Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گردش ایام

تاج الدین محمد

گردش ایام

تاج الدین محمد

MORE BYتاج الدین محمد

    استاد نے آخر کار عاجز آکر شاگرد کو ایک زور دار طمانچہ رسید کرتے ہوئے کہا ابے لونڈے محنت سے پڑھا کر وقت پر سبق یاد کر لیا کر ورنہ باپ کی طرح ہی جاہل رہ جائے گا۔

    یوں تو وہ باپ کے جوتے اور استاد کے تھپڑ کا عادی ہو چکا تھا، لیکن آج ایک جملے نے یک لخت اس کے دماغ کی ساری چولیں ہلا دی تھیں۔ غربت و افلاس کے ارد گرد گردش کرتی ہوئی زندگی ایک کربناک ماضی اور حال کی تنگ دستی و بے سروسامانی نے دل و دماغ کو اچانک ہی جھنجھوڑ دیا تھا۔ وہ کئی گھنٹوں پرچون کی چھوٹی سی دکان پر ساکت بیٹھا رہا۔

    باپ ارشد الزماں تک استاد کی شکایت پہنچائی گئی۔ ان کے چہرے پر برہمی کے آثار نمایاں ہوئے لیکن انھوں نے خندہ روئی سے بیٹے کو سمجھاتے ہوئے کہا جو استاد کی سختی برداشت کرتا ہے زمانے کی سختی سے بچ جاتا ہے شاید کے تمہیں وقت رہتے یہ بات سمجھ آ جائے۔ تمہیں خوب اچھی طرح یاد ہوگا کہ تم نے دسویں کا امتحان بڑی مشکلوں میں تھرڈ ڈویزن سے پاس کیا تھا۔ تم اپنے بھلے برے کے خیال سے بالکل عاری معلوم ہوتے ہو۔ باپ کی ناگواری کا برملا اظہار شاید اس وقت موافق مصلحت نہ تھا لیکن اولاد کی محبت گلے کی ہڈی بن چکی تھی۔ راشد کی آنکھیں بھیگنے لگیں پھر اس نے تلخی سے منھ بنا کر کہا عزت و ذلت خدا کی دین ہے کوئی کیوں کر اس کے حکم سے سرتابی کر سکتا ہے۔ اس بے تکے جواب کا سوائے خاموشی کے بھلا اور کیا علاج ہو سکتا تھا۔

    استاد کے ساتھ والد محترم کے سخت گیر رویہ نے آج اس کی طبیعت پر منوں بوجھ انڈیل دیا تھا۔ وہ دکان کی ایک مخدوش سی کرسی پر بیٹھا کئی سوچوں میں گم تھا۔ اس نے سوچا کیا میں وقت کے پیروں تلے روند ڈالا گیا ہوں؟ شاید نہیں! اس نے نہیں کو ذرا کھینچ کر ادا کیا۔ وائے افسوس! میں اپنے باپ کی سخت کوش زندگی سے کوئی سبق حاصل نہ کر سکا؟

    وہ دکان سے اٹھ کر تھوڑی دیر کو اپنے دوست نعیم کے گھر گیا پھر ساری تفصیلات چشم زدن میں طے کر لی گئیں۔ راشد تھوڑی دیر بعد منھ لٹکائے باپ کے سامنے حاضر ہوا لیکن آج باپ کا لب و لہجہ اور کرخت انداز بیان اس کے دل میں بار بار کسک پیدا کر رہا تھا۔ اس نے باپ کی جوتی اٹھا کر سر پر رکھتے ہوئے قسم کھائی کہ یا تو وہ پڑھ کر دکھائے گا یا اس شہر میں کبھی واپس نہیں آئے گا۔ وہ آج ہی گھر چھوڑ کر جا رہا ہے۔

    اس کے والد نے نہایت دلنشیں لہجے میں بات شروع کی اور اسے سمجھانے کی ایک مزید کوشش کرتے ہوئے آوارہ لڑکوں کی صحبت کے برے نتائج سے آگاہ کیا اور کہا میری عزت و آبرو کا تمہیں کچھ پاس و لحاظ ہے یا نہیں؟ زندگی صرف فیصلہ لینے کا نام نہیں بلکہ اس پر عمل کرنے کا نام ہے۔ وہ چپ چاپ باپ کی بات سر جھکائے سنتا رہا پھر اس نے آنسوؤں کو پوچھتے ہوئے ہمت جٹا کر کہا۔ میں آج شام کی ٹرین سے دہلی جا رہا ہوں۔ والد کا چہرہ یہ سنتے ہی غصے سے سرخ ہو گیا۔ باپ نے دل کے تلاطم پر قابو پاتے ہوئے برہمی و افسردگی کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ بڑے تحمل سے کہا تمہارا بخار بہت جلد اتر جائے گا یہ چند دنوں کا چونچلا ہے اور کچھ نہیں مجھے خوب اچھی طرح پتا ہے تم وہاں گھومنے جا رہے ہو۔ جہاں دل کرے جاو، لیکن میری نظروں سے دور ہو جاو۔

    راشد شام کی ٹرین پکڑ کر دہلی کے لیے روانہ ہو گیا۔ اسے تعلیم کے سلسلے میں دہلی میں مستقل اقامت اختیار کرنی پڑی۔ زندگی کا سب سے زیادہ دشوار گزار سفر شروع ہو چکا تھا، جہاں ایک وقت کی روٹی بھی بغیر محنت کے میسر نہ تھی۔ اس نے چند مہینوں بعد کالج میں داخلہ لے لیا۔ سخت جانفشانی اور محنت سے اس نے بارہویں جماعت میں نمایاں نمبرات سے کامیابی حاصل کی۔ کبھی چھوٹی موٹی رقم ماں بھیج دیتی تو کبھی کسی دوست یار کا دست نگر رہنا پڑتا۔ دوست کے یہاں کب تک قیام کرتا چنانچہ اس نے ایک کمرے کا چھوٹا سا مکان کرائے پر لے لیا۔ مکان کیا تھا ایک ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی تھی۔ قدم قدم پر آزمائشیں پریشانیاں اور دشواریاں اس کا مقدر بن چکی تھیں۔ حالات بڑے نامساعد تھے، لیکن اس نے ہار نہیں مانی اور وقت سے مقابلہ کرنے کا تہیہ کر لیا۔

    حالات سے تنگ اور مجبور ہو کر ایک دن آنسوؤں کو ضبط کر کے آئینے کے روبرو ہو کر اس نے اپنے آپ سے کہا اپنے دل کو آرزوؤں اور امیدوں سے آباد رکھو، مایوسی کو اپنے پاس کبھی نہ بھٹکنے دو، میری تکلیفیں چند دنوں کی مہمان ہیں ہر صبح، صبح کاذب نہیں ہوتی اور زندگی میں کوئی بھی چیز آسانی سے نہیں ملتی۔

    وسائل نہ کے برابر تھے لیکن اس کی ہمت اس کے ساتھ تھی مشکل حالات نے اس میں حوصلہ اور وقت سے لڑنے کی طاقت پیدا کر دی تھی۔ مفلسی و تنگدستی کا یہ حال تھا کہ فارم بھرنے تک کے لیے پیسے میسر نہیں تھے۔ اس نے کئی بار سوچا کہیں کام کر لے لیکن پڑھائی کے متاثر ہونے کا خطرہ لاحق تھا۔ وہ کالج میں خوب دل لگا کر پڑھائی کرنے لگا۔ اس وقت اس کے پاس کاپی کتاب خریدنے کے لیے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے لیکن پڑھنے کا شوق جاگ چکا تھا۔ اس نے ٹیوشن سے اپنا خرچ پورا کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا۔

    راشد کو دہلی میں تعلیم کے دوران غریب الوطنی کا احساس بارہا ہوا لیکن وہ حالات سے ناامید کبھی نہیں ہوا۔ دوران تعلیم علیٰ الصبح اٹھنا اس کا روز کا معمول تھا۔ ناشتہ و کھانے کا کوئی معقول انتظام نہ تھا جہاں چاہا منھ اٹھا کر چل دیا اور پیٹ میں کچھ موٹا جھوٹا ڈال کر کالج کو نکل گیا۔ دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرنے اور چائے خانوں پر بیٹھ کر وقت ضائع کرنے کا وقت ختم ہو چکا تھا۔ اپنے حصے میں آئے دکھوں کا رونا رونے کا وقت بھی نہ تھا۔ اپنے حالات کو بدلنے کے لیے اس نے کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ وہ بس اتنا ہی جانتا تھا کہ اس کے حالات اسے خود ہی بدلنے ہیں۔ وہ زندگی کی تنور میں تپ کر ہر مرحلے سے گزرا۔ پیٹ میں مروڑ پیدا کرنے والی بھوک کو محسوس کیا لیکن کبھی ہار نہیں مانی۔

    راشد نے گریجویشن امتیازی نمبر سے پاس کیا۔ اس کے بعد اس نے یو پی ایس سی کی تیاری شروع کر دی۔ مایوسی و نا امیدی نے اسے شکست دینے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن اس نے خود سے سوال کیا۔ کیا میری راہیں اتنی مسدود ہیں کہ میں اپنی کوشش سے بھی اسے کھول نہیں سکتا؟ کیا خدا کی زمین میرے لیے اتنی تنگ کر دی گئی ہے کہ میں چاہ کر بھی پیر نہیں پھیلا سکتا؟ نہیں بالکل نہیں۔ اس کے چہرے پر فکر کی لکیریں صاف ظاہر ہوتیں لیکن وہ اسے جھٹک دیتا۔ اس نے سخت محنت کی اور دوران تعلیم اس بات کو شدت سے محسوس کیا کہ اس کی منزلوں کی مسافت اب مختصر ہے اور امید کی شمع اس کی راہ میں روشن ہے بس ایک دھندلا سا نشان اس راستے میں حائل ہے جسے وہ لازماً ایک دن دور کر دئے گا۔ آج کی جدوجہد پر کل کو قیاس کرنا ضروری ہے۔

    راشد کے گاؤں میں اس کے پاس نہ تو کوئی زمین تھی نہ ہی کسی قسم کی جائیداد اور نہ ہی گھر میں کوئی کمانے والا تھا۔ بس ایک معمولی سی کرائے کی دکان تھی جس سے بڑی مشکلوں سے گھر کا خرچ چلتا تھا۔ اب اس کے والد صاحب کی ناراضگی بھی کچھ کم ہو گئی تھی۔ ان کا خط کبھی کبھار آ جاتا تھا۔ لیکن چند ماہ بعد ایک خط سے اسے اطلاع دی گئی کہ کسی بیماری میں اچانک ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ وہ چاہ کر بھی گھر نہ جا سکا ان دنوں وہ امتحان کی تیاری میں مصروف تھا۔ اس کی ماں پر تمام ذمے داریاں اچانک ہی آن پڑیں۔ ماں کے پاس رونے کے لیے آنسو نہیں بچے تھے لیکن اس کی ماں نے ہمت نہیں ہاری۔ راشد کے اوپر چھائی تھوڑی بہت غنودگی اب پوری طرح ٹوٹ چکی تھی اور سارا خمار زائل ہو چکا تھا۔ اس نے اپنے بکھرے وجود کو ایک بار پھر یکجا کیا۔ تہی دستی و پسماندگی ہی اس کی تقدیر تھی۔ اس کے خاندان میں تعلیم کا رجحان نہ کے برابر تھا۔ اس سے پہلے اس کے گھر میں کسی نے اسکول کی شکل نہ دیکھی تھی۔ تعلیم کی جانب اس کی رغبت کسی کے لیے کوئی اہمیت کی حامل نہیں تھی، ہوتی بھی کیوں، غریب سے پڑھنے کا حق معاشرے نے چھین لیا تھا۔

    یو پی ایس سی کی تعلیم کے دوران اس کی ماں کی سعی و مشقت اس کے لیے مشعل راہ بنی رہی۔ لیکن ان دنوں اس کے اور ماں کے مابین پیغامات کا تبادلہ ہوئے ایک عرصہ گزر چکا تھا۔ اس نے ماں کا خط پڑھنا چھوڑ دیا تھا نہ خط لکھتا اور نہ جواب دیتا۔ ایک خوف اعصاب پر مسلط تھا کسی ناگہانی مصیبت کے خوف سے دل لرزاں و پریشان رہتا تھا۔ ایک جنون اس کے سر پر سوار تھا ان دنوں وہ تھا اس کی تنہائی تھی اور چند کتابیں۔ نہ آرام کی فرصت تھی نہ کھانے کی چاہت نہ ہی سونے جاگنے کا کوئی وقت مقرر تھا۔ نیند آنے پر کتابیں ہی تکیہ تھی اور کاپیاں و اخبارات ہی اس کے بستر تھے۔ کبھی سورج کو دیکھے کئی دن گزر جاتے تھے۔ وہ کھانے پینے کی چیزیں گھر میں لاکر رکھ لیتا تھا۔ یک گونہ ناکامی کے خوف سے اس نے اپنی تعلیمی سرگرمیاں سب سے چھپائے رکھی۔ اس کی ماں کو اس بات کا بالکل ہی اندازہ نہیں تھا کہ اس کا بیٹا کیا پڑھ رہا ہے۔ عمر کے آخری مراحل میں اس کی ماں ذہنی طور سے کافی مفلوج ہو گئی تھی۔

    راشد حالات سے نبرد آزما تھا اسی لیے اس میں حوصلہ پیدا ہوتا گیا اس کی ماں اور چھوٹے بھائی بہن انتہائی غریب و نادار تھے۔ والد کے انتقال کے بعد ان سب کو کبھی ایک وقت کی روٹی نصیب ہوتی تو کبھی وہ بھی میسر نہیں تھا۔ اس کی لڑائی غربت و مفلسی سے تھی وقت کے ظلم و ستم سے تھا اور اسے یقین تھا کہ تعلیم ہی انہیں شکست دے سکتی ہے۔ وہ ان سب کے لیے ایک بہتر زندگی کا خواہاں تھا۔ گھر کا پورا نظام بگڑ چکا تھا۔ کسی رشتے دار نے کوئی مدد نہ کی، نہ ہی آئندہ کرنے کی امید تھی وہ مدد کرتے بھی کیوں، ان کی مدد بل میں گھسے ایک سانپ کو دودھ پلانے کے مترادف تھی۔ حالات کا رونا رونے اور اوپر والے کو مورد الزام ٹھہرانے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں تھا۔ وقت اپنا کام کر رہا تھا اور وہ اپنے کام میں لگا تھا۔ وقت کے ساتھ اس معرکہ آرائی میں اس کا جسم لاغر اور اس کی روح ناتواں ہو چکی تھی۔

    آج یو پی ایس سی کا رزلت آنے والا تھا۔ اس کے بدن پر لرزہ طاری تھا پیر لڑکھڑا رہے تھے۔ جیسے جیسے شام بھیگتی گئی اس کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑتا گیا اس کی کیفیت قابل دید تھی ایک کھنڈر نما حویلی یا تو آج زمین دوز ہونے والی تھی یا اس کے ملبے پر ایک محل کی بنیاد پڑنے والی تھی۔ اس کے ستون لرزاں بد اندام تھے۔ دیواروں میں جگہ جگہ شگاف صاف نظر آ رہے تھے کہ اچانک رزلٹ پر اس کی نظر پڑی وہ کامیاب ہو گیا تھا۔ نتیجہ دیکھنے کے بعد کوئی لفظ اس کی زبان سے نہ نکلا وہ گونگا ہو گیا تھا۔ اس کی ساری دلچسپی یک بیک ایک حد تک ماند پڑ گئی تھی۔ اس کا دل یک لخت ہی محبت اور رقت سے بھر گیا وہ بالکل ساکت و جامد سا ہو گیا۔ وہ شکر گزاری کے جذبے سے معمور دل لیکر یہ خوش خبری کسے سناتا؟ جن سے عہد و پیمان تھا وہ تو عدم کے سفر پر جا چکے تھے۔

    راشد کو خود پر پورا یقین اور بھرپور اعتماد تھا۔ اس کی سخت محنت اس میں شامل حال تھی اور اسے خدا پر یقین کامل تھا کیوں کہ اس نے قلم کی سیاہی میں اپنا خون انڈیل دیا تھا۔ دوستوں نے مبارکباد پیش کرتے ہوئے اس سے کہا تمہیں تمہاری بے انتہا محنت، بے پناہ کوشش اور صبر کا پھل آخرکار مل ہی گیا۔ اسے یاد آیا اس نے گھر سے نکلتے ہوئے اپنے والد صاحب سے کہا تھا تقدیر لکھنے والے نے ایک جامہ میرے لیے ضرور سیا ہے جسے پہن کر ایک دن مجھے فخر محسوس ہوگا میں مقدور بھر کوشش کرونگا کوتاہی ہرگز نہیں ہوگی آپ اطمینان رکھیں یہ کہتے کہتے اس کا لہجہ اور بھی خشک ہو گیا اس کا گلا رندھ چکا تھا اور وہ جذبات کی رو میں بہہ گیا تھا۔

    راشد کی پہلی پوسٹنگ اس کے ہی شہر میں ضلع کلکٹر کی حیثیت سے ہوئی۔ یہاں پہنچنے تک اس نے کیا گنوایا، اس کے برعکس اس جدوجہد سے اس نے کیا حاصل کیا، یہ اس کے لیے معنی رکھتا ہے۔ اسے کافی رنج اور شدید تکلیف ہے کہ اس نے اپنے باپ سے کیا ہوا وعدہ تو پورا کر دیا لیکن ان کی آنکھیں آج اس خوشی کو دیکھنے کے لیے یہاں حاضر نہیں ہیں۔ اس کے لیے یہ وقت موجب ملال اور باعث پریشانی ہے اور اسے بے حد افسوس ہے کہ وہ سخت مشکل وقت پر ان کے خاطر خواہ کام نہ آ سکا شاید وہ ان کے بچوں کو ایک بہتر زندگی دے کر اس کی تلافی کر سکے۔

    پریس رپورٹرس بھی گھر تک پہنچ چکے تھے۔ اس کی ماں سب کو دیکھ کر حیرت میں تھی کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے اور اتنے لوگ کیوں کر اس کے مکان پر حاضر ہوئے ہیں۔ قدرے اطمینان کے بعد ایک رپورٹر نے اس سے سوال کیا اتنی غربت میں آپ نے اتنا اعلیٰ تعلیم کیسے اور کن حالات میں حاصل کی؟ اس نے پریس رپورٹر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا میرے اشتیاق اور میرے صبر کا امتحان نہ لو اس راز کو راز ہی رہنے دو، اس راز کے اندر ایک پر اسرار دریا پوشیدہ ہے مجھے ڈر ہے کہ کہیں ہم اس میں بہتے نہ چلے جائیں۔

    کافی اصرار کرنے پر اس نے بہت متوازن لہجے میں ہر لفظ تول تول کر ادا کیا۔ صحافی نے اس سے ایک آخری سوال پوچھا۔ آپ اپنی اس تعلیمی جدوجہد کے تعلق سے معاشرے کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ اس نے ایک لمحے کا تامل کیا اور کہا ایک آتش انتقام مخفی ہے میرے دل میں اس معاشرے کی اونچ نیچ کے لیے اور ان چند لوگوں کے لیے جو ڈوبتے کو سہارا دینے کی قدرت سے معذور اور عاری ہیں، مجھے اپنی پیدائش اور حالات پر دسترس نہیں لیکن میری زندگی پر میرا پورا اختیار اور قابو ضرور ہے۔

    اس کا ضبط اب جواب دے رہا تھا پھر اچانک وہ پھوٹ پڑا اس کی سسکیاں اسے صاف سنائی دے رہی تھیں۔ ماں اس کے سامنے ہی بیٹھی اسے حیرت سے تک رہی تھی۔ اس نے بڑی مشکل سے آخری جملہ ادا کیا میں یقینی طور سے کچھ نہیں کہہ سکتا کوشش کرنا میرا کام ہے اور کوشش کرنے والے کبھی ناکامیاب نہیں ہوتے اور خدا محنت کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔

    ماں کی آنکھوں میں اس کے لیے جو محبت تھی وہ اچانک مدھم پڑ رہی تھی۔ ماں کئی پولیس والوں اور مختلف قسم کے لوگوں کا ہجوم دیکھ کر گہری تشویش میں مبتلا ہو گئی کہ شاید اس نے کوئی جرم کیا ہے۔ اس کی ماں کافی ضعیف ہو چکی تھی۔ وہ پہلے سے ہی کم سنتی تھی اب ان کی سماعت تقریباً جا چکی تھی۔ وہ بالکل ہی پڑھی لکھی نہ تھیں۔ ایک معمر صحافی نے باآواز بلند اس کی ماں کے کان میں کئی بار کہا مبارک ہو آپ کا بیٹا کلکٹر بن چکا ہے لیکن اس کی ماں کو بس اتنا ہی سمجھ میں آیا کہ راشد پڑھ لکھ کر کسی سرکاری بس کا کنڈکٹر بن گیا ہے تبھی اتنی سواریاں اور کئی گاڑیاں اس کے ساتھ آئی ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے