر نے کہاکہ وہ Black Hand سے پوچھ کے بتائےگا۔ یہ کہہ کر وہ ذرا ایک طرف ہو گیا اور کنپٹیوں پہ ہاتھ رکھ کے آنکھیں بند کر لیں جیسے گہرے مراقبے میں ہو۔ کافی دیر وہ یونہی کھڑا رہا۔ طلعت روتا چلا جا رہا تھا اور سب کو اس کے انجام سے دلچسپی ہوئی جا رہی تھی۔یکا یک مظہر نے آنکھیں کھولیں اور کہاـ:

    Black Handمان گیا ہے۔ مگر ایکشن کر نا پڑےگا۔

    ایکشن؟ یہ ہمارے لیے نئی با ت تھی۔

    ’’ ایکشن کر ناپڑےگا۔‘‘

    ’’کیا ایکشن؟‘‘

    ’’ سائمو کے گھر میں۔ سٹور روم میں۔ وہاں ہوگا ایکشن۔‘‘

    اس کو، اس ہمارے محلے کے دوست مظہر کو، بند ویران جگہوں میں گھس کر بیٹھنے کا نہ جانے کیا شوق تھا۔ وہ اس کو کھلے میدانوں میں کھیلنے پہ ہمیشہ تر جیح دیتا تھا۔ جب سائمونے ہمیں اپنے گھر کے اندر آنے دینا شروع کیا تھا تو مظہر کو اس کے گھر میں موجودایک سٹور روم میں بہت دلچسپی پیداہوئی تھی۔ یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں طرح طرح کا کاٹھ کباڑ بھرا رہتا تھا۔ ایک پچھلے برس کاکرسمس ٹری اور اس کی سجاوٹیں، بہت سے چھوٹے بڑے گتے کے ڈبے، ایک پرانی بائیسیکل، ڈاکٹر والٹر اور مسز والٹر کی قسم قسم کی شراب کی خالی بوتلیں۔ مظہر کو ان بو تلوں میں بھی ہمیشہ بڑی دلچسپی رہتی تھی اور وہ یہ بات ہمیشہ کہتا تھا کہ دیکھو دیکھو ابھی نیچے تہہ میں تھوڑی سی شراب پڑی ہوئی ہے۔

    مظہر کی کوشش ہو تی تھی کہ ہم جب بھی سائموکے گھر جائیں اسی کمرے میں گھسے رہیں اور وہیں کھیلیں اور لگتا تھا کہ اب اس مقصد کے لیے اس نے Black Hand کی مدد بھی لینا شروع کر دی تھی۔

    ’’لیکن کیا ایکشن؟‘‘ قمر نے پوچھا۔

    مظہر نے کہاکہ ایکشن کے بارے میں وہ ہمیں وہاں سٹور روم میں ہی بتا ئےگا۔ مجھے لگا کہ اسے خود بھی نہیں پتہ تھا کہ کیا ایکشن کر نا ہوگا اور ابھی اسے اس بارے میں سوچنا تھا، یا Black Hand سے ضروری ہدایات لینا تھیں۔

    ہم سائموکے گھر پہنچے تو مسز والٹر باورچی خانے میں کچھ کر رہی تھیں۔ ویسے بھی، وہ ہم سے کچھ زیادہ سروکار نہیں رکھتی تھیں۔ بچے کھیل رہے ہیں۔ کھیلنے دو۔ کیا کر لیں گے زیا دہ سے زیادہ؟ ہم لوگ شور کیے بغیر اس تنگ و تاریک سٹور روم میں جا گھسے، جہاں کافی گرمی تھی اور روشنی کے لیے ایک ننگا بلب دیوار پہ لگا تھا۔

    قمر گھر جا چکا تھا۔ اس کے اور سائموکے درمیان کچھ ایسا معاملہ تھا کہ سائمو کہتا تھا کہ قمر چور ہے اور جب پہلے وہ اس کے گھر آیا کرتا تھا تو اس کے کھلونے چوری کر کے لے جاتا تھا۔ سچ یہ ہے کہ ہم اکثر قمر کے گھر جاتے تھے اور ہم نے کبھی وہاں سائمو کا کوئی کھلونا نہیں دیکھا تھا اور فرض کیا کہ کبھی کبھار وہ چوری کر بھی لیتا تھا تو اس میں ایسی کیا برا ماننے کی بات تھی؟ یہ ٹھیک ہے کہ سائمو کے کھلونے ہمیں نایاب سے لگتے تھے کیونکہ ان میں سے اکثر یورپ امریکہ وغیرہ سے آئے تھے۔ اس کی بہت سی آنٹیاں اور انکل جو ان جدید براعظموں میں رہتے تھے جب بھی کبھی لا ہور آتے تھے سائموکے لیے طرح طرح کے کھلونے لا تے تھے۔ پھر بھی، زیادہ سے زیادہ کتنے نایاب اور کتنے مہنگے ہوں گے سائموکے کھلونے؟ آخر کسی دوکان میں ملتے ہی تھے نہ جو اس کے انکل آنٹیاں خرید کر لے آتے تھے۔ پر اصل بات تو یہ ہے کہ اگر قمر اس کی چیز یں چوری کرتا تھا تو سائمو بھی تو جواب میں قمر کی کوئی چیز باآسانی چرا سکتا تھا۔ اسے کسی نے روکا تو نہیں تھا نا۔ سو پھر اس بات کا اتنا فسانہ بنانے کی کیا ضرورت تھی کہ قمر کھلونے چرا لیتا ہے؟ قمر جانتا تھا کہ سائمو اس کے بارے میں ایسی باتیں کرتا تھا اور جب بھی سائموکے گھر جانے کی بات شروع ہوتی تو وہ اس گفتگو میں حصہ نہ لیتا اور تھوڑی ہی دیر بعد کوئی بہانا بناکے اپنے گھر چلا جاتا۔ آج بھی، جونہی مظہر نے سائموکے سٹور روم کا ذکر کیا قمر نے کہا کہ میرا homework بہت رہتا ہے، مجھے گھر جا کے homework کر نا ہے۔

    سٹور روم میں پہلے تو مظہر نے کہا کہ ایکشن میں طلعت اور سائمن حصہ لیں گے جبکہ میں اور عاقب اس کے ساتھ بیٹھیں گے۔ پھر یہ کہا کہ ہم سب کی آنکھیں بند ہوں گی۔ کوئی کچھ نہیں دیکھےگا۔

    ’’مگر میں کیوں حصہ لوں گا؟ میں کیوں؟‘‘ سائمو نے پوچھا۔ ایسے پوچھا جیسے بہت ہی کوئی خطرناک کام اس سے کر نے کو کہا جانے والا تھا۔ حالانکہ ابھی توپتہ بھی نہیں تھا کہ ایکشن ہے کیا اور اس میں کیا کر نا ہوگا۔

    مظہر نے وہی جواب دیا جو اس کو دینا تھا۔ ’’بلیک ہینڈ نے کہا ہے۔‘‘

    مظہر نے ڈاکٹر والٹر کی شراب کی ایک بوتل اٹھائی اور اس کا ڈھکن اتار کر بوتل کے منہ سے ناک لگا کے سونگھا۔

    ’’بڑی تیز بوہے۔ شراب کی طرح کی۔‘‘ اس نے کہا۔ پھر جو شراب کے قطرے بوتل میں ڈاکٹر والٹر نے چھوڑ دیے تھے انھیں مظہر نے ڈھکن میں ٹپکا لیا۔ اسی طرح، با ری باری اس نے تمام بو تلوں میں پڑے باقی ماندہ قطرے اس ڈھکن میں ٹپکائے۔ لگتا تھا کہ والٹر میاں بیوی طرح طرح کی شراب پیتے تھے کیونکہ دو تین بوتلوں میں سفید قطرے تھے اور باقی میں بھورے بھورے۔ ان سب قطروں کو جمع کر کے تقریباً آدھا ڈھکن بھر گیا جسے مظہر نے طلعت کی طرف بڑھایا۔

    ’’یہ پی۔‘‘

    ’’شراب؟‘‘ طلعت نے لرز کے پوچھا ’’شراب؟‘‘

    ’’ضروری ہے۔ کچھ نہیں ہوتا۔ پی لے۔ یہ دیکھ۔‘‘ ا س نے خود ڈھکن اپنے منہ سے لگا کر ایک دو قطرے پیئے۔

    ’’کڑوی ہے ذرا۔ بس اور کوئی بات نہیں۔ چل پی۔‘‘

    طلعت نے ڈھکن پکڑا اور اسے ناک کے قریب لا کے سونگھا۔

    ’’کتنی گندی بو ہے۔‘‘ اس نے کہا۔

    مظہر نے اسے کہا کہ ناک بند کر کے پی جاؤ اور ساتھ یہ بھی بتا یاکہ ناک بند کر کے پینے سے کڑواہٹ بھی محسوس نہیں ہوگی۔ زندگی موت کا معاملہ تھا۔ طلعت نے مظہر کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ایک ہاتھ سے ناک کے نتھنے بند کیے اور ایک ہی بار میں تمام شراب منہ میں انڈیل کر پی گیا۔

    ’’اف۔۔۔ گلا جل رہا ہے۔‘‘ وہ بولا اور کھا نسنے لگا۔

    مظہر نے ایکشن کروا نا شروع کیا۔

    ’’سب لوگ آنکھیں بند کریں گے۔ سب لوگ۔ طلعت اور سائمو بھی اور ہم تینوں بھی۔‘‘ ہم سب نے آنکھیں بند کر لیں۔ ہم تینوں، یعنی میں مظہر اور عاقب زمین پہ بیٹھے تھے اور ہمارے سامنے طلعت اور سائمو کھڑے تھے۔ میرے دائیں طرف عاقب تھا اور بائیں طرف مظہر۔ ہم تینوں کے پیچھے پرانا کرسمس ٹری، سائمو کی سائیکل، شراب کی خالی بوتلیں اور کچھ اور کاٹھ کباڑ پڑا تھا۔

    ’’ہر ایک اپنی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ لے۔ اگر کسی نے cheating کی تو اسے بھی پلیگ ہو سکتی ہے‘‘۔ اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ مظہر ماحول کو ڈرامائی بنا رہا تھا اور یوں ایکٹنگ کر رہا تھا جیسے بلیک ہینڈ سے ہدایات لے رہا ہو۔

    ’’طلعت اور سائمو اپنی اپنی نیکریں اتار دیں۔‘‘

    نیکریں اتار دیں؟

    میں نے سرگوشی میں مظہر سے پوچھا، ’’نیکریں؟؟؟‘‘ عاقب نے بھی مجھے اپنی کہنی سے ٹہوکا دیا اور سر گوشی میں کہا،’’نیکریں؟‘‘

    Shhhh. Shhhh. مظہر بولا۔

    مگر ہمیں لگا نہیں کہ طلعت اورسائمو نے نیکریں اتار دیں۔

    ’’اتار دی ہیں؟‘‘ مظہر نے پوچھا۔

    ’’اوں ہوں ہوں اوں اوں۔۔۔امی جی امی جی امی جی‘‘ طلعت ہلکی ہلکی آواز میں رونے لگا۔ ہم نے آنکھیں کھول دیں۔سائمو نے نیکر تو نہ اتاری تھی مگر وہ کافی اطمینان سے کھڑا تھا۔ لگتا تھا کہ مظہر ایک بار اور کہےگا تو وہ نیکر اتار دےگا۔ طلعت ہلکے ہلکے روتا جاتا تھا اور بڑبڑاتا جا تا تھا:

    ’’امی جی امی جی امی جی۔۔۔ نیکر نہیں، نیکر نہیں۔ نیکر نہیں۔‘‘ اس نے ایک ہاتھ سے نیکر بھی پکڑ رکھی تھی۔ جیسے اندیشہ ہو کہ کوئی کھینچ کر اسے اتار دےگا۔

    مظہر نے ڈانٹا۔’’ چپ کر۔ نہیں تو پلیگ ٹھیک نہیں ہوگی۔‘‘

    طلعت فوراً چپ ہو گیا۔

    ’’بیوقوف آدمی۔ مرےگا۔‘‘ مظہر نے غصہ دکھایا۔’’ چلو پھر سے۔ سب لوگ آنکھوں پہ ہاتھ رکھو۔‘‘

    سب نے پھر سے آنکھوں پہ ہاتھ رکھے۔ مظہر نے پھر حکم دیا کہ طلعت اور سائمن اپنی نیکریں اتاریں۔ اب کہ ہمیں سرسراہٹ محسوس ہوئی اور لگا کہ شاید واقعی نیکریں اتر گئی ہیں۔

    ’’ اتر گئیں؟‘‘ مظہر نے پوچھا۔ دونوں نے اس سوال کا کوئی جواب نہ دیا جس سے ظاہر تھا کہ اتر گئی تھیں۔ مظہر نے بھی سوال دوبارہ نہ پوچھا۔

    ’’ اب ٹی شر ٹس بھی۔‘‘ مظہر بولا۔

    اس بار طلعت نے کچھ نہ کہا اور ہمیں کپڑوں کی مزید سرسراہٹ کی آواز آئی۔

    پھر سے ایک بار میری پسلیوں میں ایک کہنی آن لگی۔ مگر یہ میرے دائیں طرف سے آئی تھی۔ مظہر؟ یہ کیوں مجھے کہنی مار رہا تھا؟ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ آنکھیں کھول کے ماجرہ دیکھوں یا نہ دیکھوں کہ دوبارہ ایک کہنی دائیں طرف سے ہی میری پسلیوں میں آن لگی اور اس بار مجھے اس کے لگنے سے تکلیف بھی ہوئی۔ میں نے فوراً آنکھیں کھول دیں اور مظہر کی طرف دیکھا۔ مظہر کی آنکھیں بھی کھلی ہوئی تھیں اور اس کی شکل پہ بڑی سی مسکراہٹ تھی۔ اس نے مسکراتے ہوئے مجھے سامنے دیکھنے کا اشارہ کیا اور ساتھ ہی ہاتھ بڑھا کے عاقب کے کندھے کو بھی ہلایا کہ وہ بھی آنکھیں کھولے اور سامنے دیکھے۔ سامنے سائمو اور طلعت ایک دوسرے کے سامنے آنکھیں بند کیے کھڑے تھے اور دونوں کی نکریں گھٹنوں تک نیچے اتری ہوئی تھیں۔ مظہر آہستہ آہستہ بغیر آواز نکالے ہنس رہا تھا۔ میں حیران ہو رہا تھا کہ مظہر نے جھوٹ کیوں بولاکہ ہماری آنکھیں بند رہیں گی اور میرا خیال ہے کہ عاقب بھی حیران تھا۔

    ’’اب طلعت اور سائمو یہ کریں۔۔۔ اب وہ کریں‘‘۔ مظہر نے کہنا شروع کیا۔

    بس وہی بات ہے۔ وہی بات کہ مجھ سے تو بتایا بھی نہیں جاتا کہ کیا کیا ہدایات تھیں جو اس وقت اس کے منہ سے نکل رہی تھیں۔ تقریباً اسی قسم کے معاملات کے بارے میں جو میں نے فیلیئر کے گھر ان نیچ رسالوں میں دیکھے تھے۔ مظہر بے آواز ہنسی ہنستے ہوئے اپنے حکم دیتا جاتا تھا اور ہم دوسرے دونوں کے منہ حیرت سے کھلتے چلے جاتے تھے۔ عاقب نے مجھے بازو پہ چٹکی کاٹی اور جوش سے میرا سر پکڑ کے اپنی طرف کھینچا۔

    ’’ایسے پلیگ ٹھیک ہوتی ہے؟‘‘ اس نے سر گوشی میں پوچھا۔ ’’بتا نا۔۔۔ ایسے پلیگ ٹھیک ہوتی ہے؟‘‘

    ’’تجھے پتہ ہے یہ کیا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’مستی کر رہے ہیں، اور کیا؟‘‘ عاقب نے کہا۔

    ’’جی نہیں۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’پھر کیا ہے؟‘‘ عاقب نے کہا۔’’ تو بتا۔‘‘

    اس کا نام ’’سیکسی’’ ہے۔ میں نے بتایا۔ ‘‘یہ سیکسی کام کر رہے ہیں۔‘‘

    ۔۔۔۔۔۔

    جو واقعہ اردو کے ٹیچر سر شوکت بہت چاہتے تھے کہ ہو جائے۔ وہ آخر ہو گیا۔ یعنی فیلیئر کا سکول سے نکالے جانا۔ مگر یہ اس طرح نہ ہوا جس طرح شوکت صاحب کی خواہش تھی کہ ہوتا۔

