فاختائیں
یہاں خریت ہے۔ آپ کی خیریت نیک مطلوب۔
اپنے پرانےدوست فضل دین کو چٹھی لکھتے ہوئے لوبھ سنگھ کو یاد آیا ہے کہ وہ ان دنوں بھی اسے خریت لکھنے پر ٹوکا کرتا تھا۔ اردو کے ماسٹر ہولو بھے، یہ بھی نہیں جانتے خریت خر سے ہوتا ہے۔
’’بڑے علم دین مت بنو، فضل دینے۔ نقطے جتنے کم ہوں، لکھت اتنی ہی سرال اور ستھری ہوتی ہے۔‘‘
’’پر۔۔۔‘‘
’’پر، ور چھوڑو۔ تم بھی انگریزی پڑھاتے ہو۔‘‘ وہ دونوں پاکستانی پنجاب میں چونڈے کے ایک پرائمری اسکول میں ٹیچر ہوا کرتے تھے۔ ’’ذرا گہرائی سے سوچو، تمہاری انگریزی اتنی سرل کیوں ہے کہ انگریزوں کے بچے بھی فرفر بولتے چلے جاتے ہیں؟ ہمارے پنجاب کے بچے اس طرح کھل کر اردو کیوں نہیں بولتے؟‘‘
’’کیا مجھے اپنا طالب علم سمجھتے ہو، لو بھیا؟ میرے ساتھ اردو کیوں بول رہے ہو؟‘‘
’’تم اردو میں جواب دے رہے ہو۔‘‘
’’ہہ ہا۔۔۔ ہہ ۔۔۔‘‘
پاکستان بننے پر لوبھ سنگھ اپنے چونڈے سے دلی کی طرف نکل آیا اور ماسٹری چھوڑ کر یہاں ٹیکسی چلانے لگا۔
’’ایک بار گھر جو چھٹ گیا ہے یارو،‘‘ وہ کہا کرتا، ’’تو بیٹھے بیٹھے بھی یہی لگتا ہے کہیں بھاگے جارہے ہیں۔‘‘
دلی میں کئی سال کی اقامت کے بعد ایک دن اچانک سے پاکستانی ڈاک کا لفافہ ملا۔۔۔ از مولوی فضل دین، ہیڈ ماسٹر، چونڈہ۔۔۔ خط پڑھتے ہوئے وہ گویا اپنے پرانے یار فضل دینے کو کلیجے سے لگائے ہوئے تھا۔ ۔۔۔ فضلیا۔۔۔ اوئے حرام خورے! تو ادھر اتنا بڑا مولوی بن گیا اور مجھے پتہ بھی نہ چلا۔۔۔ اوئے باپ کے ہیڈ ماسٹرا۔۔۔ اس کی آنکھوں سے پنجاب کے پانچوں آب منہ ڈاڑھی میں بہہ نکلے تھے۔
’’کوئی مرگیا بھاپے؟‘‘ اس کا جوان بیٹا جسونت سنگھ پوچھنے لگا۔
’’نیئں، پترا، مردہ جی پڑیا۔‘‘
اس کے بعد لوبھ سنگھ کا معمول بن گیا کہ مہینے میں ایک بار وہ سارے کام چھوڑ کے بھی اپنے فضل دینے کو خط لکھنے بیٹھ جاتا۔
یہاں خریت ہے۔ آپ کی خریت۔۔۔
آپ کی۔۔۔ لوبھ سنگھ بے اختیار ہنسنے لگا ہے۔ اس کالے منہ مولوی کو تو اس کی عورت بھی تو تو کرکے گھر سے دھکا دے دیتی تھی۔
’’آج پھر پٹ کے آئے ہو فضل دینے؟‘‘
’’نہیں لو بھیا، آج تنخواہ کا دن ہے نا۔‘‘
’’یار ہماری دھرم کور بے چاری تو تنخواہ کے دن بھی بخار سے پڑی رہتی ہے۔‘‘ لوبھ سنگھ کی بی بی کو باری کا بخار رہتا تھا۔
’’چلو، آج ہی تمہیں اپنے مامے کے پاس لے جاتا ہوں۔ بہت بڑا حکیم ہے۔‘‘
’’میں تو چنگا بھلا ہوں مورکھا۔ بیمار تو تمہاری بھابی ہے۔‘‘
مگر وہ بھی چنگا بھلا کہاں تھا؟ اپنی بیوی کا روگ اسے بھی اندر ہی اندر کھائے جارہا تھا۔ ۱۹۴۷ء میں ملک کی تقسیم کے موقع پر اتنی آگ بھڑکی کہ وہ بے گھر ہوکر دلی آپہنچے۔ اگر ان سے چونڈہ نہ چھوٹتا تو دھرم کور جیسے تیسے آج بھی زندہ ہوتی مگر یہاں آئے انہیں ابھی پورا ایک سال بھی نہ بیتا تھا کہ اتھل پتھل میں اسے اپنی دھم کور واہگورو کو سونپنی پڑگئی۔۔۔ سچے بادشاہ! جب تک میں بھی اپنا وقت پورا کرکے تمہارے پاس نہ آپہنچوں میری امانت سنبھال کر رکھنا۔۔۔
’’وقت تو پورا ہوچکا ہے،‘‘ لوبھ سنگھ نے سراٹھاکر اپنے آپ کو پوچھا ہے۔ ’’پھر میں ابھی تک یہاں کیا کیے جارہاہوں؟‘‘ اپنی سفید داڑھی پر بے چینی سے ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ سوچ رہا ہے کہ وہ نکل تو پڑے، پہ واہگورو کو ڈھونڈے گا کہاں؟ اتنے سالوں میں دھرم کور بھی اس کی طرح بڈھی کھڈی ہوچکی ہوگی، پر جب وہ مر رہی تھی تو بخار کی گرمی سے اس کے منہ پر کتنا روپ چڑھ آیا تھا۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑے پہروں اس کے پلنگ پر بیٹھا رہتا تھا، مانو کچھ بھی ہو جائے وہ اسے جانے سے روکے رکھے گا۔
’’گھبرانئیں، جسی کے بھاپے میں جاؤں گی نئیں،‘‘ وہ اس کا حوصلہ بندھانے لگتی۔
’’ڈر نئیں، میں نئیں جاؤں گی۔ مجھے مالوم ہے میں چلی گئی تے تو مرجائے گا۔‘‘
دھرم کور کے جانے کے بعد واقعی یہی ہوا، مگر اس سے بھی برا یہ ہوا کہ لوبھ سنگھ کو مرکے بھی جانے کب تک سانس لیے جانا تھا۔ ساری دنیا وہی تھی اور وہ ویسے ہی یہاں وہاں ٹیکسی اڑائے پھرتا تھا اور ویسے ہی کھاتا پیتا اور ہنس ہنس کر بولتا تھا مگر اپنی دھرم کور کے بغیر ایک جی نہیں رہا تھا۔ دھرم کور کے جانے کا سمے آپہنچا تو اس نے اور مضبوطی سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا مگر اس کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں پڑا رہ گیا اور وہ نامعلوم کہاں چلی گئی۔ پہلے تو وہ بہت سے بہت یہاں چونڈے سے اپنے میکے کوٹلی لوباراں تک جاتی تھی اور اس دوران وہ اسے بلاناغہ ہر دوسرے روز چٹھی لکھتا تھا، ’’ڈاکخانہ کوٹلی لوہاراں، تحصیل وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ سردارنی دھرم کور بہ معرفت سردار رنجیت سنگھ گھوڑوں والے کو ملے۔‘‘ مگر اب وہ اسے کہاں چٹھی بھیجے؟
مگر اس وقت تو وہ اپنے فصل دینے کو چٹھی لکھ رہا تھا۔۔۔’’ آپ کی خیریت نیک مطلوب۔‘‘
آپ نے اسے پھر گدگدایا ہے۔۔۔ دوست اتنا قریبی ہو تو آپ واپ کیا۔۔۔؟ مگر وہ گویا اپنی ہی پرائمری اسکول کی چوتھی جماعت میں بڑے ادب سے بیٹھا ہو۔۔۔ اپنی پنجابی میں دل بھر کے پھٹکار پھٹکار کر محبت کرلو، پر اردو میں خط لکھو تو ہر مکتوب الیہ کو ہمیشہ آپ کہہ کر مخاطب کرو۔۔۔ اسے خاص دلی والوں کا خیال آنے لگا ہے جو گالی گلوچ پر بھی اتر آتے ہیں تو کچھ اس طرح۔۔۔ آپ کی ماں کی بہن کی۔۔۔ اس کے منہ سے ٹھاٹھا قہقہہ پھوٹ پڑا ہے۔
جسونت سنگھ اپنی بیوی کو چھوڑ کر دوڑکے آگیا ہے کہ بھاپے کو کیا ہوگیا ہے۔ جب سے وہ ٹیکسی چلاناچھوڑ کر گھر بیٹھ گیا ہے آپ ہی آپ کبھی ہنسنے لگتا ہے اور کبھی رونے۔ اس نے اپنے باپ کو مشورہ دیا ہے کہ ڈرائیور کے ساتھ وہ بھی ٹیکسی میں چلا جایا کرے نہیں تو اکیلے بیٹھ بیٹھ کر پاگل ہوجائے گا۔ لوبھ سنگھ نے سدا کے مانند اپنے بیٹے کو سمجھایا ہے۔ میری اتنی ہی فکر ہے تو جلدی سے مجھے پوتا کیوں نہیں لادیتے۔
’’تم سچ مچ پاگل ہوگئے ہو بھاپے،‘‘ اس نے اپنے باپ سے پوچھا ہے کہ پوتے کیا بازاروں میں بکتے ہیں جو آدمی ٹیکسی میں بیٹھ کر انہیں جھٹ پٹ خریدلائے۔ پوتوں کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے۔
’’تے پھیر محنت کر، پترا۔‘‘
پہلو کے کمرے میں جسونت کی بیوی دبے دبے ہنستی ہے اور جسونت بھی مسکرامسکراکر سر ہلاتے ہوئے واپس چلا گیا ہے۔
لوبھ سنگھ کو فضل دین کی کسی چٹھی کا خیال آگیا ہے جس میں اس نے لکھا تھا کہ اس کے کل ملاکر پندرہ پوتے اور دوہتے ہیں اور پانچ پوتیاں اور دو ہتیاں، میرا ہیڈ ماسٹر شیر ایک سے بیس ہوچکا ہے۔ اگر وہ کہیں آس پاس ہوتا تو وہ دو ایک کو ان کی پیدائش پر ہی مانگ کر اپنےگھر لے آتا اور انہیں اپنے ہاتھوں سے نہلادھلاکر ان کی کنگھی پٹی کیا کرتا۔ نہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اپنا فضل دینا میری نہ مانتا؟ نہ مانتا تو میں انہیں زبردستی لے آتا۔ وہ تیرے ہیں فضل دینے، تو میرے نہیں؟ اپنی کتاب دھیان سے پڑھ، ہیڈ ماسٹرا۔ اس میں صاف حکم دیا گیا ہے کہ سارے یاروں متروں کے ساتھ بانٹ کر کھاؤ۔ کڑاہ پرشاد ساری سنگت کے لیےہوتا ہے پر اس کا اللہ اسے شاد کام رکھے اور میرا واہگورو مجھے۔ وہ بھلا میرا کہا کیوں ٹالتا؟
لوبھ سنگھ نے اپنے لوبھ اور لالسا سے بے قابو ہوکر اپنی ٹیکسی کو فضل دین کے گھر کے سامنے جاکھڑا کیا اور ہارن کی پوں پوں سے اس کے سارے پوتے پوتیوں اور دوہتےدوہتیوں کو اکٹھا کرکے گاڑی میں لاد کر دلی اڑالایا ہے۔۔۔ یہ دیکھو قطب صاحب کی لاٹ۔۔۔ یہ لاٹ صاحب کا دفتر۔۔۔ یہ لال قلعہ۔۔۔ ہاں بھائی سبھوں کو ایک ایک قلفی دے دو۔۔۔ کھاؤ پترو، ادھر کی قلفی کا قاف قینچی والا ہے۔ گلا صاف کردیتی ہے۔۔۔ ہہ ہا ہہ۔۔۔ اری شبو۔۔۔ وہاں کہاں جارہی ہو؟ ادھر آؤ یہاں سے پیدل چاندنی چوک چلیں گے۔۔۔ آؤ۔۔۔ بچ کے۔۔۔ دھیان سے۔۔۔ لوبھ سنگھ بیٹھے بیٹھے بچوں کو گھما گھماکر تھک گیا ہے اور وہ خوشی سے ہانپتے ہوئے پھر یہاں اپنے کمرے میں آن پڑا ہے۔
یہاں خریت ہے۔۔۔
ہاں، خریت ہی خریت تو ہے!
کھ۔۔۔ کھی کھی۔۔۔ ہہ ہا۔۔۔
اسے پہلو کے کمرے سے اپنے بیٹے اور بہو کی گتھم گتھا ہنسی سنائی دی ہے اور اس نے بڑے سنتوکھ سے اپنے آپ سے سوال کیا ہے، اور کیسے خریت ہوتی ہے۔۔۔؟ میں نے تو سات آٹھ برس پہلے اس وقت بھی فضل دینے کو خریت ہی کی خبر دی تھی جب سارا کھیل چوپٹ ہوکر رہ گیا تھا۔ میرےبڑے بیٹے جسوندر سنگھ کو ٹیکسی کے حادثے میں پرلوک سدھارے پورا ایک ماس بھی نہ گزرا تھا۔ اس بار تو میں ایسا بے گھر ہوا تھا کہ دل و دماغ میں بھی رہنے کو جگہ نہ رہی تھی، مگر اتنی دور سے اپنے یار کو کوئی سکھ نہیں پہنچا سکتا تو اسے دکھی بھی کیوں کروں۔۔۔؟ یا پھر ایسی ویسی خبر پہنچائے بغیر کوئی چارہ ہی نہ رہے تو دکھ کی پٹاری کو دھیرے دھیرے کھولنا چاہیے تاکہ پہلے کالے ناگ کی صرف دم ہی نظر آئے۔
جسوندر سنگھ آپ ہی کے بیٹے کا نام ہے؟
ہاں، کیوں؟
کل وہی ٹیکسی لے کر آگرہ گیا تھا؟
کیوں، کیا ہوا؟
کل اس کی ٹیکسی ایک موٹر سائیکل سے ٹکراگئی اور موٹرسائیکل والے نے حادثے پر ہی دم توڑ دیا۔
میرا بیٹا نردوش ہے جی۔ وہ بڑا ذمہ دار ڈرائیور ہے۔
ہاں،مگر اسی اثنا میں پیچھے سے اس کی ٹیکسی پر ایک تیز رفتار ٹرک چڑھ آیا اور۔۔۔
اور اب کالے ناگ نے پھن پھیلالیا مگر اتنی دیر میں لوبھ سنگھ کی ہمت بھی تن چکی تھی۔
حادثے کے ہفتہ بھر بعد ہی جسوندر سنگھ کی شادی ہونے والی تھی۔ لوبھ سنگھ نے ٹیکسی ڈرائیوروں کی یونین کی مقامی شاخ کے ہر رکن کو شرکت کی دعوت دے رکھی تھی۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے کمشنر صاحب نے اپنی کرسی سے اٹھ کر اس سے ہاتھ ملایا تھا اور اسےیقین دلایا تھا کہ وہ اس کے بیٹے کی شادی میں شریک ہوں گے۔ گھر میں پہلی شادی تھی اور اس نے تہیہ کر رکھا تھا کہ خوب دھوم دھام سے ہوگی اور اس دن وہ شراب کے دو گھونٹ بھی پی لے گا جسے اس نے ایک بار چھوڑ کر کبھی نہ چھونے کی قسم کھا رکھی تھی۔۔۔ واہگورو اپنا ہی آدمی ہے اور جانتا ہے کہ اتنے بڑے موقع پر اتنی چھوٹی سی چوک بھی نہ ہو تو پھر جینا کس لیے۔ اسے بھی پاس بٹھاکر کہوں گا، لے بھائی میرے، آج تو بھی دو بوندیں چکھ لے۔۔۔ نہیں؟ میرے پادشاہ، لے لے، میری خاطر لے لے۔۔۔
لوبھ سنگھ کے کانوں میں باجے بج رہے ہیں اور اس نے دیکھا ہے کہ باجے والوں کے پیچھے جسوندر اپنی پگڑی پر موتیے اور گلاب سے مہکتا ہوا سنہرا سہرا باندھے گھوڑی پر بڑی سج دھج سے بیٹھا ہے اور ذرا آگے وہ آپ دو گھوڑے کی شلوار قمیص پہنے اور دھاری دار کیسری پگڑی کو سر پر لہروں کی طرح جمائے بھنگڑا کرنے کے انداز میں چل رہا ہے اور بار بار مڑکر براتیوں پر کیوڑا چھڑک رہا ہے۔ براتیوں کے منہ قمقموں کے مانند جگمگا رہے ہیں اور قہقہے پٹاخوں کے مانند چھوٹ رہے ہیں اور ۔۔۔ اور۔۔۔ یہ کیا۔۔۔؟ ساری کی ساری برات اچانک سطحِ زمین سے اوپر اٹھنے لگی ہے اور باجے گاجے سمیت بدستور چاند تاروں کی جانب اٹھتی جارہی ہے اور صرف لوبھ سنگھ اور اس کا چھوٹا بیٹا جسونت یہاں سطحِ زمین پر رہ گئے ہیں اور دیوانہ وار چلا رہے ہیں۔۔۔ ویر جی۔۔۔ جسوندر۔۔۔ وندرے۔۔۔ے! ٹھہر جا، پترا۔۔۔ اور پھر وہ بے بس ہوکر ہتھیلیاں ملنے لگا ہے اور اس کی پگڑی ڈھیلی ہوکر کندھوں پر ڈھلک آئی ہے اور وہ راہ گیروں کو بتارہا ہے۔۔۔ بڑا نیک پتر ہے جی، رجھ کے نیک! اپنی مری ہوئی ماں کی اشیرواد لینے چلا گیا ہے جی۔۔۔
لوبھ سنگھ ہولے ہولے رو رہا ہے۔
’’کی ہویا، بھاپے؟‘‘ اس دفعہ جسونت نے اپنے کمرے سے ہی آواز لگائی ہے۔
’’کچھ نئیں۔‘‘
لوبھ سنگھ نے اٹھ کر تولیا گیلا کرکے منہ صاف کیا ہے اور پھر اپنے پلنگ پر آبیٹھا ہے۔
یہاں خریت ہے۔۔۔
کہاں خریت ہے۔۔۔؟ مگر واہگورو کا حکم خریت سمجھ کر ہی قبول کرنا پڑتا ہے۔ ’’سب ٹھیک ہے پترا،‘‘ وہ اپنے بیٹے کے اطمینان کی خاطر آواز کھول کر بولا ہے، ’’آرام کرو۔‘‘
اس نے اپنی چٹھی پھر ہاتھ میں لے لی ہے اور لکھنے لگا ہے۔ صورتِ احوال یہ ہے کہ وقت کاٹے نہیں کٹتا۔ دن رات چپ چاپ پڑا رہتا ہوں اور صرف وہی گھڑیاں کام کی لگتی ہیں جب ذرا آنکھ لگ جاتی ہے اور اپنے چونڈے جاپہنچتا ہوں۔۔۔
لوبھ سنگھ کو پچپن ساٹھ سال کے فاصلے سے اپنی ماں کی آوازسنائی دی ہے۔ لوبھیا۔۔۔ لوبھیا۔۔۔
’’ہاں، بے بے!‘‘ وہی بے بے کالو بھیا سا بنے بوڑھا ،لوبھ سنگھ بے اختیار پکار اٹھا ہے۔
’’جا،پتر، دیکھ۔ دروجے پہ کھڑا فضلا بلا ریا ای۔‘‘
کیا زندگی تھی! سارے کام زندگی نے آپ ہی سنبھال رکھے تھے اور ہمارا کام بس یہی تھا کہ جی جی کر بڑے ہوتے چلے جائیں۔۔۔
لوبھ سنگھ ٹھنڈی سانس بھر کر پھر لکھنے لگا ہے۔
کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ چونڈے کی مٹی سے جیبیں بھر کے ایک بار مجھے ملنے چلے آئیں؟ ویزا نہ بنے تو چوری چوری آجائیں۔ بڑے لوگوں کی لڑائیوں سے ہمارا کیا لینا دینا، ہم چھوٹے لوگوں کو تو صرف گلے ملنے کے لیے ملنا ہوتا ہے۔ اس پر کسی کو کیا اعتراض ہوگا؟ آپ چپکے سے آجائیے، باقی سب میرا پتر جسونت سنگھ سنبھال لے گا۔
لوبھ سنگھ کو کانوں میں اپنے بیٹے اور بہو کی ٹھٹول کھسر پھسر اچھی لگی ہے اور وہ مسکراکر گویا اپنے کھلکھلاتے پوتے سے کھیلنے لگا ہے۔۔۔ او بھائی کیسر سنگھا! او گلاب سنگھا! او ماں کے معتبر سنگھا۔۔۔ اور ماں کا معتبر سنگھا بھی کلکاریاں مار مار اسے برابر جواب دینے جارہا ہے۔ مگر وہ ہے کہاں۔۔۔؟ لوبھ سنگھ نے دل گیر سا ہوکر پھر اپنی چھٹی پکڑلی ہے۔
باقی صورتِ احوال یہ ہے کہ میں بہت اکیلا پڑگیا ہوں۔ چند ماہ پہلے جب میں نے اپنا پینسٹھواں سال پورا کرلیا تو جسونت سنگھ نے مجھے ٹیکسی چلانے سے روک کر گھر بٹھا دیا۔ پہلے تو میں نے چاہا کہ اسے تھپڑ مار کر سمجھاؤں، ٹیکسی میری، میں اپنا، بیچ میں تو کون؟ پر سچ تو یہی ہے کہ ٹیکسی چلانا اب میرے بس کا نہیں رہا۔ اب تو میں صرف خیالی گھوڑے دوڑا سکتا ہوں۔ ہیڈ ماسٹری ہوتی تو تمہاری طرح (اس نے تمہاری کاٹ کر، آپ کی، لکھا ہے) غلط عمر لکھواکر دس ایک سال اور نکال دیتا۔ پر بہت ہولیا۔ آپ بھی پنشن لے کر اپنے گھر کے بچوں کی ہی جماعت لگانا شروع کردیں۔ پنشن کے بعد گھر سے باہر بھی ماسٹری کرتے پھریں گے تو چار چھ ماہ میں ہی پاگل خانے میں ڈال دیے جائیں گے۔
’’ہہ ہا ہہ۔۔۔‘‘ لوبھ سنگھ نے قلم چلانا روک لیا ہے۔
’’ایک دفعہ ایک خوش پوش بوڑھے پاگل نے اس کی ٹیکسی میں بیٹھ کر بڑی تمکنت سے اسے حکم دیا، ’’چلو!‘‘
’’کدھر؟‘‘
’’پیچھے۔‘‘ لوبھ سنگھ اپنی ہنسی نہ روک سکا۔ ’’ٹیکسی تو صرف آگے ہی جاسکتی ہے۔‘‘
’’مگر مجھے اپنے پیچھے جانا ہے۔‘‘
’’تو شریمان، پھر گاڑی میں بیٹھنے کی کیا ضرورت ہے؟ اپنے من میں ہی پاؤں پاؤں اتر جائیے۔‘‘
لوبھ سنگھ آج گویا آپ ہی اپنی ٹیکسی میں آبیٹھا ہے۔
’’کہاں؟‘‘
’’چونڈے۔‘‘
’’چونڈے؟‘‘ وہ اپنے آپ کو پاگل سمجھ کر ہنسنے لگا ہے۔ ’’ادھر تو ایک ہی رستہ ہے،آکاشو آکاش، سواڑکر جا پہنچو سردارو۔‘‘
کیوں۔۔۔؟ کیوں۔۔۔؟ بھائی وریام سنگھ مرحوم اس کی دھرم کور کا بھائی بھی تھا اور وہ دونوں یارِباش بھی تھے۔ بھائی اس سے پوچھا کرتا کہ چونڈے سے تو لٹ پٹ کر نکلے تھے، وہاں کیوں جانا چاہتے ہو؟
’’کیونکہ چونڈہ میری پناہ گاہ ہے بھائی۔‘‘
چونڈے کی یاد میں جب لوبھ سنگھ کی جان گلے میں آن اٹکتی تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے بھائی وریام سنگھ کے پاس سہارنپور جاپہنچتا جہاں پاکستان سے نکلنے کے بعد بھائی آباد ہوگیا تھا۔
بھائی چھوٹتے ہی پوچھتا، کیوں، لوبھیا، چونڈے جانے کے لیے آئے ہو؟
وہ اسے جواب دیتا کہ بوتل کھولو، باتیں چونڈے پہنچ کر کریں گے۔ لوبھ سنگھ کسی باعث بھائی کے پاس جا نہ پاتا، تو اسے بڑی لمبی چٹھی لکھنے بیٹھ جاتا۔
بھائی وریام سنگھ۔ ست سری اکال۔ یہاں خریت ہے۔ آپ کی خریت نیک مطلوب۔ صورت احوال یہ ہے کہ جلدی سے بوتل کا کاک کھولیے ہمیں ایک دم چونڈے پہنچنا ہے۔
آج کل بھی لوبھ سنگھ اکثر بھائی وریام سنگھ کو چٹھی لکھنے کی خواہش سے بے قابو ہونے لگتا ہے مگر مرے ہوؤں کو کس پتے پر چٹھی لکھی جائے؟ اگر وہ زندہ ہوتا تو لوبھ سنگھ اپنی چٹھی پہنچانے سہارنپور تک پیدل چل کر بھی کوچہ دلبراں میں دائیں طرف چوتھے مکان کی ڈیوڑھی میں جاپہنچتا مگر مرے ہوؤں کو واہگورو نامعلوم کس پتے پر جابٹھاتا ہے۔ پھر بھی ایک دفعہ اپنی رو میں انجان سا ہوکر اس نے بھائی مرحوم کو خط لکھ بھیجا جو واپس آگیا، یا پھر شاید یہ ہے کہ اپنے صحیح پتے پر آپہنچا، کیونکہ کسی کی موت کے بعد جب ہم اس سے مخاطب ہوتے ہیں تو اس کی طرف سے بھی ہم ہی کو اپنی بات سننا ہوتی ہے۔ مرنے والا تو مرگیا، پر اسے جینے کے لیے ہم تو زندہ ہیں۔
لوبھ سنگھ اونگھنے لگا ہے اور اونگھتے ہوئے خواب میں گھوم پھر رہا ہے اور گھومتے پھرتے راستہ کھوکر خواب ہی خواب میں خواب سے باہر نکل آیا ہے۔۔۔ یہاں۔۔۔ یہ چونڈے کا پرائمری اسکول ہے۔ اسکول کے سامنے یہ کچا راستہ سیدھا اس کے گھر کو جاتا ہے۔ وہ۔۔۔ وہاں اس کے گھر کی چوکھٹ پر دھرم کور کھڑی اس کا انتظار کر رہی ہے۔ اپنی بیماری میں بھی وہ اسی طرح ہر روز اس کی واپسی پر یہیں کھڑی اس کا انتظار کر رہی ہے۔ اپنی بیماری میں بھی وہ اسی طرح ہر روز اس کی واپسی پر یہیں کھڑی ہوتی ہے۔۔۔ وہ اسے جی بھر کر دیکھنے کے لیے رک گیا ہے اور اسے لگ رہا ہے کہ میری جنانی سرسوں کے زرد پھولوں کی طرح سونا سونا بکھری پڑی ہے۔ اس پر ایک ٹک نظر باندھے وہ یکبارگی اچھل پڑا ہے کہ میں لوبھی یہاں اسے للچائی آنکھوں سے تکے جارہا ہوں اور وہ وہاں بخار سے دھواں دھواں سلگ رہی ہے۔۔۔ وہ لپک کر اس کی جانب ہولیتا ہے پر آدھے فاصلے پر ہی کیا دیکھتا ہے کہ وہ مسکراتے مسکراتے زمین پر ڈھیر ہوگئی ہے۔۔۔ دھرمو۔۔۔ جسونت۔۔۔ جسی۔۔۔
جسونت اپنے کمرے سے تیز تیز آیا ہے۔
’’کی ہویا، بھاپے؟‘‘
’’کچھ نئیں۔‘‘
لوبھ سنگھ اپنے باطن کی ہڑبونگ پر قابو پا رہا ہے۔
’’سوجاؤ بھاپے،‘‘ جسونت نے اپنے باپ سے کہا ہے اور ادھر ادھر نظر دوڑاتے ہوئے اس کی ادھوری چٹھی دیکھ کر یونہی پوچھ بیٹھا ہے، ’’چٹھی لکھ رے او؟‘‘
لوبھ سنگھ نے تولیے سے منہ پونچھ کر جواب دیا ہے، ’’ہاں، تیرے چونڈے والے چاچے نوں۔‘‘
’’تسی تے پاگل ہو گئے او، بھاپے۔‘‘
جسونت نے اپنے باپ پر ترس کھاتے ہوئے اسے یاد دلایا ہے کہ چونڈے کے چاچے کو مرے مکے تو عمراں بیت چکی ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.