فیصلہ: ف کے لیے ایک کہانی
بھری بہار میں اتوار کی ایک صبح تھی۔ دریا کے کنارے ایک قطار میں بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے بودے مکان جن میں رنگ اور بلندی کے سوا کوئی اور فرق مشکل ہی سے نظر آتا تھا، ان میں سے ایک کی پہلی منزل پر اپنے نجی کمرے میں ایک نوجوان تاجر جارج بنڈمان بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے ابھی ابھی اپنے ایک پرانے دوست کے نام، جو اب پردیس میں رہنے لگا تھا، خط لکھ کر ختم کیا تھا اور کھوئے ہوئے انداز میں آہستہ آہستہ لفافے کے اندر رکھ کر مطالعے کی میز پر کہنیاں ٹیکے کھڑکی سے باہر دریا، پل اور اس پار کی سرسبز پہاڑیوں پر ٹکٹکی لگائے تھا۔
وہ اپنے دوست کے متعلق سوچ رہا تھا، جو وطن میں اپنے مستقبل سے مطمئن نہ ہونے کی بنا پر چند سال پہلے ردس بھاگ کھڑا ہوا تھا۔ اب وہ سینٹ پیٹر سبرگ میں کاروبار کر رہا تھا، جو شروع شروع میں تو چمکا تھا لیکن اب عرصے سے بگڑتا جا رہا تھا۔ اسے جب بھی وطن آنے کا اتفاق ہوتا۔۔۔ اور یہ اتفاق کم سے کم تر ہوتا جارہا تھا، وہ اس کی شکایت ضرور کرتا۔ غرض اس طرح وہ ایک غیرملک میں فضول اپنی عمر گنوارہا تھا۔ اس کی بڑی سی نامانوس داڑھی اس کے چہرے کو، جسے جارج بچپن ہی سے پہچانتا تھا، پوری طرح چھپا نہیں پائی تھی اور اس کی رنگت ایسی پیلی ہوتی جارہی تھی کہ خیال ہوتا تھا اسے اندر اندر کوئی روگ لگ گیا ہے۔ اس کے اپنے بیان کے مطابق وہاں بسے ہوئے اپنے ہم وطنوں کی جماعت سے اس کا کوئی مستقل رابطہ قائم نہیں تھا اور روسی کنبوں سے بھی اس کی رسم وراہ نہیں کے برابر تھی۔ چنانچہ وہ مستقل تجرد کی زندگی پر راضی ہوتا جارہا تھا۔
ایسے آشفتہ روزگار آدمی کو، جس کے حال پر افسوس تو کیا جاسکتا ہو لیکن اس کی مدد نہ کی جاسکتی ہو، کوئی لکھتا تو کیا لکھتا۔ کیا اسے یہ مشورہ دیا جاتا کہ وطن واپس آجائے، پھر سے اپنے پاؤں جمائے اور پرانی دوستیوں کی تجدید کرے۔ اس میں کوئی رکاوٹ ہی نہ تھی۔ مجموعی حیثیت سے اپنے دوستوں کی امداد پر تکیہ کرے؟ لیکن یہ تو گویا اس کو یہ جتانا ہوتا۔۔۔ اور جتنی نرمی سے یہ بات کہی جاتی، اتنی ہی دل کو ٹھیس لگاتی کہ اس کی اب تک کی تمام جہد و کوشش رائیگاں گئی ہے، کہ بس اب اسے باز آجانا چاہیے، کہ وہ وطن لوٹ آئے اور ان نظروں کا نشانہ بنے جو اسے انجیل کے پشیمان بیٹے کی طرح دیکھ رہی ہوں، کہ اس کے دوست ہی معاملہ شناس ہیں اور یہ کہ وہ خود محض ایک بڑا سا بچہ ہے جسے وہی کرنا چاہیے جو اس کے کامیاب اور گھر گرہست دوست تجویز کریں۔
اور باایں ہمہ کیا یہ ضروری تھا کہ جس مقصد سے اس کو یہ تمام اذیت پہنچائی گئی ہوتی، وہ مقصد حاصل بھی ہوجاتا؟ شاید اس کو وطن واپس آنے پر تیار کرلینا سرے سے ممکن ہی نہ ہو۔ وہ خود کہتا تھا کہ اب وہ وطن کے تجارتی معاملات سے بیگانہ ہوچکا ہے۔ تو پھر وہ اس سب کے بعد بھی دوستوں کی نصیحت سے مکدر اور پہلے سے بھی زیادہ ان سے کھنچا کھنچا ایک اجنبی کی طرح پردیس میں پڑا رہے گا۔ لیکن اگر اس نے دوستوں کا مشورہ قبول ہی کرلیا اور اس کے بعد وطن میں کھپ نہ سکا۔۔۔ ظاہر ہے کسی کی عداوت کی وجہ سے نہیں بلکہ حالات کے دباؤ سے۔ اپنے دوستوں کے ساتھ یا ان کے بغیر بھی بسر نہ کر سکا، سبکی محسوس کرتا رہا، یہ بھی کہنے سے گیا کہ اس کے کچھ اپنے دوست یا کوئی اپنا وطن بھی ہے، تو پھر کیا اس کے لیے بہتر نہ رہا ہوتا کہ وہ جس طرح پردیس میں ٖپڑا تھا اسی طرح پڑا رہتا؟ ان سب باتوں کے پیش نظر کیوں کر یقین کیا جاسکتا تھا کہ وطن میں اس کی زندگی کامیاب رہے گی؟
اس لیے بالفرض کوئی اس کے ساتھ خط کتابت رکھنا بھی چاہتا تو اس کو اس طرح کی صحیح صحیح خبریں نہیں بھیج سکتا تھا جیسی بعید ترین آشناؤں کو بے دھڑک بھیجی جاسکتی ہیں۔ اس کو آخری بار وطن آئے ہوئے تین برس سے زیادہ ہو رہے تھے اور اس کے لیے وہ روس کی سیاسی صورتِ حال کے بہت غیریقینی ہونے کا عذر لنگ پیش کرتا تھا، جو گویا ایک معمولی سے تاجر کو مختصر ترین مدت کے لیے بھی باہر جانے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ درحالے کہ یہی صورتِ حال ہزاروں لاکھوں روسیوں کو اطمینان کے ساتھ بیرون ملک جانے دیتی تھی۔
لیکن انہیں تین برسوں میں خود جارج کی زندگی کا نقشہ بہت کچھ بدل گیا تھا۔ دوسال ہوئے اس کی ماں مرگئی تھی، جس کے بعد سے وہ اور اس کا باپ مل کر گھرداری چلا رہے تھے اور ظاہر ہے کہ اس کے دوست کو اس کی اطلاع کردی گئی تھی اور اس نے خط کے ذریعے ایسے روکھے الفاظ میں اظہار ہمدردی کیا تھا جس سے یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہونا پڑتا تھا کہ اس طرح کے واقعے کی الم آفرینی کا اندازہ کسی دور دراز کے ملک میں بیٹھ کر نہیں کیا جاسکتا۔ بہرحال اس کے بعد سے جارج کاروبار اور دیگر تمام امور میں اور زیادہ منہمک ہوگیا۔
ماں کی زندگی کے دوران وہ تجارت میں زیادہ کارگزاری شاید اس لیے نہیں دکھا سکا تھا کہ اس کا باپ ہر معاملے میں اپنی مرضی چلانے پر تلا رہتا تھا، شاید ماں کی موت کے بعد سے اس کے باپ کی جارحیت میں کچھ کمی آگئی تھی، ہرچند کہ اب بھی تجارت میں اس کی سرگرمی برقرار تھی، شاید یہ بہت کچھ قسمت کی اتفاقی یاوری کے سبب سے ہوا ہو۔ یقیناً یہ بات بہت قرینِ قیاس تھی۔ لیکن بہرکیف ان دوبرسوں کے اندر کاروبار نہایت ہی غیرمتوقع طور پر چمک اٹھا تھا۔ عملہ دوگنا کرنا پڑا تھا، آمدنی پانچ گنی ہوگئی تھی، بلاشک و شبہ ابھی مزید ترقی کی راہ کھلی ہوئی تھی۔
لیکن جارج کے دوست کو اس پیش رفت کی کوئی خبر نہ تھی۔ شروع کے چند برسوں میں، شاید آخری بار اس تعزیتی خط میں، اس نے جارج کو روس چلے آنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی اور خصوصی طور پر جارج کے شعبہ تجارت میں ترقی کے امکانات خوب بڑھا چڑھا کر دکھائے تھے۔ اس نے جو اعداد و شمار پیش کیے تھے، وہ جارج کے موجودہ لین دین کے آگے کچھ بھی نہیں تھے۔ تاہم وہ اپنے دوست کو اپنی کاروباری کامیابیوں سے آگاہ کرتے ہچکچاتا تھا، اور اب اگر وہ شروع سے اس پرانے قصے کو چھیڑتا تو یقیناً یہ کچھ عجیب سا لگتا۔
اس لیے جارج اپنے دوست کو محض اِدھر اُدھر کی غیراہم باتیں لکھنے پر اکتفا کیا کرتا تھا جو کسی بھی پرسکون اتوار کو سستی کے ساتھ سوچتے ہوئے آدمی کے ذہن میں آجایا کرتی ہیں۔ وہ فقط یہ چاہتا تھا کہ اس کے دوست نے اس طویل مدت میں وطن کا جو تصور اپنی تسلی خاطر کے لیے قائم کر رکھا ہوگا، اس کو جوں کا توں قائم رہنے دے۔ اور اس لیے ایسا ہوا کہ جارج نے تین مرتبہ خاصے خاصے وقفے سے لکھے ہوئے تین خطوں میں ایک غیراہم شخص کی منگنی ایک اتنی ہی غیراہم لڑکی کے ساتھ ہوجانے کا ذکر کیا، یہاں تک کہ اس کے مدعا کے برخلاف اس کا دوست اس قابل ذکر واقعے میں کچھ کچھ دلچسپی ظاہر کرنے لگا۔
تاہم جارج اس قسم کی باتیں لکھنے کو اس امر کے اعتراف پر ترجیح دیتا تھا کہ خود اس کی منگنی ایک مہینہ ہوا، ایک کھاتے پیتے گھر کی لڑکی فرالین فریڈا برینڈ نفلڈ کے ساتھ ہوگئی تھی۔ وہ اکثر اپنی منگیتر سے اپنے اس دوست اور اس انوکھے رابطے کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا کرتا تھا جو خط کتابت کے ذریعہ دونوں میں پیدا ہوگیا تھا۔
’’تو وہ ہماری شادی میں نہیں آرہا ہے۔‘‘ اس نے کہا تھا، ’’پھر بھی مجھے تمہارے سارے دوستو ں سے واقف ہوجانے کا حق تو ہے ہی۔‘‘
’’میں اسے تکلیف دینا نہیں چاہتا۔‘‘ جارج نے جواب دیا تھا، ’’میرامطلب غلط نہ سمجھو۔ شاید وہ آہی جائے۔ کم سے کم میرا تو یہی خیال ہے، لیکن وہ محسوس کرے گا کہ اس کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے اور اسے اذیت ہوگی، شاید اسے مجھ پر رشک آنے لگے اور بے اطمینانی کا شکار تو وہ یقیناً ہوجائے گا اور اس بے اطمینانی کا کوئی چارہ کیے بغیر ہی اس کو پھر تنہا واپس جانا ہوگا۔ تنہا۔۔۔ تم اس کا مطلب سمجھتی ہونا؟‘‘
’’ہاں۔ لیکن کیا اسے کسی اور طریقے سے ہماری شادی کا علم نہیں ہوسکتا؟‘‘
’’ظاہر ہے کہ میں اس کو روک نہیں سکتا لیکن اس کی زندگی کی جو روش ہے، اس کو دیکھتے ہوئے اس کاامکان کم ہی ہے۔‘‘
’’جارج اگر تمہارے دوست اسی قسم کے ہیں تو تمہیں منگنی کرنا ہی نہیں چاہیے تھی۔‘‘
’’خیر، اس میں ہم دونوں ہی قصوروار ہیں لیکن اب تو جو کچھ ہوگیا، میں اس سے پھرنے کا نہیں۔‘‘ اور جب اس کے بوسوں تلے آہستہ آہستہ ہانپتے ہوئے بھی وہ یہ کہہ گئی،
’’پھر بھی مجھے گھبراہٹ سی ہو رہی ہے۔‘‘
تو اس نے سوچا کہ اگر وہ اپنے دوست کو یہ اطلاع دے بھی دے تو حقیقتاً اسے کسی پریشانی میں مبتلا نہیں ہونا پڑے گا۔
’’میں اسی قسم کا آدمی ہوں اور اسے مجھ کو اسی صورت میں قبول کرنا ہوگا۔‘‘ اس نے خود سے کہا، ’’اس کے ساتھ مزید موافقت کی خاطر میں خود کو کسی دوسرے سانچے میں نہیں ڈھال سکتا۔‘‘
اور واقعی اس نے اتوار کی صبح کو لکھے جانے والے اس طویل خط میں اپنے دوست کو محبت میں اپنی کامیابی سے ان الفاظ میں مطلع کرہی دیا،
’’میں نے بہترین خبر آخر کے لیے بچارکھی ہے۔ میری منگنی ایک متمول خاندان کی لڑکی فرالین فریڈا برینڈ نفلڈ سے ہوگئی ہے۔ اس نے تمہارے جانے کے عرصے بعد یہاں کی سکونت اختیار کی ہے، اس لیے تم اسے شاید ہی جانتے ہو۔ اس کے متعلق مزید تفصیلات پھر کبھی لکھوں گا۔ آج تو میں تم کو بس اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ میں بہت خوش ہوں اور میرے تمہارے تعلقات میں صرف اتنا فرق ہوا ہے کہ اب تم مجھ کو ایک بالکل معمولی قسم کے دوست کے بجائے ایک خوش و خرم دوست پاؤگے۔ اس کے علاوہ میری منگیتر کی صورت میں، جو تم کو بہت سلام لکھوارہی ہے اور جلد ہی خود بھی تمہیں خط لکھے گی، تم صنف مخالف کا ایک کھرا دوست پاؤگے، جو ایک مجرد آدمی کے لیے کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں کہ بہت سے اسباب ہیں جن کی بنا پر تم ہم سے ملنے نہیں آسکتے لیکن کیا میری شادی عین وہ موقع نہیں ہے جس کی خاطر ان ساری رکاوٹوں کو دور کردیا جائے؟ بہرحال، جو بھی ہو، تم وہی کرو جو تمہیں مناسب معلوم ہو اور اس میں اپنی مصلحت کے سوا کسی اور بات کا لحاظ نہ کرنا۔‘‘
یہ خط ہاتھ میں لیے ہوئے جارج دیر سے مطالعے کی میز پر کھڑکی کی طرف منھ کیے بیٹھا تھا۔ اس نے ابھی ابھی سڑک پر سے گزرتے ہوئے ایک شناسا کے سلام کا جواب کھوئی کھوئی مسکراہٹ کے ساتھ دیا تھا۔
آخر کار اس نے خط جیب میں رکھا اور اپنے کمرے سے نکل کر چھوٹی سی غلام گردش میں ہوتا ہوا اپنے باپ کے کمرے میں داخل ہوا، جہاں وہ مہینوں سے نہیں گیا تھا۔ دراصل اسے وہاں جانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی، اس لیے کہ کاروبار کے سلسلے میں اس کی ملاقات روز ہی اپنے باپ سے ہوتی تھی اور دن کا کھانا وہ دونوں ایک ہوٹل میں ساتھ ہی کھاتے تھے۔ یہ صحیح ہے کہ شام کو دونوں اپنے اپنے کام سے کام رکھتے تھے لیکن پھر بھی اگر جارج اپنے دوستوں کے ساتھ نہ نکل جاتا، جیسا کہ اکثر ہوتا تھا، یا، اب ادھر کچھ دن سے، اپنی منگیتر کے پاس نہ چلا جاتا تو وہ دونوں مشترکہ دیوان خانے میں بیٹھ کر اپنا اپنا اخبار پڑھا کرتے۔
جارج کو یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ اس کے باپ کا کمرہ اس چمکیلی صبح کو بھی کیسا تاریک ہے۔ تنگ صحن کے اس سرے والی دیوار نے اس کمرے پر کچھ ایسا ہی سایہ کر رکھا تھا۔ اس کا باپ ایک گوشے میں جہاں جارج کی مرحومہ ماں کی مختلف نشانیاں آویزاں تھیں، کھڑ کی کے پاس بیٹھا اخبار دیکھ رہا تھا، جسے وہ نگاہ کی کمزوری کے باعث آنکھوں کی سیدھ سے ذرا ہٹاکر تھامے ہوئے تھا۔ میز پر ناشتے کے جھوٹے برتن پڑے تھے اور بظاہر ان میں سے زیادہ کھایا نہیں گیا تھا۔
’’اوہو، جارج۔‘‘ اس کے باپ نے یکبارگی اٹھتے ہوئے کہا۔ وہ آگے بڑھا تو اس کا بھاری بھرکم ڈریسنگ گاؤن کھل گیا اور اس کے دامن اِدھر اُدھر پھڑپھڑانے لگے۔
’’میرا باپ ابھی تک دیوزاد ہے۔‘‘ جارج نے اپنے آپ سے کہا۔
’’یہاں تو ناقابل برداشت اندھیرا ہے۔‘‘ وہ بلند آواز سے بولا۔
’’ہاں، خاصا اندھیرا ہے۔‘‘ اس کے باپ نے کہا۔
’’اور آپ نے کھڑکی بھی بند کررکھی ہے۔‘‘
’’مجھے اسی طرح اچھا لگتا ہے۔‘‘
’’باہر تو خوب گرمی ہے۔‘‘ جارج گویا اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا اور بیٹھ گیا۔
اس کے باپ نے ناشتے کے برتن صاف کیے اور الماری میں رکھ دیے۔
’’میں آپ کو بس یہ بتانا چاہتا تھا۔۔۔‘‘ جارج بوڑھے کے حرکات و سکنات کو بے خیالی میں دیکھ رہا تھا، کہنے لگا، ’’کہ اب میں اپنی منگنی کی خبر سینٹ پیٹرسبرگ بھیج رہا ہوں۔‘‘ اس نے خط اپنی جیب سے تھوڑا سا نکالا اور پھر رکھ لیا۔
’’سینٹ پیٹرسبرگ؟‘‘ اس کے باپ نے پوچھا۔
’’اپنے دوست کو۔‘‘ جارج نے اپنے باپ سے نظریں ملانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ کاروبار کے اوقات میں تو وہ کچھ اور ہی ہوتا ہے، وہ سوچ رہا تھا لیکن یہاں کس طرح بازو باندھے جما ہوا بیٹھا ہے۔
’’اچھا، اپنے دوست کو۔‘‘ اس کے باپ نے کچھ عجیب طرح سے زور دے کر کہا۔
’’آپ کو تو معلوم ہی ہے ابا، کہ پہلے میں اس کو اپنی منگنی کے بارے میں نہیں بتانا چاہتا تھا۔ اسی کے خیال سے، بس یہی وجہ تھی۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ وہ عجیب سا آدمی ہے۔ میں نے سوچا کہ ہوسکتا ہے کوئی اور اسے میری منگنی کے بارے میں بتادے، حالانکہ وہ اتنا گوشہ نشین آدمی ہے کہ اس کا امکان کم ہی ہے۔ تاہم میں اسے روک نہیں سکتا۔ لیکن میرا خود اسے بتانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔‘‘
’’اور اب تم نے اپنا ارادہ بدل دیا ہے؟‘‘ اس کے باپ نے کھڑکی کی چوکھٹ پر اپنا بڑا سا اخبار ڈال دیا، اس پر اپنی عینک رکھی اور عینک کو ایک ہاتھ سے ڈھانپ لیا۔
’’جی ہاں، میں اس پر غور کرتا رہا ہوں۔ میں نے سوچا اگر وہ واقعی میرا دوست ہے تو میری منگنی کی خوش خبری سے اس کو بھی خوشی ہونا چاہیے۔ اس لیے اب میں یہ خبر اس سے پوشیدہ نہیں رکھوں گا۔ لیکن خط کو ڈاک میں ڈالنے سے پہلے میں چاہتا تھا آپ کو بتادوں۔‘‘
’’جارج۔‘‘ اس کے باپ نے اپنا پوپلا منھ پھاڑ کر کہا، ’’سنو! تم اس سلسلے میں میرے پاس آئے ہو اس پر مجھ سے گفتگو کرنے۔ بے شک یہ تمہاری بڑی سعادت مندی ہے۔ لیکن یہ کچھ نہیں ہے۔ اگر تم مجھے پوری بات سچ سچ نہیں بتاتے تو یہ کچھ نہیں سے بھی بدتر ہے۔ میں وہ باتیں نہیں چھیڑنا چاہتا جن کا ذکر یہاں مناسب نہیں ہے۔ تمہاری ماں کے بعد سے بعض باتیں ایسی کی گئی ہیں جو ٹھیک نہیں ہیں۔ ہوسکتا ہے کبھی ان باتوں کے چھیڑنے کا وقت آجائے، ہوسکتا ہے ہمارے اندازے سے پہلے ہی وہ وقت آجائے۔ کاروبار میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کی مجھ کو خبر نہیں، ہوسکتا ہے وہ مجھ سے چھپاکر کی گئی ہوں۔
میں یہ نہیں کہوں گا کہ وہ مجھ سے چھپا ہی کر کی گئی ہیں۔ اب میں اتنا کام کرنے کے قابل نہیں رہا، میرا حافظہ جواب دیتا جارہاہے، اب میں اتنی ساری باتوں پر نظر نہیں رکھ پاتا۔ ایک تو یہ بڑھاپے کی لعنت ہے اور دوسرے یہ کہ ماں کی موت نے تمہیں اتنا صدمہ نہیں پہنچایا ہے جتنا مجھے پہنچایا ہے۔ لیکن چونکہ بات اس کی ہو رہی ہے، اس خط کی، اس لیے جارج میں تم سے درخواست کرتا ہوں، مجھے دھوکا مت دو۔ یہ بہت چھوٹا معاملہ ہے، یہ کوئی قابل ذکر معاملہ نہیں ہے، اس لیے مجھے دھوکا مت دو۔ کیا واقعی پیٹر سبرگ میں تمہارا یہ دوست ہے؟‘‘
جارج سراسیمہ ہوکر اٹھ کھڑا ہوا۔
’’میرے دوستوں کی پروا نہ کیجیے۔ ایک ہزار دوست مل کربھی میرے باپ کی جگہ نہیں لے سکتے۔ آپ جانتے ہیں میرا کیا خیال ہے؟ آپ اپنا زیادہ خیال نہیں رکھتے لیکن بڑھاپے کا خیال کرنا چاہیے۔ آپ کے بغیر مجھ سے کاروبار نہیں چل سکتا، یہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں لیکن اگر کاروبار سے آپ کی صحت پر برا اثر پڑنے لگے تو میں کل اسے ہمیشہ کے لیے بند کردینے کو تیار ہوں۔ اور اس سے کام نہیں چلے گا۔ ہمیں آپ کی زندگی کا انداز بدلنا ہوگا۔ آپ یہاں اندھیرے میں بیٹھے رہتے ہیں، لیکن دیوان خانے میں آپ کو کافی روشنی ملے گی۔ آپ اپنی قوت بحال رکھنے کے بجائے ناشتے کو ہاتھ لگاکر چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ کھڑکی بند کرکے بیٹھتے ہیں حالانکہ ہوا آپ کے لیے بہت مفید رہے گی۔ نہیں ابا، میں ڈاکٹر کو لاؤں گا اور ہم اسی کی ہدایتوں پر عمل کریں گے۔
آپ کا کمرہ بدلا جائے گا۔ آپ سامنے والے کمرے میں رہ سکتے ہیں، یہاں میں آجاؤں گا۔ آپ کو اِس تبدیلی کا پتہ بھی نہیں چلے گا۔ آپ کی ساری چیزیں آپ کے ساتھ وہیں پہنچادی جائیں گی۔ لیکن یہ سب بعد میں ہوتا رہے گا، ابھی تو میں آپ کو تھوڑی دیر کے لیے بستر میں لٹاتا ہوں، مجھے یقین ہے آپ کو آرام کی ضرورت ہے۔ آئیے میں آپ کے کپڑے اتروادوں، آپ دیکھیے گا میں یہ سب کرسکتا ہوں۔ یا اگر آپ اسی وقت آگے والے کمرے میں جانا چاہیں تو فی الحال میرے ہی بستر پر لیٹ رہیے۔ یہ سب سے اچھا رہے گا۔‘‘
جارج کے باپ کا سفید جھبڑے بالوں والا سر اس کے سینے پر ڈھلک آیا تھا۔ جارج اس کے قریب آکر کھڑا ہوگیا۔
’’جارج۔‘‘ اس کے باپ نے جنبش کیے بغیر دھیمی آواز میں کہا۔
جارج فوراً اپنے باپ کے سامنے دوزانو ہوگیا۔ اسے بوڑھے کے مضمحل چہرے پر بڑی بڑی پھیلی ہوئی پتلیاں دکھائی دیں جو آنکھوں کے کونوں سے اس کو گھور رہی تھیں۔
’’سینٹ پیٹرس برگ میں تمہارا کوئی دوست نہیں ہے۔ تم ہمیشہ کے دغاباز ہو اور تم میرے ساتھ بھی دغا کرنے سے نہیں چوکے۔ وہاں تمہارا کوئی دوست کیوں کر ہوسکتا ہے؟ میں اسے مان ہی نہیں سکتا۔‘‘
’’ذرا یاد کیجیے ابا۔‘‘ جارج اپنے باپ کو کرسی سے اٹھاکر اس کا ڈریسنگ گاؤن اتارنے لگا۔ اس کا باپ بدقت کھڑا ہوپارہا تھا۔
’’آخری بار جب میرا دوست ہم لوگوں سے ملنے آیا تھا، اسے تین برس ہونے کو ہیں۔ مجھے یاد ہے آپ اسے زیادہ پسند نہیں کرتے تھے۔ کم سے کم دو مرتبہ میں نے آپ کی نظر اس پر نہیں پڑنے دی تھی، حالانکہ درحقیقت وہ میرے کمرے میں میرے ہی پاس بیٹھا ہوا تھا۔ میں بخوبی سمجھ سکتا تھا کہ آپ اسے کیوں پسند نہیں کرتے، میرے دوست کی اپنی کچھ ادائیں ہیں۔ لیکن پھر آپ کی اس سے خوب نبھنے لگی تھی۔ مجھے بڑا فخر محسوس ہوتا تھا، اس لیے کہ آپ اس کی باتیں سنتے، اس سے اتفاق رائے کرتے اور سوالات پوچھتے تھے۔
اگر آپ ذہن پر زوردیں تو آپ کو ضرور یاد آجائے۔ وہ ہمیں انقلاب روس کے نہایت ناقابل یقین واقعات سنایا کرتا تھا، مثلاً جب وہ خیوا کا تجارتی دورہ کر رہا تھا اور ایک بلوے میں پھنس گیا تھا اور اس نے ایک بالکنی پر ایک پادری کو دیکھا تھا جس نے اپنی ہتھیلی کو کاٹ کر اس پر خون سے صلیب کا نشان بنادیا تھا اور وہ ہاتھ بلند کرکے مجمع کو سمجھا رہا تھا۔ آپ تو خود اس وقت سے ایک دوبار یہ قصہ سناچکے ہیں۔‘‘
اس اثنا میں جارج اپنے باپ کو پھر بٹھادینے اور اس کا ادنی پتلون جو وہ لینن کے زیر جامے پر پہنے تھا اور اس کی جرابیں اتارنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ زیرجامہ کچھ صاف نہیں تھا اور اسے دیکھ کر جارج اپنی بے پروائی پرخود کو ملامت کیے بغیر نہیں رہ سکا۔ یقیناً یہ دیکھنا اس کا کام ہونا چاہیے تھا کہ اس کا باپ صاف زیر جامے بدلتا ہے یا نہیں۔ اس نے ابھی تک اپنی ہونے والی دلہن سے اس سلسلے میں کوئی واضح گفتگو نہیں کی تھی کہ مستقبل میں اس کے باپ کے لیے کیا بندوبست کیا جائے گا، اس لیے کہ دونوں نے خاموشی کے ساتھ اپنی اپنی جگہ پر اس بات کو طے شدہ سمجھ لیا تھا کہ بڈھا پرانے مکان میں اسی طرح اکیلا رہا کرے گا۔ لیکن اب اس نے فوری اور حتمی فیصلہ کرلیا کہ باپ کو اپنے مستقبل کے مکان میں رکھے گا، بلکہ قریب سے دیکھنے پر تو ایسا لگنے لگا کہ وہاں اپنے باپ کی جس خیال داری کا اس نے ارادہ کیا تھا، اس کا وقت آنے تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔
وہ اپنے باپ کو ہاتھوں پر اٹھاکر بستر تک لے گیا۔ یہ دیکھ کر اس کو دہشت سی محسوس ہوئی کہ جب وہ پلنگ کی طرف بڑھ رہا تھا تو بڈھا اس کے سینے سے لگا ہوا اس کی گھڑی کی زنجیر سے کھیل رہا تھا، بلکہ وہ زنجیر سے اس بری طرح چپک کے رہ گیا تھا کہ جارج کچھ دیر تک اسے بستر پر لٹا نہیں سکا۔
لیکن جوں ہی اسے بستر پر لٹادیا گیا، سب کچھ ٹھیک ٹھاک معلوم ہونے لگا۔ اس نے خود کو خوب ڈھانک لیا بلکہ کمبل اپنے کندھوں پر معمول سے زیادہ اوپر تک تان لیے۔ اس نے جارج کی طرف نظر اٹھائی جو بہت غیردوستانہ نہیں تھی۔
’’آپ کو میرا دوست یاد آچلا ہے، ہے نا؟‘‘ جارج نے سر کی جنبش سے اسے بڑھاوا دیتے ہوئے کہا۔
’’میں اچھی طرح ڈھک گیا ہوں؟‘‘ اس کے باپ نے یوں پوچھا جیسے وہ دیکھ نہ پا رہا ہو کہ اس کے پیر کمبلوں میں ٹھیک سے لپٹے ہوئے ہیں یا نہیں۔
’’بس ابھی آپ گرم ہوئے جاتے ہیں۔‘‘ جارج نے کہا اور اس کو کمبل اچھی طرح اڑھا دیے۔
’’میں اچھی طرح ڈھک گیا ہوں؟‘‘ اس کے باپ نے ایک بار اور پوچھا۔ اسے اس بات کے جواب کی بڑی پریشانی معلوم ہو رہی تھی۔
’’پریشان نہ ہوئیے، آپ اچھی طرح ڈھک گئے ہیں۔‘‘
’’نہیں!‘‘ اس کا باپ اس کی بات کاٹ کر دہاڑا، اس نے کمبل ایسی قوت سے ہٹائے کہ وہ چشم زدن میں اڑ کر دور جاگرے، اور وہ اچانک پلنگ پر تن کر کھڑا ہوگیا۔ اس کا صرف ایک ہاتھ سہارے کے لیے چھت کو یوں ہی سا چھو رہا تھا۔
’’تم مجھ کو ڈھک دینا چاہتے تھے، میں جانتا ہوں میرے ننھے چھوکرے، مگر ابھی میں ڈھانکے جانے کا نہیں۔ اور یہ میرے بدن کا آخری زور سہی لیکن یہ تمہارے لیے بہت ہے، تمہارے لیے بہت زیادہ ہے بے شک میں تمہارے دوست سے واقف ہوں۔ وہ تو میرا دل پسند بیٹا ہوتا، تم اسی لیے تو اس کے ساتھ اتنے دن ڈھونگ رچاتے رہے ہو، اور نہیں تو کس لیے؟ تم سمجھتے ہو میں اس کے لیے کڑھتا نہیں رہاہوں؟ اور اسی لیے تو تم کو اپنے دفتر میں بند ہوکر بیٹھنا پڑتا تھا۔ صاحب کام کر رہے ہیں ان کا ہرج نہ ہونے پائے۔ اسی لیے تاکہ تم اپنے ننھے منے جھوٹے خط روس بھیج سکو، مگر شکر ہے کہ کسی باپ کو یہ سیکھنے نہیں جانا پڑتا ہے کہ اپنے بیٹے کو کیوں کرتاڑا جائے۔ اور اب جب تم کو یقین ہوگیا کہ تم نے اسے پچھاڑدیا ہے کہ تم اس کے اوپر لد کر بیٹھ سکتے ہو اور وہ امس بھی نہ سکے گا، تب میرا بھولا بیٹا شادی کرنے کی ٹھانتا ہے۔‘‘
جارج اپنے باپ کے حاضر کیے ہوئے اس عفریت کو مبہوت دیکھتا رہ گیا۔ اس کا دوست، جس سے اس کا باپ اچانک اتنی اچھی طرح واقف نکل آیا تھا، اب اس کے تصور میں اس طرح ابھرا جس طرح پہلے کبھی نہیں ابھرا تھا۔ وہ اس کو روس کی پہنائیوں میں کھویا ہوا دکھائی دیا۔ وہ اس کو ایک تاراج کیے ہوئے خالی گودام کے دروازے پر دکھائی دیا۔ اپنے شوکیسوں کے ملبے، اپنے مال کے پرخچوں، گرتی ہوئی دیوار گیریوں کے درمیان وہ کھڑا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ آخر اسے اتنی دور کیوں جانا پڑگیا!
’’ادھر آؤ میرے پاس!‘‘ اس کا باپ چلایا اور جارج ایک دم سے چونک کر بستر کی طرف لپکا، وہ ہر بات کے لیے تیار تھا، تاہم وہ بیچ ہی میں رک گیا۔
’’چونکہ اس نے اپنا اسکرٹ اوپر اٹھادیا۔‘‘ اس کے باپ نے گنگناتی ہوئی آواز میں بولنا شروع کیا، ’’چونکہ اس نے اپنا اسکرٹ اٹھادیا، ایسے، اس فاحشہ نے۔‘‘ اور اس کی نقل اتارتے ہوئے اس نے اپنی قمیص اتنی اوپر اٹھالی کہ اس کی جانگھ کا وہ زخم دکھائی دینے لگا جو اسے جنگ میں آیا تھا۔ ’’چونکہ اس نے اپنا اسکرٹ اٹھادیا، ایسے اور ایسے، اس لیے تم اس سے عشق بگھارنے لگے، اور اس کے ساتھ بے کھٹکے کھل کھیلنے کے لیے تم نے اپنی ماں کا نام بدنام کیا ہے، اپنے دوست کو دغادی ہے اور اپنے باپ کو بسترسے لگادیا ہے تاکہ وہ ہل نہ سکے۔ لیکن وہ ہل سکتا ہے، یا نہیں؟‘‘
اور وہ کسی ٹیک کے بغیر کھڑا ہوگیا اور اپنی ٹانگیں جھٹکنے لگا۔ اپنی ہوش مندی پر اس کا چہرہ تمتما رہا تھا۔
جارج جہاں تک ممکن ہوسکا، اپنے باپ سے دور ایک گوشے میں سکڑ کر کھڑا ہوگیا۔ مدتوں پہلے سے وہ تہیہ کیے ہوئے تھا کہ اپنے باپ کی ہر حرکت پر پوری نظر رکھے گا تاکہ کوئی اچانک حملہ، پیچھے یا اوپر سے کوئی جھپٹا اس کو بدحواس نہ کردے۔ اس وقت اس کو اپنا یہ کب کا بھولا ہوا فیصلہ یاد آیا اور وہ پھر اسے بھول گیا، جیسے کوئی سوئی کے ناکے میں ذرا سا دھاگا ڈال کر کھینچ لے۔
’’لیکن بہر حال تمہارے دوست کے ساتھ دغا نہیں ہوئی ہے۔‘‘ اس کا باپ انگلی نچانچاکر اپنی بات پر زور دیتے ہوئے چیخا، ’’میں یہاں، اس جگہ اس کی نمائندگی کرتا رہا ہوں۔‘‘
’’ناٹکیے کہیں کے!‘‘ جارج پلٹ کر کہے بغیر نہ رہ سکا۔ پھر فوراً ہی اسے اپنی بات کی مضرت کا احساس ہوا، اس کی آنکھیں باہر نکل پڑیں، اس نے دانتوں تلے زبان دبالی، مگر بعد از وقت، یہاں تک کہ تکلیف کی شدت سے اس کے گھٹنے جواب دے گئے۔
’’ہاں، بالکل بالکل، میں ناٹک تو کرتا ہی رہا ہوں، ناٹک! اچھی بات کہی! اس کے سوا ایک بیچارے بوڑھے رنڈوے کی تسلی کا سامان ہی کیا رہ گیا تھا؟ یہ تو بتاؤ۔۔۔ اور جواب دیتے وقت اس کا خیال رکھنا کہ تم بہرحال میرے اکلوتے بیٹے ہو۔۔۔ یہ تو بتاؤ کہ میرا ایسا آدمی جو پچھواڑے کے کمرے میں پڑا رہتا ہو، اپنے بے ایمان نوکروں کے ہاتھوں عاجز ہو اور بڑھاپا اس کی ہڈیوں کے گودے تک اترچکا ہو، اس کے لیے اس کے سوا اور رہ کیا گیا تھا؟ اور میرا بیٹا دنیا بھر میں اینڈتا پھر رہا ہے۔ جو سودے میں نے اس کے لیے کیے تھے، ان کو چکاتا پھر رہا ہے، کامیابی کی خوشی سے پھولا نہیں سماتا ہے اور ایک معزز تاجر کا سا سنجیدہ چہرہ بنائے باپ کے سامنے سے ٹل جاتا ہے۔ کیا تم سمجھتے ہو میں تم سے محبت کر ہی نہیں سکتا تھا، میں، جس کی طرف سے تم نے پیٹھ پھرالی؟‘‘
اب وہ آگے کی طرف جھکے گا، جارج نے سوچا، اگر وہ گرپڑا اور چوٹ کھاگیا تو؟ یہ الفاظ اس کے دماغ میں پھپھکارتے ہوئے گزرے۔
اس کا باپ آگے کی طرف جھکا، لیکن گرا نہیں۔ چوں کہ جیسا کہ اس کا خیال تھا، جارج اس کے نزدیک نہیں آیا، اس لیے وہ پھر سیدھا کھڑا ہوگیا۔
’’جہاں ہو وہیں رہو۔ مجھے تمہاری ضرورت نہیں! تم سمجھتے ہو کہ تم میں یہاں تک آنے کی طاقت ہے اور تم اپنی خوشی سے مجھ سے الگ کھڑے ہو۔ اس پر نہ بھولنا۔ ہم دونوں میں اب بھی میرا کس بل کہیں زیادہ ہے۔ خود اپنی ذات سے تو شاید میں پست ہوچکا ہوتا لیکن تمہاری ماں نے مجھے اپنی قوت اتنی دے دی ہے کہ میں نے تمہارے دوست سے بخوبی تعلقات بڑھالیے ہیں، اور تمہارے گاہک یہ میری جیب میں رکھے ہوئے ہیں!‘‘
’’اس نے اپنی قمیص میں بھی جیبیں لگوارکھی ہیں!‘‘ جارج نے اپنے آپ سے کہا اور سمجھ لیا کہ یہ بات کہہ کر وہ اس کو دنیا بھر کی نظروں میں ایک کڈھب آدمی بنادے گا۔ یہ خیال اسے بس دم بھر کے لیے آیا، اس لیے کہ وہ سب کچھ بھولتا جارہا تھا۔
’’ذرا اپنی دلہن کو بانہوں میں لے کر میرے راستے میں آکے تو دیکھو! میں اس کو تمہاری گود سے گھسیٹ لوں گا، تم سمجھ بھی نہیں سکتے کس طرح!‘‘
جارج نے بے اعتباری سے منھ بنایا۔ اس کا باپ اپنے الفاظ کی صداقت پر زور دینے کے لیے اس کی سمت سر کو جنبش دے کر رہ گیا۔
’’کتنا مزہ آیا ہے مجھے جب تم مجھ سے اپنے دوست کو منگنی کی خبر دینے کی اجازت طلب کرنے آئے ہو۔ اسے پہلے ہی سے سب معلوم ہے۔ احمق لونڈے، اسے سب معلوم ہے۔ میں اس کو خط لکھ رہا ہوں، کیوں کہ تم لکھنے کا سامان میرے پاس سے ہٹانا بھول گئے تھے۔ اسی لیے تو وہ برسوں سے یہاں آیا نہیں۔ خود تم کو جو کچھ معلوم ہے، وہ سب اس کو سوگنا اچھی طرح معلوم ہے۔ بائیں ہاتھ میں وہ تمہارے خط کو کھولے بغیر مسلتا مروڑتا رہتا ہے اور داہنے ہاتھ میں میرا خط لیے اسے غور سے پڑھتا ہے۔‘‘
جوش میں آکر وہ سر کے اوپر اپنے ہاتھ لہرانے لگا۔
’’وہ سب کچھ ہزارگنا اچھی طرح جانتا ہے۔‘‘ اس نے چلاکر کہا۔
’’دس ہزار گنا!‘‘ جارج نے اپنے باپ کا مذاق اڑانے کے لیے کہا۔ لیکن ابھی یہ الفاظ اس کے منھ ہی میں تھے کہ ان کے اندر بلا کی سنجیدگی پیدا ہوگئی۔
’’میں تو برسوں سے انتظار کر رہا ہوں کہ تم ایسا کوئی سوال لے کر میرے پاس آؤ، کیا تم سمجھتے ہو کہ مجھے دنیا میں اس کے سوا کوئی اور بھی کام ہے؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ میں اخبار پڑھا کرتا ہوں؟ یہ دیکھو!‘‘ اور اس نے جارج کی طرف ایک اخبار پھینک دیا جو معلوم نہیں کس طرح اس کے بستر میں آگیا تھا۔ یہ ایک پرانا اخبار تھا جس کا آج تک جارج نے نام بھی نہیں سنا تھا۔
’’تم نے بڑے ہونے میں کتنا وقت لگادیا۔ تمہاری ماں اسی حسرت میں مرگئی۔ اس کو یہ خوشی کا دن دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ روس میں تمہارے دوست کی مٹی پلید ہو رہی ہے۔ تین برس پہلے ہی وہ پیلا پڑکے پھینک دینے کے قابل ہوگیا تھا، اور رہ گیا میں، تو تم دیکھ ہی رہے ہو کہ کس حال میں ہوں۔ آخر تمہارے بھی تو آنکھیں ہیں۔‘‘
’’تو آپ میری تاک میں تھے!‘‘ جارج چلایا۔
اس کا باپ افسوس کے لہجے میں بول اٹھا،
’’میں سمجھتا ہوں یہ بات تم پہلے ہی کہہ دینا چاہتے تھے۔ لیکن اب اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔‘‘ پھر ذرا بلند آواز سے بولا، ’’تو اب تم کومعلوم ہوگیا کہ دنیا میں تمہارے علاوہ اور کیا کیا ہے، ابھی تک تم کو صرف اپنی ہی خبر رہی ہے۔ ایک بھولا بھالا بچہ، ہاں، ایسے ہی تھے تم، سچی بات ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ سچی بات یہ ہے کہ تم ایک شیطان صفت انسان بن کر رہ گئے ہو! تو پھر سن لو، اب میں تم کوموت کی سزا سناتا ہوں، موت بذریعہ غرقابی!‘‘
جارج کو محسوس ہوا جیسے اسے کمرے سے باہر ڈھکیل دیا گیا ہے، دھماکے کی وہ آواز جس کے ساتھ اس کا باپ اس کے پیچھے پلنگ پر گرا تھا، بھاگتے میں بھی اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ زینے پر، جسے وہ کسی سیدھے نشیب کی طرح جھپٹتا ہوا طے کر رہا تھا، اس کی ٹکر اس ملازمہ سے ہوگئی جو اس کا کمرہ صاف کرنے کے لیے اوپر آرہی تھی۔
’’یسوع!‘‘ وہ چلائی اور سینہ بند سے اپنا چہرہ چھپانے لگی، لیکن وہ جا بھی چکا تھا۔
وہ پھاٹک سے نکلا، پانی کی طرف کھنچتا ہوا، سڑک پر آیا۔ اب وہ جنگلے کو یوں جکڑے ہوئے تھاجیسے کوئی فاقوں کا مارا ہوا آدمی غذا کو دبوچ لیتا ہے۔ وہ ایک جھکولا لے کر جنگلہ پار گیا۔ نوجوانی کے زمانے میں وہ جمناسٹک کا مانا ہوا ماہر تھا اور اس کے ماں باپ کو اس پر فخر تھا۔ ابھی اس کی کمزور پڑتی ہوئی گرفت برقرار تھی کہ اسے جنگلوں کے درمیان ایک بس آتی دکھائی دی جو اس کے گرنے کے جھماکے کو آسانی سے چھپاسکتی تھی۔۔۔ اس نے دھیمی آواز میں پکارا،
’’اچھی اماں، اچھے ابا، اس پر بھی میں آپ سے ہمیشہ محبت کرتا رہا۔‘‘ اور اس نے خود کو گرادیا۔
اس وقت پل کے اوپر سے سواریوں کا کبھی ختم نہ ہونے والا سیلاب گزرتا چلا جارہا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.