    سر بشیر، انگلش کے ٹیچر بڑی چالاکی سے، بولتے بولتے، آہستہ آہستہ چلتے، فیلئیر کے عین پیچھے جا پہنچے اور پھر تقریباً جست لگا کے، ایک دم جھپٹ کے اس کے ہاتھ سے وہ کاپی چھین لی جس پر وہ بڑے انہماک سے کچھ لکھ رہا تھا۔ صرف اس بات پر، کہ بشیر صاحب پڑھا رہے تھے اور فیلئیر ان کی بات سننے کی بجائے کچھ اور کر رہا تھا، بہت زیادہ ہنگامہ نہ ہوتا۔ لیکن فیلیئر کی کاپی کے اس کھلے صفحے پر جو کارٹون نما بنے ہوئے تھے انھوں نے بہت خرابی پیدا کی۔ پھر بدترین بات یہ تھی کہ اس نے ایک کارٹون کے نیچے نام بھی لکھ دیے تھے۔ ننگی عورت کے نیچے ’’مس نگہت’’ اور ننگے آدمی کے نیچے ’’شوکت۔‘‘ سر بھی نہیں، مسٹر بھی نہیں، صاحب بھی نہیں۔ صرف شوکت۔ننگے کارٹون کے عین نیچے، جس میں وہ مس نگہت کے سامنے چپ چاپ کھڑے دکھائے گئے تھے۔

    مس نگہت سینئر سکول کے سٹاف میں واحد عورت تھیں اور انھیں مجبوراً یہ ملازمت دی گئی تھی کیونکہ بہت کوششوں کے باوجود ناصر صاحب کے یکلخت نوکری چھوڑ دینے پر بیالوجی پڑھانے والا کوئی مرد استاد فوراً ہی دستیاب نہ ہو رہا تھا۔ گو وہ شادی شدہ تھیں پھر بھی سب لوگ انہیں مس نگہت کہتے تھے اور میں نے دیکھا تھا کہ سکولوں میں استانیوں کو عام طور پر مس ہی کہا جاتا تھا جب تک کہ وہ خاص یہ نہ کہتیں کہ جی نہیں، ہم مسز فلاں ہیں ہمیں مسز فلاں کہا جائے۔ مس نگہت نے شاید کبھی ایسا مطالبہ نہیں کیا تھا اس لیے سب اطمینان سے انہیں مس نگہت کہتے تھے۔ ہو سکتا ہے یہ مطالبہ نہ کرنے کی وجہ یہ ہو کہ ان کی ازدواجی زندگی بےحد خراب ہو، ان کا خاوند ایک کمینہ انسان ہو جو ان کے ساتھ برا سلوک کرتا ہو یا انھیں مارتا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ چونکہ وہ بیالوجی کی ماہر تھیں جو ایک سائنس ہے، وہ اپنے سائنسی دماغ سے یہ سوچتی ہوں کہ ایسی باتیں کہ آپ کو مسٹر کہا جائے یا مسز یا مس، زندگی کی اعلیٰ تر اور بڑی حقیقتوں کے سامنے کچھ حیثیت نہیں رکھتیں۔ وہ درمیانی عمر کی خاتون تھیں جو مرد حضرات سے یعنی باقی اساتذہ سے زیادہ بات چیت نہیں کرتی تھیں اور گو وہ خاص جاذب نظر نہیں تھیں، ان کا آدمی نہ ہونا پھر بھی کافی کھسر پھسر کا سبب بنتا رہتا تھا۔ اس پرمزید یہ کہ وہ بیالوجی پڑھاتی تھیں۔

    بیالوجی صرف نویں اور دسویں میں پڑھائی جاتی تھی، یعنی بڑے بچوں کو جوبہت شوق سے اس سبق کا انتظار کرتے تھے جس کا نام reproductionتھا۔ Reproductionکے سبق میں صرف چھوٹے خوردبینی جانوروں کا ذکر تھا مگر جب fusion، fertilization، male gametes اور female gametesکے الفاظ مس نگہت کے نسوانی منہ سے نکلتے تو کلاس میں قریب قریب غدر مچ جاتا۔ وہ بیچاری ہنگامے کے دوران بھی سنجیدہ چہرے کے ساتھ پڑھاتی چلی جاتی تھیں، جیسے ارد گرد سے بے خبر ہوں اور دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کرتیں جب reproductionسے آگے دوسرے اسباق شروع ہوتے۔ مثلاً respirationیا circulation۔ عجیب بات تھی کہ کتاب میں صرف ری پروڈکشن کا نظام چھوٹے خوردبینی جانوروں یا پودوں کے بارے میں تھا جبکہ باقی تمام نظام یعنی، circulatory، respiratory اور excretory انسانوں کے بارے میں تھے۔ نہ جانے اس کی کیا خاص وجہ تھی کیونکہ خوردبینی جانور بھی عام طور پہ reproductionکے لیے وہی اقدام اٹھاتے ہیں جو انسان اکثر اٹھاتے رہتے ہیں۔ـ۔ ‘‘ Kidney’’ کا سبق پڑھاتے ہوئے بھی کچھ نہ کچھ مسئلہ پیدا ہو جاتا تھا کیونکہ گو سبق میں یہ بات صاف صاف اور عام فہم زبان میں نہیں لکھی تھی مگر دسویں جماعت کے کائیاں لڑکے خوب جانتے تھے کہ urethra بالآ خر کہاں پہنچ کے باہر کی دنیا میں کھلتی ہے اور جب اس کا بیان وہ مس نگہت سے سنتے تھے تو کچھ نہ کچھ کہرام بپا کر ہی دیتے تھے۔

    جب بہت ضروری ہوتا مس نگہت دوسرے اساتذہ سے بات کر لیا کرتی تھیں۔ایسے میں ان کے چہرے پر ایک مشینی اور مصنوعی سی مسکراہٹ رہتی تھی جس سے وہ اساتذہ جن کی طرف ان کا روئے سخن ہوتا، خوش ہو جاتے تھے اور جواباً اپنے منہ پر ایک بڑی سی مسکراہٹ پھیلا لیتے تھے۔ مس نگہت سٹاف روم میں نہیں بیٹھتی تھیں اور نہ معلوم ان کی فرمائش پر یا از خود، سکول نے انھیں ایک چھوٹا سا کمرہ دے رکھا تھا جہاں ایک میز کے پیچھے ان کی کرسی پڑی رہتی تھی جس پر وہ بریک یا فری پیریڈ میں بیٹھا کرتی تھیں۔ کمرے میں اور کوئی کرسی نہ تھی جس کا مطلب صاف یہ تھا کہ کسی اور کو اندر آکر بیٹھنے کی کوئی دعوت نہیں تھی۔ وہاں، اس کمرے میں مس نگہت دروازہ بھیڑ کر بیٹھی رہتیں اور بچوں کی کاپیاں چیک کرتی رہتیں یا پھر ان دنوں کے بارے میں سوچتیں جب وہ سائنسدان بننے کے خواب دیکھا کرتی تھیں۔ انھوں نے اپنے کالج کے زمانہ میں اپنے والد سے کہہ دیا تھا کہ میں سائنسدان بنوں گی اور ان کے والد نے اس پر بے تعلقی سے کہا تھا کہ ہاں ہاں ضرور بنو۔یہ نہ کہا کہ جس پاکیزہ معاشرے کی تم دختر ہو وہاں ایسی عقلی، علمی باتیں قریب قریب ممنوع ہیں اور۔ ‘‘ سائنسدان’’ ایک مہمل لفظ ہے۔ یہ بھی نہ بتایا کہ بہت ہوا تو تم ایم ایس سی کی سند لے کے کہیں پڑھانے لگوگی۔ اس سے زیادہ کچھ بھی ہونے کے امکانات معدوم ہیں۔ یہ نہیں ہوگا کہ تم ایک سفید کوٹ پہن کر کسی تجربہ گاہ میں گہری اہمیت کے حامل تجربات کروگی، یورپ کی مادام کیوری کی طرح جنہیں دو بار نوبل انعام دیا گیا تھا اور جس کے نتیجے میں ان کا بینک بیلنس بڑھ گیا ہو گا کیونکہ نوبل انعام والے جسے چنتے ہیں اسے ایک دلکش تمغے کے ساتھ ساتھ بہت سے پیسے بھی دے دیتے ہیں۔ زیادہ بڑی غلطی مس نگہت سے یہ ہوئی کہ انھوں نے زولوجی میں ایم ایس سی کرنا چنا، یہ سوچ کر کہ یہ دلچسپ اور بےضرر سی چیز ہو گی مگر اب وہ آئے دن نویں اور دسویں کے بدتمیز لڑکوں کے ہاتھوں خوب ضرر اٹھا رہی تھیں۔

    جیسے کارٹون فیلیئر نے اپنی کاپی پر بنائے تھے ویسے ہی اکثر سکول کے ٹوائلٹوں میں دیواروں پر بنے ملتے تھے مگر ان پر کبھی کسی معلم کا نام نہیں لکھا ہوتا تھا اور انھیں بناتے ہوئے کبھی کوئی پکڑا نہیں گیا تھا۔

    مس نگہت کے سکول میں آنے کے کچھ ہی دن بعد ایک لڑکے نے اپنے کلاس ٹیچر کو بتایا کہ اس نے دوسری منزل کے ٹوائلٹ کی ایک دیوار پر مس نگہت کے بارے میں ایک بہت خوفناک بات پڑھی ہے۔ کلاس ٹیچر نے بہت پوچھا کہ کیا پڑھا ہے مگر لڑکا جواباً بس خوف سے کانپتا رہا اور یہی کہتا رہا کہ سر بہت بری بات ہے۔ ان حالات میں سوائے اس کے کچھ نہ ہو سکتا تھا کہ ٹیچر خود ٹوائلٹ میں جاکر دیکھے کہ آخر دیوارپہ ایسی دہشت ناک کیا عبارت درج ہے۔

    ’’میں خود دیکھتا ہوں‘‘ ٹیچر نے کہا۔ ’’آؤ میرے ساتھ‘‘

    ’’سر وہ دروازے کے ساتھ والے پہلے ٹوائلٹ میں لکھی ہے۔ جس کا فرش والا کموڈ ہے۔‘‘ لڑکے نے کہا اور ساتھ چلنے سے احتراز کیا۔

    کلاس ٹیچر کو وہ عبارت پڑھنے کیلئے کافی جھکنا پڑا۔ ضرور وہ کسی نے کموڈ پر بیٹھے بیٹھے لکھی تھی اور جلتی پہ تیل یہ چھڑکا تھا کہ زبان بھی اردو استعمال کی تھی، جسے پرنسپل صاحب پسند نہیں کرتے تھے۔

    مس نگہت کنجری ہیں۔

    یہ لکھا تھا وہاں۔ اور کنجری ’’ہیں‘‘ ہی لکھا تھا۔ ’’ہے‘‘ نہیں لکھا تھا۔ یعنی کہ کچھ نہ کچھ تمیز اور ادب سے ضرور کام لیا تھا۔

    کلاس ٹیچر نے اس واقعہ کے بابت فوراً پرنسپل صاحب کو اطلاع دی اور ان سے کہا کہ سر آپ بھی وہاں چل کے خود یہ گھناؤنا منظر دیکھیں۔ پرنسپل صاحب نے پہلے تو کہا کہ نہیں نہیں، میں نہیں دیکھنا چاہتا مگر پھر مان گئے اور وائس پرنسپل صاحب کو بھی ساتھ چلنے کو کہا تا کہ دونوں اصحاب حقائق سے پوری طرح واقف ہو سکیں اور مکمل آگاہی سے کوئی مناسب قدم اٹھا سکیں۔ تینوں معلم تیز تیز قدم اٹھاتے اس فرشی کموڈ کے پاس پہنچے جہاں باری باری پرنسپل صاحب اور وائس پرنسپل صاحب نے جھک کر وہ لرزہ خیز خبر پڑھی۔ وائس پرنسپل صاحب اس عبارت سے دوسروں کی نسبت زیادہ متاثر نظر آتے تھے۔

    ’’اف خدایا۔۔۔‘‘ ان کے منہ سے نکلا تھا۔

    پرنسپل اور وائس پرنسپل کے اس عبارت کو جھک کر پڑھنے کے بعد کلاس ٹیچر صاحب بھی آگے بڑھے اور ابھی جھک ہی رہے تھے کہ پرنسپل صاحب نے پوچھا۔’’ آپ یہ پہلے پڑھ نہیں چکے؟‘‘

    کلاس ٹیچر گھبرا کے جلدی سے سیدھے کھڑے ہو گئے۔ ’’جی سر، جی وہ بس ایسے ہی دیکھ رہا تھا۔‘‘۔ انھوں نے کہا اور ’’ہی، ہی، ہی’’ کر کے کھسیانی ہنسی ہنسے۔

    پرنسپل صاحب اور وائس پرنسپل صاحب نے وہیں کھڑے کھڑے طے کیا کہ اسی دن، اگلی صبح سے پہلے ہی پہلے ٹوائلٹ کی تمام دیواروں پر سفیدی کروا دی جائے۔ انھوں نے اتفاق کیا کہ یہ بیماری بہت بڑھ جائےگی اگر فوراً ہی اس کا کوئی مضبوط سد باب نہ کیا گیا۔ وائس پرنسپل صاحب نے کہا کہ مس نگہت کو فوراً برطرف کر دینا چاہئے اور طنزیہ لہجے میں یہ بھی کہا کہ میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ عورت استانی نہ رکھیں۔ پرنسپل صاحب نے ان کی یہ بات ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ کسی بچے کے گندے دماغ کی سزا مس نگہت کو دینا بالکل انصاف نہیں ہے اور وہ دوبارہ ایک بیالوجی ٹیچر ڈھونڈھنے کے دردسر میں مبتلا نہیں ہونا چاہتے۔

    اگلی صبح نہ خبریں پڑ ھی گئیں اور نہ تلاوت ہوئی۔ صرف پاکستان کا جھنڈا لہرایا گیا اور اس کے فوراً بعد پرنسپل صاحب سٹیج پر آن چڑھے۔

    ’’کسی نے فرسٹ فلور کے ٹوائلٹ کی دیوار پر ایک بہت بری اور غلیظ بات لکھی ہے جو برداشت نہیں کی جا سکتی۔‘‘ انھوں نے حیرت انگیز طور پہ اردو میں کہنا شروع کیا۔ شاید یہ سوچ کرکہ ایسا نہ ہوکہ کوئی سمجھنے سے رہ جائے۔

    ’’ہمارے سکول کی ایک سٹاف ممبر کے بارے میں’’انہوں نے مزید کہا، تاکہ مجرم کو خوب سمجھ آ جائے کہ کس عبارت کی بات ہو رہی ہے اور یہ بات سب کو معلوم ہو جائے کہ عبارت کس کے بارے میں ہے۔ ایک ہی تو عورت ٹیچر تھیں جن کے بارے میں پرنسپل صاحب نے ’’کی’’ کا لفظ استعمال کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ مس نگہت کو بھی فوراً سمجھ آ گئی تھی کہ ان کے بارے میں بات ہو رہی ہے اور انہی کے بارے میں ٹوائلٹ کی دیوار پہ کچھ لکھا پایا گیا ہے۔ بیچاری اسمبلی میں بھی سب سے الگ پرنسپل صاحب سے تین فٹ دور، ان کے بائیں جانب کھڑی ہوتی تھیں جبکہ باقی اساتذہ دائیں جانب قطار لگاتے تھے۔ باقی اساتذہ میں سے کچھ نے چور نگاہوں سے ان کی جانب دیکھا اور یہ محسوس کر کے مس نگہت نے کھڑے کھڑے پہلو بدلا۔

    ’’یہ کس کا کام ہے؟‘‘ پرنسپل صاحب دھاڑے۔ شاید وہ واقعی سمجھتے ہوں کہ مجرم ہاتھ کھڑا کر کے اقرار کر لےگا اور کہےگا کہ ’’ سر میرا ہے، میرا ہے’’ مگر یہ سوال کرتے ہی انھیں احساس ہو گیا کہ ایسا نہیں ہونے والا۔ کچھ دیر موت کی سی خاموشی رہی۔ کئی بچے تو شاید سمجھے ہوں کہ موت آنے ہی والی ہے۔

    ’’ٹھیک ہے۔‘‘ پرنسپل صاحب غصے سے کانپتے ہوئے بولے۔ ’’میں خود پورے سکول کی کیننگ کروں گا۔ کلاسTenth سے شروع ہو کے کلاسSixthتک، جب تک کہ اصل مجرم سامنے نہیں آتا۔ اگر کوئی جانتا ہے کہ یہ کس نے کیا ہے تو بتائے۔ اسے سکول کی طرف سے انعام دیا جائےگا۔‘‘

    دسویں جماعت سے سوٹیاں مارنا شروع کر نے کا شاید یہ جواز تھا کہ وہ ٹوائلٹ دسویں جماعت کے کمرے کے بالکل نزدیک تھا سو خیال غالب ہوگا کہ یہ دسویں کے ہی کسی بچے کی حرکت ہوگی۔ حالانکہ اس سے کیا فرق پڑتا تھا کہ دسویں سے سوٹیاں مارنی شروع کرو یا چھٹی سے کیونکہ یہ تو طے ہو چکا تھا کہ پورے سکول کو سوٹیاں ماری جائیں گی۔

    ’’جس نے یہ کیا ہے، اگر وہ ابھی بھی خود بتا دے تو ہم اسے کچھ نہیں کہیں گے۔‘‘ انھوں نے ایک عجیب جھوٹ بولا جس پر دنیا میں کوئی بھی یقین نہ کر سکتا تھا۔

