فریج میں عورت
(1)
وہ چپ چاپ اس بات کا اعتراف کر لیتا تھا۔ ’’ہاں، میرے فریج میں ایک عورت ہے‘‘۔
فریج میں عورت؟‘‘
’’کیوں۔ عورت فریج میں نہیں ہو سکتی۔ میں جب چاہوں، اسے فریج سے باہر بلا لیتا ہوں۔ کمرے میں یار، اس کے ساتھ ہنستا ہوں۔ باتیں کرتا ہوں۔ دل بہلاتا ہوں۔‘‘
*
فریج والی عورت پہلی بار اس کے کمرے میں کب آئی یا اس کے کمرے نے پہلی بار فریج کا منہ کب دیکھا، یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ ممکن ہے آپ اس کہانی پر کچھ زیادہ یقین بھی نہ کریں، یا یہ کہانی آپ کو بے وقوفی سے بھری ہوئی ایک من گھڑنت کہانی نظر آئے۔ تسلیم! اس کے باوجود میں کہوں گا آپ اس کہانی کا مطالعہ ضرور کریں۔
بہار کے موتیہاری ضلع کے رہنے والے نربھے چودھری کو دلّی میں جگہ کیا ملی، قسمت کھل گئی۔ عام طور پر مہانگر میں آنے کے بعد آنکھیں چوندھیا جاتی ہیں۔ مگر نربھے چودھری کا رویہ دوسرا تھا۔
’’کا ہے، موتیہاری اب کم ہے کا۔ ارے اب یہاں بھی شوٹنگ ہوتی ہے۔ بڑے بڑے ہیرو ہیروئین آتے ہیں۔‘‘
ان دنوں موتیہاری میں شول فلم کی شوٹنگ ہوئی تھی، اور نربھے چودھری کے اپنے لفظوں میں۔ ’’یار روینہ کو تو دیکھے کے ہم پگلئے۔ گئے۔‘‘
آپ مانیں یا نہ مانیں، ہر آدمی کے دماغ کے اندر ایک رنگین گلیمر کی دنیا ہوتی ہے۔ سویہ دنیا ہمارے ہیرو نربھے چودھری کے ذہن میں بھی موجود تھی۔ غلط پہاڑا رٹنے کی باری تب آئی جب اپنے نربھے چودھری کو کچھ دنو ں تک جے این یو یعنی جواہر لال نہرو یونیورسٹی رہنے کا اتفاق ہوا۔ پیسوں کی تنگی ہوئی تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کمپیوٹر میں گھس گئے۔ کمپیوٹر کے آئیں۔ بائیں۔ شائیں، بٹنوں پر کمانڈ نہیں ہوا تو، ائیر کنڈیشن، والوں کو جوائن کر لیا۔ ائیر کنڈیشن کی ٹھنڈک برداشت نہیں ہوئی تو واشنگ مشین بنانے والی ایک نئی کمپنی میں سلیس مین ہو گئے۔ یہ نوکری بھی نہیں پچی تو کچھ دنوں تک ٹیوشن پڑھانے کا کام شروع کیا۔ یہاں تک کہ ساؤتھ ایکس جیسی پاش کالونی میں ایک لڑکی کو پڑھانے کا کام مل گیا۔ آخر ایم اے پاس تھے۔ لیکن ’’بہاری‘‘ میں انگریزی بولنے کی وجہ سے، یہ ’’ریسپیکٹیڈ‘‘ کام بھی ان کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ ان کی دقّت یہ تھی کہ،
’’ایاں لوگ انگریزی نہیں جانتے ہیں نا۔ بڑبک۔ ہم کو بہاری کہتے ہیں۔ بتائیے بہار کوئی انڈیا سے باہر کا ہے؟ بڑے قابل بنتے ہیں۔ ارے ہم جو انگریزی بول دیں گے۔ ای کا بولیں گے۔ گاندھی جی بھی موتیہاری گئے تھے۔ پتہ ہے۔‘‘
ڈھنگ کی نوکری کیا ملتی، چپل گھستے گھستے دور درشن کے لئے سیریل بنانے والے پروڈیوسر اجے گوسوامی سے ملاقات ہو گئی۔ کریٹیو ریلس۔ بن گئے۔ کریٹیو ریلس کے پروڈکشن منیجر۔ ویزیٹنگ کارڈ بھی چھپ گیا۔ جمنا پار علاقے میں سستے ریٹ پر ایک چھوٹا سا کمرہ بھی مل گیا۔
تو گلیمر کی جو رنگین سی دنیا کبھی فلم ریل کی طرح ذہن کے پردے پر چلتی تھی، اب آنکھوں کے سامنے تھی۔ شوٹنگ، ایکشن، کٹ، لائٹس، لڑکے، لڑکیاں اور مزے کی بات یہ، کہ چاروں طرف دوڑتے ہوئے ہمارے نربھے چودھری۔ کہیں اکڑتے ہیں۔ کسی لائٹ والے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پیار سے باتیں کرتے ہیں۔ کبھی ’’ہیروئین‘‘ کے سامنے ٹھمکا لگاتے ہیں۔۔۔
کچھ چاہئے تو نہیں آپ کو؟
ہیروئین مسکرا کر پوچھتی۔ ’’آج آپ بڑے خوش نظر آ رہے ہیں۔‘‘
جو اب ملتا۔ ’’آپ کو دیکھ کر کون خوش نہیں ہوگا۔‘‘
’’ہوs s ہو‘‘۔ ہیروئین قہقہہ مار کر ہنستی۔
پیک اپ کے بعد جب چار یار شراب کی بوتلیں کھول رہے ہوتے، تو یہ باتیں ایک دم سے فنٹاسی کی طرح نربھے چودھری کو پاگل بنا دیتی۔۔۔ عورت۔ سیکس۔ سچویشن۔ یہاں گفتگو میں صرف اور صرف عورتیں ہوتیں۔ چور دروازے سے دل میں داخل ہونے والی عورتیں۔ ان عورتوں کو لے کر ہزاروں قصّے تھے۔۔۔ اور ایسا ہر قصہ نربھے چودھری کو زخمی کر جاتا تھا۔
*
رات گئے شوٹنگ کے خاتمے کے بعد نربھے چودھری جب اپنے کمرے میں پہنچتے تو خالی کمرے کا اندھیرا انہیں ڈسنے لگتا۔ گفتگو والی عورتیں۔ تنہائی اور خاموشی کی بین کی آواز پر ناگن جیسی لہرانے لگتیں۔ بین کی آواز تیز ہوتی جاتی۔ پھر یہ ناگ ناگن تیز تیز لہراتے ہوئے ایک دم سے نربھے چودھری کے جسم میں داخل ہو جاتے۔ کافی دیر بعد جب اندر کا طوفان تھم جاتا تو نربھے چودھری کو لگتا۔ اس کی زندگی میں ایسی ہریالی کب آئےگی؟ کب تک عورت کے بغیر رہنا ہوگا۔
*
اجے گوسوامی۔ نربھے چودھری کی نگاہ میں دنیا کا سب سے خوش قسمت آدمی تھا۔ آخر کو پروڈیوسر تھا۔ لڑکیاں اس سے چپکی رہتی تھیں۔ زندگی ہو تو ایسی، نربھے چودھری کو، اجے گوسوامی یعنی اپنے ہونہار آقا پر رشک آتا تھا۔
لیکن بھائی، پیٹ کا اپنا ’’اتہاس‘‘ ہے۔ اور کبھی کبھی جب پیٹ کا جغرافیہ بگڑتا ہے نا، تو حالت بڑی بےرحم ہو جاتی ہے۔ کہنے کو تو نربھے چودھری فلمی دنیا کے آدمی بن گئے تھے، مگر اصل میں تھے کیا خاک پتی۔ نہ لاکھ پتی۔ نہ ہزار پتی۔ بک بک جھک جھک کے بعد تو اجے گوسوامی کی گانٹھ سے بندھے ٹکے دو۔ چار۔ پانچ سو روپے نکلتے تھے۔۔۔ ’’کیا کہوں بھائی۔ دوردرشن کی حالت خراب ہے۔ ٹونٹی پرسنٹ تک دینے کو تیار نہیں۔ اب تم لوگوں کو دوں تو کہاں سے دوں۔‘‘
یہ الگ بات ہے کہ پروڈیوسر کو دھکا دھک ٹریپل فائیو پینے کے پیسے مل جاتے تھے۔ کبھی کبھی نربھے چودھری عجیب عجیب حساب لگاتا۔ ایک آدمی کے کھڑے ہونے میں کتنے پیسے درکار ہیں؟ شادی کرنے میں کتنا خرچ بیٹھےگا؟ شادی کے بعد کے خرچ میں کیا ہوں گے؟ اور اگر بچے آ گئے تو؟ یعنی کم پیسے میں ایک ایسی دنیا جسے طے کرنے میں قطب مینار کی بلندی تک کے فاصلے پسینے نکال دیتے تھے۔ ’’نابھائی۔ وہ ساری زندگی شادی نہیں کر سکتے۔ نانو من تیل ہوگا، نا رادھا ناچے گی۔‘‘
نربھے چودھری گھبرا جاتے تو اجے گوسوامی کے بیڈروم میں منڈرانے والی لڑکیاں چپکے چپکے ان کے دل و دماغ پر قبضہ کرنے بیٹھ جاتیں۔ ہری ہری لڑکیاں۔ آسمان سے اتری ہوئی پریاں۔ جیسے ایک دھند ہوتی ہے۔ جیسے اس گھنی دھند میں کچھ بھی آگے پیچھے دیکھنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔۔۔ لیکن نربھے چودھری اپنی پریشانی کی کینچلی اتارتے ہوئے دھند میں چپکے چپکے اتر جاتے۔
*
گھر سے خط آ رہے تھے۔ پیسے چاہئیں۔ اجے گوسوامی سے ڈرتے ڈرتے پیسے مانگے تو ناراض ہو گئے۔ ’’پیسے کیا ڈال میں پھلتے ہیں‘‘
نربھے چودھری کے جسم میں سنسنی سی پھیل گئی۔ لہجہ کمزور ہوا۔ دھیرے سے بولا
’’ڈال میں تو نہیں۔ لیکن ہمارے بنتے ہیں۔ ہمیں ضرورت ہے۔‘‘
اجے گوسوامی نے ایک پل کو انہیں دیکھا۔ پھر ٹھٹھا کر ہنسے۔
’’کتنے دن سے شیون ہیں بنایا ہے‘‘ وہ پھر ہنسے۔ پروڈکشن میں ہو۔ ایسے چہرہ بگاڑ کر رہو گے تو لڑکیاں گھاس نہیں ڈالیں گی۔ سنو، تم کہہ رہے تھے کہ ٹھنڈے پانی کی تکلیف ہے۔ کہہ رہے تھے نا؟
*
گودریج کمپنی کا ایک پرانا سا فریج اس نے ڈرائنگ روم کے پاس والے کباڑ خانے میں دیکھا تھا۔ ایک دم علاء الدین کے چراغ جیسا۔ کبھی کبھی اس میں بوتلیں بھی رکھی دیکھی تھیں۔ دو ایک بار اس نے خود اس میں سے بوتل نکال کر پانی پیا تھا۔ خشک گلے کو تر کیا تھا۔ اسے یاد آ گیا۔ اجے گوسوامی اسے ٹٹولتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
’’اچھا فریج ہے۔ پینٹ کرا لو تو کوئی مانےگا نہیں کہ سترہ ہزار سے کم کا ہے۔ صرف اندر کی لائٹ نہیں جلتی۔ ’’ڈھبری؛ ڈھبری کہتے ہونا۔ وہ پھر ہنسے۔ مگر کیا روشنی میں موم بتی ڈھونڈنا ہے۔ ارے کھانا رکھو۔ چار دن بعد کھاؤ۔ تازہ ملے گا۔ ٹھنڈا ٹھنڈا پانی پیو۔ برف جماؤ۔ شربت لسیّ بناؤ، کیوں، فریج چاہئے؟‘‘
اور اس طرح علاء الدین کے چراغ جیسی وہ فریج کب کیسے، نربھے چودھری کے کمرہ میں آ گئی، اس واقعہ کا ذرا تاریخ یاد نہیں ہے۔ لیکن فریج ان کے کمرہ نما دنیا میں آ چکی تھی اور یہیں سے اس کہانی کی شروعات ہوئی تھی۔ جس نے نربھے چودھری کے مکمل وجود کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
(2)
بہت پیچھے چھوٹا ہوا ایک گھر۔ گھر کے کسی تنگ کمرے اور تنگ کمرے کے کسی گرد آلود طاقچے پر رکھی ہوئی کچھ آدھی ادھوری خواہشیں۔ مٹی کے مرجھائے پودے والے گملوں میں رکھے ہوئے کچھ خواب۔ شہر کی تنگ ویران گلیوں میں، اب اکیلے مٹر گشتی کرنے والے دوستوں کی جماعتیں۔
گھر سے چٹھی آتی تو جیسے یادوں کا ایک کارواں چل پڑتا۔ اور جیسے سب نربھے چوھدری کو گھیر کر بیٹھ جاتے۔ ’’وہاں موتیہاری میں سب کچھ چھوڑ کر آئے ہو۔ ہیاں تیر مار لیا؟
نربھے چودھری کو پرچھائیاں گھیر کر بیٹھ جاتیں۔
اس دن گھر سے پھر چٹھی آئی تھی۔ چٹھی میں ایک ماں کا خواب بند تھا۔ وہی پرانی داستاں کے بوسیدہ صفحے۔ باپ ریٹائر ہو رہا ہے۔ بہن جوان ہے۔ فکر کے چھوٹے چھوٹے طاقچوں سے گزرتے مسئلے۔
نیند نہیں آ رہی تھی نربھے چودھری کو۔
آسماں کے نیلگوں پردے پر رات بکھر چکی تھی۔ اچانک کمرے میں سرسراہٹ سی ہوئی۔ پہلے چھم سے کوئی پائل بجی۔
نربھے چونک گئے۔ کون؟
نقرئی سا قہقہہ گونجا۔
نربھے چودھری اچھل گئے۔
’’کون؟‘‘
’’میں۔ میں ہوں‘‘
وہاں روشنی تھی۔ روشنی کے دائرے میں ایک بلا کی قیامت کھڑی تھی۔۔۔ قیامت کے بدن پر کپڑے بھی قیامت کے تھے۔ چہرہ ایسا کہ خوبصورتی نے اپنی حدوں کو چھو لیا ہو۔ ’’بس اس سے زیادہ نہیں‘‘۔۔۔ بدن کے نقوش اتنے تیکھے کہ دنیا کی ساری حسین عورتوں کے بدن بھی شرما جائیں۔۔۔ کپڑے اتنے باریک کہ شاہی مخمل و کمخواب کے خزانے بھی ماند پڑ جائیں۔
اپنے نربھے چودھری خاصہ ہکلا رہے تھے۔
’’کہاں۔ کہاں سے آئی ہو؟‘‘
’’وہاں۔ فریج سے!‘‘
’’فریج سے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’کیوں!‘‘ عورت کے ہونٹوں پر بلا خیز تبسم تھا۔ ’’بوتل سے جن آ سکتا ہے فریج سے عورت نہیں آ سکتی‘‘
’’لیکن کیوں آئی ہو؟‘‘
جواب میں عجیب سی بے تکلفی شامل تھی۔
’’تمہارے لئے‘‘
’’میرے لئے!‘‘
’’ہاں۔ تمہارے لئے‘‘
یقیناً وہ دنیا کی سب سے خوبصورت مسکراہٹ تھی جو اس کے ہونٹوں پر سجی تھی۔
’’صرف تمہارے لئے‘‘
’’مجھے۔ یقین کیوں نہیں ہو رہا ہے‘‘
’’پاگل ہو، فریج والی عورت ہنسی۔ دیکھو میں صرف تمہارے لئے ہوں۔‘‘
تو کیا میں تمہیں چھو سکتا ہوں۔۔۔؟
نقرئی قہقہہ پھر گونجا۔۔۔ ’’دریا سے صرف قطرے کی تمنا رکھتے ہو۔ ارے آگے بڑھو۔ میں تمہاری ہوں صرف تمہاری۔‘‘
اس نے ہلکی سی انگڑائی لی۔ کمرے میں یوں ہلچل ہوئی جیسے آندھی سے گھر کی کھڑکیاں۔ دروازے ہلنے لگے ہوں۔ یقیناً یہ ایک توبہ شکن انگڑائی تھی۔ سرخ پھولے ہوئے ہونٹ۔ لمبی گردن۔ کپڑوں سے انگاروں کی بارش کرتا ہوا نوخیز بدن۔
وہ والہانہ طریقے سے ہنسی۔ ’’بڑھو، نا۔ آگے بڑھو۔‘‘
اور ایک جھٹکے سے اس نے کپڑوں کے ہوک کھول دئے تھے۔ اندھیرے کمرے میں روشنی کے گول دائرہ کے بیچ ایک برہنہ جسم دعوت نظارہ دے رہا تھا۔
’’یار! یہ صرف تمہارا ہے۔ دریا سے صرف قطرے کی توقع رکھتے ہو!‘‘
نربھے چودھری کے بدن میں لرزش ہوئی۔ جسم میں ایک طوفان سا آیا۔ شریانوں میں خون کے گرم گرم لاوے دوڑ گئے۔ تو کیا یہ کوئی خواب تھا۔ مگر نہیں۔ وہ مجسم سامنے کھڑی تھی۔ اور ایسا تو بہ شکن، پرکشش بدن انہوں نے کبھی خوابوں خیالوں میں بھی نہیں دیکھا تھا۔
پھر جیسے چاند کی کشتی میں ہلچل ہوئی۔ اور کشتی چاند کی برفیلی سطح کو پگھلاتے پگھلاتے دھند کی سرنگ میں ڈوب گئی۔
وہ ہوش میں آئے تو سانس تیز تیز چل رہی تھی۔ کپڑے ادھر ادھر بکھرے تھے۔ عورت غائب تھی۔ فریج کا دروازہ بند تھا۔ مگر، کمرے میں ایک عجیب سی خوشبو پھیلی تھی۔ اور اس سے بھی زیادہ بدن ایک عجیب سی لذت میں ڈوبا ہوا تھا۔
(3)
’’سنو یہ کیا کہہ رہا ہے۔‘‘ اجے گوسوامی زور زور سے قہقہہ لگا رہے تھے۔ ’’نہیں بھائی، مجھے۔ مجھے مت روکو۔ ہنسنے دو۔ یعنی کہ فریج میں عورت۔ فریج میں۔ اور کہیں نہیں ملی ss ہو s۔ ہو ہو sss۔ یعنی کہ چوکی کے نیچے، نہیں، ٹب کے اندر نہیں۔ ssانٹرنیٹ کی عورت سنی ہے ss ٹیلی فون کال والی عورت کے بارے میں سنا ہے۔ نمبر ملایئے مستی بھری باتیں کیجئے۔ یہ سب ٹھیک۔ مگر فریج میں، ہو ہو؟ یار تم سچ مچ پگلا گئے ہو۔s
اجے گوسوامی کے ساتھ بیٹھے ہوئے دوسرے لوگوں نے بھی ٹھہاکہ لگایا۔ اس وقت ان کے گھر نئی اسکرپٹ کو لے کر میٹنگ چل رہی تھی۔ نربھے چودھری نے بس یونہی دریافت کیا تھا۔ یار فریج ٹھیک سے کام کر رہا ہے نا؟
’’کام کیا کر رہا ہے۔ فریج میں عورت آ گئی ہے۔‘‘
نربھے چودھری کے منہ سے یہ جملہ نکل تو گیا لیکن ماحول پر جیسے اس جملے کا پہلی بار میں کوئی اثر نہیں ہوا۔ اجے گوسوامی رائٹر کے ساتھ اسکرپٹ کی بات چیت میں لگا رہا۔ ہاں پاس بیٹھے آدمی نے چٹکی لی۔
’’نربھے جی! شادی نہیں کرو گے تو فریج میں عورت ہی رہے گی۔ سامان تو نہیں رہیں گے نا۔‘‘
’’اب لو جیسے ہم جھوٹ کہہ رہے ہیں۔ عورت آ گئی ہے تو سامان کہاں رکھیں بھائی۔‘‘
اجے گوسوامی نے ڈانٹا۔ ’’اپنا بہاری غصہ یہاں مت دکھاؤ۔ کہہ دیا نا، پیسے مل جائیں گے۔ شوٹنگ شروع ہونے والی ہے۔ تم آرٹ ڈائرکٹر، سیٹ ڈیزائنر، کسٹیوم، میک اَپ مین، کی ڈیٹل تیار رکھو۔ اور ہاں۔ وہ رائٹر کی طرف دیکھتے ہوئے ہنستے تھے۔ ’’شادی کر لو۔ کہو تو اس سیریل کی ہیروئین سے کروا دیں۔ کیوں؟‘‘
رائٹر نے بھی ٹھہاکہ لگایا۔ ’’پھر فریج سے عورت نہیں آئےگی۔‘‘
’’آپ سمجھتے ہیں کہ ہم جھوٹ بول رہے ہیں۔ پیسہ مانگنے کے لئے اپنی جھنجھلاہٹ دکھا رہے ہیں۔ سمجھئے۔ آپ کی مرضی۔ لیکن ہم جھوٹ نہیں بول رہے ہیں۔ ہنمان جی۔ جے بجرنگ بلی، جس کی چاہیں قسم لے لیجئے۔ وہ عورت تھی۔ ہاڑ مانس کی عورت، ارے، پری لوک میں ایسی کیا عورت ہو گی۔ جو وہ تھی۔ ہم تو آواز سنتے ہی سکپکا گئے۔‘‘
کمرے میں ہنسی کا دورہ پڑا۔
ایک آواز ابھری۔ ’’پھر وہ فریج کھول کر آپ کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔‘‘
’’ہاں ایسا ہی ہوا۔ بالکل ایسا ہی۔‘‘
’’پھر تو آپ نے۔‘‘
اس کے بعد ہنسی کے دورے نے رکنے کا نام ہی نہیں لیا۔
’’ہنسئے آپ لوگ۔ ہنسئے۔ میرے پاس بے کار کا وقت نہیں ہے۔ آپ کی ہنسی میں شریک ہونے کے لئے۔ میں جا رہا ہوں۔‘‘
نربھے چودھری غصّے کے عالم میں ہنسی ٹھہاکہ کے بیچ کمرے سے باہر نکل گئے تھے۔
مگر۔ جاتے کہاں؟
ذہن سائیس سائیں کر رہا تھا۔ کیا سچ مچ رات جو کچھ ہوا وہ خواب نہیں تھا۔ فریج میں سے عورت۔ جیسے آسمان سے دودھیا چاند، خاموشی سے ایک رات آپ کے ساتھ رہنے کے لئے آ جائے۔ نہیں نربھے چودھری، وہم ہوا ہے تمہیں۔ وہم!
*
نربھے شام گئے تک آوارہ سڑکیں ناپتے رہے۔ سڑکوں پر ناچتی تتلیاں۔ لیکن فریج والی تتلی۔ شام کے گھنے سائے پھیل گئے تھے۔ ڈھابے میں کھانا کھایا۔ تب تک رات کے نو بج چکے تھے۔ اب ایک ہی منزل تھی، گھر۔۔۔ پھر وہی راستے۔ وہی کمرہ۔ وہی تنہائی۔ مگر۔
دروازے کا تالا کھولتے تک، نئے احساسوں والا کپڑا بدل چکے تھے نربھے چودھری۔۔۔ کیوں؟ اس کا جواب نہیں دے سکتے تھے۔ بس دروازے اور تالا کھولنے تک کوئی پختہ ذہن کا آدمی ان کے اندر سما گیا تھا۔ کہیں سے خوشبو کا تیز ریلا اٹھا تھا۔ ایک جانی پہچانی سی خوشبو۔ یہ خوشبو ان کے پورے جسم، پورے وجود کو معطر کر رہی تھی۔۔۔ لیکن کیوں؟ دل دھڑک رہا تھا۔ اس طرح کی بےچینی سے پہلے کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا۔۔۔ اور یہ سب کل ملا کر ایسا تھا، جیسے ابھی حال میں ان کی شادی ہوئی ہو۔ گھر پر نئی نویلی دلہن انتظار کر رہی ہو۔
وہ دروازہ کھول کر اندر گئے اور جیسے سہم گئے۔ چھناکہ سا ہوا۔
کمرے میں روشنی تھی۔ بتی جلی ہوئی تھی۔ ایک خالی میز جو کافی دنوں سے بیکار پڑی تھی۔ صفائی کر کے اسے سنگھار میز میں بدلا جا چکا تھا۔ کمرے میں جیسے عطر کا چھڑکاؤ ہوا تھا۔ نیا بستر۔ نئی چادر، چادر پر خوشبو دیتے پھول بھی بکھرے تھے۔ سنگھار میز کے پاس وہ دنیا جہاں سے بے نیاز اپنے سنگھار میں یوں ڈوبی تھی، جیسے نئی نویلیاں دولھے کے آنے کے انتظار میں دنیا جہاں سے بےخبر ہو جایا کرتی ہیں۔
اس نے نظر اٹھائی۔ مسکرائی۔۔۔ کان کے جھمکے کی کیل درست کی۔ آئینے میں فخر سے اپنا چہرہ دیکھا۔ پھر جیسے جل ترنگ کو دھیرے سے چھوڑ دیا گیا ہو!
’’آ گئے تم؟‘‘
’’میں۔‘‘ نربھے پسینے پسینے تھے۔
’’ہاں تم۔ تم‘‘
وہ آہستہ سے ہنسی۔ جسے موسیقی سناتی لہروں کو، موسیقار نے اچانک ایک نئی دھن دے دی ہو۔ وہ آگے بڑھی۔ آج اس نے ریشمی ساڑی پہن رکھی تھی۔ ہلکی، آسمانی رنگ کی۔ اس پر سانولی دھوپ کے رنگ کی لکیریں جھلملا رہی تھیں۔۔۔ اس سے میچ کرتا بلاؤز تھا۔ وہ اس کے بلکل قریب آ کر ٹھہر گئی۔ اتنے قریب کہ وہ اس کے سانسوں کے سرگم سن سکتا تھا۔ اتنے قریب کے وہ دھڑکنوں کا حساب لگا سکتا تھا۔ وہ ہنس رہی تھی۔
کیا آج بھی تمہیں سب کچھ خواب سا لگ رہا ہے۔
ہاں!
’’پاگل ہو۔ دیکھو۔ میں کتنی دیر سے تمہارا انتظار کر رہی تھی۔ کہہ سکتے ہو، یہ وہی کمرہ ہے جہاں تم رہتے تھے۔‘‘
نہیں!
’’وہ پینٹنگس دیکھی؟‘‘
’’پینٹنگس؟‘‘
’’ہاں، وہ ہنسی۔ وہ دیکھو۔ ’’ناریوفو‘‘، کی پینٹنگس۔ خواب دیکھتی عورت کے ہاتھ میں ایک مرا ہوا بچہ۔‘‘
’’بچہ مر کیوں گیا ہے؟‘‘
میں نہیں بتاؤں گی۔ تم بولو۔ میں تو فریج سے آئی ہوں اور یہ پینٹنگ تمہاری دنیا، تمہارے لوگوں کے لئے ہے۔ لیکن سچائی یہی ہے کہ عورت خواب دیکھ رہی ہے اور بچہ۔ بچہ مر چکا ہے!‘‘
’’بچہ مر کیوں گیا ہے؟‘‘ وہ پھر بوجھل آواز میں بولا۔
’’اس لئے کہ عورت خواب دیکھ رہی ہے۔ جانتے ہو۔ نا ریوفونے یہ غیر معمولی پینٹنگ کب بنائی تھی؟ 1942ء کے آس پاس۔ جب تم دنیا کو دوسری عالمی جنگ میں جھونک چکے تھے۔ کیا نہیں؟ یاد آیا اور خود تم لوگ کیا تھے۔ آزادی مانگ رہے تھے۔ بھکاریوں کی طرح۔ مٹھی بھر لوگ جو تمہارے گھر پر قبضہ کر چکے تھے۔ تم ان سے چلے جانے کی مانگ کر رہے تھے۔ ہے نا، وہ بھی بھکاریوں کی طرح۔ ایسے ہی ہو تم۔‘‘ اس نے ٹھنڈا سانس بھرا۔
’’ایک پراسرار تہذیبی شہر کی تعمیر کرنے والے اور ایک جھوٹی جذباتیت کا استقبال کرنے والے۔ ہے نا۔‘‘ وہ کہتے کہتے پھر ہنسی۔
’’لیکن یہ سب تم؟‘‘
’’تمہارے لئے لائی ہوں۔ گھبراؤ مت۔ چوری نہیں کی ہے۔ چوری کربھی نہیں سکتی ہوں۔ بازار سے لائی ہوں؟
’’تم بازار گئی تھی؟‘‘
’’ہاں، کیوں؟‘‘
’’نہیں میں سمجھ رہا تھا۔‘‘
’’تم زیادہ سمجھنے کی کوشش مت کیا کرو۔ سنو مجھے اس طرح گندے میں رہنا پسند نہیں ہے۔ سنا تم نے۔ اس لئے میں صفائی کی۔ عطر کا چھڑکاؤ کیا۔ دیواروں پر پینٹنگس لگائی۔ پھر تمہارے آنے کی راہ تکنے لگی اور تم آ گئے۔‘‘
اس نے گلے میں با نہیں ڈال دیں۔
شاید وہ دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی کی سب سے خوبصورت انگلیاں تھیں۔ ایسی انگلیاں۔ جن کے لئے الفاظ اور محاورے بھی کم پڑ جاتے ہیں۔
پشت پر اس کی گرم گرم ہتھیلیوں کا رقص، جسم میں عجیب سی سنسناہٹ پیدا کر رہا تھا۔ پھر جیسے ’’تابڑ توڑ‘‘ اپنے گرم گرم بوسے سے اس نے نربھے کی آتما کے اندر تک، عجیب سی سنسنی پھیلا دی۔ ایک لمحہ کو ٹھہری۔ پھر بارش کے آخری قطرے تک اسے شرابور کرتی چلی گئی۔
’’سنو!‘‘
’’کیا ہے۔ نربھے کی آواز جیسے ہزاروں فٹ نیچے کنویں میں چھوٹ کر رہ گئی تھی۔
’’سنو، جب تم چلے جاتے ہو، تو بڑے یاد آتے ہو۔ اتنا انتظار کیوں کراتے ہو۔‘‘
قسم سے۔ وہ دنیا کے سب سے مدھر، سب سے ذائقہ دار، سب سے حسین اور سب سے زیادہ جلتے ہوئے ہونٹ تھے۔ جس نے اپنی تپش سے ایک بار پھر اس کے لئے جنت کے دروازے کھول دیئے تھے۔
’’چلو منہ ہاتھ دھولو۔ تم کتنے کمزور ہو گئے ہو۔ گھبراؤ مت۔ اب تمہارا پورا خیال رکھوں گی۔ میں۔ مگر۔‘‘
’’مگر۔ مگر کیا؟‘‘
’’ابھی نہیں۔ اوہ۔ تم میں کچھ بھی جاننے کی بےچینی کس قدر ہے۔ شاید تم نہیں جانتے۔ انہیں باتوں نے۔ ہاں، انہیں باتوں نے تو۔ اوہ۔ آئی لو یو نربھے۔‘‘
جیسے زمین چلتے چلتے رک گئی ہو۔ آسمان تھم سا گیا ہو۔ کوئی چونکانے والا، جذباتیت سے بھرا فلمی نظارہ ہو۔ پہلی بار اس لڑکی کے ہونٹوں پر نربھے کا نام آیا تھا۔ نر۔ بھے۔۔۔ پہلی بار۔ دلّی کے بازار، کنزیومر کلچر میں آہستہ آہستہ یہ نام کتنا عجیب، کتنا بے رس اور کتنا بدنما لگنے لگا تھا۔ جیسے ’’موتیہاری کی ایک خاص خوشبو اس کے نام سے لپٹی ہوئی ہو۔ وہ اس نام کو بار بار دلّی کے رنگ میں بدلنے کا خواہشمند تھا۔ مگر آج۔ جیسے اس نام سے زیادہ خوبصورت کوئی دوسرا نام ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
’’چائے‘‘۔ وہ اچانک جیسے خواب سے جاگا۔
اتنی دیر میں اس نے چائے بھی بنا لی تھی۔ چائے نربھے کے ہاتھ میں کانپ رہی تھی۔ وہ اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔
’’ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘ وہ مسکرائی
’’کیا یہ خواب ہے؟‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’سوچ رہا تھا‘‘ ہم جیسوں کے لئے خواب ہی کیوں ہوتے ہیں؟ زندہ رہنے کے لئے بھی خواب۔ محبت کرنے کے لئے بھی خواب۔‘‘
’’لیکن یہ خواب نہیں ہے۔‘‘
’’پتہ نہیں‘‘
’’خواب کا جسم نہیں ہوتا ہے۔ اس کی نقرئی ہنسی کمرے میں پھیلتی چلی گئی۔ وہ اٹھ کر سنگھار میز کے قریب کھڑی ہو گئی۔ وہ جیسے اپنے عکس کو بےحد پر کشش انداز میں دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ پھر جیسے کمرے کی تنہائی میں شعلہ بھڑکا۔ رات اسٹوب گیس کی طرح چیخی۔ اور کمرے میں آگ کی تیز لپٹیں اٹھنے لگیں۔ اس نے بلاؤز کے ہوک کھول دیئے تھے۔ ریشمی ساڑی، دنیا کے سب سے حسین جسم سے الگ ہو کر، اس کے بستر پر، بے ترتیبی سے پھیل گئی تھی۔۔۔ کمرے میں جیسے ’’لیزر ریز‘‘ کا رقص چل رہا ہو۔ گداز بانہیں، صدیوں کی پیاس اور عقیدت کی حد تک، میناروں کے سفید گنبد کی طرح، تنے ہوئے مصفّہ سینے۔ یا۔ دو قبۂ نور۔ دنیا کے سب سے حسین پاؤں۔ اس کی آنکھوں کی کشتیوں میں اس وقت وہی کشش تھی جو شاید خالق دوجہاں کو، سب سے خوبصورت ’’تصور‘‘ گڑھنے کے دوران ہوئی ہو۔۔۔! اس نے اپنی بانہیں بچھائیں۔
’’آؤ۔‘‘ اس کی آواز میں ’’ہیجان‘‘ کی حد تک سنسنی خیزی، آ گئی تھی۔۔۔ ’’آؤ۔‘‘ اوہ۔ تم دیر کر رہے ہو۔ آؤ۔ اس سچ کے لئے، جس کے لئے ہم پیدا ہوئے ہیں۔ اس سچ کے لئے جس کے لئے آخری سانس تک ہم اپنے جینے کی آس قائم رکھتے ہیں۔
اور نربھے چودھری۔ جیسے آنکھیں بند تھیں۔۔۔ جیسے خوابوں سے جنت کی طرف ایک خوشبو لٹاتی، کھڑی کھل گئی ہو۔ جیسے ہوا میں تیرتا ہوا ایک رتھ ہو۔ اور رتھ، زندگی کے سب سے خوبصورت ذائقے کو پور پور میں اتارتا ہوا اڑتا جاتا ہو۔
جیسے ہوا تھم گئی۔ سانسیں رُک گئیں۔ اُس کے بدن پر دنیا کا سب سے خوبصورت ننگا جسم اور۔ تمام تر ہیجان خیزیاں لٹا کر تھکا ہارا۔ اس کے جسم کے گوشت سے ’’عبادت‘‘ کی ایک نئی عبارت لکھنے میں مصروف تھا۔۔۔ اس کی آنکھوں میں شوخیاں تھیں۔
’’سنو۔‘‘
اس کے بدن کی بے کراں موجیں، اس کے بدن کے ساحل سے ٹکرا ٹکرا کر لوٹ رہی تھیں۔
’’سنو۔ اب میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔‘‘ آواز میں تھرتھراہٹ تھی۔
’’ہاں پیسے۔ جو تھے سب ختم ہو گئے۔ پینٹنگس۔ عطر، چادریں اور۔ جو پیسے تھے۔ وہ تمہارے گھر کی خریداری میں لگ گئے۔
’’ہاں‘‘
’’مجھے چاہتے ہو تم؟‘‘
’’ہاں‘‘
’’میری سانسوں سے پیار ہے؟‘‘
’’ہاں‘‘
’’میرے جسم سے؟‘‘
’’ہاں؟
’’اور مجھ سے؟‘‘
’’ہاں‘‘
’’اور یہ بھی چاہتے ہو کہ میں کہیں نہیں جاؤں۔ میں ہمیشہ تمہارے پاس رہوں۔‘‘
’’ہاں‘‘
’’تو پھر تمہیں میرا خیال رکھنا ہوگا۔‘‘
وہ اپنے بدن کی ’’بےکراں موجوں‘‘ کو سنبھالے، اس کے بدن کے ساحل سے ہٹ گئی تھی۔
’’سمجھ رہے ہونا، نربھے چودھری۔ تمہیں میرا خیال رکھنا ہوگا۔‘‘
وہ آئینے کے سامنے کھڑی اپنی ریشمی ساڑی کی ’’شکنوں‘‘ میں کھو گئی تھی۔۔۔
’’تمہیں مجھے خوش رکھنا ہوگا۔ میری۔ میری فرمائشیں پوری کرنی ہوں گی۔ سن رہے ہو، نربھے چودھری۔ میرے لئے۔‘‘
اس کی نقرئی، لڑکھڑاتی آواز کا ’’جل ترنگ‘‘ کمرے میں گونج رہا تھا۔
’’سوچو میں۔ ڈھل جاؤں تو؟ میں جیسی ہوں، ویسی نظر نہ آؤں تو۔۔۔ یہ سب کچھ تم پر ہے نربھے چودھری۔ تم پر۔۔۔ مجھے خوبصورتی پسند ہے۔ اس کمرے کو جنت سے زیادہ خوبصورت بنا دو۔ مجھے خوشبوئیں پسند ہیں۔ میرے لئے خوشبوؤں کا خزانہ لے آؤ۔۔۔ میرے لئے تم بھی اپنے آپ کو بدلو گے نربھے چودھری۔ بدلو گے نا؟ خوشبو کو، خوشبو اور ایک حسین جسم کو ایک حسین جسم کی چاہت ہوتی ہے۔ میرے لئے تم یہ سب کرو گے نا، نربھے چودھری، ورنہ۔ ورنہ۔‘‘
*
لفظ بجتے رہے۔ بجتے رہے۔ وہ اٹھا تو سورج کی شعاعیں سیدھے کھڑکی سے ہوتی ہوئی اس کی آنکھوں پر پڑ رہی تھیں۔ فریج والی لڑکی غائب تھی۔۔۔ رات کی سچائی کے احساس کے لئے وہ سب چیزیں، یہاں تک کہ ’’ناریوفو‘‘ کی پینٹنگس تک کمرے میں موجود تھی۔ بستر پر وہ ننگ دھڑنگ پڑا تھا۔ ابھی بھی جیسے خوشبوؤں نے چاروں طرف سے، اسے اپنے دائرے میں لے رکھا تھا۔ مسرت کا عجیب سا احساس اب بھی ہو رہا تھا۔
’’یہ سب کیا ہے؟‘‘
یہ کیا کیسا خواب ہے۔ وہ سمجھ پانے سے قاصر تھا۔ کپڑے پہن کر اس نے ڈرتے ڈرتے فریج کھولا۔ فریج خالی تھا۔ مگر وہی رات والی خوشبوئیں فریج کے اندر بھی بسی ہوئی تھیں۔
(4)
اب نربھے چودھری نکلنے کے لئے تیار تھے۔ لیکن کیا یہ وہی پرانے نربھے چودھری تھے۔ ’’حلیہ پوری طرح سے بدلا ہوا۔ کالی آئرن کی گئی پینٹ پر، پوری آستین والی سفید شرٹ اور دنوں کی طرح جھٹ پٹ جو ملا پہن کر تیار نہیں ہوئے نربھے چودھری۔ کپڑے ہی کتنے تھے۔ اس پر بھی دھُلے ہوئے کپڑوں کی تعداد کتنی ہوتی تھی۔ لے دے کر ایک جوڑا۔ کپڑے بھی خود ہی دھونے پڑتے تھے۔ لاجپت نگر مارکیٹ سے دو نمبر کا سستا سا آئرن مل گیا تو اٹھا کر لے آئے نربھے چودھری۔ لیکن کپڑے آئرن کون کرے۔ صبح صبح بس پکڑنے کے چکّر میں آئرن بے چارا ویسے ہی ’’کوٹ‘‘ کے ڈبے میں بند رہا لیکن۔ دلّی آنے کے اتنے برسوں بعد جیسے سارے قاعدے قانون ان کے لئے بدل گئے تھے؟ اور تو اور۔ دو ایک ٹائی لوہے والے صندوق میں پڑی تھی۔ کبھی گفٹ میں ملی ہوگی۔ لیکن پہننے کی نوبت نہیں آئی۔ وہی موتیہاری کا چھیلا۔ اپنے یہاں عام دنوں میں وہ ایسے سوٹیڈ بوٹیڈ ہو کر نکل سکتے تھے؟ کیوں نربھے چودھری؟ پیچھے سے ’’سٹاک‘‘ سے کمینٹ پاس ہوتا۔ ’’نیا ہے‘‘ کا ہے بھائی۔ موتیہاری کا چھیلا‘‘۔
لیکن آج موتیہاری کے اسی چھیلے نے اپنی شکل و صورت بدل ڈالی تھی۔ اس پر پرفیوم۔ یہ پرفیوم کی شیشی اسے مادھری نے دی تھی۔ اپنے کریٹیو ریلس کی پرمانینٹ ایکٹریس۔ جس کے بارے میں یونٹ والوں کا کہنا تھا۔ ارے مادھری کا ٹانکا اجے گوسوامی سے، کوئی آج سے ’’بھڑا‘‘ ہے۔ دیکھتے نہیں، ان کے ہر پروڈکشن میں کوئی نہ کوئی رول ضرور ہوتا ہے۔
’’مادھری!‘‘
ایک مخمور کا یا۔ بنداس۔ پتہ نہیں، اس دن کیا خاص بات تھی۔ کوئی خاص بات تھی، تو بس یہ تھی کہ مادھری اسے سیٹ پر تلاش کرتی پھر رہی تھی۔ پھر اسے دیکھ کر مادھری کی آنکھوں میں جیسے چمک آ گئی۔ ’’نربھے جی! آپ یہاں ہو‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’ارے ہم آپ کو کہاں کہاں تلاش کر رہے تھے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ اسے یقین نہیں ہو رہا تھا۔ مادھری جیسی لڑکی اسے تلاش کر سکتی ہے۔ بیٹا یہ ہے فلم میں آنے کا مطبل۔ کا؟ کہ مادھری جیسی لڑکیاں بھی۔ ہے s s ہے s s اس نے کھیسیں نوے ریں۔ اور مادھری نے پرفیوم اس کی طرف بڑھا دیا۔ ’’خاص تمہارے لئے۔ دارجلنگ گئی تھی شوٹنگ میں۔ دیکھو وہاں بھی تمہیں نہیں بھولی۔‘‘
نازک سا لمس۔ مادھری نے ہلکے سے پرفیوم کا چھڑکاؤ اس کی قمیض پر کیا۔ آنکھوں میں قوس قزح تن گئے۔ لیکن فوراً ہی الیا راجا کی فلم ’’اپوّ راجا‘‘ کا وہ بونا اسے یاد آ گیا۔ جسے فلم کی اداکارہ نے انگوٹھی دیتے ہوئے جلدی جلدی کہا تھا۔ ’’منگنی سمجھتے ہونا۔ کل صحیح وقت پر پہنچ جانا۔ دیر مت کرنا۔‘‘ اداکارہ نے وہ انگوٹھی اس کی انگلی میں پہنا دی تھی۔ بونا کمل ہاسن اپنے بونے جوکر دوستوں میں منگنی کی اس انگوٹھی کو لے کر کتنا خوش ہوا تھا۔ گانا بھی گایا۔ دوستوں نے بھگوان کی طرف سے ’’اچنبھے کے طور پر لکھی جانے والی تقدیر‘‘ کے لئے اُسے مبارکباد بھی دی۔ مگر آگے۔ اس وقتی خوشی کا نتیجہ کیا نکلا تھا۔ ’’ارے اپوّ! انگوٹھی تو نکالو۔ دیر ہو رہی ہے۔‘‘ اور اداکارہ رجسٹرار کے پوچھے جانے پر ہنستی ہے۔ ’’گواہ یہ ہے اپنا اپوّ۔ چلےگا۔‘‘
’’چلےگا؟‘‘ رجسٹرار ہنستا ہے۔
پرفیوم لے کر دیر تک نربھے چودھری گم صم کھڑا رہا۔ لیکن وہاں اس پر ہنسنے کے لئے کوئی رجسٹرار نہیں تھا۔ اسے لگا، الف لیلیٰ جیسی کسی کہانی کے اوراق اس کے سامنے کھل گئے ہوں۔ مادھری بنداس ہے تو کیا ہوا۔ لوگ غلط بولتے ہیں۔ مادھری ایسی ہو ہی نہیں سکتی۔ وہ بھی اجے گوسوامی؟ کیا اس کے پاس اجے گوسوامی جیسے لوگوں کی کمی ہے؟ اور پھر۔ یہ تو میڈیا ہے میڈیا۔ یہاں تو ایسی کہانیاں روز بن جاتی ہیں۔
’’مادھری!‘‘
ہونٹوں تک آ کر یہ نام جیسے ’’رس شرنگار‘‘ سے بھرپور غیر معمولی شاعری میں بدل گیا ہو۔ لیکن شاعری کتنی جلد باسی اور سڑاند دینے لگی تھی۔
’’مادھری‘‘۔ وہ اسے پکارتا ہوا میک اَپ روم میں چلا گیا۔ دروازہ کے پٹ آن میں کھلے تو، وہ جیسے موتیہاری کا لمبے قد والا بونا بن گیا تھا۔ اجے گوسوامی کی بانہوں میں قید مادھری۔ مادھری نے چلا کر آواز دی تھی۔ ’’ارے۔ نربھے۔ سنو تو۔‘‘
’’جانے دو۔‘‘ یہ اجے گوسوامی کی آواز تھی۔
’’تمہارے والے میں سے ایک پرفیوم میں نے۔‘‘
اجے ہنس رہے تھے۔ ’’پرفیوم، اور یہ بہاری۔ تم بھی پاگل ہو مادھوری۔‘‘
دونوں کا ایک ساتھ قہقہہ گونجا تھا۔ لیکن اب، کچھ بھی آگے سننے کو وہاں رکا نہیں، نربھے چودھری۔ جیسے پیچھے ہزاروں کی تعداد میں کتے پڑے ہوں۔ ڈیفوڈل ڈاگس۔ ڈیفوڈل۔ جلتے ہوئے۔ ان گنت تعداد میں۔ اداکارہ نے منو کو انگوٹھی دی ہے۔ مادھری نے نربھے کو پرفیوم دیا ہے۔ ’’اپوّ سمجھتا ہے کہ‘‘۔ ’’نربھے کو لگتا ہے کہ۔‘‘
بونا اپوّ ’’پست‘‘ ہوتے ہوئے اپنے قد سے کتنا کم ہوا ہوگا؟ مگر۔ نربھے۔ وہ اپوّ سے زیادہ ’’بے وجود‘‘ ہو گئے تھے۔۔۔ چھوٹا لمبے قد والا بونا۔ پھر وہ پرفیوم کمرے کی کال کوٹھری میں پھینک دیا گیا۔ شاید اسی، نئی صبح کے انتظار کے لئے۔ اسی دھانی دھانی صبح کے انتظار کے لئے۔
پرفیوم کپڑے میں مارتے ہوئے ایک عجیب سی خفیف ہنسی، نربھے کے ہونٹوں پر کھل رہی تھی۔ کمرے سے باہر نکلتے ہوئے اس نے پیسے گنے تھے اور پہلا کام کیا تھا۔ اپنے قدم پاس والے بیوٹی پارلر کی طرف تیز کئے تھے۔
(5)
’’تم نربھے ہو۔ نہیں، یقین نہیں آتا۔‘‘ اجے گوسوامی کے چہرے پر عجیب سی سنجیدگی تھی۔ آس پاس بیٹھے ہوئے لوگوں نے نربھے کو غور سے دیکھا۔ چھوٹے چھوٹے، ڈھنگ سے تراشے گئے بال۔ بدن پر قاعدے کی پینٹ اور شرٹ۔
’’تو تم سچ مچ نربھے ہو؟‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’یقین نہیں ہوتا۔‘‘
’’لیکن اس میں یقین نہیں ہونے کی۔‘‘
نربھے ’’کہتا کہتا‘‘ ٹھہر گیا۔ اجے گوسوامی اسے غور سے گھور رہے تھے۔ وہ جب بھی اس طرح گھورتے تھے۔ اسے ڈر لگتا تھا۔
’’رہنے دو۔ دیکھتے نہیں۔‘‘
’’مطلب؟‘‘
’’مطلب، آج یہ خود پروڈویوسر بن گیا ہے۔ ذرا بال تو دیکھو s s s‘‘
’’ذرا چال تو دیکھو s s s‘‘
کمرے میں ٹھمکا الگ رہا تھا۔
’’بال تو دیکھو s s sگال تو دیکھو s s s چال تو دیکھو s s s شرٹ تو دیکھو s s sپینٹ تو دیکھو s s sپھر پورا ڈسکو شروع ہو گیا۔‘‘
’’دیکھو جی دیکھو۔ نربھے کو دیکھو s s ایک بار دیکھو s s بار بار دیکھو۔‘‘
نربھے گم صم تھا۔ وہ جان رہا تھا۔ مذاق اپنی حدوں کو پار کر رہا ہے۔ سب سوچ رہے ہوں گے۔ سالا s s بدلا بدلا سا لگ رہا ہے بہاری۔ بہاری مطلب۔، اسے لگا، مادھری اُسے دیکھ رہی ہے۔
لیکن فوراً ہی وہ عورت اس کی آنکھوں کی اسکرین پر چھا جاتی ہے۔ ’’سن رہے ہونا نربھے! خوشبو کو خوشبو اور ایک حسین جسم کو ایک حسین جسم کی چاہت ہوتی ہے۔ میرے لئے تم یہ سب کرو گے نا؟ کرو گے نا، نربھے چودھری؟۔ ورنہ s s s ورنہ۔‘‘
لفظ لگاتار چیخ رہے تھے۔
اور ادھر ڈسکو جاری تھا۔
’’ذرا گھوم کے دیکھیو s s جے نربھے s s آگے سے دیکھیوs s جے نربھے۔‘‘
اجے گوسوامی نے اس کے بدلے چہرے کی آگ کو پڑھ لیا تھا۔ ’’ٹھہرو۔ ٹھہرو‘‘۔ وہ چیخے۔ یعنی حد ہوتی ہے۔ حد ہوتی ہے بے شرمی کی۔ آپ سب نے ایک سیدھے سادھے بہاری کو۔ معنی۔ ہنسئے مت۔ بہاری کوئی گالی تھوڑے ہی ہے۔‘‘
اجے خالص نربھے ’’اسٹائل‘‘ سے بول رہے تھے۔ ’’بہاری بدل نہیں سکتا کا؟
ضرور بدل سکتا ہے اور پوچھ کے دیکھو۔ یقیناً، اس کے پیچھے بھی اسی عورت کا ہاتھ ہوگا۔ کیوں نربھے؟
’’جی s s s s‘‘
کسی نے آواز لگائی۔ ’’فریج والی عورت کا۔‘‘
’’ہاں بالکل۔‘‘
’’لو دیکھو۔‘‘
ہنسی کا فوارا چھوٹا تو نربھے نے یکایک سامنے والے آرٹسٹ کا گریبان پکڑ لیا۔ ’’سالے‘‘۔ ماحول حیرت زدہ ’’طبلوں‘‘ کی آواز رک گئی۔ جیسے، سوئی بھی گرے تو آواز سن لو۔ یکایک بہتی ہوئی ہوا تھم گئی۔‘‘ مذاق اُڑاتے لوگوں پر بجلی گر گئی۔ نربھے کا سارا غصّہ چہرے پر سمٹ آیا تھا۔
اس نے جھٹکے سے بے چارے آرٹسٹ کا گریبان چھوڑا۔ ہتھیلیاں ابھی بھی گرم تھیں۔ وہ یکایک پلٹا۔
’’سنو اجے گوسوامی! ایک بات جان لو۔ بہاری ’’بڑبک بن سکتا ہے۔ تو گریبان بھی تھام سکتا ہے۔ مجھے نہیں کرنا تمہارے ساتھ کام۔ کل پھر آؤں گا۔ پئی سا نکال کر رکھنا۔‘‘
پھر وہ ٹھہرا نہیں، واپس آ گیا۔
ماحول میں سناٹا چھا گیا۔ جو جہاں تھا، وہیں آنکھیں نیچے کئے کھڑا رہا۔ یہ کیوں ہو گیا؟ یہ سارا کچھ ویسا تھا، جیسے دوستو فسکی کے ’’ایڈیٹ‘‘ نے پرنسز کی پارٹی میں کیا تھا۔ سناٹے کو بھنگ کیا اجے گوسوامی نے۔
’’چلو چلو اسکرپٹ پر بیٹھتے ہیں۔‘‘
مگر وہ ابھی بھی اپنے چہرے کے احساس کو چھپا نہیں پائے تھے۔
(6)
’’زندگی سرکس نہیں ہے اور سنو نربھے۔ تم اپوّ نہیں ہو۔ تم اپو ہو بھی نہیں سکتے۔ تمہارے ساتھ میں ہوں، میں۔ سن رہے ہونا؟‘‘
کمرے میں خوشبو پھیل چکی تھی۔ نقرئی قہقہہ پھر گونجا۔
’’دیکھو s s s s s آج میں نے نیا سنگھار کیا ہے، تمہارے لئے صرف تمہارے لئے‘‘
عورت اٹھتے ہوئے، آئینے کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ پور پور سے خوشبو کی لہریں پھوٹ رہی تھیں۔ ’’آئینہ‘‘ یقیناً حیران تھا کہ کبھی اس کے شیشے، جیسے وجود میں اتنا غیر معمولی ’’عکس‘‘ بھی سما سکتا ہے۔
’’پتہ نہیں مجھے۔ مجھے کیا ہو گیا تھاs s پتہ نہیں۔ اب وہ۔‘‘
’’ڈرتے ہو۔‘‘
’’ڈرنا پڑتا ہے۔ گھر ہے۔ پتا جی ہیں۔ اور۔‘‘
’’میں s s۔‘‘آئینہ نشے میں ڈوب گیا تھا۔
’’میں s s sتمہیں میری پرواہ نہیں۔ پتھر ہو تم۔ میری طرف دیکھو۔ اس کا ’’سنگھار‘‘ ویسا تھا۔ جیسے سارا عالم ہنسی روکے ہو، کہ بادشاہ تو ننگا ہے!
’’کیا دیکھ رہے ہو۔‘‘
جسم سے چنگاریاں پھوٹ رہی تھیں۔
’’تم نے کوئی غلط کام نہیں کیا نربھے۔ سمجھ رہے ہونا۔ دیکھو تم مضبوط ہوئے۔ اور یہ کمرہ پہلے سے زیادہ روشن ہو گیا۔ یقین کرو میں صرف تمہارے لئے بنی ہوں۔ تمہارے لئے۔ میں لہر ہوں۔ جھرنا ہوں۔ سنگیت ہوں۔ خوشبو ہوں۔ اور سب سے زیادہ میں تمہاری ہوں۔ تمہاری ہوں نربھے۔ s s‘‘
پھر جیسے روشنی کا جھماکہ ہوا۔
’’آواز میں سنگیت پیدا ہوا۔ ’’آؤ مجھ میں سما جاؤ s s سما جاؤ s s s‘‘
اور۔
قارئین!
ٹھیک اُسی لمحہ جو کچھ پیش آیا۔ نہیں جانے دیجئے۔ نہیں ٹھہرئیے۔ یعنی، جو کچھ ہونے جا رہا تھا۔ نہیں ٹھہرئیے۔ میں اپنا تبصرہ اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں۔ مگر اسی لمحہ، اس جگمگاتے، روشن کمرے میں یکایک بھگدڑ مچ گئی۔ یکایک باہر دروازے پر دستک ہوئی۔ عورت پہلے متحیر ہوئی۔ پھر سنگیت تھما۔ خوشبو اڑی۔ لہریں گم ہوئیں۔
دستک بڑھتی گئی۔
کمرہ یکایک چیخ و پکار کرنے لگا۔ عورت فریج میں چلی گئی۔
دروازے پر اجے کے آدمی کھڑے تھے۔ لفافہ میں نربھے کے پیسے پڑے تھے۔
’’گن لو۔‘‘
’’گنّے کی ضرور نہیں ہے‘‘
’’اور۔ صاحب نے کہا ہے کل سے آنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’ٹھیک۔‘‘نربھے نے دروازہ بند کرنا چاہا۔
آگے والے ’’مسٹنڈے‘‘ آدمی نے دروازہ چھیک لیا۔۔۔
’’سنئے، دروازہ مت بند کیجئے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’مزدور ساتھ میں ہیں۔ صاحب نے فریج واپس منگوایا ہے!‘‘
نربھے حیرت زدہ کھڑے ہیں۔
مزدور فریج اتارنے اور لے جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.