مجھ باسٹھ سال کے آدمی کو یوں بھی روزانہ کیا کام ہوتے ہیں جو کل کوئی کام ہوتا۔ چناں چہ پرانے کاغذات کے پلندے لے کر بیٹھ گیا، ان میں چالیس پینتالیس سال پرانے بجلی او رٹیلی فون کے بل، مکان کے کرایے کی رسیدیں، رشتے داروں کی شادیوں کے رقعے، بزرگوں کی اموات پر موصول ہوئے تعزیتی ٹیلی گرام، کھلونا میں چھپی اپنی پہلی کہانی کا تراشا، حنیف محمد کے ویسٹ انڈیز کے خلاف بنائے گئے ۳۲۷رنوں کی ٹائمز میں چھپی روداد، فلم سی آئی ڈی اور مرزا غالب کے اشہتارات اور اعزہ و اقربا کے بہت سے خطوط بندھے تھے۔
انہی میں ذوالفقار کاخط بھی نکل آیا۔ خط ایروگرام پر لکھا گیا تھا، لاہور کے حبیب اللہ روڈ کے ڈاک خانے سے چلا تھا۔ اس پر تاریخ ۱۵دسمبر ۱۹۶۰ کی پڑی تھی۔ لکھا تھا،
ڈیر حامد!
تمام مال و اسباب کے ساتھ بعافیت لاہور پہنچ چکا ہوں۔ کہرے میں ڈوبا ہوا شہر، پت جھڑ سے متاثر اشجار، اجنبی ماحول میں اپنی غیریت کااحساس بہت ہو رہا ہے۔ تم دوستوں کے تصور اور بمبئی سے وابستہ یادوں کے سہارے اپنی تنہائی کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کرتاہوں۔ مجھے اندازہ نہیں کہ یہ کیفیت کب تک برقرار رہے گی۔
ہاں! تم دوستوں کادیا ہواتحفہ میری دل بستگی کا سامان بنا ہوا ہے۔
تمہارا
زلفی
یہ تحریر مجھے چالیس سال پیچھے لے گئی۔ بمبئی سینٹرل کے اسٹیشن پر ہم ذوالفقار کو رخصت کرنے آئے ہیں۔ اس کی امی اور بہن ڈبے کے اندر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کے چہروں پر افسردگی کی ہلکی پرت اور آنکھوں میں نمی دکھائی دے رہی ہے۔ ذوالفقار ہمارے ساتھ پلیٹ فارم پر کھڑا باتیں کر رہا ہے۔ اس کی روح ماتم زدہ ہے۔ وہ اپنے خشک ہونٹوں پر گھڑی گھڑی مسکراہٹ لے آتا ہے۔ ہم ہنسی مذاق بھول بیٹھے ہیں۔ مجھے بار بار خیال آتا ہے کہ ابھی پانچ بجیں گے، گارڈ کی سیٹی سنائی دے گی، زلفی ڈبے کی پائیدان پر قدم رکھے گا اور گاڑی چل دے گی۔
تین منٹ بعد ایسا ہی ہوا۔
مگر ان تین منٹوں کے دوران میں نے اسے ایک چیز دیتے ہوئے کہا کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ تمہیں آخری تحفے کے طور پر کیا دیں۔ بہت غور کرنے کے بعد بھی جب کچھ نہ سوجھا تو عثمان نے کہا کہ ’’زلفی کو تمہارے کبوتروں میں ’گرہ باز‘ کا ایک جوڑا بہت پسند تھا۔ کیوں نہ ہم وہی دے دیں۔‘‘ یہ سن کر زلفی کی نم آنکھوں میں چمک سی آگئی۔ چہرے کی غمناک مسکراہٹ میں شادمانی کی لہر دوڑگئی۔
ہم نے پانچویں جماعت سے ساتھ ساتھ پڑھتے ہوئے میٹرک پاس کرلیا تھا۔ امتحان کے دنوں میں اکٹھے پڑھائی کرنے کے علاوہ ہم کرکٹ، باسکٹ بال اور ٹیبل ٹینس کھیلتے او رہر ہفتے پابندی کے ساتھ سنیچر کی شام کو مل کر چوپاٹی جاتے۔ اوپیرا ہاؤس اور مرین ڈرائیو کے نکڑ پر واقع ایرانی ریستوراں میں سموسے اور چائے سے لطف اندوز ہوتے۔ سڑک پار کرکے سمندر کے فٹ پاتھ پر پہنچ کر چہل قدمی کرتے ہوئے نریمن پوائنٹ پہنچ جاتے۔ ان دنوں ہماری بات چیت انگریزی فلموں، اسپورٹس اور لڑکیوں سے فلرٹ کرنے کے واقعات ہی کے گرد گھوما کرتی تھی۔
لاہور روانہ ہونے سے ایک ہفتہ پہلے جب ہم سمندر سے لگی چبوترا نما دیوار پر بیٹھے ہوئے تھے تو ذوالفقار نے کہا، ’’یہ بات میں تم سے اب تک کہنے کی ہمت نہ کرسکا تھا کہ بابا کی موت کے بعد ہی سے چچاجان ہمیں پاکستان چلے آنے کو کہہ رہے تھے مگر بہن کے ساتھ ساتھ میری تعلیم بھی مکمل نہ ہوپائی تھی، ہم ان کے بلاوے کو ٹال رہے تھے مگر اب کوئی گنجائش نہیں رہی۔ میں نے پچھلے سال میٹرک پاس کرلیا تھا، اس سال بہن پاس کرچکی ہے۔ چنانچہ امی نے مکان اور دکان کا سودا کرلیا ہے۔ ایک بھروسے مند شخص کو کل رقم دے چکی ہیں۔ ان کے رشتے دار نے لاہور میں چچا جان کو رقم حوالے کردی ہے۔ اگلے اتوارکو ہم رخصت ہوجائیں گے۔‘‘
یہ کہتے کہتے زلفی نے ایک بازو میرے اور دوسرا عثمان کے گلے میں حمائل کردیا۔ میں نے محسوس کیا کہ اس کا جسم شدت گریہ سے لرز رہا ہے۔ دوسرے ہی لمحے ایک بلند قامت موج سمندر سے اٹھی جس کی زد میں زلفی آگیا۔ ہم کنارے پر کھڑے اسے ڈوبتا ہوا دیکھتے رہے۔
ان کاغذات میں ذوالفقار کا دوسرا خط جو مجھے ملا وہ ۱۶جون ۱۹۶۱ء کا لکھا ہوا تھا، القاب وہی تھے،
ڈیر حامد!
میں کالج میں داخلہ لے چکا ہوں۔ یہاں چند دوست بھی بن گئے ہیں مگر ان سے وہ بے تکلفی اب تک پیدا نہ ہوسکی ہے جو ہماری دوستی کاخاصا ہوا کرتی تھی۔
میرا زیادہ تر وقت مطالعے ہی میں گزرتا ہے او رمطالعے کالطف مجھے شالیمار باغ میں آتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میں کتاب پڑھتے پڑھتے بمبئی آجاتا ہوں او راس کی سڑکوں، چائے خانوں اور تفریح گاہوں سے گزرتا، تم سے ملتا خوش گپیاں کرتا، لاہور لوٹ آتا ہوں۔
امی کئی بار ٹوک چکی ہیں کہ یہی لیل و نہار رہے تو میری صحت متاثر ہوجائے گی کیوں کہ ان کے کہنے کے مطابق میری خوراک گھٹ چکی ہے اور میں اپنے لباس اور آراستگی میں وہ بمبئی جیسا سلیقہ نہیں برت رہاہوں بلکہ ان سے بالکل بے پرواہ ہوگیا ہوں۔
ہاں! یہ بات لکھنے سے رہی جارہی تھی کہ چچا جان نے تمہارے دیے ہوئے دونوں کبوتروں کو ان کے پرکترکر، اپنے کبوتروں میں شامل کرلیا ہے۔ ان میں شیرازی، لقے، لوٹن، نساوری اور یاہو قسم کے کئی کبوتر ہیں۔ چچا جان انہیں عمدہ قسم کاگیہوں، چنا اور پستے کھلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ، ’’تیرے کبوتر یہاں عمدہ خوراک کھائیں گے تو تگڑے ہوجائیں گے۔‘‘ یوں تو وہ اپنے حلیے بشرے سے یہاں کے حاکم اعلیٰ کے سے لگتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ ’’گرچہ میرا شمار یوں تو ان عبادت گزاروں میں نہیں جو فقراء اور مشائخ کی سی عبادت کرتے ہیں مگر ’’یاہو‘‘ نسل کے کبوتر رات دن گونجنے اور یاہو کا دم بھرنے کی وجہ سے ان اللہ والوں کو زیادہ پسندہوتے ہیں۔‘‘
میں اپنے ہم وطنوں سے باتیں کرکے جی بہلایا کرتا ہوں۔ وہ بے زبان میری باتیں توجہ سے سنتے اور گردن ہلادیا کرتے ہیں۔ میں نے انہیں بعض باتوں کے سننے کے بعد غم زدہ ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔
تمہارا
زلفی
مجھے یاد ہے کہ زلفی کاخط لے کر میں عثمان سے ملنے گیا تھا۔ وہ چوکی محلہ میں رہا کرتا تھا۔ میں نے آواز دی۔ اس نے دوسرے منزلے پر واقع اپنے مکان کی کھڑکی سے جھانکا۔ کچھ دیر میں نیچے آگیا۔ ہم وہاں سے چلتے ہوئے گول ٹرام کے قریب موجود کافِ استنبول میں داخل ہوئے، ایک کونے کی میز منتخب کی۔ دو استنبولی کا آرڈر دیا۔ استنبولی چائے دو نازک پیالیوں میں نیمبو کی قاشوں اور چینی کی ڈلیوں کے ساتھ پیش کی گئی۔
استنبولی کی چسکی لے کر میں نے جیب سے زلفی کا خط نکالا اور میز پر رکھ دیا۔ عثمان نے اسے ایک بار پڑپا، دوبارہ پڑھا پھر اداس ہوگیا۔ کچھ نہ بولا۔ ہم دونوں کی باطنی کیفیات تقریباً یکساں تھیں۔ ہم کیا کرسکتے تھے۔ دراصل اس کی دل جوئی کا سامان ہم ہی تو تھے یا پھر یہ شہر تھا۔ مگر اب تو درمیان میں سیکڑوں میل کا فاصلہ حائل ہوچکا تھا۔
وہ پرانے کاغذات دیکھتے دیکھتے چار بج گئے۔ بیوی چائے لے آئی۔ چائے کے ساتھ میں بوہری محلے کی بیکری کے کھارے بسکٹ ضرور کھاتا تھا۔ چائے کی کشتی میں وہ بسکٹ بھی رکھے ہوئے تھے۔ وہ اپنی چائے کی پیالی لے کر میرے قریب ہی فرش پر بیٹھ گئی۔ ایک بسکٹ کھاکر میں نے چائے کا گھونٹ لیا تو جی خوش ہوگیا، مرجھائے ہوئے چہرے پر رونق آگئی۔
’’کیا ہوا تھا؟ کچھ اداس ہوگئے تھے۔‘‘
’’ہاں! ان کاغذات میں زلفی کے خط ہاتھ آگئے تھے۔ انہیں پڑھا تو چالیس پینتالیس سال پہلے کا عالم نگاہوں میں گھوم گیا۔‘‘
’’ہاں! ان کا تو کوئی حال پھر میں نے نہیں سنا۔ کیسے ہیں وہ؟ اب تو وہ بھی تمہاری طرح ہوگئے ہوں گے؟‘‘ بیوی نے میرے گنجے سر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کسی قدر مذاق سے کہا۔
’’کچھ کہہ نہیں سکتا، اب یہ خط ملے ہیں تو سوچ رہا ہوں کہ کل ہی اسے خط لکھ کر خیریت معلوم کروں اور عثمان سے بھی پوچھ لوں کہ اگر اب کی مرتبہ ویزے ملنے میں دقت نہیں ہوئی تو کیا میرے ساتھ وہ بھی لاہور چلے گا؟‘‘
بیوی نے کہا، ’’ممکن ہو تو مجھے بھی ساتھ لیتے جائیے گا۔ میں اکیلی یہاں کیا کروں گی۔‘‘
میں نے اثبات میں گردن ہلائی اور تازہ دم ہوکر پھر کاغذات دیکھنے لگا، یہاں تک کہ شام ہوگئی۔ یعقوب گلی میں اندھیرا اتر آیا، سامنے کی چال کے تقریباً تمام کمروں میں بلب جل اٹھے، میں کاغذات بٹور کر کارٹنوں میں رکھ رہا تھا کہ مجھے زلفی کا تیسرا خط دستیاب ہوا،
پلاٹ نمبر ۱۷، وحدت کالونی، لاہور
۲۰دسمبر ۱۹۶۴ء
ڈیر حامد!
میں بی اے کے آخری سال میں ہوں۔ میرے دوستوں کا حلقہ پہلے سے وسیع ہوچکا ہے۔ میں یہاں کی ادبی سرگرمیوں میں اپنا زیادہ وقت صرف کرتا ہوں۔ تم یہاں آؤ تو میں تمہیں ’پنجاب لائبریری‘ دکھانے لے جاؤں، تاریخی عمارات اور شاہی باغوں کی سیر کراؤں، یہاں کے عمدہ اور نفیس کھانوں اور مٹھائیوں سے تمہاری تواضع کروں۔ مجھے یقین ہے کہ تم میرے خوش ذوق اور زندہ دل دوستوں سے مل کر اور ان کی پیاری پیاری باتیں سن کر زندگی کا مزہ لوگے۔ کب آرہے ہو؟ لکھو۔
تمہارا
زلفی
اور بطور پسِ نوشت لکھا،
یہ اطلاع ممکن ہے تمہارے لیے رنج کا باعث ہو (مگر اس واقعے سے تمہیں مطلع کردینا مجھ پر واجب ہے ) کہ تمہارے کبوتر چچا جان کی چھتری سے پچھلے جمعے کو ایسے اُڑے کہ پھر نہ لوٹے۔
یہ پڑھ کر ذہن کے افق پر کرسمس کی وہ صبح روشن ہوگئی۔
میں کابکوں کو کھول چکا ہوں، جن کے متعدد خانوں سے چالیس پچاس کبوتر غٹرغوں غٹرغوں کرتے ہوئے باہر آگئے ہیں اور دانہ چگنے کے لیے اپنی گردنیں پھلائے ادھر سے اُدھر حرکت کر رہے ہیں۔ میں نے پانی سے لگن بھر دیا ہے، جس کی سطح پر دو سفید کبوتر ایک دائرے میں اڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ میں گردن اٹھاکر اوپر دیکھتا ہوں، مگر آسمان میں وہ نظر نہیں آتے۔ میں جوار سے بھرا کنستر گود میں لیے انہیں کھلانے لگتاہوں۔ معمول کے مطابق چار چھ جنگلی کبوتر چھت کی منڈیر پر آکر بیٹھ جاتے ہیں۔ کچھ دیر جائزہ لینے کے بعد وہ نیچے اترکر میرے کبوتروں کے دسترخوان کے شریک ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے ایک میری پالتو کبوتری کے ساتھ دانہ بدلی کرتا ہے۔
ابھی میں ان کو بوس و کنار کرتے ہوئے دیکھ ہی رہاہوں کہ مجھے پروں کی زوردار پھڑپھڑاہٹ سنائی دیتی ہے۔ میں آواز کی سمت دیکھتا ہوں، مجھے محسوس ہوتا ہے جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں وہ میری نظر کافریب ہے۔ منڈیر پر گرہ باز فاختہ کا وہی جوڑا بیٹھا ہوا ہے۔
انہیں زلفی کو تحفے میں دینے سے پہلے ان کے لیے کابک کاجو خانہ مختص تھا، اس میں ایک جوڑا بسا ہوا تھا اور ان کے دو بچے بھی اس میں رہتے تھے۔ میں ان بچوں کو وہاں سے دوسرے خانے میں منتقل کرکے، وہ خانہ خالی کردیتا ہوں۔ گرہ باز کاجوڑا اُڑ کر اس میں داخل ہوجاتا ہے۔
عثمان کو لے کر جب میں چوپاٹی پہنچا تو رات آرہی تھی۔ ساحل پر چہل پہل کم تھی۔ فضا میں خنکی تھی۔ ساتھ ہی سرد ہوا کے بہنے کا احساس ہو رہا تھا۔ ہم اپنا رخ سمندر کی جانب کیے ٹھنڈی ریت پر بیٹھ گئے۔ ملبار ہل کی عمارتوں اور نیون سائنز کی رنگین روشنیوں کا عکس سطحِ سمندر سے جھلک رہا تھا۔ میں نے عثمان سے پوچھا، ’’پیارے! یہ بتاؤ کہ لاہور اور بمبئی کے درمیان فاصلہ کتنا ہوگا؟‘‘
’’یہی کوئی ڈیڑھ پونے دو ہزار کلومیٹر۔‘‘
’’وہاں پہنچنے میں کتنا وقت درکار ہوتا ہوگا؟‘‘
عثمان نے کچھ دیر سوچ کر جواب دیا، ’’ہوائی جہاز کو دو گھنٹے اور ریل گاڑی کو پینتیس یا چالیس گھنٹے۔‘‘
’’اور کبوتروں کو؟‘‘
عثمان جواب دینے کے بجائے حیرت سے میری جانب دیکھنے لگا۔ میرے لبوں پر خفیف سی مسکراہٹ چلی آئی۔ میں نے کہا، ’’انہیں پاکستان راس نہیں آیا۔ وہ لوٹ آئے ہیں۔‘‘
یہ سن کر عثمان مزید شش و پنج میں پڑگیا۔ کافی دیر تک خاموشی چھائی رہی۔ پھر مجھے اس کی سرگوشی سنائی دی، ’’ہم سے بڑی بھول ہوگئی۔ ہم نے بلاسوچے سمجھے انہیں نقلِ وطن کے جال میں کس دیا تھا۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.