    لکھنے والے نے کیوں کر خود بخود سامنے آنا تھا؟ جس قسم کے لوگ ایسی باتیں لکھتے ہیں وہ یوں آسانی سے ایسے دھوکوں میں نہیں آتے۔ سو ہم لوگوں کے کلاس میں پہنچنے کے کچھ ہی دیر بعد دسویں جماعت سے کیننگ کا آغاز ہو گیا اور ہم سہمے بیٹھے اپنی باری کا انتظار کرتے رہے۔ کچھ دیر بعد پرنسپل صاحب سوٹیاں مار مار کے تھک گئے اور انھوں نے فیصلہ کیا کہ ہر کلاس میں اس کا کلاس ٹیچر ہی یہ کام کرےگا۔

    اس دن بڑی سر گوشیاں ہوئی۔ زور زور سے، تڑاخ تڑاخ سوٹیاں بھی پڑیں اور سرگوشیاں بھی بہت ہوئیں۔ چھٹی کی گھنٹی بجنے تک، کیا طالب علم اور کیا معلم، سب یہ بات جان چکے تھے کہ کوئی بدذات بچہ اس سکول میں ایسا ہے جس کی سوچ بہت گندی ہے اور جس کا خیال ہے کہ چاہے مس نگہت دروازہ بند کر کے اپنے ایک کرسی والے کمرے میں ہی کیوں نہ بیٹھی رہیں اور چاہے وہ اسمبلی میں مرد اساتذہ سے الگ تھلگ ہی کیوں نہ کھڑی ہوں، ہیں تو وہ کنجری۔

    ۔۔۔۔۔۔

    اس کیننگ کا کچھ نہ کچھ فائدہ ہی ہوا۔ جیسے فرسٹ فلور کے ٹوائلٹ میں سفیدی کروانے کا ہوا جس میں سے کچھ دنوں کے لیے دوسری بد بو کی جگہ سپرٹ اور پینٹ کی بو آتی رہی۔ رفتہ رفتہ کچھ عبارتیں تو پھر سے دیواروں پرنمودار ہونے لگی تھیں مگران میں سٹاف کے ممبران کا ذکر یا ان کے تعلیم سے غیرمتعلق مشاغل کا ذکر پڑھنے میں نہیں آتا تھا۔ یا آتا ہوگا تو بہر حال کسی نے اس کی مخبری نہیں کی جو کہ پرنسل صاحب کے نزدیک کافی تھا۔

    لیکن پھر وہ دن آیا کہ سر بشیر فیلیئر کی پشت پر جا پہنچے اور انھوں نے جھپٹ کے وہ کارٹونوں والی کاپی دبوچ لی۔ بس جیسے ان میں کوئی جن گھس آیا ہو اور لگتا تھا کہ ابھی ان کے منہ سے جھاگ بھی بہنا شروع ہو جائےگی۔ انھوں نے ایک ہاتھ کی مٹھی میں فیلیئر کے بال پکڑے اور دوسرے میں وہ کاپی اور کچھ بولے بغیر اسے گھیسٹتے ہوئے کلاس سے باہر لے گئے۔

    کلاس کے باہر انھوں نے چند لمحے کھڑے ہو کر فیلیئر کو غضبناک نگاہوں سے گھورا۔ فیلیئر شاید سمجھا کہ یہ اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع ہے۔ اس نے کاپی کی طرف اشارہ کیا اور کہا:

    ’’سر، سر، آپ کی نہیں بنائی۔ سر شوکت کی بنائی ہے۔ سر، آپ کی تو نہیں بنائی۔‘‘

    ’’ اوہ اوہ اوہ اوہ۔۔۔You ‘‘ سر بشیر کا سختی اور غصے سے بند کیا ہوا منہ تھوڑا سا کھلا۔

    ’’ Youuuu‘‘ انھوں نے پھر کہا۔ اب کہ You’’ ‘‘ بہت لمبا تھا اور ایسے سنائی دیا کہ جیسے ’’Zhoooo‘‘ کہا ہو۔ یعنی غصے کی حالت میں نکلی ایک مہمل سی آواز۔

    انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، فیلیئر کے بال پکڑ کے جو اسے گھسیٹنا شروع کیا تو نچلی منزل پر پرنسپل کے دفتر کے سامنے جا کے رکے۔ وہاں ٹھہر کر انھوں نے ایک بار پھر فیلیئر کو گھورا اور پھر سے ’’ اوہzhoo..... ‘‘ کہا۔ انھوں نے بالوں ہی سے پکڑے پکڑے فیلیئر کو پرنسپل صاحب کے کمرے کے بند دروازے پہ دھکا دیا جس سے دروازہ کھل گیا اور پرنسپل صاحب گھبرا کے اپنی کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

    پرنسپل صاحب کو اس بات کی عادت نہیں تھی کہ کوئی ان کے دفتر میں یوں بنا دستک دئیے گھس آئے۔ وہ بھی اس قدر دھکم پیل اور ولولے کے ساتھ، چاہے وہ کوئی طالب علم ہو یا استاد یا کسی طالب علم کے ماں باپ۔ لیکن معلوم ہوتا تھا کہ سر بشیر کو یقین تھا کہ جو چیز وہ پرنسپل صاحب کو دکھانے والے تھے وہ ایسی اہم اور بھیانک تھی کہ پرنسپل صاحب ان کی اس اصو ل شکنی کے بارے میں کچھ خاص خیال نہیں کر یں گے۔بلکہ وہ تو شاید یہ بھی سوچتے تھے کہ پرنسپل صاحب کو معاملے کی سنگینی کا احساس دلانے کیلئے اس طرح ان کے دفتر میں شور شرابے سے جا دھمکنا ضروری تھا۔

    ’’سر too much۔۔۔ بہت ہو گیا‘‘ سر بشیر نے پھولے ہوئے سانس سے کہا اور کارٹون والی کاپی پرنسپل صاحب کی جانب بڑھا دی۔

    پرنسپل صاحب نے اپنی عینک اتار لی جو وہ کسی بہت اہم بات کی توقع میں اکثر کرتے تھے۔ یوں ان کی قریب کی نظر میں کچھ خرابی بھی نہ تھی اور کارٹون والی کاپی کے مندرجات دیکھنے کیلئے دور کی عینک اتارنا ضروری تھا۔

    کچھ دیر پرنسپل صاحب چپ سادھے کارٹون دیکھتے رہے۔ ان کے چہرے کا رنگ سرخ ہو گیا۔ پھر ان کے منہ سے بھی ایک عجیب آواز برآمد ہوئی جو نہ غراہٹ تھی، نہ چیخ اور نہ کسی زبان کا کوئی لفظ۔ یعنی سر بشیر کے ’’Zhoo‘‘ کی طرح مہمل تھی۔ انھوں نے اپنی میز پر سے سنگ مرمر کا ایک سفید موٹا پیپر ویٹ اٹھایا اور پوری قوت سے فیلیئر کو تاک کے مارا مگر غصے میں چونکہ ان کے حواس بہت قابو میں نہیں تھے اور چونکہ فیلیئر بھی یک لخت ایک جانب کو ہٹ گیا تھا اس لیے ان کا نشانہ خطا ہوا اور پیپر ویٹ جا کے سامنے کی دیوار سے ٹکرایا۔

    ’’میں ابھی اسی وقت اسے سکول سے نکال دوں گا’’ انھوں نے چیختے ہوئے کہا۔‘‘ لیکن نہیں۔۔۔ نہیں۔ پہلے میں اس کو ایسی سزادوں گا کہ یہ کبھی نہیں بھولےگا۔‘‘ وہ غصے سے دیوانے ہو رہے تھے۔ ’’گھنٹی بجوائیں۔ اسمبلی بلوائیں۔ فوراً۔‘‘

    ’’میرے سکول میں؟؟؟ میرے سکول میں ایسا کرےگا؟‘‘ وہ غصہ سے کاپنے اور اپنی میز پر سے کین اٹھائی۔

    بشیر صاحب فوراً باہر بھاگے تاکہ اسمبلی کیلئے گھنٹی بجوا سکیں۔ اس عجیب سے وقت پر اسمبلی کا ہونا ایک بہت ہی انوکھی بات تھی جو ہم نے نہ کبھی اس سے پہلے دیکھی نہ اس کے بعد، ایسی انوکھی کہ بشیر صاحب اس بات کا سبب بننے کی وجہ سے کئی دن تک فخر کرتے رہے کہ دیکھو کیسا سانحہ میری وجہ سے بپا ہواکہ ایسے عجیب وقت اسمبلی بلائی گئی۔

    ’’بےشرم۔ ذلیل لڑکے میں تجھے سوٹیاں مارتا ہوا اسمبلی میں لے جاؤں گا۔ پھر میں تجھے سکول سے ٹھڈے مار مار کے نکال دوں گا۔‘‘ پرنسپل صاحب اب تقریباً چیخ رہے تھے اور سب انگریزی ونگریزی بولنے کے اصول اور فیلیئر سے دور کی رشتہ داری فراموش کر چکے تھے۔ ان کی ریاست میں یہ جو سانحہ ہوا تھا، ان کی تحکمانہ ناک کے نیچے، وہ انھیں دیوانہ کیے دے رہا تھا۔

    فیلیئر کوئی بےوقوف نہیں تھا۔ اگر سکول سے نکلنا ہی ہے تو سوٹیاں کیوں کھاؤں؟ اس نے سوچا۔ ادھر بے وقت اسمبلی کیلئے گھنٹی کی آواز تدریسی سکوت کو چیرتی ہوئی بلند ہوئی، ادھر فیلیئر نے کہا :

    ’’نو سر‘‘ اور دوڑ لگا دی۔

    پرنسپل صاحب اس کے پیچھے بھاگے۔ ’’ادھر آ، کتے۔ بھاگ کے کہاں جائےگا؟۔‘‘

    فیلیئر نے بھاگتے بھاگتے سر گھما کے پیچھے دیکھا اور کہا ’’سر۔۔۔ گھر جاؤں گا‘‘۔ اور دوڑتا چلا گیا۔

    اساتذہ کلاسوں سے نکل آئے تھے اور ان کے پیچھے کچھ بچے بھی - مس نگہت اپنے ایک کرسی والے کمرے میں تھیں اور گھنٹی کی آواز سن کے اب گھبرا کر باہر نکل آئی تھیں۔ فیلیئر بھاگتے بھاگتے ان کے سامنے سے گزرا۔

    ’’سلام علیکم مس‘‘ اس نے کہا اور دوڑتا چلا گیا۔

    باہر گیٹ بند تھا اور چوکیدار حیران کھڑا تھا۔ گھنٹی کی بے وقت مستقل آواز سے وہ سمجھا کہ شاید آگ لگ گئی۔

    جب اس نے فیلیئر کو سکول کی عمارت سے نکل کر بھاگتے ہوئے گیٹ کی طر ف آتے دیکھا تو اسے اور یقین ہوا کہ آگ ہی لگی ہے اور لوگ باہر کو بھاگ رہے ہیں۔ اس نے فوراً گیٹ کھول دیا۔ اس کھلے گیٹ سے، جس میں سے نہ اسے پھر کبھی باہر آنا تھا اور نہ کبھی اندر جانا تھا، فیلیئر ہرن کی طرح دوڑتا ہوا نکلا اور باہر کی ناپاک دنیا میں گم ہو گیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے