تکیہ پر نئے غلاف کی طرح وہ اپنے بدن پر نیا سوٹ چڑھا کر کمرے سے باہر آیا خوشی سے اس کی بانچھے کھلی جا رہی تھیں ۔ آج عرصۂ دراز کی آرزوئے دِلی عملی جامہ زیب تن کر کے اس کے رو برو آئی تھی ۔ اپنی بے انتہا مسرتوں کو اُچھالتے ہوئے اس نے رسوئی میں بیٹھی ہوئی شانتا کو آواز دی۔
’’اے شانتا ذرا جلدی سے اِدھر تو آ ۔ بتا میں کیسا لگتا ہوں۔‘‘
توے پر پر اٹھا چھوڑ کر شانتا اس طرح تیزی سے اٹھ کر صحن میں آئی جیسے میکے سے کسی کے آنے کی خبر ملی ہو۔ آتے ہی دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو اس کے چہرے پر پھیر کر دسوں انگلیوں کو ایک ساتھ چٹخایا اور جلدی سے اپنے چہرے کو ہاتھوں سے چھپا لیا۔ ’’ہائے رام کہیں میری نظر نہ لگ جائے۔ زبان سے تو کہا بھی نہیں جاتا کہ تم کیسے لگتے ہو۔‘‘
’’ہٹ پگلی تیری نظر بھلا مجھے کیوں کھانے لگی۔‘‘ اس نے شانتا کے دونوں ہاتھوں کو اس کے چہرے سے ہٹاتے ہوئے کہا۔ شانتا نے ایک بار پھر سرتا پا اسے بنظر غور دیکھا اور شرما سی گئی۔ جیسے آج پہلی بار اس کا دولہا اس کے سامنے آیا ہو۔ وہ کھڑا مسکرا رہا تھا اور خود باربار اپنے جسم پر نظر دوڑا رہا تھا جیسے اس کے چہرے پر کوئی اجنبی جسم لگا دیا گیا ہو۔ شانتا نے بڑھ کر طاق میں رکھی ہوئی کاجل کی ڈبیا سے اپنی انگلی پر کاجل لے کر اس کے ماتھے پر لگا دیا تاکہ وہ نظر بد سے محفوظ رہے۔ رسوئی سے جب پراٹھے کے جلنے کی بُو آئی تو اسے خیال آیا کہ پر اٹھا توے پر ہی دوڑ کر رسوئی میں واپس گئی۔ راجیش نے اپنے آپ کو سنوارتے ہوئے کہا۔
’’اچھا شانتا میں چلتاہوں۔ شام کو واپسی میں تمہارے لیے مٹھائی لاؤں گا۔‘‘ شانتا نے توے کو نیچے اتار اور ایک پیالہ میں دہی لے کر باہر آئی۔
’’لو یہ دہی کھا لو کسی کی بری نظر نہیں لگے گی۔‘‘
اس نے دہی کھایا، ایک بار پھر آئنہ اٹھاکر اوپر سے نیچے تک دیکھا اور کام پر جانے کے لیے درواز ے سے باہر آیا ۔ شانتا دروازے پر کھڑی ہوئی اس وقت تک دیکھتی رہی جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہ ہوگیا۔
راجیش ایک سرکاری آفس میں معمولی کلرک تھا۔ ایک مدّت سے ان کی خواہش تھی کہ وہ ایک گرم سوٹ سلوائے۔ تین سال پہلے جب اس کی شادی ہوئی تھی تو اسے یقین تھا کہ شادی میں ضرور اُسے سُوٹ ملےگا کیوں کہ اس کے اکثر ساتھیوں کی شاید میں سوٹ ملے تھے لیکن وہاں بھی اسے مایوسی ہوئی ایک دن اس نے شانتا سے بھی کہہ دیا تھا۔
’’شانتا کیا ہمارے بھاگیہ میں دوسروں کے اُترے ہوئے پُرانے کوٹ ہی لکھے ہوئے ہیں۔ مجھے یاد نہیں کہ کبھی نیا کپڑا لے کر کوٹ سلوایا ہو، ہمیشہ پرانا کوٹ خرید کر ٹھیک کرایا۔ کیا نئے کپڑے بڑے لوگوں کے لی ہی بنتے ہیں۔‘‘
’’ایسے نراش کیوں ہوتے ہوجی! آج پرانا دیا ہے تو ایک دن بھگوان نیا بھی دےگا۔‘‘ شانتا نے دلاسا دیا تھا۔
’’جانے وہ کون سا دن ہوگا شاید اس جنم میں نہیں برسوں سے میر ادل چاہتا ہے کہ ایک نیا سوٹ بنواؤں لیکن یہاں کھانا ہی بڑی مشکل سے ملتا ہے سوٹ بھلا کیسے بنےگا۔‘‘
اس دن کے بعد سے شانتا نے قطرہ قطرہ جمع کرکے دریا بنانے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ اسے کئی عورتوں کی یہ باتیں بھی یاد تھیں کہ اب تو غریب سے غریب کے یہاں شادی میں سوٹ دیا جاتا ہے ۔ یہ بات اسے بہت چبھتی تھی اور جب وہ قطرات دوسال کے عرصہ میں دریا کی شکل میں سامنے آئے تو وہ خاموشی سے ایک دن راجیش کو لے کر بازار گئی اور اس کے لیے سوٹ کا کپڑا خرید کر درزی کے سپرد کیا ۔ راجیش کو خود حیرت تھی کہ اتنے سارے روپے اس نے کیسے جمع کر لیے ۔ جس روز سوٹ،سلِ کر آنا تھا دونوں اس دن کا بڑی بے چینی سے انتظار کر رہے تھے۔
سوٹ پہن کر سڑک پر چلنا اسے عجیب سالگ رہا تھا جیسے وہ سوٹ کی توہین کر رہا ہو، بار بار سوٹ کو دیکھنے کے سبب ایک آدھ با ر اسے ٹھوکر بھی لگی اور وہ گرتے گرتے بچا، بس اسٹاپ پر بھیڑ دیکھ کر اس کے ذہن میں یہ خیال اُبھرا کہ بھیڑ کے ساتھ بھری ہوئی بس میں چڑھنے سے سوٹ مَسل جائےگا کیوں نہ اسکوٹر سے جاؤں۔ لیکن اسکوٹر میں تو اچھے خاصے روپے لگ جائیں گے۔ اتفاق سے ایک بس کچھ خالی سی آئی جس میں اُسے سیٹ بھی بآسانی مل گئی لیکن بس میں چڑھتے وقت جب ایک دیہاتی آدمی کا جُوتا اس کی پینٹ سے ٹکرا یا تو راجیش نے اسے جھڑ ک دیا۔
’’دیکھ کے نہیں چڑھتا ہے۔ دوسرے کے کپڑے خراب ہوتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے رومال سے پینٹ صاف کی جب کہ پینٹ پر ذرا بھی مٹی نہیں لگی تھی۔ راستے بھر وہ منظر آنکھوں میں سجاتا رہا کہ دفتر پہنچتے ہی سب اس کی طرف دیکھنے لگیں گے، مبارکباد دیں گے۔ صاحب بھی اُس کے سوٹ کی تعریف کریں گے۔ ان پر تو کئی گرم اور ٹھنڈے سوٹ ہیں۔ بس سے اُتر کر وہ اس طرح آفس کے گیٹ کی جانب بڑھا جیسے اپنی کار سے اترکر صاحب جا رہے ہوں۔ گیٹ پر دھر مونے اس کا پُر جوش استقبال کیا۔
’’نمستے صاحب․․․آج تو نجر ( نظر) ناہیں ٹکت۔ بہت جور دار ( زوردار) ہے۔‘‘ وہ بزرگانے انداز میں مسکرایا اور اس کے سلام کا جواب دیکر آگے بڑھا۔ جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوا۔ ایک دم اس کے سب ساتھی کرسیوں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ جھینپ سا گیا۔ کرسیوں سے اُٹھے ہوئے لوگ ایک ایک کرکے اس کی قریب آگئے جیسے اُس کے منتظر تھے۔
’’ارے واہ․․․کیا سوٹ مارا ہے کہاں سے مار دیا۔ جواب نہیں۔‘‘
’’مبارک ہو راجیش بابو۔ مٹھائی بھی لائے ہو۔‘‘
’’ویسے یار بالکل صاحب لگ رہے ہو۔ کہاں سے خریدا۔‘‘
’’کوئی صاحب انعام میں دے گئے ہوں گے۔‘‘
’’لگتا ہے سنڈے مارکیٹ کی دین ہے کبھی کبھی تو بڑا اچھا مال مل جاتا ہے وہاں۔‘‘
’’اور کیا یہ بڑے لوگ تو نئے نئے کپڑے یونہی دو چار دن پہن کر اتار پھینکتے ہیں۔‘‘
’’ارے یار ذرادرزی سے فٹ کرا لو تو باالکل نیا سالتا ہے۔‘‘
’’ویسے یار تم قسمت والے ہو پورا سوٹ مل گیا بالکل نیا سا لگتا ہے ۔ گیا تو میں بھی تھا پچھلے اتوار کو کتنے کا ملا۔‘‘
وہ ان سب کے کلمات طنزیہ کا جوا ب دیے بغیر صاحب کے کمرے کی طرف بڑھا۔ اندر سے جے رام کی آواز آ رہی تھی۔
’’صاحب کچھ دن پہلے جو آپ کی درواز سے روپے غائب ہوئے تھے لگتا ہے راجیش کے ہاتھ لگ گئے نیا سوٹ سلوایا ہے۔ اپنی تو عمر گذر گئی تنخواہ بھی اس سے سو روپے زیادہ ہے لیکن کبھی نیا کوٹ بھی نہ سلوا سکے۔‘‘
یہ جملے اس کے کانوں میں گرم شیشے کی طرح پہنچے۔ وہ چیخ پڑا۔
’’نہیں․․․نہیں․․․یہ سب جھوٹ ہے۔‘‘ اس نے اپنے جسم سے بکرے کی کھال کی طرح کوٹ اُتار ا اور تیزی سے باہر کی طرف بھاگا دَھر مُو کے قریب پہنچتے پہنچتے وہ اُلجھ کر گر گیا۔ اس کے ٹھیک اوپر دیوار پر ٹنگا ہوا دَھر مُو کا خاکی سوٹ ہوا کے جھونکوں سے اِدھر اُدھر جھول رہا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.