جلتی ہوئی موم بتیاں مکان میں عجیب سی پر اسرار روشنی بکھیر رہی تھیں اور وہ پلنگ پر چپ چاپ پڑی ٹالسٹائی کو پڑھتے ہیں بار بار چونک جاتی۔ معمولی سی چیز کو بھی کس قدر حسن کارانہ انداز بیان کی ضرورت ہے۔ فانوس میں جلتی ہوئی موم بتیاں ہوا کے جھونکوں سے جھلملانے لگتیں تو دیواروں پر چھائیاں سی ناچتی پھرتیں اور وہ کتاب کو الگ رکھ کر کہیں دور کے جزیروں میں گائے جانے والے گیتوں کے ترنم کے متعلق سوچنے لگتی۔ اس گیت کے متعلق بھی جس کی دھن اس نے خود بنائی تھی اور جس کو کسی باغ کے تنہا گوشے میں، پھولوں سے ڈھکے ہوئے کنج میں بیٹھ کر گنگنانا چاہتی تھی مگر اتنا وقت اس کے پاس کہاں بچ پاتا۔ رات کے دس بجے موہنی اس کے پاس چائے لے کر آتی۔
اس ڈھنڈے مقام پر چائے کی گرم پیالی اس میں دیر تک پڑھتے رہنے کے لئے حرارت بھر دیتی۔ چاروں طرف پھیلی ہوئی خاموشی اور گہرے سناٹے کو کبھی کبھی سسٹر روتھ کی سفید نوکیلی سینڈلوں کی کھٹ کھٹ توڑ دیتی یا پھر لیبر روم سے کسی نوزائیدہ بچے کی آواز تخلیق کا سدا بہار نغمہ بن جاتی۔
نیچے اسپتال ہے اور اوپر لیڈی آر ایم او کا فلیٹ ہے۔ اوپر رہنے والی ڈاکٹر اپنی مرضی سے کہیں نہیں جا سکتی اس مینا کی طرح جس کے پر کاٹ کے پنجرے میں چھوڑ دیا گیا ہو۔
پورے اسپتال کی ذمہ دار وہ واحد ذات جس کو اپنی ذات میں دلچسپی لینے کی کبھی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس کی اپنی کوئی سوشیل لائف نہیں ہوتی۔ وہ سدا سر جھکائے چٹھیوں پر مریضوں کے نام لکھا کرتی ان کے لئے دوائیں تجویز کرنا، ان کو اسپتال میں داخل کرنا۔ ان کے آپریشن کرنا اور رات رات بھر زندگی کو موت کے پنجوں سے کھینچ لینے کی جدوجہد میں مصروف رہنا یہی تو اس کا فرض ہے۔
اس یکسانیت سے وہ خود بھی اکتا جاتی۔ رات میں دیر گئے تک پڑھنے کے بعد بھی وہ اکثر بے چین رہتی۔ نیند آنکھوں سے دور نہ جانے کہاں چلی جاتی آج کی رات بھی ایسی ہی رات تھی۔ اس نے کتاب ہاتھ بڑھا کے شلف پر رکھ دی۔ ساری شمعیں گل ہو گئی تھیں۔ صرف ایک شمع کمرے کے سینٹر پیس پر جل رہی تھی۔ اس کے احساسات کی طرح جو رات کی تاریکی میں سلگتے رہتے ہیں۔ اس نے اپنے گالوں پر آنسوؤں کی نمی محسوس کی۔ آج زندگی کی ایک ایک بات کی یاد آ رہی تھی۔ وہ بند جو اس نے برسوں پہلے اپنے احساسات کی چڑھتی ندی پر باندھا تھا۔ اس کو آنسوؤں کے طوفان نے بہا دیا تھا۔
پلنگ پر کروٹیں بدلتے بدلتے وہ بہت پیچھے چلی گئی جب وہ چھوٹی سی گوری چٹی خوبصورت سی لڑکی تھی۔ سنہرے بالوں کی دو ننھی منی چوٹیاں پشت پر ڈالے سات بھائیوں کے ساتھ اسکول جاتی جاتی تھی۔ ان سات بھائیوں کی بڑی بہن دہی تھی۔ ماحول ایسا تھا کہ بچپن سے اس نے اپنے اندر بزرگی و ممتا محسوس کی۔ ان ننھے منے بچوں کو وہ پوری شفقت دیتی تھی اور جب اس کے باپ نے دوسری شادی کرلی تو وہ اور زیادہ توجہ سے ان بچوں کی دیکھ بھال کرنے لگی اس نے بہن کے پیار سے زیادہ ماں کا رکھ رکھاؤ اپنایا تھا۔ وہ ان چھوٹی سی جانوں کے لئے ایسا چھپر تھی جو انھیں بارش، آندھی سے بچانے لگا تھا۔ گھر میں دیکھے گئے بیجا ظلم و ستم کے ردعمل کے طور پر بےحد نرم سمجھاؤ کی نیک فطرت لڑکی تھی۔
ان ہی حالات میں اس نے ڈاکٹری میں داخلہ لے لیا۔ وہ خوش نصیب بے فکر لڑکے اور ہنستی مسکراتی لڑکیاں اور کہاں اس کی بزرگی!
وہ اگر کچھ سوچتی بھی تو یہی کہ جلدی سے ڈاکٹر بن جائے، پھر وہ بھائیوں کے لئے معمول چھپر نہیں آہنی قلعہ بن جائے گی روز روز کی جھک جھک اور گھریلو جھگڑوں سے وہ تنگ آ گئی تھی۔
باپ بھی یہ سوچ کر خوش تھے کہ اس کے ڈاکٹر بنتے ہی ان ساتوں کا انتظام تو ہو ہی جائےگا۔
اس کی پہلی پوسٹنگ کسی دیہات میں ہوئی تھی۔ گھر چھوڑنے کا اس کو رتی برابر بھی رنج نہ تھا۔ ہاں بھائیوں سے بچھڑنے کی تکلیف ضرور تھی۔ وہ شہر میں پڑھ رہے تھے اور انھیں اپنے ساتھ دیہات میں رکھنا ممکن نہ تھا۔ اس نے اپنی پہلی تنخواہ باپ کو بھیج دی۔
اور اب اس کو گھر چھوڑے ہوئے پورے نو برس ہو گئے تھے۔ وہ باہر ہی گھومتی رہی۔ ایک دیہات سے دوسرے دیہات۔ ایک ضلع سے دوسرے ضلع۔ زندگی کا چکر چلتا رہا۔
کونسا موسم آیا۔ کب گیا۔ دن کب شروع ہوا۔ رات کب ڈھلی چاند کب طلوع ہوا۔ چاندنی کب بکھری۔ پھول کے کانوں میں بھونرے کیا کہا۔ اس نے کچھ بھی نہیں دیکھا۔۔۔ کچھ بھی نہیں سنا وہ دن رات دکھ درد میں گھری بیمار زندگیوں کو سکون پہونچا نے کی کوشش کرتی رہی۔ اپنے بھائیوں کو پڑھا نے لکھانے میں اس نے کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ اب وہ سب کالج میں آ گئے تھے۔ بڑی بھابی تو پانچ بچوں کی ماں تھی اب سب کو وہی سنبھال رہی تھی۔ یہ ساری خوشیاں اسے گھیرے رہتیں۔ پھر بھی رات کی تاریکی میں وہ اپنے پلنگ پر اٹھ بیٹھتی۔ وہ کھٹک سی کیا ہے جو بار بار اس کے دل میں ہیجان پیدا کرتی ہے۔۔۔ یہ روح تشنہ سی کیوں ہے۔۔۔ وہ کیا چاہتی ہے۔۔۔؟
اس کو کبھی شفقت و محبت نہیں ملی۔ وہ بچپن سے شفقت و محبت دیتی آئی تھی۔ مگر اس کو کسی نے بھی پیار سے نہیں پکارا تھا۔ اس کی روح کی تشنگی کو کسی نے بھی نہ سمجھا۔ شاید یہی پیاس اس کو نیند سے جگا دیتی ہے اور صبح کی سفید ی جب کھڑی کیوں سے اندر آگے پھیل جاتی ہے تو وہ تکیہ پرسر رکھ کے سو جاتی۔۔۔
جب سے ڈاکٹر آفتاب آئے تھے وہ یونہی سوتے میں اچانک چونک جاتی پھر بڑی دیر تک اپنے دل پراس دستک کو سنا کرتی۔۔۔ کون ہے جو دھیرے دھیرے دستک دیتا ہے۔۔۔؟
آفتاب سے پہلی ملاقات بھی عجیب طرح سے ہوئی تھی۔ مریض دروازے کے باہر ایک دوسرے کو ڈھکیل کے آگے بڑھ رہے تھے وہ صبح سے تقریباً ڈیڑھ سو مریضوں کو دیکھ چکی تھی۔ شاید حکومت ڈاکٹروں کے بارے میں انصاف نہیں کر پاتی۔ بھلا ایک لیڈی ڈاکٹر اتنے مریضوں کو اکیل کیسے دیکھ سکتی ہے؟ ایک ایک دو دو منٹ بھی مریض کے لئے ناکافی ہوتے ہیں۔
’’جاؤ باہر سے کسی ہاؤس سرجن کو بلاؤ۔۔۔’‘ اس نے ٹریننگ پر آئی ہوئی نئی نرس سے کہا۔۔۔ وہ بڑی متانت سے آیا۔ سانولا رنگ، بڑی بڑی گہری آنکھیں اور خوبصورت چھوٹی سی مونچھیں جن کے نیچے دو مسکراتے ہونٹ۔
آپ۔۔۔؟ میرا مطلب ہے، یہاں آکے ہاتھ بٹانا چاہئیے۔ ہاوز سرجن کو، اتنے زیادہ مریض ہیں اور میں اکیلی ہوں۔ دو ڈھائی سو مریضوں کو دیکھنا آسان نہیں۔ میں نے ایک لمحے کو بھی آرام نہیں لیا ہے۔ آپ لوگ وہاں اکٹھے بیٹھے گپیں لگایا کرتے ہیں، یہ احساس کئے بغیر کہ اس وقت مجھے فرصت نہیں ہے۔۔۔
‘‘میں کہاں تک یہ چھٹیاں لکھ سکوں گا، اتنی ساری!‘‘ اس نے بہت ہی لا پرداہی سے جواب دیا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔ مارے غصہ کے اس کا چہرہ لال بھبھوکا ہو گیا اور ہو جھنجھلائے انداز میں بیٹھی رہی۔ نرسس ڈر کے دور ہٹ گئیں۔
دوسرے دن وہ اپنی میز پر آئی ہی تھی کہ ڈی۔ ایم۔ او۔ صاحب چلے آئے۔ وہ تعظیماً کھڑی ہو گئی، ان کے ساتھ دہی کل والا ہاوز سرجن تھا۔ آج اس نے گرے سوٹ پہن رکھا تھا اور کل سے بھی زیادہ پرکشش اور رنجیدہ لگ رہا تھا ۔۔۔ وہ دل ہی میں سلگ اٹھی۔
مغرور کہیں کا۔۔۔ اس نے دانت پیسے
‘‘گڈ مارننگ، ڈاکٹر، ڈی ایم او شگفتگی سے بولے۔‘‘
’’گڈمارننگ سر’‘
’’یہ میرے اسسٹنٹ ہیں، ڈاکٹر آفتاب’‘
’’جی۔۔۔؟ وہ حیرانی سے بولی۔‘‘
’’گڈمارننگ’‘ اس نے اسی متین لہجے میں کہا۔
’’گڈمارننگ’‘ وہ شرمندہ ہو گئی۔
ڈی۔ ایم۔ او۔ چلے گئے تو وہ آہستگی سے بولی۔
‘‘بیٹھئے۔’‘ معاف کیجئے میں نے آپ کو ہاوز سرجن سمجھا تھا۔ مجھے پتہ ہی نہ تھا کہ آپ کی یہاں پو سٹنگ ہوئی ہے۔ ’’آپ نے کل بتایا بھی تو نہیں۔’‘
’’آپ نے بتا نے کا موقع ہی کب دیا؟ آپ تو سخت غصہ میں تھیں۔’‘
اس نے نگاہیں اٹھائیں۔ اف کیا غضب کی آنکھیں ہیں اس شخص کی۔۔۔؟
گھبراکے اس نے مریضوں کے نام لکھنا شروع کہ دیئے مگر نہ جانے وہ مریضوں سے کیا پوچھ رہی تھی۔ مریض اس کو کیا جواب دے رہے تھے۔ پہلی بار اس کو احساس ہوا کہ وہ کہیں کھو گئی ہے۔ اپنے آپ سے دور کہیں چلی گئی ہے۔
ڈاکٹر آفتاب نے سگریٹ جلایا اور دوسرے لمحے خوشبودار تمباکو کی بھینی بھینی خوش بو اس کو پریشان کرنے لگی۔
’’آپ کہاں رہتے ہیں؟’‘ اس نے بات شروع کرنے کے لئے پو چھا ‘‘یہیں قریب ہی ایک اچھا گھر مل گیا ہے مگر مجھے وہ جگہ پسند نہیں۔’‘
’’آپ اکیلے رہتے ہیں۔؟‘‘
’’میری بہن بھی میرے ساتھ رہتی ہے۔’‘
’’اس دن یہیں تک باتیں ہوئیں۔’‘ پھر وہ اٹھ کے آوٹ پیشنٹ میں چلا گیا۔
شام میں وہ اسپتال سے نکل کر مسز انجم سے ملنے چلی گئی۔ وہ اس کی بہت پرانی دوست تھی اور جب سے اس کو معلوم ہوا تھا کہ وہ یہاں رہتی ہے تو ملنے کو اس کا جی مچل اٹھا۔ یہ پہلا موقع تھا وہ اسپتال سے باہر نکلی تھی۔ فضا میں اداس ٹھنڈک تھی۔ چھوٹے چھوٹے کچے گھروں سے دھواں نکل رہا تھا اور بچے باہر شور مچا رہے تھے۔ مویشی چرانے والے لڑکے ہاتھ میں ڈنڈا لئے اپنے ڈھور ڈنگر ہنکاتے ہوئے گھر واپس جا رہے تھے۔ عورتیں سروں پر ٹوکرے لئے پگڈنڈیوں پر قطار کی شکل میں چلی رہی تھیں۔ آگے آگے کسان کندھے پر ہل رکھے بیلوں کی رسی پکڑے چلے جا رہے تھے۔ جوان لڑکیاں آنچلوں میں دن بھر کام کرنے کے عوض دیئے گئے دھان لئے۔ دھیرے دھیرے قدم اٹھا رہی تھیں۔ ان کی لال پیلی، نیلی اور اودی ساڑیوں پر جگہ جگہ کیچڑ لگا ہو ا تھا۔ ان کے ماتھے پر سیندور کے ٹیکے پھیل گئے تھے۔
محنت۔۔۔ محنت۔۔۔ محنت وہ خود بھی تو سخت کرتے کرتے عاجز آ گئی تھی۔
آج باہر نکل کے اس نے آس پاس نظر ڈالی تو ایک ایک چیز اس کو اچھی لگی۔ کھلی فضا۔۔۔ دور تک پھیلے ہوئے کھیت جن میں سے ہوا کے جھونکے گنگنا تے ہوئے گذرتے تھے۔ اونچے اونچے پیڑوں پر شور مچانے والے پرندے اور گاؤں کا وہ تالاب جس میں دور تک گول گول سبز پتوں والی بیلیں تیر رہی تھیں۔
’’کہاں جا رہی ہیں آپ۔۔۔؟’‘ کسی نے اس سے پوچھا۔
وہ پلٹ کر دیکھنے لگی۔ ڈاکٹر آفتاب تھے۔
اور آپ یہاں کہاں۔۔۔؟
میں ڈیوٹی ختم کر کے روز ہی گھومنے نکل جاتا ہوں اور رات کو گھر واپس جاتا ہوں۔
’’وہاں اکیلے بیٹھے بیٹھے عاجز آ جاتا ہوں نا۔۔۔ اسی لئے۔’‘
’’مسز انجم کی مجھ سے بڑی دوستی ہے۔ آپ چلیں گے وہاں؟‘‘ وہ دونوں میاں بیوی بہت دلچسپ ہیں۔ وہ ساتھ ہو گیا۔ راستہ بھر وہ دونوں اسپتال اور مریضوں کی باتیں کرتے رہے۔ واپسی میں کا فی رات ہو گئی تھی مگر وہ دونوں اطمینان سے باتیں کرتے چلے جا رہے تھے۔
رات بھر وہ سونہ سکی۔ پڑھنے میں بھی اس کا جی نہ لگا۔ اس نے ایک پیالی چائے کی بجائے دو پیالی چائے پی اور ریشمی نرم رضائی میں منہ چھپا لیا۔ صرف رات ہی اس کی اپنی تھی۔ احساسات رات ہی کو جاگتے تھے۔ جب وہ تنہائی کے سناٹے میں تکیہ میں سردھنسا کے لیٹ جاتی تو اس کی گیلی آنکھیں، اس کے کانپتے ہونٹ اور بے چین دل اسے سکون نہ لینے دیتا۔ اس نے ہمیشہ اپنے احساسات کو کچلا تھا۔ اپنے آپ کو مار ڈالا تھا۔ مگر وہ کچلے ہوئے جذبات کبھی کبھی اس کو ج جھنجوڑ جھنجوڑ کے جگا نے لگتے۔ اس کی تنہائی، اس کی آرزوئیں، اس کی کچلی ہوئی امنگیں اور کھل کے قہقہہ لگا نے کا ارمان۔۔۔ ان سب سے کترا کے وہ دور نکل جانا چاہتی تھی۔ چھٹی لے کے کبھی جاتی بھی تو گھرکے سارے لوگ جیسے اپنا مصیبتیں اور تکلیفیں سمیٹ کر لے آتے۔
سننے کو ایک دہی رہ گئی تھی۔ ہر شخص دوڑا ہوا چلا آتا۔ مبادا کہ وہ چلی جائے تو کسے جا کے اپنی داستان سنائے۔
بڑے بھائی کے بچوں کے کپڑے اور جوتے ختم ہو گئے تھے۔
دوسرے بھائی کو کتابوں اور فیس کے لئے کم از کم ایک ہزار روپے درکار تھے۔ تیسرے بھائی نے کسی لڑکی کو اپنے لئے پسند فرما لیا تھا اور شادی رچانے پر بری طرح تلے بیٹھے تھے۔ چھوٹا بھائی ہندوستان سے باہر جانا چاہتا تھا اسی طرح تمام بھائیوں کے نہ حل ہونے والے مسئلہ اس کے آتے ہی اٹھ کھڑے ہوتے ۔۔۔
باپ کے لئے ان خواہشوں کا پورا کرنا بالکل ناممکن تھا۔ ان سب کے لئے وہی تھی جو صحرا میں ٹھنڈ ا چشمہ بن گئی تھی۔
اس کے ساتھ والے ڈاکٹروں میں سے زیادہ تر اعلیٰ ڈگریوں کے لئے ہندوستان سے باہر چلے گئے تھے جو شہر میں تھے وہ شاندار بنگلوں اور جگمگاتی موٹر کاروں کے مالک تھے اور وہ نوبرس کی ملازمت میں اپنے لئے کچھ بھی نہ سوچ سکتی تھی۔
دوسروں کے زخموں پر مرہم رکھتے رکھتے اس کے ہاتھ شل ہو گئے تھے ساری گتھیوں کو سلجھانے بیٹھتی تواس کا سراہی نہ مل پاتا اور جیسے وہ اندھیرے کنویں میں ڈوبتی جاتی بچپن میں اس کو دادی ماں نے ایک کہانی سنائی تھی ایک بدنصیب شہزادی جو سات بھائیوں کی بہن تھی ۔۔۔ سوتیلی ماں نے ان ساتوں بھائیوں کو جنگل میں چھڑدا دیا تھا اور لڑکی کو شاہی محل میں قید کر دیا تھا مگر لڑکی بڑی بہادر تھی، اس نے قسم کھائی تھی کہ وہ ساتوں بھائیوں کو کھوج نکالےگی۔ اس نے بھائیوں کے لئے تخت و تاج ٹھکرا دیا اور جنگلوں کی خاک چھاننے کے محل سے نکل گئی۔ پھر وہ واپس محل نہ جا سکی کیوں کہ وہاں بھائیوں کی جان خطرے میں تھی۔
بس وہ شہزادی اسے رہ رہ کے یاد آنے لگتی۔ بھائیوں کی جان بچانے کی کو شش میں اس نے اپنی جان تج دی تھی۔ بیچاری شہزادی۔۔۔!
اب آفتاب اکثر اوٹ پیشنٹ کا کام ختم کر کے اس کے پاس چلا آتا۔
’’لائیے میں آپ کا ہاتھ بٹادوں۔’‘ وہ اس کے ہاتھ سے قلم لے لیتا۔
‘‘اپنے گھر سے چائے منگوایئے نا، میں گیارہ بجے چائے پینے کا عادی ہوں۔’‘
‘‘ہوٹل سے منگوا لیجئے۔’‘
’’میں ہوٹل کی چائے نہیں پیتا، اور پھر یہاں کی ہوٹلیں۔ نا بابا۔’‘
اس نے سر اٹھا کے دیکھا۔ اتنی سنجیدہ، متین اور پرکشش شخصیت اس نے پہلی بار دیکھی تھی۔ وہ فطرتاً بھی بڑا خوبصورت تھا۔ پانی کی طرح صاف شفاف اور سادہ ۔۔۔ اس کو چائے منگوانی پڑی۔
پھر یہ روز کا معمول ہو گیا۔ وہ روز پابندی سے چائے بنوائی یا اس کا نوکر خود ہی رکھ جاتا۔ وہ دونوں مریضوں کو دیکھنے کے بعد چائے پیتے، باتیں کرتے ہسپتا ل کا وقت ختم بھی ہو جاتا مگر وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے میز کے ادھر ادھر بیٹھے رہتے۔
بالکل غیرمحسوس طور پر وہ قریب آنے لگے تھے۔ معمولی ملاقاتیں۔ خلوص و محبت میں ڈھل گئی تھیں۔
اب وہ معمولی سوتی ساڑیوں میں کم ہی نظر آتی۔ غیر اختیاری طور پر رنگین و قیمتی ساڑیاں استعمال کرنے لگی تھی۔ اس کی بے ترتیب زندگی میں سلیقہ آتا جا رہا تھا۔ یہ سب آپ ہی آپ ہو رہا تھا۔۔۔ بعض دفعہ زندگی گذارنے کے طریقے خود ہی ترتیب پاتے جاتے ہیں۔
اب چاندنی راتوں میں سرہانے کی کھڑکی کھولے وہ دیر تک پلنگ پر بیٹھی رہتی یا ٹہلتے ٹہلتے گھرسے نکل پڑتی۔ کبھی ڈاکٹر آفتاب بھی ساتھ ہوتے۔
‘‘سسٹر روتھ! میں باہر جا رہی ہوں، ذرا دیر سے لوٹوں گی۔’‘
سسٹر روتھ دوسری نرسوں میں جا بیٹھتی تو یہ بات بھی موضوع بن جاتی لیکن سب ہی دل سے چاہتے تھے کہ اب اس ٹھہراؤ میں ہلچل مچے۔ یہ سکون بھی طوفان سے دو چار ہو۔ سب ہی اس پرترس کھاتے۔ ‘‘اتنی بڑی قربانی کوئی یوں مسکرا کے نہیں دیتا۔’‘
’’ایسا ایثار اس زمانہ میں کہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔‘‘
‘‘اپنے آپ کو مار ڈالا غریب نے۔’‘
اس کے اچھے سلوک اور ہر شفقت رویے نے سب کو اس کے متعلق سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔
ڈاکٹر آفتاب کی بہن صبیحہ سے ملنے، اب وہ ان کے گھر بھی جانے لگی ننھی رات دیر گئے تک وہ سب ہنستے بولتے۔ دوستوں کی محفل جمتی اور پھر آفتاب اس کو گھر چھوڑ نے ساتھ جاتے۔
وہ ایک دم بدل گئی تھی۔ اب اس کے فلیٹ میں خاموشی اور موت کا سنا ٹا نہیں چھا یا رہتا وہاں دوچار دوست، صبیحہ اور آفتاب ہوتے خوشبو دار تمباکو کی بھینی مہک، قہقہوں کے چھنا کے اور باتوں کی لہریں ہوتیں گرم چائے کے دور چلتے۔ زندگی کے ہر پہلو پر اظہار خیال کیا جاتا۔ نئے نئے موضوع بحث مباحثہ کے لئے چنے جاتے اور آدھی رات تک وہ سب باتوں میں مصروف رہتے۔ پھر گھر جانے کے لئے اٹھتے۔۔۔ اس کو پڑھنے کا وقت ہی نہ ملتا۔۔۔
زندگی کی نئی شاہراہ پر اس نے حسن ہی حسن دیکھا۔ اس کا حال ایسے قیدی کی طرح تھا جو عمر کا زیادہ حصہ جیل کی ایک تاریک کوٹھری میں گذار کر باہر آیا ہو اور زندگی کے حسن کو آنکھیں پھاڑے دیکھ رہا ہو۔ دنیا کتنی پیاری ہے کس قدر دلفریب۔۔۔؟
پھر اچانک ایک دن اسے ابا جان کا خط ملا۔ اس نے کھول کے پڑھا ‘‘تم اپنا فرض بھول رہی ہو۔ تم کو جس مقصد سے پڑھا یا گیا اور عروج پر پہونچا گیا۔ اس کی طرف سے آنکھیں موند رہی ہو۔۔۔ تم نے پچھلے ماہ بھی پیسے کم بھیجے۔ تمہیں یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ تمہارے کندھوں پر سات بھائیوں کی زندگی کا بوجھ ہے اور اس کو اٹھا نا تمہارا فرض ہے۔ آئندہ مجھے یاد نہ دلا نا پڑے۔’‘
اس نے آنسو بھری آنکھیں جھپکیں تو آنسو گالوں سے ہوکے خط پر آ پڑے سیاہ آنسو جن میں کاجل کے ساتھ ساتھ خون جگر بھی شامل تھا۔ مجھ سے بھول ہو گئی۔۔۔ بہت بڑی بھول۔۔۔ وہ سسک کر بڑبڑائی۔ ا سنے سنجیدگی سے سوچا۔ وہ غلط راستہ پر جا رہی ہے۔ اس کے راستہ میں پھول نہیں ہیں۔ سبزہ اور روشنی نہیں ہے۔ بڑی بڑی خوفناک کھائیوں اور کا نٹےدار جھاڑیوں کے اندھیرے راستے پر چلتے چلتے وہ عادی ہو گئی تھی مگراس کا ہاتھ پکڑ کے اچانک دوسرے راستہ پر کھینچ لینے والا سوائے آفتاب کے اور کون ہو سکتا ہے۔
دوسرے دن وہ سفید سوتی ساڑی پہنے، سوجی آنکھوں اور بھاری پپو ٹوں کے ساتھ اپنی میز پر بیٹھی تھی۔
ڈاکٹر آفتاب اپنے وقت پر کمرے میں داخل ہوئے۔
’’سنئے۔۔۔’‘ انھوں نے اس کو مخاطب کیا۔
’’آپ جائیے۔ میں اکیلی ہی سارے مریضوں کو دیکھ لونگی۔’‘ اس نے نیچی نظروں سے جواب دیا۔
’’ناراض ہیں آپ مجھ سے؟’‘ انھوں نے میز پر دونوں ہاتھ ٹیک کر جھک کر پوچھا:
‘‘آپ آوٹ پیشنٹ میں جائیے نا ۔۔۔ یہاں کیا کام ہے؟وہ تلخ لہجہ میں بولی۔‘‘
وہ الٹے پاؤں لوٹ گئے۔۔۔ ایک پھانس سی اس کے دل میں گڑ گئی شام میں ڈیوٹی ختم کر کے وہ اوپر اپنے فلیٹ میں آئی تو ڈاکٹر آفتاب آرام کرسی پر بیٹھے سگریٹ کے دھوئیں سے حلقے بنا رہے تھے۔ اس نے اپرن کھونٹی سے ٹانگ دیا اور استھٹیسکوپ میز پر ڈال کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی، خاموش، تھکی ہوئی، رنجیدہ سی۔۔۔
’’آفتاب کھڑے ہو گئے۔ معاف کیجئے باتیں کرنے نہیں آیا۔ صرف خوشخبری۔۔۔؟’‘ اس نے چونک کر پوچھا ۔۔۔ آفتاب کے چہرے پر شدید کرب تھا۔
‘‘میری بدلی ہو گئی ہے۔۔۔ بہت دور جہاں سے آپ کو پریشان کرنے کبھی نہیں آؤں گا۔ اور وہ تیزی سے باہر نکل گئے۔‘‘
اس کا سر چکرانے لگا۔ حلق خشک ہو گیا تھا۔
سسٹر روتھ کے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تھی یا اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی۔ وہی شام تھی خاموش، بے رنگ اور اداس زندگی ہلچل سے خالی۔
پھر وہی صبح ہو گی دھندلی، ملگجی اور بےکیف۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.