Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فریم

MORE BYنگار عظیم

    کال بیل پر انگلی رکھنے کے بعد خود ہی دروازہ کھول کر آنگن عبور کرتی ہوئی وہ اندر آ چکی تھی۔ تب تک سلمان بھی کمرے سے باہر آ چکا تھا۔

    ’’ہائے۔‘‘

    ’’ہیلو۔‘‘

    ’’ہاؤ سلمان!‘‘

    ’’فائن۔‘‘

    ایک دوسرے کی طرف بڑھ کر دونوں نے ہاتھ ملایا اور پھر سلمان کا دایاں رخسار اس لڑکی کے دائیں رخسار سے اور پھر بایاں رخسار اس کے بائیں رخسار سے مس ہوا۔

    اتفاق سے میں سامنے ہی بیٹھی کوئی میگزین دیکھ رہی تھی۔ یہ منظر میری آنکھوں سے گزرا۔ خون میں کچھ ارتعاش سا محسوس ہوا اور ہاتھ پیروں میں ٹھنڈک سی۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ اور سوچتی وہ دونوں اندر آ چکے تھے۔

    ’’اماں— یہ ٹورا...‘‘ بیٹے نے اس کا تعارف دیتے ہوئے کہا۔

    ’’اور آپ اماں!‘‘ وہ جھٹ سے بول پڑی۔

    ’’اوہ... تو یہ ہے وہ...‘‘ فون ریسیو کرتے کرتے میں اس کی آواز سے کافی مانوس ہو چکی تھی لیکن اسے دیکھ کر مجھے کسی حد تک حیرت ہو رہی تھی کیونکہ اس کی نرم و نازک شیریں اور جذباتی سی آواز اس کے جسم سے میل نہیں کھاتی تھی۔ وہ کافی لمبی چوڑی تھی۔ میرے ذہن میں اس کی جو شبیہ تھی وہ بالکل مختلف تھی۔

    ’’ہیلو اماں... کیسے ہو آپ؟ سلمان آپ کی بہت باتیں کرتا ہے۔‘‘ وہ بے تکلفی سے میرے قریب بیٹھتے ہوئی بولی ’’اماں! آپ کو پتہ ہے اس نے مجھے بہت دنوں تک بدھو بنایا۔ یہ آپ کا لڑکا ہے نا...؟‘‘ اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی میں بول پڑی ’’گدھا ہے۔‘‘ ہنسی سے لوٹ پوٹ گئی تھی وہ... ’’سلمان سنا تو نے... اماں نے تجھے گدھا کہا ہے۔‘‘

    ’’اماں آپ کو بتاؤں اس نے مجھے کیسے بدھو بنایا۔‘‘ ’’اوہ۔ بدھو کو کوئی کیا بدھو بنائےگا سلمان نے چڑایا۔‘‘ مجھے ہی نہیں سارے دوستوں کو اماں... سب کو— سلمان بتا دوں اماں کو...؟‘‘

    ’’اماں کو پتہ ہے‘‘ سلمان نے بے پروائی سے جواب دیا۔

    ’’اماں معلوم ہے آپ کو؟‘‘ اس نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔

    ’’لیکن کیا؟‘‘

    ’’میں بتاتی ہوں اماں... ایک لڑکی کا فوٹو دکھاتا تھا سب کو اور بتاتا تھا یہ میری گرل فرینڈ ہے۔ پھر جب آپ اسکول اینول فنکشن میں آئیں تب پتہ چلا یہ تو اماں ہیں۔ تب اس کو سب نے مل کر خوب پیٹا اماں۔‘‘

    وہ جتنی دیر تک بیٹھی رہی بولتی ہی رہی۔ ایسا لگتا تھا چپ رہنا اسے آتا ہی نہیں۔ سلمان اب تک تیار ہو چکا تھا۔ جب میں نے دروازے پر خدا حافظ کہا تو اس نے بھی خدا حافظ کہا اور بےتکلفی سے سلمان کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر وہ بائک پر بیٹھ گئی۔ وہ دونوں چلے گئے لیکن میرے ذہن پر ایک سوالیہ نشان چھوڑ گئے۔ جینس اور ٹاپ پہنے خوبصورتی سے یوشیپ میں تراشے گئے لہراتے بال اور سانولی صورت پر بڑی بڑی شوخ اور چنچنل آنکھوں والی یہ لڑکی اپنے چھتنار سے وجود کے ساتھ مجھے اچھی تو بہت لگی لیکن سلمان کی بیوی یا میری بہو کے فریم میں کہیں فٹ نہیں بیٹھتی تھی۔ لہٰذا میں نے اپنے ذہن کو جھٹکا دیا۔ میں بھی پتہ نہیں کیا کیا خرافات سوچنے لگتی ہوں— دونوں اچھے دوست بھی تو ہو سکتے ہیں۔ اب زمانہ کہیں سے کہیں پہنچ گیا ہے اور پھر آہستہ آہستہ سلمان کی دوستوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ ایشکا، رتیکا، نیتکا، انجو، موہنی، ڈیبی، میناکشی، کے ساتھ روہن اور راج جب گھر آئے تھے تو میں پاگل ہی ہو گئی تھی۔ اُف کیا لباس تھے ان لڑکیوں کے— مختصر سے مختصر ترین۔ اور بے جھجک انداز۔ ان سب کے چلے جانے کے بہت دیر بعد تک میرے حواس واپس نہیں آئے تھے اور نہ معلوم کیوں ایک غیرضروری سا سوال بیٹے سے پوچھ لیا تھا ’’تمہاری کلاس میں کوئی مسلم لڑکی نہیں ہے کیا؟‘‘

    ’’یہ کیسا سوال ہے اماں؟‘‘ بیٹے نے ایسے پوچھا جیسے ماں کا سوال بہت احمقانہ ہو— ’’ہیں۔ لیکن نا کے برابر۔ اور جو ہیں یا تو بددماغ ہیں یا مغرور۔‘‘

    ’’کمال ہے۔‘‘ حیران ہوئی تھی میں۔

    اسکول کے بعد کالج میں سلمان کا فرسٹ ایئر تھا۔ ایسے ہی اچانک ایک دن جب نیلو سلمان کے ساتھ آئی تو گھر میں ایک ٹھنڈی ٹھنڈی سی لہر دوڑ گئی۔ وہ اس کی اب تک کی تمام دوستوں سے قطعی مختلف۔ شلوار قمیص پر لہراتا آنچل، لمبی چوٹی، چہرے پر معصومیت اور شرم و جھجک سے مخمور آنکھیں۔

    ’’اماں یہ نیلو ہے۔ نیلم۔‘‘ نہ جانے کیوں وہ مجھے پہلی ہی نظر میں بھا گئی تھی۔

    ’’نمستے اماں...‘‘ وہ دونوں ہاتھ جوڑ کر ادب سے جھکی۔

    ’’کیسی ہیں آپ؟ سلمان نے بتایا تھا آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔‘‘

    ’’یہ گھر کی باتیں کالج میں بھی کرتا ہے۔‘‘

    ’’جی... بہت...‘‘ اس نے مختصر سا جواب دیا۔

    میں اس کے لیے کچھ ناشتہ اور ڈرنک لینے کے لیے اٹھی تو وہ بھی میرے پیچھے پیچھے کچن میں آ گئی۔

    کتنے بہن بھائی ہو؟

    اماں دو بہنیں ایک بھائی۔ میں بڑی ہوں۔

    پاپا کیا کرتے ہیں؟

    ڈی سی پی ہیں۔

    ماں—ماں تو گھر میں رہتی ہیں۔ کسی دن چلئے نا؟

    ’’اماں آپ بہت کام کرتی ہیں۔ جاب بھی کرتی ہیں۔ اپنا خیال بالکل نہیں رکھتیں آپ۔‘‘

    ’’کیا یہ بھی تمہیں سلمان نے بتایا تھا؟‘‘

    ’’جی...‘‘ اور پھر وہ خود ہی شرما کر مسکرا پڑی۔

    اس دن کے بعد سے نیلو بارہا گھر آئی۔ وہ جلدی ہی گھر کے تمام افراد میں گھل مل گئی۔ اس کے مزاج کی نرمی اور لچک سے سب متاثر ہوئے۔ وہ گھر کی ایک فرد بن گئی۔ میرا دماغ پھر چغلی کھانے لگا۔ کئی وسوسوں نے مجھے ایک ساتھ گھر لیا۔ ایسا نہیں تھا کہ میں سلمان کو غلط سمجھ رہی تھی۔ کسی لڑکی کا سلمان کی دوست ہونا بھی کوئی نئی بات نہیں تھی۔ بچپن سے ہی اس کے دوستوں کا دائرہ بہت وسیع رہا ہے۔ جن میں بلاشبہ لڑکیاں لڑکوں سے زیادہ شامل تھیں۔ سلمان نے کبھی کوئی شکایت کا موقع بھی نہیں دیا تھا۔ الٹا میرے لیے تو یہ بات باعث فکر تھی کہ پچھلے چار برسوں میں سلمان کی اور کوئی دوست کیوں نہیں بنی۔ کیا اتنی بات مجھے یہ سمجھنے کے لیے کافی نہیں کہ نیلو کی معصومیت، اس کا مشرقی پن میرے بیٹے کے دل میں اپنے لیے ایک خاص جگہ بنا چکا ہے۔ میں نے اپنے دماغ کو پھر جھٹکا دیا۔ یہ ماں ہونا بھی... اف... لیکن اس مرتبہ ماہ رمضان میں جب نیلو گھر آئی اور میں کچن میں اس کے لیے چائے بنانے گئی تو وہ بھی حسبِ معمول میرے پیچھے پیچھے کچن میں چلی آئی۔ چائے بنانے کے لیے میں نے کیتلی میں پانی ڈالا ہی تھا کہ اس نے اپنا ہاتھ بہت اپنائیت سے میرے ہاتھ پر رکھا اور دھیمے سے بولی۔

    ’’اماں میرا روزہ ہے۔‘‘

    میرے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔ چائے کی کیتلی میرے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ آواز حلق میں اندر کہیں گم ہو گئی۔ خاکی وردی پر چمکتے ستارے میری آنکھوں میں ترمرانے لگے۔ قیامت مانو لمحوں میں سمٹ آئی ہو۔ اور وہ لمحہ اور تنگ اور تنگ ہوتا جا رہا ہو۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے